ایک دن ابن عباس رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں حاضر ہوا ، مہاجرین او رانصار میں سے بھی بعض لوگ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: جو بھی بازار جائے اور اپنے گھر والوں کے لیے کوئی تحفہ خرید لے وہ اس انسان کی طرح ہے جس نے فقیروں کیلئے اپنے کاندھے پر صدقہ اٹھایا ہوا ہو۔
نیز آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: جب میوہ، کھانا یا کوئی دوسرا تحفہ بانٹنا شروع کرو تو پہلے بیٹی سے شروع کرو پھر بیٹے کو دو، بتحقیق جو کوئی اپنی بیٹی کو خوش کرے گا وہ اس انسان کی مانند ہے جس نے اسماعیل کی اولاد میں سے ایک غلام کو آزاد کیا ہو اور جو کوئی اپنے بیٹے کو خوش کرے اور اسے دوسروں کے ہاتھوں کی طرف دیکھنےسے بے نیاز کرے تو وہ اس انسان کی مانند ہے جو خوف خدا میں رویا ہو اور جو کوئی خوف خدا میں روئے خدا اسے جنت میں داخل کر دے گا۔(31)
ایک دن مدینہ منورہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)مسجد میں وارد ہوئے، آپ ( ص ) کی نگاہیں دو گروہوں پر پڑیں ، ایک گروہ عبادت اور ذکر خدا میں مصروت تھا ، جبکہ دوسرا گروہ تعلیم اور تعلم ، سیکھنے اور سکھانے میں مصروف تھا، آپ ( ص ) ان دونوں گروہوں کے دیکھنے سے مسرور ہوئے اور اپنے اصحاب سے فرمایا: یہ دونوں گروہ نیک کام کر رہے ہیں لیکن میں لوگوں کو تعلیم دینے اور علم سکھانے کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ پس آپ ( ص ) بھی اس گروہ میں شامل ہو گئے جو تعلیم و تعلم میں مصروف تھا۔(32)
------------------
(31)-تحفة الواعظین ، ج 6، ص 109، نقل از وسائل الشیعہ ، ج 7، ص 227.
(32)-در سایہ اولیاء خدا، محمود شریعت زادہ ، ص 40.