البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن0%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی رح
زمرہ جات:

صفحے: 689
مشاہدے: 302139
ڈاؤنلوڈ: 8558

تبصرے:

البیان فی تفسیر القرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 302139 / ڈاؤنلوڈ: 8558
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

۱

البیان فی تفسیر القرآن

مولف: مرجع المسلمین آیت اللہ العظمیٰ السید ابو القاسم الموسوی الخوئی (رح)

مترجم: محمد شفا نجفی

F-۷/۴ اسلام آباد پاکستان

پوسٹ بکس نمبر ۲۴۰۵فون ۸۲۴۲۷۲

۲

عرض مترجم

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمد لله و الصلٰوة علیٰ رسول الله و علیٰ اٰله اٰل الله واللعن الابدی علی اعدائهم اعداء الله

ازل سے حق اور باطل کی جنگ جاری ہے حق کی بالا دستی اور باطل کی شکست قدرتی اور فطری امر ہے۔ باطل کا یہ شیوہ رہا ہے کہ جب تک اس کی قدرت و توانائی ساتھ دے وہ مثبت طریقے سے حق سے نبرد آزما رہتا ہے ارو دلائل کے زور پر حق کو شکست دینے کی کوشش کرتا ہے اور جب مثبت طریقے سے حق کا مقابلہ اور اس کی مزاحمت سے عاجز آجاتا ہے تو اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے منفی طریقہ اپنا لیتاہے اور حق پر بے بنیاد الزامات اور بہتان تراشیوں کا سہار لیتا ہے مگر

( وَيَأْبَى اللَّـهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ) (۱)

اور خدا اس کے سوا کچھ مانتا ہی نہیں کہ اپنے نور کو پورا کرکے ہی رہے اگر چہ کفار برا مانا کریں۔

____________________

(۱) ۹ : ۳۲

۳

مذہب اسلام بالعموم اور مکتب تشیع بالخصوص اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں۔ جب دشمنان اسلام، اسلام کے حقیقی مظہر (تشیع) کی حقانیت اور اس کے ناقابل تردید اصولوں کے مقابلے کی تاب نہ لا سکے تو اس مکتب کو مختلف الزامات اور تہمتوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ کسی نے اس مکتب کے پیروکاروں کو پروردہئ یہود کا نام دیا تو کسی نے انہیں عبد اللہ بن سبا جیسے موہوم شخص کے پیروکار قرار دیا۔ کوئی انہیں منکرِ قرآن قرار دینے لگا تو کوئی ان کے شعائر کی تعظیم کو شرک سمجھنے لگا۔

ایسی صورت میں مدافعین حق کا فرض بنتا ہے کہ اس یلغار کے مقابلے کے لیے میدانِ عمل میں اترآئیں اور حق کی حقانیت کو ثابت کرکے باطل کے ہتھکنڈے کو تارِعنکبوت کی طرح تار تار کردیں۔

اہلِ قلم، دانشمندان اور محققینِ کرام نے اپنے اس فرض کو نبھایا اور اپنی تالیفات و تصنیفات کے ذریعے ان الزامات کا جواب دیا۔

ان تمام مؤلفین او ر مصنفین کی زحمات بذاتِ خود قابلِ قدر و تحسین ہیں۔ مگر مرجعِ جہانِ تشیع زعیمِ حوزہئ علمیہ نجف اشرف علیٰ مشرفھا التحی ۃ و السلام آیۃ اللہ العظمیٰ السید ابو القاسم الموسوی الخوئی دام ظلہ، کی زیرِ نظر کتاب البیان فی تفسیر القرآن کو اپنی جامعیت اور پختگی کے اعتبار سے ان تمام تالیفات کے مقابلے میں وہی نسبت حاصل ہے جو اس کتاب کے مؤلف کو دیگر مؤلفین کے مقابلے میں حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دور حاضر میں جو بھی تفسیر اور علوم قرآن پر قلم اٹھاتا ہے اس کی کتاب میں اس کتاب البیان فی تفسیر القرآن کی کوئی نہ کوئی جھلک ضرور نظر آتی ہے۔

