البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314343 / ڈاؤنلوڈ: 9336
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

چھٹا اعتراض

اعجام قرآن پر چھٹا اعتراض یہ ہے کہ اگر ہر وہ کتاب معجزہ ہے جس کی نظیر لانے سے انسان عاجز ہو تو ہیئت کی کتاب ''اقلیدس،، اور ہندسہ کی کتاب بھی معجزہ نہیں ہوسکتی جس کی نظیر انسان نہ لاسکے۔

جواب:

اولاً: ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ انسان ان دونوں کتابو ںکی نظیر لانے سے عاجز اور قاصر ہے۔ ا س لیے کہ ان کے بعد علم ہیئت اور علم ہندسہ پر ایسی ایسی کتب لکھی جاچکی ہےں جن کا بیان زیادہ وزنی اور سمجھنا آسان ہے۔ بعد کی کتاب کئی اعتبار سے ان دونوں کتابوں پر فوقیت رکھتی ہیں اور ان میں بعض ایسی چیزیں ہیں جن کا ان دونوں کتب میں نام و نشان تک نہیں ہے۔

ثانیاً: ہم نے معجزہ کی کئی شرائط بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ معجزے کو جب پیش کیا جائے تو اسے بطور چیلنج اور اپنے الہٰی منصب کے ثبوت و دلیل میں پیش کیا جائے۔ اس کے علاوہ ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو کام بھی بطور معجزہ انجام دیا جائے وہ طبیعی قوانین سے بالاتر ہو۔ یہ دونوں شرائط ان دونوں کتب میں مفقود ہیں۔ اس کی وضاحت ہم اعجاز کی بحث کے شروع میں کرچکے ہیں۔

ساتواں اعتراض

اگر عربوں نے قرآن کا مقابلہ نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انسان قرآن کی نظیر لانے سے عاجز و قاصر ہے بلکہ اس کی اور وجوہات ہیں جن کا تعلق اعجاز سے نہیں ہے۔

۱۲۱

دعوت اسلام کے معاصر اور ان کے بعد عربوں کی طرف سے قرآن کا مقابلہ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومت اور ان کا رعب و ہیبت ان کو اس مقابلے سے روکتا تھا اور انہیں اس میں اپنی جان و مال کا خوف تھا۔ خلفاء اربعہ کی حکومت کا دور گزرنے کے بعد جب امویوں کا دور آیا، جن کی خلافتیں دعوتِ اسلامی کے محور پر قائم نھیں تھیں تو قرآن اپنے الفاظ کی متانت اور مضبوطی کی وجہ سے تمام لوگوں میں مانوس ہوچکا تھا اور نسلیں گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قرآن لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہوتا چلا گیا یہ رسوخ و راثۃً نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا گیا، جس کے نتیجے میں اس کے مقابلے سے لوگ دستبردار ہوگئے۔

جواب:

اولاً: قرآن کا چیلنج اور ایک سورہ کے مقابلے کی دعوت دینا اس زمانے کی بات ہے جب پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) مکّہ میں تھے اور اسلام کو ابھی وہ تقویت حاصل نہیں ہوئی تھی اور نہ ملسمانوں کا وہ رعب و دبدبہ تھا جس سے مخالفین پر خوف و ہراس طاری ہو جاتا۔ اس کے باوجود عرب کے فصحاء اور بلغاء قرآن کا مقابلہ نہ کرسکے۔

ثانیاً: خلفاء کے دور حکومت میں ایسا خوف نہیں تھا جس کی وجہ سے کفار اور مخالفین قرآن اپنے کفر اور مسلمانوں سے اپنی عدوات کو ظاہر نہ کرسکیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جزیرۃ العرب میں مسلمانوں کے درمیان اہل کتاب بڑے سکون و آرام کی زندگی گزارتے تھے۔ ان کو وہی حقوق حاصل تھے جو مسلمانوں کو حاصل تھے۔ ان کے فرائض وہی تھے جو مسلمانوں کے تھے۔ خاص کر حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کے دور حکومت میں جن کی عدالت اور کثرت علم کی گواہی غیر مسلم تک دیتے ہیں۔ اس قسم کے اہل کتاب یا دوسرے کفار اگر قرآن کی مثل و نظیر لانے پر قادر ہوتے تو یقیناً وہ اپنے نظریئے اور ثبوت میں اسے پیش کرتے۔

۱۲۲

ثالثاً: بالفرض اگر قرآن کے مقابلے سے انہیں خوف محسوس ہوتا تھا تو یہ خوف کھلے عام مقابلے میں مانع ہونا چاہیے تھا۔ گھروں میں اور بالکل مخفی طور پر قرآن کے مقابلے میں عبارتیں بنانے سے کون سی چیز لکھنے والوں کی راہ میں حائل تھی؟

اگر اس قسم کی کتب یا عبارتیں لکھی گئی ہوتیں تو اس خوف کے زائل ہونے کے بعد ان کو ظاہر کیا جاتا جس طرح کتب عہدلین کی خرافات اور ان کے دین سے متعلق دیگر باتیں آج بھی محفوظ ہیں۔

رابعاً: کوئی بھی کلام ہو، چاہے وہ بلاغت کے بلند ترین مقام پر ہو، انسانی طبیعت کا یہ تقاضا ہے کہ جب وہ بار بار سماعت سے ٹکرائے گا تو اپنے پہلے مقام سے گرجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بلیغ سے بلیغ قصیدہ و کلام بھی اگر انسان کے سامنے مکرر پڑھا جائے تو انسان اس سے اکتا جاتا ہے۔ کیونکہ ا س کے مقابلے میں جب کوئی دوسرا قصیدہ اسے سنایا جاتا ہے تو اسے شروع میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ دوسرا قصیدہ پہلے قصیدہ سے بہتراور اس میں زیادہ بلاغت ہے اور جب دوسرے قصیدے کو بھی بار بار پڑھا جائے تو ان دونوں میں موجود فرق واضح ہو جاتا ہے۔

یہ قاعدہ صرف کلام ہی سے مختص نہیں ہے بلکہ یہ ہر اس چیز میں جاری ہے جس سے انسان لطف اندوز وہتا ہے اور اس کے حسن و قبح کو درک کرسکتا ہے۔ چاہے اس کا تعلق کھانے پینے یا پہننے کی چیزوں سے ہو یا سنائی دینے والی آواز سے۔

اگر قرآن کریم معجزہ نہ ہوتا تو یہ کلیّہ اس پر بھی لاگو ہوتا اور سننے والوں کے نزدیک اس کا وہ مقام نہ رہتا جو شروع شروع میں اسے حاصل تھا اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی فصاحت و بلاغت میںکمی آجانی چاہیے تھی جس کے نتیجے میں قرآن کا مقابلہ آسان ہوجاتا۔

۱۲۳

لیکن ہم بالوجدان یہ دیکھ رہے ہیں کہ قرآن کریم کو بار بار پڑھنے اورسننے کے باجود اس کے حسن اور خوبیوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور اس سے عرفان و یقین حاصل ہوتا ہے اور انسان اس پر ایمان لانے اور اس کی تصدیق کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

قرآن کریم کی یہ خصوصیت اور امتیاز، دوسرے مانوس کلاموں سے بالکل مختلف ہے۔ پس قرآن کا یہ پہلو بھی اس کے معجزہ ہونے کی تائید اور تاکید کرتا ہے اور یہ اس کے اعجاز کے خلاف نہیں ہے جیسا کہ مخالف قرآن و اسلام کا توہم ہے۔

خامساً: بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ کسی کلام کو بار بار پڑھنے سے انسان اس سے مانوس اور اس کے مقابلے سے دستبردار ہوجاتا ہے تو یہ بات صرف مسلمانوں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے جو قرآن کی تصدیق کرتے ہیں اسے بار بار سنتے اور اس سے مانوس ہوتے ہیں اور چاہے جس کثرت سے بھی اس کی تلاوت کی جائے اسے رغبت و شوق سے سنتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کو چھوڑ کر دوسرے غیر مسلموں کو اس کے مقابلے سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے تھا تاکہ اس مقابلے کو کم از کم غیر مسلم ہی تسلیم کرلیتے۔

آٹھواں اعتراض

تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت ابوبکر نے جب قرآن کو جمع کرنا چاہا تو انہوںنے حضرت عمر اور زید بن ثابت کو حکم دیا کہ ومسجد کے دروازے پر بیٹھ جائیں اور ہر وہ عبارت لکھ لائیں جس کے کتاب ہونے کی گواہی دو شاہد دیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کوئی خارق العادۃ اور غیرمعمولی کلام نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر قرآن کوئی خارق العادۃ اور غیر معمولی کلام ہوتا تو اس کے لیے کسی شہادت و گواہی کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی اور بذات خود اسے ثبت ہونا چاہیے تھا۔

۱۲۴

جواب:

اولا: قرآن کی بلاغت اور اس کا اسلوب کلام معجزہ ہے، نہ کہ اس کا ایک ایک کلمہ اور لفظ معجزہ ہے۔ اس بناء پر یہ شک ہوسکتا ہے کہ اس کے مفردات اور کسی کلمہ میں تحریف نہ ہوگئی ہو یا اس میں کمی بیشی کا بھی احتمال ہوسکتا ہے۔ فرض کریں شاہدوں کی شہادت والی راویت اگر صحیح بھی ہے تو وہ اس قسم کے احتمالات کے ازالے کے لیے ہے کہ کہیں قرآن پڑھنے والا غلطی سے یا جان بوجھ کر کسی لفظ یا کلمے میں کمی بیشی نہ کردے۔

اس کے علاوہ اگر قرآن کی ایک سورۃ کی نظیر بشر نہ لا سکے تو وہ ایک آیہ کی مثل و نظیر لانے سے منافات نہیں رکھتا۔ یہ ایک ممکن کام ہے اور آج تک مسلمانوں نے اس کے محال یا ناممکن ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور قرآن نے اپنے چیلنج میں بھی یہ نہیں فرمایا کہ لوگ اس کی ایک آیت کی نظیر و مثل نہیں پیش کرسکتے۔

ثانیاً: جتنی روایات اور اخبار اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر کے زمانے میں صحابہ میں سے دو شاہدوں کی شہادت سے قرآن جمع کیا جاتا تھا۔ یہ سب خبر واحد ہیں خبر متواتر نہیں اور خبر واحد اس قسم کے واقعات میں حجت اور دلیل نہیں بن سکتی۔

ثالثاً: ان اخبار کے مقابلے میں بہت سی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہی کے زمانے میں جمع کیا گیا۔ بہت سے اصحاب نے پورا قرآن کریم حفظ کرلیا تھا اور جن حضرات کو قرآن کے بعض سورے اور حصے یاد تھے ان کا تو شمار ہی نہیں ہوسکتا۔

۱۲۵

اس کے علاوہ اگر عقلی طور پر انسان ذرا فکر سے کام لے تو اس قسم کی روایات کا کذب ثابت ہو جاتا ہے جن سے مخالفین قرآن تمسک چاہتے ہیں۔

پس قرآن جو مسلمانوں کی ہدایت کا سب سے بڑا ذریعہ اور ان کو بدبختی اور جہالت کی تاریکیوں سے سعادت اور علم کے نور کی طرف لاتا ہے اور مسلمان قرآن کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے اور دن رات اس کی تلاوت کرتے تھے، قرآن کو حفظ کرنے اور اس کی صحیح تلاوت کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے، اس کی سورتوں اور آیات کو دیکھنا مبارک سمجھتے تھے اور پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بھی اس بات کی ترغیب دیتے تھے، ان سب باتوں کے باوجود کیا کوئی عقلمند یہ احتمال دے سکتا ہے کہ کسی آیہ یا سورہ کو ثابت کرنے کے لیے دو گواہوں کی ضرورت ہوگی۔ انشاء اللہ ہم آ ئندہ ثابت کریں گے کہ قرآن مجید پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہی کے زمانے میں مکمل طور پر جمع کرلیا گیا تھا۔

