آپ ( ص ) دوران طفلی میں "اجیاد" نامی سرزمین میں (جو کہ مکہ کے اطراف میں تھی) بھیڑ بکریاں چراتے تھے۔ عزلت و تنہائی سے واقف تھے اور اس خاموش صحرا میں گھنٹوں سوچوں میں گم ہو جاتے تھے، وجود اور زندگی کے بارے میں غور کرتے تھے طبیعت کی زیبائی کا نظارہ کرتے تھے، اپنی قوم سے ہٹ کر کسی اور دنیا میں زندگی گزارتے تھے، آپ (ص) کبھی بھی اپنی قوم کے ساتھ لہو و لعب کی محافل میں نہیں جاتے تھے، ان عبادتوں میں بھی نہیں جاتے تھے جو جو بتوں کے نام پر بر پا ہوتی تھیں، اور اس قربانی کے گوشت سے اپنے ہاتھ منہ کو آلودہ نہیں کرتے تھے جو بتوں کے نام نذر کیا جاتا تھا۔(17)
آپ ( ص ) نے توحید میں اور ماسوا للہ کی نفی میں تفکر کے مراحل کو بڑی تیزی کے ساتھ طے کیا تھابتوں سے بہت زیادہ نفرت کرتے تھے اور فرماتے تھے: میرا ان بتوں سے بڑھ کر کوئی دشمن نہیں ہے۔(18)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مسلمانوں کے ساتھ ظہر کی نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنا شروع کیا لیکن معمول کے برخلاف آخری دونوں رکعتوں کو جلدی جلدی پڑھ کر ختم کیا۔ نماز کے بعد لوگوں نے آپ سے پوچھا : کیا کوئی واقعہ رونما ہوا کہ آپ ( ص ) نے نماز کو جلدی ختم کیا؟
اس وقت آپ ( ص ) نے فرمایا:أَمَا سَمِعْتُمْ صُرَاخَ الصَّبِيِّ. کیا تم نے بچے کی چیخ نہیں سنی؟!(19)
---------------
(17)- سیرہ احمد زینی ، ص 95.
(18)-سیرہ حبلی ، ج 1، ص 270.
(19)- کلینی، ابو جعفر، محمد بن یعقوب، الکافی ج6، ص: 48