۴

اس علمی سرمایہ کی جامعیت اور امتیاز کے پیشِ نظر جامعہ کے پرنسپل حجۃ الاسلام شیخ محسن علی نجفی نے یہ زریں تجویز پیش کی کہ اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کرکے جہاں، اہل تشیع پر عائد الزامات کا جواب دیا جائے وہاں اس ترجمے کے ذریعے علم اور اردو دان اہل مطالعہ کی خدمت کی سعادت بھی حاصل کی جائے ۔ چنانچہ انہوں اس بار گراں کو حقیر کے ناتواں دوش پر رکھ دیا و حملہ الانسان اور آیۃ العظمیٰ السید الخوئی دام ظلہ کے فرزند ارجمند حجۃ الاسلام و المسلمین سید محمد تقی خوئی سے اس کام کی تائید حاصل کرنے کے بعد اس کتاب کے ترجمہ کا آغاز کیا گیا اور حجۃ الاسلام حاج شیخ محسن علی نجفی کے زیر نظر اصل کتاب سے تطبیق کے بعد قارئین کی خدمت میں اسے پیش کیا جا رہا ہے۔

اس علمی شاہکار کے ترجمے کے دوران دقت و تامل میں کوتاہی تو نہیں برتی گئی تاہم ما ابر نفسی. اگر اہل علم، مطالعہ کے بعد کسی اشتباہ کی نشاندہی کریں تو تشکر کے ساتھ آئندہ ایڈیشن میں اس کی اصلاح کی جائے گی ۔

الحمد لله علیٰ منه و توفیه و صل الله علی ممد خیر بریة و علی الاصفیاء من عترته

محمد شفا نجفی

۵

بسم الله الرحمن الرحیم

مقدمہ

حجۃ الاسلام و المسلمین السیدمحمد تقی الخوئی دام مجدہ الشریف

البیان فی تفسیر القرآن

انسان نے اپنی فکری تاریخ کے آغاز سے ہی اپنی حیات کو مقصدیت سے ہمکنار کرنے کی جدوجہد کی ہے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے عیش و عشرت، مال و دولت اور مادی آسائشوں کے حصول کو اپنی حیات کامقصد قرار دے دیا۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیں لیکن نہ صرف وہ لوگ مقصد حیات پانے میں ناکام رہے بلکہ اس مقصد غیر حقیقی تک رسائی حاصل کرنے کی تمام تر کوششوں کو انہوں نے ناپائیدار اور غیر تسلی بخش پایا۔ اس قسم کے مادی نظریات رکھنے والے انسان سے جب مقصد زندگی کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو وہ بیساختہ یہ جواب دیتا ہے کہ میں طبیعت کے ہاتھوں میں ایک کھلونا ہوں۔ وہ جب چاہے مجھے مریض کردے، جب اس کی مرضی ہو مجھے صحت مند کردے، دکھ پہنچائے یا سکھ، کامیابکرے یا ناکام بنائے، میں کچھ دیر تڑپتا ہوں، پھر ساکن ہو کر نیست و نابود ہو جاتا ہوں۔ معلوم نہیں میں کیوں آیا تھا؟ کس لیے تڑپایا گیا تھا؟ اور مجھے کیوں ان حالات سے دو چار کیا گیا؟

۶

قرآنی مکتب

اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا انسان خود کو نہ تو طبیعت کے ہاتھوں میں ایک بے مقصد و بے ارادہ کھلونا تصور کرتا ہے نہ ہی اس دور حیات میں رونما ہونے والے نشیب و فراز کے اسرار و حکمت سے ناآشنا ہے۔ اس نظریاتی انسان کے لیے فنا و زوال کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ جیسا کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا ہے:خلقتم للبقاء لاللفناء

