اب جبکہ لفظ ”اُمی“ کے لئے اتنے زیادہ اور مختلف معنی وجود رکھتے ہیں‘ یہ بات واضح نہیں ہے کہ قرآن کے مسلم اور غیر مسلم مفسرین اور مترجمین کیونکر صرف نوزائیدہ بچے کے ہی لئے ”اُمی“ کا استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ ان پڑھ اور نادان کو ہی کیوں ”اُمی“ کہتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں انہوں نے اسلام سے قبل مکہ کے رہنے والوں کو ”اُمیون“ یا ان پڑھ گروہ قرار دیا ہے۔(نشریہ کانون سر دختران‘ شمارہ آیات ماہ ۱۳۴۴‘ ھ۔ش‘ نقل از نشریہ آموزش و پرورش شمارہ‘ شہرپور‘ ۱۳۴۴)
موصوف کی تقریر کا تنقیدی جائزہ
۱ ۔ قدیم زمانے سے اسلامی مفسرین نے لفظ ”اُمی“ اور ”اُمیون“ کا تین طریقوں سے مفہوم بیان کیا ہے‘ یا کم از کم ان الفاظ کے لئے تین امکانات کو سامنے رکھا ہے۔ اسلامی مفسرین نے ڈاکٹر عبداللطیف کے دعویٰ کے برخلاف لفظ کے صرف ایک ہی مفہوم کو بنیاد نہیں بنایا۔
۲ ۔ کسی مفسر نے یہ نہیں کہا ہے کہ لفظ اُمی کے معنی نوزائیدہ بچہ ہے‘ جس کا ضمنی مطلب پڑھنا‘ لکھنا نہ جاننے والا بنتا ہے۔ یہ لفظ بنیادی طور پر نوزائیدہ بچے کے لئے استعمال نہیں ہوتا‘ بلکہ اس عمر رسیدہ شخص کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو لکھنے‘ پڑھنے کے فن کے بارے میں بچے کی مانند ناواقف ہوتا ہے
۳ ۔ موصوف کا یہ بیان کہ قدیم سامی متون سے واقفیت نہ ہونا بھی لفظ ”اُمی“ کے مفاہیم کے زمرے میں آتا ہے‘ درست نہیں ہے‘ بلکہ قدیم مفسرین اور اہل لغت کے اقوال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس لفظ کا جمع کے صیغہ ”اُمیین“ میں عرب مشرکین پر اطلاق ہوا ہے اور یہ ”اہل کتاب“ کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے‘ کیونکہ عرب مشرکین غالباً پڑھنا‘ لکھنا نہیں جانتے تھے اور بظاہر یہودی اور مسیحی لوگوں نے عرب مشرکین کی تحقیر کے لئے اس لفظ سے کام لیا اور ان کے لئے منتخب کیا۔