6%

رسول(ص) جزیرہ عرب کے شمالی علاقہ کے سرداروں کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے یہ معاہدہ کیا کہ طرفین میں سے کوئی بھی کسی پر حملہ و زیادتی نہیں کرے گا ۔ اس کے بعد رسول(ص) نے خالد بن ولید کو دومة الجندل کی طرف بھیجا کیونکہ وہاں کے سرداروں سے یہ خوف تھا کہ وہ دوسرے حملہ میں کہیں روم کا ساتھ نہ دیں مختصر یہ کہ مسلمانوں نے وہاں کے حاکم کو گرفتار کر لیا اور بہت سا مال غنیمت ساتھ لائے۔( ۱ )

رسول(ص) کے قتل کی کوشش

مقام تبوک میں دس بارہ روز گزارنے کے بعد رسول(ص) اور مسلمان مدینہ کی طرف واپس لوٹے جن لوگوں کا خدا اور اس کے رسول(ص) پر ایمان نہیں تھا ان کے دلوں میں شیطان نے وسوسہ کیا اور انہوں نے رسول(ص) کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا اور یہ منصوبہ بنایا کہ جب آپ(ص) کا ناقہ ان کے پاس سے گذرے گا تو اسے بھڑکا دیں گے تاکہ آپ(ص) کو گھاٹی میں گرا دے۔

جب یہ لشکر-مدینہ و شام کے درمیان-مقام عقبہ پر پہنچا تو رسول(ص) نے یہ فرمایا:''من شاء منکم ان یاخذ بطن الوادی فانه اوسع لکم'' جو تم میں سے وادی کے بیچ سے جانا چاہتا ہے وہاں سے چلا جائے کہ وہ تمہارے لئے زیادہ کشادہ ہے ۔ چنانچہ لوگوں نے وادی کا راستہ اختیار کیا اور آپ(ص) عقبہ والے راستہ پر چلتے رہے، حذیفہ بن یمان آپ(ص) کے ناقہ کی مہارپکڑے ہوئے تھے اور عمار یاسر اسے پیچھے سے ہانک رہے تھے، رسول(ص) نے چاند کی روشنی میں کچھ سواروں کو دیکھا جو اپنا منہ چھپائے ہوئے تھے اور پیچھے سے آہستہ آہستہ ناقہ کی طرف بڑھ رہے تھے، یہ دیکھ کر رسول(ص) کو غیظ آگیا آپ(ص) نے انہیں پھٹکارا اور حذیفہ سے فرمایا: ان کی سواریوں کے منہ پر مارو ! اس سے ان پر رعب طاری ہو گیا اور وہ یہ سمجھ گئے کہ رسول(ص) کو ہمارے دل کی حالت کا علم ہو گیا اور ہماری سازش بے نقاب ہو گئی لہذا وہ دیکھتے ہی دیکھتے عقبہ سے بھاگ گئے تاکہ لوگوں میں گم ہو جائیں اور ان کی شناخت نہ ہو سکے۔

____________________

۱۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۶۶ بحار الانوارج۲۱ص۲۴۶۔