50%

حدود الہی کا اجرا

فتح مکہ کے موقع پر بنی مخزوم قبیلہ کی کسی عورت نے چوری کی اور عدالت میں اس کا جرم ثابت ہو گیا۔ اس کے رشتے داروں کو یہ برداشت نہ تھا کہ ان کی ناموس پر حدجاری کردی جائے چونکہ ابھی جاہلیت والی سوچ رکھتے تھے، جد و جہد کرنے لگے کہ کسی نہ کسی طریقے سے حدجاری کرنے کو اس سے ٹالا جا سکے۔ اسامہ بن زید کو جو اپنے باپ کی طرح رسول رللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے نزدیک عزیز تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے پاس سفارش کرنے پرآمادہ کیا۔ اسامہ بن زید نے جونہی سفارش کے لیے زبان کھولی غصے کی شدت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے چہرے کا رنگ اڑ گیااور اسے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:یہ کہاں سفارش کی جگہ ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ حدود الہی کو نافذ کئے بغیر چھوڑ دیا جائے؟

حد جاری کرنے کا حکم صادر ہوا۔ اسامہ اپنی غفلت کی طرف متوجہ ہوا اور اپنی خطاء کے باعث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے معافی مانگنے لگا اور اس لیے کہ لوگوں کے ذہنوں سے جاہلیت والی سوچ مٹ جائے اور لوگ قانون الہی کو نافذ کرنے میں امتیازی سلوک کے قائل نہ ہوجائیں، عصر کے وقت لوگوں کے درمیان خطبہ دیا اور گذشتہ واقعہ کو موضوع گفتگو قرار دیتے ہوئے کہا:

گذشتہ قومیں تباہ و برباد ہوئیں ؛ کیونکہ قانون الہی کو نافذ کرنے میں امتیازی سلوک کرتی تھیں، جو بھی جب بھی بڑے خاندان یا امراء میں سے کوئی جرم کرتا تھا تو اسے سزا نہیں دی جاتی تھی لیکن جو چھوٹے خاندان یا فقیر گھرانے سے جرم کا مرتکب ہوتا تھا تو اسے سزا دی جاتی تھی ۔ اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! عدالت کو جاری کرنے میں کسی کو بھی نہیں چھوڑوں گا چاہے مجرم میرے قریبی رشتے داروں میں سے ہی کیوں نہ ہو۔(103)

-------------------

(103)-صحیح بخاری ، ج 5، ص 152