البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314073 / ڈاؤنلوڈ: 9316
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

گذشتہ مباحث میں ہم ثابت کرچکے ہیں کہ قرآن کریم انبیاء(ع) کے معجزات میں سے سے بڑا معجزہ ہے اور رسول اسلامؐ نے بلا استثناء تمام اقوام کو اس کی نظیر لانے کا چیلنج کیا تھا۔ آپ(ص) نے اسی سے اپنی نبوّت ثابت کی اور یہ چیلنج قیامت تک کے لیے ہے۔ یہ دلیل بھی ثابت کرتی ہے کہ اس آیہ میں نشانیوں کی جو نفی کی گئی ہے وہ تمام معجزات و نشانیوں کے لیے نہیں ہے بلکہ کچھ خاص نشانیوں اور معجزات کے لیے ہے۔

۳۔ آیہ کریمہ واضح طور پر اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اقوام کا ان معجزات کو جھٹلانا معجزات بھیجنے میں رکاوٹ بنتا رہا ہے اور یہ اس کی مصداق ہے کہ کوئی شے اس لیے معدوم ہے اور وجود پذیر نہیں ہوئی کہ اس میں کوئی نہ کوئی مانع موجود ہے۔

ظاہر ہے کہ کسی چیز کے وجود میں کوئی شئے اس وقت مانع ہوسکتی ہے۔ جب اس شے کے وجودکا مقتضی موجود ہو۔ یعنی اگر کسی شئے کا وجود کا مقتضی موجود ہو لیکن مانع کی وجہ سے وہ وجودمیں نہ آسکے تو یہ کہنا درست ہے کہ فلاں چیز اس لیے وجود میں نہیں آئی کہ اس میں مانع موجود تھا۔ گویا کہ مقتضی تو تھا لیکن مانع موجود ہونے کی وجہ سے وجود پذیر نہیں ہوئی اور اگر کسی چیز کا متقضی سرے سے موجدو نہ ہو تو اس کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں ہے کہ مانع موجود ہونے کی وجہ سے فلاںچیز وجود ہی میں نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص لکڑی نہ جلنے کی علت اس کا مرطوب ہونا قرار دے جبکہ جلانے والی آگ ہی موجود نہ ہوتو عقلاء اسے نامعقول سمجھیں گے اور یہ ایسی حقیقت ہے جس میں کسی کے لیے تردد کی گنجائش نہیں ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ معجزات بھیجنے کا مقتضی موجود تھا ورنہ تکذیب کومعجزات نہ بھیجنے کی وجہ قرار نہ دیا جاتا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معجزات بھیجنے کا مقتضی کیا ہے؟ اس میں چند احتمالات ہوسکتے ہںی:

۱۴۱

معجزات بھیجنے کا مقتضی انسانوں کو ہدایت اور رہنمائی ہو یا تمام حجت کے لیے جتنے معجزات کی ضرورت تھی، ان سے زاید کی فرمائش کیا جانا ہو، اگر مقتضی حکمت الہٰی ہوتا تو خاد کی طرف سے ان آیات کا بھیجا جانا ضروری ہوجاتا اور یہ ناممکن ہے کہ کوئی بھی چیز حکمت الہی میں مانع بن سکے۔ کیونکہ چاہے معجزات کی تکذیب کی جائے یا نہ کی جائے خدا کے لیے یہ امر محال ہے کہ وہ حکمت کے منافی کوئی کام انجام دے۔

اسکے علاوہ اگر گذشتہ اقوام کا تکذیب کرنا معجزات میں مانع تھا تو اسے بعثت انبیاء میں بھی مانع بننا چاہےے تھا اور یہ یقیناً باطل اور خلاف فرض ہے۔

پس معلوم ہوا کہ نشانیاں بھیجے جانے کا مقتضی، لوگوں کی تجاویز اور فرمائش کرنا تھا اور یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ یہ لوگ ایسی نشانیوں کی فرمائش کرتے تھے جو امتام حجت کے لیے لازمی معجزات سے زاید تھیں۔ اس لیے کہ اپنے نبی کو نبوت ثابت کرنے کے لئے اتمام حجت کے طور پر ضروری نشانیوں کا بھیجنا خداپر لازم تھا۔ البتہ ضرورت سے زاید نشانیوں کا بھیجنا ابتدائی طور پر ضروری ہے اور نہ منکرین کی خواہش کی خاطر۔ ہاں! اگر مصلحت کا یہ تقاضا ہو کہ دوبارہ یا سہ بارہ حجت قائم کی جائے یا لوگوں کی فرمائش پوری کی جائے تو یہ خدا کے لیے ناممکن ہے۔

بنابراین منکرین رسالت اتمام حجت کے لیے ضروری نشانیوں کے بھیجے جانے اور ان کی تکذیب کے بعد مزید نشانیوں کی فرمائش کر رہ تھے اور گذشتہ اقوام کا تکذیب کرنا فرمائشی نشانیاں بھیجے جانے میں اس لئے مانع بنا کہ ان آیات و نشانیوں کی تکذیب کے نتیجے میں ان پر عذاب نازل ہوتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے یہ ضمانت دی ہے کہ رسول اعظمؐ کے احترام و تعظیم میں اس امت پر دنیاوی عذاب نازل نہیں ہوگا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

۱۴۲

( وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ ) ۸:۳۳

''حالانکہ جب تک تم ان کے درمیان موجود ہو، خدا ان پر عذاب نہیں کرے گا۔،،

مطالبہ شدہ آیات کی تکذیب اس لیے باعث عذاب بنتی ہے کہ اگر کوئی آسمانی معجزہ ابتدائی ہو تو اس کا مقصود صرف نبوّت کا اثبات ہوتا ہے اور اس کی تکذیب کا وہی گنا ہ و عقاب ہوگا جو نبی کو جھٹلانے کا ہوتا ہے۔

لیکن اگر یہ معجزہ الہٰی مکذبین کی فرمائش پرنازل ہو تو اس سے مکذّب کی ضد اور لیچڑ پن کی عکاسی ہوتی ہے جو اس کے تعصب اور دشمنی پر دلالت کرتی ہے اس لیے کہ اگر یہ حق کے متلاشی ہوتے ہو تو پہلی آیت ہی ان کے لیے کافی ہونی چاہیے تھی اور ان کے سامنے حق ثابت ہوجاناچاہتے تھا۔

اس کے علاوہ دوبارہ معجزہ پیش کئے جانے کے مطالبے کامقصد یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے آپ کو اس بات کا پابند کرلیا ہے کہ اگر نبی اس کے اس مطالبہ کو پوار کردے تو وہ ضرور اس کی نبوت کی گواہی دے گا اور اس پر ایمان لے آئے گا۔ اب اگر وہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی اس کی تکذیب کرے تو یہ اس نبی، اس فرمائشی معجزے اور اس حق کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اس کی نبی دعوت دے رہا ہے، اسی لئے اس قسم کے معجزات کو ''آیات تخویف،، کہا جاتا ہے۔ جس طرح اس آیہ کریمہ کے آخر میں ہے۔ ورنہ تمام کی تمام نشانیاں ڈرانے دھمکانے کے لئے نازل نہیں کی گئیں۔ اس لیے کہ بعض معجزات ایسے ہیں جو لوگوں کے لیے باعث رحمت و ہدایت ہیں۔

۱۴۳

ان آیات کے شان نزول اور سیاق و سباق سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ ان سے مراد ''آیات تخویف،، ہیں کیونکہ اس سے پہلے کہ آیہ میں ارشاد اللہ تعالیٰ ہے:

( وَإِن مِّن قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا ) ۱۷:۵۸

''اور کوئی بستی ایسی نہیں ہے مگر روز قیامت سے پہلے ہم اسے تباہ و برباد کرچھوڑیں گے (نافرمانی کی سزا میں) اس پر سخت سے سخت عذاب کریں گے (اور) یہ بات کتاب (لوح محفوظ) میں لکھی جاچکی ہے۔،،

اس آیہ کریمہ میں، جسے مخالفین نے اپنے مدعا کے ثبوت میں پیش کیا ہے، قوم ثمود کی طرف بھیجی گئی نشانی کا ذکر ہے جس کی تکذیب کے بعد ان پر عذاب نازل ہوا یہ واقعہ ''سورہ شعرائ،، میں موجود ہے، چنانچہ اس آیہ کریمہ کا اختتام اس آیہ سے ہوتا ہے:

( وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ) ۱۷:۵۹

''اور ہم تو معجزے صرف ڈرانے کی غرض سے بھیجا کرتے ہیں۔،،

یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ اس آیہ میں جن معجزات کی نفی کی گئی ہے ان سے مراد وہ معجزات ہیں جن کی درخواست مخالفین کیا کرتے تھے اور ان کے بھیجے جانے کے بعد ان پر عذاب نازل ہوتا تھا۔

جب ہم قرآنی آیات کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ مشرکین نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے اپنے اوپر عذاب نازل کیے جانے کا مطالبہ کیا کرتے تھے یا وہ ایسے معجزات دیکھنے کی خواہش کرتے جن کی تکذیب سے گذشتہ اقوام پر عذاب نازل کیا گیا تھا۔

۱۴۴

ان آیات میں عذاب نازل کرنے کے مطالبہ کا ذکر ہے:

چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( وَإِذْ قَالُوا اللَّـهُمَّ إِن كَانَ هَـٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ) ۸:۳۲

''اور(اے رسول) وہ وقت یا دکرو جب ان کافروں نے دعائیں کی کہ خداوند اگر (یہ دین اسلام) حق ہے اور تیرے پاس سے (آیا) ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر کوئی اور درد ناک عذاب نازل فرما۔

( وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّـهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ) :۳۳

''حالانکہ جب تک تم ان کے درمیان موجود ہو خدا ان پر عذاب نہیںکرے گا اور اللہ ایسا بھی نہیں کہ لوگ تو اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے ہیں اور خدا ان پر عذاب نازل فرمائے۔

( قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُهُ بَيَاتًا أَوْ نَهَارًا مَّاذَا يَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُونَ ) ۱۰:۵۰

''(اے رسوال) تم کہہ دو کہ تم سمجھتے ہو کہ اگر اس کا عذاب تم پر رات کو یا دن کو آجائے تو (تم کیا کرو گے) پھر گناہ گار لوگ (آخر) کا ہے کو جلدی کر پھر گناہگار لوگوں کو آخر کاہے کی جدلی ہے۔،،

( وَلَئِنْ أَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِلَىٰ أُمَّةٍ مَّعْدُودَةٍ لَّيَقُولُنَّ مَا يَحْبِسُهُ ۗ ) ۱۱:۸

''اور اگر ہم گنتی کے چند دن ان پر عذاب کرنے میں دیر بھی کریں تو یہ لوگ (اپنی شرارت سے) بے تامل ضرور کہنے لگیں گے کہ (ہائیں) عذاب کوکون سی چیز روک رہی ہے۔،،

( وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ ۚ وَلَوْلَا أَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَيَأْتِيَنَّهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ) ۲۹:۵۳

''اور (اے رسول) تم سے لوگ عذاب کے نازل ہونے کی جلدی کرتے ہیں اور اگر (عذاب کا) وقت معین نہ ہو تو یقیناً ان کے پاس اب تک عذاب آجاتا، اور (آخر ایک دن) ان پر اچانک ضرور آپڑے گا اور ان کو خبر بھی نہ ہوگی۔،،

۱۴۵

اور ان آیات میں ایسے معجزات کا ذکر ہے جن کی تکذیب کی وجہ سے گذشتہ اقوام پر عذاب نازل کیا گیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّـهِ ۘ اللَّـهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ۗ سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِندَ اللَّـهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ ) ۶:۱۲۴

