البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314011 / ڈاؤنلوڈ: 9314
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

پس خالق متعال نے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ازدواج کی سنت حیوانات سے ہی مختص نہیں ہے بلکہ نباتات اور ان کی تمام اقسام میں بھی اس سنت پر عمل ہوتا ہے، ارشاد ہوتا ہے:

( وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ ) ۱۳:۳

''اور اس نے ہر طرح کے میووں کی دو دو قسمیں پیدا کیں۔

( سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ ) ۳۶:۳۶

''وہ (ہر عیب سے) پاک صاف ہے جس نے زمین سے اگنے والی چیزوں اور خود ان لوگوں کے اور ان چیزوں کے جن کی انہیں خبر نہیں سب کے جوڑے پیدا کئے۔،،

جن رازوں کو قرآن کریم نے منکشف کیا ہے ان میں سے ایک حرکت زمین ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا ) ۲۰:۵۳

''وہ ہی ہے جس نے تمہارے (فائدے کے)واسطے زمین کو (گہوارہ) بنایا۔،،

توجہ فرمائیں! یہ آیہ شریفہ کس دلکش انداز میں حرکت کی طرف اشارہ اور اس حقیقت کو بے نقاب کررہی ہے جسے انسان صدیوں سے سمجھ سکا ہے، اس آیہ شریفہ میں زمین کو ''مہد،، (گہوارہ) سے تعبیر کیا جارہا ہے جو شیر خوار بچوں کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے تاکہ اس کی آہستہ اور پرسکون حرکت سے بچہ آرام کی نیند سوجائے۔ کرہئ زمین بھی انسان کے لیے گہوارہ کی مانند جس کی حرکت وضعی اور حرکت انتقالی کے نتیجے میں اس پر بسنے والی مخلوق کو آرام و سکون ملتا ہے، جس طرح گہوارے کی حرکت کے ساتھ ساتھ بچہ پرورش پاتاہے اسی طرح زمین کی روزانہ اورسالانہ حرکت کے نتیجہ میں انسان اور کائنات کی دوسری مخلوقات پرورش پاتی ہیں۔

۱۰۱

آپ نے دیکھا کہ اس آیہ کریمہ میں حرکت زمین کی طرف ایک لطیف اشارہ کیا گیا ہے اور بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ زمین کے لئے حرکت کرتی ہے۔ اس لیے کہ یہ آیہ کریمہ ایسے زمانے میں نازل کی گئی جب تمام عقلاء زمین کے ساکن ہونے پر متفق تھے بلکہ اسے مسلمات میں شمار کیا جاتا تھا اور یہ امر قابل شک و تردید نہیں تھا۔(۱)

جن بھیدوں کو قرآن کریم نے چودہ صدیاں قبل آشکارا کیا ان میں سے ایک، ایک اور براعظم کے وجود کا انکشاف ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ ) ۵۵:۱۷

''وہی (جاڑے گرمی کے) دونوں مشرقوں کا مالک اور دونوں مغربوں کا (بھی) مالک ہے۔،،

یہ آیہ کریمہ کئی سال تک مفسرّین کی توجہات کا مرکز بنی رہی اور اس کی تفسیر میں مختلف نظریئے قائم کئے گئے۔ بعض مفسرین نے فرمایا، ''مشرقین،، سے مراد شرق شمس اور غرب قمر ہے۔ بعض نے فرمایا ''مشرقین،،سے مراد موسم سرما و گرما کے طلوع و غروب ہیں۔ لیکن ظاہراً ایسا نہیں ہے، بلکہ اس آیہ شریفہ ''مشرقین،، ایک اور برّاعظم کی طرف اشارہ ہے جو کہ دوسری سطح پر ہے، جہاں سورج جب طلوع ہوتا ہے تو دوسری طرف غروب ہوجاتا ہے، اس نظریہ کی دلیل یہ آیہ شریفہ ہے:

( حَتَّىٰ إِذَا جَاءَنَا قَالَ يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ ) ۴۳:۳۸

''جب (قیامت میں ) ہمارے پاس آئے گا تو (اپنے ساتھی شیطان سے) کہے گا کاش مجھ میں اور تجھ میں پورے پچھم کافاصلہ ہوتا۔،،

____________________

(۱) ایک ہزار ہجری کے بعدکلیلو نے جرت کرتے ہوئے زمین کی دو حرکتیں ''وضعیہ اور انتقالیہ،، ثابت کیں جس کی وجہ سے اس کی سخت توہین کی گئی اور اس پر اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ قریب المرگ ہویا۔ اس کے بعد اس عظیم علمی شخصیت کو طویل عرصہ تک قید میں رکھا گیا، جس کے بعد یورپی سائنس دان چرچ کی قدامت پسندانہ خرافات کے خوف سے اپنی جدید اور عمدہ تحقیق کو پوشیدہ رکھنے لگے جو ان فرسودہ خرافات کے خلاف تھی۔

۱۰۲

اس آیہ کریمہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مشرقین کے درمیان فاصلہ ان تمام مسافتوں سے زیادہ ہے جنہیں انسان محسوس کرسکتا ہے اور شرق شمس اور شرق قمر کے درمیان فاصلہ اتنا زیادہ نہےں ہے جو تمام مسافتوں سے زیادہ ہو، اس لیے مشرقین سے مراد مشرق و مغرب کی مسافت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کرہئ ارض کے ایک حصّے کا مغرب، دوسرے حصّے کا مشرق ہے اور اسی صورت میں ''مشرقین،، کا اطلاق صحیح ہوگا۔ بنابراین آیہ کریمہ زمین کے جزء کے موجود ہونے پر دلالت کرتی ہے جس کا انکشاف نزولِ قرآن کے سینکڑوں سال بعد کیا گیا ہے۔

اسی بناء پر قرآنِ کریم میں ''مغرب،، اور ''مشرق،، جہاں واحد کی صورت میں استعمال کئے گئے ہیں، اس سے مراد جنس مشرق اور مغرب ہے۔ جس طرح ''خلق الانسان،، ہے۔ ورنہ انسان ایک نہیں اربوں ہیں۔ جیسا کہ آیتِ شریفہ میں ہے:

( وَلِلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ ۚ ) ۲:۱۱۵

''(ساری زمین) خدا ہی کی ہے (کیا) پورب (کیا) پچھم پس جہاں کہیں (قبلہ کی طرف) رُخ کرلو، وہیں خدا کا سامنا ہے۔،،

اور جہاں ''مشرق،، اور ''مغرب،، کو تثنیہ کی صورت میں استعمال کیا گیا ہے اس سے مراد دوسرا براعظم ہے جو زمین کی دوسری سطح پر ہے۔ جہاں ''مغرب،، اور ''مشرق،، کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اس سے مراد زمین کے مختلف حصے ہیں، جس طرح ان آیات میں ہے:

( وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۖ ) ۷:۱۳۷

''اور جن بے چاروں کو یہ لوگ کمزور سمجھتے تھے انہی کو (ملکِ شام کی) زمین کے پورپ پچھم (سب) کا وارث (و مالک) بنا دیا۔،،

۱۰۳

( رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ ) ۳۷:۵

''جو سارے آسمان اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اور مشرقوں کا پروردگار ہے۔،،

( فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ ) ۷۰:۴۰

''تو میں مشرقوں و مغربوں کی پروردگار کی قسم کھاتا ہوں کہ ہم ضرور اس بات کی قدرت رکھتے ہیں۔،،

ان آیات کریمہ سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ طلوع شمس اور غروب شمس کے مقامات متعدد ہیں اور اس میں زمین کے گول ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، کیونکہ جب سورج کرہئ ارض کے ایک رخ پر طلوع ہوگا تو لامحالہ دوسرے رُخ پر غروب ہوگا۔

یہ مسئلہ واضح ہے، متعدد مشرق و مغرب ثابت کرنے کے لیے کسی زحمت کی ضرورت نہیں ہے، جس میں قرطبی پڑگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''مشارق و مغارب،، سے مراد ایامِ سال کے مشرق و مغرب ہیں۔(۱) لیکن اس زحمت کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ طلوع آفتاب کی کوئی خاص اور معین جگہیں نہیں ہیں جن کی قسم کھائی جائے، بلکہ زمینوں کے حصّے مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ ''مشارق،، بھی مختلف ہیں۔ پس معلوم ہو ا کہ ''مشارق،، اور ''مغارب،، سے مراد زمین کے وہ حصّے ہیں

جو زمین کے گول اور متحرک ہونے کی وجہ سے بتدریج سورج کے سامنے آتے رہتے ہیں۔

ائمہ (علیہم السلام) کی روایات، دعائیں اور خطبے بھی زمین کے گول ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

___________________

(۱) یعنی جتنے دن ہوں گے اتنے ہی مشرق و مغرب ہوں گے۔(مترجم)

۱۰۴

صحبنی رجل کان یمسی بالمغرب و یغلس بالفجر، و کنت انا اصلی المغرب اذا غربت الشمس، اصلی الفجر اذا استبان الفجر ۔فقال لی الرجل: ما یمنعک ان تصنع مثل ما اصنع؟ فان الشمس تطلع علی قوم قبلنا و تغرب عنا، و هی طالعة علی قوم آحرین بعد ۔فقلت: انما علینا ان نصلی اذا وجبت الشمس عنا و اذا طلع الفجر عندنا، و علی اولئک ان یصلوا اذا غربت الشمس عنهم (۱)

''بعض سفروں میں میرا ایک ہمسفر، نماز مغرب، رات گئے اور نماز صبح، آخر شب(۲) میں پڑھا کرتا تھا، جبکہ میں نماز مغرب، غروب آفتاب اور نماز صبح، طلوع فجر کے فورا بعد پڑھ لیا کرتا تھا۔ اس شخص نے مجھ سے کہا: آپ بھی میری طرح نماز پڑھیئے، بعض لوگوں پر (دوسرے شہروں میں) سورج ہم سے پہلے طلوع ہوجاتا ہے اور اس وقت ہماری طرف غروب ہوتا ہے اور بعض مقامات پر سورج ابھی موجود ہوتا ہے، میں نے اس شخص سے کہا: ہماری شرعی تکلیف یہ ہے کہ جب ہماری طرف سورج غروب ہو تو نماز مغرب پڑھیں اور جب ہمارے یہاں طلوع فجر ہو تو نماز صبح پڑھیں اور دوسرے شہروں کے لوگوں کی شرعی تکلیف یہ ہے کہ وہ اپنے شہروں کے غروب کے مطابق نماز پڑھیں۔،،

اس روایت میں امام کا ہمسفر، زمین گول ہونے کی وجہ سے مشرق و مغرب میں جو تفاوت پیدا ہوتا ہے اس سے اپنے مدعا پر استدلال کررہا تھا امام نے اس کی اس بات سے اتفاق کیا لیکن نماز کے سلسلے میں جو شرعی تکلیف ہے اس کی طرف اسے متوجہ کیا۔

اس قسم کی دوسری روایت میں امام فرماتے ہیں:

انما علیک شرقک و مغربک

''تجھے اپنے مشرق و مغرب کا خیال رکھنا چاہیے،،

اسی طرح امام زین العابدین اپنی صبح و شام کی دعاؤں میں فرماتے ہیں:

