البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن0%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی رح
زمرہ جات:

صفحے: 689
مشاہدے: 302519
ڈاؤنلوڈ: 8562

تبصرے:

البیان فی تفسیر القرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 302519 / ڈاؤنلوڈ: 8562
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

گذشتہ مباحث میں ہم ثابت کرچکے ہیں کہ قرآن کریم انبیاء(ع) کے معجزات میں سے سے بڑا معجزہ ہے اور رسول اسلامؐ نے بلا استثناء تمام اقوام کو اس کی نظیر لانے کا چیلنج کیا تھا۔ آپ(ص) نے اسی سے اپنی نبوّت ثابت کی اور یہ چیلنج قیامت تک کے لیے ہے۔ یہ دلیل بھی ثابت کرتی ہے کہ اس آیہ میں نشانیوں کی جو نفی کی گئی ہے وہ تمام معجزات و نشانیوں کے لیے نہیں ہے بلکہ کچھ خاص نشانیوں اور معجزات کے لیے ہے۔

۳۔ آیہ کریمہ واضح طور پر اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اقوام کا ان معجزات کو جھٹلانا معجزات بھیجنے میں رکاوٹ بنتا رہا ہے اور یہ اس کی مصداق ہے کہ کوئی شے اس لیے معدوم ہے اور وجود پذیر نہیں ہوئی کہ اس میں کوئی نہ کوئی مانع موجود ہے۔

ظاہر ہے کہ کسی چیز کے وجود میں کوئی شئے اس وقت مانع ہوسکتی ہے۔ جب اس شے کے وجودکا مقتضی موجود ہو۔ یعنی اگر کسی شئے کا وجود کا مقتضی موجود ہو لیکن مانع کی وجہ سے وہ وجودمیں نہ آسکے تو یہ کہنا درست ہے کہ فلاں چیز اس لیے وجود میں نہیں آئی کہ اس میں مانع موجود تھا۔ گویا کہ مقتضی تو تھا لیکن مانع موجود ہونے کی وجہ سے وجود پذیر نہیں ہوئی اور اگر کسی چیز کا متقضی سرے سے موجدو نہ ہو تو اس کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں ہے کہ مانع موجود ہونے کی وجہ سے فلاںچیز وجود ہی میں نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص لکڑی نہ جلنے کی علت اس کا مرطوب ہونا قرار دے جبکہ جلانے والی آگ ہی موجود نہ ہوتو عقلاء اسے نامعقول سمجھیں گے اور یہ ایسی حقیقت ہے جس میں کسی کے لیے تردد کی گنجائش نہیں ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ معجزات بھیجنے کا مقتضی موجود تھا ورنہ تکذیب کومعجزات نہ بھیجنے کی وجہ قرار نہ دیا جاتا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معجزات بھیجنے کا مقتضی کیا ہے؟ اس میں چند احتمالات ہوسکتے ہںی:

۱۴۱

معجزات بھیجنے کا مقتضی انسانوں کو ہدایت اور رہنمائی ہو یا تمام حجت کے لیے جتنے معجزات کی ضرورت تھی، ان سے زاید کی فرمائش کیا جانا ہو، اگر مقتضی حکمت الہٰی ہوتا تو خاد کی طرف سے ان آیات کا بھیجا جانا ضروری ہوجاتا اور یہ ناممکن ہے کہ کوئی بھی چیز حکمت الہی میں مانع بن سکے۔ کیونکہ چاہے معجزات کی تکذیب کی جائے یا نہ کی جائے خدا کے لیے یہ امر محال ہے کہ وہ حکمت کے منافی کوئی کام انجام دے۔

اسکے علاوہ اگر گذشتہ اقوام کا تکذیب کرنا معجزات میں مانع تھا تو اسے بعثت انبیاء میں بھی مانع بننا چاہےے تھا اور یہ یقیناً باطل اور خلاف فرض ہے۔

پس معلوم ہوا کہ نشانیاں بھیجے جانے کا مقتضی، لوگوں کی تجاویز اور فرمائش کرنا تھا اور یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ یہ لوگ ایسی نشانیوں کی فرمائش کرتے تھے جو امتام حجت کے لیے لازمی معجزات سے زاید تھیں۔ اس لیے کہ اپنے نبی کو نبوت ثابت کرنے کے لئے اتمام حجت کے طور پر ضروری نشانیوں کا بھیجنا خداپر لازم تھا۔ البتہ ضرورت سے زاید نشانیوں کا بھیجنا ابتدائی طور پر ضروری ہے اور نہ منکرین کی خواہش کی خاطر۔ ہاں! اگر مصلحت کا یہ تقاضا ہو کہ دوبارہ یا سہ بارہ حجت قائم کی جائے یا لوگوں کی فرمائش پوری کی جائے تو یہ خدا کے لیے ناممکن ہے۔

بنابراین منکرین رسالت اتمام حجت کے لیے ضروری نشانیوں کے بھیجے جانے اور ان کی تکذیب کے بعد مزید نشانیوں کی فرمائش کر رہ تھے اور گذشتہ اقوام کا تکذیب کرنا فرمائشی نشانیاں بھیجے جانے میں اس لئے مانع بنا کہ ان آیات و نشانیوں کی تکذیب کے نتیجے میں ان پر عذاب نازل ہوتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے یہ ضمانت دی ہے کہ رسول اعظمؐ کے احترام و تعظیم میں اس امت پر دنیاوی عذاب نازل نہیں ہوگا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

