25%

تیسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی لفظ ”اُم القریٰ“ سے منسوب ہو تو ادبی قاعدہ کے مطابق ”اُمی“ کی جگہ اسے ”قروی“ کہنا چاہئے‘ کیونکہ نحو اور علم و صرف کی نسبت کے باب کے اصول کے مطابق جب مضاف اور مضاف الیہ‘ الیہ سے منسوب کیا جاتا ہے‘ جب کہ مضاف ”اب“ یا ”اُم“ یا ”ابن“ یا ”بنت“ کا لفظ ہو تو لفظ کا مضاف الیہ سے نسبت دی جاتی ہے نہ کہ مضافت سے جیسا کہ ”ابو طالب‘ ابوحنیفہ‘ بنی تمیم سے منسوب کو طالبی‘ حنفی‘ تمیمی کہا جاتا ہے۔

(ج) عرب کے وہ مشرکین جو آسمانی کتاب کے پیروکار نہ تھے

اس نظریے کے بھی مفسرین پرانے ادوار سے حامل رہے ہیں‘ مجمع البیان سورئہ آل عمران کی آیت ۲۱ کے ضمن میں جہاں ”اُمیین“ کو ”اہل کتاب“ کے بالمقابل قرار دیا گیا ہے:

( وقل للذین اوتوا الکتاب والامیین )

”میں اس نظریے کو عبداللہ ابن عباس جو ایک عظیم صحابی اور مفسر تھے‘ سے منسوب کیا جاتا ہے اور سورئہ بقرہ کی آیت ۴۸ میں ابو عبداللہ سے روایت نقل کی گئی ہے‘ جبکہ آل عمران کی آیت ۴۵ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ طبری نے خود بھی اس آیت کے باب میں اس مفہوم کا انتخاب کیا ہے۔ زمخشری نے کشاف میں اس آیت اور آل عمران کی آیت ۴۵ کو اسی نہج پر تفسیر کیا ہے‘ جبکہ فخررازی نے اس امکان کا سورئہ بقرہ کی آیت اور آل عمران کی آیت ۲۰ کے ضمن میں حوالہ دیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مفہوم پہلے مفہوم سے الگ نہیں ہے‘ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جو لوگ بھی کسی آسمانی مقدس کتاب کے پیروکار نہ ہوں اور پڑھے‘ لکھے اور تعلیم یافتہ بھی ہوں تو انہیں ”اُمی“ کہا جائے‘ لکہ اس لفظ کا اطلاق اس لئے مشرکین عرب پر اطلاق کیا گیا‘ کیونکہ وہ پڑھے‘ لکھے نہ تھے‘ لہٰذا مشرکین عرب کے سلسلے میں اس لفظ کا استعمال اس لئے کیا گیا کیونکہ لکھنا‘ پڑھنا نہ جانتے تھے‘ کسی آسمانی کتاب کے پیروکار نہ ہونے کے ناطے نہیں‘ لہٰذا جہاں یہ لفظ جمع کی شکل میں آیا ہے