''اور جب ان کے پاس کوئی نشانی (نبی کی تصدیق کے لیے) آتی ہے تو کہتے ہیں جب تک ہم کو خود ویسی چیز (وحی وغیرہ) نہ دی جاے گی جو پیغمبران خدا کو دی گئی ہے اس وقت تک ہم ایمان نہ لائےں گے اور خدا جہاں (جس دل میں) اپنی پیغمبری قرار دیتا ہے اس کی (قابلیت و صلاحیت) کو خوب جانتا ہے جو لوگ (اس جرم کے) مجرم ہیں ان کو عنقریب ان کی مکاّری کی سزا میں خدا کے ہاں بڑی ذلّت اور سخت عذاب ہوگا۔،،

( فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ ) ۲۱:۵

''(اور اگر حقیقتاً رسول ہے) تو جس طرح اگلے پیغمبر بھیجے گئے تھے اسی طرح یہ بھی کوئی معجزہ (جیسا ہم کہےں) ہمارے پاس بھلا لائے تو سہی۔،،

( فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا لَوْلَا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ مُوسَىٰ ۚ أَوَلَمْ يَكْفُرُوا بِمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ ۖ قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاهَرَا وَقَالُوا إِنَّا بِكُلٍّ كَافِرُونَ ) ۲۸:۴۸

''پھر جب ہماری بارگاہ سے (دین) حق ان کے پاس پہنچا تو کہنے لگے جیسے (معجزے) موسیٰ کو عطا ہوئے تھے ویسے ہی اس رسول (محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) کوکیوں نہیں دیئے گئے کیا جومعجزے اس سے پہلے موسیٰ کو عطا ہوئے تھے ان سے ان لوگوں نے انکار نہ کیا تھا، کفار تو یہ بھی کہہ گزرے کہ یہ دونوں کے دونوں (توریت و قرآن) جادو ہیں کہ باہم ایک دوسرے کے مددگار ہوگئے ہیں اور یہ بھی کہہ چکے کہ ہم سب کے منکر ہیں۔،،

۱۴۶

ذیل کی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہی ںکہ منکرین اپنی فرمائش پر نامل کردہ معجزات کی تکذیب کی بناء پر عذاب کے مستحق قرار پائے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے:

( قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَأَتَى اللَّـهُ بُنْيَانَهُم مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِن فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ ) ۱۶:۲۶

''بیشک جو لوگ ان سے پہلے تھے انہو ںنے بھی مکاریاں کی تھیں تو خدا (کا حکم) ان (کے خیالات کی) عمارت کی جڑ بنیاد کی طرف سے آپڑا (بس پھر کیا تھا) ا س(خیالی عمارت) کی چھت ان پر / ان کے اوپردھم سے گر پڑی (اور سب خیالات ہوا ہوگئے) اور جدہر سے ان پر عذاب آپہنچا اس کی ان کو خبر تک نہ تھی۔،،

( كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ ) ۳۹:۲۵

''جو لوگ ان سے پہلے گزرگئے انہوں نے بھی (پیغمبروں کو) جھٹلای تو ان پر عذاب اس طرح آپہنچا کہ انہیں خبر بھی نہ ہوئی۔،،

قرآن کریم کی بہت سی آیات میں بھی اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ یہ لوگ ایسے معجزات کا مطالبہ کررہے تھے جن کی تکذیب کے نتیجہ میں ان پر عذاب نازل ہوتا اور اس آیہ کریمہ کی تفسیر میں شیعہ و سنی سلسلہئ سند کی ایسی روایات موجود ہیں جن سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔

۱۴۷

چنانچہ امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

''أن محمداً ۔۔۔ص ۔۔۔سأله قومه أن یأتی بآیة فنزل جبریل و قال : ان الله یقول: و ما منعنا أنرسل بالآیات الا ان کذب بها الأولون ۔و کنا اذا أرسلنا الی قریش آیة فلم یؤمنوا بها أهلکناهم، وفلذلک أخرنا عن قومک الآیات ۔،، (۱)

''جب پیغمبراکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے آپ(ص) کی قوم نے اپنی نبوّت کے ثبوت میں کوئی معجزہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا تو جناب جبرئیل نازل ہوئے اور انہوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ہم نے ان لوگوں کی طرف معجزات اس لیے نہیں بھیجے کہ گذشتہ قوموں نے اس قسم کے معجزات کی تکذیب کی تھی اور اگر ہم قریش کی طرف کوئی معجزہ بھیجیں اور وہ اس پر ایمان نہ لائیں تو گذشتہ اقوام کی طرف ہم ان کو بھی ہلاک کردیں گے اسی لیے ہم نے آپ کی قوم میں معجزات بھیجنے میں تاخیر کی ہے۔،،

ابن عباس سے روایت ہے:

''سأل أهل مکة النبی أن یجعل لهم الصفا ذهباً، و أن ینجی عنهم الجبال فیزرعوا ۔فقیل له: ان شئت أن نستأنی بهم لعلنا نجتی منهم ، و ان شئت أن نؤتیهم الذی سألوا، فان کفروا اهلکوا کما اهلک من قبلهم ۔قال: بل تستأنی بهم فأنزل الله تعالی: و ما منعنا أن نرسل بالآیات ،، (۲)

''اہل مکّہ نے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے مطالبہ کیا کہ آپ(ص) کوہ صفا کو سونے میں تبدیل کریں اور مکّہ کے اردگرد موجود پہاڑوں کو ہٹا دیں تاکہ ہم اس میں کھیتی باڑی کرسکیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغبرؐ کو کہلوایا کہ اگر آپ(ص) چاہیں تو ان پر نشانیاں بھیجنے میں تاخیر کی جائے کہ شاید ان میں سے کوئی مومن مل جائے اور اگر آپ کہیں تو ان کا مطالبہ پورا کردیا جائے اور اپنی نشانیاں نازل کردی جائیں۔ لیکن اگر انہوں نے ان معجزات کی تکذیب کی تو یہ ہلاک کردیئے جائیں گے۔ جس طرح گذشتہ اقوام کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: پالنے والے! تو انہیں مہلت دے شاید یہ سنبھل جائیں اور ایمان لے آئیں۔ اس موقع پر یہ آیت اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائیں:و ما منعنا ان نرسل بالآیات،،

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱۵، ص ۷۴۔

۱۴۸

اس سلسلے کی روایات اور بھی ہیں جو ان سے مطلع ہونا چاہیں تو کتب روایات اور تفسیر طبری کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

منجملہ ان آیات کے جن سے مخالفین، قرآن کے علاوہ باقی معجزات کی نفی پر استدلال کرتے ہیں، یہ آیات کریمہ ہیں:

( وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا ) ۱۷:۹

''اور (اے رسول) کفار مکّہ نے تم سے کہا کہ جب تک تم ہمارے واسطے زمین سے چشمہ (نہ) بہالوگے ، ہم تم پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔،،

( أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا ) ۱۷:۹۱

''یا (یہ نہیں تو)کھجوروں اور انگوروں کا تمہارا کوئی باغ ہو اس میں تم بیچ بیچ میں نہریں جاری کرکے دکھا دو جیسا تم گمان رکھتے تھے۔،،

( أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّـهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا ) :۹۲

''ہم پر آسمان ہی کے ٹکڑے (ٹکڑے) کرکے گراؤ یا خدا اور فرشتوں کو (اپنے قول کی تصدیق میں ہمارے سامنے) گواہی میں لا کھڑا کرو۔،،

( أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَىٰ فِي السَّمَاءِ وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّىٰ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَّقْرَؤُهُ ۗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا ) :۹۳

''یا تمہارے (رہنے کے) لئے کوئی طلائی محل سرا ہو یا تم آسمان پر چڑھ جاؤ اور جب تک تم ہم پر (خدا کے ہاں سے ایک) کتاب نہ نازل کرو گے کہ اس خود پڑھ بھی لیں اس وقت تک ہم تمہارے آسمان پر چڑھنے کے بھی قائل نہ ہوں گے (اے رسول) تم کہہ دو کہ سبحان اللہ میں ایک آدمی خدا کے رسول کے سوا آخر اور کیا ہوں (جو یہ بیہودہ باتیں کرتے ہو)۔،،

۱۴۹

مخالفین کا طرز استدلال یہ ہے کہ ان آیات کریمہ میں مشرکین نے جو پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو اپنی نبوت کے ثبوت اور اس کی صداقت پر معجزہ پیش کرنے کی دعوت دی تو آپ(ص) نے اس سے انکار فرماتے ہوئے اپنی عاجزی اور ناتوانی کا اعتراف کیا اور صرف اتنا فرمایا: میں ایک بشر ہوں جس کو رسول بنا کر تمہاری طرف بھیجا گیا ہے۔ بنابراین یہ آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن کے علاوہ آنحضرت(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے اور کوئی معجزہ صادر نہیں ہوا۔

جواب:

اولاً: مخالفین کے پہلے استدلال کے جواب میں، مشرکین کے فرمائشی معجزات کی ہم وضاحت کرچکے ہیں اور یہ ثابت کرچکے ہیں کہ یہ معجزات مشرکین کے فرمائشی تھے جن کو وہ اپنی ضد، تعصب اور دشمنی کی بناء پر پیش کرنے کا آپ(ص) سے مطالبہ کیا کرتے تھے۔ اس کے دو دلائل ہیں:

i ) ان مشرکی نے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی تصدیق کوان فرمائشی معجزات میں سے کسی ایک پر منحصر کردیا۔ اگر یہ متعصب اور دشمن حق نہ ہوتے تو ہر اس معجزے پر اکتفاء کرلیتے جو آپ(ص) کی صداقت پر دلالت کرتا ہے۔ علاوہ بریں ان کے ان فرمائشی معجزات میں ایسی کوئی خاص خوبی بھی نہیں تھی جو دوسرے معجزات میں نہ ہو۔

۱۵۰

ii ) مشرکین کہتے ہیں:( وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّىٰ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَّقْرَؤُهُ ) (یعنی) ''اگر آپ(ص) آسمان کی طرف پرواز کر جائیں پھر بھی ہم ایمان نہیں لائیں گے، جب تک آپ ہم پر کوئی کتاب نازل نہ کریں جسے ہم خود پڑھ سکیں۔،،

اہل انصاف بتائیں کہ آسمان سے ان پر کتاب نازل کرنے میں کیا خصوصیت ہے۔ کیا آپ(ص) کا آسمان کی طرف پرواز کرنا آپ(ص) کی صداقت کے لیے کافی نہ ہوتا اور کیا اس قسم کے غیرمعقول مطالبات، حق سے دشمنی اور سرکشی کا واضح ترین ثبوت نہیں ہیں؟!

