البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن0%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی رح
زمرہ جات:

صفحے: 689
مشاہدے: 302525
ڈاؤنلوڈ: 8562

تبصرے:

البیان فی تفسیر القرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 302525 / ڈاؤنلوڈ: 8562
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

پس خالق متعال نے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ازدواج کی سنت حیوانات سے ہی مختص نہیں ہے بلکہ نباتات اور ان کی تمام اقسام میں بھی اس سنت پر عمل ہوتا ہے، ارشاد ہوتا ہے:

( وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ ) ۱۳:۳

''اور اس نے ہر طرح کے میووں کی دو دو قسمیں پیدا کیں۔

( سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ ) ۳۶:۳۶

''وہ (ہر عیب سے) پاک صاف ہے جس نے زمین سے اگنے والی چیزوں اور خود ان لوگوں کے اور ان چیزوں کے جن کی انہیں خبر نہیں سب کے جوڑے پیدا کئے۔،،

جن رازوں کو قرآن کریم نے منکشف کیا ہے ان میں سے ایک حرکت زمین ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا ) ۲۰:۵۳

''وہ ہی ہے جس نے تمہارے (فائدے کے)واسطے زمین کو (گہوارہ) بنایا۔،،

توجہ فرمائیں! یہ آیہ شریفہ کس دلکش انداز میں حرکت کی طرف اشارہ اور اس حقیقت کو بے نقاب کررہی ہے جسے انسان صدیوں سے سمجھ سکا ہے، اس آیہ شریفہ میں زمین کو ''مہد،، (گہوارہ) سے تعبیر کیا جارہا ہے جو شیر خوار بچوں کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے تاکہ اس کی آہستہ اور پرسکون حرکت سے بچہ آرام کی نیند سوجائے۔ کرہئ زمین بھی انسان کے لیے گہوارہ کی مانند جس کی حرکت وضعی اور حرکت انتقالی کے نتیجے میں اس پر بسنے والی مخلوق کو آرام و سکون ملتا ہے، جس طرح گہوارے کی حرکت کے ساتھ ساتھ بچہ پرورش پاتاہے اسی طرح زمین کی روزانہ اورسالانہ حرکت کے نتیجہ میں انسان اور کائنات کی دوسری مخلوقات پرورش پاتی ہیں۔

۱۰۱

آپ نے دیکھا کہ اس آیہ کریمہ میں حرکت زمین کی طرف ایک لطیف اشارہ کیا گیا ہے اور بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ زمین کے لئے حرکت کرتی ہے۔ اس لیے کہ یہ آیہ کریمہ ایسے زمانے میں نازل کی گئی جب تمام عقلاء زمین کے ساکن ہونے پر متفق تھے بلکہ اسے مسلمات میں شمار کیا جاتا تھا اور یہ امر قابل شک و تردید نہیں تھا۔(۱)

جن بھیدوں کو قرآن کریم نے چودہ صدیاں قبل آشکارا کیا ان میں سے ایک، ایک اور براعظم کے وجود کا انکشاف ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ ) ۵۵:۱۷

''وہی (جاڑے گرمی کے) دونوں مشرقوں کا مالک اور دونوں مغربوں کا (بھی) مالک ہے۔،،

یہ آیہ کریمہ کئی سال تک مفسرّین کی توجہات کا مرکز بنی رہی اور اس کی تفسیر میں مختلف نظریئے قائم کئے گئے۔ بعض مفسرین نے فرمایا، ''مشرقین،، سے مراد شرق شمس اور غرب قمر ہے۔ بعض نے فرمایا ''مشرقین،،سے مراد موسم سرما و گرما کے طلوع و غروب ہیں۔ لیکن ظاہراً ایسا نہیں ہے، بلکہ اس آیہ شریفہ ''مشرقین،، ایک اور برّاعظم کی طرف اشارہ ہے جو کہ دوسری سطح پر ہے، جہاں سورج جب طلوع ہوتا ہے تو دوسری طرف غروب ہوجاتا ہے، اس نظریہ کی دلیل یہ آیہ شریفہ ہے:

( حَتَّىٰ إِذَا جَاءَنَا قَالَ يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ ) ۴۳:۳۸

''جب (قیامت میں ) ہمارے پاس آئے گا تو (اپنے ساتھی شیطان سے) کہے گا کاش مجھ میں اور تجھ میں پورے پچھم کافاصلہ ہوتا۔،،

____________________

(۱) ایک ہزار ہجری کے بعدکلیلو نے جرت کرتے ہوئے زمین کی دو حرکتیں ''وضعیہ اور انتقالیہ،، ثابت کیں جس کی وجہ سے اس کی سخت توہین کی گئی اور اس پر اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ قریب المرگ ہویا۔ اس کے بعد اس عظیم علمی شخصیت کو طویل عرصہ تک قید میں رکھا گیا، جس کے بعد یورپی سائنس دان چرچ کی قدامت پسندانہ خرافات کے خوف سے اپنی جدید اور عمدہ تحقیق کو پوشیدہ رکھنے لگے جو ان فرسودہ خرافات کے خلاف تھی۔