و جعل لکل واحد منهما حداً محدوداً، و أمداً ممدوداً، یولج کل واحد منهما فی صاحبه، و یولج

''اور خدا نے ایک خاص اندازے کے مطابق دن اور رات کے لیے ایک معین حد اور خاص مدّت مقرر کی وہ دن

____________________

(۱) الوسائل، ج ۱، ص ۲۳۷، باب ۱۱۶، ان الوقت المغرب غروب شمس۔

(۲) قبل از طلوع فجر (مترجم)

۱۰۵

صاحبه فیه بتقدیر منه للعباد (۱)

کو رات میں داخل کرتا ہے اور اسی وقت رات کو دن میں داخل کرتا ہے، اسی اندازے کے مطابق جو اپنے بندوں کے لیے مقرر کیا ہے۔،،

امام اپنے اس شیریں اور دلکش بیان سے زمین گول ہونے کی وضاحت فرمارہے ہیں، چونکہ یہ مطلب اس زمانے کے لوگوں کے ذہنوں سے بہت دور تھا اس لیے آپ نے ایک بلیغ انداز میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

اگر امام یہ بتانا چاہتے کہ کبھی رات گھٹ جاتی ہے اور دن اسی تناسب سے بڑھ جاتا ہے اور کبھی دن گھٹ جاتا ہے اور رات اسی تناسب سے لمبی ہو جاتی ہے، جس کا مشاہدہ عام لوگ بھی کرتے ہیں تو امام صرف پہلے جملے ''یولج کل واحد منھما فی صاحبہ،، پر اکتفاء کرتے اور دوسرے جملے ''یولج صاحبہ فیہ،، کی ضرورت نہ ہوتی اس بناء پر دوسرا جملہ یہ بتانے کے لیے ارشاد فرمایا کہ جب دن کو رات میں داخل کیا جاتا ہے تو اسی وقت رات کو بھی دن میں داخل کیا جاتا ہے اسی طرح جب رات کو دن میں داخل کیا جاتا ہے تو دن کو بھی رات میں داخل کیا جاتا ہے کیونکہ ظاہر کلام سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ دوسرا جملہ پہلے جملے کی حالت بیان کررہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام کی یہ تعبیر زمین کے گول ہونے کے علاوہ اس حقیقت پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جب ہمارے یہاں رات کو دن میں داخل کیا جاتا ہے تو اسی وقت دوسرے شہروںمیں دن کو رات میں داخل کیا جاتا ہے اگر امام اس اہم نکتے کی طرف اشارہ نہ فرمانا چاہتے تو اس دوسرے جملے ''و یولج صاحبہ،، کا کوئی فائدہ نہ ہوتا بلکہ یہ معنوی اعتبار سے پہلے جملے کی تکرار ہوتا۔

ہم اس کتاب میں اعجاز قرآن کے انہی مذکورہ پہلوؤں پر اکتفا کرتے ہیں۔ اسی سے ثابت ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم وحی الہٰی ہے اور یہ بشر کی طاقت سے باہر ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم کے وی الہی ہونے کو ثابت کرنے کےلئے یہی دلیل کافی ہے کہ قرآن وہ یگانہ مدرسہ ہے جس کی فارغ التحصیل ذات اقدس حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ہیں جن کا کلام سمجھنے کے بعد بڑے بڑے دانش مند فخر کرتے ہیں اور جن کے بحر علم سے نامور محققین سیراب ہوتے ہیں۔

____________________

(۱) صحیفہ سجادیہ کامل

۱۰۶

نہج البلاغۃ کے خطبات آپ کے سامنے ہیں۔ جب آپ کسی موضوع پر لب کشائی فرماتے تو اس میں کسی اور کے لیے گنجائش باقی نہ رہنے دیتے۔ حتیٰ کہ جن کو آپ کی معرفت نہیںہے وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی ساری عمر اسی موضوع پر تحقیق کرنے میں گزار دی ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے علوم و معارف وحی الہٰی سے جاملتے ہیں کیونکہ جو آدمی جزیرۃ العرب خاص کر حجاز کی تاریخ سے آگاہ ہے وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ علوم سرچشمہئ وحی سے نہیں لئے گئے۔

نہج البلاغۃ کی تعریف میں یہ جملہ بہترین کہا گیا ہے:

''انه دون کلام الخالق و فوق کلام المخلوق،،

''بیشک یہ کلامِ خالق سے نیچے اور کلامِ مخلوق سے بالاتر ہے۔،،

بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ علی (علیہ السلام) جیسے فصیح و بلیغ اور دریائے علم و عرفان انسان کا اعجاز قرآن کی تصدیق کرنا خود اس کی دلیل ہے کہ قرآن اعجام الہٰی ہے۔ کیونکہ یہ مسلم ہے کہ آپ نے جہالت سے دھوکے میں آکر تصدیق نہیں کی اور یہ ممکن بھی نہیں اس لیے کہ آپ فصاحت و بلاغت کے بادشاہ، تمام اسلامی علوم کا سرچشمہ اور علوم و معارف کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ دوست اور دشمن آپ کی شخصیت اور فضیلت کے معترف ہیں۔

یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ آپ کی تصدیق ظاہری اور سطحی ہو جو دنیاوی منفعت اور جاہ و مال کی خاطر کی گئی ہو، کیونکہ آپ کی ذات مجسمہئ زہد و تقویٰ ہے، جس نے دنیا اور اس کی زینتیں پس پشت ڈال دی تھیں اور مسلمانوں کی حکومت کو اس وقت ٹھکرا دیا تھا جب سیرت شیخین پر چلنے کی شرط لگائی گئی تھی، یہ وہی علی (علیہ السلام) ہیں جنہوں نے معاویہ کے ساتھ اتنی بھی نرمی نہ برتی کہ چند دن اس کے پاس شام کی حکومت رہنے دیتے جبکہ آپ جاتنے تھے کہ اس کو حکومت سے معزول کرنے کا نتیجہ کیا ہوگا۔

لہٰذا ماننا پڑے گا کہ اعجاز قرآن کی یہ تصدیق ایک حقیقی تصدیق تھی جو واقعے کے بالکل مطابق تھی اور جس کی اساس سچا ایمان تھا۔

۱۰۷

اعجازِ قُرآن اور اوہام

٭ پہلا اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ دوسرا اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ تیسرا اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ چوتھا اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ پانچواں اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ چھٹا اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ ساتواں اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ آٹھواں اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ نواں اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ قرآن کا مقابلہ

۱۰۸

قرآن نے پوری انسانیت کو قرآن کی ایک سورۃ کی مثل لانے کا چلنج کیا۔ مگر کوئی انسان اس کا مقابلہ نہ کرسکا۔ دشمنانِ اسلام و دین کو یہ امر نہایت گراں گزرا اور انہوں نے اپنے خیالی شبہارت کے ذریعے قرآن کریم کو اس کے بلند مقام سے گرانے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنے فاسد مذہب کی تائید کرسکیں۔

بہتر ہے کہ ہم ذیل میں وہ شبہات بیان کریں جن پر انہوں نے اپنا وقت ضائع کیا ہے تاکہ ان دشمنان قرآن و اسلام کی علمی سطح سامنے آجائے اور یہ بھی معلوم ہو جائے کہ خواہشات نفسانی انہیں کس طرح گمراہ کن راستوں اور ہلاکتوں کے گڑھے میں پھینکتی ہیں۔

پہلا اعتراض

قرآن کی کچھ باتیں بلاغت کے اعتبار سے معیاری نہیں ہیں کیونکہ وہ عربی قواعد کے خلاف ہیں اور ایسی باتیں معجزہ نہیں ہو سکتیں۔

جواب:

یہ اعتراض دو لحاظ سے باطل ہے:

اولاً: قرآنِ کریم فصحاء و بلغاء عرب کے درمیان نازل ہوا اور ان کو ایک سورۃ تک کے مقابلے کا چیلنج کیا اور یہ بھی اعلان کردیا کہ چاہے سب ملک کر اس کے مقابلے میں آجائیں لیکن قرآن سے مقابلہ کرنا انسانی قدرت سے باہر ہے۔ اگر قرآن میں کلام و قواعدِ عرب کے خلاف کوئی بات ہوتی تو عرب بلغاء جو اسلوب لغت اور اس کی خصوصیات سے آگاہ تھے، فوراً اس کی نشاندھی کرتے، اسے قرآن کے خلاف حجّت و دلیل قرار دیتے اور انہیں زبانوں اور تلواروں سے مقابلہ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اگر قرآن میں ایسی کوئی بات ہوتی تو تاریخ اسے محفوظ کرلیتی۔ اسے دشمنانِ اسلام تواتر کے ساتھ نقل کرتے اور اس کا چرچا ہوتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی کسی بات کو خبرِ واحد بھی نقل نہیں کیا گیا۔

۱۰۹

ثانیاً: قرآن کریم ایسے دور میں نازل کیا گیا، جب قواعد عربی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ان قواعد و ضوابط کو نزولِ قرآن کے بعد بلغاء کے کلمات کے تتبع اور ان کی ترکیبوں کی جستجو کرکے مرتب کیا گیا اور اسے ایک مستقل علم کی شکل دی گئی۔ بغرض تسلیم اگر قرآن کو وحی الہٰی نہ مانا جائے، جس کا کہ فریق مدعی ہے، تب بھی اس کے بلیغ عربی کلام ہونے میں تو کوئی شک نہیں ہے۔ اس بناء پر قرآن کو قواعدِ عربیہ کا مدرک ہونا چاہیے اور اس کا مرتبہ پیغمبر اسلامؐ کے ہم عصر دوسرے بلغاء کے کلام سے کم نہیں ہونا چاہیے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر عربی گرائمر کے جدید کلیے قرآن کے خلاف ہوں تو یہ جدید کلیوں کے ٹوٹنے کے متراف ہوگا اور ان کی وجہ سے قرآن استعمال پر اعتراض نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ یہ اعتراض اس وقت درست ہوتا جب قرآن کی تمام قراءتیں مورد اعتراض عبارت پر متفق ہوتیں۔

انشاء اللہ ہم ثابت کریں گے کہ تمام مشہور قراءتیں قاریوں کے ذاتی اجتہاد کا نتیجہ ہیں اور یہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے تواتر کے ساتھ منقول نہیں ہیں۔ اس بناء پر ان میں سے کسی پر اگر اعتراض کیا جائے تو یہ صرف اسی قراءت پر اعتراض ہوگا اور اس سے قرآن کی عظمت پر کوئی زد نہیں پڑتی۔

۱۱۰

دوسرا اعتراض

کلام بلیغ معجزہ نہیں ہوسکتا، اگرچہ انسان اس کی نظیر پیش نہ کرسکے۔ کیونکہ اس کی بلاغت اور اس کے معجزہ ہونے کے تمام افراد نہیں سمجھ سکتے بلکہ بعض خاص اور محدود افراد سمجھ سکتے ہیں۔

معجزہ وہ ہوسکتا ہے جس کے اعجاز کو تمام انسان سمجھ سکیں، کیونکہ ہر فرد مکلّف ہے کہ وہ صاحب معجزہ کی تصدیق کرے۔