ثانیاً: گذشتہ آیات میں مشرکین کے جن فرمائشی معجزات کی نشاندھی کی گئی ہے وہ دو قسم کے ہیں:

i ) بعض معجزات ایسے ہیں جو محال ہیں۔

ii ) بعض معجزات ایسے ہیں جو حضور اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی صداقت کی دلیل نہیں بن سکتے۔

بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ ان کے فرمائشی معجزات کا پیش کرنا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے لیے ضروری تھا تو بھی اس نوعیت کے فرمائشی معجزات پیش کرنا واجب نہیں تھا۔

اس کی وضاحت یہ ہے کہ آیات میں کل چھ معجزات کا تذکرہ ہے جن کا مطالبہ مشرکین نے رسول اعظمؐ سے کیا تھا۔ ان میں سے تین معجزے ناممکن ہیں اور تین معجزے ناممکن تو نہیں البتہ وہ نبوت کی دلیل نہیں بن سکتے۔(۱)

____________________

(۱) تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں ضمیمہ نمبر ۶۔

۱۵۱

تین محال معجزات یہ ہیں:

پہلا: آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر گر پڑے۔ اس سے ساری زمین کا تہہ و بالا اور اس پر بسنے والوں کا ہلاک ہوجانا لازم آتا ہے۔ یہ کام دنیا کے اختتام پر انجام پائے گا اور اس کی خبر پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے بھی دی ہے۔ جیسا کہ مشرکین کا قول ''کما زعمت،، یعنی ''جیسا کہ آپ کا خیال ہے،، اس پر دلالت کرتا ہے اور یہ بات قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مذکور ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ ) ۸۴:۱

''جب آسمان پھٹ جائے گا۔،،

( إِذَا السَّمَاءُ انفَطَرَتْ ) ۸۲:۱

''جب آسمان تڑخ جائے گا۔،،

( إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ ) ۳۴:۹

''اگر ہم چاہیں تو ان لوگوں کو زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کا کوئی ٹکڑا ہی گرا۔،،

یہ معجزہ اس لیے محال ہے کہ اس کے لیے ایک وقت مقرر ہے اور اس سے پہلے اس کا ظاہر ہونا حکمت الہٰی کے خلاف ہے۔ کیونکہ حکمت الہٰی یہ ہے کہ قیامت تک اس کی مخلوق باقی رہے اور ارتقائی منازل کی طرف ان کی راہنمائی کی جائے، اور یہ محال ہے کہ اللہ تعالیٰ حکمت کے منافی کوئی کام انجام دے۔

دوسرا: خدا کو ان کے سامنے لا کر پیش کیا جائے اور وہ خود اپنی آنکھوں سے اسے دیکھیں۔

ایسا ہونا اس لیے محال ہے کہ ذات خدا کو آنکھوںسے نہیں دیکھا جاسکتا، ورنہ یہ لازم آئے گا کہ وہ کسی سمت و جہت میں محدود ہو اور اس کا اپنا کوئی رنگ اور مخصوص شکل و صورت ہو۔ یہ سب کچھ ذات خدا تعالیٰ کے لئے محال ہے۔

۱۵۲

تیسرا: خدا کی طرف سے ان پر کوئی کتاب نازل ہو۔

یہ اس لیے محال ہے کہ یہ لوگ چاہتے تھے کہ خدا اپنے ہاتھ سےکوئی کتاب لکھ کر ان پر نازل فرمائے۔ ان کا مطالبہ یہ نہیں تھا کہ خدا کی طرف سے کوئی بھی کتاب ان پر نازل ہو چاہے وہ خلق و ایجاد ہی کی صورت میں کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ اگر ان کا مقصد یہ ہوتا کہ کسی بھی طریقے سے خدا کی جانب سے کوئی کتاب نازل کی جائے تو اس کتاب کا آسمان سے اتارے جانے کا مطالبہ غیر معقول ہے کیونکہ جو فائدہ و مقصد آسمان سے اترنے والی کتاب میں ہوسکتا تھا وہی فائدہ زمین پر لکھی گئی کتاب میں موجود ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرکین کا یہ مطالنہ ناممکن و محال امر ہے، کیونکہ اس سے خدا کا جسم اور اعضاء و جوارح رکھنا لازم آتا ہے اور خدا کی ذات جسم و جسمانیات سے منزہ ہے۔

وہ تین معجزات جو بذات خود محال تو نہیں البتہ ان سے کسی نبی کی نبوّت ثابت نہیں ہوتی یہ ہیں:

i ) زمین سے چشمہ بہانا۔

ii ) پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کا بہتی ہوئی نہروں پر مشتمل کھجوروں اور انگوروں کے باغات کا مالک ہونا۔

iii ) سونے کا مکان کا مالک ہونا۔

یہ ایسی چیزیں ہیں جن کا دعویٰ نبوّت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، کیونکہ اکثر اوقات عام لوگوں کے پاس بھی ان میں سے کچھ چیزیں ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود وہ نبی نہیں ہوتے بلکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس یہ تینوں چیزیں ہوتی ہیں لیکن ان کے بارے میںیہ احتمال دینابھی صحیح نہیں ہے کہ وہ مومن ہوں، چہ جائیکہ وہ خدا کا نبی ہو۔

جب ان چیزوں کا دعویٰ نبوّت سے کوئی ربط نہیں ہے اور یہ اس دعویٰ کی دلیل نہ بن سکیں تو انہیں دلیل کے طورپر پیش کرنا عبث اور بیکار ہوگا، جو ایک نبی و حکیم سے صادر نہیں ہوسکتا۔

۱۵۳

البتہ یہاں ایک توہم ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ اگر یہ تینوں چیزیں عام اور طبیعی اسباب کے ذریعے وجود پذیر ہوں تو کسی نبوّت کی دلیل نہیں بنتیں۔ لیکن اگر غیر معمولی ذرائع سے ان کو ایجاد کیا جائے تو یقیناً یہ معجزہ کہلائیں گی اور نبی کی نبوّت کی دلیل ہوں گی۔

جواب:

یہ بات بذات خود صحیح ہے لیکن مشرکین کا مطالبہ یہ تھا کہ غیر معمولی ذرائع سے یہ کام انجام پائیں بلکہ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ اگر عام ذرائع اور طبیعی اسباب کے ذریعے بھی چشمے بہادیئے جائیں اور باغ وغیرہ کے مالک ہوں تو بھی ان کا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنی جگہ یہ بات بہت بعید اور ناممکن سمجھتے تھے کہ خدا کا رسول ایک فقیر اور نادار آدمی ہو اور اس کے پاس کوئی چیزنہ ہو۔

وہ کہا کرتے تھے:

( وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَـٰذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ ) ۴۳:۳۱

''اور کہنے لگے یہ قرآن دو بستیوں (مکّہ طائف) میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا۔،،

وہ رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے مطالبہ کرتے تھے کہ آپ(ص) کے پاس بہت سا مال ہو اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کی فرمائش یہ تھی کہ بڑے بڑے باغات اور سونے کے گھر کا مالک صرف نبی کو ہونا چاہیے، کسی اور کو نہیں ہونا چاہیے۔

اگر ان کا مقصد یہ ہوتا کہ یہ چیزیں معجزہ یا غیر معمولی طریقے سے وجود میں آئیں تو پھر اس قید کی ضرورت نہیں تھی کہ نبی ہی ان کامالک ہو اور باغات اور سونے کے گھروں میں کا خاص ذکر کرنے کی ضرورت نہ ہوتی بلکہ انگور کا ایک دانہ یا ایک مثقال سونا ایجاد کرلینا ہی نبوّت کے اثبات کے لیے کافی ہونا چاہیے تھا۔

۱۵۴

ان کی اس بات''حتی تفجر لنا من الاءرض ینبوعاً،، (یعنی) ''جب تک آپ(ص) زمین سے چشمہ نہ نکالیں، آپ(ص) پرایمان نہیں لائیں گے،، کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے فائدے کے لیے نبی سے چشمہ نکالنے کا مطالبہ کررہے تھے بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ(ص) اپنے فائدے اور مالدار ہونے کے لیے ان کی درخواست پر ایک چشمہ بہائیں۔

واضح ہے کہ ان دونوں معنوں میں فرق ہے اور اس فرمائش کے مقابلے میں بھی حضور اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اپنے عجز و ناتوانی کا اظہار نہیں کیا جیسا کہ ان لوگوں کا خیال ہے بلکہ''سبحان ربی،، کے ذریعے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس بات سے منزہ ہے کہ اس کی طرف عجز کو نسبت دی جائے اور وہ ہر ممکن کام پر قدرت رکھتاہے کسی کے روبرو ہونے سے منزہ و بالاتر ہے۔ اس کی ذات اس سے بالاتر ہے کہ مشرکین کی فرمائشیں اس پر مسلط کی جاسکیں اور نبی ایک بشر ہے جو امر خدا کے تابع ہے۔ ہر کام پر اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور اللہ تعالی ہی ہے جو چاہے انجام دیتا ہے جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔

جن آیات کریمہ سے قرآن کریم کے علاوہ دیگر معجزات کی نفی پر استدلال کیا گیاہے ان میں سے ایک آیہ کریمہ یہ ہے۔

(لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۖ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّـهِ فَانتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ ) ۱۰:۲۰

''اس پیغمبر پر کوئی معجزہ (ہماری ہی خواہش کے موافق) کیوں نہیں نازل کیا گیا تو (اے رسول) تم کہہ دو کہ غیب (دانی) تو صرف خدا کے واسطے خاص ہے تو تم بھی انتظار کرو اور تمہارے ساتھ میں (بھی) یقیناً انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔،،

۱۵۵

اس آیہ کے ذریعے معجزات کے منکریوں استدلال کرتے ہیں کہ مشرکین نے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے کسی معجزہ یا نشانی کے پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ آپ(ص) نے کوئی معجزہ دکھانے کی بجائے جواب دیا کہ غیب کی خبر خدا ہی سے مختص ہے۔ رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کا یہ جواب اس بات کی دلیل ہے کہ آپ(ص) کے پاس قرآن کریم کے علاوہ او رکوئی معجزہ نہیں تھا۔

اس ضمن میں کچھ اور آیات بھی ہیں جو معانی کے اعتبار سے اس آیہ کریمہ سے ملتی جلتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۗ إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) ۱۳:۷

''اور جو لوگ کافر ہیں کہتے ہیں کہ اس شخص (محمد) پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی (ہماری مرضی کے موافق) کیوں نہیں نازل کی جاتی (اے رسول) تم تو صرف (خوف خدا سے) ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ایک ہدایت کرنے والا ہے۔،،

( وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۚ قُلْ إِنَّ اللَّـهَ قَادِرٌ عَلَىٰ أَن يُنَزِّلَ آيَةً وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ) ۶:۳۷

''اور کفار کہتے ہیں کہ (آخر) اس نبی پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی معجزہ کیوں نہیں نازل ہوتا تو تم (ان سے) کہہ دو کہ خدا معجزے کے نازل کرنے پر ضرور قادر ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ (خدا کی مصلحتوں کو) نہیں جانتے۔،،

۱۵۶

جواب:

اولاً: گذشتہ آیہ کا جو جواب ذکر کیا گیا ہے وہ جواب اس کا بھی بن سکتا ہے ،یعنی مشرکین اور دیگر منکرین آپ(ص) سے یہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ(ص) اپنی نبوّت کا کوئی بھی معجزہ پیش کریں بکہ وہ اپنی طرف سے مخصوصی معجزات کی فرمائش کرتے تھے، جن کی طرف قرآن کریم نے بہت سے مقامات پر واضع الفاظ میں اشارہ کیا ےہ ان میں سے ایک مقام یہ ہے، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

( وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ ۖ ) ۶:۸

''اور (یہ بھی) کہتے ہیں کہ اس (نبی) پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا گیا۔،،

( وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ ) ۱۵:۶

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کفار مکّہ تم سے) کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس کو (یہ سودا ہے) کہ اس پر وحی اور کتاب نازل ہوئی ہے۔،،

( وْ مَا تَأْتِينَا بِالْمَلَائِكَةِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ )

''اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو فرشتوں کو ہمارے سامنے کیوں نہیں لاکھڑا کرتا۔،،

( وَقَالُوا مَالِ هَـٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ ۙ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا ) ۲۵:۷

''اور ان لوگوں نے (یہ بھی) کہا کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس کے پاس فرشتہ کیوں نہیں نازل ہوا تاکہ وہ بھی اس کے ساتھ (خدا کے عذاب سے) ڈرانے والا ہوتا۔،،

( أَوْ يُلْقَىٰ إِلَيْهِ كَنزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا ۚ وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا ) : ۸

