گوسٹاؤلوبون
گوسٹاؤلوبون اپنی مشہور کتاب ”تمدن اسلام و عرب“ میں کہتا ہے کہ
”جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ آپ اُمی تھے جو کہ قیاس آرائی ہی ہے‘ کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر آپ عالم تھے تو قرآن مجید کی آیات اور موضوعات میں ایک بہتر تسلسل ہوتا اور اس کے علاوہ یہ بھی ایک قیاس آرائی ہے کہ اگر آپ اُمی نہ ہوتے تو آپ کسی نئے دین کو متعارف یا رائج نہ کر سکتے تھے‘ کیونکہ ایک ناخواندہ شخص کو جاہل لوگوں کی ضرورتوں کا بہتر ادراک ہوتا ہے اور وہ بہتر طریقے سے ان کو راہ راست کی طرف لا سکتا ہے۔ بہرحال آپ اُمی ہوں یا غیر اُمی اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ فہم و فراست کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے۔“
گوسٹاؤلوبون نے قرآن پاک کے مفاہیم کے بارے میں مکمل آگاہی نہ رکھنے کی بناء پر اور اپنی مادی سوچ کی وجہ سے آیات قرآنی کی بے ترتیبی اور ایک عالم کا جاہلوں کی ضرورتوں سے لاعلم ہونا‘ جیسی احمقانہ باتیں کی ہیں اور قرآن و رسول پاک کی شان میں گستاخی کرنے کے باوجود اس امر کا برملا اعتراف کیا ہے کہ آپ کے پہلے سے پڑھے لکھے ہونے کی کوئی سند یا دلیل موجود نہیں۔
بہرحال ان بیانات سے ہمیں کوئی سروکار نہیں‘ تاریخ اسلام اور مشرق کے بارے میں مسلمان اور مشرقی لوگ زیادہ بہتر رائے قائم کر سکتے ہیں۔ یہاں ان باتوں کو بیان کرنا اس لئے مناسب ہے کہ جو لوگ اس بارے میں ذاتی مطالعہ نہیں رکھتے‘ ان کے لئے معمولی سی بات کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ غیر مسلم مورخین کے تجسس اور تنقیدی نگاہ سے اس ضمن میں معمول سے معمولی بات بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔
ایک موقع پر آپ اپنے چچا حضرت ابوطالب(ع)کے ساتھ شام کے سفر پر روانہ ہوئے۔ دوران سفر ایک مقام پر آرام کی غرض سے رکے تو وہاں پر آپ کا سامنا بحیرہ نامی ایک راہب سے ہوا (معروف اسلام و مشرق شناس پروفیسر ماسینیون اپنی کتاب ”سلمان پاک“ میں ایسے شخض کے وجود کے بارے میں بلکہ حضور پاک کی اس سے ملاقات کے سلسلے میں شک و شبہ کا اظہار کرتا ہے اور اسے افسانوی شخصیت قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ”بحیرہ سرجیوس‘ تمیمداری اور دوسرے جنہوں نے آپ کے بارے میں روایات جمع کی ہیں‘ وہ سب اختراعی و فرضی کردار ہیں‘ جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں)۔