13%

۹ ذی الحجہ کو رسول(ص) مسلمانوں کے ساتھ عرفات کی طرف روانہ ہوئے اور غروب آفتاب تک وہیں رہے۔ تاریکی چھا جانے کے بعد اپنے ناقہ پر سوار ہوئے اور مزدلفہ پہنچے وہاں رات کا ایک حصہ گذرا اور طلوع فجر تک مشعر الحرام میں رہے ، دسویں ذی الحجہ کو منیٰ کا رخ کیا۔ وہاں کنکریاں ماریں قربانی کی اورسر منڈوایا اس کے بعد حج کے باقی اعمال بجالانے کے لئے مکہ چلے گئے۔

اس حج کو حجة الوداع اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں رسول(ص) نے مسلمانوں کو وداع کیا ، اسی میں آپ(ص) نے یہ خبر دی کہ آپ(ص) کی وفات کا زمانہ قریب ہے ، اس حج کو ''حجة البلاغ'' بھی کہتے ہیں کیونکہ اس حج میں آپ(ص) نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کے سلسلہ میں خدا کی طرف سے نازل ہونے والے حکم کی بھی تبلیغ کی تھی، اس کو حجة الاسلام بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ رسول(ص) کا پہلا حج تھا کہ جس میں آپ(ص) نے حج کے اعمال سے متعلق اسلام کے دائمی احکام بیان فرمائے تھے۔

حجة الوداع میں رسول(ص) کا خطبہ

روایت ہے کہ رسول(ص) نے ایک جامع خطبہ دیا خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

'' یا ایها النّاس اسمعوا منی ابین لکم فانی لا ادری لعلی لا القاکم بعد عامی هذا فی موقفی هذا ایها النّاس ان دمائکم و اموالکم علیکم حرام الیٰ ان تلقوا ربکم کحرمة یومکم هذا فی شهرکم هذا فی بلد کم هذا الاهل بلغت؟ الّلهم اشهد فمن کانت عنده امانة فلیؤدها الیٰ الذی ائتمنه و ان ربا الجاهلیة موضوع، و ان اول رباً ابدأ به ربا عم العباس بن عبد المطلب ان مآثر الجاهلیة موضوعة غیر السدانة و السقایة، و العمد قود و شبه العمد ما قتل بالعصا و الحجر ففیه مائة بعیر فمن زاد فهو من اهل الجهالیة