۱۰۲

اس آیہ کریمہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مشرقین کے درمیان فاصلہ ان تمام مسافتوں سے زیادہ ہے جنہیں انسان محسوس کرسکتا ہے اور شرق شمس اور شرق قمر کے درمیان فاصلہ اتنا زیادہ نہےں ہے جو تمام مسافتوں سے زیادہ ہو، اس لیے مشرقین سے مراد مشرق و مغرب کی مسافت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کرہئ ارض کے ایک حصّے کا مغرب، دوسرے حصّے کا مشرق ہے اور اسی صورت میں ''مشرقین،، کا اطلاق صحیح ہوگا۔ بنابراین آیہ کریمہ زمین کے جزء کے موجود ہونے پر دلالت کرتی ہے جس کا انکشاف نزولِ قرآن کے سینکڑوں سال بعد کیا گیا ہے۔

اسی بناء پر قرآنِ کریم میں ''مغرب،، اور ''مشرق،، جہاں واحد کی صورت میں استعمال کئے گئے ہیں، اس سے مراد جنس مشرق اور مغرب ہے۔ جس طرح ''خلق الانسان،، ہے۔ ورنہ انسان ایک نہیں اربوں ہیں۔ جیسا کہ آیتِ شریفہ میں ہے:

( وَلِلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ ۚ ) ۲:۱۱۵

''(ساری زمین) خدا ہی کی ہے (کیا) پورب (کیا) پچھم پس جہاں کہیں (قبلہ کی طرف) رُخ کرلو، وہیں خدا کا سامنا ہے۔،،

اور جہاں ''مشرق،، اور ''مغرب،، کو تثنیہ کی صورت میں استعمال کیا گیا ہے اس سے مراد دوسرا براعظم ہے جو زمین کی دوسری سطح پر ہے۔ جہاں ''مغرب،، اور ''مشرق،، کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اس سے مراد زمین کے مختلف حصے ہیں، جس طرح ان آیات میں ہے:

( وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۖ ) ۷:۱۳۷

''اور جن بے چاروں کو یہ لوگ کمزور سمجھتے تھے انہی کو (ملکِ شام کی) زمین کے پورپ پچھم (سب) کا وارث (و مالک) بنا دیا۔،،

۱۰۳

( رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ ) ۳۷:۵

''جو سارے آسمان اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اور مشرقوں کا پروردگار ہے۔،،

( فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ ) ۷۰:۴۰

''تو میں مشرقوں و مغربوں کی پروردگار کی قسم کھاتا ہوں کہ ہم ضرور اس بات کی قدرت رکھتے ہیں۔،،

ان آیات کریمہ سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ طلوع شمس اور غروب شمس کے مقامات متعدد ہیں اور اس میں زمین کے گول ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، کیونکہ جب سورج کرہئ ارض کے ایک رخ پر طلوع ہوگا تو لامحالہ دوسرے رُخ پر غروب ہوگا۔

یہ مسئلہ واضح ہے، متعدد مشرق و مغرب ثابت کرنے کے لیے کسی زحمت کی ضرورت نہیں ہے، جس میں قرطبی پڑگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''مشارق و مغارب،، سے مراد ایامِ سال کے مشرق و مغرب ہیں۔(۱) لیکن اس زحمت کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ طلوع آفتاب کی کوئی خاص اور معین جگہیں نہیں ہیں جن کی قسم کھائی جائے، بلکہ زمینوں کے حصّے مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ ''مشارق،، بھی مختلف ہیں۔ پس معلوم ہو ا کہ ''مشارق،، اور ''مغارب،، سے مراد زمین کے وہ حصّے ہیں

جو زمین کے گول اور متحرک ہونے کی وجہ سے بتدریج سورج کے سامنے آتے رہتے ہیں۔

ائمہ (علیہم السلام) کی روایات، دعائیں اور خطبے بھی زمین کے گول ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

___________________

(۱) یعنی جتنے دن ہوں گے اتنے ہی مشرق و مغرب ہوں گے۔(مترجم)

۱۰۴

صحبنی رجل کان یمسی بالمغرب و یغلس بالفجر، و کنت انا اصلی المغرب اذا غربت الشمس، اصلی الفجر اذا استبان الفجر ۔فقال لی الرجل: ما یمنعک ان تصنع مثل ما اصنع؟ فان الشمس تطلع علی قوم قبلنا و تغرب عنا، و هی طالعة علی قوم آحرین بعد ۔فقلت: انما علینا ان نصلی اذا وجبت الشمس عنا و اذا طلع الفجر عندنا، و علی اولئک ان یصلوا اذا غربت الشمس عنهم (۱)

''بعض سفروں میں میرا ایک ہمسفر، نماز مغرب، رات گئے اور نماز صبح، آخر شب(۲) میں پڑھا کرتا تھا، جبکہ میں نماز مغرب، غروب آفتاب اور نماز صبح، طلوع فجر کے فورا بعد پڑھ لیا کرتا تھا۔ اس شخص نے مجھ سے کہا: آپ بھی میری طرح نماز پڑھیئے، بعض لوگوں پر (دوسرے شہروں میں) سورج ہم سے پہلے طلوع ہوجاتا ہے اور اس وقت ہماری طرف غروب ہوتا ہے اور بعض مقامات پر سورج ابھی موجود ہوتا ہے، میں نے اس شخص سے کہا: ہماری شرعی تکلیف یہ ہے کہ جب ہماری طرف سورج غروب ہو تو نماز مغرب پڑھیں اور جب ہمارے یہاں طلوع فجر ہو تو نماز صبح پڑھیں اور دوسرے شہروں کے لوگوں کی شرعی تکلیف یہ ہے کہ وہ اپنے شہروں کے غروب کے مطابق نماز پڑھیں۔،،

