استقبال کرتے تھے ان کے ساتھ نیکی کرتے تھے اور ان کے پاس ایسے شخص کو بھیجتے تھے جو انہیں قرآن اور شریعت اسلام کے فرائض کی تعلیم دیتا تھا۔
قبیلۂ ثقیف کا اسلام لانا
خدائی فتح و نصرت نے ہر شخص پر یہ فرض کر دیا کہ وہ اپنے امور کے بارے میں غور کرے اور اسلام کے سلسلہ میں اپنی عقل کو حاکم بنائے۔ یہ رسول(ص) کی حکمتِ بالغہ تھی کہ جب طائف والوں نے اپنے شہر میں داخل نہیں ہونے دیا تھا تو رسول(ص) نے فتح طائف کے لئے مہلت دیدی تھی اور آج وہ خود اپنے وفود بھیج رہے ہیں تاکہ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کریں جبکہ پہلے انہوں نے شدید دشمنی اور مخالفت کی تھی اور اپنے سردار، عروہ بن مسعود ثقفی کو اس جرم میں قتل کر دیا تھا کہ وہ خود اسلام قبول کرکے ان کے پاس گیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی۔
رسول(ص) نے ثقفی وفد کو خوش آمدید کہا، مسجد نبوی کے ایک گوشہ میں ان کے لئے ایک خیمہ نصب کر دیااور ان کی میزبانی کے فرائض خالد بن سعید کے سپرد کئے۔ اس کے بعد انہوں نے رسول(ص) سے چند شرطوں کے ساتھ اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں گفتگو کی وہ شرطیں یہ تھیں: کچھ زمانہ تک ان کے قبیلے کا بت نہ توڑا جائے، آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ خالص توحید کے علاوہ اور کوئی چیز قبول نہیں ہے ان لوگوں نے رفتہ رفتہ اپنی شرطیں ختم کر دیں بعد میں انہوں نے یہ کہا: ہم اسلام قبول کر لیں گے لیکن ہمیں اس بات سے معاف رکھا جائے کہ اپنے بت خود توڑیں اسی طرح یہ شرط بھی رکھی کہ ہمیں نماز سے معاف رکھا جائے رسول(ص) نے فرمایا:''لا خیر فی دین لا صلٰوة فیه'' اس دین کا کیا فائدہ جس میں نماز نہیں۔ مختصر یہ کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ یہ وفد ایک مدت تک رسول(ص) کے ساتھ رہا اور احکام دین کی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ اس کے بعد رسول(ص) نے طائف کے بت توڑنے کیلئے، ابو سفیان بن حرب اور مغیرہ بن شعبہ کو بھیجا۔( ۱ )
____________________
۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۵۳۷، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۱۶ ۔