جواب:

پہلے اعتراض کی طرح اس اعتراض کا بھی کوئی وزن نہیں ہے، اس لیے کہ معجزہ کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ تمام لوگ معجزہ کو درک کرسکیں۔ اگر معجزہ کے لیے یہ شرط ہوتی تو کوئی معجزہ معجزہ نہ ہوتا۔ اس لیے کہ اعجاز کو مخصوص لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں جو دوسروں کے نزدیک تواتر سے ثابت ہوتا ہے۔

جیسا کہ ہم نے اس سے قبل بتایا ہے کہ قرآن کو دوسرے معجزات کی نسبت یہ امتیاز حاصل ہے اگرچہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ تواتر کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، لیکن قرآن ایک ایسا ابدی معجزہ ہے جو اس وقت تک باقی رہے گا جب تک عرب قوم باقی ہے بلکہ اس وقت تک باقی رہے گا جب تک ایسا آدمی موجود ہے جو لغت عرب کی خصوصیات سمجھ سکتا ہے، چاہے وہ عرب نہ بھی ہو۔

۱۱۱

تیسرا اعتراض

کوئی بھی انسان جو عربی لغت سے آشنائی رکھتا ہو، الفاظ قرآن میں سے کسی کلمہ کی مثل پیش کرسکتا ہے۔ جب ایک کلمے کی مثل لانا ممکن ہے تو پورے قرآن کی مثل بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ مثلوں (یکساں چیزوں) کاحکم ایک ہی ہوا کرتا ہے۔(۱)

جواب:

یہ ایسا اعتراض ہے جو ذکر اور شمار میں لانے کے قابل ہی نہیں۔ کیونکہ کلمات قرآن میں سے ایک کلمہ، بلکہ جملوں میں سے ایک جملہ کے مثل لانے پر بھی قادر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ پورے قرآن یا ایک سورۃ کی مثل لانے پر بھی قادر ہو، کیونکہ مواد اور مفردات پر قادر ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ترکیب پر بھی قادر ہو۔

اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ ہر انسان دو تین ا نٹییں جوڑ سکتا ہے اس لیے وہ پوری عمارت بنانے پر بھی قادر ہے، اسی طرح یہ بھی کہا جاسکتا کہ چونکہ ہر عرب ایک کلمہ مفردات بنانے کی قدرت رکھتا ہے اس لیے وہ خطبے اور قصیدے بھی کہہ سکتا ہے اور یہی شبہ و اعتراض اس کا باعث بنا کہ نظام (نامی شخص) اور اس کے تابعین اعجازِ قرآن کے بارے میں صرفہ(۲) کے قائل ہوگئے اور یہ قول و نظریہ انتہائی ضعیف ہے کیونکہ:

____________________

(۱) اگر یکساں چیزوں میں سے ایک جائز ہے تو دوسری بھی جائز ہوگی اور اگر ایک ناجائز ہے تو دوسری بھی ناجائز ہوگی۔ (مترجم)

(۲) یعنی انسان تو قرآن کی نظیر لانے پر قادر ہے مگر خدا اس میں مانع ہے۔

۱۱۲

اولاً: اگر ''صرفہ،، کا مطلب یہ ہو کہ خدا انسان کو قرآن کی نظیر پیش کرنے کی قدرت دے سکتا ہے لیکن خدا نے یہ قدرت کسی کو بھی عطا نہیں کی تو یہ مطلب بذاتِ خود صحیح ہے لیکن یہ صرف قرآن سے مختص نہیں ہے بلکہ ہر معجزہ کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے اور اگر ''صرفہ،، کا مطلب یہ ہو کہ لوگ تو قران کی نظیر پیش کرنے پر قادر ہیں لیکن خدا ان کو مقابلہ کرنے سے روکتا ہے تو اس بُطلان واضح ہے۔ کیونکہ بہت سوں نے قرآن کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے اور انوہں نے اپنی عاجزی کا اعتراف کرلیا۔

ثانیاً: اعجاز قرآن اگر صرفہ کی وجہ سے ہوتا تو قرآن کے اس چیلنج سے قبل عربوں کے کلام میں اس کی نظیر موجود ہونی چاہیے تھی اور اگر اس کی نظیر موجود ہوتی تو خبر متواتر کے ذریعے اسے نقل کیا جاتا کیونکہ اس کے نقل کئے جانے کے عوامل اور مقتضی بہت سے ہیں جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگو ںکے کلام میں کہیں بھی اس کی نظیر موجود نہیں ہے اور نہ ہی اسے نقل کیا گیا ہے۔

اس سے ہم اس نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں کہ قرآن بذات خود ایک معجزہ ہے اور یہ بشر کی طاقت سے باہر ہے۔

۱۱۳

چوتھا اعتراض

اگر اعجام قرآن مان بھی لیا جائے پھر بھی نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی نبوّت ثابت نہیں ہوتی جن پر یہ نازل ہوا ہے، کیونکہ قرآن کے قصّے اور واقعات عہد جدید و قدیم کے قصّوں اور واقعات سے مختلف ہیں جن کا وحی الہٰی ہونا تواتر سے ثابت ہے۔

جواب:

قرآن کی طرف سے عہد جدید و قدیم کی کتب میں موجود خرافات اور بے ہودہ قصّوں ہی کی وجہ سے ان کے وحی الہٰی ہونے میں باقی ماندہ شک بھی دُور ہو جاتا ہے کیونکہ قرآن خرافات، شبہات اور ان باتوں سے پاک ہے جن کی خدا اور

انبیاء (علیہم السلام) کی طرف سے نسبت دینا عقلی طور پر جائز نہیں ہے اس بناء پر قرآن کا کتبِ عہدین کے خلاف ہونا ہی اس کے وحیِ الہٰی ہونے کی دلیل ہے۔ ہم گذشتہ مباحث میں کتبِ عہدین میں موجود خرافات کی طرف اشارہ کرچکے ہیں۔

پانچواں اعتراض

قرآن کریم تضاد کا شکار ہے۔ لہٰذا وحی الہٰی نہیں ہوسکتا ان کے خیال میں یہ تضاد بیانی دو جگہ کی گئی ہے۔

پہلی جگہ: خدا کا یہ فرمان:

( قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزًا ۗ ) ۳:۴۱

''ارشاد ہوا کہ تمہاری نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے بات نہ کرسکو گے مگر اشارے سے۔،،

اس آیت کے متضاد ہے:

( قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا ) ۱۹:۱۰

''حکم ہوا تمہاری پہچان یہ ہے کہ تم تین رات (دن) برابر لوگوں سے بات نہیں کرسکو گے۔،،

۱۱۴

جواب:

کبھی تو ''یوم،، سے مراد دن کی سفیدی ہوتی ہے، جس طرح اس آیت کریمہ میں ہے:

( سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا ) ۶۹:۷

''خدا نے اسے (ہوا کو) سات رات اور آٹھ دن لگاتار ان پر چلایا۔،،

''مقرر کردیا اس کو ان پر سات رات اور آٹھ دن تک لگاتار،،

اور کبھی ''یوم،، سے مراد دن رات کا مجموعہ ہوتا ہے، جس طرح اس آیت میں ہے:

( تَمَتَّعُوا فِي دَارِكُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ ) ۱۱ :۶۵

''تب صالح نے کہا اچھا تین دن تک (اور) اپنے اپنے گھر میں فائدہ اٹھالو۔،،

اسی طرح کبھی ''لیل،، سے مراد وہ سارا عرصہ ہوتا ہے جس میں سورج غائب رہتا ہے۔ چنانچہ آیہ میں ہے:

( وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ) ۹۲:۱

''رات کی قسم جب (سورج) کو چھپالے۔،،

( سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا ) ۶۹:۷

''سات رات اور آٹھ دن لگاتار ان پر ہوا چلائی۔،،

اور کبھی اس سے رات کی تاریکی اور دن دونوں مراد ہوتے ہیں جس طرح اس آیہ میں ہے:

( وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَىٰ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ) ۲:۵۱

''اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے موسی سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا تھا۔،،

۱۱۵

لفظ لیل و نہار ان دونوں معنوں میں کثرت سے استعمال ہوتے ہیں اور مذکورہ ان دونوں آیتوں میں ''یوم،، اور ''لیل،، دوسرے (دن اور رات کے) معنی ہیں استعمال کیے گئے ہیں۔ تضاد کا تو ہم اس صورت میں ہوسکتا تھا جب ''یوم،، اور ''لیل،، پہلے معنی(۱) میں استعمال ہوں۔ یہ سب ایک واضح اور ناقابل انکار حقیقت ہے۔ لیکن بعض توہم پرست قرآن کی عظمت کم کرنے کے خیال سے اس حقیقت کا انکار کرتے ہیں جبکہ ان دونوں کلموں ''یوم،، و ''لیل،، کے استعمال سے انجیل پر جو تضاد بیانی لازم آتی ہے اس سے یہ غافل ہیں یا تغافل سے کام لیتے ہیں۔

انجیل متیٰ کے بارہویں باب میں مذکور ہے:

''مسیح نے خبر دی کہ ان کا جسم تین دن یا تین رات زیر زمین مدفون رہے گا۔،،

جبکہ اسی انجیل متیٰ اور باقی تین انجیلوں کا اتفاق ہے کہ حضرت مسیح روز جمعہ کے آخری کچھ وقت، ہفتہ کی رات اور زمین اور اتوار کی رات، صبح سے پہلے تک زیر زمین رہے۔

انجیلوں کے آخری حصّے کا مطالعہ کری اور پھر انجیل متیٰ کے لکھنے ولوں اور اس کی وحی الہٰی سمجھنے والوں سے پوچھیں کہ تین دن اور تین راتیں کیسے بنتی ہیں؟

مقام حیرت ہے کہ مغربی سائنس دان اور مفکّرین کتب عہدین، جو خرافات اور تضادات سے بھری پڑی ہیں، پر ایمان لاتے ہیں لیکن اس قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے جو بشر کی ہدایت اور دنیا و آخرت میں سبکی سعادت کی ضمانت دیتا ہے۔ لیکن تعصّب ایک ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں اور حق کے متلاشی کم ہی ہوتے ہیں۔

____________________

(۱) یوم: دن کی روشنی ۔۔۔ لیل: رات کی تاریکی۔ (مترجم)

۱۱۶

دوسری جگہ: قرآن کبھی تو اعمال کی نسبت بندوں کی طرف دیتا ہے اورکہتا ہے کہ بندے اپنے ارادہ و اختیار سے اعمال انجام دیتا ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ) ۱۸:۲۹

''بس جو چاہے مانے اور جو چاہے نہ مانے۔،،

اس معنی کی اور بہت سی آیات ہیں جو انسانوں کے اپنے اعمال اور افعال میں خود مختار ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور کبھی

یہ افعال کی نسبت خدا کی طرف دیتا ہے اور اسی کو مختار کل قرار دیتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ ۚ ) ۷۶:۳۰