نواں اعتراض

قرآن کا اسلوب، بلاغت کے مروج اسلوب سے مختلف ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید نے مختلف موضوعات کو باہم مخلوط کردیا ہے۔ مثلاً اگر تاریخ کی بات کررہا ہے تو اچانک وعدہ وعید (بہشت کے وعدوں اور جہنم کے عذاب کی دھمکیوں) میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اگر قرآن ابواب میں تقسیم ہوتا اور ہر موضوع کے متعلق جتنی آیات ہیں ان کو یکجا کردیا جاتا تو اس کا فائدہ بہت زیادہ ہوتا اور اس سے استفادہ بھی آسان ہوتا۔

جواب:

قرآن انسانوں کی ہدایت اور ان کو دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ یہ کوئی تاریخی یافقہ و اخلاق یا اسی قسم کی کوئی اور کتاب نہیں ہے کہ اس کو ان موضوعات کے لحاظ سے مستقل ابواب میں یکجا کیا جاتا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا اسلوب، مطلوبہ مقصد تک پہنچانے کا نزدیک ترین اسلوب ہے، اس لیے کہ جو انسان قرآن کی بعض سورتوں کی تلاوت کرتا ہے

۱۲۶

وہ اسی تلاوت اور قلیل وقت میں، معمولی زحمت کرکے بہت سے اغراض و مقاصد حاصل کرسکتا ہے۔ مثلاً، ایک ہی تلاوت میں وہ توحید و معدا کی طرف متوجہ ہوسکتا ہے۔ گذشتہ لوگوں کے حالات سے آگاہ ہوسکتا ہے اور اس سے عبرت حاصل کرسکتا ہے۔ اخلاق حسنہ کا استفادہ کرسکتا ہے اور دیگر علوم و معارف سے روشناس ہوسکتا ہے ان کے علاوہ اسی تلاوت میں اپنی عبادات اور معاملات سے متعلق کچھ احکام بھی سیکھ سکتا ہے۔

ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ قرآن کریم میں نظم کلام کی رعایت بھی کی گئی ہے حسن بیان کا حق ادا کردیا گیا ہے اور مقتضائے حال کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔

یہ وہ فوائد ہیں جو قرآن کو ابواب میں تقسیم کرنے سے حاصل نہ ہوسکتے۔ کیونکہ اگر اسے ابواب میں تقسیم کیا جاتا تو انسان اپنے مختلف اغراض و مقاصد اسی صورت میں حاصل کرسکتا تھا جب وہ پورے قرآن کی تلاوت کرتا اور عین ممکن ہے کہ کچھ رکاوٹیں پیش آنے کی وجہ سے انسان پورے قرآن کی تلاوت نہ کرپائے اور صرف ایک یا دو ابواب سے مستفید ہوسکے۔

مجھے اپنی زندگی کی قسم حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ باتیں اسلوب قرآن کی خوبیوں میں سے ہیں اس اسلوب کی وجہ سے قرآن کو حسن و جمال ملا ہے۔ اس لیے کہ قرآن کے ایک موضوع سے دوسرے موضوع کی طرف منتقل ہونے کے باوجود ان دونوں موضوعات میں مکمل ربط قائم رہتا ہے۔ گویا اس کے تمام جملے موتی ہیں جنہیں ایک لڑی میں پرودیا گیا ہے۔

لیکن اسلام دشمنی نے معترض کی آنکھ کو اندھا اور کان کو بہرا کردیاہے جس کی وجہ سے وہ جمال کو قبح اوراچھائی کو برائی سمجھتا ہے۔

اس کے علاوہ قرآن مجید میں بعض قصوں کی حسب ضرورت مختلف عبارتوں میں تکرار کی گئی ہے، اگر مکرر بیان کی گئی عبارتوں کو ایک ہی باب میںبیان کردیا جاتا تو قاری کو زیر نظر فائدہ حاصل نہ ہوتا۔

۱۲۷

قرآن کا مقابلہ

کتابچہ ''حسن الایجاز،،(۱) کا مصنف اپنے رسالے میں دعویٰ کرتا ہے کہ قرآن کی نظیر پیش کرنا ممکن ہے اور اس نے کچھ ایسے جملے ذکر کئے ہیں جنہیں اس نے قرآن ہی سے لیا ہے اور ان کے بعض الفاظ میں تبدیلی کرکے اپنے زعم باطل میں یہ سمجھاہے کہ وہ قرآن کا مقابلہ کررہا ہے اس طرح اس نے اپنے مبلغ علم اور بلاغت شناسی کاراز فاش کردیا ہے۔

قارئین محترم کی خدمت میں وہ عبارتیں پیش کرکے ہم اس کے وہمی اور خیالی مقابلے کی قلعی کھول دیتے ہیں اور اس کے جملوں میں جو خامیاں پای جاتی ہیں ان کی وضاحت بھی کرتے ہیں۔ ہم اپنی کتاب ''نفحات الاعجاز،، میں بھی ان خیالی مقابلوں کا جواب دے چکے ہیں۔(۲)

اس خیال باف نے سورہ فاتحہ کے مقابلے میں لکھا ہے:

الحمد الرحمن رب الاکوان، الملک الدیان، لک العبادة و بک المستعان، اهدنا صراط الایمان

اپنے زعم باطل میں یہ سمجھتا ہے کہ اس کی یہ عبارت سورۃ فاتحہ کے معانی و مفاہیم ادا کرتی ہے اور اس سے مختصر بھی ہے۔

معلوم نہیں یہ جملے لکھنے والے کو کیا جواب دیا جائے جو علمی اعتبار سے اتنا گیا گزرا ہے کہ وزنی اور ہلکے کلام میں بھی تمیز نہیں کرسکتا۔ کاش اس سے پہلے کہ اس دعویٰ کے ذریعے وہ اپنے آپ کو رسوا کرتا۔ ان عبارتوں کو علمائے نصاریٰ کے سامنے پیش کرتا جو اسلوب کلام اور فنون بلاغت سے آشنائی رکھتے ہیں۔

____________________

(۱) یہ چھوٹا سا کتابچہ ۱۹۱۲ء میں مصر کے شہر بولاق میں ایک اینگلو ارمیکن پریس میں شائع کیا گیا۔

(۲) یہ کتاب رسالہ ''حسن الایجاز،، کی رد میں لکھی گئی جو ۱۳۴۲ھ میں نجف اشرف کے علویہ پریس میں شائع کی گئی۔

۱۲۸

اسے اتنا بھی معلوم نہیں کہ کسی بھی کلام کے مقابلے کاطریقہ یہ ہے ک کوئی شاعر یا مضمون نگار اپنے ہی الفاظ، ترکیب اور اسلوب میں ایسا کلام پیش کرے جو مد مقابل کلام کے کسی پہلو اور مقصد سے مطابقت رکھتا ہو۔ مقابلے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ کلام کی ترکیب اور اسلوب میں اس کلام اور ترکیب کی نقل کی جائے جس سے مقابلہ کیا جارہا ہے اور صرف الفاظ میں رد و بدل کرلیا جائے۔

اسطرح کا مقابلہ تو ہر کلام کا کیا جاسکتا ے اور ایسا مقابلہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے ہم عصر عربوںکے لیے آسان تھا، لیکن چونکہ وہ مقابلے کے صحیح مفہوم اور بلاغت قرآن کے پہلوؤں کو سمجھتے تھے اس لیے مقابلہ نہ کرسکے۔ قران کے معجزہ ہونے کا انہوں نے اعتراف کرلیا اور انہوں نے اس پر ایمان لانا تھا وہ ایمان لے آئے اور جنہوں نے اس کا انکار کرناتھا انہوں نے انکار کردیا۔ اس کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہو رہا ہے:

( فَقَالَ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ ) ۷۴:۲۴

''پھر کہنے لگا یہ تو بس جادو ہے جو (اگلوں سے) چلا آتا ہے۔،،

اس کے علاوہ مذکورہ بالا جملوں کا سورۃ فاتحہ سے موازنہ تک نہیں ہوسکتا جس سے یہ سوال پیدا ہو کہ ان جملوں سے سورۃ فاتحہ کے معانی ادا ہو جاتے ہیں؟

کیا فن بلاغت سے اس کا بے بہرہ ہونا ہی کافی نہیں تھا کہ اس نے لوگوں کے سامنے اپنی خامیوں اور عیبوں کو بھی

ظاہر کردیا؟!! اور''الحمد للرحمٰن،، کا مقایسہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان( الْحَمْدُ لِلَّـهِ ) ۱:۲،، سے کس طرح کیا جاسکتا ہے۔

جبکہ اس جملے میں وہ معانی نہیں پائے جاتے جو مقصود الہٰی ہیں۔ اس لیے کہ لفظ ''اللہ،، علم ہے اور نام ہے اس ذات اقدس کا جو تمام صفات کمال کی جامع ہے۔

۱۲۹

ان صفات کمال میں سے ایک صفت، رحمت ہے جس کی طرف ''بسم اللہ، میں اشارہ کیا گیا ہے ''اللہ،، کی بجائے ''رحمٰن،، ذکر کرنے سے باقی صفات کمال پر دلالت نہیں ہوتی جو ذات الہٰی میں مجتمع ہیں اور وہ صفات ایسی ہیں جو بذات خود رحمت کی طرح حمد الہٰی کی موجب ہیں۔

اسی طرح اس کے جملے ''رب الاکوان،، میں بھی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:( رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) ۱:۳ کے معنی و مفہوم کا کوئی شمہ نہیں پایا جاتا۔ اس لیے کہ( رَبِّ الْعَالَمِينَ ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ عالم طولی وعرضی(۱) ایک نہیں بلکہ متعدد ہیں اور اللہ تعالیٰ ان تمام عالموں کا مالک اور پالنے والا ہے اور اس کی رحمت ان تمام عالموں کو شامل ہے۔ چنانچہ ''رحمن،، کے بعد ''رحیم،، کاذکر بھی اس امر پر دلالت کرتا ہے جس کی وضاحت انشاء اللہ ''سورہ فاتحہ،، کی تفسیر میں کی جائے گی۔

یہ پر مغز معانی کجا اور عبارت ''رب الاکوان،، کجا؟ لفظ ''کون،، کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ ''حدوث،، ''وقوع،، پذیر ''ہوجانا،، اور ''کفالت،،(۲) کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

یہ سارے معانی مصدری ہیں جن کی طرف لفظ ''رب،، بمعنی مالک و مربی کی اضافت صحیح نہیں ہے۔ البتہ لفظ ''خالق،، کی اضافت ''کون،، کی طرف ہوسکتی ہے، اور ''خالق الاکوان،، کہا جاسکتا ہے۔

____________________

(۱) فلسفیانہ نقطہئ نظر سے عالم کی دوقسمیں ہیں:

i ) عرضی۔

ii ) طولی۔

عالم عرضی سے مراد وہ عالم ہے جس کے افراد میںایک علت اور دوسرا معلول نہ ہو جسے انسان اور حیوانات۔ عالم طولی سے مراد وہ عالم ہے جس کے افراد میں ایک علت اور دوسرا معلول ہو جسے عالم ناسوت (مادہ) جس کی علت عالم ملکوت ہے اور عالم ملکوت جس کی علت عالم لاہوت ہے۔

(۲) ''لسان العرب،، کی طرف رجوع کیجئے۔

۱۳۰

اس کے علاوہ لفظ ''اکوان،، عالم موجودات کے تعدد پر دلالت نہیں کرتا جیسے لفظ ''عالمین،، دلالت کرتا ہے اور آیہ کریمہ کے دوسرے پہلو جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) ۱:۴،، اس سے جو مقصد حاصل ہوتا ہے وہ جملہ ''الملک الدیان،، سے حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ جملہ اس عالم کے علاوہ کسی اور عالم کے وجود پر دلالت نہیں کرتا جس میں اعمال کی سزا و جزا دی جائے گی اور یہ کہ اس دن کا مالک صرف خدا کی ذات ہے کسی اور کو اس میں تصرف اور اختیا رکا حق نہیں ہوگا۔ سب لوگ اس دن خدا کے حکم کے تحت ہونگے، خدا ہی کے حکم و امر کا نفاذ ہوگا اور اسی کے حکم سے بعض کو بہشت ملے گی اور بعض کو جہنم میں بھیجا جائے گا۔

جبکہ جملہ ''الملک الدیان،، صرف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خدا وہ بادشاہ ہے جو اعمال کی سزا و جزا دیتا ہے۔ کتنا فرق ہے اس جملے اور آیہ کریمہ کے معانی میں؟!