قرآنی انسان کے نزدیک یہ دنیا ارتقائی منازل طے کرنے کے لیے ایک درسگاہ ہے اور قرآن کتاب درس ہے اور انبیاء و اوصیاء (علیھم السلام) اس انسان کے معلم و مربی ہیں۔ لہذا قرآن کا بنیادی مقصد ایک خاص نظریہ کے مطابق انسان کی تربیت ہے۔ چنانچہ اپنی جگہ یہ مسلمہ امر ہے کہ ارتقاء کے لیے تین چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ استعداد، ماحول اور وقت۔ انسان سازی کے اس عمل کے آغاز میں قرآن انسان کو ارتقائی مراحل طے کرنے کے لیے مستعد کرتا ہے اور ایسے ہی مستعد افراد سے مربوط ایک امت کی تشکیل کے بعد ماحول بھی میسر آجاتا ہے۔ اس طرح ایک مدت میں تکامل اور ارتقاء کے تمام ضروری مراحل طے کرلیتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

واعلموا انه لیس علی احد بعد القرآن من فاقة و لا لاحد قبل القراٰن من غنی ۔

آگاہ رہو کہ قرآن (کے نظام کو قائم کرنے) کے بعد کوئی شخص محروم نہیں ہوگا اور قرآن سے پہلے کوئی (حقیقی معنی میں) غنی نہیں ہو سکتا۔

لہٰذا قرآن کے بغیر کسی فرد یا قوم کے لیے ارتقائی منازل طے کرکے مقصد تک پہنچنا قطعا ناممکن ہے۔ کیونکہ قرآن وہ سرچشمہئ حیات ہے کہ جس سے سیرابی کے بغیر کشپ انسانیت ہمیشہ ویران ہی رہے گی۔

قرآن اپنے اندر ایسے بے شمار دلائل و شواھد رکھتا ہے جن سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ کلام، خدا اور رسولِ خدا(ص) کا ابدی معجزہ ہے۔ قرآن کی گہرائی اور اس کی ظاہری و باطنی، تشریعی اور علمی عظمت اس قدر بلند و بالا ہے کہ کوئی باریک بین اور دور اندیش شخص اس کو اپنے دائرہئ نگاہ میں نہیں لاسکتا۔

۷

کیونکہ قرآنی آفاق لامتناہی ہیں۔ قرآننہ مکانی حدود میں محدود ہے نہ زمانی حدود میں، اسی قرآن پر کسی وقتی چیز کا، خواہ وہ موجودہ انسان ہو یا نزول قرآن کے وقت کا انسانی معاشرہ، اثر دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے اندر جو علمی اور فکری خزانے ہیں وہ استخراج اور استفادہ سے کم نہیں ہوتے بلکہ آنے والی ترقی یافتہ نسلوں اور زیادہ با استعدادذہنوں کے لیے شاید اس میں زیادہ علمی و فکری خزانے پوشید ہ ہوں۔ خود قرآن ارشاد فرماتا ہے:

( سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا ۚ)

(النمل : ۹۳)

وہ عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا، تب تم انہیں پہچان لوگے۔

اس طرح آنے والے لوگ قرآن پر زیادہ ایمان لائیں گے۔ چنانچہ اس صدی کے غیر مسلم دانشور گذشتہ صدیوں کے غیر مسلموں کی نسبت قرآن کی عظمت کے زیادہ معترف ہےں اور بقول کسے شاید مغرب کا آئندہ مذہب اسلام ہو۔

یہ بات بھی سب کے لیے عیاں ہے کہ رسول کریم نے کسی بشری مکتب میں تعلیم حاصل نہیں کی، آپ کا ماحول و معاشرہ بھی علمی نہ تھا۔ اس سرزمین کی پوری تاریخ میں کوئی علمی مرکز قائم نہ رہا اور وہ معاشرہ اس زمانے کی تہذیب و تمدن سے بھی عاری تھا۔ حتیٰ کہ اس معاشرے کے افراد آداب خورد و نوش سے بھی نابلد تھے۔ ایسے معاشرے کا ایک فرد قرآن کے نام سے موسوم قیامت تک کے لیے پوری انسانیت کی پیشوائی و رہبری کا آئین لے کر اٹھتا ہے۔۔۔!!

