50%

جبکہ سیرئہ ابن ہشام میں اس قسم کی کوئی بات موجود نہیں ہے اور معلوم نہیں کہ ڈاکٹر سید عبداللطیف ایسی بات کیوں ابن ہشام سے منسوب کرتا ہے؟

ہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ تاریخی نکتہ نگاہ کے مطابق‘ بیشتر منقول روایتوں سے یہ اخذ کیا جاتا ہے کہ جو کچھ بھی تحریر کیا گیا وہ کام حضرت علی(ع)کے ذریعے انجام پایا اور صرف ابن اثیر اور طبری کی روایت سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ باوجود اس کے آنحضور لکھنا نہ جانتے تھے‘ قلم دست مبارک میں لیا اور تحریر فرمایا۔

اگر یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے تو آنحضور نے عہد رسالت میں صرف ایک یا چند بار لکھا ہے‘ جبکہ بحث کا موضوع عہد رسالت سے قبل آپ کے لکھنے‘ پڑھنے سے متعلق ہے۔

مخالفین کا الزام

اس مقالہ کے آغاز میں ہم کہہ چکے ہیں کہ تاریخ کے اس حصے میں آنحضور اور اسلام مخالفین نے آپ پر یہ الزام عائد کیا کہ آپ دوسروں سے سنی ہوئی باتیں نقل فرماتے ہیں (اس الزام کی قرآن پاک کی بعض آیات آئینہ دار ہیں)‘ لیکن آپ پر اس پہلو سے الزام عائد نہ کیا کیونکہ آنحضور پڑھے‘ لکھے ہیں‘ تو شاید آپ کے پاس کتابیں موجود ہیں اور جو باتیں بیان فرماتے ہیں‘ دراصل انہیں کتابوں سے مآخوذ مواد پر مبنی ہیں۔