''یا (کم سے کم) اس کے پاس خزانہ ہی (آسمان سے) گرا دیا جاتا (اور نہیں تو) اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا تاکہ اس سے کھاتا (پیتا) اوریہ ظالم (کفار مومنوں سے) کہتے ہیں کہ تم لوگ تو پس ایسے آدمی کی پیروی کرتے ہو جس پر جادو کردیا گیا ہے۔،،

۱۵۷

ہم اس سے پہلے بیان کرچکے ہیں کہ معجزات دکھانے کی مشرکین کی فرمائش کو پورا کرنا واجب اور ضروری نہیں تھا اور ان آیات سے مراد فرمائشی معجزات ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اگر ان کا مقصد یہ ہوتا کہ آپ(ص) کوئی ایسی نشانی پیش کریں جو آپ(ص) کی صداقت پر دلالت کرتی ہو تو آپ(ص) قرآن کریم، جس کے مقابلے کا چیلنج کئی مقامات پرکیا گیا ہے، کے ذریعے ان کامطالبہ پورا کرسکتے تھے، ہاں! البتہ استدلال کرنے والے نے جن آیات سے استدلال کیاہے اس سے دو باتیں ضرور ظاہر ہوتی ہیں:

i ) آپ(ص) نے صرف قرآن سے مقابلے کا چیلنج تمام لوگوں کو کیا۔ دوسرے معجزات کی نظیر پیش کرنے کا چیلنج نہیں کیا اور حقیقت بھی یہی ہے اس لیے کہ ابدی و دائمی نبوّت کا تقاضا دائمی معجزہ ہی ہوتا ہے۔ ایسا معجزہ قرآن کریم کے علاوہ دوسرا نہیں ہوسکتا اور دوسرے معجزات کا کوئی پہلو دائمی نہیں تھا۔

ii ) معجزہ پیش کرنا نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے اختیار میں نہیں تھا بلکہ آپ(ص) تو رسول اور معجزے کے اظہار میں حکم خدا کے تابع ہیں اور اس میں کسی کی فرمائش کا بھی دخل نہیں ہے اوریہی چیز تمام انبیاء(ع) کے لیے ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

( وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ ) ۱۳:۳۸

''اور کسی پیغمبر کی یہ مجال نہ تھی کہ کوئی معجزہ خدا کے اذن کے بغیر لا دکھائے ہر ایک وقت (موعود) کے لیے (ہمارے یہاں) ایک (قسم کی) تحریر (ہوتی) ہے۔،،

( وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّـهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ ) ۴۰:۷۸

''اور کسی پیغمبر کی یہ مجال نہ تھی کہ خدا کے اختیار دیئے بغیر کوئی معجزہ دکھا سکے پھر جب خدا کا حکم (عذاب) آپہنچا تو ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا گیا اور اہل باطل ہی اس وقت گھاٹے میں رہے۔،،

۱۵۸

ثانیا: قرآن کریم میں ہی ایسی آیات ہیں جو قرآن کے علاوہ آپ(ص) کے دوسرے معجزات پر دلالت کرتی ہیں۔ ان میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے:

( اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ ) ۵۴:۱

''قیامت قریب آگئی اور چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔،،

( وَإِن يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ )

اور اگر یہ کفار کو ئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو بڑا زبردست جادو ہے۔،،

( وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّـهِ ۘ ) ۶:۱۲۴

''اور جب ان کے پاس کوئی نشانی (نبی کی تصدیق کے لیے) آتی ہے تو کہتے ہیں، جب تک ہم کو خود ویسی چیز (وحی وغیرہ) نہ دی جائے گی جو پیغمبران خدا کو دی گئی ہے، اس وقت تک توہم ایمان نہ لائیں گے۔،،

ان آیات شریفہ میں ''آیہ،، سے مراد معجزہ ہونے کی دلیل یہ ہے: آیہ کریمہ میں ''رویۃ،، کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی دیکھنے کے ہیں۔ اگر اس سے مراد قرآن کریم کی آیات ہوتیں تو اس کے لئے ''سماع،، کا لفظ استعمال کرنا چاہیے تھا جس کے معنی ''سننے،، کے ہیں، نیز اس مطلب کی تائید، آیہ کریمہ میں شق القمر کا ذکر کئے جانے سے بھی ہوتی ہے۔ تیسرا مؤید یہ ہے کہ آیہ کریمہ می ںاس کے لیے ''آنے،، کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ نازل کرنے کا نہیں۔

بلکہ مشرکین کی تعبیر سحر مستمر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آپ(ص) سے بار بار معجزات صادر ہوتے رہتے تھے۔ بفرض تسلیم اگر گذشتہ آیات معجزوں کی نفی پر دلالت بھی کریں تو لامحالہ یہ ان قرآنی آیات کے نزول کے وقت کی بات ہوگی اور ان میں بعد کے زمانے میں معجزات واقع ہونے کی نفی نہیں کی گئی۔

۱۵۹

ہماری مذکورہ بحث کا خلاصہ یہ ہے:

۱۔ قرآنی آیات میں سے کوئی بھی قرآن کریم کے علاوہ دوسرے معجزات کی نفی پر دلالت نہیں کرتی بلکہ بعض آیات ان کے وجود پر دلالت کرتی ہیں، جن کی مخالفین نفی کرتے ہیں۔

۲۔ معجزہ دکھانا رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے اختیار میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔

۳۔ دعویٰ نبوّت میں بس اتنے معجزات دکھانا واجب و لازم ہیں جن سے رسول کی حجت تمام ہوجائے اور رسالت کی تصدیق جن پر موقوف ہو۔ اس سے زیادہ معجزات ظاہر کرنا نہ خدا پر واجب ہے اور نہ رسول پر کہ وہ ہر مطالبہ کرنے والے کے مطالبہ کو پورا کرتے رہیں۔

۴۔ ہر وہ معجزہ جس کے نتیجے میں امت ہلاکت اور عذاب کا شکار ہوتی ہو امت کی فرمائش پر اس معجزے کو پیش کرنا جائز نہیں ہے چاہے امت کے تمام افراد اس کی فرمائش کریں یا بعض۔

۵۔ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کا ابدی معجزہ، جس کا چیلنج قیامت تک کی نسلوں کو کیا گیا ہے، قرآن کریم ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے معجزات، خواہ کتنے ہی ہوں، دائمی و ابدی نہیں ہوسکتے اور اس اعتبار سے نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے دوسرے معجزات گذشتہ انبیاء(ع) کے معجزات کی مانند ہیں جو وقتی تھے۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

۲۱ _ بنى اسرائيل كے مرتدوں كى توبہ كا واقعہ اور اللہ تعالى كے اس فرمان كا اجراء كہ ايك دوسرے كو قتل كريں ايك بہت ہى سبق آموز اور ياد ركھنے والا واقعہ ہے_و اذ قال موسى لقومه فتاب عليكم '' اذ قال ...'' آيت ۴۷ ميں نعمتى پر عطف ہے يعنى '' اذكروا اذ قال ...''

۲۲_ فقط خداوند عالم توّاب ( بہت زيادہ بخشنے والا) اور رحيم ( مہربان) ہے _انه هوالتواب الرحيم

احكام: سزاؤں كے احكام كا خير ہونا ۱۷; فلسفہ احكام ۱۸

اديان: اديان كى تعليمات۱۳

اسماء و صفات: توّاب ۲۲; رحيم ۲۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى خالقيت ۱۶; اللہ تعالى اور ضرر و نقصان ۴; خدائي سزاؤں كا مفيد اور بہتر ہونا ۱۵; اللہ تعالى سے دورى كے اسباب ۵; الہى نعمتيں ۲۰

الوہيت: الوہيت كے معيارات ۱۲

انسان: انسان كا خالق ۱۶; انسانى مصلحتيں ۱۸

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل اور ايك دوسرے كا قتل ۷،۹،۱۴، ۱۹، ۲۱; بنى اسرائيل كى تاريخ ۲،۷،۸،۱۹،۲۱; بنى اسرائيل كى توبہ ۲ ، ۷ ،۱۴; بچھڑے كى پوجا كرنے والوں كى توبہ ۷،۲۰; بنى اسرائيل كى خودكشى ۷،۹، ۱۴ ، ۱۹،۲۱; بنى اسرائيل كى سعادت مندى كى شرائط ۱۴; بنى اسرائيل كا ظلم ۱،۲; بنى اسرائيل كى توبہ كى قبوليت ۲۰;بنى اسرائيل كى سزا۱;گوسالہ پرستوں كى سزا ۱۵; بنى اسرائيل كے گوسالہ پرست ۱۹; بنى اسرائيل كى گوسالہ پرستى ۱،۷; بنى اسرائيل كے مرتد ۹،۱۹، ۲۱; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۲۰

تاريخ: تاريخ سے عبرت ۲۱

تقرب: تقرب كے موانع ۵

توبہ: توبہ كى اہميت ۶،۱۴; توبہ كى مناسبت گناہ كے ساتھ۸; گناہ سے توبہ ۶; توبہ كى كيفيت ۸

حدود الہي: حدود الہى كى قبوليت كى زمين ہموار كرنا ۱۰

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسى كے اوامر ۲; حضرت موسىعليه‌السلام كى

۱۸۱

شريعت كى تعليمات ۱۳; حضرت موسىعليه‌السلام كى خيرخواہى ۱۱۴; حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۲،۹،۱۵

حقيقى معبود: معبود حقيقى كى خالقيت۱۲

خدا كى طرف بازگشت : ۶

خود: خود پر ظلم ۱،۳

دين: دين كا فلسفہ ۱۸

ذكر: تاريخ كے ذكر كى اہميت ۲۱; اللہ تعالى كى خالقيت كا ذكر ۱۵

سزا : سزاؤں كے قوانين كے اجراء كے نتائج ۱۷; سزاؤں كے قوانين كا فلسفہ ۱۷; سزاؤں كے موجبات ۱

سعادت: سعادت كے اسباب ۱۴،۱۷

شرك: شرك كا نقصان ۴; شرك كا ظلم ۳

شرعى ذمہ داري: شرعى ذمہ دارى كے اجراء كى زمين ہموار كرنا ۹

ظلم : ظلم كے موارد ۱،۳

عبادت: غير خدا كى عبادت ۳،۴

عبرت: عبرت كے عوامل ۲۱

عمل: پسنديدہ عمل ۱۰،۱۱

گناہ : گناہ كے نتائج ۵

گناہگار: گناہگاروں كى سعادت كى شرائط ۱۷; گناہگاروں كى ذمہ دارى ۶

مرتد: اديان ميں مرتد كا قتل ۱۳

معبوديت: معبوديت كے معيارات ۱۲

وعظ و نصيحت: وعظ و نصيحت كى شرائط ۱۱; وعظ و نصيحت ميں مہرباني۱۱

يہوديت: يہوديت ميں ارتداد كى سزا ۱۳

۱۸۲

وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ( ۵۵ )

اور وہ وقت بھى ياد كرو جب تم نے موسى سے كہا كہ ہم اس وقت تك ايمان نہ لائيں گے جب تك الله كو علانيہ نہ ديكھ ليں جس كے بعد بجلى نے تم كو لے ڈالا او رتم ديكھتے ہى رہ گئے _

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے آپعليه‌السلام كى رسالت كى تصديق كرنے سے انكار كيا اور آپعليه‌السلام پر ايمان نہ لانے پر تاكيد كى _و اذ قلتم يا موسى لن نؤمن لك '' لن نؤمن لك_ ہم تيرى ہرگز تصديق نہيں كريں گے ''آمن'' لام كے ساتھ استعمال ہو (آمن لہ) يا حرف باء كے ساتھ (آمن بہ ) ايك ہى معنى ركھتاہے_

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے كے بنى اسرائيل نے اللہ تعالى كو ديكھنے كى خواہش كى _لن نؤمن لك حتى نرى الله جهرة