وہ معاشرہ جو مفادات اور طبقاتی تفاوت کے سلسلے میں بدترین مثال پیش کررہا تھا، یکایک اس میں ایک فرد پوری انسانیت کی برابری و برادری کی ایک منفرد آواز بلند کرتا ہے۔

وہ معاشرہ ج وظم، نادانی اور نادری کی ظلمات ثلاث میں ڈوبا ہوا تھا، وہ حق و صداقت کا سرچشمہ ئ علم و فکر کا گہوارہ اور علم و فکر کا گہوارہ، حق و صدارت کا سرچشمہ اور عدل و مساوات کا منبع بن جاتا ہے۔

۸

وہ معاشرہ جو وحشیانہ اقدار کا حامل اور پشماندگی کا شکار ہو کر اقوام عالم سے پیچھے ر ہ گیا تھا، اس معاشرے سے اٹھنے والا انقلاب پوری دنیا میں تمدن کے لیے بنیاد بن گیا۔

غرض قرآن نے اس کرہئ ارض کا نظریاتی نقشہ بدل کے رکھ دیا، مظوم انسان کو نویدنجات سنائی، گویا قرآن نے از سرنو ایک نئی دنیا آباد کی۔

اس عظیم کتاب کی اہمتی کا خلاصہ ایک جلد میں بیان کیا جاسکتا ہے: یہ کتاب استعمار اور دشمنان قرآن کے اشاروں پر لکھنے والے اجرتی اہل قلم کے لیے دندان شکن جواب ہے۔ جو اپنی تمام تر شیطانی طاقتوں کو اس کلام اللہ اور انسان ساز دستور کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی راہ میں صرف کرتے ہیں تاکہ سادہ لوح عوام کو گمراہ اور انسانیت کو اس فیض سے محروم رکھا جاسکے۔

مؤلف کتاب کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ میرے والد گرامی کے تعارف کے لیے بس اتنی بات کا فی ہے کہ وہ ''البیان،، کے مؤلف اور سینکڑوں مجتہدین و محققین کے استاد ہیں، یہ وہ شخصیت ہیں کہ جن کے اکار و نظریات تمام حوزہ ہائے علمیہ و مراکز علمی میں درس و تدریس کا موضوع ہیں اور ان کے شاگردان حوزہ ہائے علیہ کے لیے اساتذہ اور دنیائے تشیع کے لیے مآیہ ناز مفکرّین کا درجہ رکھتے ہیں۔

جامعۃ اہل البیت (علیہم السلام) اسلام آباد پاکستان کے اساتذہ نے حجۃ الاسلام شیخ محسن علی نجفی کی سرپرستی میں اس گوہر گرانبھا کا اردو زبان ترجمہ کرکے اردو بولنے والے طالبان حق پر احسان عظیم کیا ہے۔ میں ان کے اس عمل جلیل کو قابل تحسین سمجھتے ہوئے ان علماء کی کاوشوں کی قدردانی کرتا ہوں اور خدواند عزوجل سے دعا کرتا ہوں کہ وہ سب کو اس دین مقدّس کی خدمت کی توفیق عنایت فرمائے۔

انه ولی التوفیق

۹

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمد لله الذی انزل علی عبده الکتاب و لم یجعل له عوجا قیما لینذر باسا شدیدا من لدنه و یبشر المومنین الذین یعملون الالحات ان لهم اجرا حسنا ما کثین فیه ابدا کتاب احکمت آیاته ثم فصلت من لدن حکیم خبیر لا یاتیه الباطل من بین یدیه و لا من خلفه تنزیل من حکیم حمید ذلک الکتاب لا ریب فیه هدی للمتقین نزله روح القدس من ربک بالحق لیثبت الذیب آمنوا و هدی و بشریٰ للمسلمین ما کان حدیثا یفتری و لکن تصدیق الذین بین یدیه و تفصیل کل شیء و هدی و رحمةلقوم یؤمنون و انه لذکر لک و لقومک و سوف تسئلون

و افضل صلوات الله و أکمل تسلیماته علی رسوله الذی أرسله،، بالهدی و دین الحق لیظهره علی الدین کله و لوکره المشرکوں النبی الامی الذی تجدونه مکتوبا عندهم فی التوراة و الا نجیل یامرهم بالمعروف و ینههم عن المنکر

و علی آله،، المصطفین الخیار الذین آمنوا به و عزروه و نصروه و اتبعوا النور الذی انزل معه اولئک هم الصدیقون و الشهداء عند ربهم لهم اجرهم و نورهم رضی الله عنهم و رضوا عنه اولئک حزب الله الا ان حزب الله هم المفلحون

