البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313957 / ڈاؤنلوڈ: 9312
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

۱

البیان فی تفسیر القرآن

مولف: مرجع المسلمین آیت اللہ العظمیٰ السید ابو القاسم الموسوی الخوئی (رح)

مترجم: محمد شفا نجفی

F-۷/۴ اسلام آباد پاکستان

پوسٹ بکس نمبر ۲۴۰۵فون ۸۲۴۲۷۲

۲

عرض مترجم

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمد لله و الصلٰوة علیٰ رسول الله و علیٰ اٰله اٰل الله واللعن الابدی علی اعدائهم اعداء الله

ازل سے حق اور باطل کی جنگ جاری ہے حق کی بالا دستی اور باطل کی شکست قدرتی اور فطری امر ہے۔ باطل کا یہ شیوہ رہا ہے کہ جب تک اس کی قدرت و توانائی ساتھ دے وہ مثبت طریقے سے حق سے نبرد آزما رہتا ہے ارو دلائل کے زور پر حق کو شکست دینے کی کوشش کرتا ہے اور جب مثبت طریقے سے حق کا مقابلہ اور اس کی مزاحمت سے عاجز آجاتا ہے تو اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے منفی طریقہ اپنا لیتاہے اور حق پر بے بنیاد الزامات اور بہتان تراشیوں کا سہار لیتا ہے مگر

( وَيَأْبَى اللَّـهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ) (۱)

اور خدا اس کے سوا کچھ مانتا ہی نہیں کہ اپنے نور کو پورا کرکے ہی رہے اگر چہ کفار برا مانا کریں۔

____________________

(۱) ۹ : ۳۲

۳

مذہب اسلام بالعموم اور مکتب تشیع بالخصوص اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں۔ جب دشمنان اسلام، اسلام کے حقیقی مظہر (تشیع) کی حقانیت اور اس کے ناقابل تردید اصولوں کے مقابلے کی تاب نہ لا سکے تو اس مکتب کو مختلف الزامات اور تہمتوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ کسی نے اس مکتب کے پیروکاروں کو پروردہئ یہود کا نام دیا تو کسی نے انہیں عبد اللہ بن سبا جیسے موہوم شخص کے پیروکار قرار دیا۔ کوئی انہیں منکرِ قرآن قرار دینے لگا تو کوئی ان کے شعائر کی تعظیم کو شرک سمجھنے لگا۔

ایسی صورت میں مدافعین حق کا فرض بنتا ہے کہ اس یلغار کے مقابلے کے لیے میدانِ عمل میں اترآئیں اور حق کی حقانیت کو ثابت کرکے باطل کے ہتھکنڈے کو تارِعنکبوت کی طرح تار تار کردیں۔

اہلِ قلم، دانشمندان اور محققینِ کرام نے اپنے اس فرض کو نبھایا اور اپنی تالیفات و تصنیفات کے ذریعے ان الزامات کا جواب دیا۔

ان تمام مؤلفین او ر مصنفین کی زحمات بذاتِ خود قابلِ قدر و تحسین ہیں۔ مگر مرجعِ جہانِ تشیع زعیمِ حوزہئ علمیہ نجف اشرف علیٰ مشرفھا التحی ۃ و السلام آیۃ اللہ العظمیٰ السید ابو القاسم الموسوی الخوئی دام ظلہ، کی زیرِ نظر کتاب البیان فی تفسیر القرآن کو اپنی جامعیت اور پختگی کے اعتبار سے ان تمام تالیفات کے مقابلے میں وہی نسبت حاصل ہے جو اس کتاب کے مؤلف کو دیگر مؤلفین کے مقابلے میں حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دور حاضر میں جو بھی تفسیر اور علوم قرآن پر قلم اٹھاتا ہے اس کی کتاب میں اس کتاب البیان فی تفسیر القرآن کی کوئی نہ کوئی جھلک ضرور نظر آتی ہے۔

۴

اس علمی سرمایہ کی جامعیت اور امتیاز کے پیشِ نظر جامعہ کے پرنسپل حجۃ الاسلام شیخ محسن علی نجفی نے یہ زریں تجویز پیش کی کہ اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کرکے جہاں، اہل تشیع پر عائد الزامات کا جواب دیا جائے وہاں اس ترجمے کے ذریعے علم اور اردو دان اہل مطالعہ کی خدمت کی سعادت بھی حاصل کی جائے ۔ چنانچہ انہوں اس بار گراں کو حقیر کے ناتواں دوش پر رکھ دیا و حملہ الانسان اور آیۃ العظمیٰ السید الخوئی دام ظلہ کے فرزند ارجمند حجۃ الاسلام و المسلمین سید محمد تقی خوئی سے اس کام کی تائید حاصل کرنے کے بعد اس کتاب کے ترجمہ کا آغاز کیا گیا اور حجۃ الاسلام حاج شیخ محسن علی نجفی کے زیر نظر اصل کتاب سے تطبیق کے بعد قارئین کی خدمت میں اسے پیش کیا جا رہا ہے۔

اس علمی شاہکار کے ترجمے کے دوران دقت و تامل میں کوتاہی تو نہیں برتی گئی تاہم ما ابر نفسی. اگر اہل علم، مطالعہ کے بعد کسی اشتباہ کی نشاندہی کریں تو تشکر کے ساتھ آئندہ ایڈیشن میں اس کی اصلاح کی جائے گی ۔

الحمد لله علیٰ منه و توفیه و صل الله علی ممد خیر بریة و علی الاصفیاء من عترته

محمد شفا نجفی

۵

بسم الله الرحمن الرحیم

مقدمہ

حجۃ الاسلام و المسلمین السیدمحمد تقی الخوئی دام مجدہ الشریف

البیان فی تفسیر القرآن

انسان نے اپنی فکری تاریخ کے آغاز سے ہی اپنی حیات کو مقصدیت سے ہمکنار کرنے کی جدوجہد کی ہے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے عیش و عشرت، مال و دولت اور مادی آسائشوں کے حصول کو اپنی حیات کامقصد قرار دے دیا۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیں لیکن نہ صرف وہ لوگ مقصد حیات پانے میں ناکام رہے بلکہ اس مقصد غیر حقیقی تک رسائی حاصل کرنے کی تمام تر کوششوں کو انہوں نے ناپائیدار اور غیر تسلی بخش پایا۔ اس قسم کے مادی نظریات رکھنے والے انسان سے جب مقصد زندگی کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو وہ بیساختہ یہ جواب دیتا ہے کہ میں طبیعت کے ہاتھوں میں ایک کھلونا ہوں۔ وہ جب چاہے مجھے مریض کردے، جب اس کی مرضی ہو مجھے صحت مند کردے، دکھ پہنچائے یا سکھ، کامیابکرے یا ناکام بنائے، میں کچھ دیر تڑپتا ہوں، پھر ساکن ہو کر نیست و نابود ہو جاتا ہوں۔ معلوم نہیں میں کیوں آیا تھا؟ کس لیے تڑپایا گیا تھا؟ اور مجھے کیوں ان حالات سے دو چار کیا گیا؟

۶

قرآنی مکتب

اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا انسان خود کو نہ تو طبیعت کے ہاتھوں میں ایک بے مقصد و بے ارادہ کھلونا تصور کرتا ہے نہ ہی اس دور حیات میں رونما ہونے والے نشیب و فراز کے اسرار و حکمت سے ناآشنا ہے۔ اس نظریاتی انسان کے لیے فنا و زوال کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ جیسا کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا ہے:خلقتم للبقاء لاللفناء

قرآنی انسان کے نزدیک یہ دنیا ارتقائی منازل طے کرنے کے لیے ایک درسگاہ ہے اور قرآن کتاب درس ہے اور انبیاء و اوصیاء (علیھم السلام) اس انسان کے معلم و مربی ہیں۔ لہذا قرآن کا بنیادی مقصد ایک خاص نظریہ کے مطابق انسان کی تربیت ہے۔ چنانچہ اپنی جگہ یہ مسلمہ امر ہے کہ ارتقاء کے لیے تین چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ استعداد، ماحول اور وقت۔ انسان سازی کے اس عمل کے آغاز میں قرآن انسان کو ارتقائی مراحل طے کرنے کے لیے مستعد کرتا ہے اور ایسے ہی مستعد افراد سے مربوط ایک امت کی تشکیل کے بعد ماحول بھی میسر آجاتا ہے۔ اس طرح ایک مدت میں تکامل اور ارتقاء کے تمام ضروری مراحل طے کرلیتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

واعلموا انه لیس علی احد بعد القرآن من فاقة و لا لاحد قبل القراٰن من غنی ۔

آگاہ رہو کہ قرآن (کے نظام کو قائم کرنے) کے بعد کوئی شخص محروم نہیں ہوگا اور قرآن سے پہلے کوئی (حقیقی معنی میں) غنی نہیں ہو سکتا۔

لہٰذا قرآن کے بغیر کسی فرد یا قوم کے لیے ارتقائی منازل طے کرکے مقصد تک پہنچنا قطعا ناممکن ہے۔ کیونکہ قرآن وہ سرچشمہئ حیات ہے کہ جس سے سیرابی کے بغیر کشپ انسانیت ہمیشہ ویران ہی رہے گی۔

قرآن اپنے اندر ایسے بے شمار دلائل و شواھد رکھتا ہے جن سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ کلام، خدا اور رسولِ خدا(ص) کا ابدی معجزہ ہے۔ قرآن کی گہرائی اور اس کی ظاہری و باطنی، تشریعی اور علمی عظمت اس قدر بلند و بالا ہے کہ کوئی باریک بین اور دور اندیش شخص اس کو اپنے دائرہئ نگاہ میں نہیں لاسکتا۔

۷

کیونکہ قرآنی آفاق لامتناہی ہیں۔ قرآننہ مکانی حدود میں محدود ہے نہ زمانی حدود میں، اسی قرآن پر کسی وقتی چیز کا، خواہ وہ موجودہ انسان ہو یا نزول قرآن کے وقت کا انسانی معاشرہ، اثر دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے اندر جو علمی اور فکری خزانے ہیں وہ استخراج اور استفادہ سے کم نہیں ہوتے بلکہ آنے والی ترقی یافتہ نسلوں اور زیادہ با استعدادذہنوں کے لیے شاید اس میں زیادہ علمی و فکری خزانے پوشید ہ ہوں۔ خود قرآن ارشاد فرماتا ہے:

( سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا ۚ)

(النمل : ۹۳)

وہ عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا، تب تم انہیں پہچان لوگے۔

اس طرح آنے والے لوگ قرآن پر زیادہ ایمان لائیں گے۔ چنانچہ اس صدی کے غیر مسلم دانشور گذشتہ صدیوں کے غیر مسلموں کی نسبت قرآن کی عظمت کے زیادہ معترف ہےں اور بقول کسے شاید مغرب کا آئندہ مذہب اسلام ہو۔

یہ بات بھی سب کے لیے عیاں ہے کہ رسول کریم نے کسی بشری مکتب میں تعلیم حاصل نہیں کی، آپ کا ماحول و معاشرہ بھی علمی نہ تھا۔ اس سرزمین کی پوری تاریخ میں کوئی علمی مرکز قائم نہ رہا اور وہ معاشرہ اس زمانے کی تہذیب و تمدن سے بھی عاری تھا۔ حتیٰ کہ اس معاشرے کے افراد آداب خورد و نوش سے بھی نابلد تھے۔ ایسے معاشرے کا ایک فرد قرآن کے نام سے موسوم قیامت تک کے لیے پوری انسانیت کی پیشوائی و رہبری کا آئین لے کر اٹھتا ہے۔۔۔!!

