ایک شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! میرے رشتے داروں نے مجھ سے ناطے توڑ دیے ہیں اور میرے اوپر حملہ کیا اور مجھے شماتت بھی کی، کیا میں بھی ان کے ساتھ رابطہ توڑ دوں؟
آپ ( ص ) نے فرمایا: اگر تم نے ایسا کیا تو خدا وند عالم رحمت کی نظر تم سب سے ہٹا لے گا۔
اس نے عرض کیا : تو میں کیا کروں ؟آپ (ص) نے فرمایا: جن جن لوگوں نے تجھ سے رابطہ توڑ دیا ہے ان کے ساتھ دوبارہ رابطہ برقرار کرو۔ جس نے تجھے محروم رکھا اسے عطا کرو۔ جس نےتم پر ستم کیا اس کو معاف کرو؛ اس صوت میں خدا ان لوگوں کے مقابلے میں تیری حمایت کرے گا۔(41)
آپ ( ص ) جب سوار ہوتے تھے اصحاب میں سے کسی کو پیدل چلنے نہیں دیتے تھے ، اگر اپنے ساتھ سواری میں جگہ ہوتی تھی تو اسے بھی بٹھا لیتے تھے لیکن اگر جگہ نہیں ہوتی تھی تو اس سے فرماتے تھے کہ فلان جگہ میرا انتظار کرنا۔(42)
آپ ( ص ) سے پوچھا گیا کہ : مجھ پر میرے فرزند کا حق کیاہے؟
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: اس کا اچھا سا نام رکھ دو، اس کو با ادب بناو، اسے مناسب اور نیک کاموں پر مامور کرو۔(43)
--------------------
(41)-محجة البیضاء، ج 3، ص 430.
(42)-سنن النبی ، ص 50، ح 68 از مکارم الاخلاق ، ج 1، ص 22.
(43)-وسائل الشیعہ ، ج 15، ص 198، ح 1.