و اللعنةالدائمة علی أعدائهم،، الذیناشتروا الضلالة باهدیٰ فما ربحت تجارتهم و ما کانوا مهتدین یوم یخرجون من الاجداث سراعا کأنهم الی نصب یوفضون خاشعة ابصارهم ترهقهم ذلة ذلک الیوم الذی کانوا یوعدون یوم لا ینفع الظالمین معذرتهم و لهم العنة و لهم سوء الدار

بچپن ہی سے میں قراءت و تلاوت قرآن کرنے، اس عظیم آسمانی کتاب کی مشکلات حل کرنے اور اس کے حقائق و علمی رموز اور اشارے سمجھنے کا انتہائی شوق و شغف رکھتا تھا، جیسا کہ ہر حقیقی مسلمان بلکہ ہر علم دوست اور حقیقت طلبانسان کو چاہیے کہ وہ قرآن سمجھے، اس کے اسرار و رموز کے انکشافات کو خاص اہمیت دے اور اس کے نور سے روشنی حاصل کرے، کیونکہ قرآن مجید و یگانہ کتاب ہے جو انسانی سعادت اور اصلاح معاشرہ کی ضمانت دیتی ہے، قرآن ایسی کتاب ہے جو مستحکم اور وا'ح ہے اور اس کا فائدہ عمومی ہے، یہ ایسی کتاب ہے جو لغت دانوں کے لیے بہت بڑا مرجع، علماء نحو کے لیے واضح و آشکار رہنما، فقیہ اور عالم دین کے لیے بہترین مدرک اور علمی سند، ادیب کے لیے بولتا ہوا شاہد و دلیل، طالبان حکمت کےلئے واعظ اور ہر خطیب کے لیے، مرشد، علماء اخلاق کا مقصود و مطلوب، غرض ہر دانشمند کے لئے اس کے مخصوص فن (مضمون) کا مستحکم پشتیبان اور واضح دلیل و راہنما ہے۔

۱۰

اجتماعی اور سیاسی علوم، آئین زندگی، انسانی معاشرہ کے جملہمسائل اور معاملات کی سرپرستی کو بہترین اور سادہ طریقے سے قرآن ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ دینی علوم کے مختلف عناوین بھی قرآن ہی کی بنیاد پر قائم ہیں۔ یہ قرآن ہی ہے جس نے جہان آفرینش کے دقیق قوانین و اسرار اور خلقت کے حیرت انگیز رموز پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ قرآن دائمی آئین کے لیے ایک زندہ اور دائمی معجزہ، اعلیٰ ترین آسمانی دین کا منظم پروگرام اور شریعت مقدسہ کا اعلیٰ ترین نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے بچپن ہی سے کلام مجید کی تلاوت کا انتہائی شوق تھا اور اس کے حقائق و مفاہیم کو سمجھنے اور اس کے اہداف و مقاصد سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔

جب بھی قرآن کے رموز و اسرار میں سے کسی رمز یا راز کو دریافت کرنے میں کامیابی حاصل ہوتی یا اس کی مشکلات میں سے کسی مشکل کو حل کرنے کی توفیق حاصل ہوتی تو تلاوت کلام اور اس کا شوق و شغف زیادہ اور دقیق تر ہو جاتا۔ تلاوت کلام اللہ کا یہی شوق باعث بنا کہ میں کتب تفسیر کی طرف رجوع کروں اور باریک بینی و ٹرف نگاہی سے تحقیق کروں۔ مگر اس منزل پر پہنچ کر ایک حیرت انگیز مسئلے سے دوچار ہونا پڑا۔

قرآن مجید اور اس کے بھیجنے والے کی عظمت کے مقابلے میں انسانی تفسیر اور اس کی فکر حقیر نظر آنے لگی۔ حق تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی کے مقابلے میں انسان اپنے آپ کو جتنا بھی حقیر سمجھتا ہے میں اپنے آپ کو اس سے زیادہ حقیر اور ناقص محسوس کرنے لگا مجھے کلام مجید عظیم سے عظیم تر اور اس سے متعلق لکھی جانے والی کتابیں اور تفسیرین حقیر سے حقیر تر نظر آنے لگیں۔