اس روایت میں امام کا ہمسفر، زمین گول ہونے کی وجہ سے مشرق و مغرب میں جو تفاوت پیدا ہوتا ہے اس سے اپنے مدعا پر استدلال کررہا تھا امام نے اس کی اس بات سے اتفاق کیا لیکن نماز کے سلسلے میں جو شرعی تکلیف ہے اس کی طرف اسے متوجہ کیا۔

اس قسم کی دوسری روایت میں امام فرماتے ہیں:

انما علیک شرقک و مغربک

''تجھے اپنے مشرق و مغرب کا خیال رکھنا چاہیے،،

اسی طرح امام زین العابدین اپنی صبح و شام کی دعاؤں میں فرماتے ہیں:

و جعل لکل واحد منهما حداً محدوداً، و أمداً ممدوداً، یولج کل واحد منهما فی صاحبه، و یولج

''اور خدا نے ایک خاص اندازے کے مطابق دن اور رات کے لیے ایک معین حد اور خاص مدّت مقرر کی وہ دن

____________________

(۱) الوسائل، ج ۱، ص ۲۳۷، باب ۱۱۶، ان الوقت المغرب غروب شمس۔

(۲) قبل از طلوع فجر (مترجم)

۱۰۵

صاحبه فیه بتقدیر منه للعباد (۱)

کو رات میں داخل کرتا ہے اور اسی وقت رات کو دن میں داخل کرتا ہے، اسی اندازے کے مطابق جو اپنے بندوں کے لیے مقرر کیا ہے۔،،

امام اپنے اس شیریں اور دلکش بیان سے زمین گول ہونے کی وضاحت فرمارہے ہیں، چونکہ یہ مطلب اس زمانے کے لوگوں کے ذہنوں سے بہت دور تھا اس لیے آپ نے ایک بلیغ انداز میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

اگر امام یہ بتانا چاہتے کہ کبھی رات گھٹ جاتی ہے اور دن اسی تناسب سے بڑھ جاتا ہے اور کبھی دن گھٹ جاتا ہے اور رات اسی تناسب سے لمبی ہو جاتی ہے، جس کا مشاہدہ عام لوگ بھی کرتے ہیں تو امام صرف پہلے جملے ''یولج کل واحد منھما فی صاحبہ،، پر اکتفاء کرتے اور دوسرے جملے ''یولج صاحبہ فیہ،، کی ضرورت نہ ہوتی اس بناء پر دوسرا جملہ یہ بتانے کے لیے ارشاد فرمایا کہ جب دن کو رات میں داخل کیا جاتا ہے تو اسی وقت رات کو بھی دن میں داخل کیا جاتا ہے اسی طرح جب رات کو دن میں داخل کیا جاتا ہے تو دن کو بھی رات میں داخل کیا جاتا ہے کیونکہ ظاہر کلام سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ دوسرا جملہ پہلے جملے کی حالت بیان کررہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام کی یہ تعبیر زمین کے گول ہونے کے علاوہ اس حقیقت پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جب ہمارے یہاں رات کو دن میں داخل کیا جاتا ہے تو اسی وقت دوسرے شہروںمیں دن کو رات میں داخل کیا جاتا ہے اگر امام اس اہم نکتے کی طرف اشارہ نہ فرمانا چاہتے تو اس دوسرے جملے ''و یولج صاحبہ،، کا کوئی فائدہ نہ ہوتا بلکہ یہ معنوی اعتبار سے پہلے جملے کی تکرار ہوتا۔

ہم اس کتاب میں اعجاز قرآن کے انہی مذکورہ پہلوؤں پر اکتفا کرتے ہیں۔ اسی سے ثابت ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم وحی الہٰی ہے اور یہ بشر کی طاقت سے باہر ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم کے وی الہی ہونے کو ثابت کرنے کےلئے یہی دلیل کافی ہے کہ قرآن وہ یگانہ مدرسہ ہے جس کی فارغ التحصیل ذات اقدس حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ہیں جن کا کلام سمجھنے کے بعد بڑے بڑے دانش مند فخر کرتے ہیں اور جن کے بحر علم سے نامور محققین سیراب ہوتے ہیں۔

____________________

(۱) صحیفہ سجادیہ کامل

۱۰۶

نہج البلاغۃ کے خطبات آپ کے سامنے ہیں۔ جب آپ کسی موضوع پر لب کشائی فرماتے تو اس میں کسی اور کے لیے گنجائش باقی نہ رہنے دیتے۔ حتیٰ کہ جن کو آپ کی معرفت نہیںہے وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی ساری عمر اسی موضوع پر تحقیق کرنے میں گزار دی ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے علوم و معارف وحی الہٰی سے جاملتے ہیں کیونکہ جو آدمی جزیرۃ العرب خاص کر حجاز کی تاریخ سے آگاہ ہے وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ علوم سرچشمہئ وحی سے نہیں لئے گئے۔

نہج البلاغۃ کی تعریف میں یہ جملہ بہترین کہا گیا ہے:

''انه دون کلام الخالق و فوق کلام المخلوق،،

''بیشک یہ کلامِ خالق سے نیچے اور کلامِ مخلوق سے بالاتر ہے۔،،

بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ علی (علیہ السلام) جیسے فصیح و بلیغ اور دریائے علم و عرفان انسان کا اعجاز قرآن کی تصدیق کرنا خود اس کی دلیل ہے کہ قرآن اعجام الہٰی ہے۔ کیونکہ یہ مسلم ہے کہ آپ نے جہالت سے دھوکے میں آکر تصدیق نہیں کی اور یہ ممکن بھی نہیں اس لیے کہ آپ فصاحت و بلاغت کے بادشاہ، تمام اسلامی علوم کا سرچشمہ اور علوم و معارف کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ دوست اور دشمن آپ کی شخصیت اور فضیلت کے معترف ہیں۔

یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ آپ کی تصدیق ظاہری اور سطحی ہو جو دنیاوی منفعت اور جاہ و مال کی خاطر کی گئی ہو، کیونکہ آپ کی ذات مجسمہئ زہد و تقویٰ ہے، جس نے دنیا اور اس کی زینتیں پس پشت ڈال دی تھیں اور مسلمانوں کی حکومت کو اس وقت ٹھکرا دیا تھا جب سیرت شیخین پر چلنے کی شرط لگائی گئی تھی، یہ وہی علی (علیہ السلام) ہیں جنہوں نے معاویہ کے ساتھ اتنی بھی نرمی نہ برتی کہ چند دن اس کے پاس شام کی حکومت رہنے دیتے جبکہ آپ جاتنے تھے کہ اس کو حکومت سے معزول کرنے کا نتیجہ کیا ہوگا۔

لہٰذا ماننا پڑے گا کہ اعجاز قرآن کی یہ تصدیق ایک حقیقی تصدیق تھی جو واقعے کے بالکل مطابق تھی اور جس کی اساس سچا ایمان تھا۔

۱۰۷

اعجازِ قُرآن اور اوہام

٭ پہلا اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ دوسرا اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ تیسرا اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ چوتھا اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ پانچواں اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ چھٹا اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ ساتواں اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ آٹھواں اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ نواں اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ قرآن کا مقابلہ

۱۰۸

قرآن نے پوری انسانیت کو قرآن کی ایک سورۃ کی مثل لانے کا چلنج کیا۔ مگر کوئی انسان اس کا مقابلہ نہ کرسکا۔ دشمنانِ اسلام و دین کو یہ امر نہایت گراں گزرا اور انہوں نے اپنے خیالی شبہارت کے ذریعے قرآن کریم کو اس کے بلند مقام سے گرانے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنے فاسد مذہب کی تائید کرسکیں۔

بہتر ہے کہ ہم ذیل میں وہ شبہات بیان کریں جن پر انہوں نے اپنا وقت ضائع کیا ہے تاکہ ان دشمنان قرآن و اسلام کی علمی سطح سامنے آجائے اور یہ بھی معلوم ہو جائے کہ خواہشات نفسانی انہیں کس طرح گمراہ کن راستوں اور ہلاکتوں کے گڑھے میں پھینکتی ہیں۔

پہلا اعتراض

قرآن کی کچھ باتیں بلاغت کے اعتبار سے معیاری نہیں ہیں کیونکہ وہ عربی قواعد کے خلاف ہیں اور ایسی باتیں معجزہ نہیں ہو سکتیں۔

جواب:

یہ اعتراض دو لحاظ سے باطل ہے:

اولاً: قرآنِ کریم فصحاء و بلغاء عرب کے درمیان نازل ہوا اور ان کو ایک سورۃ تک کے مقابلے کا چیلنج کیا اور یہ بھی اعلان کردیا کہ چاہے سب ملک کر اس کے مقابلے میں آجائیں لیکن قرآن سے مقابلہ کرنا انسانی قدرت سے باہر ہے۔ اگر قرآن میں کلام و قواعدِ عرب کے خلاف کوئی بات ہوتی تو عرب بلغاء جو اسلوب لغت اور اس کی خصوصیات سے آگاہ تھے، فوراً اس کی نشاندھی کرتے، اسے قرآن کے خلاف حجّت و دلیل قرار دیتے اور انہیں زبانوں اور تلواروں سے مقابلہ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اگر قرآن میں ایسی کوئی بات ہوتی تو تاریخ اسے محفوظ کرلیتی۔ اسے دشمنانِ اسلام تواتر کے ساتھ نقل کرتے اور اس کا چرچا ہوتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی کسی بات کو خبرِ واحد بھی نقل نہیں کیا گیا۔

۱۰۹

ثانیاً: قرآن کریم ایسے دور میں نازل کیا گیا، جب قواعد عربی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ان قواعد و ضوابط کو نزولِ قرآن کے بعد بلغاء کے کلمات کے تتبع اور ان کی ترکیبوں کی جستجو کرکے مرتب کیا گیا اور اسے ایک مستقل علم کی شکل دی گئی۔ بغرض تسلیم اگر قرآن کو وحی الہٰی نہ مانا جائے، جس کا کہ فریق مدعی ہے، تب بھی اس کے بلیغ عربی کلام ہونے میں تو کوئی شک نہیں ہے۔ اس بناء پر قرآن کو قواعدِ عربیہ کا مدرک ہونا چاہیے اور اس کا مرتبہ پیغمبر اسلامؐ کے ہم عصر دوسرے بلغاء کے کلام سے کم نہیں ہونا چاہیے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر عربی گرائمر کے جدید کلیے قرآن کے خلاف ہوں تو یہ جدید کلیوں کے ٹوٹنے کے متراف ہوگا اور ان کی وجہ سے قرآن استعمال پر اعتراض نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ یہ اعتراض اس وقت درست ہوتا جب قرآن کی تمام قراءتیں مورد اعتراض عبارت پر متفق ہوتیں۔