۱۴۲

( وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ ) ۸:۳۳

''حالانکہ جب تک تم ان کے درمیان موجود ہو، خدا ان پر عذاب نہیں کرے گا۔،،

مطالبہ شدہ آیات کی تکذیب اس لیے باعث عذاب بنتی ہے کہ اگر کوئی آسمانی معجزہ ابتدائی ہو تو اس کا مقصود صرف نبوّت کا اثبات ہوتا ہے اور اس کی تکذیب کا وہی گنا ہ و عقاب ہوگا جو نبی کو جھٹلانے کا ہوتا ہے۔

لیکن اگر یہ معجزہ الہٰی مکذبین کی فرمائش پرنازل ہو تو اس سے مکذّب کی ضد اور لیچڑ پن کی عکاسی ہوتی ہے جو اس کے تعصب اور دشمنی پر دلالت کرتی ہے اس لیے کہ اگر یہ حق کے متلاشی ہوتے ہو تو پہلی آیت ہی ان کے لیے کافی ہونی چاہیے تھی اور ان کے سامنے حق ثابت ہوجاناچاہتے تھا۔

اس کے علاوہ دوبارہ معجزہ پیش کئے جانے کے مطالبے کامقصد یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے آپ کو اس بات کا پابند کرلیا ہے کہ اگر نبی اس کے اس مطالبہ کو پوار کردے تو وہ ضرور اس کی نبوت کی گواہی دے گا اور اس پر ایمان لے آئے گا۔ اب اگر وہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی اس کی تکذیب کرے تو یہ اس نبی، اس فرمائشی معجزے اور اس حق کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اس کی نبی دعوت دے رہا ہے، اسی لئے اس قسم کے معجزات کو ''آیات تخویف،، کہا جاتا ہے۔ جس طرح اس آیہ کریمہ کے آخر میں ہے۔ ورنہ تمام کی تمام نشانیاں ڈرانے دھمکانے کے لئے نازل نہیں کی گئیں۔ اس لیے کہ بعض معجزات ایسے ہیں جو لوگوں کے لیے باعث رحمت و ہدایت ہیں۔

۱۴۳

ان آیات کے شان نزول اور سیاق و سباق سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ ان سے مراد ''آیات تخویف،، ہیں کیونکہ اس سے پہلے کہ آیہ میں ارشاد اللہ تعالیٰ ہے:

( وَإِن مِّن قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا ) ۱۷:۵۸

''اور کوئی بستی ایسی نہیں ہے مگر روز قیامت سے پہلے ہم اسے تباہ و برباد کرچھوڑیں گے (نافرمانی کی سزا میں) اس پر سخت سے سخت عذاب کریں گے (اور) یہ بات کتاب (لوح محفوظ) میں لکھی جاچکی ہے۔،،

اس آیہ کریمہ میں، جسے مخالفین نے اپنے مدعا کے ثبوت میں پیش کیا ہے، قوم ثمود کی طرف بھیجی گئی نشانی کا ذکر ہے جس کی تکذیب کے بعد ان پر عذاب نازل ہوا یہ واقعہ ''سورہ شعرائ،، میں موجود ہے، چنانچہ اس آیہ کریمہ کا اختتام اس آیہ سے ہوتا ہے:

( وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ) ۱۷:۵۹

''اور ہم تو معجزے صرف ڈرانے کی غرض سے بھیجا کرتے ہیں۔،،

یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ اس آیہ میں جن معجزات کی نفی کی گئی ہے ان سے مراد وہ معجزات ہیں جن کی درخواست مخالفین کیا کرتے تھے اور ان کے بھیجے جانے کے بعد ان پر عذاب نازل ہوتا تھا۔

جب ہم قرآنی آیات کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ مشرکین نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے اپنے اوپر عذاب نازل کیے جانے کا مطالبہ کیا کرتے تھے یا وہ ایسے معجزات دیکھنے کی خواہش کرتے جن کی تکذیب سے گذشتہ اقوام پر عذاب نازل کیا گیا تھا۔

۱۴۴

ان آیات میں عذاب نازل کرنے کے مطالبہ کا ذکر ہے:

چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( وَإِذْ قَالُوا اللَّـهُمَّ إِن كَانَ هَـٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ) ۸:۳۲

''اور(اے رسول) وہ وقت یا دکرو جب ان کافروں نے دعائیں کی کہ خداوند اگر (یہ دین اسلام) حق ہے اور تیرے پاس سے (آیا) ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر کوئی اور درد ناک عذاب نازل فرما۔

( وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّـهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ) :۳۳

''حالانکہ جب تک تم ان کے درمیان موجود ہو خدا ان پر عذاب نہیںکرے گا اور اللہ ایسا بھی نہیں کہ لوگ تو اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے ہیں اور خدا ان پر عذاب نازل فرمائے۔

( قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُهُ بَيَاتًا أَوْ نَهَارًا مَّاذَا يَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُونَ ) ۱۰:۵۰

''(اے رسوال) تم کہہ دو کہ تم سمجھتے ہو کہ اگر اس کا عذاب تم پر رات کو یا دن کو آجائے تو (تم کیا کرو گے) پھر گناہ گار لوگ (آخر) کا ہے کو جلدی کر پھر گناہگار لوگوں کو آخر کاہے کی جدلی ہے۔،،