۳ _ بنى اسرائيل نے حضرت موسىعليه‌السلام كى رسالت كى تصديق كے لئے يہ شرط ركھى كہ اللہ تعالى كو واضح طور پر ديكھيں گے(تب ايمان لائيں گے)_لن نؤمن لك حتى نرى الله جهرة

۴ _ بنى اسرائيل محسوسات كے رجحانات ركھتے تھے_حتى نرى الله جهرة

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم آپعليه‌السلام كا انكار كرنے اور ايك بے جا مطالبہ ( اللہ كو ديكھنا ) كرنے كى وجہ سے ہلاك ہوگئي_لن نؤمن لك فاخذتكم الصاعقة '' اخذت '' كا مصدر '' اخذ'' ہے جسكا معنى ہے پكڑنا، لے لينا اور ما بعد كى آيت كے قرينے سے يہ قتل سے كنايہ ہے_

۶ _ آسمانى بجلى حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كى ہلاكت كا موجب بنى _فاخذتكم الصاعقة صاعقہ وہ آسمانى آگ ہے جو شد يد گرج و چمك كے وقت نمودار ہوتى ہے_

۷_ اللہ تعالى كو آنكھوں سے ديكھنا ممكن نہيں ہے_حتى نرى الله جهرة فاخذتكم الصاعقة

۱۸۳

باوجود اس كے كہ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو مختلف طرح كے معجزات دكھائے ، ان كو مخصوص نعمات سے نوازا اور ان كے مختلف مطالبات پورے كيئے ليكن ان كے اللہ كو ديكھنے كى خواہش كو پورا نہ فرمايا بلكہ يہ خواہش انكى سزا كا باعث بنى _ معلوم ہوتاہے كہ يہ خواہش بے جاتھي_

۸ _ اللہ تعالى كو ديكھنے كى خواہش ايك بے جا مطالبہ ہے_حتى نرى الله جهرة فاخذتكم الصاعقة

۹ _ خداوند متعال كو ديكھنے كى خواہش كا نتيجہ سزائے الہى ہے_حتى نرى الله جهرة فاخذتكم الصاعقة

۱۰_ انبيائے الہى كى رسالت كى تصديق نہ كرنا گناہ اور سزائے الہى كا موجب ہے _لن نؤمن لك فاخذتكم الصاعقة

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' اخذتكم ...'' كا ارتباط ''نرى اللہ جھرة'' كے علاوہ '' لن نومن لك'' سے بھى ہو_

۱۱_ گناہ كا عذاب و عقاب دنيا ميں متحقق ہونے كا احتمال پايا جاتاہے_فاخذتكم الصاعقة

۱۲ _ گناہگار دنياوى عقاب ميں مبتلا ہونے سے امن و امان ميں نہيں ہيں اور نہ ہى انہيں اس امان كا احساس كرنا چاہيئے_فاخذتكم الصاعقة

۱۳ _ اللہ تعالى كو ديكھنے كے مطالبے سے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم پر بجلى ( صاعقة) گري_فاخذتكم الصاعقة و انتم تنظرون '' تنظرون_ ديكھتے تھے'' كا مفعول بجلى كا گرنا ہے_

۱۴ _ اللہ تعالى كو ديكھنے كا مطالبہ كرنا ، بنى اسرائيل كا حضرت موسىعليه‌السلام كى باتوں پر يقين كا اظہار نہ كرنا اور ان پر بجلى كا گرنا يہ نہايت سبق آموز اور ياد ركھنے كے قابل و اقعہ ہے_اذ قلتم يا موسى لن نومن لك ...وانتم تنظرون '' اذ قلتم'' آيت نمبر ۴۷ ميں نعمتى پر عطف ہے يعنى مطلب يوں ہے ''اذكروا اذ قلتم ''

۱۵ _ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا:''ان كليم الله موسى بن عمران لما كلمه الله عزوجل رجع الى قومه فقالوا لن نؤمن لك حتى نسمع كلامه ثم اختار منهم سبعين رجلاً فكلمه الله تعالى ذكره و سمعوا كلامه فقالوا لن نؤمن لك بان هذا الذى سمعناه كلام الله حتى نرى الله جهرة ...'' (۱) جناب موسى ابن عمرانعليه‌السلام سے جب اللہ تعالى نے كلام فرمايا وہ اپنى قوم كى طرف پلٹ كے گئے قوم نے كہا ہم تجھ پر ہرگز ايمان نہ لائيں

____________________

۱) عيون اخبار الرضاعليه‌السلام ج/۱ ص ۲۰۰ ح/۱ باب ۱۵ تفسير برہان ج/ ۱ ص ۲۰۰ ح ۲_

۱۸۴

گے مگر يہ كہ اللہ كا كلام سنيں اس كے بعد حضرت مو سىعليه‌السلام نے اپنى قوم سے ستر ۷۰ افراد كا انتخاب فرمايا ( اور كوہ طور كى طرف روانہ ہوئے) وہاں حضرت موسىعليه‌السلام اللہ تعالى سے ہم كلام ہوئے تو انہوں نے اس كلام كو سنا اور كہنے لگے ہم ہرگز اس بات پر ايمان نہ لائيں گے كہ يہ كلام جو ہم نے سنا ہے اللہ كا ہے مگر يہ كہ ہم اسے آشكارا ديكھيں _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا ديدار محال ہے ۷; اللہ تعالى كا تكلم ۱۵; اللہ تعالى كے ديدار كى درخواست ۲،۸،۱۵; اللہ تعالى كے ديكھنے كى خواہش كى سزا ۹; اللہ تعالى كى سزائيں ۹،۱۰

انبياءعليه‌السلام : انبياء كو جھٹلانے كے نتائج ۱۰; انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے كى سزا ۱۰; انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے كا گناہ ۱۰

بنى اسرائيل: حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے كے بنى اسرائيل ۲; بنى اسرائيل اور حضرت موسىعليه‌السلام كى تصديق ۳; بنى اسرائيل اور اللہ تعالى كا ديدار ۳،۵،۱۳،۱۴; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲،۵،۶،۱۳،۱۴; بنى اسرائيل كا محسوسات كى طرف رجحان ۴; بنى اسرائيل كى خواہشات ۲،۳،۵،۱۳; بنى اسرائيل پر عذاب ۱۴; بنى اسرائيل پر دنياوى عذاب ۱۳; بنى اسرائيل كا كفر ۱،۵; بنى اسرائيل كى ہلاكت ۵،۶

بے جا توقعات : ۸

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسى كى تكذيب ۱۴; حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۱۵; حضرت موسىعليه‌السلام كا اللہ تعالى سے كلام ۱۵

ذكر: تاريخ كا ذكر ۱۴

روايت: ۱۵

سزا: سزا كے موجبات ۹،۱۰

عذاب: بجلى كا عذاب ۶،۱۳،۱۴; دنياوى عذاب ۱۱

كفر: حضرت موسىعليه‌السلام كا كفر ۱،۵

گناہ: گناہ كى دنياوى سزا ۱۱; گناہ كے موارد۱۰

گناہ گار: گناہگاروں كى دنياوى سزا ۱۲; گناہگاروں كو تنبيہ ۱۲

۱۸۵

ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ( ۵۶ )

پھر ہم نے تمھيں موت كے بعد زندہ كرديا كہ شايد اب شكر گزار بن جاؤ _

۱ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو بجلى كے ذريعے ہلاك كرنے كے بعد دوبارہ حيات بخشى _ثم بعثناكم من بعد موتكم

۲ _ دنيا ميں مردوں كے زندہ ہونے كا امكان ہے اور دنياوى زندگى كى طرف دوبارہ رجعت ممكن ہے _ثم بعثناكم من بعد موتكم

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا بجلى سے ہلاك ہونے كے بعد زندہ ہونا ان پر اللہ تعالى كى نعمات ميں سے ايك نعمت تھي_اذكروا نعمتى التى انعمت ثم بعثناكم من بعد موتكم

۴ _ شاكرين كے مقام و درجے پر پہنچنا انسان كے بنيادى فرائض اور اسكى خلقت كے اہداف ميں سے ہے _

ثم بعثناكم من بعد موتكم لعلكم تشكرون شكر و سپا س گزارى كو جو '' بعثناكم'' كے ہدف كے طور پر بيان كيا گيا ہے _ ظاہراً يہ دوبارہ زندگى ملنے سے مخصوص نہيں ہے _ بلكہ خود زندگى كے ہدف كے طور پر بيان ہوا ہے يعنى يہ كہ اللہ تعالى

نے ان لوگوں كو جو بجلى سے ہلاك ہوگئے تھے دوبارہ جو حيات بخشى تو اس لئے تھى كہ دنياوى زندگى ميں شكر گزار بنيں اور شا كرين كے درجے تك پہنچيں _

۵ _ بنى اسرائيل اللہ تعالى كى نعمتوں كے مقابل ناشكرى قوم تھي_لعلكم تشكرون

۶ _ بنى اسرائيل كا ہلاك ہونے كے بعد دوبارہ زندہ ہونا ان ميں شكر و سپاس گزارى كى روح پيدا كرنے اور شاكرين كے مقام تك پہنچنے كيلئے راہ ہموار كرنے كا باعث بنا _ثم بعثناكم لعلكم تشكرون

''لعلكم تشكرون _ ہوسكتاہے تم شكر گزار بن جاؤ '' اس جملے ميں '' لعل'' بنى اسرائيل كے بجلى زدہ افراد كو زندہ كرنے كے ہدف كو بيان كرنے كے علاوہ اس معنى پر بھى دلالت كرتاہے كہ دوبارہ زندہ ہونا ان كى شكر گزارى كا موجب نہيں تھابلكہ اس امر نے ان ميں شكر و سپاسگزارى كى زمين فراہم كى _

۱۸۶

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى نعمتيں ۳

انسان: انسان كى تخليق كا فلسفہ ۴; انسان كى ذمہ دارى ۴

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا دوبارہ زندہ ہونا ۱،۳،۶; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱; بنى اسرائيل كے شكر كى زمين فراہم ہونا ۶; بنى اسرائيل كا كفران نعمت ۵; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۳; بنى اسرائيل كى ہلاكت ۱،۳

رجعت: رجعت كا امكان ۲

شاكرين: شاكرين كے درجات ۴

شكر: شكر كى زمين فراہم ہونا ۶

عذاب: بجلى كا عذاب۱،۳

كفران: كفران نعمت ۵

مردے: دنيا ميں مردوں كا زندہ ہونا ۱،۲

وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِن كَانُواْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ( ۵۷ )

اور ہم نے تمھارے سروں پر ابر كا سايہ كيا _ تم پر من و سلوى نازل كيا كہ پاكيزہ رزق اطمينان سے كھاؤ _ ان لوگوں نے ہمارا كچھ نہيں بگاڑا بلكہ خود اپنے نفس پر ظلم كيا ہے _

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم فرعون اور اسكے لشكر سے نجات پيدا كرنے اور دريا سے گزرنے كے بعد بيابانوں ميں سورج كى شديد گرمى ميں مبتلا ہوگئي_و ظللنا عليكم الغمام

''ظللنا'' كا مصدر '' تظليل '' ہے جسكا معنى ہے سايہ كرنا يہ اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے دريا عبور كرنے كے بعد كسى چھت والى يا سايہ دار جگہ پر قيام نہ كيا پس بيابانوں كا مفہوم يہاں موجود ہے _

۱۸۷

۲ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم پر بادلوں كے ذريعے وسيع سطح پر سايہ كركے انہيں سورج كى جلادينے والى شعاؤں سے بچايا_و ظللنا عليكم الغمام ''غمامة'' كا معنى ہے باد ل اور اسكى جمع ''غمام '' ہے ( لسان العرب) بعض اہل لغت كے نزديك غمامہ كا معنى سفيد بادل ہيں _