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) ۱:۵

اس کتابچے کے مصنف نے اس آیہ سے صرف اتنا سمجھا ہے کہ عبادت، خدا کی ہونی چاہیے اور مدد صرف خدا سے لینی چاہیے۔ چنانچہ اپنی اس سمجھ کے مطابق اس نے اللہ تعالیٰ کے مذکورہ فرمان کو اپنے اس قول سے بدل دیا۔''لک العبادة و بک المستعان،، یعنی ''عبادت تیرے لیے ہے اور مدد تمجھ سے ہے۔،، اور اس سے وہ مقصد فوت ہوگیا جو اس آیہ کریمہ کا تھا۔ اس آیہ کریمہ میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ مومن، توحید فی العبادۃ کااظہار کرے اس کے علاوہ عبادات اور دیگر افعال میں اپنی احتیاج کابھی اظہار کرے اور یہ اعتراف کرے کہ میں اور دوسرے تمام مومنین غیر اللہ کی عبادت نہیں کرتے اور نہ غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔ بھلا یہ نکات اس مصنف کی عبارت میںکہاںمل سکتے ہیں جبکہ اس کی عبارت آیہ مبارکہ سے زیادہ مختصر بھی نہیں ہے؟!

۱۳۱

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) ۱:۶

اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اس سے ایسے قریبی راستے کی ہدایت طلب کریں جو اپنے چلنے والے کو اعمال خیر، صفات نفسانی اور عقائد جیسے مقاصد تک پہنچائے اور اس راستے کو صرف ایمان کے راستے میں منحصر نہیں فرمایا۔ یہ مطلب مصنف کے جملہ ''اھدنا صراط الایمان،، میں نہیں پایا جاتا۔ اس کے علاوہ اس جملے میں صرف ایمان کے راستے کی ہدایت کے لیے درخواست کی گئی ہے۔ اس میں اس نکتے کی طرف اشارہ نہیں ہے کہ ایمان کا یہ راستہ مستقیم ہے اور وہ اپنے پر چلنے والے کو گمراہ نہیں کرتا۔

اس مصنف نے صرف انہی جملوں کو مثل و نظیر کے طور پر پیش کرکے یہ گمان کرلیا ہے کہ سورہ مبارکہ کے باقی حصے کی ضرورت نہیں ہے ارو یہ بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس آیہ کے مفوہم کو نہیں سمجھ سکا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) ۱:۷

اس میں حقیت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ راستہ ایک ایسا مستقیم اور سیدھا راستہ ہے کہ اس پر انبیاء(ع) صدیقین، شہداء اور صالحین چلتے ہیں، جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعتمیں نازل فرمائیں ہیں، اور اس کے مقابلے میں کچھ ایسے راستے ہیں جو مستقیم نہیں ہیں۔ ان راستوں پر وہ لوگ چلتے ہیں جن پر غضب الہٰی نازل ہوتا ہے، جو حق کے دشمن ہوتے ہیں اور حق آشکار ہونے کے باوجود اس کا انکار کرتے ہںی اور اس راستے پر چلنے والے لوگ ایسے گمراہ ہیں جو اپنی جہالت، جستجو میں کوتاہی اور اپنے آباؤ اجداد کی وراثت میں ملنے والے عقیدہ پر اکتفاء کرنے کی وجہ سے راہ حق سے بھٹک گئے ہیں، جس کے نتیجے میں بغیر کسی ہدایت اور دلیل کے انہوں نے اندھی تقلید کا راستہ اپنالیا ہے۔

۱۳۲

جو بھی اس آیہ کریمہ کو تدبّر اور تفکّر کی نگاہ سے پڑِے وہ اس نکتہ کی طرف متوجہ ہوگا کہ اخلاق و عقاید اور دوسرے اعمال میں اولیائے خدا اور اللہ کے مقربین کی اتباع کرنا چاہیے اور ان سرکشوں کی راہ سے اجتناب کرنا چاہیے جن کے اعمال یا جنکے کرتوتوں کے نتیجے میں خدا نے ان پر غضب نازل فرمایا ہو اور جو حق کے واضح ہونے کے باوجود اس کے راستے بھٹک گئے ہیں۔

اہل انصاف بتائیں کہ کیا یہ کوئی معمولی نکتہ ہے جسے اس مصنف نے نظر انداز کردیا اور اس آیہ کو غیر ضروری سمجھ کر اس کی نطیر یا متبادل عبارت کا ذکر نہیں کیا۔

یہ مصنف سورۃ ''کوثر،، کے مقابلے میں یہ عبارت پیش کرتا ہے:

''انا اعطیناک الجواهر فصل لربک و جاهر ولا تعتمد قول ساحر،،

ملاحظہ فرمائیں کہ نظم اور ترکیب میں یہ کس طرح قرآن کی نقل کررہا ہے اور اس کے بعض الفاظ بدل کر لوگوں کو یہ غلط تاثر دے رہا ہے کہ وہ قرآن کا مقابلہ کرنے میںکامیاب ہوگیا ہے، یہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ اس نے اپنی یہ عبارت کس طرح مسلیمہ کذاب کی عبارت سے چوری ی ہے۔ مسیلمہ کذاب کہتا ہے:

''انا اعطیناک الجماهر فصل لربک وهاجرو ان مبغضک رجل کافر،،

مقام حیرت ہے کہ یہ اس توہم کا شکار ہے کہ اگر دو کلام سجع میں ایک دوسرے کے مشابہ ہوں تو یہ بلاغت میں بھی یکساں ہوں گے اور اس نکتے سے غافل ہے کہ خدا کی طرف سے جواہر دیئے جانے لازمہ یہ نہیں ہے کہ نماز قائم کی جائے اور اس کا اعلان کیا جائے،نیز خداکی نعمتیں صرف جواہر ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سی نعمتیں ہیں جو کہ جواہر اور دوسرے مال و دولت سے بڑھ کر ہیں جیسے زندگی ہے، عقل اور ایمان کی نعمت ہے، جب خدا کی اتنی نعمتیں ہیں تو ان تمام کو چھوڑ کر صرف مال ہی کو کیوں نماز کا سبب قرار دیا ہے۔

۱۳۳

لیکن جو شخص تبشیری مشینری کے لیے کرائے پر کام کرتا ہو اس کاقبلہ تو مال و دولت ہی ہوگا اور مال ہی اس کا آخری ہدف ہوگا جس کے حصول کی وہ کوشش کرتا ہے اور مال ہی اس کی آخری منزل ہوتی ہے جسے وہ ہر مقصد پر برتر سمجھتا ہے، ضرب المثل ہے:

''وکل اناء بالذی فیه ینفح،،

از کوزہ ہمان تراودکہ دراواست

کوئی اس شخص سے پوچھے کہ جواہر سے کیا مراد ہے جسے اس نے الف، لام کے ساتھ ذکر ککیا ہے۔ اگر جواہر سے مراد کوئی خاص جواہر ہیں تو اس لفظ میں اس کی نشاندہی کے لیے کوئی قرینہ بھی ہونا چاہیے تھا جس سے جواہر کا تعین ہو جاتا، جو کہ موجود نہیں ہے۔

اگر جواہر سے مراد دنیا کے تمام جواہر ہیں (کیونکہ جواہر جمع ہے اور اس پر الف لام موجود ہے اور جب جمع پر الف، لام ہو تو یہ استغراق یعنی تمام افراد پردلالت کرتا ہے) تو یہ سفید جھوٹ ہے۔

اس کے علاوہ اس کے سابقہ دو جموں اور جملہ ''ولا تعتمد قول ساحر،، میں کیا مناسبت ہے؟ اور ساحر سے مراد کون ہے؟ جس پر اعتماد کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ اگر اس سے مراد کوئی خاص ساحر یا جادوگر ہے اور اس ساحر کے اقوال میں سے کوئی خاص قول مراد ہے تو اس کے لیے کسی قرینہ یا علامت کا ذکر ہونا چاہتے تھاکہ اس ساحر سے مراد فلاں ساحر اور اس کا فلاں قول ہے۔ جبکہ اس جملے میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کسی خاص ساحر اور کسی خاص قول پر دلالت کرے۔

۱۳۴

اگر ساحر سے مراد ہر ساحر ہر قول ہے(کیونکہ نہی کے بعد نکرہ استعمال ہوا ہے جس سے عموم سمجھا جاتا ہے) تو اس سے کلام کا لغو ہونا لازم آتا ہے۔ کیونکہ اس کا کوئی معقول سبب نہیں ہے کہ انسان کسی بھی ساحر کے قول پر اعتماد نہ کرے خواہ اس کی بات روزمرہ کے کسی معمول کے امر سے متعلق ہو اور انسان کو اس کے قول پر اعتماد و اطمینان بھی ہو۔

اور اگر اس کا مقصد یہ ہے کہ ساحر ہونے کی حیثیت سے، اس کی بات پر اعتماد نہ کرو، تو بھی غلط ہے۔ اس لیے کہ ساحر ہونے کی حیثیت سے تو وہ کوئی بات نہیں کرتا، وہ تو اپنے جادو اور حیلوں کے ذریعے لوگوں کو اذیت دیتا ہے۔

سورہ کوثر اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کا تمسخر اڑاتا تھا اور آپ(ص) سے کہتا تھا کہ آپ(ص) ''ابتر،، (لاولد) ہیں اور جلد ہی آپ(ص) کانام اور دین مٹ جائے گا۔ اس مطلب کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہو رہا ہے:

( أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ ) ۵۲:۳۰

''کیا (تم کو) یہ لوگ کہتے ہیں کہ (یہ) شاعر ہے (اور) ہم تو اس کے بارے میں زمانے کے حوادث کا انتظار کررہے ہیں۔،،

ان کے اس خیال کے رد میں یہ سورۃ نازل ہوا:

( إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ) ۱۰۸:۱

''(اے رسول) ہم نے تم کو کوثر عطا کیا۔،،

کوثر سے مراد وہ خیر کثیر ہے جو ہر اعتبار سے خیر ہے۔

۱۳۵

دنیا میں خیر کثیر سے مراد رسالت و نبوّت کا شرف، لوگوں کی ہدایت، مسلمانوں کی امامت، انصار و اعوان کی کثرت، دشمنوں پر غلبہ اور جناب سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی ذریت سے آپ(ص) کی نسل اور اولاد کی کثرت ہے، جن کی بدولت رہتی دنیا تک آپ(ص) کا نام قائم رہے گا۔

آخرت کا خیر کثیر آپ(ص) کی شفاعت، جنت کے بلند درجات، حوض کوثر جس سے صرف آپ(ص) اور آپ(ص) کے دوست سیراب ہوں گے اور ان کے علاوہ دیگر بہت سی نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہیں۔

( فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ )

''پس تم اپنے پروردگار کی نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔،،

ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں اور قربانی دیں۔ نحر سے مراد منیٰ کی قربانی یا عید الاضحیٰ پر دی جانے والی قربای یا نماز میں تکبیرۃ الاحرام کہنے کے دوران ہاتھوں کا گردن تک بلند کرنا یا نماز کے دوران قبلہ رخ ہونا اور متوازن کھڑے ہونا ہے۔ ان میں سے جو معنی مراد لیا جائے مناسب ہے کیونکہ یہ سب اعمال شکر کی صورتیں ہیں۔

( إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ )

''بیشک تمہارا دشمن بے اولاد رہے گا۔،،

آخر میں ارشاد ہوتا ہے کہ آپ لاولد نہیں ہیں بلکہ آپ کا دشمن ابتر و لا ولد ہو جائے گا۔

ان دشمنوں کا انجام آخر یہی ہوا جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ(ص) کو دی تھی۔ ان کا نام و نشان تک مٹ گیا اور دنیا میں ان کا کوئی ذکر خیر باقی نہیں ہے۔ ان کا اس طرح گمنام ہو جانا اس دردناک عذاب اور ابدی رسوائی کے علاوہ ہے جو انہیں نصیب ہوگی۔

۱۳۶

کیا یہ سورہ مبارکہ، جس کے معانی عظیم اور بلاغت کامل ہے، ان گئے گزرنے جملوں سے قابل مقایسہ ہے ،جن کو ترتیب سے لکھنے والے نے اپنی قوّت ضائع کی ہے؟ اس نے اپنے خیال میں نظیر پیش کرنے کے لیے قرآن مجید سے مفردات کی نقل کی ہے اور جملوں کے الفاظ اور اسلوب کو مسیلمہ کذاب سے لیا ہے۔ اس طرح اس نے اپنے عناد اور اسلام دشمنی بلکہ کھلم کھلا جہالت کے تقاضوں کو پورا کیا ہے تاکہ بلاغت اور اعجاز میں عظمت قرآن کا مقابلہ کرسکے!

رسُول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کےدیگر معجزات

تورات و انجیل میں نبوت محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی بشارت

کسی دانشمند اور محقق کو اس میں شک نہ ہوگا کہ پیغبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے معجزات میں سے اعظم معجزہ قرآن کریم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کا مقام تمام انبیاء(ع) کے معجزات سے بلند ہے۔ ہم نے گذشتہ مباحث میں اعجاز قرآن کے چند پہلوؤں کاذکر کیا اور یہ بھی واضح کردیا کہ کتاب الہٰی کو باقی معجزات پر برتری حاصل ہے۔ یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ خاتم الانبیائؐ کا معجزہ صرف قرآن کریم ہی میں منحصر نہیں ہے بلکہ آپ(ص) باقی انبیاء(ع) کے تمام معجزات میں بھی شریک ہیں اور قرآنی معجزہ صرف آپ(ص) سے مختص ہے۔ ہمارے اس دعویٰ کی دو دلیلیں ہیں:

پہلی دلیل: مسلمانوں کی متواتر روایات ہیں جن کے مطابق یہ معجزات رسولل اعظمؐ سے صادر ہوئے اور مختلف مکاتب فکر کے مسلمانوں نے ان معجزات کے موضوع پر بہت کتابیں لکھی ہیں۔ خواہش مند حضرات ان کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

ان روایات و اخبار کی دو امتیازی خصوصیات ہیں جو باقی انبیاء کے معجزات کے بارے میں اہل کتاب کی روایات میں نہیں ہیں۔

پہلی خصوصیت: ان روایات کا زمانہ ظہور معجزات کے زمانے سے نزدیک ہونا ہے۔ جب کسی چیز واقعہ کا زمانہ نزدیک ہو تو اس کا یقین آسانی سے حاصل ہوسکتا ہے جبکہ واقعہ کا زمانہ اگر دور ہو تو اس کا یقین حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا۔

۱۳۷

دوسری خصوصیت: راویوں کی کثرت ہے۔ ا س لیے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے اصحاب جنہو ں نے اپنی آنکھوں سے ان معجزات کا مشاہدہ کیا ہے ان کی تعداد بنی اسرائیل اور حضرت عیسیٰ پر ایمان لائے تھے اور آپ سے جتنے معجزات منقول ہیں ان کا سلسلہئ سند ان قلیل اور محدود مومنین تک پہنچتا ہے۔ اس کے باوجود اگر حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ کے معجزات کے بارے میں تواتر کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے تو خاتم الانبیائؐ کے معجزات کے بارے میں بطریق اولیٰ تواتر کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔

ہم گذشتہ مباحث میں واضح کرچکے ہیں کہ گذشتہ انبیاء(ع) کے معجزات بعد کے زمانے والوں کے لیے تواتر سے ثابت نہیں ہیں اور اس سلسلے میں تواتر کا دعویٰ کرنا باطل ہوگا۔

دوسری دلیل: آپ(ص) نے گذشتہ انبیاء(ع) کے بہت سے معجزات کی تصدیق و تائید فرمائی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ دعویٰ بھی فرمایا کہ آپ(ص) ان تمام انبیاء(ع) سے افضل بلکہ خاتم الانبیاء ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ یہ تمام معجزات بدرجہئ اتم آپ(ص) سے بھی صادر ہوں۔ کیونکہ یہ نامعقول ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدممی سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرے اور یہ بھی اقرار کرے کہ میں بعض صفات کے لحاظ سے دوسرے سے ناقص ہوں، نیز کیا یہ معقول ہے کہ ایک ڈاکٹر، دوسرے تمام ڈاکٹروں سے زیادہ ماہر ہونے کا دعویٰ کرے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اعتراف بھی کرے کہ بعض بیماریاں ایسی ہی ںجن کا علاج دوسرے ڈاکٹر تو کرسکتے ہیں لیکن میں نہیں کرسکتی؟! ظاہر ہے عقل کبھی بھی ایسے دعویٰ کی تصدیق نہیں کرے گی۔ اسی لیے بعض جھوٹے مدعیان نبوت نے اعجاز کا انکار کردیا اور وہ گذشتہ انبیاء کے معجزات میں سے کسی معجزے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان کی تمام تر کوشش ہوتی ہے کہ ہر اس آیہ کی تاویل و توجیہ کریں جو اعجاز پر دلالت کرے۔ یہ سب انکار اس لیے کیا جاتا ہے کہ کہیں لوگ ان سے بھی اس قسم کے معجزات کا مطالبہ نہ کر بیٹھیں جس سے ان کی عاجزی ظاہر ہو جائے اور یہ رسوا ہو جائیں۔

۱۳۸

بعض نادان اور عوام فریبیوں نے لکھا ہے کہ قرآن مجید میں چند ایسی آیات ہیں جن سے سوائے قرآن کریم کے باقی تمام معجزات رسول اعظمؐ کی نفی ہوتی ہے اور آپ(ص) کا واحد معجزہ قرآن کریم ہی ہے اور صرف یہی آپ کی نبوت کی دلیل و حجت ہے ہم ذیل میں وہ آیات ذکر کرتے ہیں جن سے ان لوگوں نے استدلال کنر کی کوشش کی ہے اور اس کے بعد ہم ان کے بطلان کو ثابت کریں گے۔

ان آیات میں سے ایک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ) ۱۷:۵۹

''اور ہمیں معجزات کے بھیجنے سے بجز اس کے اور کوئی وجہ مانع نہیں ہوئی کہ اگلوں نے انہیں جھٹلایا ارو ہم نے قوم ثمود کو (معجزے سے) اونٹی عطا کی جو (ہماری قدرت کی) دکھانے والی تھی ان لوگوں نے اس پر ظلم لیا (یہاں تک کہ مار ڈالا) اور ہم تو معجزے صرف ڈرانے کی غرض سے بھیجا کرتے ہیں۔،،

اس آیہ کریمہ سے ان کے زعم باطل کے مطابق ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) قرآن کے علاوہ اور کوئی معجزہ لے کر نہیں آئے اور اس کی وج یہ ہے کہ گذشتہ اقوام نے ان نشانیوں کی تکذیب کی جو ان کی طرف بھیجی گئی تھیں۔

جواب: اس آیہ کریمہ میں جن معجزات کی نفی کی گئی ہے اور جنہیں گذشتہ اقوام نے جھٹلالیا تھا ان سے مراد وہ معجزات ہیں جن کی گذشتہ اقوام نے اپنے انبیاء سے فرمائش کی تھی۔

۱۳۹

یہ آیہ کریم آپ(ص) سےہر قسم کے معجزات صادر ہونے کی نفی نہیں کرتی بلکہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آپ(ص) نے مشرکین کے مطلوبہ معجزات پیش نہیں کئے۔ اس کے چند دلائل ہیں:

۱۔ ''آیات،،، آیت کی جمع ہے۔ جس کے معنی ''نشانی،، کے ہیں اور جمع کے لفظ پ رالف۔ لام موجود ہے۔ ان خصوصیات کے پیش نظر آیہ کے معنی میں تین احتمال دیئے جاسکتے ہیں۔

i ) آیت سے مراد جنس آیت ہو جو آیت کی ہر فرد پر صادق آئے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کی یہ آیت ان تمام آیات کی نفی کررہی ہے جو مدعیئ نبوت کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس سے رسول اعظمؐ کی بعثت کا لغو ہونا لازم آتا ہے اسلئے کہ جب تک آپ(ص) کے دعویٰ کی صداقت کا کوئی ثبوت موجود نہ ہو آپ(ص) کو نبوّت پر فائز کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بغیر کسی معجزہ کے آپ کی نبوّت کی تصدیق اور آپ کی اتباع لازمی قرار دینا لوگوں پر ایسی ذمہ داری ڈالنا جو ان کے دائرہئ قدرت سے باہر ہے۔

ii ) اس آیہ سے مراد سب نشانیاں ہوں۔ یہ احتمال بھی باطل ہے اس لیے کہ نبی کی صداقت اس پر موقوف نہیں ہوسکتی کہ جتنی بھی آیات و نشانیاں ہوسکتی ہیں، سب پیش کی جائیں اور نہ ہی مطالبہ کرنے والوں نے سب کی سب آیات و نشانیاں پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس بناء پر آیہ کے یہ معنی بھی صحیح نہیں ہونگے۔

iii ) ''الآیات،، سے مراد کچھ مخصوص نشانیاں ہوں جن کا مشرکین مطالبہ کیا کرتے تھے اور آپ(ص) نے ان کا مطالبہ پورا نہیں فرمایا اور یہی احتمال درست ہے۔

۲۔ اگر لوگوں کی تکذیب معجزات بھیجنے میں مانع بن سکتی ہے تو اسے قرآن نازل کرنے میں بھی مانع بننا چاہےے تھا۔ کیونکہ کوئی وجہ نہی ںکہ ان کی تکذیب بعض معجزات کے لیے مانع ہو اور بعض کے لیے نہ ہو۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

۶۔ سعیدبن جبیر نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''جب تک آیہبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ نازل نہ ہوئی مسلمانوں کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ پہلا سورہ ختم ہوا ہے یا نہیں لیکن جب آیتبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ نازل ہوئی تو انہیں معلوم ہو جاتا تھا کہ پہلا سورہ ختم ہو گیا ہے :نمبر۶

۷۔ سعید نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''جب بھی جبرئیل نازل ہوتے اور بسم اللہ الرحمن پڑھتے ، آپ (ص) سمجھ جاتے کہ کوئی سورہ نازل ہو رہا ہے نمبر۱:

۸۔ ابن جریحنے روایت کی ہے :