( وَلَئِنْ أَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِلَىٰ أُمَّةٍ مَّعْدُودَةٍ لَّيَقُولُنَّ مَا يَحْبِسُهُ ۗ ) ۱۱:۸

''اور اگر ہم گنتی کے چند دن ان پر عذاب کرنے میں دیر بھی کریں تو یہ لوگ (اپنی شرارت سے) بے تامل ضرور کہنے لگیں گے کہ (ہائیں) عذاب کوکون سی چیز روک رہی ہے۔،،

( وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ ۚ وَلَوْلَا أَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَيَأْتِيَنَّهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ) ۲۹:۵۳

''اور (اے رسول) تم سے لوگ عذاب کے نازل ہونے کی جلدی کرتے ہیں اور اگر (عذاب کا) وقت معین نہ ہو تو یقیناً ان کے پاس اب تک عذاب آجاتا، اور (آخر ایک دن) ان پر اچانک ضرور آپڑے گا اور ان کو خبر بھی نہ ہوگی۔،،

۱۴۵

اور ان آیات میں ایسے معجزات کا ذکر ہے جن کی تکذیب کی وجہ سے گذشتہ اقوام پر عذاب نازل کیا گیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّـهِ ۘ اللَّـهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ۗ سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِندَ اللَّـهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ ) ۶:۱۲۴

''اور جب ان کے پاس کوئی نشانی (نبی کی تصدیق کے لیے) آتی ہے تو کہتے ہیں جب تک ہم کو خود ویسی چیز (وحی وغیرہ) نہ دی جاے گی جو پیغمبران خدا کو دی گئی ہے اس وقت تک ہم ایمان نہ لائےں گے اور خدا جہاں (جس دل میں) اپنی پیغمبری قرار دیتا ہے اس کی (قابلیت و صلاحیت) کو خوب جانتا ہے جو لوگ (اس جرم کے) مجرم ہیں ان کو عنقریب ان کی مکاّری کی سزا میں خدا کے ہاں بڑی ذلّت اور سخت عذاب ہوگا۔،،

( فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ ) ۲۱:۵

''(اور اگر حقیقتاً رسول ہے) تو جس طرح اگلے پیغمبر بھیجے گئے تھے اسی طرح یہ بھی کوئی معجزہ (جیسا ہم کہےں) ہمارے پاس بھلا لائے تو سہی۔،،

( فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا لَوْلَا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ مُوسَىٰ ۚ أَوَلَمْ يَكْفُرُوا بِمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ ۖ قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاهَرَا وَقَالُوا إِنَّا بِكُلٍّ كَافِرُونَ ) ۲۸:۴۸

''پھر جب ہماری بارگاہ سے (دین) حق ان کے پاس پہنچا تو کہنے لگے جیسے (معجزے) موسیٰ کو عطا ہوئے تھے ویسے ہی اس رسول (محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) کوکیوں نہیں دیئے گئے کیا جومعجزے اس سے پہلے موسیٰ کو عطا ہوئے تھے ان سے ان لوگوں نے انکار نہ کیا تھا، کفار تو یہ بھی کہہ گزرے کہ یہ دونوں کے دونوں (توریت و قرآن) جادو ہیں کہ باہم ایک دوسرے کے مددگار ہوگئے ہیں اور یہ بھی کہہ چکے کہ ہم سب کے منکر ہیں۔،،

۱۴۶

ذیل کی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہی ںکہ منکرین اپنی فرمائش پر نامل کردہ معجزات کی تکذیب کی بناء پر عذاب کے مستحق قرار پائے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے:

( قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَأَتَى اللَّـهُ بُنْيَانَهُم مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِن فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ ) ۱۶:۲۶

''بیشک جو لوگ ان سے پہلے تھے انہو ںنے بھی مکاریاں کی تھیں تو خدا (کا حکم) ان (کے خیالات کی) عمارت کی جڑ بنیاد کی طرف سے آپڑا (بس پھر کیا تھا) ا س(خیالی عمارت) کی چھت ان پر / ان کے اوپردھم سے گر پڑی (اور سب خیالات ہوا ہوگئے) اور جدہر سے ان پر عذاب آپہنچا اس کی ان کو خبر تک نہ تھی۔،،

( كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ ) ۳۹:۲۵

''جو لوگ ان سے پہلے گزرگئے انہوں نے بھی (پیغمبروں کو) جھٹلای تو ان پر عذاب اس طرح آپہنچا کہ انہیں خبر بھی نہ ہوئی۔،،

قرآن کریم کی بہت سی آیات میں بھی اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ یہ لوگ ایسے معجزات کا مطالبہ کررہے تھے جن کی تکذیب کے نتیجہ میں ان پر عذاب نازل ہوتا اور اس آیہ کریمہ کی تفسیر میں شیعہ و سنی سلسلہئ سند کی ایسی روایات موجود ہیں جن سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔

۱۴۷

چنانچہ امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

''أن محمداً ۔۔۔ص ۔۔۔سأله قومه أن یأتی بآیة فنزل جبریل و قال : ان الله یقول: و ما منعنا أنرسل بالآیات الا ان کذب بها الأولون ۔و کنا اذا أرسلنا الی قریش آیة فلم یؤمنوا بها أهلکناهم، وفلذلک أخرنا عن قومک الآیات ۔،، (۱)