۳ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو صحرا عبور كرتے ہوئے ان كى غذا كے لئے ' من و سلوي'' نازل فرمايا_

و أنزلنا عليكم المن والسلوي لغت ميں ''من '' كے معانى ميں سے ايك معنى ميٹھا شربت يا ايك طرح كا ميٹھا گوند ہے _ سلوى كے بارے ميں كہا گيا ہے كہ اس سے مراد بٹيريا سفيد رنگ كا ايك پرندہ ہے_

۴ _ عالم طبيعات اور جہان ہستى كا اختيار اور اسكے تغيرات و تحولات كا اختيار خداوند قدوس كے دست قدرت ميں ہے _و ظللنا عليكم الغمام و أنزلنا عليكم المن و السلوى

۵ _ بجلى گرنے اور دوبارہ زندہ كئے جانے كے واقعہ كے بعد بنى اسرائيل پر ''من'' و ''سلوى '' نازل ہوا اور انہيں سورج كى گرمى كى حدّت و شدّت سے بادلوں كے وسيع سايہ كے ذريعے نجات دى گئي _ثم بعثناكم و ظللنا عليكم الغمام

جملہ'' ظللنا ...'' كا جملہ '' بعثناكم ...'' پر عطف اس بات كا تقاضا كرتاہے كہ بادلوں كے سايہ كيئے جانے اور '' من و سلوى '' كا واقعہ بجلى گرنے كے واقعہ كے بعد ہوا _

۶ _ بادلوں كا وسيع سايہ اور من و سلوى كا نازل كرنا حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو دكھائے گئے معجزات ميں سے تھا_

و ظللنا عليكم الغمام و أنزلنا عليكم المن والسلوي

۷ _ '' من'' اور ''سلوى '' حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو عطا كى گئي دو پاكيزہ غذائيں تھيں _و أنزلنا عليكم المن والسلوى كلوا من طيبات ما رزقناكم

۸_ ''من اور سلوى '' اور پاكيزہ و حلال غذاؤں سے استفادہ كرنے كى اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو نصيحت فرمائي_

كلوا من طيبات ما رزقناكم يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' كلوا'' فعل امر ہے

۹_ اللہ تعالى اپنے بندوں كو روزى عنايت كرنے والا ہے_ما رزقناكم

۱۰_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو دريا عبور كرتے ہوئے اور صحرانوردى كرتے وقت پاكيزہ اور ناپاك ( حلال اور حرام ) غذائيں ميسر تھيں _كلوا من طيبات ما رزقناكم يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ لفظ طيبات استعمال ہوا اور اس كو '' ما رزقناكم'' كى طرف اضافت دى گئي ہے_

۱۸۸

۱۱_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے ناپاك اور حرام غذاؤں كے استعمال سے اللہ تعالى كے حكم كى نافرمانى كى _

كلوا من طيبات ما رزقناكم و ما ظلمونا و لكن كا نوا أنفسهم يظلمون حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو ظالم كہنا اس جملہ '' كلوا من طيبات ...'' كے اعتبار سے ہوسكتاہے_ اس صورت ميں يہاں ظلم سے مراد ناپاك اور حرام غذاؤں سے استفادہ ہے _ نيز يہ بھى ممكن ہے ان كو ظالم كہنا ان تمام نعمتوں كے اعتبارسے ہو جن كا ذكر اس آيت اور ماقبل كى آيات ميں ہوا ہے _ پس اس بناپر ان كے ظلم سے مراد اللہ تعالى كى نعمتوں كے مقابل ان كى ناسپاسى اور ناشكرى ہے_ مذكورہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بنياد پر ہے _

۱۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے '' من و سلوي'' سے حرام اور ناجائز فائدہ اٹھاكر گناہ كا ارتكاب كيا اور خود پر ظلم كيا _ *كلوا من طيبات ما رزقناكم و ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون يہ جملہ ''و لكن كانوا ...'' اس معنى پر دلالت كرتاہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے حرام خورى كا ارتكاب كيا _ يہ جملہ چونكہ '' من و سلوى '' كے نزول كے بيان كے بعد ذكر ہوا ہے لہذا يہ اس امر پر قرينہ ہے كہ ان كى حرام خورى كا ايك مصداق '' من و سلوى '' سے ناجائز فائدہ اٹھانا ہوسكتاہے جيسے مثلاً دوسروں كے حصے پر تجاوز كرنا_

۱۳ _ اللہ تعالى كى نعمتوں كے مقابل حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم ناشكرى تھي_ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ اگر جملہ '' ما ظلمونا و لكن ...'' كا ارتباط آيات ميں بيان شدہ نعمات الہى سے ہو_

۱۴ _ اللہ تعالى كى اپنے بندوں كو نصيحت ہے كہ حلال و پاكيزہ نعمتوں اور غذاؤں سے استفادہ كريں _كلوا من طيبات ما رزقناكم

۱۵ _ اللہ تعالى كى نعمتوں كا شكر ادا كرنا بندوں كے ذمے ايك اہم فريضہ ہے_و ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون

۱۶_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كى ناشكرى اور احكام الہى كى نافرمانى بارگاہ اقدس الہى ميں كسى طرح كا كوئي بھى ضرر و نقصان نہ پہنچا سكي_ و ما ظلمونا

۱۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كى ناشكرى اور فرامين الہى كى نافرمانى ايك ايسا ظلم تھا جو انہوں نے خود پر رَوا ركھا_

و ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون

۱۸_ نافرمانى كے نقصان كى بازگشت گناہ گار كى طرف ہے نہ كہ بارگاہ مقدس رب الارباب كى طرف _و ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون

۱۸۹

۱۹_ اللہ تعالى كے فرامين كى مخالفت اور اسكى نعمتوں كى ناشكرى و ناسپاسى ايك ايسا ظلم ہے جو انسان خود اپنے اوپر كرتا _و لكن كانوا أنفسهم يظلمون

۲۰_ ناپاك غذاؤں سے پرہيز كرنا ضرورى ہے _كلوا من طيبات و ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون

۲۱_''عن امير المومنين عليه‌السلام قد اخبر الله فى كتابه حيث يقول و ظللنا عليكم الغمام و أنزلنا عليكم المن والسلوى '' فهذا بعد الموت اذ بعثهم (۱) اس آيہ مجيدہ ''وظللنا عليكم الغمام و أنزلنا عليكم المن والسلوى '' كے بارے ميں امير المومنينعليه‌السلام سے روايت ہے كہ يہ نعمتيں اسوقت تھيں جب اللہ تعالى نے ان كے مرنے كے بعد ان كو دوبارہ زندہ كيا _

۲۲_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''كان ينزل المن على بنى اسرائيل من بعد الفجر الى طلوع الشمس (۲) بنى اسرائيل پر ''من'' طلوع فجر سے لے كر طلوع خورشيد تك نازل ہوتا تھا_

اللہ تعالى : اللہ تعالى سے مختص امور۴; اللہ تعالى كو نقصان

پہنچانا ۱۶،۱۸; اللہ تعالى كى نصيحتيں ۸،۱۴; اللہ تعالى كى رزاقيت ۹; اللہ تعالى كى عنايات ۷

انسان: انسان كى ذمہ دارى ۱۵

بادل: بادلوں كا سايہ ۲

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا گرمى ميں مبتلا ہونا ۱; بنى اسرائيل كا زندہ ہونا ۵،۲۱; بنى اسرائيل صحرا ميں ۳،۱۰; بنى اسرائيل اور سلوى كا كھانا ۱۲; بنى اسرائيل اور منّ كا كھانا ۱۲; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲،۳،۵، ۸،۱۰،۱۲; بنى اسرائيل كى حرام خورى ۱۱،۱۲; بنى اسرائيل كى غذائيں ۳; بنى اسرائيل كا رزق ۷; بنى اسرائيل پر سايہ ۲،۵،۶; بنى اسرائيل پر بجلى كا گرنا ۵; بنى اسرائيل كا طعام ۱۰; بنى اسرائيل كا ظلم ۱۲ ، ۱۷; بنى اسرائيل كى نافرمانى ۱۱،۱۲،۱۶،۱۷; بنى اسرائيل كا كفران ۱۳،۱۶،۱۷; بنى اسرائيل كى نجات ۱،۲،۵; بنى اسرائيل پر بٹيروں كا نزول ۳; بنى اسرائيل پر ميٹھے شربت كا نزول ۳; بنى اسرائيل پر سلوى كا نزول ۳،۵،۶; بنى اسرائيل پر ''من'' كا نزول ۳،۵،۶،۲۲; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۳،۱۰،۲۱،۲۲

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كا معجزہ۶

خود: خود پر ظلم ۱۲،۱۷،۱۹

____________________

۱) بحارالانوار ج/۳ ص ۵۳ ح ۷۳ ، تفسير برہان ج/۱ ص ۱۰۱ ح ۳_ ۲) مجمع البيان ج/۱ ص ۲۴۴ ، نورالثقلين ج/۱ ص۸۲ ح ۲۰۷_

۱۹۰

رزق : پاكيزہ رزق سے استفادہ ۸; حلال رزق سے استفادہ ۱۴; رزق كا سرچشمہ ۹

روايت: ۲۱، ۲۲

شكر : نعمت كے شكر كى اہميت ۱۵

طيبات: طيبات سے استفادہ ۸،۱۴

عالم آفرينش : عالم آفرينش كے تغيرات كا منبع۴

غذائيں : حرام غذاؤں سے اجتنا ب۲۰

كفران: كفران نعمت كے نتائج ۱۹; كفران نعمت ۱۳

گناہ : گناہ كے نتائج ۱۹; گناہ كا نقصان ۱۸

محرمات: محرمات سے استفادہ ۱۱

نعمت : نعمت سے استفادہ ۱۴

وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُواْ هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُواْ مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَداً وَادْخُلُواْ الْبَابَ سُجَّداً وَقُولُواْ حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ ( ۵۸ )

اور وہ وقت بھى ياد كرو جب ہم نے كہا كہ اس قريہ ميں داخل ہوجاؤ اور جہاں چاہو اطمينان سے كھاؤ اور دروازہ سے سجدہ كرتے ہوئے اور حطہ كہتے ہوئے داخل ہو كہ ہم تمھارى خطائيں معاف كرديں گے اور ہم نيك عمل والوں كى جزا ميں اضافہ بھى كرديتے ہيں _

۱_ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو حكم ديا كہ بيت المقدس كو آباد كرنے كے لئے وہاں داخل ہوجائيں _و إذ قلنا ادخلوا هذه القرية

لغت ميں '' قرية'' كا معنى ديہات اور شہر بھى آياہے قرآن كريم ميں بھى دونوں معانى ميں استعمال ہوا ہے _ اب چونكہ كوئي قرينہ نہيں ہے كہ كس معنى ميں استعمال ہوا ہے لہذا '' آبادي'' كا مفہوم لياگياہے اور'' القرية'' ميں الف لام عہد حضورى ہے لہذا ايك خاص خطے كى طرف اشارہ ہے _ بہت سے مفسرين كى رائے يہ ہے كہ اس سے مراد بيت المقدس ہے _

۱۹۱

۲ _ بنى اسرائيل كى صحرائي زندگى كے بعد انہيں بيت المقدس كو اپنے تصرف ميں لانے كا حكم ديا گيا _و ظللنا عليكم الغمام و إذ قلنا ادخلوا هذه القرية

۳_ جب بنى اسرائيل كو بيت المقدس پر تصرف كا حكم ديا گيا تو وہ اس كے نزديك كسى مقام پر تھے_وإذ قلنا ادخلوا هذه القرية يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ اسم اشارہ ''ہذہ'' نزديك كے لئے آتاہے_

۴ _ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے ميں بيت المقدس ايك آباد، نعمتوں سے پرُ اور غذاؤں سے بھر پور سرزمين تھي_