انشاء اللہ ہم ثابت کریں گے کہ تمام مشہور قراءتیں قاریوں کے ذاتی اجتہاد کا نتیجہ ہیں اور یہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے تواتر کے ساتھ منقول نہیں ہیں۔ اس بناء پر ان میں سے کسی پر اگر اعتراض کیا جائے تو یہ صرف اسی قراءت پر اعتراض ہوگا اور اس سے قرآن کی عظمت پر کوئی زد نہیں پڑتی۔

۱۱۰

دوسرا اعتراض

کلام بلیغ معجزہ نہیں ہوسکتا، اگرچہ انسان اس کی نظیر پیش نہ کرسکے۔ کیونکہ اس کی بلاغت اور اس کے معجزہ ہونے کے تمام افراد نہیں سمجھ سکتے بلکہ بعض خاص اور محدود افراد سمجھ سکتے ہیں۔

معجزہ وہ ہوسکتا ہے جس کے اعجاز کو تمام انسان سمجھ سکیں، کیونکہ ہر فرد مکلّف ہے کہ وہ صاحب معجزہ کی تصدیق کرے۔

جواب:

پہلے اعتراض کی طرح اس اعتراض کا بھی کوئی وزن نہیں ہے، اس لیے کہ معجزہ کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ تمام لوگ معجزہ کو درک کرسکیں۔ اگر معجزہ کے لیے یہ شرط ہوتی تو کوئی معجزہ معجزہ نہ ہوتا۔ اس لیے کہ اعجاز کو مخصوص لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں جو دوسروں کے نزدیک تواتر سے ثابت ہوتا ہے۔

جیسا کہ ہم نے اس سے قبل بتایا ہے کہ قرآن کو دوسرے معجزات کی نسبت یہ امتیاز حاصل ہے اگرچہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ تواتر کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، لیکن قرآن ایک ایسا ابدی معجزہ ہے جو اس وقت تک باقی رہے گا جب تک عرب قوم باقی ہے بلکہ اس وقت تک باقی رہے گا جب تک ایسا آدمی موجود ہے جو لغت عرب کی خصوصیات سمجھ سکتا ہے، چاہے وہ عرب نہ بھی ہو۔

۱۱۱

تیسرا اعتراض

کوئی بھی انسان جو عربی لغت سے آشنائی رکھتا ہو، الفاظ قرآن میں سے کسی کلمہ کی مثل پیش کرسکتا ہے۔ جب ایک کلمے کی مثل لانا ممکن ہے تو پورے قرآن کی مثل بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ مثلوں (یکساں چیزوں) کاحکم ایک ہی ہوا کرتا ہے۔(۱)

جواب:

یہ ایسا اعتراض ہے جو ذکر اور شمار میں لانے کے قابل ہی نہیں۔ کیونکہ کلمات قرآن میں سے ایک کلمہ، بلکہ جملوں میں سے ایک جملہ کے مثل لانے پر بھی قادر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ پورے قرآن یا ایک سورۃ کی مثل لانے پر بھی قادر ہو، کیونکہ مواد اور مفردات پر قادر ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ترکیب پر بھی قادر ہو۔

اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ ہر انسان دو تین ا نٹییں جوڑ سکتا ہے اس لیے وہ پوری عمارت بنانے پر بھی قادر ہے، اسی طرح یہ بھی کہا جاسکتا کہ چونکہ ہر عرب ایک کلمہ مفردات بنانے کی قدرت رکھتا ہے اس لیے وہ خطبے اور قصیدے بھی کہہ سکتا ہے اور یہی شبہ و اعتراض اس کا باعث بنا کہ نظام (نامی شخص) اور اس کے تابعین اعجازِ قرآن کے بارے میں صرفہ(۲) کے قائل ہوگئے اور یہ قول و نظریہ انتہائی ضعیف ہے کیونکہ:

____________________

(۱) اگر یکساں چیزوں میں سے ایک جائز ہے تو دوسری بھی جائز ہوگی اور اگر ایک ناجائز ہے تو دوسری بھی ناجائز ہوگی۔ (مترجم)

(۲) یعنی انسان تو قرآن کی نظیر لانے پر قادر ہے مگر خدا اس میں مانع ہے۔

۱۱۲

اولاً: اگر ''صرفہ،، کا مطلب یہ ہو کہ خدا انسان کو قرآن کی نظیر پیش کرنے کی قدرت دے سکتا ہے لیکن خدا نے یہ قدرت کسی کو بھی عطا نہیں کی تو یہ مطلب بذاتِ خود صحیح ہے لیکن یہ صرف قرآن سے مختص نہیں ہے بلکہ ہر معجزہ کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے اور اگر ''صرفہ،، کا مطلب یہ ہو کہ لوگ تو قران کی نظیر پیش کرنے پر قادر ہیں لیکن خدا ان کو مقابلہ کرنے سے روکتا ہے تو اس بُطلان واضح ہے۔ کیونکہ بہت سوں نے قرآن کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے اور انوہں نے اپنی عاجزی کا اعتراف کرلیا۔

ثانیاً: اعجاز قرآن اگر صرفہ کی وجہ سے ہوتا تو قرآن کے اس چیلنج سے قبل عربوں کے کلام میں اس کی نظیر موجود ہونی چاہیے تھی اور اگر اس کی نظیر موجود ہوتی تو خبر متواتر کے ذریعے اسے نقل کیا جاتا کیونکہ اس کے نقل کئے جانے کے عوامل اور مقتضی بہت سے ہیں جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگو ںکے کلام میں کہیں بھی اس کی نظیر موجود نہیں ہے اور نہ ہی اسے نقل کیا گیا ہے۔