تفسیر کی کتابوں کے مطالعے سے میں اس نتیجے اور حقیقت تک پہنچا کہ بعض حضرات نے اپنی سخت کوششوں کے نتیجے میں کچھ اسرار قرآن کو دریافت کرنے میں کامیابی حاصل کی انہیں علوم قرآن کی کے حقائق کے محتصر سے حصے تک دست رسی حاصل ہوئی ہے اور اسے ایک تکاب کی شکل میں یک جا کرکے اس کانام تفسیر رکھ دیا ہے۔ ان کے خیال میں یہ تفسیر قرآن کی تمام گہراھیوں کا احاطہ اور اس کے تمام اسرار و رموز سے پردہ اٹھانے کے لیے کافی ہے۔

۱۱

حالانکہ ایسی تفیسر کو جامع تفسیر لکھنا عقلی طور پر محال ہے، یہ کیسے ممکن اور قابل تصور ہے کہ محدود اور ناقص انسان اس کامل کتاب کا احاطہ کرسکے جو ایک لامتناہی ذات کی طرف سے اتاری گئی ہے۔

تاہم علمائے کرام اور مفسرین کی زحمات اور کوششیں قابل ستائش و تحسین ہیں اور فعالیت و علمی جہاد کی وجہ سے وہ عند اللہ ماجور ہیں کیونکہ اس مقدس کتاب الہیٰ نے ان کی دلوں پر نور افشانی کی ہے اور ان کے لیے اپنی ہدایت و راہنمائی کا ایک دروازہ کھول دیا۔ کسی بھی انسان سے (خواہ اس کا مبلغ علم کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو) یہ توقع رکھنا بیجا ہے کہ وہ قرآن کے معانی اور اس کے مفاہیم کا مکمل طور پر اور ہر لحاظ سے احاطہ کرسکے، ان مفسرین کرام پر صرف یہی اعتراض ہوسکتا ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کے صرف بعض مباحث اور علوم سے بحث کی ہے اور اس کے اکثر اور ایسے اہم حصوں سے غفلت برتی ہے جو قرآن کی عظمت اور واقعیت (حقیقت) کی نشاندہی کرسکتے تھے۔ مثال کے طور پر بعض مفسرین کرام نے صرف ادبی اعتبار سے اورکچھ نے صرف فلسفی نقطہ نگاہ سے قرآن مجید کو مورد تحقیق قرار دیا اور بعض حضرات نے جدید علوم کی روشنی میں قرآن مجید کی تفسیر کی ہے۔ اس کے باوجود سب مفسر یہی تصور کرتے ہی ںکہ قرآن مجید انہیں کے نقطہ نگاہ کے مطابق نازل ہوا ہے، جو نظریہ یہ حضرات رکھتے ہیں، بعض لوگ توف تفسیر لکھتے ہیں لیکن ان کی کتابوں میں تفسیر کی باتیں بہت کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں جور کچھ لوگ قرآن کی تفسیر اپنے ذاتی یا ایسے افراد کے افکار کی روشنی میں کرتے ہیں، جن کو خدا نے اپنے بندوں کے لئے حجت نہیں بنایا۔ ان میں سے کوئی تفسیر بھی اشکال (اعتراض) سے خالی نہیں، کیونکہ مفسر کا یہ فرض ہے کہ دوران تفسیر وہی راستہ اختیار کرے جس کی طرف آیت کا رخ ہے اور اسی معنی کا انکشاف کرے جس کی طرف آیت کا شارہ ہے اور اسی مطلب کو واضح کرے جس پر آیت دلالت کرے۔ اپنے ذہنی اختراعات اور ذاتی مضمون (جس میں وہ مہارت رکھتا ہو) کا رنگ دیئے بغیر صرف آیات قرآن کو پیش نظر رکھے اور ان آیات کے اشاروں، راہنمائیوں اورفرمان کی روشنی میں تفسیر کرنے کی جراءت کرے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ قرآنی آیات کی تفسیر اور ان کا ترجمہ آیات ہی کی راہنمائی اور رہبری کے مطابق کیا جانا چاہیے، اپنی ذاتی رائے، عقیدے، فکری کشش اور سلیقہ کے طابق تفسیر و ترجمہ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔

۱۲

صحیح مفسر وہ ہے جو قرآن کے فلسفی مباحث میں ایک حکیم و آگاہ فلاسفر اور اخلاقی مسائل میں ایک مضبوط دانشمند ہو۔ قرآن کے فقہی مسائل کو ایک فقیہ اور محقق کی نگاہ اوراس کے اجتماعی مسائل کو ایک تجربہ کار ماہر اجتماعیات کی نگاہ سے دیکھے۔ غرض قرآن کے ہر علم کی تفسیر اسی علم اور اس کے تقاضوں کے مطابق کرے۔۔۔ مفسر وہ ہے جو اس فن کو عیاں کرے جو آیت میں ہنہاں ہے اور اس ادب کو بیان کرے جو الفاظ آیت میں موجود ہے۔ وہ علم، فن اور مضمون سے متعلق وسیع معلومات رکھتا ہو، اور ہر علم و فن کی اسی علم کی روشنی میں تفسیر کرے اور آگے بڑھے اور اس موضوع پر بیسیوں جلدوں پر مشتمل کتاب مرتب کرے اور اسطرح قرآن کی تفسیر میں ایک بہت بڑا دائرۃ المعارف (انسائیکلو پیڈیا) لکھ دے۔۔۔ انہیں وجوہات کی بنا پر میں نے اپنا فرض سمجھا کہ تفسیر قرآن میں ایسی کتاب لکھوں جو حقیقی تفسیر کے نکات اور خصوصیات پر مشتمل ہو، درگاہ خداوندی میں میری دعا ہے کہ مجھے اس مقدس و بلند آرزو تک پہنچنے اور اس عظیم تمنا کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عنایت فرمائے۔ اس مقدس مشن میں میری مدد فرمائے ارومیری لغزشوں کو نظر انداز فرمائے۔

ہم اس تفسیر میں صرف انہی مباحث اور موضوعات سے بحث کریں گے جن کا تعلق قرآن کے معنی سے ہو اور ان مباحث سے صرف نظر کریں گے جن کا تعلق قرآن کے الفاظ، اس کے اعراب اور ادبی علوم سے ہو۔ اس لیے کہ علماء کرام اور مفسرین عظام نے اس قسم کے مباحث متعدد کتابوں میں بیان فرمائے ہیں اور اس کے لیے مزید کسی کتاب کی ضرورت نہیں رہی۔ ان کتابوںمیں شیخ طوسی کی تفسیر تبیان، طبرسی کی مجمع البیان، اور زمخشری کی تفسیر کشاف قابل ذکر ہیں۔ البتہ اگر کسی مقام پر ضرورت پڑی تو ان ادبی نکات کی طرف ضرور اشارہ کریں گے جن سے مفسرین نے غفلت برتی ہے یا ہماری زیر نظر بحث سے اس کا کوئی خاص ربط و تعلق ہے یا وہ موضوع زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

۱۳

اس مقام پر ہم قارئین کرام کی توجہ دو نکتوں کی طرف مبذول کرتے ہیں:

۱۔ اس تفسیر میں ہمارا واحد سہارا اور سند درج ذیل چیزیں ہیں:

الف: آیات قرآنی کے ظواہر۔

ب: قرآن کی محکم اور واضح الدلالت آیات۔

ج: وہ روایات جن کی صحت (تواتر اور کثرت نقل کی وجہ سے مسلم ہو۔

د: وہ احادیث جو صحیح سند کے ذریعے خاندان عترت علیہم السلام سے منقول ہوں۔

ح: وہ فطری عقل جو انحراف اور غلط قسم کی رنگ آمیزیوں سے محفوظ ہو۔ کیونکہ عقل حجت باطنی ہے۔ جس طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کا خاندان گرامی علیہم السلام حجت اور برھان ظاہری ہیں۔