وہ معاشرہ جو مفادات اور طبقاتی تفاوت کے سلسلے میں بدترین مثال پیش کررہا تھا، یکایک اس میں ایک فرد پوری انسانیت کی برابری و برادری کی ایک منفرد آواز بلند کرتا ہے۔

وہ معاشرہ ج وظم، نادانی اور نادری کی ظلمات ثلاث میں ڈوبا ہوا تھا، وہ حق و صداقت کا سرچشمہ ئ علم و فکر کا گہوارہ اور علم و فکر کا گہوارہ، حق و صدارت کا سرچشمہ اور عدل و مساوات کا منبع بن جاتا ہے۔

۸

وہ معاشرہ جو وحشیانہ اقدار کا حامل اور پشماندگی کا شکار ہو کر اقوام عالم سے پیچھے ر ہ گیا تھا، اس معاشرے سے اٹھنے والا انقلاب پوری دنیا میں تمدن کے لیے بنیاد بن گیا۔

غرض قرآن نے اس کرہئ ارض کا نظریاتی نقشہ بدل کے رکھ دیا، مظوم انسان کو نویدنجات سنائی، گویا قرآن نے از سرنو ایک نئی دنیا آباد کی۔

اس عظیم کتاب کی اہمتی کا خلاصہ ایک جلد میں بیان کیا جاسکتا ہے: یہ کتاب استعمار اور دشمنان قرآن کے اشاروں پر لکھنے والے اجرتی اہل قلم کے لیے دندان شکن جواب ہے۔ جو اپنی تمام تر شیطانی طاقتوں کو اس کلام اللہ اور انسان ساز دستور کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی راہ میں صرف کرتے ہیں تاکہ سادہ لوح عوام کو گمراہ اور انسانیت کو اس فیض سے محروم رکھا جاسکے۔

مؤلف کتاب کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ میرے والد گرامی کے تعارف کے لیے بس اتنی بات کا فی ہے کہ وہ ''البیان،، کے مؤلف اور سینکڑوں مجتہدین و محققین کے استاد ہیں، یہ وہ شخصیت ہیں کہ جن کے اکار و نظریات تمام حوزہ ہائے علمیہ و مراکز علمی میں درس و تدریس کا موضوع ہیں اور ان کے شاگردان حوزہ ہائے علیہ کے لیے اساتذہ اور دنیائے تشیع کے لیے مآیہ ناز مفکرّین کا درجہ رکھتے ہیں۔

جامعۃ اہل البیت (علیہم السلام) اسلام آباد پاکستان کے اساتذہ نے حجۃ الاسلام شیخ محسن علی نجفی کی سرپرستی میں اس گوہر گرانبھا کا اردو زبان ترجمہ کرکے اردو بولنے والے طالبان حق پر احسان عظیم کیا ہے۔ میں ان کے اس عمل جلیل کو قابل تحسین سمجھتے ہوئے ان علماء کی کاوشوں کی قدردانی کرتا ہوں اور خدواند عزوجل سے دعا کرتا ہوں کہ وہ سب کو اس دین مقدّس کی خدمت کی توفیق عنایت فرمائے۔

انه ولی التوفیق

۹

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمد لله الذی انزل علی عبده الکتاب و لم یجعل له عوجا قیما لینذر باسا شدیدا من لدنه و یبشر المومنین الذین یعملون الالحات ان لهم اجرا حسنا ما کثین فیه ابدا کتاب احکمت آیاته ثم فصلت من لدن حکیم خبیر لا یاتیه الباطل من بین یدیه و لا من خلفه تنزیل من حکیم حمید ذلک الکتاب لا ریب فیه هدی للمتقین نزله روح القدس من ربک بالحق لیثبت الذیب آمنوا و هدی و بشریٰ للمسلمین ما کان حدیثا یفتری و لکن تصدیق الذین بین یدیه و تفصیل کل شیء و هدی و رحمةلقوم یؤمنون و انه لذکر لک و لقومک و سوف تسئلون

و افضل صلوات الله و أکمل تسلیماته علی رسوله الذی أرسله،، بالهدی و دین الحق لیظهره علی الدین کله و لوکره المشرکوں النبی الامی الذی تجدونه مکتوبا عندهم فی التوراة و الا نجیل یامرهم بالمعروف و ینههم عن المنکر

و علی آله،، المصطفین الخیار الذین آمنوا به و عزروه و نصروه و اتبعوا النور الذی انزل معه اولئک هم الصدیقون و الشهداء عند ربهم لهم اجرهم و نورهم رضی الله عنهم و رضوا عنه اولئک حزب الله الا ان حزب الله هم المفلحون

و اللعنةالدائمة علی أعدائهم،، الذیناشتروا الضلالة باهدیٰ فما ربحت تجارتهم و ما کانوا مهتدین یوم یخرجون من الاجداث سراعا کأنهم الی نصب یوفضون خاشعة ابصارهم ترهقهم ذلة ذلک الیوم الذی کانوا یوعدون یوم لا ینفع الظالمین معذرتهم و لهم العنة و لهم سوء الدار

بچپن ہی سے میں قراءت و تلاوت قرآن کرنے، اس عظیم آسمانی کتاب کی مشکلات حل کرنے اور اس کے حقائق و علمی رموز اور اشارے سمجھنے کا انتہائی شوق و شغف رکھتا تھا، جیسا کہ ہر حقیقی مسلمان بلکہ ہر علم دوست اور حقیقت طلبانسان کو چاہیے کہ وہ قرآن سمجھے، اس کے اسرار و رموز کے انکشافات کو خاص اہمیت دے اور اس کے نور سے روشنی حاصل کرے، کیونکہ قرآن مجید و یگانہ کتاب ہے جو انسانی سعادت اور اصلاح معاشرہ کی ضمانت دیتی ہے، قرآن ایسی کتاب ہے جو مستحکم اور وا'ح ہے اور اس کا فائدہ عمومی ہے، یہ ایسی کتاب ہے جو لغت دانوں کے لیے بہت بڑا مرجع، علماء نحو کے لیے واضح و آشکار رہنما، فقیہ اور عالم دین کے لیے بہترین مدرک اور علمی سند، ادیب کے لیے بولتا ہوا شاہد و دلیل، طالبان حکمت کےلئے واعظ اور ہر خطیب کے لیے، مرشد، علماء اخلاق کا مقصود و مطلوب، غرض ہر دانشمند کے لئے اس کے مخصوص فن (مضمون) کا مستحکم پشتیبان اور واضح دلیل و راہنما ہے۔

۱۰

اجتماعی اور سیاسی علوم، آئین زندگی، انسانی معاشرہ کے جملہمسائل اور معاملات کی سرپرستی کو بہترین اور سادہ طریقے سے قرآن ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ دینی علوم کے مختلف عناوین بھی قرآن ہی کی بنیاد پر قائم ہیں۔ یہ قرآن ہی ہے جس نے جہان آفرینش کے دقیق قوانین و اسرار اور خلقت کے حیرت انگیز رموز پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ قرآن دائمی آئین کے لیے ایک زندہ اور دائمی معجزہ، اعلیٰ ترین آسمانی دین کا منظم پروگرام اور شریعت مقدسہ کا اعلیٰ ترین نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے بچپن ہی سے کلام مجید کی تلاوت کا انتہائی شوق تھا اور اس کے حقائق و مفاہیم کو سمجھنے اور اس کے اہداف و مقاصد سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔

جب بھی قرآن کے رموز و اسرار میں سے کسی رمز یا راز کو دریافت کرنے میں کامیابی حاصل ہوتی یا اس کی مشکلات میں سے کسی مشکل کو حل کرنے کی توفیق حاصل ہوتی تو تلاوت کلام اور اس کا شوق و شغف زیادہ اور دقیق تر ہو جاتا۔ تلاوت کلام اللہ کا یہی شوق باعث بنا کہ میں کتب تفسیر کی طرف رجوع کروں اور باریک بینی و ٹرف نگاہی سے تحقیق کروں۔ مگر اس منزل پر پہنچ کر ایک حیرت انگیز مسئلے سے دوچار ہونا پڑا۔

قرآن مجید اور اس کے بھیجنے والے کی عظمت کے مقابلے میں انسانی تفسیر اور اس کی فکر حقیر نظر آنے لگی۔ حق تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی کے مقابلے میں انسان اپنے آپ کو جتنا بھی حقیر سمجھتا ہے میں اپنے آپ کو اس سے زیادہ حقیر اور ناقص محسوس کرنے لگا مجھے کلام مجید عظیم سے عظیم تر اور اس سے متعلق لکھی جانے والی کتابیں اور تفسیرین حقیر سے حقیر تر نظر آنے لگیں۔

