25%

دوسروں کے اعتراضات

مشرق شناسوں جو اسلامی تاریخ کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ نے بھی آپ کے پہلے سے پڑھنے‘لکھنے کے بارے میں کسی قسم کا کوئی اشارہ نہیں دیا‘ بلکہ اس امر کا اعتراف کیا کہ آپ ان پڑھ تھے اور یہ کہ ایک ان پڑھ قوم کے درمیان ظہور میں آئے تھے۔

انگریز مورخ کارلائل اپنی کتاب ”البطال“ میں لکھتا ہے کہ

”ہمیں اس چیز کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ محمد نے کسی استاد سے علم حاصل نہیں کیا۔“

صنعت تحریر عربوں کے درمیان نئی نئی متعارف ہوئی تھی‘ مذکورہ مورخ مزید بیان کرتا ہے کہ

”میرے خیال کے مطابق آپ کو لکھ پڑھنے سے کوئی شناسائی نہ تھی اور ماسوائے صحرائی زندگی کے آپ نے کسی دنیاوی چیز کا علم حاصل نہ کیا تھا۔“

ویل ڈیورنٹ

ویل ڈیورنٹ اپنی کتاب ”تاریخ تمدن“ میں لکھتا ہے کہ

”اس دور میں بظاہر کسی کو اس بات کا خیال نہیں آیا کہ آپ کو لکھنا‘ پڑھنا سکھاتا‘ کیونکہ اس دور میں عربوں کے لئے لکھنے‘ پڑھنے کی کوئی اہمیت نہ تھی‘ اسی بناء پر قبیلہ قریش کے صرف ۱۷ افراد پڑھنا‘لکھنا جانتے تھے اور آپ نے خود کچھ لکھا ہو‘ اس بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں اور عہد رسالت میں بھی آپ نے کچھ کاتب مقرر کئے ہوئے تھے‘ اس کے باوجود عربی زبان کی بلیغ ترین کتاب آپ کی زبان مبارک پر جاری ہوئی اور مسائل کی باریکیوں کا تعلیم یافتہ افراد کے بہ نسبت بدرجہا بہتر طور پر ادراک کیا۔“