75%

بلاذری بھی ان لوگوں کا نام بتاتا ہے جو مدینہ میں آنحضور کے منشی تھے اور مزید کہتا ہے کہ

ظہور اسلام کے نزدیک ”اوس“ اور ”خزرج“ (مدینے کے دو معروف قبیلے) میں صرف ۱۱ اشخاص لکھنے کے فن کو جانتے تھے(ان کے نام بھی بتاتا ہے)۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فن خط نویسی حجاز کے علاقے میں نیا نیا متعارف ہوا تھا‘ اس زمانے میں حجاز کے حالات اور ماحول کی صورت حال یہ تھی کہ اگر کوئی شخص لکھنا‘ پڑھنا جانتا تھا تو وہ مقبول خاص و عام ہو جاتا تھا۔ وہ افراد جو ظہور اسلام سے کچھ عرصہ قبل اس فن سے واقف تھے‘ چاہے وہ مکہ میں ہوں یا مدینہ میں‘ وہ مشہور اور انگلیوں پر شمار کئے جا سکتے تھے‘ لہٰذا ان کے نام تاریخ میں ثبت ہو گئے اور اگر رسول خدا کا شمار اس زمرہ میں ہوتا تو حتمی طور پر آپ اس صنعت کے حوالے سے پہچانے جاتے اور آپ کا نام اس فہرست میں شامل ہوتا‘ کیونکہ آنحضور کا نام نامی اس زمرہ میں نہیں ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ قطعی طور پر آپ کا پڑھنے‘ لکھنے سے کوئی سروکار نہیں تھا۔“

عہد رسالت خصوصاً مدینے کا دور

گزشتہ بحث سے مجموعی طور پر یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ رسول پاک نے عہد رسالت کے دوران نہ پڑھا‘ نہ لکھا‘ لیکن مسلم علماء چاہے وہ اہل سنت ہوں یا شیعہ‘ اس سلسلے میں ان کا نقطہ نگاہ ایک نہیں ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ وحی نے جو ہر چیز کی تعلیم دیتی تھی‘ انہیں پڑھنا‘ لکھنا نہ سکھایا ہو؟ کچھ شیعہ روایات میں کہا جاتا ہے کہ آپ دوران نبوت پڑھنا جانتے‘ لیکن لکھنا نہ جانتے تھے۔(بحار چاپ جدید‘ ج ۱۶‘ ص ۱۳۵)