فكلوا منها حيث شئتم رغداً '' رغداً _ پاك ، آسائش سے بھر پور اور خير و بركت سے معمور'' يہ لفظ منہا كى ضمير كے لئے حال واقع ہوا ہے اسكى دليل '' كلوا'' ہے كہ اس سے مراد نعمتوں اور غذاؤں كى فراوانى ہے_

۵_ بيت المقدس كے تمام نقاط سے غذاؤں كا آمادہ كرنا بنى اسرائيل كے لئے حلال اور مباح تھا_فكلوا منها حيث شئتم '' حيث _ جہاں سے چاہو'' يہ اس بات پر دلالت كرتاہے كہ نعمتوں سے استفادہ كے لئے بيت المقدس كے كسى خاص مقام كو معين نہيں كيا گيا _

۶ _ بيت المقدس كے تصرف اور قبضے كے لئے اسكا دروازہ اللہ تعالى كى جانب سے معين كيا گيا راستہ تھا_ادخلوا هذه القرية و ادخلوا الباب

۷_ بيت المقدس پر قبضے كے وقت اللہ تعالى كے حضور خشوع و خضوع كا اظہار بنى اسرائيل كو اللہ تعالى كے فرامين ميں سے تھا_وادخلوا الباب سجّدا ''ساجد'' كى جمع '' سجدا'' ہے اور ''ادخلوا'' كے فاعل كے لئے حال ہے _ داخل ہوتے ہوئے سجدہ كى حالت ميں ہونا يہ اصطلاحى معنى ( خاك پر پيشانى ركھنا ) سے مناسبت نہيں ركھتا پس كہا جاسكتاہے كہ يہاں اس سے مراد اسكا لغوى معنى ہے يعنى خشوع و خضوع_

۸_ بيت المقدس كو تصرف ميں لاتے وقت گناہوں سے توبہ كرنا بنى اسرائيل كو اللہ تعالى كى جانب سے حكم تھا_ادخلوا و قولوا حطة

''حطة'' مبتدائے محذوف مثلاً ''مسألتنا '' كى خبر ہے يہ اسم مصدر ہے اور اسكا معنى ہے ركھنا يا نيچے اتارنا _ جملہ ''نغفر لكم ...'' كے قرينے سے اس سے مراد گناہوں كا اٹھنا يا بخشش ہے _ بنابريں '' قولوا حطة'' يعنى كہو اے اللہ ہمارى درخواست ہمارے گناہوں كى معافى ہے_

۱۹۲

۹ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو ان كے گناہوں كى بخشش كى خوشخبرى دى اس صورت ميں كہ وہ بيت المقدس ميں آداب كا خيال ركھتے ہوئے داخل ہوں _ادخلوا هذه القرية و قولوا حطة نغفر لكم خطاياكم ظاہراً ايسا ہے كہ '' نغفر لكم'' آيہ مجيدہ ميں پيش ہونے والے سارے امور كا جواب ہے_ پس اسكى تقدير يوں بنتى ہے ''ان تدخلوا و تاكلوا و تدخلوا الباب سجداً و تقولوا حطة نغفر لكم''

۱۰ _ بيت المقدس ميں داخل ہونے سے پہلے بنى اسرائيل پر بہت سارے گناہوں كا بوجھ تھا_نغفر لكم خطاياكم يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''خطاياكم'' جمع استعمال ہوا ہے_

۱۱_ انسان كے گناہوں كى بخشش كا اختيار اللہ تعالى كے پاس ہے _نغفر لكم خطاياكم

۱۲ _ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں استغفار گناہوں كى بخشش كا موجب بنتى ہے _و قولوا حطة نغفر لكم خطاياكم

۱۳ _ اللہ تعالى كے فرامين كا اجراء گناہوں كى بخشش كى زمين فراہم كرتاہے_و ادخلوا الباب سجدا نغفر لكم خطاياكم

۱۴ _ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں توبہ و استغفار كے لئے ضرورى ہے كہ پروردگار كى جانب سے ديئے گئے احكام و آداب پر عمل كيا جائے_و قولوا حطة نغفر لكم خطاياكم

۱۵_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم ميں پاك دامن اور اچھے كردار كے لوگ موجود تھے_و سنزيد المحسنين

'' المحسنين _ نيك لوگ'' ،ہوسكتاہے كہ يہ لفظ بنى اسرائيل كے دوسرے گروہ كے بارے ميں ہو اور يہ مطلب جملہ '' نغفر لكم خطاياكم'' سے سمجھ ميں آتاہے يعنى يہ كہ بنى اسرائيل كے دو گروہ تھے ايك گروہ گناہگاروں كا تھا جس كى طرف ''نغفر لكم خطاياكم'' كے ذريعے اشارہ كيا گيا ہے اور دوسرا گروہ پاك دامن افراد كا تھا اور ''المحسنين'' اسى كو بيان كررہاہے_

۱۶ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كے پاك دامن اور نيك افراد كو اگر انہوں نے بيت المقدس ميں داخل ہونے كے آداب كا خيال ركھا تو ايك عظيم اجر عنايت كرنے كى خوشخبرى دى ہے _قولوا حطة نغفر لكم خطاياكم و سنزيد المحسنين

۱۷_ اللہ تعالى كے احكامات كى اطاعت كرنے والے لوگ اگر نيك ہوئے تو انہيں دوسروں كى نسبت زيادہ اجر ملے گا _

و سنزيد المحسنين

۱۸ _ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے كے بنى اسرائيل كا بيت

۱۹۳

المقدس ميں وارد ہونے والا واقعہ سبق آموز اور ياد ركھنے كے قابل ہے _إذ قلنا ادخلوا و سنزيد المحسنين

جملہ ''اذ قلنا ...'' ، نعمتي( آيت ۴۷) پر عطف ہے يعنى ''اذكروا إذ قلنا ...'' اس وقت كو ياد كرو جب ہم نے حكم ديا ...''

۱۹ _عن الباقر عليه‌السلام قال فى قوله تعالى '' و ادخلوا الباب سجّدا '' ان ذلك حين فصل موسى من أرض التيّه فدخلوا العمران .. .(۱) اللہ تعالى كے اس فرمان '' و ادخلوا كے بارے ميں امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ يہ حكم اس وقت ہوا جب حضرت موسىعليه‌السلام نے سرزمين ''تيہ'' سے نجات حاصل كى اور ايك آباد سرزمين ميں وارد ہوئے_

اجر: اجر كے زيادہ ہونے كى شرائط ۱۶،۱۷

استغفار: استغفار كے نتائج ۱۲; استغفار كے آداب ۱۴; استغفار كى اہميت ۸

اطاعت گزار لوگ: اطاعت گزاروں كا اجر ۱۷

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى بخشش ۱۱; اللہ تعالى سے مختص امور ۱۱; اوامر الہى ۱،۲،۷،۸; الہى بشارتيں ۹

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كو بشارت ۹; بنى اسرائيل بيابان ميں ۲; بنى اسرائيل اور بيت المقدس كا تصرف ۲،۳،۶،۷،۸،۱۰; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲،۳،۶،۱۸; بنى اسرائيل كى غذائيں ۵; بنى اسرائيل كى سرگردانى ۱۹;بنى اسرائيل كى بخشش كى شرائط ۹; بنى اسرائيل كا گناہ ۱۰; بنى اسرائيل كے نيك لوگ۱۵،۱۶; بنى اسرائيل كى ذمہ دارى ۷،۸; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۵; بنى اسرائيل كا بيت المقدس ميں داخلہ ۱،۹،۱۶،۱۸

بيت المقدس: بيت المقدس كا آباد ہونا ۱،۴; بيت المقدس حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے ميں ۴; بيت المقدس كى تاريخ ۴،۶; بيت المقدس كا تصرف ۳،۷،۸; بيت المقدس كى غذائيں ۵; بيت المقدس كا دروازہ ۶; بيت المقدس كے تصرف كا راستہ ۶; سرزمين بيت المقدس ۴

تكليف شرعي: تكليف شرعى پر عمل كے نتائج ۱۳

توبہ: توبہ كے آداب ۱۴

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۱۹

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۴۵ ح ۴۸ ، بحار الانوار ج/۱۳ ص ۱۷۸ ح ۸_

۱۹۴

خشوع: خشوع كى اہميت ۷

ذكر: تاريخ كا ذكر ۱۸

روايت:۱۹

عمل: اوامر الہى پر عمل ۱۳،۱۴،۱۷

گناہ : گناہ كى معافى كى زمين ہموار ہونا ۱۳; گناہ كى بخشش كے عوامل ۱۲; گناہ كى بخشش كا سرچشمہ ۱۱

محسنين ( نيك لوگ): محسنين كا اجر ۱۶; محسنين كے درجات ۱۷

فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ قَوْلاً غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ رِجْزاً مِّنَ السَّمَاء بِمَا كَانُواْ يَفْسُقُونَ ( ۵۹ )

مگر ظالموں نے جو بات ان سے كہى گئي تھى اسے بدل ديا تو ہم نے ان ظالموں پر ان كى نافرمانى كى بناپر آسمان سے عذاب نازل كرديا _

۱_ بيت المقدس ميں داخل ہونے سے قبل حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے بعض لوگ ظالم اور گناہ سے آلودہ تھے_

فبدل الذين ظلموا قولاً غير الذى قيل لهم

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے حرام خوروں نے بيت المقدس ميں داخل ہوتے ہوئے اپنے گناہوں كى معافى مانگنے اور ''حطة'' كہنے كى بجائے كچھ اور كہنا شروع كيا _فبدل الذين ظلموا قولا غير الذى قيل لهم ايسا معلوم ہوتاہے كہ''الذين ظلموا'' سے مراد وہ لوگ ہيں جن كو آيت ۵۷ ميں ان كى ناشكرى اور ناپاك غذاؤں سے استفادہ كى وجہ سے ظالم كہا گيا ہے_

۳ _ حرام خورى اللہ تعالى كے فرامين سے بغاوت اور ديگر گناہوں كے ارتكاب كى زمين فراہم كرتى ہے_فبدل الذين ظلموا قولا غير الذى قيل لهم

۴ _ ستم گرى اللہ تعالى كے احكامات سے انحراف كى بنياد

۱۹۵

فراہم كرتى ہے _فبدل الذين ظلموا قولاً غير الذى قيل لهم

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے منحرف اور ستم گر افراد آسمانى عذاب ميں مبتلا ہوئے_فأنزلنا على الذين ظلموا رجزاً من السماء

۶_ اللہ تعالى كے اوامر كو تبديل و تغيير كرنا ظلم ہے اور عذاب كا باعث ہے_فأنزلنا على الذين ظلموا رجزاً من السماء يہاں '' الذين ظلموا'' سے مراد وہ لوگ ہيں جنہوں نے '' حطة '' خدايا تجھ سے گناہوں كى معافى چاہتے ہيں كى جگہ كچھ اور اپنى زبانوں پر جارى كيا _

۷_ بنى اسرائيل كے گناہگاروں پر آسمانى عذاب كا نازل ہونا ان كے پرانے فسق و فجور اور فرمان الہى كو تبديل كرنے كے گناہ كى وجہ سے تھا_فأنزلنا على الذين ظلموا رجزاً من السماء بما كانوا يفسقون ''بما كانوا يفسقون'' ميں باء سببيت اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ آسمانى عذاب كے نزول كا سبب بنى اسرائيل كا ديرينہ فسق تھا_ ان كو ظالم، ستمگر''الذين ظلموا'' كہنا اس بات پر دلالت كرتاہے كہ عذاب ان كے ظلم كى وجہ سے ہوا اور يہ ظلم فرمان الہى كى تبديلى تھا بنابريں كہا جاسكتاہے كہ بنى اسرائيل كے ظلم و ستمگرى كے ساتھ ساتھ ان كا پرانا فسق ان پر عذاب كا باعث بنا _