''جب تک خدا کو منظور نہ ہو تو لوگ کچھ بھی چاہ نہیں سکتے۔،،

مخالفین قرآن کا گمان یہ ہے کہ اس آیہ کے مطابق بندے اپنے افعال میں مجبور ہیں اور ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ ایک واضح تضاد ہے اور ان آیات کی توجیہ و تاویل کرناظاہر قرآن کے خلاف اور دعویٰ بلا دلیل ہے۔

جواب: ہر انسان فطری طور پر یہ سمجھتا ہے کہ بعض افعال اس کی قدرت اور اختیار میں ہیں جنہیں وہ انجام بھی دے سکتا ہے اور ترک بھی کرسکتا ہے۔ یہ ایک فطری حکم اور فیصلہ ہے، اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں! اگر بیرونی عوامل کی وجہ سے کوئی شک و شبہ پیدا ہوجائے تو دوسری بات ہے۔

چنانچہ تمام عقلاء کا اتفاق ہے کہ برے کاموں پر انسان کی مذمت کی جاتی ہے اور نیک کاموں پر اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ انسان اپنے کاموں میں خود مختار ہے اور وہ یہ افعال انجام دینے پر مجبور نہیں ہے۔

۱۱۷

مثلاً عقلمند بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اگرچہ بعض افعال اس کے دائرہئ اختیار میں ہیں چاہے وہ انہیں انجام دے اور چاہے انہیں ترک کردے لیکن ان کے اکثر مقدمات اس کے اختیار سے باہر ہیں۔ مثلاً ان مقدمات میں انسان کا اپنا وجود، زندگی، کسی فعل کو درک کرنا اور اس فعل کا شوق اور اسے چاہنا، اس فعل کا انسانی خواہشات میں سے کسی ایک خواہش سے سازگار ہونا اور اس کے ایجاد پر قادر ہونا۔ یہ امور ان مقدّمات میں شامل ہیں۔ ظاہر ہے اس قسم کے مقدّمات انسان کے اختیار سے خارج ہیں اور ان امور کی موجد اور فاعل حقیقی وہی ذات ہے جو خود انسان کی موجد اور خالق ہے۔

یہ بات اپنے مقام پر مسلم ہے کہ انسان میں موجود ان اشیاء کا خالق انہیں خلق فرمانے کے بعد منعزل اور دست بردار نہیں ہو جاتا بلکہ یہ اشیاء اپنی بقاء کے لیے ہر لمحہ میں اس موثر اور خالق حقیقی کی محتاج ہےں۔

خالق کائنات کی مثال ایک معمار کی سی نہیں ہے کہ وہ اپنی کاریگری سے ایک مرتبہ دیوار بنا دے اور اس کے بعد دیوار اپنے بنانے والے سے بے نیاز ہو جائے اور بنانے والے کے مرنے کے بعد بھی یہ دیوار قائم دائم رہے۔ اور نہ اس مؤلف کی طرح ہے کہ کتاب اپنے وجود میں تو اس کی محتاج ہے لیکن اپنی بقا میں اس سے بے نیاز ہے بلکہ خالق کائنات کی مثال (''و للہ المثل الا علیٰ،، یعنی اگرچہ خدا تمام مثالوں سے بالاتر ہے) اس بجلی کے پاور ہاؤس کی مانند ہے جو روشنی کے لیے مؤثر ہے۔ ظاہر ہے جب تک تاروں کے ذریعے پاور ہاؤس سے کرنٹ نہ ملے روشنی نہیں ہوسکتی اور روشنی، ایک مرتبہ روشنی ملنے کے بعد بھی اپنی بقاء میں لمحہ بہ لمحہ اس کرنٹ اور پاور کی محتاج ہے اور جب بلب کی تار پاور ہاؤس سے جدا ہو جائے تو فوراً اس کی روشنی ختم ہو جاتی ہے گویا کہ روشنی کبھی تھی ہی نہیں۔

اسی طرح پوری کائنات اپنے وجود اور بقاء دونوں میں اپنے موجد اور خالق کی محتاج ہے اور ہر آن و لحظہ اس کی مدد کی نیاز مند ہے اور اس رحمتِ واسعہ سے مستفیض ہوتی رہتی ہے جو ہر چیز کو شامل ہے۔ اس بیان کی روشنی میں یہ معلوم ہوا کہ انسانی اعمال و افعال، جبر و تفویض کا ایک درمیانی راستہ ہے اور انسان جبر و تفویض دونوں سے بہرہ مند ہے۔ کیونکہ اگرچہ انسان فعل و ترک میں خدا داد قدرت سے کام لینے میں خود مختار ہے لیکن جس قدرت و طاقت سے یہ کام انجام پارہا ہے وہ ہر آن اور ہر لمحہ اللہ کی طرف سے مل رہی ہوتی ہے۔

۱۱۸

اس بنا پر افعال ایک لحاظ سے بندوں کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور دوسرے اعتبار سے خدا کی طرف اور یہ قرآنی آیات اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں یعنی افعال و اعمال میں انسان کے خود مختار ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ان افعال میں قدرت الہٰی کار فرما نہ ہو۔ ہم ذیل میں اس سے ملتی جلتی ایک مثال پیش کریں گے تاکہ ''امر بین الامرین،، کی حقیقت قارئین محترم کے سامنے واضح ہو جائے اس کے شیعہ امامیہ قائل ہیں۔ ائمہ معصومین نے جس کی تصریح فرمائی ہے اورکتابِ الہٰی بھی جس کی طرف اشارہ کررہی ہے۔

فرض کیجئے کسی انسان کا ہاتھ مفلوج ہے اور وہ اسے حرکت نہیں دے سکتا لیکن ایک ڈاکٹر کرنٹ کے ذریعے وہ ہاتھ قابل حرکت بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یعنی جب ڈاکٹر بجلی کی تار کے ذریعے مریض اپنے ہاتھ کو حرکت نہیں دے سکتا۔ جب جب ڈاکٹر مریض کے ہاتھ کو بجلی دے رہا ہو اور مریض اپنے ہاتھ کو حرکت دینا اور اس سے کام لینا شروع کردے اور ادھر ڈاکٹر بجلی کے ذریے برابر اس کو طاقت پہنچا رہاہو تو اس صورت میں مریض کا اپنے ہاتھ کو حرکت دینا ''امر بین الامرین،، کے مصداق ہے۔ کیونکہ نہ تو اس حرکت کو مستقلاً مریض کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے اس لیے کہ جب تک ڈاکٹر قوت نہ پہنچائے مریض اپنے ہاتھ کو حرکت نہیں دے سکتا اور نہ اسے مستقل طور پر ڈاکٹر کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے اس لیے کہ اگرچہ طاقت ڈاکٹر کے ذریعے حاصل ہو رہی ہے لیکن ہاتھ میں حرکت مریض کے ارادے کے نتیجے میں وجود میں آئے گی۔

اس بنا پر اس فاعل کو نہ تو فعل پر مجبور کیا گیا ہے چونکہ وہ با ارادہ ہے اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فعل مکّمل طور پر فاعل کو تفویض کردیا گیا ہے اس لیے کہ مدد اور طاقت تو اسے دوسرے سے ملی ہے۔ فاعل مختار انسانوں سے جتنے بھی کام صادر ہوتے ہیں وہ سب اسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ سارے افعال انسان کی مشیئت اور اس کے ارادے سے انجام پاتے ہیں لیکن بندے کی مشیئت اور اس کا ارادہ، مشیئت و ارادہئ خدا کی مرہونِ منت ہے۔ قرآن کی آیات بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اس طرح یہ جبر کو باطل قرار دیتی ہیں جس کے اکثر اہل سنت قائل ہیں۔ کیونکہ یہ آیات خود مختاری کو ثابت کرتی ہیں اور مکمل تفویض کو بھی باطل قرار دیتی ہےں جس کے بعض اہل سنت قائل ہیں کیونکہ یہ آیات افعال کی نسبت خدا کی طرف دیتی ہیں۔ ان آیات کی تفسیر کے دوران ہم اس بحث کی تفصیل بیان کریں گے۔ اور ان دونوں نظریات ''جبر،، اور ''تفویض،، کو باطل ثابت کریں گے۔

۱۱۹

ہم نے اب تک جو کچھ کہا ہے وہ ائمہ اہل بیت (علیہم السلام) کے ارشادات سے مستفاد ہے۔ یہی وہ ہستیاں ہیں جنہیں خالق متعال نے ہر قسم کے رجس اور آلودگی سے پاک و منزہ فرمایا ہے، ان کی بعض روایات کا ہم یہاں ذکر کریں گے۔

راوی کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا:

قلت: أجبر الله العباد علی المعاصی؟ قال: لا ۔قلت: ففوض الیهم الأمر؟ قال: لا ۔قال: قلت : فماذا؟ قال: لطف من ربک بین ذلک (۱)

''کیا خدا نے اپنے بندوں کو معصیت پر مجبور کیا ہے؟

آپ نے فرمایا: نہیں۔

میں نے کہا: کیا ہر چیز کو ان کے سپرد کردیا ہے؟

آپ نے فرمایا: نہیں۔

میں نے پوچھا: پھر حقیقت حال کیا ہے؟

آپ نے فرمایا: ان دونوں کے درمیان خدا کی طرف سے ایک لطف ہے۔،،

ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:

لا جبر ولاقدر، و لکن منزلة بینهما (۲)

''نہ جبر اور نہ تفویض بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک مرحلہ ہے۔،،

امامیہ اثنا عشری کی کتبِ احادیث میں اس مضمون کی کافی روایات موجود ہیں۔

___________________

(۱) کافی: کتاب التوحید، باب الجبر و القدر و المر بین الامرین۔

(۲) ایضاً۔

۱۲۰

چھٹا اعتراض

اعجام قرآن پر چھٹا اعتراض یہ ہے کہ اگر ہر وہ کتاب معجزہ ہے جس کی نظیر لانے سے انسان عاجز ہو تو ہیئت کی کتاب ''اقلیدس،، اور ہندسہ کی کتاب بھی معجزہ نہیں ہوسکتی جس کی نظیر انسان نہ لاسکے۔

جواب:

اولاً: ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ انسان ان دونوں کتابو ںکی نظیر لانے سے عاجز اور قاصر ہے۔ ا س لیے کہ ان کے بعد علم ہیئت اور علم ہندسہ پر ایسی ایسی کتب لکھی جاچکی ہےں جن کا بیان زیادہ وزنی اور سمجھنا آسان ہے۔ بعد کی کتاب کئی اعتبار سے ان دونوں کتابوں پر فوقیت رکھتی ہیں اور ان میں بعض ایسی چیزیں ہیں جن کا ان دونوں کتب میں نام و نشان تک نہیں ہے۔

ثانیاً: ہم نے معجزہ کی کئی شرائط بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ معجزے کو جب پیش کیا جائے تو اسے بطور چیلنج اور اپنے الہٰی منصب کے ثبوت و دلیل میں پیش کیا جائے۔ اس کے علاوہ ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو کام بھی بطور معجزہ انجام دیا جائے وہ طبیعی قوانین سے بالاتر ہو۔ یہ دونوں شرائط ان دونوں کتب میں مفقود ہیں۔ اس کی وضاحت ہم اعجاز کی بحث کے شروع میں کرچکے ہیں۔