اس سے ہم اس نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں کہ قرآن بذات خود ایک معجزہ ہے اور یہ بشر کی طاقت سے باہر ہے۔

۱۱۳

چوتھا اعتراض

اگر اعجام قرآن مان بھی لیا جائے پھر بھی نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی نبوّت ثابت نہیں ہوتی جن پر یہ نازل ہوا ہے، کیونکہ قرآن کے قصّے اور واقعات عہد جدید و قدیم کے قصّوں اور واقعات سے مختلف ہیں جن کا وحی الہٰی ہونا تواتر سے ثابت ہے۔

جواب:

قرآن کی طرف سے عہد جدید و قدیم کی کتب میں موجود خرافات اور بے ہودہ قصّوں ہی کی وجہ سے ان کے وحی الہٰی ہونے میں باقی ماندہ شک بھی دُور ہو جاتا ہے کیونکہ قرآن خرافات، شبہات اور ان باتوں سے پاک ہے جن کی خدا اور

انبیاء (علیہم السلام) کی طرف سے نسبت دینا عقلی طور پر جائز نہیں ہے اس بناء پر قرآن کا کتبِ عہدین کے خلاف ہونا ہی اس کے وحیِ الہٰی ہونے کی دلیل ہے۔ ہم گذشتہ مباحث میں کتبِ عہدین میں موجود خرافات کی طرف اشارہ کرچکے ہیں۔

پانچواں اعتراض

قرآن کریم تضاد کا شکار ہے۔ لہٰذا وحی الہٰی نہیں ہوسکتا ان کے خیال میں یہ تضاد بیانی دو جگہ کی گئی ہے۔

پہلی جگہ: خدا کا یہ فرمان:

( قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزًا ۗ ) ۳:۴۱

''ارشاد ہوا کہ تمہاری نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے بات نہ کرسکو گے مگر اشارے سے۔،،

اس آیت کے متضاد ہے:

( قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا ) ۱۹:۱۰

''حکم ہوا تمہاری پہچان یہ ہے کہ تم تین رات (دن) برابر لوگوں سے بات نہیں کرسکو گے۔،،

۱۱۴

جواب:

کبھی تو ''یوم،، سے مراد دن کی سفیدی ہوتی ہے، جس طرح اس آیت کریمہ میں ہے:

( سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا ) ۶۹:۷

''خدا نے اسے (ہوا کو) سات رات اور آٹھ دن لگاتار ان پر چلایا۔،،

''مقرر کردیا اس کو ان پر سات رات اور آٹھ دن تک لگاتار،،

اور کبھی ''یوم،، سے مراد دن رات کا مجموعہ ہوتا ہے، جس طرح اس آیت میں ہے:

( تَمَتَّعُوا فِي دَارِكُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ ) ۱۱ :۶۵

''تب صالح نے کہا اچھا تین دن تک (اور) اپنے اپنے گھر میں فائدہ اٹھالو۔،،

اسی طرح کبھی ''لیل،، سے مراد وہ سارا عرصہ ہوتا ہے جس میں سورج غائب رہتا ہے۔ چنانچہ آیہ میں ہے:

( وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ) ۹۲:۱

''رات کی قسم جب (سورج) کو چھپالے۔،،

( سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا ) ۶۹:۷

''سات رات اور آٹھ دن لگاتار ان پر ہوا چلائی۔،،

اور کبھی اس سے رات کی تاریکی اور دن دونوں مراد ہوتے ہیں جس طرح اس آیہ میں ہے:

( وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَىٰ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ) ۲:۵۱

''اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے موسی سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا تھا۔،،

۱۱۵

لفظ لیل و نہار ان دونوں معنوں میں کثرت سے استعمال ہوتے ہیں اور مذکورہ ان دونوں آیتوں میں ''یوم،، اور ''لیل،، دوسرے (دن اور رات کے) معنی ہیں استعمال کیے گئے ہیں۔ تضاد کا تو ہم اس صورت میں ہوسکتا تھا جب ''یوم،، اور ''لیل،، پہلے معنی(۱) میں استعمال ہوں۔ یہ سب ایک واضح اور ناقابل انکار حقیقت ہے۔ لیکن بعض توہم پرست قرآن کی عظمت کم کرنے کے خیال سے اس حقیقت کا انکار کرتے ہیں جبکہ ان دونوں کلموں ''یوم،، و ''لیل،، کے استعمال سے انجیل پر جو تضاد بیانی لازم آتی ہے اس سے یہ غافل ہیں یا تغافل سے کام لیتے ہیں۔

انجیل متیٰ کے بارہویں باب میں مذکور ہے:

''مسیح نے خبر دی کہ ان کا جسم تین دن یا تین رات زیر زمین مدفون رہے گا۔،،

جبکہ اسی انجیل متیٰ اور باقی تین انجیلوں کا اتفاق ہے کہ حضرت مسیح روز جمعہ کے آخری کچھ وقت، ہفتہ کی رات اور زمین اور اتوار کی رات، صبح سے پہلے تک زیر زمین رہے۔

انجیلوں کے آخری حصّے کا مطالعہ کری اور پھر انجیل متیٰ کے لکھنے ولوں اور اس کی وحی الہٰی سمجھنے والوں سے پوچھیں کہ تین دن اور تین راتیں کیسے بنتی ہیں؟