۸ _ اللہ تعالى كى طرف سے متعين شدہ اذكار اور متون كو تبديل كرنے سے اجتناب كرنا چاہيئے_فبدل الذين ظلموا قولاً غير الذى قيل لهم

۹_ فسق كا گناہ كرنے والوں كے لئے دنياوى عذابوں ميں مبتلا ہونے كا خطرہ موجود ہے_فأنزلنا على الذين ظلموا رجزاً من السماء بما كانوا يفسقون

۱۰_ الہى فرامين سے بغاوت اور انحراف ظلم ہے _فبدل الذين ظلموا قولا غير الذى قيل لهم

۱۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے كچھ لوگ بڑے عرصے سے فاسق اور فسادى افراد تھے_بما كانوا يفسقون

'' بما كانوا ...'' ميں باء سببية كى ہے اور '' ما'' مصدرية ہے _ فعل مضارع پر جب ''كان'' آجائے تو زمانہ ماضى ميں استمرار پر دلالت كرتاہے_

۱۲ _ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے ''و اما الذين ظلموا'' فزعموا حنطة حمراء فبدلوا ...(۱) اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم كيا '' انہوں نے جان بوجھ كر لفظ ''حطة' ' كو ''حنطة حمراء سرخ گندم ''ميں تبديل كرديا_

____________________

۱) بحار الانوار ج/ ۱۳ ص ۱۷۸ ح ۸ ، الدرالمنثور ج/۱ ص ۱۷۳_

۱۹۶

اذكار: اذكار ميں تحريف سے اجتناب ۸

استغفار: استغفار كى اہميت ۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے عذاب ۶

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كى تاريخ ۲،۵; بنى اسرائيل كى تحريف ۷; بنى اسرائيل كے حرام خور ۲; بنى اسرائيل كو استغفار كا حكم ۲; بنى اسرائيل كے ظالم ۱،۱۲; بنى اسرائيل كے فاسقين ۱۱; بنى اسرائيل كا فسق ۷،۱۱; بنى اسرائيل كا انجام ''سزا'' ۷; بنى اسرائيل كے ظالموں كا انجام ۵; بنى اسرائيل كے معصيت كاروں كا انجام ۵; بنى اسرائيل كے گناہ گار ۱،۷; بنى اسرائيل كا بيت المقدس ميں داخل ہونا ۲

تحريف: تحريف سے اجتناب ۸; اوامر الہى كى تحريف ۶; تحريف كا ظلم ۶; تحريف كى سزا ۶،۷

حرام خوري: حرام خورى كے نتائج ۳

روايت: ۱۲

ظلم : ظلم كے نتائج ۴; ظلم كے موارد ۶،۱۰

عذاب: آسمانى عذاب ۵،۷; دنياوى عذاب ۵،۹; عذاب كے موجبات ۶

فاسقين : فاسقين كو دنياوى عذاب ۹

فسق: فسق كى سزا ۷

گناہ: گناہ كى بنياد۳

گناہ گار لوگ: گناہگاروں كو دنياوى عذاب ۹گناہگاروں كو تنبيہ ۹

نافرمان لوگ: ۵

نافرماني: نافرمانى كى بنياد۳،۴; نافرمانى كا ظلم ۱۰; اللہ تعالى كى نافرمانى ۳،۴،۱۰

۱۹۷

وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْناً قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ كُلُواْ وَاشْرَبُواْ مِن رِّزْقِ اللَّهِ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِي الأَرْضِ مُفْسِدِينَ ( ۶۰ )

اور اس موقع كو ياد كرو جب موسى نے اپنى قوم كے لئے پانى كا مطالبہ كيا تو ہم نے كہا كہ اپنا عصا پتھر پر مارو جس كے نتيجہ ميں بارہ چشمے جارى ہوگئے اور سب نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان ليا اب ہم نے كہا كہ من و سلوى كھاؤ اور چشمہ كا پانى پيئو اور روئے زمين ميں فساد نہ پھيلاؤ_

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم فرعون كے تسلط سے نجات پيدا كرنے اور دريا سے عبور كرنے كے بعد ايسى سرزمين ميں گھومتى پھرتى رہى جس ميں پانى كى شديد قلت تھي_و اذ استسقى موسى لقومه

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے درخواست كى كہ ان كى قوم كو پانى كى قلت سے نجات دلائے_و إذ استسقى موسى لقومه لغت ميں '' استسقائ'' كا معنى ہے پانى طلب كرنا اور شرعى اصطلاح ميں ايك خاص انداز سے اللہ تعالى كى بارگاہ ميں بارش كے لئے دعا كرنا ہے_

۳ _ اللہ تعالى نے پانى كے حصول كے لئے حضرت موسىعليه‌السلام كو حكم ديا كہ اپنا عصا پتھر پر ماريں _فقلنا اضرب بعصاك الحجر '' الحجر'' ميں الف لام ممكن ہے جنس كے لئے ہو پس اس سے مراد ديگر اشياء كے مقابل پتھر ہيں _يہ بھى ممكن ہے كہ الف لام عہد حضورى يا عہد ذہنى كا ہو _ اس صورت ميں اس سے مراد خاص پتھر ہے_

۴_ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى پانى كى درخواست كو بہت جلد قبول فرمايا _فقلنا اضرب بعصاك الحجر

''فقلنا'' كى '' فائ'' اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى دعا اور اسكى قبوليت ميں زمانى فاصلہ نہ تھا_

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام نے اللہ تعالى كے فرمان كے بعد

۱۹۸

بلافاصلہ پانى كى دستيابى كے لئے اپنا عصا پتھر پردے مارا _فقلنا اضرب بعصاك الحجر فانفجرت منه اثنتا عشرة عينا

'' فانفجرت ''كى فاء فصيحہ ہے يعنى ايك مقدر معطوف عليہ كو بيان كررہى ہے _ پس جملے كى تقدير يوں بنتى ہے _ '' فضرب بعصاہ الحجر فانفجرت'' اس جملے كا حذف ہونا گويا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ فرمان الہى و ہى مارنا ہے _

۶_ حضرت موسىعليه‌السلام كا عصا پتھر پر پڑنے سے بارہ ۱۲) چشمے پانى كے پھوٹ پڑے_فانفجرت منه اثنتا عشرة عيناً

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے ميں بنى اسرائيل كے بارہ ۱۲) قبائل تھے_فانفجرت منه اثنتا عشرة عيناً قد علم كل اناس مشربهم انس كى جمع '' اناس'' ہے اور اس سے مراد بنى اسرائيل كے قبائل ہيں '' اثنتا عشرة عيناً'' كے قرينہ سے معلوم ہوتاہے كہ يہ قبائل بارہ تھے_

۸_ پتھر سے پھوٹنے والے بارہ چشموں ميں سے ہر ايك بنى اسرائيل كے ايك مخصوص قبيلے كے لئے تھاقد علم كل اناس مشربهم '' مشرب ' ' پانى پينے نيز اس جگہ كو بھى كہتے ہيں جہاں سے پانى ليا جائے _ البتہ آيہء مجيدہ ميں اس سے مراد پتھر سے پھوٹنے والے چشمے ہيں _

۹_ بنى اسرائيل كا ہر قبيلہ اپنے مخصوص چشمہ سے آگاہ تھا_قد علم كل اناس مشربهم

۱۰_ پتھر سے پھوٹنے والے بارہ چشموں ميں سے ہر ايك پر ايك خاص علامت تھى جس سے ہر چشمہ بنى اسرائيل كے ايك خاص قبيلے سے مربوط تھا_قد علم كل اناس مشربهم اگرخود چشموں پر علامت نہ ہوتى بلكہ چشمہ پھوٹنے كے بعد علامت لگائي جاتى تا كہ ہر ايك چشمہ ايك خاص قبيلے سے مخصوص ہوجائے تو پھر''قد علم كل اناس مشربهم _ ہر قبيلہ نے اپنا چشمہ پہچان ليا'' اسكى جگہ جملہ يوں ہوتا ''علّم بتايا گيا كہ ...''

۱۱ _ قلت كى صورت ميں رزق كى تقسيم اور كوٹہ سسٹم كرنے كى ضرورت ہوتى ہے _فانفجرت منه اثنتا عشرة عينا قد علم كل اناس مشربهم

۱۲ _ معاشرتى اختلافات كى بنيادوں كو جڑ سے اكھاڑنے كى ضرورت ہے*قد علم كل اناس مشربهم ظاہراً ايسا معلوم ہوتاہے كہ پانى كى تقسيم كرنا اور ہر چشمہ كو بنى اسرائيل كے ايك قبيلہ سے مخصوص كرنا اس لئے تھا تا كہ اختلافات اور تنازعات كوروكا جاسكے_

۱۳ _ پتھر سے متعدد چشموں كا پھوٹنا اور ان كى خاص

۱۹۹

خصوصيات حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے لئے پيش كيئے گئے معجزات ميں سے تھے_فانفجرت منه اثنتا عشرة عينا قد علم كل اناس مشربهم

۱۴ _ پانى كى قلت كو دور كرنے كے لئے خداوند قدوس كى بارگاہ ميں دعا و مناجات كرنا ايك اچھا اور لائق تحسين عمل ہے اور دينى قائدين كى ذمہ دارى بھى ہے_و إذ استسقى موسى لقومه

۱۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام كے استسقاء اور پتھر سے چشموں كے پھوٹنے كا واقعہ سبق آموز اور ياد ركھنے كے لائق ہے_

و اذاستسقى موسى لقومه قد علم كل اناس مشربهم '' اذاستسقى '' آيہ مجيدہ ۴۷ ميں '' نعمتي'' پر عطف ہے يعنى''اذكروا إذ استسقى موسى لقومه''

۱۶_ اللہ تعالى كے ديئے ہوئے رزق و روزى سے كھانا پينا حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو اللہ تعالى كى نصيحت تھي_

كلوا و اشربوا من رزق الله

۱۷_ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو اس زمين كى تمام تر وسعتوں ميں فساد و بربادى پھيلانے سے منع فرمايا_و لاتعثوا فى الأرض مفسدين '' لا تعثوا'' كا مصدر'' عثو'' ہے جسكا معنى ہے فساد پھيلانا _

۱۸_ زمين ميں فساد و تباہى پھيلانا ان محرمات ميں سے ہے جن پر بہت تاكيد كى گئي ہے_و لا تعثوا فى الأرض مفسدين

'' مفسدين'' ، '' لاتعثوا'' كے فاعل كے لئے حال ہے '' لا تعثوا'' چونكہ خود فساد و تباہى كى حرمت پر دلالت كررہاہے اس لئے ''مفسدين'' مؤكد حال ہوگا اور اس تكليف شرعى كى تاكيد پردلالت كرتاہے_

۱۹_ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كے ہر قبيلہ كو دوسرے قبيلہ كے كھانے اور پينے والى اشياء كى طرف تجاوز سے منع فرمايا_قد علم كل اناس مشربهم كلوا واشربوا و لا تعثوا فى الأرض مفسدين

ہر چشمے كو بنى اسرائيل كے ايك قبيلے كے ساتھ مخصوص كرنا اور پھر انہيں فساد و تباہى پھيلانے سے منع كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ ہر قبيلے كا دوسرے قبيلے كے حقوق پر تجاوز فساد و تباہى پھيلاناہے پس بنى اسرائيل اس سے اجتناب كريں _

۲۰ _ دوسروں كے حقوق پر ڈاكے ڈالنا اور تجاوز كرنا فساد و تباہى كے مصاديق ميں سے ہے _كلوا وا شربوا و لا تعثوا فى الأرض مفسدين

۲۱ _ اللہ تعالى ہى اپنے بندوں كو رزق و روزى عنايت

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689