یہ آخری مہاجر تھے جو رسول(ص) سے جحفہ میں ملحق ہوئے -لہذا وہ کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرنے لگے جس سے وہ قریش تک یہ پیغام پہنچا سکیں کہ وہ مکہ میں لشکر اسلام کے داخل ہونے سے پہلے فرمانبردار ہو کر آجائیں۔
اچانک عباس نے ابو سفیان کی آواز سنی جو مکہ کی بلندیوں سے اس عظیم لشکر کو دیکھ کر تعجب سے بدیل بن ورقاء سے بات کر رہا تھا اور جب عباس نے ابو سفیان سے یہ بتایا کہ رسول(ص) اپنے لشکر سے مکہ فتح کرنے کے لئے آئے ہیں تو وہ خوف سے کانپنے لگا ۔ اسے اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آیا کہ وہ عباس کے ساتھ رسول(ص) کی خدمت حاضر ہو کران سے امان حاصل کر لے ۔
یہ صاحب خلق عظیم اور عفو و بخشش کے بحر بیکراںسے نہیں ہو سکتا تھا کہ اپنے چچا کے ساتھ آنے والے ابو سفیان کے لئے باریابی کی اجازت دینے میں بخل کریں چنانچہ فرمایا: آپ جائیے ہم نے اسے امان دی، کل صبح اسے ہمارے پاس لائیے گا۔
ابو سفیان کا سپر انداختہ ہونا
جب ابو سفیان رسول(ص) کے سامنے آیا تو اس سے آپ(ص) نے یہ فرمایا:''ویحک یا ابا سفیان الم یان لک ان تعلم ان لاالٰه الا اللّه'' اے ابوسفیان وائے ہو تیرے اوپر کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا بیشک تو یہ جان لے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ؟ ابو سفیان نے کہا:میرے ماں باپ آپ(ص) پر قربان ہوں آپ کتنے بردبار، کریم اور صلۂ رحمی کرنے والے ہیں! خدا کی قسم میرا یہ گمان تھا کہ اگر خدا کے علاوہ کوئی اور معبود ہوتا تو وہ مجھے بے نیاز کر دیتا۔ پھر رسول(ص) نے فرمایا: اے ابو سفیان! کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم یہ اقرار کرو کہ میں اللہ کا رسول(ص) ہوں؟ ابو سفیان نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کتنے بردبار، کریم اور صلۂ رحمی کرنے والے ہیں! خدا کی قسم اس سلسلہ میں ابھی تک میرے دل میں کچھ شک ہے ۔( ۱ )
عباس نے اس موقعہ پر ابو سفیان پر اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں زور دیتے ہوئے کہا : وائے ہو تیرے
____________________
۱۔ سیرت نبویہ ج۳ ص ۴۰، مجمع البیان ج۱۰ ص ۵۵۴۔