روایت ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کسی سفر میں تھے ۔ آپ ( ص ) نے کھانا بنانے کے لیے کسی گوسفند کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ ایک صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! گوسفند کو میں ذبح کروں گا۔ دوسرے صحابی نے عرض کیا : کھال اتارنے کا کام میں انجام دوں گا۔ ایک اور صحابی نے پکانے کی ذمہ داری اٹھائی۔ اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: لکڑیاں جمع کرنے کا کام میں کروں گا ۔ سب نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! ہم لوگ ہیں، ہم ہی لکڑیاں جمع کریں گے، آپ کو زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔اس وقت آپ ( ص ) نے فرمایا: میں جانتا ہوں لیکن میں نہیں چاہتا ہوں کہ خود کو تم پر برتری دوں، بتحقیق حق تعالی پسند نہیں کرتا ہے کہ اس کا کوئی بندہ خود کو دوسروں پر برتری دے۔(15)
جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سات سال کے تھے ، ایک دن آپ (ص) نے اپنی دائی حلیمہ سعدیہ سے پوچھا میرے بھائی کہاں ہیں؟ (چونکہ آپ ( ص ) اس وقت حلیمہ سعدیہ کے ہاں تشریف لے گئے تھے اس کے بیٹوں کو بھائی کہہ کر پکارتے تھے) حلیمہ نے جواب دیا : میرے بیٹے ان گوسفندوں کو چراگاہ لے گئے ہیں جو آپ کی برکت سے خدا نے ہمیں عطا کی ہیں ۔ اس وقت اس سات سال کے بچے نے فرمایا: ماں! آپ نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ماں نے پوچھا: کیوں؟ آپ ( ص ) نے فرمایا: کیا یہ سزاوار ہے کہ میں سایے میں بیٹھ کر دودھ پیتا رہوں اور میرے بھائی سخت دھوپ میں ریوڑ چرانے جائیں؟!(16)
----------------
(15)- منتہی الامال ، ج 1، ص 22.
(16)-حارالانوار 15 / 376.