اس آیت کو سن کر ہماری روح اور ایمان کو اطمینان پہنچا اور ہم نے آپ کی بات مان لی کہ ہم آئندہ ”ریا“ یعنی سود نہیں لیں گے۔ وہ شخص جو اس تحریر کو پڑھ کر سنا رہا تھا‘ جب ”زنا“ کے بارے میں بتایا تو ایک بار پھر آپ نے اپنا دست مبارک اس لفظ ”زنا“ پر رکھا اور یہ آیت پڑھ کر سنائی:
( وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ) (اسراء‘ ۳۲)
”اور دیکھو سنا کے پاس بھی نہ بھٹکنا کیونکہ بے شک وہ بڑی بے حیائی کا کام ہے۔“(اسدالغابہ‘ ج ۱‘ ص ۲۱۶)
حیرت انگیز بات
چار سال قبل ایرانی اخبارات و رسائل نے ایک حیرت انگیز بات شائع کی کہ ہندوستان کے ایک مسلمان دانشور جس کا نام سید عبداللطیف ہے اور جو دکن حیدر آباد کے رہنے والے ہیں جو مشرق قریب اور ہندوستان کے تہذیبی مطالعاتی ادارے کے سرپرست بھی ہیں‘ نیز دکن حیدر آباد کی اسلامی مطالعاتی اکیڈمی کے بھی سرپرست ہیں‘ نے ہندوستان کی ایک اسلامی کانفرنس میں اس سلسلے میں ایک جامع اور طویل تقریر کی جو انگریزی زبان میں شائع کی گئی۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ
”آنحضور عہد رسالت سے پہلے بھی پڑھنا‘ لکھنا جانتے تھے!!“(مجلہ روشن فکر‘ شمارہ ہشتم‘ مہرماہ و شمارہ پاتر دہم مہر ماہ ۱۳۴۴ و نشریہ کانون سرد فتزان شمارہ آیان ماہ ۱۳۴۴ نقل از نشریہ آموزشن و پرورشن شمارہ شہروپور ۱۳۴۴)
ڈاکٹر سید عبداللطیف کی اس تقریر کی اشاعت نے اس موضوع پر مطالعہ رکھنے والے ایرانی میں ہلچل اور حیرانگی پیدا کر دی۔ اس بات کے شائع ہونے کے ساتھ ہی اس موضوع میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میں نے (شہید مطہری) عین اس موقع پر طلباء کے اجتماع سے ایک مختصر تقریر کی۔