تفسیر کی کتابوں کے مطالعے سے میں اس نتیجے اور حقیقت تک پہنچا کہ بعض حضرات نے اپنی سخت کوششوں کے نتیجے میں کچھ اسرار قرآن کو دریافت کرنے میں کامیابی حاصل کی انہیں علوم قرآن کی کے حقائق کے محتصر سے حصے تک دست رسی حاصل ہوئی ہے اور اسے ایک تکاب کی شکل میں یک جا کرکے اس کانام تفسیر رکھ دیا ہے۔ ان کے خیال میں یہ تفسیر قرآن کی تمام گہراھیوں کا احاطہ اور اس کے تمام اسرار و رموز سے پردہ اٹھانے کے لیے کافی ہے۔

۱۱

حالانکہ ایسی تفیسر کو جامع تفسیر لکھنا عقلی طور پر محال ہے، یہ کیسے ممکن اور قابل تصور ہے کہ محدود اور ناقص انسان اس کامل کتاب کا احاطہ کرسکے جو ایک لامتناہی ذات کی طرف سے اتاری گئی ہے۔

تاہم علمائے کرام اور مفسرین کی زحمات اور کوششیں قابل ستائش و تحسین ہیں اور فعالیت و علمی جہاد کی وجہ سے وہ عند اللہ ماجور ہیں کیونکہ اس مقدس کتاب الہیٰ نے ان کی دلوں پر نور افشانی کی ہے اور ان کے لیے اپنی ہدایت و راہنمائی کا ایک دروازہ کھول دیا۔ کسی بھی انسان سے (خواہ اس کا مبلغ علم کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو) یہ توقع رکھنا بیجا ہے کہ وہ قرآن کے معانی اور اس کے مفاہیم کا مکمل طور پر اور ہر لحاظ سے احاطہ کرسکے، ان مفسرین کرام پر صرف یہی اعتراض ہوسکتا ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کے صرف بعض مباحث اور علوم سے بحث کی ہے اور اس کے اکثر اور ایسے اہم حصوں سے غفلت برتی ہے جو قرآن کی عظمت اور واقعیت (حقیقت) کی نشاندہی کرسکتے تھے۔ مثال کے طور پر بعض مفسرین کرام نے صرف ادبی اعتبار سے اورکچھ نے صرف فلسفی نقطہ نگاہ سے قرآن مجید کو مورد تحقیق قرار دیا اور بعض حضرات نے جدید علوم کی روشنی میں قرآن مجید کی تفسیر کی ہے۔ اس کے باوجود سب مفسر یہی تصور کرتے ہی ںکہ قرآن مجید انہیں کے نقطہ نگاہ کے مطابق نازل ہوا ہے، جو نظریہ یہ حضرات رکھتے ہیں، بعض لوگ توف تفسیر لکھتے ہیں لیکن ان کی کتابوں میں تفسیر کی باتیں بہت کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں جور کچھ لوگ قرآن کی تفسیر اپنے ذاتی یا ایسے افراد کے افکار کی روشنی میں کرتے ہیں، جن کو خدا نے اپنے بندوں کے لئے حجت نہیں بنایا۔ ان میں سے کوئی تفسیر بھی اشکال (اعتراض) سے خالی نہیں، کیونکہ مفسر کا یہ فرض ہے کہ دوران تفسیر وہی راستہ اختیار کرے جس کی طرف آیت کا رخ ہے اور اسی معنی کا انکشاف کرے جس کی طرف آیت کا شارہ ہے اور اسی مطلب کو واضح کرے جس پر آیت دلالت کرے۔ اپنے ذہنی اختراعات اور ذاتی مضمون (جس میں وہ مہارت رکھتا ہو) کا رنگ دیئے بغیر صرف آیات قرآن کو پیش نظر رکھے اور ان آیات کے اشاروں، راہنمائیوں اورفرمان کی روشنی میں تفسیر کرنے کی جراءت کرے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ قرآنی آیات کی تفسیر اور ان کا ترجمہ آیات ہی کی راہنمائی اور رہبری کے مطابق کیا جانا چاہیے، اپنی ذاتی رائے، عقیدے، فکری کشش اور سلیقہ کے طابق تفسیر و ترجمہ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔

۱۲

صحیح مفسر وہ ہے جو قرآن کے فلسفی مباحث میں ایک حکیم و آگاہ فلاسفر اور اخلاقی مسائل میں ایک مضبوط دانشمند ہو۔ قرآن کے فقہی مسائل کو ایک فقیہ اور محقق کی نگاہ اوراس کے اجتماعی مسائل کو ایک تجربہ کار ماہر اجتماعیات کی نگاہ سے دیکھے۔ غرض قرآن کے ہر علم کی تفسیر اسی علم اور اس کے تقاضوں کے مطابق کرے۔۔۔ مفسر وہ ہے جو اس فن کو عیاں کرے جو آیت میں ہنہاں ہے اور اس ادب کو بیان کرے جو الفاظ آیت میں موجود ہے۔ وہ علم، فن اور مضمون سے متعلق وسیع معلومات رکھتا ہو، اور ہر علم و فن کی اسی علم کی روشنی میں تفسیر کرے اور آگے بڑھے اور اس موضوع پر بیسیوں جلدوں پر مشتمل کتاب مرتب کرے اور اسطرح قرآن کی تفسیر میں ایک بہت بڑا دائرۃ المعارف (انسائیکلو پیڈیا) لکھ دے۔۔۔ انہیں وجوہات کی بنا پر میں نے اپنا فرض سمجھا کہ تفسیر قرآن میں ایسی کتاب لکھوں جو حقیقی تفسیر کے نکات اور خصوصیات پر مشتمل ہو، درگاہ خداوندی میں میری دعا ہے کہ مجھے اس مقدس و بلند آرزو تک پہنچنے اور اس عظیم تمنا کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عنایت فرمائے۔ اس مقدس مشن میں میری مدد فرمائے ارومیری لغزشوں کو نظر انداز فرمائے۔

ہم اس تفسیر میں صرف انہی مباحث اور موضوعات سے بحث کریں گے جن کا تعلق قرآن کے معنی سے ہو اور ان مباحث سے صرف نظر کریں گے جن کا تعلق قرآن کے الفاظ، اس کے اعراب اور ادبی علوم سے ہو۔ اس لیے کہ علماء کرام اور مفسرین عظام نے اس قسم کے مباحث متعدد کتابوں میں بیان فرمائے ہیں اور اس کے لیے مزید کسی کتاب کی ضرورت نہیں رہی۔ ان کتابوںمیں شیخ طوسی کی تفسیر تبیان، طبرسی کی مجمع البیان، اور زمخشری کی تفسیر کشاف قابل ذکر ہیں۔ البتہ اگر کسی مقام پر ضرورت پڑی تو ان ادبی نکات کی طرف ضرور اشارہ کریں گے جن سے مفسرین نے غفلت برتی ہے یا ہماری زیر نظر بحث سے اس کا کوئی خاص ربط و تعلق ہے یا وہ موضوع زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

۱۳

اس مقام پر ہم قارئین کرام کی توجہ دو نکتوں کی طرف مبذول کرتے ہیں:

۱۔ اس تفسیر میں ہمارا واحد سہارا اور سند درج ذیل چیزیں ہیں:

الف: آیات قرآنی کے ظواہر۔

ب: قرآن کی محکم اور واضح الدلالت آیات۔

ج: وہ روایات جن کی صحت (تواتر اور کثرت نقل کی وجہ سے مسلم ہو۔

د: وہ احادیث جو صحیح سند کے ذریعے خاندان عترت علیہم السلام سے منقول ہوں۔

ح: وہ فطری عقل جو انحراف اور غلط قسم کی رنگ آمیزیوں سے محفوظ ہو۔ کیونکہ عقل حجت باطنی ہے۔ جس طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کا خاندان گرامی علیہم السلام حجت اور برھان ظاہری ہیں۔

۲۔ ہم اکثر اوقات ایک آیت کی تفسیر کے لیے دوسری آیت کے مفہوم سے استفادہ کریں گے اور قرآن ہی کو اس کے معانی سمجھنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دیں گے۔۔۔ قرآن کو درک کرنے اور اسے سمجھنے کے لیے قرآن سے مدد اور راہنمائی حاصل کریں گے اس روش (طریقے) اور درک کی دلیل کے طور پر اور تائید کے لیے احادیث ذکر کریں گے۔

مقدمہ میں کچھ اہم امور بیان کئے گئے ہیں جو تفسیر کی مباحث سے مربوط ہیں۔ جن سے تفسیر کے بعض تاریک پہلوؤں پر روشنی پڑسکتی ہے۔ جو تفسیر کے سربستہ رازوں کے انکشاف میں مفسر کے افکار کو روشن اور باریک بین کرسکتے ہیں۔ اصل تفسیر کو شروع کرنے سے پہلے جدا جدا ان مباحث پر تحقیق کروں گا اور اسے مقدمہ تفسیر قرآن قرار دوں گا۔ یہ مقدمہ، قرآن سے متعلق بعض علمی اور عمومی مباحث پر مشتمل ہوگا۔۔۔ مثال کے طور پر عظمت قرآن۔۔۔ اعجاز قرآن۔۔۔ قرآن کا تحریف سے محفوظ ہونا۔۔۔ قرآن میں تناقض کا نہ ہونا۔۔۔ احکام قرآن میں نسخ اور اس قسم کے دیگر مباحث جو ایک صحیح اور ٹھوس علمی تفسیر کی اساس اوربنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔۔ خداوند تعالیٰ سے میری یہ دعا ہے کہ اس راہ میں مجھے زیادہ سے زیادہ توفیق عنایت فرمائے اور اس عمل اور خدمت قرآن کو قبول فرمائے۔انه حمید مجید ۔

مولف کتاب

۱۴

فضائل قرآن

تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب

تلاوت قرآن کی فضیلت اور اس کا ثواب

گھروں میں تلاوت کے آثار جو روایات میں مذکور ہیں

قرآن میں غور و خوض اور اس کی تفسیر

۱۵

تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب

جب فضیلت قرآن کی بات آئے تو بہتر ہے کہ انسان توقف اختیار کرے، اپنے آپ کو قرآن کے مقابلے میں حقیر تصور کرے اور اپنی عاجزی اور ناتوانی کا اعتراف کرے، اس لیے کہ بعض اوقات کسی کی مدح میں کچھ کہنے یا لکھنے کی بجائے اپنی عاجزی اور ناتوانی کا اعتراف کرلینا بہتر ہوتا ہے، جو انسان عظمت قرآن کے بارے میں لب کشائی کرنا چاہے بھلا وہ کیا کہہ سکتا ہے؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان (جو ایک ممکن اور محدود چیز ہے) لامتناہی ذات کے کلام کی حقیقت کو درک کرسکے اور اپنے مختصر اور محدود ذہن میں اسے جگہ دے سکے۔