''میرے والد نے مجھے بتایا کہ سعید بن جبیر نے انہیں کہا : ولقد ایتنک سبعا من المثانی میں ، سبع مثانی سے مراد، ام القرآن (سورہ حمد) ہے نیز سعید بن جبیر نے کہا :بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سورہ حمد کی ساتویں آیت ہے۔ جس طرح میں (سعید بن جبیر) نے تمہارے سامنےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کو پڑھا ہے اسی طرح ابن عباس نے اسے میرے سامنے پڑھا تھا اس کے بعد سعید بن جبیر نے پھر کہا :بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سورہ حمد کی ساتویں آیت ہے ابن عباس نے کہا: اللہ نے صرف تمہارے لئےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کو نازل فرمایا ہے تم سے قبل کسی اور کیلئے ایسی آیت نازل نہیں ہوئی ،،(۲)

ان کے علاوہ اور بھی اس مضمون کی روایات موجود ہیں جو شخص ان سے آگاہ ہونا چاہئے وہ کتب احادیث کی طرف رجوع کرے۔

____________________

نمبر۶ مستدرک الحاکم ، ج ۱ ، ص ۲۳۲ ۔ حاکم نے کہا ہے یہ روایت شیخین کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔

(۱) مستدرک الحاکم ج ۱ ، ص ۲۳۱

(۲) ایضاً ص ۵۵۰

۵۶۱

معارض روایات

طرفین کی ان تمام روایات کے مقابلے میں صرف دو روایات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورہ کا جز نہیں ہے۔

(۱) قتادہ نے انس بن مالک سے روایت کی ہے۔

''میں (انس بن مالک)نے رسول اللہ (ص) حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے ساتھ نماز پڑھی اور ان میں سے کسی کو نماز میںبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ پڑھتے نہیں سنا،،(۱)

(۲) ابن عبداللہ بن مغفل یزید بن عبداللہ نے روایت کی ہے:

''میرے والد نے نماز میںبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ پڑھتے مجھے سنا تو کہا :بیٹا خبردار! آئندہ ایسا نہ کرنا میں نے اصحاب پیغمبر (ص) میں اس عمل سے بدتر کوئی بدعت نہیں دیکھی میں نے رسول اللہ (ص) حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کےساتھ نماز پڑھی ہے اور کسی کو بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے نہیںسنا تم بھی نہ پڑھا کرو جب الحمدپڑھنا چاہو تو الحمدللہ رب العالمین سے شروع کیا کرو(۲)

جواب:

پہلی روایت کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت اہل بیت اطہار (ع) کی روایات کے مخالف ہونے کے علاوہ بھی کئی اعتبار سے قابل عمل و اعتماد نہیں۔

___________________

(۳) مسند احمد ، ج ۳ ، ص ۱۷۷ ، ۲۷۳ ، ۲۷۸ ۔ صحیح مسلم ، ج ۲ ، ص ۱۲۔ سنن نسائی ، ج ۱ ، ص ۱۴۴ ، اس مضمون کی ایک روایت عبداللہ بن مغفل سے بھی روی ہے۔

(۴) مسند احمد بن حبنل ، ج ۴ ، ص ۸۵ صحیح ترمذی ، ج ۲ ، ص ۲۳

۵۶۲

(۱) یہ روایت اہل سنت کی کئی ایسی روایات کے معارض ہے جو تواتر معنوع رکھتی ہیں خصوصاً وہ روایات جن کی سند صحیح ہے بھلا اس روایت کی تصدیق کیسے ممکن ہے اس کے علاوہ ابن عباس ، ابوہریرہ اور اسم مسلمہ بھی یہ شہادت دیتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) سورہ فاتحہ میں بسم اللہ پڑھا کرتے اور اسے سورہ کا جزء سمجھتے تھے اوریہ کہ ابن عمر کہا کرتے تھے: اگر بسم اللہ کاسورہ فاتحہ میں پڑھنا صحیح نہیں توپھر اسے کیوں لکھا گیا ہے امیر المومنین (ع) فرمایا کرتے تھے جو شخص قرات میں بسم اللہ کو ترک کرتا ہے اس نے اپنی قرات کو ناقص چھوڑا ہے نیز آپ (ع) نے فرمایا:بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سبع مثانی میں شامل ہے(۱)

(۲) یہ روایت مسلمانوں میں پائی جانے والی اس شہرت کیخلاف ہے جس کے مطابق تمام مسلمان نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کرتے تھے حتیٰ کہ ایک مرتبہ معاویہ نے اپنے دور خلافت میں بسم اللہ کو ترک کیا تو مسلمانوں نے اس سے کہا : تم نے سورہ فاتحہ کی کویت آیت چرالی ہے یا اسے بھول گئے ہو؟(۲) ان تمام شواہد کے ہوتے ہوئے اس امر کی کیونکر تصدیق کی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے بعد دوسرے حضرات نے سورہ فاتحہ میں بسم اللہ نہیں پڑھی ہو گی۔

(۳) یہ روایت ، اس روایت کی مخالف ہے جسے انس بن مالک نے ہی نقل کیا ہے(۳) پس معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت من گھڑت اور جعلی ہے اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔

دوسری روایت (جو ابن عبداللہ بن مغفل نے بیان کی ہے) کا جواب بھی پہلی روایت کے جواب سے معلوم ہو جاتا ہے اس کے علاوہ یہ روایت ایسے امر پر مشتمل ہے جو حضرات دین اسلام کیخلاف ہے اس لئے کہ کسی مسلمان کو اس میں شک نہیں کہ حمد و سورہ سے پہلےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کا پڑھنا مستجب ہے اگرچہ جزء کے طور پر نہیں بلکہ تبرک کے طور پر سہی اور ابن مغفل کی روایت میں بسم اللہ کو بدعت قرار دیاگیا ہے اور اسے پڑھنے سےمنع کیا گیا ہے۔

____________________

۱) اسی کتاب کا ضمیمہ نمبر ۱۴ ملا خطہ فرمائیں۔

۲) اسی کتاب کا ضمیمہ نمبر ۱۵ ملا خطہ فرمائیں۔

۳) اس ضمن میں ضمیمہ نمبر ۱۶ کی طرف رجوع کریں۔

۵۶۳

(۳) سیرت مسلمین

تمام مسلمانوں کی سیرت اس بات پر برقرار ہے کہ وہ سورہ برات کے علاوہ باقی تمام سوروں میں بسم اللہ پڑھتے ہیں اور یہ بھی تواترسے ثابت ہے کہ رسول اللہ (ص) بھی بھی ہر سورہ سے پہلے بسم اللہ پڑھتے تھے اگر بسم اللہ جز سورہ نہ ہوتی تو رسول اللہ (ص) کو اس کی تصریح کرنا چاہئے تھی کیونکہ احکام بیان کرنے کے موقع پر آپ کاقرات کو بیان کرنا ظاہر کرتا ہے کہ بسم اللہ ہر سورہ کا جزء ہے ۔ رسول اللہ (ص) جس سورہ کوبھی پڑھتے تھے اگر اس میں سے کچھ آیات اس سورہ کا جزء نہ ہوتیں اور اس کے باوجود آپ (ص) اس کی وضاحت نہ کرتے تو یہ آپ (ص) کی طرف سے جہالت اور تاریکی میں رکھنے کے مترادف ہوتا جو بذات خود قبیح ہے اور وحی الٰہی کے بارے میں تو بطریق اولیٰ قبیح ہوتا اور اگر رسول اللہ (ص) نے بسم اللہ کے جز سورہ نہ ہونے کی تصریح فرمائی ہوتی تو خبر متواتر کے ذریعے اسے نقل کیا جاتا جبکہ خبر متواتر تو کجا خبر واحد کے ذریعے بھی یہ بات نقل نہیں کی گئی۔

(۴) تابعین اور صحابہ کا قرآن

اس میں کوئی شک نہیں کہ (حضرت عثمان کے قرآن جمع کرنے سے پہلے اور بعد بھی) تابعین اور صحابہ کے پاس موجود قرآنی نسخے بسم اللہ الرحمن الرحیم پر مشتمل تھے اگر بسم اللہ سورہ کا جزء نہ ہوتی تو اسے تابعین اور صحابہ اپنے قرآنوں میں درج نہ کرتے کیونکہ صحابہ نے دوسروں کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قرآن میں غیر قرآن کو شامل کیا جائے حتیٰ کہ بعض متقدمین نے تو قرآن کو نقطے ، حرکات اور اعراب دینے سے بھی منع فرمایا ہے اس کے باوجود اپنے قرآنوں میں بسم اللہ شامل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں موجود دوسری تکرار شدہ آیات کی طرح بسم اللہ بھی قرآن کا حصہ ہے۔

اس سے یہ احتمال بھی باطل ہو جاتا ہے کہ تابعین نے سوروں میں فاصلہ کی خاطر بسم اللہ کوقرآن میں درج کیا ہو یہ احتمال اور دعویٰ اس امر سے بھی باطل ہو جاتاہے کہ بسم اللہ کو سورہ حمد کے ساتھ توذکر کیاگیا ہے لیکن سورہ برات کے ساتھ ذکر نہیں کیا گیا اگر بسم اللہ کو دو سوروں کے درمیان فاصلے کی خاطر ذکر کیا جاتا تو سورہ الحمد کے شروع میں اس کا ذکر نہیں کرنا چاہئے تھا اس لئے کہ الحمد سے پہلے تو کوئی سورہ نہیں ہے کہ اس کے اور الحمد کے درمیان فاصلے کی خاطر بسم اللہ کو ذکر کرتے اس کے برعکس سورہ برات کے شروع میں بسم اللہ کا ذکر ہوناچاہئے تھا تاکہ سورہ برات اور اس سے پہلے کہ سورہ میں فاصلہ ہو اس سے ہمیںیقین ہوتا ہے کہ بسم اللہ سورہ الحمد کا جزء ہے اور سورہ برات کا جزء نہیں ہے۔

۵۶۴

منکرین کے دلائل

بسم اللہ کے جز ہونے کے منکرین نے اپنے دعویٰ کے اثبات میں تین دلائل پیش کئے ہیں:

۱۔ قرآن صرف خبر متواتر کے ذریعے ثابت ہو سکتا ہے اور جس آیت کے جزء سورہ ہونے میں اختلاف ہو وہ قرآن کا حصہ نہیں ہو سکتی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے میں اختلاف ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہب سم اللہ کا جزء قرآن ہوناثابت نہیں۔

جواب: اولاً ، بسم اللہ کا جزء قرآن ہونا اہل بیت (ع) کی متواتر روایات کے ذریعے ثابت ہے اور اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں کہ خبر متواتر رسول اللہ (ص) سے منقول ہو یا اہل بیت اطہار (ع) ہے اس لئے کہ اطاعت رسول (ص) کی طرح اطاعت اہل بیت (ع) بھی واجب ہے۔

ثانیاً : یہ جب بہت سے صحابہ بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی شہادت دیتے ہیں اور یہ متواتر روایات سے بھی ثابت ہے تو ایک چھوٹے سے ٹولے کا انکار ، جس کی بنیاد ایک غلط فہمی ہے، کیا ضرر پہنچا سکتا ہے۔

ثالثاً : یہ تواترسے ثابت ہے کہ رسول اللہ (ص) مقام بیان میں جب بھی قرآن کے کسی سورے کی تلاوت فرماتے پہلے بسم اللہ کی تلاوت فرماتے تھے آپ (ص) نے اس کے ساتھ یہ نہیں فرمایا کہ بسم اللہ قرآن کا جزء نہیں ہے یہ امرقطعاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بسم اللہ قرآن کا جز ہے۔

ہاں !اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بسم اللہ سورہ کا بھی جزء ہے البتہ اس کے اثبات کیلئے فریقین کی روایات کثیرہ کے علاوہ وہ روایات کافی ہیں جن کاذکر اس سے پہلے ہو چکا ہے اور بسم اللہ کا جزء ہونا صحیح خبر واحد سے ثابت ہو جاتا ہے ضرور ینہیں کہ وہ خبر متواتر ہو۔