مقام حیرت ہے کہ مغربی سائنس دان اور مفکّرین کتب عہدین، جو خرافات اور تضادات سے بھری پڑی ہیں، پر ایمان لاتے ہیں لیکن اس قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے جو بشر کی ہدایت اور دنیا و آخرت میں سبکی سعادت کی ضمانت دیتا ہے۔ لیکن تعصّب ایک ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں اور حق کے متلاشی کم ہی ہوتے ہیں۔

____________________

(۱) یوم: دن کی روشنی ۔۔۔ لیل: رات کی تاریکی۔ (مترجم)

۱۱۶

دوسری جگہ: قرآن کبھی تو اعمال کی نسبت بندوں کی طرف دیتا ہے اورکہتا ہے کہ بندے اپنے ارادہ و اختیار سے اعمال انجام دیتا ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ) ۱۸:۲۹

''بس جو چاہے مانے اور جو چاہے نہ مانے۔،،

اس معنی کی اور بہت سی آیات ہیں جو انسانوں کے اپنے اعمال اور افعال میں خود مختار ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور کبھی

یہ افعال کی نسبت خدا کی طرف دیتا ہے اور اسی کو مختار کل قرار دیتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ ۚ ) ۷۶:۳۰

''جب تک خدا کو منظور نہ ہو تو لوگ کچھ بھی چاہ نہیں سکتے۔،،

مخالفین قرآن کا گمان یہ ہے کہ اس آیہ کے مطابق بندے اپنے افعال میں مجبور ہیں اور ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ ایک واضح تضاد ہے اور ان آیات کی توجیہ و تاویل کرناظاہر قرآن کے خلاف اور دعویٰ بلا دلیل ہے۔

جواب: ہر انسان فطری طور پر یہ سمجھتا ہے کہ بعض افعال اس کی قدرت اور اختیار میں ہیں جنہیں وہ انجام بھی دے سکتا ہے اور ترک بھی کرسکتا ہے۔ یہ ایک فطری حکم اور فیصلہ ہے، اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں! اگر بیرونی عوامل کی وجہ سے کوئی شک و شبہ پیدا ہوجائے تو دوسری بات ہے۔

چنانچہ تمام عقلاء کا اتفاق ہے کہ برے کاموں پر انسان کی مذمت کی جاتی ہے اور نیک کاموں پر اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ انسان اپنے کاموں میں خود مختار ہے اور وہ یہ افعال انجام دینے پر مجبور نہیں ہے۔

۱۱۷

مثلاً عقلمند بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اگرچہ بعض افعال اس کے دائرہئ اختیار میں ہیں چاہے وہ انہیں انجام دے اور چاہے انہیں ترک کردے لیکن ان کے اکثر مقدمات اس کے اختیار سے باہر ہیں۔ مثلاً ان مقدمات میں انسان کا اپنا وجود، زندگی، کسی فعل کو درک کرنا اور اس فعل کا شوق اور اسے چاہنا، اس فعل کا انسانی خواہشات میں سے کسی ایک خواہش سے سازگار ہونا اور اس کے ایجاد پر قادر ہونا۔ یہ امور ان مقدّمات میں شامل ہیں۔ ظاہر ہے اس قسم کے مقدّمات انسان کے اختیار سے خارج ہیں اور ان امور کی موجد اور فاعل حقیقی وہی ذات ہے جو خود انسان کی موجد اور خالق ہے۔

یہ بات اپنے مقام پر مسلم ہے کہ انسان میں موجود ان اشیاء کا خالق انہیں خلق فرمانے کے بعد منعزل اور دست بردار نہیں ہو جاتا بلکہ یہ اشیاء اپنی بقاء کے لیے ہر لمحہ میں اس موثر اور خالق حقیقی کی محتاج ہےں۔

خالق کائنات کی مثال ایک معمار کی سی نہیں ہے کہ وہ اپنی کاریگری سے ایک مرتبہ دیوار بنا دے اور اس کے بعد دیوار اپنے بنانے والے سے بے نیاز ہو جائے اور بنانے والے کے مرنے کے بعد بھی یہ دیوار قائم دائم رہے۔ اور نہ اس مؤلف کی طرح ہے کہ کتاب اپنے وجود میں تو اس کی محتاج ہے لیکن اپنی بقا میں اس سے بے نیاز ہے بلکہ خالق کائنات کی مثال (''و للہ المثل الا علیٰ،، یعنی اگرچہ خدا تمام مثالوں سے بالاتر ہے) اس بجلی کے پاور ہاؤس کی مانند ہے جو روشنی کے لیے مؤثر ہے۔ ظاہر ہے جب تک تاروں کے ذریعے پاور ہاؤس سے کرنٹ نہ ملے روشنی نہیں ہوسکتی اور روشنی، ایک مرتبہ روشنی ملنے کے بعد بھی اپنی بقاء میں لمحہ بہ لمحہ اس کرنٹ اور پاور کی محتاج ہے اور جب بلب کی تار پاور ہاؤس سے جدا ہو جائے تو فوراً اس کی روشنی ختم ہو جاتی ہے گویا کہ روشنی کبھی تھی ہی نہیں۔

اسی طرح پوری کائنات اپنے وجود اور بقاء دونوں میں اپنے موجد اور خالق کی محتاج ہے اور ہر آن و لحظہ اس کی مدد کی نیاز مند ہے اور اس رحمتِ واسعہ سے مستفیض ہوتی رہتی ہے جو ہر چیز کو شامل ہے۔ اس بیان کی روشنی میں یہ معلوم ہوا کہ انسانی اعمال و افعال، جبر و تفویض کا ایک درمیانی راستہ ہے اور انسان جبر و تفویض دونوں سے بہرہ مند ہے۔ کیونکہ اگرچہ انسان فعل و ترک میں خدا داد قدرت سے کام لینے میں خود مختار ہے لیکن جس قدرت و طاقت سے یہ کام انجام پارہا ہے وہ ہر آن اور ہر لمحہ اللہ کی طرف سے مل رہی ہوتی ہے۔