انسان میں وہ کون سی طاقت ہے جس کی بدولت وہ اپنے محدود اور ناقص ذہن میں قرآن کی حقیق قدر و قیمت، منزلت اور حیثیت بٹھا سکے اور پھر بیان کرپائے؟ ایک اہل قلم چاہے کتنا ہی مضبوط ہو، اس سلسلے (فضیلت قرآن) میں لکھ ہی کیا سکتا ہے اور ایک خطیب چاہے وہ کتنا ہی شعلہ بیان ہو، زبان سے کیا ادا کرسکتا ہے کیا ایک محدود انسان محدود چیز کے علاوہ بھی کسی کا وصف بیان کرسکتا ہے؟

۱۶

قرآن کی عظمت کے لےی اتنا کافی ہے کہ یہ خالق متعال کا کلام ہے۔ اس کے مقام و منزلت کے لیے اتنا کافی ہے کہ یہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا معجزہ ہے اور اس کی آیات انسانیت کی ہدایت اور سعادت کی ضمانت دیتی ہیں۔ قرآن ہر زمانے میں زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی راہنمائی کرتا ہے اور سعادت کی ضمانت دیتا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن ہی کی زبان سے سن سکتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّ هَـٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ ) ۹:۱۷

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی ہے۔،،

( كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ) ۱:۱۴

''(اے رسول یہ قرآن وہ) کتاب ہے جس کو ہم نے تمہارے پاس اس لیے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے (کفر کی) تاریکی سے (ایمان کی) روشنی میں نکال لاؤ۔ غرض اس کی راہ پر لاؤ جو غالب اور سزا وار حمد ہے۔،،

( هَـٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ ) ۱۳۸:۳

''یہ (جو ہم نے کہا) عام لوگوں کے لیے تو صرف بیان (واقعہ) ہے (مگر) اور پرہیزگاروں کے لیے نصیحت ہے۔،،

اس سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی روایت منقول ہے جس میں آپ (صلعم) فرماتے ہیں:

''کلام خدا کو دوسروں کے کلام پر وہی فوقیت اور فضیلت حاصل ہے جو خود ذات باری تعالیٰ کو باقی مخلوقات پر ہے۔،،(۱)

یہاں پر اس اس حقیقت کا راز کھل کر سامنے آجاتا ہے جس کا میں نے آغاز کلام میں ہی اعتراف کرلیا تھا، یعنی مناسب یہی ہے کہ انسان قرآن کی عظمت اور اس کی فضیلت میں لب کشائی کی جسارت نہ کرے اوراسے ان ہستیوں کے سپرد کردے جو قرآن کے ہم پلہ اور علوم قرآن میں راسخ اور ماہر ہیں۔ کیونکہ یہ حضرات سب سے زیادہ قرآن کی عظمت اوراس کی حقیقت سے آشنا اور آگاہ ہیں۔

____________________

(۱) بحارالانوار ج ۱۹، ص۶، صحیح ترمذی شرح ابن عربی ج۱۱، ص۴۷، ابواب فضائل۔

۱۷

یہی ہستیاں ہیں جو قرآن کی ارزش (قدر و منزلت) اور صحیح حقیقت کی طرف لوگوں کی رہنمائی فرماتی ہیں۔ یہی ہستیاں فضیلت میں قرآن کی ہمدوش اور ہم پلہ ہیں اور ہدایت و رہبری میں قرآن کی شریک اور معاون و مددگار ہیں۔ ان حضرات کے جد امجد وہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں جنہوں نے قرآن کو انسانیت کے سامنے پیش کیا اور اس کے احکام کی طرف دعوت دی۔۔۔ وہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو قرآنی تعلیمات اور اس کے حقائق کے ناشر ہیں۔ آپ قرآن سے ان حضرات کا تعلق یوں بیان فرماتے ہیں:

''انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللّٰه و عترتی اهل بیتی و انهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض،، (۱)

''میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت و اہل بیت اوریہ ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے حتیٰ کہ حوض کوثر پر یہ میرے پاس پہنچیں۔

پس اہل بیت اور عترت پیغمبر ہی ہیں جو قرآن کے رہنما اور اس کی فضیلتوں سے مکمل آگاہ ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم انہیں کے اقوال پر اکتفاء کریں اور انہیں کے ارشادات سے مستفیض ہوں۔ قرآن کی فضیلت میں بہت سی احادیث ائمہ اطہار سے منقول ہیں، جنہیں مجلسی مرحوم نے کتاب بحارالانوار کی ج ۱۶ میں یکجا فرمایا ہے۔ البتہ ہم صرف چند احادیث پراکتفاء کرتے ہیں۔

حارث ہمدانی فرماتے ہیں:

''میں مسجد میں داخل ہوا تور دیکھاکہ کچھ لوگ بعض (بے فائدہ) باتوں میں الجھے ہوئے ہیں، چنانچہ میں امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ واقعہ آپ کے سامنے بیان کردیا آپ نے فرمایا: ۔۔۔ واقعاً ایسا ہی ہے؟ ۔۔۔ میں نے عرض

___________________

(۱) ترمذی ۱۳/۲۰۰۔۲۰۱ مناقب اہل بیت، سند حدیث کی تفصیل کے لئے کتاب کے آخر میں ضمیمہ نمبر ۱ کی طرف رجوع فرمائیں۔

۱۸

کیا، ہاں یا مولا!۔۔۔ آپ نے فرمایا:... اے حارث! میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:عنقریب فتنے برپاہوں گے۔ میں نے عرض کیا مولا!۔۔۔ ان فتنوں سے نجات حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ آپ نے فرمایا: راہ نجات، کتاب الہی ہے۔ وہی کتاب جس میں گذشتہ اور آنے والی نسلوں کے واقعات اور خبریں اور تم لوگوں کے اختلافی مسائل کے فیصلے موجود ہیں۔ وہی کتاب جو حق کو باطل سے بآسانی تمیز کر سکتی ہے۔ اس میں مذاق اور شوخی کا کوئی پہلو نہیں۔ وہی کتاب جس کو جو جابر و ظالم بادشاہ بھی ترک اور نظر انداز کرے، خدا اس کی کمر توڑ دیتا ہے۔ جو شخص غیر قرآن سے ہدایت حاصل کرنا چاہے خالق اسے گمراہ کر دیتا ہے۔ یہ (قرآن) خدا کی مضبوط رسی اور حکمت آمیز ذکر ہے۔ یہ صراط مستقیم ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے ہوا و ہوس اور خواہشات نفسانی منحرف نہیں کر سکتیں۔ قرآن کی بدولت زبانیں التباس اور غلطیوں سے محفوظ رہتی ہیں۔ علاء اور دانشور اسے پڑھنے اور اس میں فکر کرنے سے سیر نہیں ہوتے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے سن کر جن یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ہم نے عجیب و غریب قرآن سنا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے کہ جو بھی اس کی زبان میں بولے صادق ہی ہوگا اور جو قرآن کی روشنی میں فیصلے کرے گا یقینا عادل ہوگا، جو قرآن پر عمل کرے وہ ماجور ہوگا، جو قران (احکام قرآن) کی طرف دعوت دے وہ صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے۔

۱۹

اس کے بعد امیر المومنین نے حارث ہمدانی سے فرمایا: حارث! اس حدیث کو لے لو اور یاد رکھو۔،،(۱)

اس حدیث شریف میں چند غیر معمولی نکتے ہیںجن میں سے اہم نکتوں کی ہم وضاحت کرتے ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:

''فیه نباء من کان قبلکم و خبرمعادکم ۔،، ''قرآن میں گذشتہ اور آئندہ کی خبریں موجود ہیں۔،،

اس جملے کے بارے میں چنداحتمال دیئے جاسکتے ہیں:

۱: اس کا اشارہ عالم برزخ اور روز محشر کی خبروں کی طرف ہو، جس میں نیک اور برے اعمال کامحاسبہ ہوگا، شاید یہ احتمال باقی احتمالات سے زیادہ قوی ہو۔ چنانچہ اس احتمال کی تائید امیر المومنین کے اس خطبے سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:

''اس قرآن میں گذشتگان کی خبریں، تمہارے باہمی اختلافات کے فیصلے اور قیامت کی خبریں موجود ہیں۔،،(۲)

۲: ان غیبی خبروں کی طرف اشارہ ہو جن کی قرآن نے خبر دی ہے اور آئندہ نسلوں میں بھی رونما ہوں گی۔

۳: ان سے مراد گذشتہ امتوں میں رونما ہونے والے واقعات ہوں جو بعینہ اس امت میں بھی رونما ہوں گے۔ گویا یہ حدیث اس آیہ شریفہ کی ہم معنی ہے:

____________________

(۱) سنن دارمی، ج۲، ص۴۳۵، کتاب فضائل القرآن میں بھی اس طرح سے موجود ہے۔ صحیح ترمذی، ج ۱۱، ص ۳۰،باب فضائل قرآن میں بھی معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ موجود ہے۔ بحار، ج۹، ص ۷ میں تفسیر عیاشی سے منقول ہے۔

(۲) بحار الانوار، ج ۱۹، ص۶۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ تینوں آیتیں نسخ نہیں ہوئیں کیونکہ ان آیات کی تصریح کے مطابق رسول اللہ (ص) کو اس صورت میں اجازت دینے سے روکا جا رہا ہے اور سرزنش کی جا رہی ہے جب سچے اور جھوٹے میں تمیز نہ کی جا سکے اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہ فرما دیا ہے کہ جو لوگ قرآن نہیں لائے ، وہ جنگ سے فرار ہونے کے بہانے تلاش کرتے ہیں اور آپ (ص) سے جنگ میں نہ جانے کی اجازت مانگتے ہیں نیز رسول اللہ (ص) کو حکم دیا ہے کہ اس وقت تک نہ جانے کی اجازت نہ دیں جب تک ان کی صحیح صورتحال معلوم نہ ہو جائے لیکناگر مسلمانوں کی صحیح صورتحال معلوم ہو جائے تو خدا نے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کیلئے رسول اللہ (ص) سے اجازت لیں اور رسول اللہ (ص) کو بھی انہیں رخصت دینے کا مجاز قرار دیا ہے۔

