25%

سنہ ہجری کے چھٹے سال ماہ ذی القعدہ میں رسول اکرم عمرہ و حج کی غرض سے مدینے سے مکے کی جانب روانہ ہوئے اور حکم دیا کہ قربانی کے اونٹ بھی اپنے ہمراہ لے چلیں‘ لیکن جونہی مکہ سے ۲ فرسخ دور حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو قریش نے راستے کی ناکہ بندی کر دی اور آپ کو اور ساتھی مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا‘ باوجود اس کے ماہ حرام کا مہینہ تھا اور عہد جاہلیت کے قانون کے مطابق قریش کو یہ حق حاصل نہ تھا کہ وہ آپ کے لئے رکاوٹ پیدا کریں۔ آپ نے ان پر واضح کیا کہ میں صرف خانہ کعبہ کی زیارت کی غرض سے آیا ہوں‘ میرا کوئی اور مقصد نہیں‘ مناسک حج کی انجام دہی کے بعد میں واپس چلا جاؤں گا‘ لیکن قریش پھر بھی نہ مانے۔ ادھر دوسری طرف مسلمانوں خا اصرار تھا کہ زبردستی مکہ میں داخل ہو جائیں‘ لیکن آپ اس بات پر راضی نہ ہوئے اور آپ نے اس مہینے کے احترام اور کعبہ کی حرمت کو پامال نہ ہونے دیا اور پھر اتفاق رائے سے قریش اور مسلمانوں کے درمیان صلح کا معاہدہ طے پایا۔

صلح نامہ کی تحریری شکل

آنحضور نے حضرت علی(ع)سے صلح نامہ کو تحریر کروایا۔ آپ نے فرمایا لکھو‘ ”بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم“۔ سہیل بن عمرو جو قریش کا نمائندہ تھا‘ نے اعتراض کیا اور کہنے لگا کہ یہ آپ کا طریقہ کار ہے اور ہمارے لئے مانوس نہیں ہے‘ آپ یہ لکھو کہ ”بسمک اللھم“۔ آپ نے اس کی بات قبول کی اور حضرت علی(ع)سے فرمایا کہ آپ(ع)اسی طرح سے لکھیں‘ بعد میں فرمانے لگے‘ لکھو‘ یہ سمجھوتہ ہے محمد رسول اللہ اور قریش کے درمیان طے پا رہا ہے۔

قریش کے نمائندے نے اعتراض کیا اور کہا کہ ہم آپ کو اللہ کا رسول نہیں مانتے اور صرف آپ کے پیروکار آپ کو خدا کا رسول مانتے ہیں اور اگر ہم آپ کو رسول مانتے تو آپ سے جنگ نہ کرتے اور مکہ مکہ میں داخلے پر بھی پابندی نہ لگاتے‘ آپ اپنا اور اپنے والد کا نام لکھئے۔ آنحضور نے فرمایا‘ تم چاہے مجھے خدا کا رسول مانو چاہے نہ مانو لیکن میں اللہ کا رسول ہوں‘ اس کے بعد آپ نے حضرت علی(ع)کو حکم دیا کہ لکھو‘ یہ عہد نامہ‘ معاہدہ محمد بن عبداللہ اور قریش کے لوگوں کے درمیان طے پا رہا ہے۔ اس موقع پر مسلمانوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا‘ ازاں بعد تاریخی حوالوں کے مطابق اس معاہدے کے بعض پہلوؤں پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