۵۶۵

۲۔ دوسری دلیل وہ روایت ہے جو مسلم نے حضرات ابوہریرہ سے نقل کی ہے حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں:

''میں نے رسول اللہ (ص) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تع الیٰ فرماتا ہے میں نے نماز کو اپنے اور بندوں کے درمیان تقسیم کر دیا ہے اور میرا بندہ جو سوال کرے گا میں اسے پورا کروں گا جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتے تو خالق فرماتا ہے : میرے بندے نے میری حمد و ثناء کی ہے اور جب بندہ کہے : الرحمن الرحیم خالق فرماتا ہے : میرے بندے نے میری ستائش کی ہے اور جب بندہ کہے : مالک نعبد و ایاک نستعین تو خالق فرماتا ہے : یہ (ذکر) میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرابندہ جو چاہے گا میں اسے دوں گا اور بندہ جب کہے : اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیرا لمغضوب علیھم والضالین۔ تو خالق فرماتا ہے: یہ صرف میرےب ندے کا ہے اور اسے میں وہ کچھ دوںگا جو وہ مانگے گا،،(۱)

اس روایت سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ اس روایت کے ظاہری مفہوم کی رو سے آیہ کریمہ ایاک نعبد و ایاک نستعین کاما بعد اس کے ماقبل کے برابر ہے لیکن اگر بسم اللہ کو سورہ فاتحہ کاجزء مان لیا جائے تو اس روایت کا معنی و مفہوم صحیح نہیں رہتا۔ اس لئے کہ سورہ فاتحہ سات آیات پر مشتمل ہے (جیسا کہ اس سے قبل معلوم ہو چکا ہے) اگر بسم اللہ کو سورہ کا جزء مان لیا جائے تو یہ آیہ ایاک نعبد و ایاک نستعین سے آخر تک دو ہی آیتیں ہوں گی۔ اس

طرح اس آیت سے پہلے کی آیات اس کے مابعد کی دو گنی ہوں گی اور آیت ایاک نعبد تک سورہ فاتحہ دو برابر حصو میں تقسیم نہیں ہو گی جو اس روایت کے منافی ہے۔

____________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۲ ، ص ۶ ، سنن ابوداؤد ، ج ۱ ، ص ۱۳۰ ، سنن نسائی ، ج ۱ ، ص ۱۴۴

۵۶۶

جواب: اولاً: اس روایت کا راوی علاء ہے جس کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے بعض نے اس کی توثیق کی ہے اور بعض نے اس کی تضعیف کی ہے اس کو کمزور اور اس کی روایت کو ناقابل عمل قرار دیا ہے۔

ثانیاً بفرض تسلیم اگر اس روایت کی دلالت درست ہو تو بھی یہ قابل قبول نہیں اس لئے کہ یہ ان گزشتہ روایات سے معارض ہے جن کے مطابق سورہ فاتحہ بسم اللہ سمیت سات آیات پر مشتمل ہے۔

ثالثاً : یہ روایت اس امرپر دلالت نہیں کرتی کہ سورہ فاتحہ الفاظ کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے بلکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ معنی کے اعتبارسے دو برابر حصوں میں تقسیم ہوتی ہے بنا برایں روایت کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے مدلول کے اعتبار سے سورہ فاتحہ کابعض حصہ خداسے متعلق ہے اور بعض حصہ بندوں سے متعلق ہے۔

رابعاً: اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ سورہ فاتحہ کو الفاظ کے اعتبار سے تقسیم کیا گیا ہے تو اس امر پر کوئی دلیل نہیں کہ یہ تقسیم آیات کی تعداد کے اعتبار سے کی گئی ہو ۔ شاید یہ تقسیم کلمات (الفاظ) کے اعتبار سے کی گئی ہو اس لئے کہ مکرر الفاظ کو حذف کرنے کے بعد اور بسم اللہ کو شامل کر کے ایاک نعبد و ایاک نستعین سے پہلے بھی دس کلمے ہیں اور اس کے بعد بھی۔

۳۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے :

''سورہ کوثر تین آیات پر مشتمل ہے(۱) اور سورہ ملک تیس آیات پر(۲) ،،

اگر بسم اللہ سورہ کا جزء ہو تو یہ تعداد درست نہیں رہتی۔

جواب: سورہ کوثر کے بارے میں حضرت ابوہریرہ کی یہ روایت صحیح السند مان لی جائے تو یہ انس کی اس گزشتہ روایت سے معارض ہے جو مقبولہ ہے جسے موطا کے علاوہ تمام صحاح نے روایت کیا ہے(۳)

____________________

(۱) کتب روایات میں یہ روایت مجھے نہیں ملی۔

(۲) مستدرک الحاکم ، ج ۱ ، ص ۵۶۵ ۔ صحیح ترمذی ، ج۱۱ ، ص ۳۰ ، کنز العمال ، ج۱ ، ص ۵۱۶ ، ۵۲۵

(۳) تیسیرالوصول ، ج۱ ، ص ۱۹۹

۵۶۷

بنا برایں یا تو حضرت ابوہریرہ کی روایت ترک ہونی چاہئے یااس کی تاویل یہ کی جائے کہ سورہ کی تین آیات سے مرادوہ آیات ہیں جو صرف اس سورہ سے مختص ہیں اور یہ دوسرے سوروں میں موجود نہیں بخلاف بسم اللہ کے جو تمام سوروں میں مشترک موجود ہے اور یہی جواب سورہ ملک کے بارے میں بھی دیا جاسکتا ہے۔

تحلیل آیتہ

الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾

''سب تعریف خدا ہی کیلئے (سزاوار) ہے جو سارے جہان کا پالنے والا بڑا مہربان رحم والا ہے ، روز جزا کا حاکم ہے،،۔

قرات

اکثر علمائے قرات ''الحمد،، کی دال کو پیش اور ''للہ،، کے لام کو زیر دیتے ہیں بعض علمائے قرآت نے الحمد کی دال کو للہ کے لام کے تابع قرار دیا ہے اور اسے زیر دیا ہے اور بعض دوسرے علمائے قرات للہ کے لام کو الحمد کی دال کاتابع بنا کر اسے پیش دیتے ہیں لیکن یہ دونوں قرابتں غیر مشہور اور شاذ ہیں ان کی طرف توجہ بھی نہیں کرنی چاہئے ۔

لفظ ''مالک،، کی قرات کے بارے میں بھی اختلاف ہے اس میں دو قول مشہور ہیں۔

۱) یہ فاعل کے وزن پر مالک پڑھا جائے۔

۲) کتف کے وزن پر ملک یوم الدین پڑھا جائے۔

بعض قاریوںنے فلس کے وزن پر ملک پڑھا ہے ان کے مقابلے میں بعض نے فعیل کے وزن پر ملیک اور حضرت ابو حنیفہ نے صیغہ ماضی کی صورت میں ملک پڑھا ہے لیکن پہلے دو اقوال کے علاوہ تین اقوال شاذ اور ناقابل عمل ہیں۔

۵۶۸

قراتوں کی ترجیحات

پہلی دو مشہور قراتوں کے بارے میں اختلاف ہے کہ ان میں سے کونسی مقدم ہے:

(۱) بعض علمائے قرات کا کہنا ہے کہ ''مالک،، زیادہ بہتر ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ ''مالک،، کا مفہوم '' ملک،، کی نسبت عام ہے مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ فلاںآدمی اپنی قوم کامالک ہے۔

اس جملے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ آدمی مملکیت اور مالکیت (جو اس لفظ کے اصلی اور لغوی معنی ہیں) کے علاوہ اپنی قوم پر حکومت اور سرپرستی کا حق بھی رکھتا ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ فلاں آدمی اپنی قوم کا''ملک،، (بادشاہ) ہے تو اس جملے سے یہ سمجھا جائے گا کہ یہ آدمی اپنی قوم پر حکومت و سلطنت کا حق رکھتا ہے مگر مالکیت و ملکیت کا مفہوم نہیں سمجھا جائے گا پس مالک پڑھنا ملک پر مقدم ہو گا۔

(۲) اس کے مقابلے میں بعض علمائے قرات ''ملک،، کو ترجیح دیتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ اکثر اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ مالک زمانہ کی طرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ملک زمانہ کی طرف مضاف ہوتا ہے چنانچہ کہا جاتا ہے :ملک العصر (بادشاہ زمان) نیز کہا جاتا ہے :ملوک العصار المتقدمة (گزشتہ زمانے کے بادشاہ) چونکہ سورہ حمد میں ''ملک،، زمانہ (یوم) کی طرف مضاف استعمال ہوا ہے اس لئے ''ملک،، پڑھا جانا چاہئے ''مالک،، نہیں۔

ترجیحات کابے فائدہ ہونا

یہ وہ دو دلیلیں تھیں جو ''مالک،، اور ''ملک،، کے قائل علمائے قرات نے پیش کی ہیں لیکن ہمارے خیال میں یہ بحث بے فائدہ ہے بلکہ بنیادی طورپر مشہور قراتوں میں سے کسی ایک کے انتخاب اور اسے اختیار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اس لئے کہاگر یہ قراتیں تمام کی تمام رسول اللہ (ص) سے بطور تواتر منقول ہوں توساری کی ساری قراتوں کو قرآن کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور اس اعتبار سے قرآن کی آیات اور اس کے کلمات (الفاظ) میں کوئی فرق نہیں اور اگر یہ قراتیں بطور تواتر ثابت نہ ہوں (چنانچہ حق بھی یہی ہے) اس صورت میں اگر ایک قرات کی ترجیح اور اس کے انتخاب سے دوسری قرات کے باطل ہونے کا علم و یقین حاصل ہو جائے تو پھر اس بحث میں پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

۵۶۹

لیکن حقیقت یہ ہے کہ بحث و تحقیق سے ایک قرات کو ترجیح دینے اور اسے منتخب کرنے سے دوسری قرات کے باطل ہونے کا یقین حاصل نہیں ہو سکتا اور جب تک ایک قرات کے انتخاب اورت رجیح سے دوسری قرات کے باطل ہونے کا علم حاصل نہ ہو (اکثر اوقات دوسری قرات کے باطل ہونے کایقین حاصل نہیں ہوتا) یہ بحث بے نتیجہ اور بے فائدہ ہے۔ جبکہ یہ مسلم ہے کہ معروف و مشہور قراتوں میں سے کسی بھی قرات کوپڑھا جاسکتا ہے:

مشہور قراتوں میں سے ایک کو دوسری پر ترجیح دینے کی بحث بے فائدہ ہے لفظ ''مالک،، اور ''ملک،، میں اس لئے کہ ''مالک،، ، ''ملک،، میں فرق و تفاوت اس جگہ ظاہر ہوتا ہے جہاں''ملک،، ایک اعتبار اورقرارددی حکومت و سلطنت کیلئے استعمال ہو جس میں سلطنت و حکومت کے مراتب بھی مختلف موارد اور مقامات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں کبھی حاکمیت اورسلطنت کے ساتھ ملکیت بھی حاصل ہوتی ہے اور کبھی ملکیت حاصل نہیں ہوتی لیکن اگر یہی لفظ (ملک) خدا کیلئے استعمال ہو جس کی حکومت حقیقی ہے اور اس کاسرچشمہ پوری کائنات پر اللہ کا احاطہ ہے تو اسی احاطہ کی وجہ سے اللہ پر ''مالک،، اور ''ملک،، دونوں صادق آتے ہیں۔

یہاں سے معلوم ہوا کہ اللہ کے علاوہ کسی اور ملک کے زمانہ کی طرف اضافت جائز نہ ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ''مالک،، جب اللہ کیلئے استعمال ہو تب ہی یہ زمانہ کی طرف مضاف نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ جس طرح دیگر موجودات عالم کام الک ہے اسی طرح زمانہ کا بھی مالک ہے بنا برایں زمانہ کی طرف مضاف ہونے میں بھی ''مالک،، مثل ''ملک،، کے ہے اور اس اعتبار سے بھی ''ملک،، کو ''مالک،، پر کوئی ترجیح حاصل نہیں۔