معلوم ہوا ان دونوں آیتوں میں کسی قسم کی منافات نہیں پائی جاتی تاکہ ایک دوسری کیلئے ناسخ بن سکے۔

۲۶۔( مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّـهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ ) ۹:۱۲۰

''مدینہ کے رہنے والوں اور ان کے گردونواح کے دیہاتیوں کو یہ جائز نہ تھا کہ رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا کا ساتھ چھوڑ دیں اور نہ یہ جائز تھا کہ رسول کی جان سے بے پرواہ ہو کر اپنی جانوں کے بچانے کی فکر کریں،،۔

ابن زید سے منقول ہے کہ یہ آیت اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱)

( وَمَا كَانَ الْمومنونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ ) ۹:۱۲۲

''اور یہ (بھی) مناسب نہیں کہ مومنین کل کے کل (اپنے گھروں سے) نکل کھڑے ہوں،،۔

لیکن حق یہی ہے کہ یہ آیت نسخ نہیں ہوئی کیونکہ دوسری آیت تک ایک قرینہ ہے جو آیہ اول سے متصل ہے اور یہ آیہ اول کا مطلب بیان کر رہی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۸۷ قرطبی نے اس قول کی نسبت مجاہد کی طرف بھی دی ہے ، ج ۸ ، ص ۳۹۲

۴۶۱

دونوں آیات کا مفہوم یہ ہے کہ بطور واجب کفائی صرف بعض مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ جنگ میں جائیں اس طرح دوسری آیت ، پہلی آیت کیلئے ناسخ نہیں بنے گی۔

ہاں ! اگر کسی خاص موقع پر کسی ضرورت کا یہ تقاضا ہو کہ تمام مسلمان جہاد کیلئے روانہ ہوں یا حاکم شرع سب کو جہاد پر جانے کا حکم دے یا کسی او وجہ سے سب کا جہاد پر جانا ضروری ہو جائے تو اس ضرورت کو پورا کریں یہ عمومی جہاد ، وہ جہاد نہیں جو اسلام میں بطور واجب کفائی مسلمانوں پر واجب ہے بلکہ یہ ایک جداگانہ حکم ہے جوب عض مخصوص حالات میں ثابت ہے یہ دونوں حکم اپنے طور پر مستقل ثابت ہیں اور ایک دوسرے کا ناسخ نہیں ہے:

۲۷۔( وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّـهُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ ) ۱۰۔۱۰۹

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تمہارے پاس جو وحی بھیجی جاتی ہے تم بس اسی کی پیروی کرو اور صبر کرو یہاں تک کہ خدا (تمہارے اور کافروں کے درمیان) فیصلہ فرمائے اور وہ تمام فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے،،۔

ابن زید کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ جہاد (جس میں کفار پر سختی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ) کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱) گزشتہ آیات کے بارے میں ہمارے بیان سے اس آیت کے نسخ کا دعویٰ بھی باطل ثابت ہو جاتا ہے ان بیانات کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آیت میں صبر سے مراد کفار کے مقابلے میں صبر ہو (یعنی ان سے جنگ نہ کی جائے) البتہ اس آیت میں مطلق صبر کا حکم دیا جا رہا ہے جو کفار کے مقابلے میں صبر کو بھی شامل ہے ۔

بنا برایں زیر بحث آیہ شریفہ میں نسخ کے دعویٰ کی کوئی وجہ نہیں۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۱۷۸

۴۶۲

۲۸۔( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ) ۱۵:۹۴

''اور قیامت یقیناً ضرور آنے والی ہے تو تم (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) ان کافروں سے شائستہ عنوان کے ساتھ درگزر کرو،،۔

ابن عباس ، سعید اور قتادہ کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے۔

لیکن یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ ''صفح،، (چشم پوشی) سے مراد یہ ہے کہ آپ (ص) ان اذیتوں اور تکلیفوں سے درگزر کریں جو تبلیغ شریعت کی راہ میں مشرکین کی طرف سے دی جاتی تھیں اس آیت کا راہ خدا میں قتال وجہاد سے کوئی ربط و تعلق نہیں اس امر کی تائید بعد والی آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( فاصدع بما تومر و اعرض عن المشرکین) ۱۵:۹۴

پس جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسے واضح کر کے سنا دو اور مشرکین کی طر ف سے منہ پھیر لو،،۔

( إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ) : ۹۵

''جو لوگ تمہاری ہنسی اڑاتے ہیں ہم تمہاری طرف سے ان کیلئے کافی ہیں،،۔

آیہ کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں رسول اللہ (ص) کو اوامرالٰہی کی تبلیغ اور اسلام کے نشرو اشاعت کی تشویق و ترغیب دلائی ہے اور آپ (ص) کو تسلی دی ہے کہ اس سلسلے میں آپ (ص) مشرکین کی اذیت اور ان کے تمسخر کی پروا تک نہ کریں۔

یہ ایک جداگانہ حکم ہے اور اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ جب اسلام کی حجت مکمل ہو اور مسلمانوں کی کثرت سے تقویت حاصل ہو تو کفارسے جہاد کریں۔

۴۶۳

ہاں ! یہ بات مسلم ہے کہ رسول اللہ (ص) کو اسلام کے آغاز ہی میں قتال و جہاد کا حکم نہیں دیا گیا کیونکہ اس وقت معجزہ اور دوسرے غیر معمولی اقدامات کے علاوہ عام مادی وسائل و اسباب کے بل پر کفار سے جنگ کرنے کی قدرت حاصل نہ تھی لیکن جب قدرت حاصل ہوئی اور مسلمانوں میں اتنی طاقت اور کثرت آ گئی جس سے کفار کا مقابلہ کیا جا سکے تو آپ (ص) کو جہاد کا حکم دیا گیا۔ اس سے قبل بھی یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ احکام اسلام تدریجاً نافذ کئے گئے ہ یں جو نسخ نہیں کہلاتا۔

۲۹۔( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ ) ۱۶:۶۷

''اور اسی خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو ) شراب بنا لیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ)

قتادہ ، سعید بن جبیر ، شعبی ، مجاہد ، ابراہیم اور ابورزین کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت ، اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس میں شراب نوشی کو حرام قرار دیا گیا ہے(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ باقی آیات کی طرح یہ آیت بھی محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا دو چیزوں پر موقوف ہے:

( i ) ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہو لیکن نسخ کے قائلین یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ آیت میں ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہے کیونکہ ''سکر،، کے معانی میں سے ایک معنی ''سرکہ،، بھی ہے چنانچہ مشہور مفسر علی بن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں ''سکر،، کے اسی معنی (سرکہ) کا ذکر کیا ہے(۲) بنا برایں ''رزق حسن،، سے مراد سرکہ اور اس قسم کے دیگر لذیذ کھانے ہوں گے نشہ آور شراب نہیں تاکہ آیہ تحریم خمر کے ذریعے یہ آیت نسخ ہو جائے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۱۸۱

(۲) تفسیر برہان، ج ۱، ص ۵۷۷

۴۶۴

( ii ) آیہ کریمہ مسکر (نشہ آور چیز) کے مباح ہونے پر دلالت کرے تاکہ دوسری آیت ''مسکر،، کو حرام قرار دے اور پہلی آیت کیلئے ناسخ قرار پائے۔

لیکن نسخ کا قائل اس مطلب کو بھی ثابت نہیں کر سکتا کیونکہ اس آیہ کریمہ میں ایسے کام اور واقعہ کی خبر دی جارہی ہے جسکو عام لوگ انجام دیتے تھے۔ اس آیت سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس کام کی اجامت بھی دی ہو۔

یہ آیت، اس آیت کے بعد نازل ہوئی ہے جس میں کائنات کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی نشانیوں کے ذریعے خدائے واجب الوجود کو ثابت کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَاللَّـهُ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ ) ۱۶:۶۵

''اور خد ہی نے آسمان سے پانی برسایا تو اس کے ذریعہ سے زمین کو مردہ (پڑتی) ہونے کے بعد زندہ (شاداب) کیا کچھ شک نہیں کہ اس میں جو لوگ بستے، ان کے واسطے (قدرت خدا) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

( وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِينَ ) : ۶۶

اور اس میں شک نہیں کہ چوپایوں میں بھی تمہارے لیے عبرت (کی بات) ہے کہ ان کے پیٹ میں (خاک ملا)گوبر اور خون (جو کچھ بھرا ہوا ہے) ا س میں سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔،،

( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ) :۶۷

''اور اسی طرح خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو) شراب بنالیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ) اس میں شک نہیں کہ اس میں بھی سمجھ دار لوگوں کے لیے (قدرت خدا کی) بڑی نشانی ہے۔،،

۴۶۵

( وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ) :۶۸

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو اونچی اونچی ٹیٹاں (اور مکانات پاٹ کر) بناتے ہیں ان میں چھتّے بنا۔،،

( ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ) : ۶۹

''پھر ہر طرح کے پھلوں (کے بورے سے) ان کا چوس پھر اپنے پروردگار کی راہوں میں تابعداری کے ساتھ چلی جا مکھیوں کے پیٹ سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد) جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اس میں لوگوں (کی بیماریوں) کی شفا (بھی) ہے اس میں شک نہیں کہ اس میں غور و فکر کرنے والوں کے واسطے (قدرت خدا کی) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

اس آیت میں منجملہ آثار قدثرت میں سے ایک یہ ہے کہ خدا نے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کردیا۔ اس کے بعد حیوانات کی خلقت میں تدبیر خداوندی کا بیان ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ پیدا کرتا ہے۔ پھر یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھجور اور انگور میں وہ صلاحیت پیدا کی جس کے ذریعے لذیذ چیزوں سے نشہ آور اشیاء بنائی جاسکتی ہےں اور باقی پھلوں میں یہ امتیاز صرف کھجور اور انگور کو حاصل ہے۔

