۳۔حجة الوداع
رسول(ص) ساری انسانیت کے لئے بہترین نمونہ تھے، آپ(ص)خدا کی آیتوں کو اس طرح پہنچاتے تھے کہ ان کی تفسیر اور ان کے احکام واضح طور سے بیان کرتے تھے سارے مسلمان آپ(ص) کے قول و فعل کی اقتدا کرتے تھے- ہجرت کے دسویں سال ماہ ذی القعدہ میں رسول(ص) نے فریضہ حج کی ادائیگی کا قصد کیا-اس سے قبل آپ(ص) نے حج نہیں کیا تھا، اس حج کی ایک غرض یہ بھی تھی کہ مسلمان حج کے احکام سے آگاہ ہو جائیں چنانچہ ہزاروںمسلمان مدینہ آ گئے اور نبی (ص) کے ساتھ حج پر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ ان مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ ہو گئی، ان میں اہل مدینہ ، بادیہ نشین اور دیگر قبائل کے لوگ شامل تھے۔ یہ لوگ کل تک ایک دوسرے کی جان کے دشمن ، جاہل اور کافر تھے لیکن آج انہیں سچی محبت، اسلامی اخوت نے رسول(ص) کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے ایک جگہ جمع کردیا ہے ، اس سفر میں رسول(ص) نے اپنی تمام ازواج اور اپنی بیٹی فاطمہ زہرا(ص) کو ساتھ لیا، فاطمہ (ص) کے شوہر علی بن ابی طالب کو رسول(ص) نے ایک مہم سر کرنے کے لئے بھیجا تھا، وہ اس سفر میں آپ(ص) کے ساتھ نہیں تھے، ابو دجانہ انصاری کو مدینہ کا عامل مقرر کیا۔
مقام ذو الحلیفہ پر آپ(ص) نے احرام باندھا دو سفید کپڑے پہنے، احرام کے وقت تلبیہ کہی''لبیک الّلهم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد و النعمة لک و الملک ، لبیک لا شریک لک لبیک'' ۔
چوتھی ذی الحجہ کو رسول(ص) مکہ پہنچے، تلبیہ کہنا بند کر دیا خدا کی حمد و ثنا اور شکر بجالائے، حجر اسود کو چوما، سات مرتبہ طواف کیا۔ مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھی پھر صفا و مروہ کے درمیان سعی کی اور حاجیوں کو اس طرح مخاطب کیا:''من لم یسق منکم هدیا فلیحل و لیجعلها عمره و من ساق منکم هدیا فلیقم علیٰ احرامه'' تم میں سے جس شخص نے قربانی کا جانور نہیں بھیجا ہے اسے احرام کھول دینا چاہئے اور اسے عمرہ قرار دنیا چاہئے اور جس نے قربانی کا جانور بھیجا ہے اسے اپنے احرام پر باقی رہنا چاہئے۔
بعض مسلمانوں نے رسول(ص) کے اس فرمان پر عمل نہیں کیا انہوںنے یہ خیال کیا کہ ہمیں وہی کام انجام دینا چاہئے جو رسول(ص) نے انجام دیا ہے اور آپ(ص) نے احرام نہیں کھولا۔ ان کی اس حرکت پر رسول(ص) ناراض ہوئے۔