(ب) اُم القریٰ کے لوگ
اس رائے کے حامی اس لفظ ”اُمی“ کو ”اُم القریٰ“ یعنی مکہ سے منسوب کرتے ہیں۔ سورئہ انعام آیت ۹۳ میں مکہ کو ”اُم القریٰ“ سے تعبیر کیا گیا ہے:
”ولتنذر اُم القری و فی حولها
”تاکہ تم (آنحضور) اُم القریٰ (مکہ) اور اس کے گرد و نواح کے لوگوں کو ڈراؤ۔“
غالباً اس امکان کی بھی کتب تفاسیر میں اور متعدد شیعہ احادیث میں تائدی کی گئی ہے۔ جبکہ ان حدیثوں کو معتبر نہیں سمجھا گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ انہیں یہودیوں نے وضع کیا ہے۔(مجلہ آستان قدس‘ شمارہ ۲)
اس امکان کو مختلف دلائل کی بناء پر رد کیا گیا ہے۔ ایک تویہ کہ لفظ ”اُم القریٰ“ کسی خاص جگہ یا مقام کا نام نہیں اور اس کی ایک عمومی صفت کے لحاظ سے نہ کہ خصوصیت کے ساتھ مکہ پر اطلاق ہوا ہے۔ ”اُم القریٰ“ یعنی ’بستیوں کا مرکز“، اس طرح جو مقام بھی بستیوں کا مرکز یا صدر مقام ہو گا‘ اسے اُم القریٰ کے نام سے پکارا جائے گا۔
سورئہ قصص کی آیت ۵۹ سے یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ لفظ صفت کو بیان کرتا ہے‘ نہ کہ اسم کو:
( وما کان ربک مهلک القری حتی یبعث فی امها رسولا )
”اور تمہارا پروردگار بستیوں کو ہلاک نہیں کرتا‘ جب تک اس کے صدر مقام میں کوئی رسول نہ بھیج دے۔“
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن زبان اور محاورہ میں جو مقام بھی کسی علاقے کا صدر مقام ہو وہ اس علاقے کا ”اُم القریٰ“ کہلائے گا۔