جب آپ کے پاس صحابہ میںاختلاف ہو گیا تو آپ(ص) نے نوشتہ لکھنے پر اصرار نہیں کیا، پھر یہ بھی خوف تھا کہ اس کے بعد ان کی سرکشی اور بڑھ جائیگی اور اس کا نتیجہ اس سے زیادہ خطرناک ہوگا۔ رسول(ص) نے ان کی نیتوں کو سمجھ لیا تھا چنانچہ جب صحابہ نے قلم و دوات کی بات دہرائی تو اپ(ص) نے فرمایا:''ابعد الذی قلتم'' کیا تمہاری گستاخی کے بعد بھی( ۱ ) پھر آپ نے انہیں تین وصیتیں فرمائیں لیکن تاریخ کی کتابوںمیں ان میں سے دو ہی نقل ہوئی ہیں وہ یہ ہیںکہ مشرکین کو جزیرہ نما عرب سے نکال دیا جائے اور وفود بھیجے جائیں جیسا کہ آپ بھیجتے تھے۔
علامہ سید محسن امین عاملی نے اس پر اس طرح حاشیہ لگایا ہے : جوشخص بھی غور کرے گا وہ اس بات کو بخوبی سمجھ لے گا کہ محدثین نے اسے جان بوجھ کر بیان نہیں کیا ہے ، فراموشی کی وجہ سے نہیں چھوڑا ہے ۔ سیاست نے انہیں مجبور کیا کہ وہ اسے بیان نہ کریں وہ وصیت یہ تھی کہ رسول(ص) نے ان سے دوات و کاغذ طلب کیا تھا تاکہ ان کے لئے ایک نوشتہ لکھ دیں۔( ۲ )
۲۔ فاطمہ زہرا باپ کی خدمت میں
رنجیدہ اور غم سے نڈھال فاطمہ زہرا آئیں، اپنے والد کو حسرت سے دیکھنے لگیںکہ وہ عنقریب اپنے رب سے جا ملیں گے، دل شکستہ حال میں باپ کے پاس بیٹھ گئیں، آنکھیں اشکبار ہیں اور زبان پر یہ شعر ہے :
و ابیض یستسقی الغمام بوجهه + ثمال الیتامیٰ عصمة الارامل
نورانی چہرہ جس کے وسیلہ سے بارش طلب کی جاتی ہے ۔ وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیوہ عورتوں کا نگہبان ہے ۔
اسی وقت رسول(ص) نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور آہستہ سے فرمایا: بیٹی یہ تمہارے چچا ابو طالب کا شعر ہے ، اس وقت یہ نہ پڑھو بلکہ یہ آیت پڑھو:
____________________
۱۔ بحار الانوار ص ۴۶۹ ج۲۲۔
۲۔اعیان الشیعة ج۱ ص ۲۹۴، صحیح بخاری باب مرض النبی (ص)۔