ساتواں اعتراض

اگر عربوں نے قرآن کا مقابلہ نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انسان قرآن کی نظیر لانے سے عاجز و قاصر ہے بلکہ اس کی اور وجوہات ہیں جن کا تعلق اعجاز سے نہیں ہے۔

۱۲۱

دعوت اسلام کے معاصر اور ان کے بعد عربوں کی طرف سے قرآن کا مقابلہ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومت اور ان کا رعب و ہیبت ان کو اس مقابلے سے روکتا تھا اور انہیں اس میں اپنی جان و مال کا خوف تھا۔ خلفاء اربعہ کی حکومت کا دور گزرنے کے بعد جب امویوں کا دور آیا، جن کی خلافتیں دعوتِ اسلامی کے محور پر قائم نھیں تھیں تو قرآن اپنے الفاظ کی متانت اور مضبوطی کی وجہ سے تمام لوگوں میں مانوس ہوچکا تھا اور نسلیں گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قرآن لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہوتا چلا گیا یہ رسوخ و راثۃً نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا گیا، جس کے نتیجے میں اس کے مقابلے سے لوگ دستبردار ہوگئے۔

جواب:

اولاً: قرآن کا چیلنج اور ایک سورہ کے مقابلے کی دعوت دینا اس زمانے کی بات ہے جب پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) مکّہ میں تھے اور اسلام کو ابھی وہ تقویت حاصل نہیں ہوئی تھی اور نہ ملسمانوں کا وہ رعب و دبدبہ تھا جس سے مخالفین پر خوف و ہراس طاری ہو جاتا۔ اس کے باوجود عرب کے فصحاء اور بلغاء قرآن کا مقابلہ نہ کرسکے۔

ثانیاً: خلفاء کے دور حکومت میں ایسا خوف نہیں تھا جس کی وجہ سے کفار اور مخالفین قرآن اپنے کفر اور مسلمانوں سے اپنی عدوات کو ظاہر نہ کرسکیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جزیرۃ العرب میں مسلمانوں کے درمیان اہل کتاب بڑے سکون و آرام کی زندگی گزارتے تھے۔ ان کو وہی حقوق حاصل تھے جو مسلمانوں کو حاصل تھے۔ ان کے فرائض وہی تھے جو مسلمانوں کے تھے۔ خاص کر حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کے دور حکومت میں جن کی عدالت اور کثرت علم کی گواہی غیر مسلم تک دیتے ہیں۔ اس قسم کے اہل کتاب یا دوسرے کفار اگر قرآن کی مثل و نظیر لانے پر قادر ہوتے تو یقیناً وہ اپنے نظریئے اور ثبوت میں اسے پیش کرتے۔

۱۲۲

ثالثاً: بالفرض اگر قرآن کے مقابلے سے انہیں خوف محسوس ہوتا تھا تو یہ خوف کھلے عام مقابلے میں مانع ہونا چاہیے تھا۔ گھروں میں اور بالکل مخفی طور پر قرآن کے مقابلے میں عبارتیں بنانے سے کون سی چیز لکھنے والوں کی راہ میں حائل تھی؟

اگر اس قسم کی کتب یا عبارتیں لکھی گئی ہوتیں تو اس خوف کے زائل ہونے کے بعد ان کو ظاہر کیا جاتا جس طرح کتب عہدلین کی خرافات اور ان کے دین سے متعلق دیگر باتیں آج بھی محفوظ ہیں۔

رابعاً: کوئی بھی کلام ہو، چاہے وہ بلاغت کے بلند ترین مقام پر ہو، انسانی طبیعت کا یہ تقاضا ہے کہ جب وہ بار بار سماعت سے ٹکرائے گا تو اپنے پہلے مقام سے گرجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بلیغ سے بلیغ قصیدہ و کلام بھی اگر انسان کے سامنے مکرر پڑھا جائے تو انسان اس سے اکتا جاتا ہے۔ کیونکہ ا س کے مقابلے میں جب کوئی دوسرا قصیدہ اسے سنایا جاتا ہے تو اسے شروع میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ دوسرا قصیدہ پہلے قصیدہ سے بہتراور اس میں زیادہ بلاغت ہے اور جب دوسرے قصیدے کو بھی بار بار پڑھا جائے تو ان دونوں میں موجود فرق واضح ہو جاتا ہے۔

یہ قاعدہ صرف کلام ہی سے مختص نہیں ہے بلکہ یہ ہر اس چیز میں جاری ہے جس سے انسان لطف اندوز وہتا ہے اور اس کے حسن و قبح کو درک کرسکتا ہے۔ چاہے اس کا تعلق کھانے پینے یا پہننے کی چیزوں سے ہو یا سنائی دینے والی آواز سے۔

اگر قرآن کریم معجزہ نہ ہوتا تو یہ کلیّہ اس پر بھی لاگو ہوتا اور سننے والوں کے نزدیک اس کا وہ مقام نہ رہتا جو شروع شروع میں اسے حاصل تھا اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی فصاحت و بلاغت میںکمی آجانی چاہیے تھی جس کے نتیجے میں قرآن کا مقابلہ آسان ہوجاتا۔

۱۲۳

لیکن ہم بالوجدان یہ دیکھ رہے ہیں کہ قرآن کریم کو بار بار پڑھنے اورسننے کے باجود اس کے حسن اور خوبیوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور اس سے عرفان و یقین حاصل ہوتا ہے اور انسان اس پر ایمان لانے اور اس کی تصدیق کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

قرآن کریم کی یہ خصوصیت اور امتیاز، دوسرے مانوس کلاموں سے بالکل مختلف ہے۔ پس قرآن کا یہ پہلو بھی اس کے معجزہ ہونے کی تائید اور تاکید کرتا ہے اور یہ اس کے اعجاز کے خلاف نہیں ہے جیسا کہ مخالف قرآن و اسلام کا توہم ہے۔

خامساً: بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ کسی کلام کو بار بار پڑھنے سے انسان اس سے مانوس اور اس کے مقابلے سے دستبردار ہوجاتا ہے تو یہ بات صرف مسلمانوں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے جو قرآن کی تصدیق کرتے ہیں اسے بار بار سنتے اور اس سے مانوس ہوتے ہیں اور چاہے جس کثرت سے بھی اس کی تلاوت کی جائے اسے رغبت و شوق سے سنتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کو چھوڑ کر دوسرے غیر مسلموں کو اس کے مقابلے سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے تھا تاکہ اس مقابلے کو کم از کم غیر مسلم ہی تسلیم کرلیتے۔

آٹھواں اعتراض

تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت ابوبکر نے جب قرآن کو جمع کرنا چاہا تو انہوںنے حضرت عمر اور زید بن ثابت کو حکم دیا کہ ومسجد کے دروازے پر بیٹھ جائیں اور ہر وہ عبارت لکھ لائیں جس کے کتاب ہونے کی گواہی دو شاہد دیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کوئی خارق العادۃ اور غیرمعمولی کلام نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر قرآن کوئی خارق العادۃ اور غیر معمولی کلام ہوتا تو اس کے لیے کسی شہادت و گواہی کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی اور بذات خود اسے ثبت ہونا چاہیے تھا۔

۱۲۴

جواب:

اولا: قرآن کی بلاغت اور اس کا اسلوب کلام معجزہ ہے، نہ کہ اس کا ایک ایک کلمہ اور لفظ معجزہ ہے۔ اس بناء پر یہ شک ہوسکتا ہے کہ اس کے مفردات اور کسی کلمہ میں تحریف نہ ہوگئی ہو یا اس میں کمی بیشی کا بھی احتمال ہوسکتا ہے۔ فرض کریں شاہدوں کی شہادت والی راویت اگر صحیح بھی ہے تو وہ اس قسم کے احتمالات کے ازالے کے لیے ہے کہ کہیں قرآن پڑھنے والا غلطی سے یا جان بوجھ کر کسی لفظ یا کلمے میں کمی بیشی نہ کردے۔

اس کے علاوہ اگر قرآن کی ایک سورۃ کی نظیر بشر نہ لا سکے تو وہ ایک آیہ کی مثل و نظیر لانے سے منافات نہیں رکھتا۔ یہ ایک ممکن کام ہے اور آج تک مسلمانوں نے اس کے محال یا ناممکن ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور قرآن نے اپنے چیلنج میں بھی یہ نہیں فرمایا کہ لوگ اس کی ایک آیت کی نظیر و مثل نہیں پیش کرسکتے۔

ثانیاً: جتنی روایات اور اخبار اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر کے زمانے میں صحابہ میں سے دو شاہدوں کی شہادت سے قرآن جمع کیا جاتا تھا۔ یہ سب خبر واحد ہیں خبر متواتر نہیں اور خبر واحد اس قسم کے واقعات میں حجت اور دلیل نہیں بن سکتی۔

ثالثاً: ان اخبار کے مقابلے میں بہت سی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہی کے زمانے میں جمع کیا گیا۔ بہت سے اصحاب نے پورا قرآن کریم حفظ کرلیا تھا اور جن حضرات کو قرآن کے بعض سورے اور حصے یاد تھے ان کا تو شمار ہی نہیں ہوسکتا۔

۱۲۵

اس کے علاوہ اگر عقلی طور پر انسان ذرا فکر سے کام لے تو اس قسم کی روایات کا کذب ثابت ہو جاتا ہے جن سے مخالفین قرآن تمسک چاہتے ہیں۔

پس قرآن جو مسلمانوں کی ہدایت کا سب سے بڑا ذریعہ اور ان کو بدبختی اور جہالت کی تاریکیوں سے سعادت اور علم کے نور کی طرف لاتا ہے اور مسلمان قرآن کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے اور دن رات اس کی تلاوت کرتے تھے، قرآن کو حفظ کرنے اور اس کی صحیح تلاوت کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے، اس کی سورتوں اور آیات کو دیکھنا مبارک سمجھتے تھے اور پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بھی اس بات کی ترغیب دیتے تھے، ان سب باتوں کے باوجود کیا کوئی عقلمند یہ احتمال دے سکتا ہے کہ کسی آیہ یا سورہ کو ثابت کرنے کے لیے دو گواہوں کی ضرورت ہوگی۔ انشاء اللہ ہم آ ئندہ ثابت کریں گے کہ قرآن مجید پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہی کے زمانے میں مکمل طور پر جمع کرلیا گیا تھا۔

نواں اعتراض

قرآن کا اسلوب، بلاغت کے مروج اسلوب سے مختلف ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید نے مختلف موضوعات کو باہم مخلوط کردیا ہے۔ مثلاً اگر تاریخ کی بات کررہا ہے تو اچانک وعدہ وعید (بہشت کے وعدوں اور جہنم کے عذاب کی دھمکیوں) میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اگر قرآن ابواب میں تقسیم ہوتا اور ہر موضوع کے متعلق جتنی آیات ہیں ان کو یکجا کردیا جاتا تو اس کا فائدہ بہت زیادہ ہوتا اور اس سے استفادہ بھی آسان ہوتا۔

جواب:

قرآن انسانوں کی ہدایت اور ان کو دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ یہ کوئی تاریخی یافقہ و اخلاق یا اسی قسم کی کوئی اور کتاب نہیں ہے کہ اس کو ان موضوعات کے لحاظ سے مستقل ابواب میں یکجا کیا جاتا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا اسلوب، مطلوبہ مقصد تک پہنچانے کا نزدیک ترین اسلوب ہے، اس لیے کہ جو انسان قرآن کی بعض سورتوں کی تلاوت کرتا ہے

۱۲۶

وہ اسی تلاوت اور قلیل وقت میں، معمولی زحمت کرکے بہت سے اغراض و مقاصد حاصل کرسکتا ہے۔ مثلاً، ایک ہی تلاوت میں وہ توحید و معدا کی طرف متوجہ ہوسکتا ہے۔ گذشتہ لوگوں کے حالات سے آگاہ ہوسکتا ہے اور اس سے عبرت حاصل کرسکتا ہے۔ اخلاق حسنہ کا استفادہ کرسکتا ہے اور دیگر علوم و معارف سے روشناس ہوسکتا ہے ان کے علاوہ اسی تلاوت میں اپنی عبادات اور معاملات سے متعلق کچھ احکام بھی سیکھ سکتا ہے۔

ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ قرآن کریم میں نظم کلام کی رعایت بھی کی گئی ہے حسن بیان کا حق ادا کردیا گیا ہے اور مقتضائے حال کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔

یہ وہ فوائد ہیں جو قرآن کو ابواب میں تقسیم کرنے سے حاصل نہ ہوسکتے۔ کیونکہ اگر اسے ابواب میں تقسیم کیا جاتا تو انسان اپنے مختلف اغراض و مقاصد اسی صورت میں حاصل کرسکتا تھا جب وہ پورے قرآن کی تلاوت کرتا اور عین ممکن ہے کہ کچھ رکاوٹیں پیش آنے کی وجہ سے انسان پورے قرآن کی تلاوت نہ کرپائے اور صرف ایک یا دو ابواب سے مستفید ہوسکے۔

مجھے اپنی زندگی کی قسم حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ باتیں اسلوب قرآن کی خوبیوں میں سے ہیں اس اسلوب کی وجہ سے قرآن کو حسن و جمال ملا ہے۔ اس لیے کہ قرآن کے ایک موضوع سے دوسرے موضوع کی طرف منتقل ہونے کے باوجود ان دونوں موضوعات میں مکمل ربط قائم رہتا ہے۔ گویا اس کے تمام جملے موتی ہیں جنہیں ایک لڑی میں پرودیا گیا ہے۔

لیکن اسلام دشمنی نے معترض کی آنکھ کو اندھا اور کان کو بہرا کردیاہے جس کی وجہ سے وہ جمال کو قبح اوراچھائی کو برائی سمجھتا ہے۔

اس کے علاوہ قرآن مجید میں بعض قصوں کی حسب ضرورت مختلف عبارتوں میں تکرار کی گئی ہے، اگر مکرر بیان کی گئی عبارتوں کو ایک ہی باب میںبیان کردیا جاتا تو قاری کو زیر نظر فائدہ حاصل نہ ہوتا۔

۱۲۷

قرآن کا مقابلہ

کتابچہ ''حسن الایجاز،،(۱) کا مصنف اپنے رسالے میں دعویٰ کرتا ہے کہ قرآن کی نظیر پیش کرنا ممکن ہے اور اس نے کچھ ایسے جملے ذکر کئے ہیں جنہیں اس نے قرآن ہی سے لیا ہے اور ان کے بعض الفاظ میں تبدیلی کرکے اپنے زعم باطل میں یہ سمجھاہے کہ وہ قرآن کا مقابلہ کررہا ہے اس طرح اس نے اپنے مبلغ علم اور بلاغت شناسی کاراز فاش کردیا ہے۔

قارئین محترم کی خدمت میں وہ عبارتیں پیش کرکے ہم اس کے وہمی اور خیالی مقابلے کی قلعی کھول دیتے ہیں اور اس کے جملوں میں جو خامیاں پای جاتی ہیں ان کی وضاحت بھی کرتے ہیں۔ ہم اپنی کتاب ''نفحات الاعجاز،، میں بھی ان خیالی مقابلوں کا جواب دے چکے ہیں۔(۲)

اس خیال باف نے سورہ فاتحہ کے مقابلے میں لکھا ہے:

الحمد الرحمن رب الاکوان، الملک الدیان، لک العبادة و بک المستعان، اهدنا صراط الایمان

اپنے زعم باطل میں یہ سمجھتا ہے کہ اس کی یہ عبارت سورۃ فاتحہ کے معانی و مفاہیم ادا کرتی ہے اور اس سے مختصر بھی ہے۔

معلوم نہیں یہ جملے لکھنے والے کو کیا جواب دیا جائے جو علمی اعتبار سے اتنا گیا گزرا ہے کہ وزنی اور ہلکے کلام میں بھی تمیز نہیں کرسکتا۔ کاش اس سے پہلے کہ اس دعویٰ کے ذریعے وہ اپنے آپ کو رسوا کرتا۔ ان عبارتوں کو علمائے نصاریٰ کے سامنے پیش کرتا جو اسلوب کلام اور فنون بلاغت سے آشنائی رکھتے ہیں۔

____________________

(۱) یہ چھوٹا سا کتابچہ ۱۹۱۲ء میں مصر کے شہر بولاق میں ایک اینگلو ارمیکن پریس میں شائع کیا گیا۔

(۲) یہ کتاب رسالہ ''حسن الایجاز،، کی رد میں لکھی گئی جو ۱۳۴۲ھ میں نجف اشرف کے علویہ پریس میں شائع کی گئی۔

۱۲۸

اسے اتنا بھی معلوم نہیں کہ کسی بھی کلام کے مقابلے کاطریقہ یہ ہے ک کوئی شاعر یا مضمون نگار اپنے ہی الفاظ، ترکیب اور اسلوب میں ایسا کلام پیش کرے جو مد مقابل کلام کے کسی پہلو اور مقصد سے مطابقت رکھتا ہو۔ مقابلے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ کلام کی ترکیب اور اسلوب میں اس کلام اور ترکیب کی نقل کی جائے جس سے مقابلہ کیا جارہا ہے اور صرف الفاظ میں رد و بدل کرلیا جائے۔

اسطرح کا مقابلہ تو ہر کلام کا کیا جاسکتا ے اور ایسا مقابلہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے ہم عصر عربوںکے لیے آسان تھا، لیکن چونکہ وہ مقابلے کے صحیح مفہوم اور بلاغت قرآن کے پہلوؤں کو سمجھتے تھے اس لیے مقابلہ نہ کرسکے۔ قران کے معجزہ ہونے کا انہوں نے اعتراف کرلیا اور انہوں نے اس پر ایمان لانا تھا وہ ایمان لے آئے اور جنہوں نے اس کا انکار کرناتھا انہوں نے انکار کردیا۔ اس کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہو رہا ہے:

( فَقَالَ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ ) ۷۴:۲۴

''پھر کہنے لگا یہ تو بس جادو ہے جو (اگلوں سے) چلا آتا ہے۔،،

اس کے علاوہ مذکورہ بالا جملوں کا سورۃ فاتحہ سے موازنہ تک نہیں ہوسکتا جس سے یہ سوال پیدا ہو کہ ان جملوں سے سورۃ فاتحہ کے معانی ادا ہو جاتے ہیں؟

کیا فن بلاغت سے اس کا بے بہرہ ہونا ہی کافی نہیں تھا کہ اس نے لوگوں کے سامنے اپنی خامیوں اور عیبوں کو بھی

ظاہر کردیا؟!! اور''الحمد للرحمٰن،، کا مقایسہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان( الْحَمْدُ لِلَّـهِ ) ۱:۲،، سے کس طرح کیا جاسکتا ہے۔

جبکہ اس جملے میں وہ معانی نہیں پائے جاتے جو مقصود الہٰی ہیں۔ اس لیے کہ لفظ ''اللہ،، علم ہے اور نام ہے اس ذات اقدس کا جو تمام صفات کمال کی جامع ہے۔

۱۲۹

ان صفات کمال میں سے ایک صفت، رحمت ہے جس کی طرف ''بسم اللہ، میں اشارہ کیا گیا ہے ''اللہ،، کی بجائے ''رحمٰن،، ذکر کرنے سے باقی صفات کمال پر دلالت نہیں ہوتی جو ذات الہٰی میں مجتمع ہیں اور وہ صفات ایسی ہیں جو بذات خود رحمت کی طرح حمد الہٰی کی موجب ہیں۔

اسی طرح اس کے جملے ''رب الاکوان،، میں بھی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:( رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) ۱:۳ کے معنی و مفہوم کا کوئی شمہ نہیں پایا جاتا۔ اس لیے کہ( رَبِّ الْعَالَمِينَ ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ عالم طولی وعرضی(۱) ایک نہیں بلکہ متعدد ہیں اور اللہ تعالیٰ ان تمام عالموں کا مالک اور پالنے والا ہے اور اس کی رحمت ان تمام عالموں کو شامل ہے۔ چنانچہ ''رحمن،، کے بعد ''رحیم،، کاذکر بھی اس امر پر دلالت کرتا ہے جس کی وضاحت انشاء اللہ ''سورہ فاتحہ،، کی تفسیر میں کی جائے گی۔

یہ پر مغز معانی کجا اور عبارت ''رب الاکوان،، کجا؟ لفظ ''کون،، کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ ''حدوث،، ''وقوع،، پذیر ''ہوجانا،، اور ''کفالت،،(۲) کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

یہ سارے معانی مصدری ہیں جن کی طرف لفظ ''رب،، بمعنی مالک و مربی کی اضافت صحیح نہیں ہے۔ البتہ لفظ ''خالق،، کی اضافت ''کون،، کی طرف ہوسکتی ہے، اور ''خالق الاکوان،، کہا جاسکتا ہے۔

____________________

(۱) فلسفیانہ نقطہئ نظر سے عالم کی دوقسمیں ہیں:

i ) عرضی۔

ii ) طولی۔

عالم عرضی سے مراد وہ عالم ہے جس کے افراد میںایک علت اور دوسرا معلول نہ ہو جسے انسان اور حیوانات۔ عالم طولی سے مراد وہ عالم ہے جس کے افراد میں ایک علت اور دوسرا معلول ہو جسے عالم ناسوت (مادہ) جس کی علت عالم ملکوت ہے اور عالم ملکوت جس کی علت عالم لاہوت ہے۔

(۲) ''لسان العرب،، کی طرف رجوع کیجئے۔

۱۳۰

اس کے علاوہ لفظ ''اکوان،، عالم موجودات کے تعدد پر دلالت نہیں کرتا جیسے لفظ ''عالمین،، دلالت کرتا ہے اور آیہ کریمہ کے دوسرے پہلو جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) ۱:۴،، اس سے جو مقصد حاصل ہوتا ہے وہ جملہ ''الملک الدیان،، سے حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ جملہ اس عالم کے علاوہ کسی اور عالم کے وجود پر دلالت نہیں کرتا جس میں اعمال کی سزا و جزا دی جائے گی اور یہ کہ اس دن کا مالک صرف خدا کی ذات ہے کسی اور کو اس میں تصرف اور اختیا رکا حق نہیں ہوگا۔ سب لوگ اس دن خدا کے حکم کے تحت ہونگے، خدا ہی کے حکم و امر کا نفاذ ہوگا اور اسی کے حکم سے بعض کو بہشت ملے گی اور بعض کو جہنم میں بھیجا جائے گا۔

جبکہ جملہ ''الملک الدیان،، صرف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خدا وہ بادشاہ ہے جو اعمال کی سزا و جزا دیتا ہے۔ کتنا فرق ہے اس جملے اور آیہ کریمہ کے معانی میں؟!