۱۱۸

اس بنا پر افعال ایک لحاظ سے بندوں کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور دوسرے اعتبار سے خدا کی طرف اور یہ قرآنی آیات اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں یعنی افعال و اعمال میں انسان کے خود مختار ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ان افعال میں قدرت الہٰی کار فرما نہ ہو۔ ہم ذیل میں اس سے ملتی جلتی ایک مثال پیش کریں گے تاکہ ''امر بین الامرین،، کی حقیقت قارئین محترم کے سامنے واضح ہو جائے اس کے شیعہ امامیہ قائل ہیں۔ ائمہ معصومین نے جس کی تصریح فرمائی ہے اورکتابِ الہٰی بھی جس کی طرف اشارہ کررہی ہے۔

فرض کیجئے کسی انسان کا ہاتھ مفلوج ہے اور وہ اسے حرکت نہیں دے سکتا لیکن ایک ڈاکٹر کرنٹ کے ذریعے وہ ہاتھ قابل حرکت بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یعنی جب ڈاکٹر بجلی کی تار کے ذریعے مریض اپنے ہاتھ کو حرکت نہیں دے سکتا۔ جب جب ڈاکٹر مریض کے ہاتھ کو بجلی دے رہا ہو اور مریض اپنے ہاتھ کو حرکت دینا اور اس سے کام لینا شروع کردے اور ادھر ڈاکٹر بجلی کے ذریے برابر اس کو طاقت پہنچا رہاہو تو اس صورت میں مریض کا اپنے ہاتھ کو حرکت دینا ''امر بین الامرین،، کے مصداق ہے۔ کیونکہ نہ تو اس حرکت کو مستقلاً مریض کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے اس لیے کہ جب تک ڈاکٹر قوت نہ پہنچائے مریض اپنے ہاتھ کو حرکت نہیں دے سکتا اور نہ اسے مستقل طور پر ڈاکٹر کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے اس لیے کہ اگرچہ طاقت ڈاکٹر کے ذریعے حاصل ہو رہی ہے لیکن ہاتھ میں حرکت مریض کے ارادے کے نتیجے میں وجود میں آئے گی۔

اس بنا پر اس فاعل کو نہ تو فعل پر مجبور کیا گیا ہے چونکہ وہ با ارادہ ہے اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فعل مکّمل طور پر فاعل کو تفویض کردیا گیا ہے اس لیے کہ مدد اور طاقت تو اسے دوسرے سے ملی ہے۔ فاعل مختار انسانوں سے جتنے بھی کام صادر ہوتے ہیں وہ سب اسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ سارے افعال انسان کی مشیئت اور اس کے ارادے سے انجام پاتے ہیں لیکن بندے کی مشیئت اور اس کا ارادہ، مشیئت و ارادہئ خدا کی مرہونِ منت ہے۔ قرآن کی آیات بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اس طرح یہ جبر کو باطل قرار دیتی ہیں جس کے اکثر اہل سنت قائل ہیں۔ کیونکہ یہ آیات خود مختاری کو ثابت کرتی ہیں اور مکمل تفویض کو بھی باطل قرار دیتی ہےں جس کے بعض اہل سنت قائل ہیں کیونکہ یہ آیات افعال کی نسبت خدا کی طرف دیتی ہیں۔ ان آیات کی تفسیر کے دوران ہم اس بحث کی تفصیل بیان کریں گے۔ اور ان دونوں نظریات ''جبر،، اور ''تفویض،، کو باطل ثابت کریں گے۔

۱۱۹

ہم نے اب تک جو کچھ کہا ہے وہ ائمہ اہل بیت (علیہم السلام) کے ارشادات سے مستفاد ہے۔ یہی وہ ہستیاں ہیں جنہیں خالق متعال نے ہر قسم کے رجس اور آلودگی سے پاک و منزہ فرمایا ہے، ان کی بعض روایات کا ہم یہاں ذکر کریں گے۔

راوی کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا:

قلت: أجبر الله العباد علی المعاصی؟ قال: لا ۔قلت: ففوض الیهم الأمر؟ قال: لا ۔قال: قلت : فماذا؟ قال: لطف من ربک بین ذلک (۱)

''کیا خدا نے اپنے بندوں کو معصیت پر مجبور کیا ہے؟

آپ نے فرمایا: نہیں۔

میں نے کہا: کیا ہر چیز کو ان کے سپرد کردیا ہے؟

آپ نے فرمایا: نہیں۔

میں نے پوچھا: پھر حقیقت حال کیا ہے؟

آپ نے فرمایا: ان دونوں کے درمیان خدا کی طرف سے ایک لطف ہے۔،،

ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:

لا جبر ولاقدر، و لکن منزلة بینهما (۲)

''نہ جبر اور نہ تفویض بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک مرحلہ ہے۔،،

امامیہ اثنا عشری کی کتبِ احادیث میں اس مضمون کی کافی روایات موجود ہیں۔

___________________

(۱) کافی: کتاب التوحید، باب الجبر و القدر و المر بین الامرین۔

(۲) ایضاً۔

۱۲۰