شریک ہونے سے روکتے ہیں، انہیں ڈراتے ہیں، رسول(ص) نے دور اندیشی اورسختی کے ساتھ اس معاملہ کو بھی حل کیا۔ ان کے پاس ایسے شخص کو بھیجا جس نے انہیں اسی گھر میں جلا دیا تاکہ دوسروں کے لئے عبرت ہو جائے۔
خدا نے کچھ آیتیں نازل کی ہیں جو منافقین کی گھناونی سازشوںکو آشکار کرتی ہیں اور جنگ سے جی چرانے والوں کو جھنجھوڑتی ہیں اور کمزور لوگوں کو معذور قرار دیتی ہیں مسلمانوں کی فوج میں کم سے کم تیس ہزار سپاہی تھے-روانگی سے قبل رسول(ص) نے مدینہ میں حضرت علی بن ابی طالب کو اپنا خلیفہ مقرر کیا کیونکہ آپ(ص) جانتے تھے کہ علی تجربہ کار بہترین تدبیر کرنے والے اور پختہ یقین کے حامل ہیں۔ رسول(ص) کو یہ خوف تھا کہ منافقین مدینہ میں تخریب کاریاں کریں گے اس لئے فرمایا: ''یا علی ان المدینة لا تصلح الا بی او بک''۔( ۱ ) اے علی ! مدینہ کی اصلاح میرے یا تمہارے بغیر نہیں ہو سکتی۔
نبی (ص) کی نظر میں علی کی منزلت
جب منافقین او ردل کے کھوٹے لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ علی بن ابی طالب مدینہ میں ہی رہیں گے تو انہوں نے بہت سی افواہیں پھیلائیں کہنے لگے رسول (ص) انہیں اپنے لئے درد سر سمجھتے ہیں اس لئے یہاں چھوڑ گئے ہیں، اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ مدینہ خالی ہو جائے تاکہ پھر وہ حسب منشا جوچاہیںسو کریں ان کی یہ باتیں سن کر حضرت علی نے رسول(ص) سے ملحق ہونے کے لئے جلدی کی چنانچہ مدینہ کے قریب ہی آنحضرت (ص) کی خدمت میں پہنچ گئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول(ص) منافقین کا یہ گمان ہے کہ آپ(ص) مجھے اپنے لئے وبال جان سمجھتے ہیں اسی لئے مجھے آپ (ص) نے مدینہ میں چھوڑا ہے ۔
فرمایا:''کذبوا ولکننی خلفتک لما ترکت ورائ فاخلفنی فی اهلی و اهلک افلا ترضیٰ یا علی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسیٰ الّا انّه لا نبی بعدی'' ( ۲ )
____________________
۱۔ ارشاد مفید ج۱ ص ۱۱۵، انساب الاشراف ج۱ ص ۹۴ و ۹۵، کنز العمال ج۱۱ باب فضائل علی۔
۲۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۴۹، صحیح بخاری ج۳ ص ۱۳۵، حدیث۳۵۰۳، صحیح مسلم ج۵ ص ۲۳، حدیث ۲۴۰۴، سنن ابن ماجہ ج۱ ص ۴۲، حدیث ۱۱۵، مسند احمد ج۱ ص ۲۸۴، حدیث ۱۵۰۸۔