عبد اللہ ابن عباس، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی نماز شب کے بارے میں کہتے ہیں:رات کا آدھا حصہ گزر جاتا تھاتو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اٹھتے تھے نیند کے آثار آپ کے چہرہ انور سے مٹ جاتے تھے، سورہ آل عمران کی آخری دس آیتوں کی تلاوت فرماتے تھےاس کے بعد دیوار سے لٹکائے ہوئے مشکیزہ کی طرف جاتے تھےاور اس سے بہترین انداز میں وضو کرتے تھے، اس کے بعد نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے دو رکعت والی چھ نماز یں ادا کرتے تھےاس کے بعد نماز وتر پڑھتے تھے اس کے بعد اپنے بسترے پر تشریف لے جاتے تھے او وہاں آرام فرماتے تھے یہاں تک کہ موذن اذان دینے کے لیے آتا تھا اس وقت وہیں ہلکی سی دو رکعت نماز (صبح کے نفل)پڑھتے تھے اور پھر وہاں سے باہر آکر صبح کی (فریضہ) نماز پڑھتے تھے۔(119)
آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے زمانے میں ایک مسلمان عورت دن کو روزہ رکھتی تھی اور راتوں کو نماز او ر باقی عبادتوں میں گزارتی تھی؛ لیکن بد اخلاق تھی اور زبان سے اپنے پڑوسیوں کو دکھ پہنچاتی تھی، ایک آدمی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کی تعریف کرنا شروع کی ؛ کہ یہ عورت نماز اور روزہ سے کام رکھتی ہے لیکن اس میں ایک عیب ہے وہ یہ کہ یہ بد اخلاق ہے اور پڑوسیوں کو زبان سے دکھ پہنچاتی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: اس جیسی عورت میں خیر نہیں ہے وہ جہنمی ہے؛ یعنی اگر اسی طرح اس گناہ کو انجام دیتی رہی تو اس کی نماز اور روزوں میں کوئی اثر نہیں رہے گا۔(120)
---------------
(119)-وسائل الشیعہ، ج 2 ، ص 17 ۔
(120)-بحار الانوار، ج 71 ، ص 394 ۔