بعض حضرت ''ملک،، کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ اگر یہ لفظ ''مالک،، ہو تو اس صورت میں ''یوم،، کی طرف اس کی اضافت ، اضافت لفظی ہو گی جو تعریف (معرفہ) کا فائدہ نہیں دیتی اور اضافت سے پہلے کی طرح یہ نکرہ رہے گا اس طرح لازم آئے گا کہ نکرہ ، معرفہ کی صفت واقع ہو ، جو جائز نہیں لیکن اگر یہ لفظ ''ملک،، ہو تو اس صورت میں ''ملک،، سلطان کے معنی میں ہو گا جو غیر مشتق کے حکم میں ہو گا اور اس طرح یوم کی طرف ملک کی اضافت ، اضافت معنویہ ہو گی اور یہ تعریف کافائدہ دے گی اس طرح یہ اعتراض لازم نہیں آئے گا کہ نکرہ ، معرفہ کی صفت واقع ہو۔

۵۷۰

دوسروں کا جواب:

تفسیر کثاف اور دیگر کتب میں اس اعتراض کا یہ جواب دیاگیا ہے کہ اسم فاعل کی اضافت اس صورت میں اضافت لفظی کہلاتی ہے جس وہ (اسم فاعل) حال یہ مستقبل کے معنی میں ہو لیکن اگر اسم فاعل ماضی یا دوام اور ہمیشگی کے معنی میں استعمال ہو تو ان دونوں صورتوں میں اسم فاعل کی اضافت ، اضافت معنوی ہوتی ہے اور اپنے مضاف الیہ سے کسب تعریف کرتی ہے جیسے اسم فاعل کے معنی ماضی ہونے کی مثال ہے:

( الْحَمْدُ لِلَّـهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا ) ۳۵:۱

''ہر طرح کی تعریف خدا ہی کے لئے (مخصوص ) ہے جو سارے آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا فرشتوں کو (اپنا) قاصد بنانے والا ہے،،۔

اور اسم فاعل کے بمعنی دوام ہونے کی مثال ہے:

( تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّـهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ) ۴۰:۲

(اس ) کتاب (قرآن) کا نازل کرنا (خاص بارگاہ) خدا سے ہے جو (سب سے) غالب بڑا واقف کار ہے۔

( غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ ۖ ) ۴۰:۳

''گناہوں کا بخشنے والا اور توبہ کا قبول کرنے والا سخت عذاب دینے والا صاحب فضل و کرم ہے،،۔

واضح ہے کہ پہلی آیت میں ''فاطر،، اور ''جاعل،، ماضی کے معنی میں اور دوسری آیت میں ''غافر الذنب،، اور ''قابل التوب،، دوام کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں اضافت کی وجہ سے معرفہ بن گئے ہیں اور اللہ کی صفت واقع ہوئے ہیں۔

سورہ فاتحہ میں ''مالک،، کی اضافت بھی ایسی ہی ہے کیونکہ لفظ ''مالک،، کا معنی ہے روز قیامت اللہ کی مالکیت دائمی اور ابدی ہے بنا برایں ''مالک،، کی اضافت ''یوم،، کی طرف ، اضافت معنی ہو گی اور کسب تعریف کے بعد لفظ اللہ کی صفت واقع ہو سکے گی۔

۵۷۱

اس اعتراض کا تحقیقی جواب یہ ہے کہ اضافت چاہے لفظی ہو یا معنوی ، نکرہ کو معرفہ نہیں بنا سکتی بلکہ اضافت صرف تخصیص کافائدہ دیتی ہے اور لفظ کے مفہوم اور اس کے مصادیق کے دائرے کوتنگ کر دیتی ہے تعریف و تعیین تو دوسرے قرائن و شواہد کے ذریعے سمجھی جائے گی۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ جم لہ ''غلام لزید،، اور ''غلام زید،، میں کوئی فرق نہیں جس طرح ''غلام لزید،، صرف تخصیص کا فائدہ دیتا ہے اسی طرح ''غلام زید،،بھی صرف تخصیص کا فائدہ دیتا ہے پس جس طرح اضافت معنوی کے نتیجے میں تخصیص حاصل ہوتی ہے اسی طرح اضافت لفظی میں بھی تخصیص حاصل ہوتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اضافت لفظی کی تخصیص اضافت کی وجہ سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ اضافت کے بغیر حاصل ہوئی ہے اضافت لفظی سے صرف تخفیف حاصل ہوئی ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مضاف کسی معرفہ کی صفت واقع نہ ہو سکے اس لئے کہ اگر تخصیص کی وجہ سے معرفہ کی صفت قرار پانا صحیح ہو تو مانحن فیہ (اضافت لفظی) میں مضاف کی تخصیص حاصل ہو جاتی ہے اور اگر معرفہ کی صفت بننے کا مجوز وہ تعریف (معرفہ ہونا) ہو جو خارجی شواہد سے حاصل ہو تو اس میں دونوںا ضافتیں مشترک ہیں بنا برایں اضافت لفظی اور اضافت معنوی میں جتنا فرق بیان کیا جاتا ہے وہ سب بے نتیجہ ہے۔

اس مقام پر ایک بحث باقی رہتی ہے کہ جہاں تک مقام اثبات اور وقوع کا تعلق ہے اس بات پر اتفاق کا دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر مصاف باضافت لفظیہ صفت مشبہ ہو تو معرفہ کی صفت واقع نہیں ہوس کتا ہے لیکناگر صفت مشبہ کے علاوہ کوئی اور مشتق مضاف واقع ہو تو اس صورت میں ''سیبویہ،، نے ''خلیل،، اور ''یونس،، سے یہ بات نقل کی ہے کہ اکثر کلام عرب(۱) میں ایسے مشتقات جو مضاف ہوں ، معرفہ کی صفت واقع ہوئے ہیں اور قرآن میں جہاں کہیں بھی مضاف

____________________

۱) تفسیر ابی حیان ، ج ۱ ص ۲۱

۵۷۲

باضافت لفظیہ معرفہ کی صفت قرار پایا ہے، اسی قبیل سے ہے۔ یعنی صفت مشبہ کے علاوہ کوئی مشتق ہے جو مضاف واقع ہوا ہے اور معرفہ کی صفت قرار پایا ہے۔

قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی مضاف باضافت لفظی معرفہ کی صفت واقع ہوا ہے اسے اسی پر محمول کیا گیا ہے چنانچہ ''مانحن فیہ،، (مالک یوم الدین) میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔

باقی رہا صاحب ''کشاف،، کا یہ کہنا کہ ''مالک یوم الدین،، میں اسم فاعل استمرار کے معنی میں استعمال ہواہے اور جب اسم فاعل استمرار کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی اضافت ، لفظی نہیں معنوی ہوتی ہے یہ قول واضح طور پر باطل ہے اس لئے کہ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام موجودات کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اس کا یہ احاطہ اور مالکیت دائمی و ابدی ہے لیکن آیت میں ''مالک،، کو ''یوم الدین،، کی طرف مضاف کیا گیا ہے اور ''یوم الدین،، وجود کے اعتبارسے متاخر ہے بنا برایں لامحالہ اسم فاعل ، مستقبل کے معنی میں ہو گا اور اضافت ، اضافث لفظی ہو گی۔

اسم فاعل مضاف کےبارے میں یہ فرق بھی درست نہیں کہ اگر اسم فاعل بمعنی ماضی ہو تو معرفہ کی صفت بن سکتا ہے ورنہ نہیں کیونکہ کسی بھی چیز کے حدوث اور تحقق کا لازمہ یہ ہے کہ وہ متعین اور معلوم ہو یہ فرق اس لئے صحیح نہیں کہ کسی بھی شئی کا حدوث مستلزم علم نہیں ہوا کرتا عین ممکن ہے کہ ایک چیز درواقع متحقق ہو لیکن سب کو معلوم نہ ہو کسی چیز کے معرفہ بننے کا دارو مدار یہ ہے کہ وہ فی الحال متکلم و مخاطب کو معلوم ہو صرف بذات خود اس کامتحقق ہونا کافی نہیں ہے خلاصہ یہ کہ کلام عرب میں وہی قواعد قابل اتباع ہیں جو فصیح عربوں نے استعمال کئے ہوں اور بے معنی توجیہات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا جن کا ذکر نحوی حضرات کیا کرتے ہیں۔

۵۷۳

الحمد:

حمد وہ مفہوم ہےجو ملامت کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے اور حمد ہر اس اچھائی پر کی جاتی ہے جو انسان کے ارادہ و اختیار سے صادر ہو خواہ تعری فکرنے والے پر احسان ہو یا نہ ہو '' شکر،، کفران (ناشکری) کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے اور اسے نعمت و احسان کے بدلے میں ادا کیا جاتا ہے ''مدح،، مذمت کے مقابلے میں آتا ہے اس میں یہضروری نہیں ہے کہ یہ کسی اختیاری عمل کےب دلے میں انجام پائے چہ جائیکہ یہ احسان کے بدلے میں ہو لفظ ''الحمد،، میں الف لام جنس ہے اس لئے کوئی خاص اور معہود حمد پیش نظر نہیں اللہ ، رحمن اور رحیم کی وضاحت اس سے قبل ہو چکی ہے۔

الرب:

یہ لفظ ''ربب،، سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے مصلح ، مالک اور مزتی اور اسی سے ''ربیبہ،، (پروردہ) بنایا گیا ہے ۔ یہ لفظ جب اللہ کے علاوہ کسی کیلئے استعمال ہو تو اضافت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے ''رب السفینتہ،، (کشتی کامالک) ''رب الدار،، (گھر کا مالک)

العالم:

یہ ایسی جمع ہے جس کا کوئی مفرد نہیں۔ جس طرح ''رھط،، اور ''قوم،، ہیں کبھی اس کا اطلاق ایک حقیقت کی متعدد اشیاء کے مجموعہ پر ہوتا ہے ۔ جیسے عالم جمادات ، عالم نباتات اور عالم حیوانات ہیں کبھی یہ ایسی چیزوں کے مجموعہ کیلئے بولا جاتا ہے جن کا زمانہ یا مکان کے اعتبار سے آپس میں کوئی ربط و تعلق ہو جیسا کہ عالم صبا (بچپن) عالم ذر ، عالم دنیا اور عالم آخرت ہے کبھی تمام موجودات عالم پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔اس کی جمع کبھی واؤ اور نون کے ساتھ آتی ہے، جیسے ''عالمون،، اور کبھی فواعل کے وزن پر جیسے ''عوالم،، ہے لغت عرب میں عالم کے علاوہ کوئی اور ایسا لفظ نہیں جس کا مفرد فاعل کے وزن پر ہو اور اس کی جمع واؤ اور نون کے ساتھ آئے۔

۵۷۴

الملک:

یہ لفظ احاطہ اور سلطنت کے معنی میں آتا ہے البتہ احاطہ ، سلطنت اور ملکیت کبھی تو حقیقی اور خارجی ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ موجودات عالم کا محیط و مالک ہے کیونکہ ہر موجود و مخلوق اپنے خالق اور موجد سے قائم اور وابستہ ہے اور اپنی علت موجدہ سے وابستگی کے علاوہ اس کا اپنا کوئی مستقل وجود نہیں ہے ہر ممکن اپنے حدوث و پیدائش اور بقاء میں اپنے موثر کا محتاج ہے اور احتیاج و نیاز اس سے کبھی بھی جدا نہیں ہوتی۔

