تیسری فصل
رسول(ص) کے بارے میں بنی ہاشم کا موقف
ابو طالب رسول(ص) اور رسالت کا دفاع کرتے ہیں
رسول(ص) تبلیغ رسالت سے دست بردار نہیں ہوئے بلکہ آپ کی فعالیت وکا رکردگی میں وسعت پیدا ہو گئی، آپ کا اتباع کرنے والے مومنوں کی فعالیت میں بھی اضافہ ہوا، لوگوں کی نظر میں یہ نیا دین پر کشش بن گیا، اس سے قریش چراغ پا ہو گئے اور اسلام کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لئے شازشیں کرنے لگے وہ پھر ابو طالب کی خدمت میں آئے اور ایک بار پھر انہوں نے لالچ دی کہ وہ رسول(ص) کو تبلیغ رسالت سے دست بردار ہو جانے اور اپنا دین چھوڑ نے پر راضی کریں، جب اس سے کام نہ چلا تو انہوں نے آپ کو دھمکیاں دیں اور کہنے لگے: اے ابو طالب! ہمارے درمیان آپ کا بڑا مرتبہ ہے عظیم قدر و منزلت ہے ہم نے آپ سے یہ گزارش کی تھی کہ اپنے بھتیجے کو روکئے لیکن آپ نے انہیں نہیں روکا ، خدا کی قسم! اب ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمارے آباء و اجداد کو برا کہا جائے، ہمیں بے وقوف کہا جائے اور ہمارے خدائوں کو برا کہا جائے، آپ انہیں ان باتوں سے منع کریں یا ہمیں اور انہیں چھوڑ دیں یاوہ نہیں یاہم نہیں۔
بنی ہاشم کے سید و سردارجناب ابو طالب قریش کے محکم ارادہ کو سمجھ گئے اور یہ محسوس کیا کہ وہ میرے بھتیجے اور ان کی رسالت کو مٹا دینا چاہتے ہیں لہذا انہوں نے ایک یہ کوشش کی کہ رسول(ص) نرم رویہ اختیار کریں تاکہ قریش کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے لیکن رسول(ص) نے فرمایا: میں حکمِ خدا پر عمل کرتے ہوئے تبلیغ رسالت کرتا رہوںگا خواہ حالات کتنے ہی سنگین ہو جائیں خواہ انجام کچھ بھی ہو۔