''جب پیغمبراکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے آپ(ص) کی قوم نے اپنی نبوّت کے ثبوت میں کوئی معجزہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا تو جناب جبرئیل نازل ہوئے اور انہوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ہم نے ان لوگوں کی طرف معجزات اس لیے نہیں بھیجے کہ گذشتہ قوموں نے اس قسم کے معجزات کی تکذیب کی تھی اور اگر ہم قریش کی طرف کوئی معجزہ بھیجیں اور وہ اس پر ایمان نہ لائیں تو گذشتہ اقوام کی طرف ہم ان کو بھی ہلاک کردیں گے اسی لیے ہم نے آپ کی قوم میں معجزات بھیجنے میں تاخیر کی ہے۔،،

ابن عباس سے روایت ہے:

''سأل أهل مکة النبی أن یجعل لهم الصفا ذهباً، و أن ینجی عنهم الجبال فیزرعوا ۔فقیل له: ان شئت أن نستأنی بهم لعلنا نجتی منهم ، و ان شئت أن نؤتیهم الذی سألوا، فان کفروا اهلکوا کما اهلک من قبلهم ۔قال: بل تستأنی بهم فأنزل الله تعالی: و ما منعنا أن نرسل بالآیات ،، (۲)

''اہل مکّہ نے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے مطالبہ کیا کہ آپ(ص) کوہ صفا کو سونے میں تبدیل کریں اور مکّہ کے اردگرد موجود پہاڑوں کو ہٹا دیں تاکہ ہم اس میں کھیتی باڑی کرسکیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغبرؐ کو کہلوایا کہ اگر آپ(ص) چاہیں تو ان پر نشانیاں بھیجنے میں تاخیر کی جائے کہ شاید ان میں سے کوئی مومن مل جائے اور اگر آپ کہیں تو ان کا مطالبہ پورا کردیا جائے اور اپنی نشانیاں نازل کردی جائیں۔ لیکن اگر انہوں نے ان معجزات کی تکذیب کی تو یہ ہلاک کردیئے جائیں گے۔ جس طرح گذشتہ اقوام کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: پالنے والے! تو انہیں مہلت دے شاید یہ سنبھل جائیں اور ایمان لے آئیں۔ اس موقع پر یہ آیت اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائیں:و ما منعنا ان نرسل بالآیات،،

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱۵، ص ۷۴۔

۱۴۸

اس سلسلے کی روایات اور بھی ہیں جو ان سے مطلع ہونا چاہیں تو کتب روایات اور تفسیر طبری کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

منجملہ ان آیات کے جن سے مخالفین، قرآن کے علاوہ باقی معجزات کی نفی پر استدلال کرتے ہیں، یہ آیات کریمہ ہیں:

( وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا ) ۱۷:۹

''اور (اے رسول) کفار مکّہ نے تم سے کہا کہ جب تک تم ہمارے واسطے زمین سے چشمہ (نہ) بہالوگے ، ہم تم پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔،،

( أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا ) ۱۷:۹۱

''یا (یہ نہیں تو)کھجوروں اور انگوروں کا تمہارا کوئی باغ ہو اس میں تم بیچ بیچ میں نہریں جاری کرکے دکھا دو جیسا تم گمان رکھتے تھے۔،،

( أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّـهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا ) :۹۲

''ہم پر آسمان ہی کے ٹکڑے (ٹکڑے) کرکے گراؤ یا خدا اور فرشتوں کو (اپنے قول کی تصدیق میں ہمارے سامنے) گواہی میں لا کھڑا کرو۔،،

( أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَىٰ فِي السَّمَاءِ وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّىٰ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَّقْرَؤُهُ ۗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا ) :۹۳

''یا تمہارے (رہنے کے) لئے کوئی طلائی محل سرا ہو یا تم آسمان پر چڑھ جاؤ اور جب تک تم ہم پر (خدا کے ہاں سے ایک) کتاب نہ نازل کرو گے کہ اس خود پڑھ بھی لیں اس وقت تک ہم تمہارے آسمان پر چڑھنے کے بھی قائل نہ ہوں گے (اے رسول) تم کہہ دو کہ سبحان اللہ میں ایک آدمی خدا کے رسول کے سوا آخر اور کیا ہوں (جو یہ بیہودہ باتیں کرتے ہو)۔،،

۱۴۹

مخالفین کا طرز استدلال یہ ہے کہ ان آیات کریمہ میں مشرکین نے جو پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو اپنی نبوت کے ثبوت اور اس کی صداقت پر معجزہ پیش کرنے کی دعوت دی تو آپ(ص) نے اس سے انکار فرماتے ہوئے اپنی عاجزی اور ناتوانی کا اعتراف کیا اور صرف اتنا فرمایا: میں ایک بشر ہوں جس کو رسول بنا کر تمہاری طرف بھیجا گیا ہے۔ بنابراین یہ آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن کے علاوہ آنحضرت(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے اور کوئی معجزہ صادر نہیں ہوا۔

جواب:

اولاً: مخالفین کے پہلے استدلال کے جواب میں، مشرکین کے فرمائشی معجزات کی ہم وضاحت کرچکے ہیں اور یہ ثابت کرچکے ہیں کہ یہ معجزات مشرکین کے فرمائشی تھے جن کو وہ اپنی ضد، تعصب اور دشمنی کی بناء پر پیش کرنے کا آپ(ص) سے مطالبہ کیا کرتے تھے۔ اس کے دو دلائل ہیں:

i ) ان مشرکی نے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی تصدیق کوان فرمائشی معجزات میں سے کسی ایک پر منحصر کردیا۔ اگر یہ متعصب اور دشمن حق نہ ہوتے تو ہر اس معجزے پر اکتفاء کرلیتے جو آپ(ص) کی صداقت پر دلالت کرتا ہے۔ علاوہ بریں ان کے ان فرمائشی معجزات میں ایسی کوئی خاص خوبی بھی نہیں تھی جو دوسرے معجزات میں نہ ہو۔

۱۵۰

ii ) مشرکین کہتے ہیں:( وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّىٰ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَّقْرَؤُهُ ) (یعنی) ''اگر آپ(ص) آسمان کی طرف پرواز کر جائیں پھر بھی ہم ایمان نہیں لائیں گے، جب تک آپ ہم پر کوئی کتاب نازل نہ کریں جسے ہم خود پڑھ سکیں۔،،

اہل انصاف بتائیں کہ آسمان سے ان پر کتاب نازل کرنے میں کیا خصوصیت ہے۔ کیا آپ(ص) کا آسمان کی طرف پرواز کرنا آپ(ص) کی صداقت کے لیے کافی نہ ہوتا اور کیا اس قسم کے غیرمعقول مطالبات، حق سے دشمنی اور سرکشی کا واضح ترین ثبوت نہیں ہیں؟!

ثانیاً: گذشتہ آیات میں مشرکین کے جن فرمائشی معجزات کی نشاندھی کی گئی ہے وہ دو قسم کے ہیں:

i ) بعض معجزات ایسے ہیں جو محال ہیں۔

ii ) بعض معجزات ایسے ہیں جو حضور اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی صداقت کی دلیل نہیں بن سکتے۔

بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ ان کے فرمائشی معجزات کا پیش کرنا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے لیے ضروری تھا تو بھی اس نوعیت کے فرمائشی معجزات پیش کرنا واجب نہیں تھا۔

اس کی وضاحت یہ ہے کہ آیات میں کل چھ معجزات کا تذکرہ ہے جن کا مطالبہ مشرکین نے رسول اعظمؐ سے کیا تھا۔ ان میں سے تین معجزے ناممکن ہیں اور تین معجزے ناممکن تو نہیں البتہ وہ نبوت کی دلیل نہیں بن سکتے۔(۱)

____________________

(۱) تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں ضمیمہ نمبر ۶۔

۱۵۱

تین محال معجزات یہ ہیں:

پہلا: آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر گر پڑے۔ اس سے ساری زمین کا تہہ و بالا اور اس پر بسنے والوں کا ہلاک ہوجانا لازم آتا ہے۔ یہ کام دنیا کے اختتام پر انجام پائے گا اور اس کی خبر پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے بھی دی ہے۔ جیسا کہ مشرکین کا قول ''کما زعمت،، یعنی ''جیسا کہ آپ کا خیال ہے،، اس پر دلالت کرتا ہے اور یہ بات قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مذکور ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ ) ۸۴:۱

''جب آسمان پھٹ جائے گا۔،،

( إِذَا السَّمَاءُ انفَطَرَتْ ) ۸۲:۱

''جب آسمان تڑخ جائے گا۔،،

( إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ ) ۳۴:۹

''اگر ہم چاہیں تو ان لوگوں کو زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کا کوئی ٹکڑا ہی گرا۔،،

یہ معجزہ اس لیے محال ہے کہ اس کے لیے ایک وقت مقرر ہے اور اس سے پہلے اس کا ظاہر ہونا حکمت الہٰی کے خلاف ہے۔ کیونکہ حکمت الہٰی یہ ہے کہ قیامت تک اس کی مخلوق باقی رہے اور ارتقائی منازل کی طرف ان کی راہنمائی کی جائے، اور یہ محال ہے کہ اللہ تعالیٰ حکمت کے منافی کوئی کام انجام دے۔

دوسرا: خدا کو ان کے سامنے لا کر پیش کیا جائے اور وہ خود اپنی آنکھوں سے اسے دیکھیں۔

ایسا ہونا اس لیے محال ہے کہ ذات خدا کو آنکھوںسے نہیں دیکھا جاسکتا، ورنہ یہ لازم آئے گا کہ وہ کسی سمت و جہت میں محدود ہو اور اس کا اپنا کوئی رنگ اور مخصوص شکل و صورت ہو۔ یہ سب کچھ ذات خدا تعالیٰ کے لئے محال ہے۔