اس کے بعد شہد کی مکھی کے ان حیرت انگیز کارناموں کا ذکر فرمایاجنہیں سن اور دیکھ کر وہ صاحبان عقل دنگ رہ جاتے ہیں جو شہد بنانے کے طریقوں اور اس کی خصوصیات سے آگاہ ہوتے ہیں اور یہ کہ شہد کی مکھی یہ سب کچھ خدا کی وحی اور الہام کے ذریعے انجام دیتی ہے۔

۴۶۶

پس معلوم ہوا ہے کہ اس آیت میں مسکر کو مباح و حلال قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں۔ اس کے علاوہ اسی آیت میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ (بفرض تسلیم سکر سے مراد نشہ آور چیز بھی ہو تو) نشہ آور چیز کو پینا جائز نہیں اس لیے کہ نشہ آور چیز کو رزق حسن کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات ہوتا ہے کہ نشہ آور چیز کا شمار رزق حسن میں نہیں ہوتا اس لیے یہ مباح بھی نہیں ہوگا۔

اہل بیت اطہار (ع) کی روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں کہ شراب نوشی کسی وقت اور زمانے میں حلال نہیں تھی۔ چنانچہ شیخ صدوق اپنی سند کے ذریعے محمد بن مسلم سے روایت کرتے ہیں:

''قال: سئل ابو عبد الله علیه السلام عن الخمر فقال: قال رسول الله ان اول ما نهانی عنه ربی عزوجل عبادة الاوثان و شرب الخمرٍ،،

''حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے شراب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا: رسول اللہ نے فرمایا: پہلی چیز جس سے اللہ نے مجِھے منع فرمایا وہ بت پرستی اور شراب نوشی ہے۔۔۔،،

نیز ریان، امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ(ع) نے فرمایا:

قال : ما بعث الله نبیّا الا بتحریم الخمر،، (۱)

''اللہ تعالٰ نے جس نبی کو بھی بھیجا اسے حرمت شراب کا حکم دے کر بھیجا۔،،

____________________

(۱)البحار، ج ۱۶، ص ۱۸۔۲۰، باب حرمۃ شرب الخمر۔ وافی، ج ۱۱، ص ۷۹ میں اس کے لیے ایک مستقل باب مخصوص کیا گیا ہے۔

۴۶۷

اعجاز کی بحث میں بھی گزر چکا ہے کہ شراب کو تورات میں بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔(۱) لیکن ایک حقیقت، جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، یہ ہے کہ اسلام نے ایک عرصہ تک حرمت شراب کا اعلان نہیں کیا اور یہ بات صرف شراب سے مختص نہیں ہے، تمام احکامات پر اسی طریقے سے عمل کیا گیا ہے، ظاہر ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ شراب پہلے حلال تھی اور بعد میں حرام قرار دی گئی۔

( الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمومنينَ ) ۲۴:۳

''زنا کرنے والا مرد تو زنا کرنے والی ہی عورت یا مشرکہ سے نکایح کرے گا اور زنیا کرنے والی عورت بھی بس زنیا کرنے والے ہی مرد یا مشرک سے نکاح کرے گی اور سچے ایمانداروں پر تو اس قسم کے تعلقات حرام ہیں۔،،

سعید بن مسیّب اور بہت سے دیگر علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ ) ۲۴:۳۲

''اوراپنی (قوم کی) بے شوہر عورتوں اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کردیا کرو۔،،

آیہ اوّل کے مطابق زانی عورت سے وہی نکاح کرسکتا ہے جو خود زانی یا مشرک ہو۔ جب کہ دوسری آیت کیمطابق مطلق بے ہمسر مسلمان سے نکاح جائز ہے چاہے وہ زانی ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ ''ایامیٰ،، (بے ہمسر) دونوں کو شامل ہے۔ اس طرح دوسری آیت پہلی آیت کے لیے ناسخ قرار پائے گی۔

لیکن حق یہی ہے کہ گذشتہ آیات کی طرح یہ آیت بھی نسخ نہیں ہوئی۔ کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو، اور کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں کہ اس آیت میں نکاح سے مراد شادی یا ازدواج ہے۔

____________________

) ۱) اسی کتاب کے صفحہ ۵۶ کی طرف رجوع فرمائیں۔

۴۶۸

اس کے علاوہ اگر اس آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ زانی مسلمان کے لیے مشرک عورت سےشادی کرنا جائز ہے۔ اسی طرح یہ بھی لازم آتا ہے کہ مسلمان زانی عورت کے لیے مشرک مرد سے شادی کرنا جائز ہے اور یہ بات ظاہر کتابِ الہی اور سیرتِ مسلمین کے خلاف ہے

بنابرایں آیت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح سے مراد مطلق ہمبستری ہے۔ چاہے جائز طریقے سے ہو یا زنا ہو۔ اس آیت میں جواز یا عدم جواز کا حکم بیان نہیں کیا جارہا بلکہ یہ ایک جملہ خبر یہ ہے۔ اس کے ذریعے حرمتِ زنا کی شدّت بیان کی جارہی ہے اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زانی مرد صرف زانی عورت یا اس سے بھی پست، مشرک عورت سے زنا کرتاہے اسی طرح زانی عورت بھی صرف کسی زانی مرد یا اس سے بھی پست مشرک مرد سے زنا کرتی ہے۔ مومن انسان کبھی بھی اس قسم کے گناہوں کا مرتکب نہیں ہوتا کیونکہ زنا ایک حرام فعل ہے اور وہ حرام فعل انجام نہیں دیتا۔

( قُل لِّلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللَّـهِ ) ۴۵:۱۴

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) مومنوں سے کہدو کہ جو لوگ خدا کے دنوں کی (جو جزا کے لیے مقرر ہیں) توقع نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں۔،،

بعض مفسرین کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اس آیت کا شان نزول یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت مکی ہے اور یہ اس وقت نازل ہوئی جب ہجرت سے قبل مکّہ میں حضرت عمر بن خطاب کو کسی مشرک نے گالی دی اور اور ان کی توہین کی اور حضرت عمر اسے سزا دینا چاہتے تھے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ ایت نازل فرمائی۔ لیکن بعد میں آیت، اس آیہ سیف کے ذریعے منسوخ ہوگئی:

( فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامّل) قتل کردو۔،،

۴۶۹

یہ حضرات اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پر اس روایت کو پیش کرتے ہیں جس کی روایت علیل بن احمد نے محمد بن ہاشم سے، اس نے عاصم بن سلیمان سے، اس نے جویبر سے اس نے ضحاک سے او ضحاک نے ابن عباس سے کی ہے۔(۱)

لیکن یہ روایت ہے بہت ضعیف ہے، اس کا سب سے معمولی اور کمزور پہلو یہ ہے کہ اس کے سلسلہئ سند میں عاصم بن سلیمان شامل ہے جو بہت بڑا جھوٹا اور جعل ساز راوی ہے۔(۲) اس کے علاوہ یہ روایت متن کے اعتبار سے

بھی کمزور اور ناقابل عمل ہے۔ کیونکہ ہجرت سے پہلے مسلمان کمزور تھے اورایسے حالات میں حضرت عمر کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس مشرک سے انتقال لیتے۔ نیز اس روایت میں لفظ ''غفران،، استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ ایسے مقام ہر استعمال کیاجاتا ہے جہاں کوئی انتقال لینے پر قادر ہو لیکن چشم پوشی اور درگزر کرے اور یہ مسلّم ہے کہ ہجرت سے قبل حضرت عمر کے لیے یہ ممکن نہ تھا۔ اس لیے کہ اگر حضرت عمر انتقام لیتے تو مشرک بھی جوابی کارروائی کرتا۔

پس حق یہی ہے کہ یہ آیت محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) آیہ شریفہ کے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کی امید نہیں رکھتے ان کی طرف سے اگر تمہیں ذاتی طور پر کوئی اذیت پہنچے اور تمہاری توہین کی جائے تو تمہیں اسے درگزرکردینا چاہیے، اس حقیقت پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے:

( لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ) ۴۵:۱۴

''تاکہ وہ لوگوں کے اعمال کا بدلہ دے۔،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۱۸

(۲) اس کے بارے میں ابن عدی کا کہنا ہے کہ یہ شخص من گھڑت احادیث وضع کرنے والوں میں سے ایک ہے، اور یہ کہ اس کی اکثر احادیث متن اور سند کے اعتبار سے متزلزل ہیں۔

۴۷۰

( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۖ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ) : ۱۵

''جو شخص نیک کام کرتا ہے تو خاص اپنے لیے اور برا کام کرے گا تو اس کا وبال اسی پر ہوگا پھر (آخر) تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹا ئے جاؤگے۔،،

پس اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو آدمی روز آخرت کا امیدوار نہیں، چاہے وہ مشرک، اہل کتاب یا مسلمان ہو، جو اپنے دین کا صحیح پابند نہی، اس کے بُرے اعمال اور زیادتیوں کی سزا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی ظالم، ظلم کرکے خدا سے بچ نہیں سکتا لہذا مسلمان اور مومن کو چاہےے کہ وہ ظالموں سے انتقام لینے میں جلد بازی نہ کرے، اس لیے کہ خدا کا انتقام، مظلوم کے انتقام سے زیادہ سخت ہے، یہ ایک اخلاقی اور تادیبی حکم ہے اور یہ دعوتِ اسلام یا کسی اور ضرورت کی خاطر کفار سے قتال و جہاد کے منافی نہیں ہے۔ اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا اس کے بعد نازل ہوئی ہو۔

( فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً ) ۴۷:۴

'' تو جب تم کافروں سے بھڑو تو (ان کی) گردنیں مارو یہاں تک کہ جب انہیں زحموں سے چور کر ڈالو تو ان کی مشکیں کس لو پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا یا معاوضہ لے کر رہا کرنا۔

علماء کی ایک جماعت کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اور بعض کا خیال ہے کہ آیہ سیف، اس آیت کے ذریعے نسخ ہوئی ہے۔(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ آیت ناسخ ہے اور نہ منسوخ۔ البتہ اس مسئلے کی تحقیق مزید تفیصل کی متقاضی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۲۰۔