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) ۱:۵

اس کتابچے کے مصنف نے اس آیہ سے صرف اتنا سمجھا ہے کہ عبادت، خدا کی ہونی چاہیے اور مدد صرف خدا سے لینی چاہیے۔ چنانچہ اپنی اس سمجھ کے مطابق اس نے اللہ تعالیٰ کے مذکورہ فرمان کو اپنے اس قول سے بدل دیا۔''لک العبادة و بک المستعان،، یعنی ''عبادت تیرے لیے ہے اور مدد تمجھ سے ہے۔،، اور اس سے وہ مقصد فوت ہوگیا جو اس آیہ کریمہ کا تھا۔ اس آیہ کریمہ میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ مومن، توحید فی العبادۃ کااظہار کرے اس کے علاوہ عبادات اور دیگر افعال میں اپنی احتیاج کابھی اظہار کرے اور یہ اعتراف کرے کہ میں اور دوسرے تمام مومنین غیر اللہ کی عبادت نہیں کرتے اور نہ غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔ بھلا یہ نکات اس مصنف کی عبارت میںکہاںمل سکتے ہیں جبکہ اس کی عبارت آیہ مبارکہ سے زیادہ مختصر بھی نہیں ہے؟!

۱۳۱

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) ۱:۶

اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اس سے ایسے قریبی راستے کی ہدایت طلب کریں جو اپنے چلنے والے کو اعمال خیر، صفات نفسانی اور عقائد جیسے مقاصد تک پہنچائے اور اس راستے کو صرف ایمان کے راستے میں منحصر نہیں فرمایا۔ یہ مطلب مصنف کے جملہ ''اھدنا صراط الایمان،، میں نہیں پایا جاتا۔ اس کے علاوہ اس جملے میں صرف ایمان کے راستے کی ہدایت کے لیے درخواست کی گئی ہے۔ اس میں اس نکتے کی طرف اشارہ نہیں ہے کہ ایمان کا یہ راستہ مستقیم ہے اور وہ اپنے پر چلنے والے کو گمراہ نہیں کرتا۔

اس مصنف نے صرف انہی جملوں کو مثل و نظیر کے طور پر پیش کرکے یہ گمان کرلیا ہے کہ سورہ مبارکہ کے باقی حصے کی ضرورت نہیں ہے ارو یہ بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس آیہ کے مفوہم کو نہیں سمجھ سکا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) ۱:۷

اس میں حقیت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ راستہ ایک ایسا مستقیم اور سیدھا راستہ ہے کہ اس پر انبیاء(ع) صدیقین، شہداء اور صالحین چلتے ہیں، جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعتمیں نازل فرمائیں ہیں، اور اس کے مقابلے میں کچھ ایسے راستے ہیں جو مستقیم نہیں ہیں۔ ان راستوں پر وہ لوگ چلتے ہیں جن پر غضب الہٰی نازل ہوتا ہے، جو حق کے دشمن ہوتے ہیں اور حق آشکار ہونے کے باوجود اس کا انکار کرتے ہںی اور اس راستے پر چلنے والے لوگ ایسے گمراہ ہیں جو اپنی جہالت، جستجو میں کوتاہی اور اپنے آباؤ اجداد کی وراثت میں ملنے والے عقیدہ پر اکتفاء کرنے کی وجہ سے راہ حق سے بھٹک گئے ہیں، جس کے نتیجے میں بغیر کسی ہدایت اور دلیل کے انہوں نے اندھی تقلید کا راستہ اپنالیا ہے۔

۱۳۲

جو بھی اس آیہ کریمہ کو تدبّر اور تفکّر کی نگاہ سے پڑِے وہ اس نکتہ کی طرف متوجہ ہوگا کہ اخلاق و عقاید اور دوسرے اعمال میں اولیائے خدا اور اللہ کے مقربین کی اتباع کرنا چاہیے اور ان سرکشوں کی راہ سے اجتناب کرنا چاہیے جن کے اعمال یا جنکے کرتوتوں کے نتیجے میں خدا نے ان پر غضب نازل فرمایا ہو اور جو حق کے واضح ہونے کے باوجود اس کے راستے بھٹک گئے ہیں۔

اہل انصاف بتائیں کہ کیا یہ کوئی معمولی نکتہ ہے جسے اس مصنف نے نظر انداز کردیا اور اس آیہ کو غیر ضروری سمجھ کر اس کی نطیر یا متبادل عبارت کا ذکر نہیں کیا۔

یہ مصنف سورۃ ''کوثر،، کے مقابلے میں یہ عبارت پیش کرتا ہے:

''انا اعطیناک الجواهر فصل لربک و جاهر ولا تعتمد قول ساحر،،

ملاحظہ فرمائیں کہ نظم اور ترکیب میں یہ کس طرح قرآن کی نقل کررہا ہے اور اس کے بعض الفاظ بدل کر لوگوں کو یہ غلط تاثر دے رہا ہے کہ وہ قرآن کا مقابلہ کرنے میںکامیاب ہوگیا ہے، یہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ اس نے اپنی یہ عبارت کس طرح مسلیمہ کذاب کی عبارت سے چوری ی ہے۔ مسیلمہ کذاب کہتا ہے:

''انا اعطیناک الجماهر فصل لربک وهاجرو ان مبغضک رجل کافر،،

مقام حیرت ہے کہ یہ اس توہم کا شکار ہے کہ اگر دو کلام سجع میں ایک دوسرے کے مشابہ ہوں تو یہ بلاغت میں بھی یکساں ہوں گے اور اس نکتے سے غافل ہے کہ خدا کی طرف سے جواہر دیئے جانے لازمہ یہ نہیں ہے کہ نماز قائم کی جائے اور اس کا اعلان کیا جائے،نیز خداکی نعمتیں صرف جواہر ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سی نعمتیں ہیں جو کہ جواہر اور دوسرے مال و دولت سے بڑھ کر ہیں جیسے زندگی ہے، عقل اور ایمان کی نعمت ہے، جب خدا کی اتنی نعمتیں ہیں تو ان تمام کو چھوڑ کر صرف مال ہی کو کیوں نماز کا سبب قرار دیا ہے۔

۱۳۳

لیکن جو شخص تبشیری مشینری کے لیے کرائے پر کام کرتا ہو اس کاقبلہ تو مال و دولت ہی ہوگا اور مال ہی اس کا آخری ہدف ہوگا جس کے حصول کی وہ کوشش کرتا ہے اور مال ہی اس کی آخری منزل ہوتی ہے جسے وہ ہر مقصد پر برتر سمجھتا ہے، ضرب المثل ہے:

''وکل اناء بالذی فیه ینفح،،

از کوزہ ہمان تراودکہ دراواست

کوئی اس شخص سے پوچھے کہ جواہر سے کیا مراد ہے جسے اس نے الف، لام کے ساتھ ذکر ککیا ہے۔ اگر جواہر سے مراد کوئی خاص جواہر ہیں تو اس لفظ میں اس کی نشاندہی کے لیے کوئی قرینہ بھی ہونا چاہیے تھا جس سے جواہر کا تعین ہو جاتا، جو کہ موجود نہیں ہے۔

اگر جواہر سے مراد دنیا کے تمام جواہر ہیں (کیونکہ جواہر جمع ہے اور اس پر الف لام موجود ہے اور جب جمع پر الف، لام ہو تو یہ استغراق یعنی تمام افراد پردلالت کرتا ہے) تو یہ سفید جھوٹ ہے۔

اس کے علاوہ اس کے سابقہ دو جموں اور جملہ ''ولا تعتمد قول ساحر،، میں کیا مناسبت ہے؟ اور ساحر سے مراد کون ہے؟ جس پر اعتماد کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ اگر اس سے مراد کوئی خاص ساحر یا جادوگر ہے اور اس ساحر کے اقوال میں سے کوئی خاص قول مراد ہے تو اس کے لیے کسی قرینہ یا علامت کا ذکر ہونا چاہتے تھاکہ اس ساحر سے مراد فلاں ساحر اور اس کا فلاں قول ہے۔ جبکہ اس جملے میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کسی خاص ساحر اور کسی خاص قول پر دلالت کرے۔

۱۳۴

اگر ساحر سے مراد ہر ساحر ہر قول ہے(کیونکہ نہی کے بعد نکرہ استعمال ہوا ہے جس سے عموم سمجھا جاتا ہے) تو اس سے کلام کا لغو ہونا لازم آتا ہے۔ کیونکہ اس کا کوئی معقول سبب نہیں ہے کہ انسان کسی بھی ساحر کے قول پر اعتماد نہ کرے خواہ اس کی بات روزمرہ کے کسی معمول کے امر سے متعلق ہو اور انسان کو اس کے قول پر اعتماد و اطمینان بھی ہو۔

اور اگر اس کا مقصد یہ ہے کہ ساحر ہونے کی حیثیت سے، اس کی بات پر اعتماد نہ کرو، تو بھی غلط ہے۔ اس لیے کہ ساحر ہونے کی حیثیت سے تو وہ کوئی بات نہیں کرتا، وہ تو اپنے جادو اور حیلوں کے ذریعے لوگوں کو اذیت دیتا ہے۔

سورہ کوثر اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کا تمسخر اڑاتا تھا اور آپ(ص) سے کہتا تھا کہ آپ(ص) ''ابتر،، (لاولد) ہیں اور جلد ہی آپ(ص) کانام اور دین مٹ جائے گا۔ اس مطلب کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہو رہا ہے:

( أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ ) ۵۲:۳۰

''کیا (تم کو) یہ لوگ کہتے ہیں کہ (یہ) شاعر ہے (اور) ہم تو اس کے بارے میں زمانے کے حوادث کا انتظار کررہے ہیں۔،،

ان کے اس خیال کے رد میں یہ سورۃ نازل ہوا:

( إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ) ۱۰۸:۱

''(اے رسول) ہم نے تم کو کوثر عطا کیا۔،،

کوثر سے مراد وہ خیر کثیر ہے جو ہر اعتبار سے خیر ہے۔

۱۳۵

دنیا میں خیر کثیر سے مراد رسالت و نبوّت کا شرف، لوگوں کی ہدایت، مسلمانوں کی امامت، انصار و اعوان کی کثرت، دشمنوں پر غلبہ اور جناب سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی ذریت سے آپ(ص) کی نسل اور اولاد کی کثرت ہے، جن کی بدولت رہتی دنیا تک آپ(ص) کا نام قائم رہے گا۔

