آپ (ص) معاشرے میں ہمیشہ خوشگوار موڈ، اچھے مزاج اور تواضع کے مالک تھے اور سخت مزاجی، گالم گلوچ اور دوسروں کے عیب ڈھونڈنے سے پرہیز کرتے تھے۔ استحقاق سے بڑھ کر کسی کی تعریف نہیں کرتے تھے، اس چیز سے چشم پوشی کرتے تھے جو آپ ( ص ) کی ضرورت کی نہیں تھی۔ لوگوں کے ساتھ اس طرح پیش آتےتھے کہ لوگ نہ آپ (ص) سے نا امید ہوں اور نہ مایوس۔
خود کو تین خصلتوں سے بچاتےتھے:
1- جنگ و جدال، 2- زیادہ باتیں کرنا 3- فضول باتیں کرنا۔
لوگوں کے بارے میں بھی تین کاموں سے پرہیز فرماتے تھے:
1- کسی پر الزام نہیں لگاتے تھےاور عیوب کو نہیں ڈھونڈتے تھے۔2- لوگوں کی خطا اور عیوب کے پیچھے نہیں رہتے تھے۔ 3- اس جگہ کے علاوہ جہاں ثواب کی امید ہو کسی اور جگہ بات نہیں کرتے تھے۔(79)
ایک آدمی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ! میرے رشتہ دار مجھ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ مجھے نا سزا کہتے ہیں، کیا میں یہ حق رکھتا ہوں کہ انہیں چھوڑ دوں؟
آپ (ص) نے فرمایا: اس صورت میں خدا تم سب کو چھوڑ دے گا۔ اس نے دوبارہ عرض کیا : پس میں کیا کروں؟ آپ ( ص ) نے فرمایا: جو تم سے رابطہ قطع کرے اس سے رابطہ قائم کرو، جس نے تجھے محروم رکھا اسے دے دو، جس نے تجھ پر ستم کیا اسے بخش دو؛ چونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو خدا ان کے مقابلے میں تمہاری مدد فرمائے گا-(80)
-------------------
(79)-بحارالانوار، ج 16، ص 152
(80)-اصول کافی ، ج 3، ص 221، ح 2.