۴۷۱

مسلمانوں سے برسر پیکار کفار کے احکام

شیعہ امامیہ میں یہ حکم مشہور ہے کہ مسلمانوں سے برسرپیکار کفار جب تک اسلام نہ لے آئیں، مکمل شکست سے دوچار نہ ہوجائیں اور زیادہ تعداد میں مارے جانے کی وجہ سے عاجز نہ آجائیں، وہ واجب القتل ہیں۔ صرف اسیری کی وجہ سے کافر کا قتل ساقط نہیں ہوتا۔ اگر کافر مسلمان ہوجائے تو قتل کا موضوع ہی برطرف ہوجاتا ہے کیونکہ موضوع قتل، کفر ہے۔

اسی طرح کفار کی مکمل شکست کے بعد ان کا قتل ساقط ہوجاتا ہے۔ کیونکہ آیت میں اس موقت تک کفار کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک انہیں شکست نہ ہوجائے البتہ قتل کے ساقط ہو نے کے بعد حاکم شرع کو اختیار ہے کہ چاہے تو پکڑے جانے والے کافروں کو اسیر بنائے یا ان سے فدیہ و تاوان وصول کرے یا ان پر احسان کرتے ہوئے انہیں بلاعوض آزاد کردے اس حکم میں بت پرست ،مشرک اور اہل کتاب شریک ہیں۔

ان احکام پر علماء کے اجماع و اتفاق کا دعویٰ کیا گیا ہے اور بہت شاذ و نادر افراد نے ان احکام کی مخالفت کی ہے ار ان کی رائے بھی قابل توجہ نہیں۔ چناچنہ آئندہ بحثوں میں اس کی مزید وضاحت آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

اگر ''شد الوثاق،، سے مراد غلام بنانا ہو تو آیہ کریمہ کے ظہور سے بھی یہی احکام سمجھے جاتے ہیں، جن کا ذکر کیا گیا ہے '' شد الوثاق،، سے غلام بنانے کا معنی اس لیے سمجھا گیا ہے کہ ''شدّ الوثاق،، کا معنی ہے: کسی کی آزادی کا سلب کرنا، جب تک اسے بلاعوض یا عوض لے کر آزاد نہ کیا جائے اور یہ معنی غلام بنانے سے زیادہ سازگار ہے۔

اگر ''شدّ الوثاق،، کا معنی غلام بنانا نہ ہو پھر بھی کافر سے فدیہ لینے اور اس پر احسان کرتے ہوئے اسے ازاد کرنے کے ساتھ، اسے غلام بنانے کا بھی حکم موجود ہے، کیونکہ دلیل سے ثابت ہے کہ کافر کو غلام بناناجائز ہے۔ اس دلیل کے ذریعے آیت کے اطلاق کی تقیید ہوگی۔

۴۷۲

مذکورہ احکام اس روایت میں موجود ہیں جسے کلینی اور شیخ طوسی نے طلحہ بن زید سے اور اس نے حضرت ابو عبد اللہ الصادق (علیہ السلام) سے روایت کی ہے: امام (ع) فرماتے ہیں:

''میرے والد گرامی فرماتے تھے: جنگ کے دو حکم ہیں: ایک یہ کہ اگر کفار کے ساتھ جنگ جاری ہو اور ابھی کفار کو شکست نہ ہوئی تو کافر قیدیوں کے بارے میں امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو انہیں قتل کردے اور چاہے تو ان کا بایاں پاؤں کاٹے اور اسے بدن سے جدا نہ کرے تاکہ ان کا خون نکلتا رہے اور اس طرح وہ مرجائیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۵:۳۳

'' جو لوگ خدا اور اس کے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے لڑتے بھڑتے اور (احکام کو نہیں مانتے) اور فساد پھیلانے کی غرض سے ملکوں (ملکوں) دوڑتے پھرتے ہیں ان کی سزا بس یہی ہے کہ (چن چن کر) یا تو مار ڈالے جائیں یا انہیں سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں ہیر پھیر کے (ایک طرف کا ہاتھ، دوسری طرف کا پاؤں) کاٹ ڈالے جائیں، یا انہیں اپنے وطن کی سرزمین سے شہر بدر کردیا جائے، یہ رسوائی تو ان کی دنیا میں ہوئی اور پر آخرت میں تو ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہی ہے۔،،

اس کے بعد امام (ع) نے فرمایا:

''کیا تم دیکھتے نہیں اللہ تعالیٰ نے صرف کفر کی صورت میں امام (ع) کو یہ اختیار دیا ہے، ہر مقام پر نہیں طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے امام (ع) سے عرض کیا: آیہ کریمہ :''او ینفوا من الارض،، کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کفار کو منتشر کردیں اور انہیں بھگا دیں اور اگر مسلمان کفار کا تعاقب کریں اور انہیں گرفتار کرلیں تو ان پر وہ احکام لاگو ہوں گے۔

۴۷۳

دوسرا یہ کہ جب کفار سے جنگ بند ہوجائے اور انہیں شکست دے دی جائے، اس وقت جو بھی قیدی بنایا جائے اور وہ مسلمانوں کے قبضے میں ہو، اس کے لیے امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو اس پر احسان کرے اور اسے آزاد کر دے، چاہے تو اس سے فدیہ و تاوان وصول کرے اور اگر چاہے تو اسے غلام بنالے۔،،(۱)

کفار کی شکست کے بعد ان سے قتل کے ساقط ہونے پر ضحاک اور عطاء بھی ہم سے متفق ہےں اور حسن نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے کہ اس صورت میں امام (ع) کو آزاد کرنے، فدیہ لینے اور غلام بنانے میں اختیارحاصل ہے۔(۲)

گذشتہ بیانات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ زیر بحث آیہ کریمہ نسخ نہیں ہوئی یہ اور بات ہے کہ بعض مقامات سے قتل مختص ہے اور بعض مقامات پر عدم قتل۔ اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیہ سیف زیر بحث آیت سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔

مقام تعجب ہے کہ شیخ طوسی نے اس مسئلے میں علمائے امامیہ کی طرف اس قول کی نسبت دی ہے کہ جنگ بندی کے بعد اسیر کے بارے میں امام کو اسیر کے قتل، آزاد کرنے، اس سے تاوان وصول کرنے اور اسے غلام بنانے میں اختیار حاصل ہے۔ چنانچ شیخ طوسی فرماتے ہیں:

''ہمارے اصحاب نے یہ روایت کی ہے کہ اگر جنگ بندی سے پہلے کسی قیدی کو گرفتار کیا جائے تو امام کو اختیار ہے کہ چاہے اس قتل کردے، چاہے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے اور اس طرح چھوڑ دے کہ وہ مرجائے۔ وہ اسے بلاعوض آزاد نہیں کرسکتا اور نہ اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرسکتا ہے اور اگر جنگ بندی کے بعد کسی کافر کو قیدی بنایا جائے تو امام کو اسے بلاعوض آزاد کرنے، تاوان مالی یا جانی لے کر آزاد کرنے، غلام بنانے اور قت کرنے میں اختیار ہے۔،،

____________________

(۱) الوافی، ج ۹، ص۲۳

(۲) قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷، الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱۔

۴۷۴

طبرسی نے اپنی تفسیر میں بھی شیخ طوسی کی متابعت کی ہے۔(۱) جبکہ اس مضمون کی کوئی روایت وارد نہیں ہوئی، بلکہ خود شیخ طوسی اپنی کتاب ''مبسوط،،(۲) میں اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ جو قیدی جنگ بندی کے بعد گرفتار کیا جائے اس کے بارے میں امام کو اختیار ہے کہ اس پر احسان کرکے اسے بلا عوض آزاد کردے یا اسے غلام بنائے اور یا اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرے۔ اسے قتل نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ ہمارے علماء کی روایات بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہیں۔

بلکہ چیخ طوسی نے اپنی کتاب ''خلاف،، کے باب ''فئی، اور ''غنائم،، میں اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے جن حضرات نے اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے ان میں علاّمہ مرحوم بھی ہیں انہوں نے اپنی دونوں کتابوں ''المنتہیٰ،، اور ''التذکرہ،، کے باب جہاد میں، اسیروں کے احکام میں اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

میرے خیال میں شیخ طوسی کی کتاب ''التبیان،، میں لفظ ''ضرب الرقاب،، (اسیروں کو قتل کرنا) لغزشِ قلم کا نتیجہ ہوگا اور مرحوم طبرسی نے بغیر کسی تحقیق کے اس بات کو لے لیا ہے۔

یہاں تک اس مسئلے میں علمائے شیعہ امامیہ، ضحاک، عطاء اورحسن کے نظریات بیان کیے گئے۔

آیت کے بارے میں بعض دیگر عقائد

اس مسئلے میں باقی علمائے اہل سنت کے مختلف اقوال نظر آتے ہیں:

۱۔ یہ آیت مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ پھر یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی۔ یہ قول قتادہ، ضحاک، سدی، ابن جریح، ابن عباس اور بہت سے کوفی علماء کی طرف منسوب ہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ مشرک قیدی کو قتل کرنا واجب ہے اسے بلا عوض یا تاوان وصول کرکے آزاد کرنا جائز نہیں۔(۳)

____________________

(۱) التبیان، ج ۹، ص ۲۹۱، طبع نجف۔

(۲) المبسوط، کتاب الجہاد، فصل فی اضاف الکفار و کیفیۃ قتالہم۔

(۳) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۵

جواب: اس قول کے رو سے آیت کے نسخ کی کو ئی وجہ او جواز نہیں بنتا۔ کیونکہ یہ آیت مقید ہے اور آیہ سیف مطلق ہے، چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔ اس سے پہلے ہم اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ عامِ مؤخر خاصِ مقدم کا ناسخ نہیں بن سکتا تو مطلق متاخر مقید مقدم کے لیے بطریقِ اولیٰ ناسخ نہیں بن سکتا۔(۱)

