6%

اپنے نبیوں کی بشارت سے مومنوں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سے کافروں کو اپنے کفر کے بارے میں شک ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ نبی(ص) کی دعوتِ حق کے مقابلہ میں کمزور ہو جاتے ہیں اور اس سے ان کے اسلام قبول کرنے کا راستہ ہموار ہوتا ہے اور جب بشارتوں سے یقین و اعتماد پیدا ہو جاتا ہے تو پھر نبی(ص) سے معجزہ طلب کرنے کی گنجائش نہیں رہتی ہے نیزبشارت دلوں میں اتر جاتی ہے اور اس سے یقین حاصل ہوتا ہے ، بشارت لوگوں کو غیر متوقع حوادث سے بچاتی ہے اوراس سے نبی(ص) کی دعوت لوگوں کے لئے اجنبی نہیں رہتی ہے ۔( ۱ )

واضح رہے کہ تمام انبیاء نے ایک ہی راستہ کی نشاندہی کی ہے، پہلے نے بعد والے کی بشارت دی ہے اور بعدمیں آنے والا پہلے والے پر ایمان لایا ہے ، سورۂ آل عمران کی آیت (۸۱) میں بشارت کے طریقہ کی وضاحت ہوئی ہے یہ ان مثالوں میںسے ایک ہے جن کوہم آئندہ پیش کریں گے۔

گذشتہ انبیاء نے محمد (ص)بن عبد اللہ کی رسالت کی بشارت دی

۱۔ قرآن مجید نے اس بات کو صریح طور پر بیان کیا ہے کہ حضرت ابراہیم نے دعا کی صورت میں حضرت خاتم النبیین کی رسالت کی اس طرح بشارت دی ہے (مکہ مکرمہ میں خانہ خدا کی بنیادوں کو بلند کرنے، اپنے اور حضرت اسماعیل کے عمل کو قبول کرنے اور اپنی ذریت میں ایک گروہ کے مسلمان رہنے کی دعا کرنے کے بعد)( ربّنا وابعث فیهم رسولًا منهم یتلوا علیهم آیاتک و یعلّمهم الکتاب و الحکمة و یزکّیهم انک انت العزیز الحکیم ) ( ۲ )

پروردگار! ان میں انہیں میں سے رسول (ص) بھیجنا جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک کرے بیشک تو عزت و حکمت والا ہے ۔

۲۔قرآن مجید نے اس بات کی بھی تصریح کی ہے کہ توریت کے عہد قدیم اور انجیل کے عہد جدید میں محمد(ص) کی

____________________

۱۔محمد فی القرآن ص ۳۶ و ۳۷۔

۲۔بقرہ: ۱۲۹۔