( وَاللَّـهُ الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءُ ) ۴۷:۳۸

''اور خدا تو بے نیاز ہے اور تم (اس کے) محتاج ہو،،

کبھی مالکیت و سلطنت ، اعتباری اور قراردادی ہوتی ہے جس طرح لوگوںکوچیزوں کی ملکیت حاصل ہوتی ہے زید اپنے پاس موجود چیزوں کا صرف اس معنی میں مالک ہے کہ ان چیزوں کی ملکیت اور اختیار فرض کیا جاتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب ملکیت کے اسباب میں سے کوئی سبب وجود میں آئے جس طرح عقد ، معاملہ ، ارث اور آزاد علاقوں سے لکڑیاں وغیرہ جمع کرنا ہے۔

فلاسفروں کے نزدیک ملکیت اس حالت اور کیفیت کو کہا جاتا ہے جو ایک چیز کے احاطہ کرنے سے حاصل ہو یہ نو اعراض میں سے ایک عرض ہے جسے مقولہ جدہ سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسا کہ عمامے کا سر کو اور انگوٹھی کا انگلی کو گھیر لینے سے ایک صورت حاصل ہوتی ہے۔

الدین:

یہ جزاء اور حساب کے معنی میں آتا ہے ۔ سورہ فاتحہ میں ان دونوں میں سے جس معنی کا بھی ارادہ کیا جائے مناسب ہے کیونکہ حساب ، جزاء کا مقدمہ اورپیش خیمہ ہوتا ہے اور روز حساب یوم جزاء ہی کا نام ہے۔

۵۷۵

تفسیر:

خالق کائنات نے یہ بیان فرمایا ہے کہ حمد و ثناء کی حقیقت صرف اللہ کی ذات سے مختص ہے اس لئے کہ :

(۱) کسی بھی فعل کے حُسن اور اس کے کمال کا منشاء فاعل کاحسن اور کمال ہوا کرتا ہے بایں معنی کہ اگر فاعل اچھا اور حسن ہے تو اس سے اچھے افعال صادر ہوتے ہیں اگر فاعل برا ہے تو اس سے برے افعال صادر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کا مل مطلق ہے اس میں کسی قسم کے عیب اور نقص کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ لہٰذا اس کا ہر فعل بھی ہر لحاظ سے کامل اور بے عیب ہے۔

( قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ ) ۱۷:۸۴

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تم کہہ دو کہ ہر ایک اپنے (اپنے) طریقہ پر کار گزاری کرتا ہے،،

اللہ تعالیٰ کے علاوہ باقی مخلوقات میں کوئی نہ کوئی بلکہ کئی ذاتی عیب و نقائص پائے جاتے ہیں لہٰذا لامحالہ ان کے افعال بھی نقص و عیب سے خالی نہیں ہوں گے معلوم ہوا خالص حسن اور اچھے افعال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے مختص ہیں اور غیر خدا سے خالص حسن اچھے افعال کا صادر ہونا محال ہے اسی لئے حمد کی مستحق صرف اللہ کی ذات ہے اور غیر خدا کا لائق حمد ہونا محال ہے۔

اس حقیقت کی طرف سورہ فاتحہ میں جملہ : الحمدللہ کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے گزشتہ مباحث سے معلوم ہو چکا ہے کہ لظ ''اللہ،، نام ہے اس ذات مقدس کا جو تمام صفات مال کی جامع ہے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مروی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:

''ایک مرتبہ میرے والد بزرگوار امام محمدباقر (علیہ السلام) کا ایک خچر گم ہو گیا۔ اس موقع پر آپ (ع) نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ میرا خچر میری طرف لوٹا دے تو میں اللہ کا ایسا شکر ادا کروں گا جس پر وہ راضی ہو جائے زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ آپ (ع) کا خچر زین و لگام سمیت لا کر آپ (ع) کے حوالے کر دیا گیا آپ (ع) نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور صرف اتنا فرمایا : الحمدللہ۔ پھر فرمایا: میں نے اللہ تعالیٰ کی کوئی حمد و ثناء نہیں چھوڑی اور تمام تعریفوں کو اللہ کی ذات سے مختص کیا ہے حمد وثناء کی تمام قسمیں اس جملے میں داخل ہیں(۱)

____________________

۱) تفسیر البرہان ، ج ۱ ، ص ۲۹۔ اصول کافی ، باب الشکر ، ص ۳۵۶

۵۷۶

نیز آپ (ع) نے فرمایا:

اگر اللہ اپنے کسی بندے کو کسی بڑی یا چھوٹی نعمت سے نوازے اور بندہ الحمدللہ کہے تو اس سے اللہ کا شکر ادا ہو جاتا ہے(۱)

(۲) عقول ، نفوس ، ارواح و اشباح غرض ہر ممکن کا کمال اول اس کا اپنا وجود ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ممکن کا وجود ، اللہ کی طرف سے ہے اور وہی اس کا خالق و موجد ہے۔

دوسرا کمال وہ امور اور صفات ہیں جو کسی کی فضیلت اور امتیاز کاباعث بنتی ہیں اگر یہ صفات مخلوق کے ارادہ و ا ختیار سے باہر ہوں تو یہ بھی یقیناً اللہ کی طرف سے ہی ہوں گی جس طرح نباتات کا نشوونما پانا ، حیوانات کا اپنے فائدے اور نقصان کوسمجھنا اور انسان کا اپنے مقصد کو بیان کرنے پر قادر ہونا ہے اور جو افعال مخلوق کے ارادے اور اختیار سے صادر ہوں اگرچہ یہ اختیاری افعال کہلاتے ہیں لیکن درحقیقت ان کامنشاء اور منبع بھی اللہ کی ذات ہے اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کار خیر کی توفیق دیتی اور راہ حق کی رہنمائی فرماتی ہے چنانچہ حدیث میں آیا ہے۔

''ان الله اولی بحسنات العبدمنه،، (۲)

''بندے کی نیکیوں میں بندے کی نسبت اللہ کا حصہ زیادہ ہے،،

اس حقیقت کی طرف جملہ ''رب العالمین،، کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے۔

(۳) ہر اچھا فعل جو اللہ سے صادر ہوتا ہے اس کا فائدہ اللہ کو نہیں ہوتا کیونکہ اللہ وہ کامل مطلق ہے جس کا مزید کامل ہونا یا کمال کو طلب کرنا محال ہے اور اللہ کا ہر فعل محض احسان ہے جو وہ اپنی مخلوق پر کرتا ہے جو اچھا کام خیر خدا سے صادر ہوتا ہے اگرچہ بعض اوقات ظاہراً دوسروں پر احسان سمجھا جاتا ہے لیکن درحقیقت یہ احسان اپنے اوپر کیا جاتا ہے ارشاد ہوتا ہے۔

( إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ ۖ ) ۱۷:۷

''اگر تم اچھے کام کروں گے تو اپنے فا ئدے کیلئے اچھے کام کرو گے،،

۵۷۷

پس معلوم ہوا خالص احسان صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور وہی حمد و ثناء کا مستحق ہے کوئی دوسرا نہیںا س حقیقت کی طرف جملہ( الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) میں ا شارہ کیا جاتا ہے۔

اس مقام پر یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ کسی بھی ذات کے اختیاری فعل پر اس کی حمد وثناء کبھی اس کی نعمتوں کے شوق و رغبت اور خوف و عقاب سے ہٹ کر صرف اس ذات کی خوبی کے ادراک کی وجہ سے کی جاتی ہے اور کبھی محسن کے انعام و احسان اور رغبت و خوف کے پیش نظر اس کی حمد و ثناء کی جاتی ہے کبھی انعام و احسان کی رغبت و لالچ میں کسی کی تعریف کی جاتی ہے اور کبھی کسی کے خوف کی وجہ سے اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ حمد کی پہلی وجہ کی طرف جملہ( الْحَمْدُ لِلَّـهِ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے یعنی ہم اللہ کی اس لئے تعریف کرتے ہیں کہ وہ حمد کا مستحق ہے اور تمام صفات کمال کا جامع ہے ہر قسم کے عیب و نقص سے منزہ ہے۔

حمد کی دوسری وجہ کی طرف جملہ ''( رَبِّ الْعَالَمِينَ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ اللہ ہی نے اپنے بندوں کو خلقت و ایجاد کی نعمت سے نوازا ہے اور ان کی تربیت کر کے انہیں کمال تک پہنچایا ہے۔

حمد کی تیسری وجہ کی طرف جملہ( الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ رحمت ایک ایسی صفت ہے جو اللہ کی نعمتوں کی طرف رغبت اور اس سے طلب خیر کی متقاضی ہے۔

____________________

۱) اصول کافی ، باب الشکر ، ص ۳۵۶

۲) الوافی باب الخیر و القدر ، ج ۱ ، ص ۱۱۹

۵۷۸

حمد کی چوتھی وجہ کی طرف جملہ( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ جس کی طرف سب لوگوں کی باز گشت ہے وہ اس قابل ہے کہ اس سے ڈرا جائے اور اس کی مخالفت سے احتراز کیا جائے۔

( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) کی تفسیر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ روز قیامت وہ دن ہے جب اللہ کا عدل و انصاف اور رحم و کرم ظاہر ہو گا اور یہ دونوں ایسی حسین و جمیل نعمتیں ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی حمد کی جانی چاہئے جس طرح دنیا میں خلق کرنا ، تربیت دینا اور لوگوں پر احسان کرنا اللہ کے افعال اور اس کی صفات جمیلہ ہیں جن کی وجہ سے وہ حمد و ثنا کا مستحق ہے اسی طرح روز آخرت اس کی بخشش و مغفرت ، اطاعت گزاروں کو ثواب دینا اور گناہ گناروں کو سزا دینا یہ سب اس کے افعال اور اس کی صفات جمیلہ ہیں جن کے بموجب وہ حمد و ثناء کے لائق ہے۔

ہمارے اس بیان سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ جملہ ''الرحمن الرحیم،، تاکید کی خاطر مکرر نہیں لایا گیا جیسا کہ بعض مفسرین کا خیال ہے بلکہ اس جملے میں حمد کے اللہ سے مختص ہونے کی وجہ بیان کی گئی ہے بسم اللہ میں بطور تبرک( الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) کا ذکر کرنا کافی نہ تھا اس لئے بعد میں اس کا لانا ناگزیر تھا۔

تحلیل آیت

( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ )

''خدایا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں،،

۵۷۹

لغت

العبادۃ

لغت میں ''عبادت،، تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے:

(۱) اطاعت ،چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔

( أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ) ۳۶:۶۰

''اے آدم کی اولاد کیا میں نے تمہارے پاس یہ حکم نہیں بھیجا تھا کہ (خبردار) شیطان کی پرستش نہ کرنا ، وہ یقینی تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے،،

آیت میں شیطان کی جس عبادت کی نہی کی گئی ہے اس سے مرد اس کی اطاعت ہے۔

(۲) خشوع و خضوع چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔

( فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَابِدُونَ ) ۲۳:۴۷

''آپس میں کہنے لگے کیا ہم اپنے ہی ایسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں حالانکہ ان دونوں کی (قوم کی) قوم ہماری خدمت گار ہے ،،۔

اسی لئے ہر جگہ کو ''معبد،، کہا جاتا ہے جہاںل وگوں کی آمدورفت زیادہ ہو اور وہ لوگوں کے قدموں تلے دبتی رہے۔

(۳) پرستش و پوجا کرنا چنانچہ ارشادہوتا ہے:

( قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّـهَ وَلَا أُشْرِكَ بِهِ ۚ ) ۱۳:۳۶

''کہہ دو کہ (تم مانو نہ مانو) مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں خدا ہی کی عبادت کروں اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤں،،۔

جب لفظ ''عبادت،، عام طور پر بولا جائے اور یہ ہر قسم کے قرینہ اور شاہد کے بغیر ہو تو اس سے عبادت کا آخری معنی ذہن میں آتا ہے۔

۵۸۰

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689