6%

اورمذاق اڑاتے ہوئے ابو طالب کو مخاطب کرکے کہنے لگے: تمہیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔( ۱ )

۵۔ دعوت عام

پہلے مرحلہ میں رسول(ص) نے بہت احتیاط سے کام لیا اور براہ راست مشرکوں اور بت پرستوں کے مقابلہ میں آنے سے پرہیز کرتے رہے اسی طرح مسلمانوںنے بھی احتیاط سے کام لیا کیونکہ اس سے خود آپ کے لئے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے خطرہ بڑھ جاتا۔

جب آپ (ص) نے بنی ہاشم کو نئے دین کی طرف بلایا تو عرب قبائل میں اس کو بہت اہمیت دی گئی، اس سے ان پر یہ بات آشکار ہو گئی کہ محمد(ص) نے جس نبوت کا اعلان کیا ہے اور جس پر بعض لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ بر حق و سچی ہے ۔

بعثت کے پانچ یا تین سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد خدا کی طرف سے آپ کو یہ حکم ہواکہ رسالت الٰہیہ کا کھل کے اعلان کریںاور تمام لوگوں کو خدا سے ڈرائیںتاکہ دعوت اسلام عام ہو جائے اور چند افراد میں محدود نہ رہے ، ابھی تک خفیہ طریقہ سے دعوت دی جاتی تھی اب علیٰ الاعلان دعوت دی جائے۔ لہذا آپ(ص) نے تمام لوگوں کو اسلام قبول کرنے اور ایک اکیلے خدا پر ایمان لانے کی دعوت دی ۔ خدا نے درج ذیل آیت میں اپنے نبی(ص) سے یہ وعدہ کیا کہ دشمنوں اور مذاق اڑانے والوں کے مقابلہ میں ہم تمہیں استوار و ثابت قدم رکھیں گے چنانچہ ارشاد ہے :

( فاصدع بما تؤمروا عرض عن المشرکین، انا کفیناک المستهزئین ) ( ۲ )

جس چیز کا آپ کو حکم دیا جا رہا ے اسے کھل کے بیان کیجئے اور مشرکین کی قطعاًپروانہ کیجئے آپ کامذاق اڑانے والوں کے لئے ہم کافی ہیں۔

____________________

۱۔ یہ حدیث بہت سی کتابوں میں مرقوم ہے سب کی عبارتیں ملتی جلتی ہیں، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۰۴، سیرة حلبیہ ج۱ ص ۴۶۰ شرح نہج البلاغہ ج۱۳ ص۲۱۰، حیات محمد ص ۱۰۴، مولفہ محمد حسین ہیکل طبع اول۔

۲۔ حجر: ۹۴ و ۹۵۔