50%

احادیث و تواریخ

ڈاکٹر عبداللطیف کا دعویٰ ہے کہ احادیث و تواریخ سے بھی آپ کے لکھنے‘ پڑھنے کے بارے استدلال پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ دو واقعات کا حوالہ دیتا ہے:

پہلا واقعہ

وہ کہتا ہے:

”بخاری کتاب ”العلم“ میں ثبت شدہ روایات و احادیث کے ضمن میں نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضور نے اپنے داماد علی(ع)کو ایک خفیہ خط دیا اور خصوصیت کے ساتھ ان سے فرمایا کہ اس خط کو نہ کھولیں اور جس کے نام یہ خط عنوان کیا گیا ہے‘ اس کا نام اچھی طرح ذہن نشین فرما لیں۔ اب جبکہ آنحضور کے خفیہ خط کو ان کے داماد اور معتمد خاص علی(ع)کو بھی کھولنے کی اجازت نہ تھی تو اس خط کو لکھنے والے سوائے آنحضور کے اور کون ہو سکتا ہے؟“(ج ۱‘ ص ۲۰)

افسوس ہے یہ روایت جو صحیح بخاری میں ہے اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس خط حامل علی(ع)تھے‘ جبکہ موصوف اس بات سے کہ آنحضور خط کے نفس مضمون سے علی(ع)کو بھی بے خبر رکھیں‘ یہ دلیل پیش کرنا چاہتا ہے کہ اس خط کو آنحضور نے بذات خود تحریر فرمایا تھا۔

صحیح بخاری کے باب ”العلم“ سے منقول ہے کہ آنحضور نے ایک گروہ کو روانہ فرمایا اور ان کے امیر کو ایک خط دیا اور فرمایا کہ فلاں علاقے میں پہنچنے سے قبل خط کو نہ کھولنا۔ یہاں پر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ ان کا امیر علی(ع)تھا اور روایت کے نفس مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ خط کے حامل کو ہی خط کو کھولنا ہے‘ نہ کہ کسی تیسرے شخص نے۔ جیسا کہ ڈاکٹر عبداللطیف کی سوچ ہے!

بخاری نے جو واقعہ اس ضمن میں بیان کیا ہے‘ واقعہ ” ۱ بطن نخلہ“ کے بارے میں ہے اور یہو اقعہ سیر و تواریخ کی کتابوں میں رقم ہے۔