۱۵۲

تیسرا: خدا کی طرف سے ان پر کوئی کتاب نازل ہو۔

یہ اس لیے محال ہے کہ یہ لوگ چاہتے تھے کہ خدا اپنے ہاتھ سےکوئی کتاب لکھ کر ان پر نازل فرمائے۔ ان کا مطالبہ یہ نہیں تھا کہ خدا کی طرف سے کوئی بھی کتاب ان پر نازل ہو چاہے وہ خلق و ایجاد ہی کی صورت میں کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ اگر ان کا مقصد یہ ہوتا کہ کسی بھی طریقے سے خدا کی جانب سے کوئی کتاب نازل کی جائے تو اس کتاب کا آسمان سے اتارے جانے کا مطالبہ غیر معقول ہے کیونکہ جو فائدہ و مقصد آسمان سے اترنے والی کتاب میں ہوسکتا تھا وہی فائدہ زمین پر لکھی گئی کتاب میں موجود ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرکین کا یہ مطالنہ ناممکن و محال امر ہے، کیونکہ اس سے خدا کا جسم اور اعضاء و جوارح رکھنا لازم آتا ہے اور خدا کی ذات جسم و جسمانیات سے منزہ ہے۔

وہ تین معجزات جو بذات خود محال تو نہیں البتہ ان سے کسی نبی کی نبوّت ثابت نہیں ہوتی یہ ہیں:

i ) زمین سے چشمہ بہانا۔

ii ) پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کا بہتی ہوئی نہروں پر مشتمل کھجوروں اور انگوروں کے باغات کا مالک ہونا۔

iii ) سونے کا مکان کا مالک ہونا۔

یہ ایسی چیزیں ہیں جن کا دعویٰ نبوّت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، کیونکہ اکثر اوقات عام لوگوں کے پاس بھی ان میں سے کچھ چیزیں ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود وہ نبی نہیں ہوتے بلکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس یہ تینوں چیزیں ہوتی ہیں لیکن ان کے بارے میںیہ احتمال دینابھی صحیح نہیں ہے کہ وہ مومن ہوں، چہ جائیکہ وہ خدا کا نبی ہو۔

جب ان چیزوں کا دعویٰ نبوّت سے کوئی ربط نہیں ہے اور یہ اس دعویٰ کی دلیل نہ بن سکیں تو انہیں دلیل کے طورپر پیش کرنا عبث اور بیکار ہوگا، جو ایک نبی و حکیم سے صادر نہیں ہوسکتا۔

۱۵۳

البتہ یہاں ایک توہم ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ اگر یہ تینوں چیزیں عام اور طبیعی اسباب کے ذریعے وجود پذیر ہوں تو کسی نبوّت کی دلیل نہیں بنتیں۔ لیکن اگر غیر معمولی ذرائع سے ان کو ایجاد کیا جائے تو یقیناً یہ معجزہ کہلائیں گی اور نبی کی نبوّت کی دلیل ہوں گی۔

جواب:

یہ بات بذات خود صحیح ہے لیکن مشرکین کا مطالبہ یہ تھا کہ غیر معمولی ذرائع سے یہ کام انجام پائیں بلکہ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ اگر عام ذرائع اور طبیعی اسباب کے ذریعے بھی چشمے بہادیئے جائیں اور باغ وغیرہ کے مالک ہوں تو بھی ان کا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنی جگہ یہ بات بہت بعید اور ناممکن سمجھتے تھے کہ خدا کا رسول ایک فقیر اور نادار آدمی ہو اور اس کے پاس کوئی چیزنہ ہو۔

وہ کہا کرتے تھے:

( وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَـٰذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ ) ۴۳:۳۱

''اور کہنے لگے یہ قرآن دو بستیوں (مکّہ طائف) میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا۔،،

وہ رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے مطالبہ کرتے تھے کہ آپ(ص) کے پاس بہت سا مال ہو اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کی فرمائش یہ تھی کہ بڑے بڑے باغات اور سونے کے گھر کا مالک صرف نبی کو ہونا چاہیے، کسی اور کو نہیں ہونا چاہیے۔

اگر ان کا مقصد یہ ہوتا کہ یہ چیزیں معجزہ یا غیر معمولی طریقے سے وجود میں آئیں تو پھر اس قید کی ضرورت نہیں تھی کہ نبی ہی ان کامالک ہو اور باغات اور سونے کے گھروں میں کا خاص ذکر کرنے کی ضرورت نہ ہوتی بلکہ انگور کا ایک دانہ یا ایک مثقال سونا ایجاد کرلینا ہی نبوّت کے اثبات کے لیے کافی ہونا چاہیے تھا۔

۱۵۴

ان کی اس بات''حتی تفجر لنا من الاءرض ینبوعاً،، (یعنی) ''جب تک آپ(ص) زمین سے چشمہ نہ نکالیں، آپ(ص) پرایمان نہیں لائیں گے،، کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے فائدے کے لیے نبی سے چشمہ نکالنے کا مطالبہ کررہے تھے بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ(ص) اپنے فائدے اور مالدار ہونے کے لیے ان کی درخواست پر ایک چشمہ بہائیں۔

واضح ہے کہ ان دونوں معنوں میں فرق ہے اور اس فرمائش کے مقابلے میں بھی حضور اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اپنے عجز و ناتوانی کا اظہار نہیں کیا جیسا کہ ان لوگوں کا خیال ہے بلکہ''سبحان ربی،، کے ذریعے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس بات سے منزہ ہے کہ اس کی طرف عجز کو نسبت دی جائے اور وہ ہر ممکن کام پر قدرت رکھتاہے کسی کے روبرو ہونے سے منزہ و بالاتر ہے۔ اس کی ذات اس سے بالاتر ہے کہ مشرکین کی فرمائشیں اس پر مسلط کی جاسکیں اور نبی ایک بشر ہے جو امر خدا کے تابع ہے۔ ہر کام پر اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور اللہ تعالی ہی ہے جو چاہے انجام دیتا ہے جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔

جن آیات کریمہ سے قرآن کریم کے علاوہ دیگر معجزات کی نفی پر استدلال کیا گیاہے ان میں سے ایک آیہ کریمہ یہ ہے۔

(لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۖ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّـهِ فَانتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ ) ۱۰:۲۰

''اس پیغمبر پر کوئی معجزہ (ہماری ہی خواہش کے موافق) کیوں نہیں نازل کیا گیا تو (اے رسول) تم کہہ دو کہ غیب (دانی) تو صرف خدا کے واسطے خاص ہے تو تم بھی انتظار کرو اور تمہارے ساتھ میں (بھی) یقیناً انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔،،

۱۵۵

اس آیہ کے ذریعے معجزات کے منکریوں استدلال کرتے ہیں کہ مشرکین نے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے کسی معجزہ یا نشانی کے پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ آپ(ص) نے کوئی معجزہ دکھانے کی بجائے جواب دیا کہ غیب کی خبر خدا ہی سے مختص ہے۔ رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کا یہ جواب اس بات کی دلیل ہے کہ آپ(ص) کے پاس قرآن کریم کے علاوہ او رکوئی معجزہ نہیں تھا۔

اس ضمن میں کچھ اور آیات بھی ہیں جو معانی کے اعتبار سے اس آیہ کریمہ سے ملتی جلتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۗ إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) ۱۳:۷

''اور جو لوگ کافر ہیں کہتے ہیں کہ اس شخص (محمد) پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی (ہماری مرضی کے موافق) کیوں نہیں نازل کی جاتی (اے رسول) تم تو صرف (خوف خدا سے) ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ایک ہدایت کرنے والا ہے۔،،

( وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۚ قُلْ إِنَّ اللَّـهَ قَادِرٌ عَلَىٰ أَن يُنَزِّلَ آيَةً وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ) ۶:۳۷

''اور کفار کہتے ہیں کہ (آخر) اس نبی پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی معجزہ کیوں نہیں نازل ہوتا تو تم (ان سے) کہہ دو کہ خدا معجزے کے نازل کرنے پر ضرور قادر ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ (خدا کی مصلحتوں کو) نہیں جانتے۔،،

۱۵۶

جواب:

اولاً: گذشتہ آیہ کا جو جواب ذکر کیا گیا ہے وہ جواب اس کا بھی بن سکتا ہے ،یعنی مشرکین اور دیگر منکرین آپ(ص) سے یہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ(ص) اپنی نبوّت کا کوئی بھی معجزہ پیش کریں بکہ وہ اپنی طرف سے مخصوصی معجزات کی فرمائش کرتے تھے، جن کی طرف قرآن کریم نے بہت سے مقامات پر واضع الفاظ میں اشارہ کیا ےہ ان میں سے ایک مقام یہ ہے، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

( وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ ۖ ) ۶:۸

''اور (یہ بھی) کہتے ہیں کہ اس (نبی) پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا گیا۔،،

( وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ ) ۱۵:۶

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کفار مکّہ تم سے) کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس کو (یہ سودا ہے) کہ اس پر وحی اور کتاب نازل ہوئی ہے۔،،

( وْ مَا تَأْتِينَا بِالْمَلَائِكَةِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ )

''اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو فرشتوں کو ہمارے سامنے کیوں نہیں لاکھڑا کرتا۔،،

( وَقَالُوا مَالِ هَـٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ ۙ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا ) ۲۵:۷

''اور ان لوگوں نے (یہ بھی) کہا کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس کے پاس فرشتہ کیوں نہیں نازل ہوا تاکہ وہ بھی اس کے ساتھ (خدا کے عذاب سے) ڈرانے والا ہوتا۔،،

( أَوْ يُلْقَىٰ إِلَيْهِ كَنزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا ۚ وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا ) : ۸

''یا (کم سے کم) اس کے پاس خزانہ ہی (آسمان سے) گرا دیا جاتا (اور نہیں تو) اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا تاکہ اس سے کھاتا (پیتا) اوریہ ظالم (کفار مومنوں سے) کہتے ہیں کہ تم لوگ تو پس ایسے آدمی کی پیروی کرتے ہو جس پر جادو کردیا گیا ہے۔،،

۱۵۷

ہم اس سے پہلے بیان کرچکے ہیں کہ معجزات دکھانے کی مشرکین کی فرمائش کو پورا کرنا واجب اور ضروری نہیں تھا اور ان آیات سے مراد فرمائشی معجزات ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اگر ان کا مقصد یہ ہوتا کہ آپ(ص) کوئی ایسی نشانی پیش کریں جو آپ(ص) کی صداقت پر دلالت کرتی ہو تو آپ(ص) قرآن کریم، جس کے مقابلے کا چیلنج کئی مقامات پرکیا گیا ہے، کے ذریعے ان کامطالبہ پورا کرسکتے تھے، ہاں! البتہ استدلال کرنے والے نے جن آیات سے استدلال کیاہے اس سے دو باتیں ضرور ظاہر ہوتی ہیں:

i ) آپ(ص) نے صرف قرآن سے مقابلے کا چیلنج تمام لوگوں کو کیا۔ دوسرے معجزات کی نظیر پیش کرنے کا چیلنج نہیں کیا اور حقیقت بھی یہی ہے اس لیے کہ ابدی و دائمی نبوّت کا تقاضا دائمی معجزہ ہی ہوتا ہے۔ ایسا معجزہ قرآن کریم کے علاوہ دوسرا نہیں ہوسکتا اور دوسرے معجزات کا کوئی پہلو دائمی نہیں تھا۔

ii ) معجزہ پیش کرنا نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے اختیار میں نہیں تھا بلکہ آپ(ص) تو رسول اور معجزے کے اظہار میں حکم خدا کے تابع ہیں اور اس میں کسی کی فرمائش کا بھی دخل نہیں ہے اوریہی چیز تمام انبیاء(ع) کے لیے ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

( وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ ) ۱۳:۳۸

''اور کسی پیغمبر کی یہ مجال نہ تھی کہ کوئی معجزہ خدا کے اذن کے بغیر لا دکھائے ہر ایک وقت (موعود) کے لیے (ہمارے یہاں) ایک (قسم کی) تحریر (ہوتی) ہے۔،،

( وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّـهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ ) ۴۰:۷۸

''اور کسی پیغمبر کی یہ مجال نہ تھی کہ خدا کے اختیار دیئے بغیر کوئی معجزہ دکھا سکے پھر جب خدا کا حکم (عذاب) آپہنچا تو ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا گیا اور اہل باطل ہی اس وقت گھاٹے میں رہے۔،،

۱۵۸

ثانیا: قرآن کریم میں ہی ایسی آیات ہیں جو قرآن کے علاوہ آپ(ص) کے دوسرے معجزات پر دلالت کرتی ہیں۔ ان میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے:

( اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ ) ۵۴:۱

''قیامت قریب آگئی اور چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔،،

( وَإِن يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ )

اور اگر یہ کفار کو ئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو بڑا زبردست جادو ہے۔،،

( وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّـهِ ۘ ) ۶:۱۲۴

''اور جب ان کے پاس کوئی نشانی (نبی کی تصدیق کے لیے) آتی ہے تو کہتے ہیں، جب تک ہم کو خود ویسی چیز (وحی وغیرہ) نہ دی جائے گی جو پیغمبران خدا کو دی گئی ہے، اس وقت تک توہم ایمان نہ لائیں گے۔،،

ان آیات شریفہ میں ''آیہ،، سے مراد معجزہ ہونے کی دلیل یہ ہے: آیہ کریمہ میں ''رویۃ،، کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی دیکھنے کے ہیں۔ اگر اس سے مراد قرآن کریم کی آیات ہوتیں تو اس کے لئے ''سماع،، کا لفظ استعمال کرنا چاہیے تھا جس کے معنی ''سننے،، کے ہیں، نیز اس مطلب کی تائید، آیہ کریمہ میں شق القمر کا ذکر کئے جانے سے بھی ہوتی ہے۔ تیسرا مؤید یہ ہے کہ آیہ کریمہ می ںاس کے لیے ''آنے،، کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ نازل کرنے کا نہیں۔

بلکہ مشرکین کی تعبیر سحر مستمر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آپ(ص) سے بار بار معجزات صادر ہوتے رہتے تھے۔ بفرض تسلیم اگر گذشتہ آیات معجزوں کی نفی پر دلالت بھی کریں تو لامحالہ یہ ان قرآنی آیات کے نزول کے وقت کی بات ہوگی اور ان میں بعد کے زمانے میں معجزات واقع ہونے کی نفی نہیں کی گئی۔

۱۵۹

ہماری مذکورہ بحث کا خلاصہ یہ ہے:

۱۔ قرآنی آیات میں سے کوئی بھی قرآن کریم کے علاوہ دوسرے معجزات کی نفی پر دلالت نہیں کرتی بلکہ بعض آیات ان کے وجود پر دلالت کرتی ہیں، جن کی مخالفین نفی کرتے ہیں۔

۲۔ معجزہ دکھانا رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے اختیار میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔

۳۔ دعویٰ نبوّت میں بس اتنے معجزات دکھانا واجب و لازم ہیں جن سے رسول کی حجت تمام ہوجائے اور رسالت کی تصدیق جن پر موقوف ہو۔ اس سے زیادہ معجزات ظاہر کرنا نہ خدا پر واجب ہے اور نہ رسول پر کہ وہ ہر مطالبہ کرنے والے کے مطالبہ کو پورا کرتے رہیں۔

۴۔ ہر وہ معجزہ جس کے نتیجے میں امت ہلاکت اور عذاب کا شکار ہوتی ہو امت کی فرمائش پر اس معجزے کو پیش کرنا جائز نہیں ہے چاہے امت کے تمام افراد اس کی فرمائش کریں یا بعض۔

۵۔ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کا ابدی معجزہ، جس کا چیلنج قیامت تک کی نسلوں کو کیا گیا ہے، قرآن کریم ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے معجزات، خواہ کتنے ہی ہوں، دائمی و ابدی نہیں ہوسکتے اور اس اعتبار سے نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے دوسرے معجزات گذشتہ انبیاء(ع) کے معجزات کی مانند ہیں جو وقتی تھے۔

۱۶۰