آخرت کا خیر کثیر آپ(ص) کی شفاعت، جنت کے بلند درجات، حوض کوثر جس سے صرف آپ(ص) اور آپ(ص) کے دوست سیراب ہوں گے اور ان کے علاوہ دیگر بہت سی نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہیں۔

( فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ )

''پس تم اپنے پروردگار کی نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔،،

ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں اور قربانی دیں۔ نحر سے مراد منیٰ کی قربانی یا عید الاضحیٰ پر دی جانے والی قربای یا نماز میں تکبیرۃ الاحرام کہنے کے دوران ہاتھوں کا گردن تک بلند کرنا یا نماز کے دوران قبلہ رخ ہونا اور متوازن کھڑے ہونا ہے۔ ان میں سے جو معنی مراد لیا جائے مناسب ہے کیونکہ یہ سب اعمال شکر کی صورتیں ہیں۔

( إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ )

''بیشک تمہارا دشمن بے اولاد رہے گا۔،،

آخر میں ارشاد ہوتا ہے کہ آپ لاولد نہیں ہیں بلکہ آپ کا دشمن ابتر و لا ولد ہو جائے گا۔

ان دشمنوں کا انجام آخر یہی ہوا جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ(ص) کو دی تھی۔ ان کا نام و نشان تک مٹ گیا اور دنیا میں ان کا کوئی ذکر خیر باقی نہیں ہے۔ ان کا اس طرح گمنام ہو جانا اس دردناک عذاب اور ابدی رسوائی کے علاوہ ہے جو انہیں نصیب ہوگی۔

۱۳۶

کیا یہ سورہ مبارکہ، جس کے معانی عظیم اور بلاغت کامل ہے، ان گئے گزرنے جملوں سے قابل مقایسہ ہے ،جن کو ترتیب سے لکھنے والے نے اپنی قوّت ضائع کی ہے؟ اس نے اپنے خیال میں نظیر پیش کرنے کے لیے قرآن مجید سے مفردات کی نقل کی ہے اور جملوں کے الفاظ اور اسلوب کو مسیلمہ کذاب سے لیا ہے۔ اس طرح اس نے اپنے عناد اور اسلام دشمنی بلکہ کھلم کھلا جہالت کے تقاضوں کو پورا کیا ہے تاکہ بلاغت اور اعجاز میں عظمت قرآن کا مقابلہ کرسکے!

رسُول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کےدیگر معجزات

تورات و انجیل میں نبوت محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی بشارت

کسی دانشمند اور محقق کو اس میں شک نہ ہوگا کہ پیغبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے معجزات میں سے اعظم معجزہ قرآن کریم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کا مقام تمام انبیاء(ع) کے معجزات سے بلند ہے۔ ہم نے گذشتہ مباحث میں اعجاز قرآن کے چند پہلوؤں کاذکر کیا اور یہ بھی واضح کردیا کہ کتاب الہٰی کو باقی معجزات پر برتری حاصل ہے۔ یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ خاتم الانبیائؐ کا معجزہ صرف قرآن کریم ہی میں منحصر نہیں ہے بلکہ آپ(ص) باقی انبیاء(ع) کے تمام معجزات میں بھی شریک ہیں اور قرآنی معجزہ صرف آپ(ص) سے مختص ہے۔ ہمارے اس دعویٰ کی دو دلیلیں ہیں:

پہلی دلیل: مسلمانوں کی متواتر روایات ہیں جن کے مطابق یہ معجزات رسولل اعظمؐ سے صادر ہوئے اور مختلف مکاتب فکر کے مسلمانوں نے ان معجزات کے موضوع پر بہت کتابیں لکھی ہیں۔ خواہش مند حضرات ان کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

ان روایات و اخبار کی دو امتیازی خصوصیات ہیں جو باقی انبیاء کے معجزات کے بارے میں اہل کتاب کی روایات میں نہیں ہیں۔

پہلی خصوصیت: ان روایات کا زمانہ ظہور معجزات کے زمانے سے نزدیک ہونا ہے۔ جب کسی چیز واقعہ کا زمانہ نزدیک ہو تو اس کا یقین آسانی سے حاصل ہوسکتا ہے جبکہ واقعہ کا زمانہ اگر دور ہو تو اس کا یقین حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا۔

۱۳۷

دوسری خصوصیت: راویوں کی کثرت ہے۔ ا س لیے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے اصحاب جنہو ں نے اپنی آنکھوں سے ان معجزات کا مشاہدہ کیا ہے ان کی تعداد بنی اسرائیل اور حضرت عیسیٰ پر ایمان لائے تھے اور آپ سے جتنے معجزات منقول ہیں ان کا سلسلہئ سند ان قلیل اور محدود مومنین تک پہنچتا ہے۔ اس کے باوجود اگر حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ کے معجزات کے بارے میں تواتر کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے تو خاتم الانبیائؐ کے معجزات کے بارے میں بطریق اولیٰ تواتر کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔

ہم گذشتہ مباحث میں واضح کرچکے ہیں کہ گذشتہ انبیاء(ع) کے معجزات بعد کے زمانے والوں کے لیے تواتر سے ثابت نہیں ہیں اور اس سلسلے میں تواتر کا دعویٰ کرنا باطل ہوگا۔

دوسری دلیل: آپ(ص) نے گذشتہ انبیاء(ع) کے بہت سے معجزات کی تصدیق و تائید فرمائی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ دعویٰ بھی فرمایا کہ آپ(ص) ان تمام انبیاء(ع) سے افضل بلکہ خاتم الانبیاء ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ یہ تمام معجزات بدرجہئ اتم آپ(ص) سے بھی صادر ہوں۔ کیونکہ یہ نامعقول ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدممی سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرے اور یہ بھی اقرار کرے کہ میں بعض صفات کے لحاظ سے دوسرے سے ناقص ہوں، نیز کیا یہ معقول ہے کہ ایک ڈاکٹر، دوسرے تمام ڈاکٹروں سے زیادہ ماہر ہونے کا دعویٰ کرے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اعتراف بھی کرے کہ بعض بیماریاں ایسی ہی ںجن کا علاج دوسرے ڈاکٹر تو کرسکتے ہیں لیکن میں نہیں کرسکتی؟! ظاہر ہے عقل کبھی بھی ایسے دعویٰ کی تصدیق نہیں کرے گی۔ اسی لیے بعض جھوٹے مدعیان نبوت نے اعجاز کا انکار کردیا اور وہ گذشتہ انبیاء کے معجزات میں سے کسی معجزے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان کی تمام تر کوشش ہوتی ہے کہ ہر اس آیہ کی تاویل و توجیہ کریں جو اعجاز پر دلالت کرے۔ یہ سب انکار اس لیے کیا جاتا ہے کہ کہیں لوگ ان سے بھی اس قسم کے معجزات کا مطالبہ نہ کر بیٹھیں جس سے ان کی عاجزی ظاہر ہو جائے اور یہ رسوا ہو جائیں۔

۱۳۸

بعض نادان اور عوام فریبیوں نے لکھا ہے کہ قرآن مجید میں چند ایسی آیات ہیں جن سے سوائے قرآن کریم کے باقی تمام معجزات رسول اعظمؐ کی نفی ہوتی ہے اور آپ(ص) کا واحد معجزہ قرآن کریم ہی ہے اور صرف یہی آپ کی نبوت کی دلیل و حجت ہے ہم ذیل میں وہ آیات ذکر کرتے ہیں جن سے ان لوگوں نے استدلال کنر کی کوشش کی ہے اور اس کے بعد ہم ان کے بطلان کو ثابت کریں گے۔

ان آیات میں سے ایک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ) ۱۷:۵۹

''اور ہمیں معجزات کے بھیجنے سے بجز اس کے اور کوئی وجہ مانع نہیں ہوئی کہ اگلوں نے انہیں جھٹلایا ارو ہم نے قوم ثمود کو (معجزے سے) اونٹی عطا کی جو (ہماری قدرت کی) دکھانے والی تھی ان لوگوں نے اس پر ظلم لیا (یہاں تک کہ مار ڈالا) اور ہم تو معجزے صرف ڈرانے کی غرض سے بھیجا کرتے ہیں۔،،

اس آیہ کریمہ سے ان کے زعم باطل کے مطابق ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) قرآن کے علاوہ اور کوئی معجزہ لے کر نہیں آئے اور اس کی وج یہ ہے کہ گذشتہ اقوام نے ان نشانیوں کی تکذیب کی جو ان کی طرف بھیجی گئی تھیں۔

جواب: اس آیہ کریمہ میں جن معجزات کی نفی کی گئی ہے اور جنہیں گذشتہ اقوام نے جھٹلالیا تھا ان سے مراد وہ معجزات ہیں جن کی گذشتہ اقوام نے اپنے انبیاء سے فرمائش کی تھی۔

۱۳۹

یہ آیہ کریم آپ(ص) سےہر قسم کے معجزات صادر ہونے کی نفی نہیں کرتی بلکہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آپ(ص) نے مشرکین کے مطلوبہ معجزات پیش نہیں کئے۔ اس کے چند دلائل ہیں:

۱۔ ''آیات،،، آیت کی جمع ہے۔ جس کے معنی ''نشانی،، کے ہیں اور جمع کے لفظ پ رالف۔ لام موجود ہے۔ ان خصوصیات کے پیش نظر آیہ کے معنی میں تین احتمال دیئے جاسکتے ہیں۔

i ) آیت سے مراد جنس آیت ہو جو آیت کی ہر فرد پر صادق آئے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کی یہ آیت ان تمام آیات کی نفی کررہی ہے جو مدعیئ نبوت کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس سے رسول اعظمؐ کی بعثت کا لغو ہونا لازم آتا ہے اسلئے کہ جب تک آپ(ص) کے دعویٰ کی صداقت کا کوئی ثبوت موجود نہ ہو آپ(ص) کو نبوّت پر فائز کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بغیر کسی معجزہ کے آپ کی نبوّت کی تصدیق اور آپ کی اتباع لازمی قرار دینا لوگوں پر ایسی ذمہ داری ڈالنا جو ان کے دائرہئ قدرت سے باہر ہے۔

ii ) اس آیہ سے مراد سب نشانیاں ہوں۔ یہ احتمال بھی باطل ہے اس لیے کہ نبی کی صداقت اس پر موقوف نہیں ہوسکتی کہ جتنی بھی آیات و نشانیاں ہوسکتی ہیں، سب پیش کی جائیں اور نہ ہی مطالبہ کرنے والوں نے سب کی سب آیات و نشانیاں پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس بناء پر آیہ کے یہ معنی بھی صحیح نہیں ہونگے۔

iii ) ''الآیات،، سے مراد کچھ مخصوص نشانیاں ہوں جن کا مشرکین مطالبہ کیا کرتے تھے اور آپ(ص) نے ان کا مطالبہ پورا نہیں فرمایا اور یہی احتمال درست ہے۔

۲۔ اگر لوگوں کی تکذیب معجزات بھیجنے میں مانع بن سکتی ہے تو اسے قرآن نازل کرنے میں بھی مانع بننا چاہےے تھا۔ کیونکہ کوئی وجہ نہی ںکہ ان کی تکذیب بعض معجزات کے لیے مانع ہو اور بعض کے لیے نہ ہو۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689