۲۔ یہ عام کفار کے بارے میں نازل ہوئی لیکن صرف مشرکین کے سلسلے میں نسخ ہوگئی ہے۔ یہ قول قتادہ، مجاہد اور حکم کی طرف منسوبگ ہے۔ مذہب ابو حنیفہ میں بھی قول مشہور ہے۔(۲)

جواب: پہلے کی طرح یہ قول بھی باطل ہے۔ کیونکہ یہ قول اس صورت میں صحیح ہوسکتا ہے جب آیہ سیف، زیرِ بحث آیت کے بعد نازل ہوئی ہو اور نسخ کے قائل حضرات یہ بات ثابت نہیں کرسکتے یہ حضرات اپنے مدعیٰ کے اثبات کے لیے صرف خبر واحد سے تمسک کرسکتے ہیں او علماء کا اجماع ہے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوسکتا۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت ہو جاتا ہے پھر بھی آیہ سیف کے ناسخ ہونے کی دلیل نہیں بنتی تاکہ یہ قول ثابت ہو۔ بلکہ ثابت یہ ہوگا کہ زیر بحث آیت، آیہ سیف کے لیے مقید ہو۔ اس لیے کہ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت مشرکین کو بھی شامل ہے یا اس سے صرف مشرکین ہی مراد ہیں۔ بنابرایں یہ آیت، آیہ سیف کے لیے ایک قرینہ ہوگی کیونکہ مطلق مقید کے لیے ناسخ نہیں بن سکتا۔

اگر ان تمام باتوں سے چشم پوشی بھی کی جائے تو یہ مسلّم ہے کہ زیربحث آیت اور آیہ سیف میں عموم اور حصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے۔ یعنی کہیں تو مشرک ہے لیکن جنگ بندی کے بعد قیدی نہیں۔ یہاں مشرک کے لیے حکم قتل ہی ثابت ہوگا اور کہیں جنگ بندی کے بعد قیدی ہوگا مشرک نہیں۔ یہاں اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔

____________________

(۱) ہم نے اپنی کتاب ''اجود التقریرات،، کی عموم و خصوص کی بحث میں اس مسئلے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۶

ایک مقام وہ ہوسکتا ہے جہاں کافر، مشرک ہو اور جنگ بندی کے بعد اسے اسیر بنالیا جائے۔ یہاں دو مختلف احکام میں ٹکراؤ ہوگا۔ ظاہرہے اس صورت میں دونوں آیتیں ایک دوسرے کے لیے ناسخ نہیں ہونگی بلکہ اس آیت کے مضمون پر عمل ہوگا جس کی تائید کوئی دوسری دلیل کرے۔

۳۔ زیر بحث آیت، آیہ سیف کی ناسخ ہے یہ قول ضحاک وغیرہ کی طرف منسوب ہے۔(۱)

جواب: یہ قول اس صورت میں صحیح ہوگا جب اس آیت کا آیہ سیف کے بعد نازل ہونا ثابت ہو۔ اس کو ضحاک وغیرہ ثابت نہیں کرسکتے۔اس کے علاوہ اس سے قبل اس امر کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے مقدم ہو یا مؤخر، اس کے نسخ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

۴۔ ہر حالت میں قتل کرنے، غلام بنانے، فدیہ لے کر آزاد کرنے اور بلا عوض آزاد کرنے کا اختیار امام کو حاصل ہے۔ اس قول کو ابو طلحہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے جسے بہت سے علمائے کرام نے اپنایا ہے۔ ان میں ابن عمر، حسن اور عطاء شامل ہیں۔ مالک، شافعی، ثوری، اوزاعی اور ابی عبید وغیرہ کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ اس قول کے مطابق آیہ کریمہ میں کسی قسم کا نسخ نہیں ہوا۔(۲) نحاس اس قول کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:

''یہ قول اس بنیاد پر قائم ہے کہ دونوں آیتیں، آیہ سیف اور آیہ عفو، محکم ہیں (نسخ نہیں ہوئیں) اور دونوں کے ظاہر پر عمل کیا گیا ہے۔ یہ قول بالکل صحیح ہے کیونکہ نسخ کے لیے کسی قطعی اور مسلّم دلیل کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں پر دونوں آیتوں پر عمل کرنا ممکن ہے وہاں نسخ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ قول اہل مدینہ، شافعی اور ابو عبید سے منقول ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۸

(۳) الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱

۴۷۷

جواب: اگرچہ اس قول سے آیہ شریفہ کا نسخ ہونا لاز م نہیں آتا لیکن پھر بھی یہ باطل ہے کیونکہ آیت میں اس امر کی تصریح ہے کہ کفار کی شکست اور جنگ بندی کے بعد ہی ان قیدیوں کو بلا عوض یا عوض لیکر آزاد کیا جاسکتا ہے۔ بنابریں کفار کی شکست سے پہلے بلاعوض یا عوض لے کر اسیروں کی آزادی کا قائل ہونا سراسر قرآن کی خلاف ورزی ہے۔

اسی طرح آیہ کی رو سے قتل کی اس وقت تک اجازت ہے جب تک کفار کو شکست نہیں ہوتی۔ لیکن کفار کی شکست کے بعد بھی ان کے قتل کا قائل ہونا، خلاف قرآن ہے۔

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ اس آیت کے ذریعے آیہ سیف کی تقیید کی گئی ہے۔

اس قول کی دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے بعض قیدیوں کو قتل کیا، بعض کو ان پر احسان کرتے ہوئے آزاد کردیا اوربعض سے فدیہ و تاوان لے کر ان کو آزاد کردیا تھا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ بفرض تسلیم اگر یہ روایت صحیح ہو پھر بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قتل کرنے، فدیہ لینے اور بلاعوض آزاد کرنے میں امام کو اختیار حاصل ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اسیر کو جنگ بندی اور کفار کی شکست سے پہلے قتل کیا ہو۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے کفار کی شکست کے بعد اسیروں کو ان سے فدیہ لے کر اور بغیر فدیہ کے آزادکیا ہو۔

ممکن ہے یہ حضرات (جو ہر حالت میں قتل اور آزاد کرنے میں اختیار کے قائل ہیں) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے عمل سے استدلال کریں جس کے مطابق انہوں نے اسیروںکو قتل کیا تھا۔

۴۷۸

اس کا جواب یہ ہے کہ اوّلاً یہ واقعہ تاریخی اعتبار سے ثابت نہیں ہے بفرض تسلیم اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہو پھر بھی مدعیٰ ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا عمل حجیّت نہیں رکھتا تاکہ اس کی بنیاد پر ظاہر قرآن سے دست بردار ہوا جائے۔

۳۳۔( وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۵۱:۱۹

''اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حصّہ تھا۔،،

۳۴۔( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ۷۰:۲۴

( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) : ۲۵

''اور جن کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کے لیے ایک مقرر حصّہ ہے۔،،

ان دونوں آیات کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ نسخ ہوئی ہےں؟ کیونکہ ان آیات میں جس معلوم اور آشکار حق کا ذکر کیا گیا ہے ممکن ہے اس سے مراد واجب زکوٰۃ ہو جو ایک واجب حق ہے۔ ممکن ہے اس سے مراد کوئی اور م الی حق ہو جو واجب ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد ایک مالی حق ہو جو مستحب ہو۔

اگر اس حق سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا واجب حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں نسخ ہوں گی اس لیے کہ واجب زکوٰۃ کی وجہ سے قرآن میں موجود تمام دوسرے واجب صدقات نسخ ہوگئے ہیں۔ چنانچہ اس احتمال کو علماء کی ایک جماعت نے اختیار کیا ہے۔ اگر اس حق سے مردا واجب زکوٰۃ یا کوئی دوسرا مالی حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں محکم ہوں گی۔

تحقیق اس امر کی متقاضی ہے کہ ان دونوں آیتوں میں حق سے مراد واجب زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا حق ہے جس کی ادائیگی کی شارع نے ترغیب دی ہے۔ شیعہ اور اہل سنت کی بہت سی روایات اس بات کی دلیل ہیں کہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور صدقہ واجب نہیں ہے اور اہل بیت اطہار (ع) کی روایات میںیہ بیان موجود ہے کہ اس حق سے کیا مراد ہے۔

۴۷۹

شیخ کلینی نے ابو بصیر سے روایت کی ہے ابو بصیر کہتے ہیں:

''ہم امام صادقؑ کی خدمت میں بیٹھے تھے، ہمارے ساتھ کچھ دولت مند افراد بھی تھے انہوں زکوٰۃ کا ذکر کیا تو امام(ع) نے فرمایا: زکوٰۃ کوئی ایسی چیز نہیں کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے تعریف کی جائے۔

یہ تو ایک ظاہر ہے اور مسلّم چیز ہے اسی کی وجہ سے تو مسلمانوں کے خون کو تحفظ ملا ہے اور اسی کی بدولت انسان مسلمان کہلانے کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اگر مسلمان زکوٰۃ ادا نہ کرے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ یہ دیکھو کہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی تمہارے اموال میں لوگوں کے کچھ حقوق ہیں۔ میں (ابو بصیر) نے عرض کیا: مولا! زکوٰۃ کے علاوہ ہمارے اموال میں اور کون سے حقوق موجود ہیں؟ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا: :( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۔ میں نے عرض کی: آحر وہ کون سا حق ہے۔ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! یہ وہی حق ہے جس کی طرف ہر شخص متوجہ ہے۔ اسے چاہیے کہ ہر روز یا جمعہ میںیا مہینے میں ایک مرتبہ کچھ نہ کچھ دیتا رہے۔،،

نیز کلینی نے اپنی سندسے اسماعیل بن جابر سے اور انہوں نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے:

''آپ سے آیہ کریمہ:( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا یہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی حق ہے؟ آپ نے فرمایا: اس حق کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو خدا مال و دولت دے اسے چاہیے کہ اس میں سے ایک ہزار، دو ہزار یا تین ہزار الگ کرلے اور اس کے ذریعے صلہ رحمی کرے اور قریبی رشتہ داروں کی مشکلات کو حل کرے۔،،

ان کے علاوہ بھی امام باقر اور امام صادق (علیھما السلام) سے اس مضمون کی روایات منقول ہیں۔(۱)

____________________

(۱) الوافی باب الحق المعلوم، ج ۶، ص ۵۲

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689