۲۔ ہم اکثر اوقات ایک آیت کی تفسیر کے لیے دوسری آیت کے مفہوم سے استفادہ کریں گے اور قرآن ہی کو اس کے معانی سمجھنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دیں گے۔۔۔ قرآن کو درک کرنے اور اسے سمجھنے کے لیے قرآن سے مدد اور راہنمائی حاصل کریں گے اس روش (طریقے) اور درک کی دلیل کے طور پر اور تائید کے لیے احادیث ذکر کریں گے۔

مقدمہ میں کچھ اہم امور بیان کئے گئے ہیں جو تفسیر کی مباحث سے مربوط ہیں۔ جن سے تفسیر کے بعض تاریک پہلوؤں پر روشنی پڑسکتی ہے۔ جو تفسیر کے سربستہ رازوں کے انکشاف میں مفسر کے افکار کو روشن اور باریک بین کرسکتے ہیں۔ اصل تفسیر کو شروع کرنے سے پہلے جدا جدا ان مباحث پر تحقیق کروں گا اور اسے مقدمہ تفسیر قرآن قرار دوں گا۔ یہ مقدمہ، قرآن سے متعلق بعض علمی اور عمومی مباحث پر مشتمل ہوگا۔۔۔ مثال کے طور پر عظمت قرآن۔۔۔ اعجاز قرآن۔۔۔ قرآن کا تحریف سے محفوظ ہونا۔۔۔ قرآن میں تناقض کا نہ ہونا۔۔۔ احکام قرآن میں نسخ اور اس قسم کے دیگر مباحث جو ایک صحیح اور ٹھوس علمی تفسیر کی اساس اوربنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔۔ خداوند تعالیٰ سے میری یہ دعا ہے کہ اس راہ میں مجھے زیادہ سے زیادہ توفیق عنایت فرمائے اور اس عمل اور خدمت قرآن کو قبول فرمائے۔انه حمید مجید ۔

مولف کتاب

۱۴

فضائل قرآن

تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب

تلاوت قرآن کی فضیلت اور اس کا ثواب

گھروں میں تلاوت کے آثار جو روایات میں مذکور ہیں

قرآن میں غور و خوض اور اس کی تفسیر

۱۵

تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب

جب فضیلت قرآن کی بات آئے تو بہتر ہے کہ انسان توقف اختیار کرے، اپنے آپ کو قرآن کے مقابلے میں حقیر تصور کرے اور اپنی عاجزی اور ناتوانی کا اعتراف کرے، اس لیے کہ بعض اوقات کسی کی مدح میں کچھ کہنے یا لکھنے کی بجائے اپنی عاجزی اور ناتوانی کا اعتراف کرلینا بہتر ہوتا ہے، جو انسان عظمت قرآن کے بارے میں لب کشائی کرنا چاہے بھلا وہ کیا کہہ سکتا ہے؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان (جو ایک ممکن اور محدود چیز ہے) لامتناہی ذات کے کلام کی حقیقت کو درک کرسکے اور اپنے مختصر اور محدود ذہن میں اسے جگہ دے سکے۔

انسان میں وہ کون سی طاقت ہے جس کی بدولت وہ اپنے محدود اور ناقص ذہن میں قرآن کی حقیق قدر و قیمت، منزلت اور حیثیت بٹھا سکے اور پھر بیان کرپائے؟ ایک اہل قلم چاہے کتنا ہی مضبوط ہو، اس سلسلے (فضیلت قرآن) میں لکھ ہی کیا سکتا ہے اور ایک خطیب چاہے وہ کتنا ہی شعلہ بیان ہو، زبان سے کیا ادا کرسکتا ہے کیا ایک محدود انسان محدود چیز کے علاوہ بھی کسی کا وصف بیان کرسکتا ہے؟

۱۶

قرآن کی عظمت کے لےی اتنا کافی ہے کہ یہ خالق متعال کا کلام ہے۔ اس کے مقام و منزلت کے لیے اتنا کافی ہے کہ یہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا معجزہ ہے اور اس کی آیات انسانیت کی ہدایت اور سعادت کی ضمانت دیتی ہیں۔ قرآن ہر زمانے میں زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی راہنمائی کرتا ہے اور سعادت کی ضمانت دیتا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن ہی کی زبان سے سن سکتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّ هَـٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ ) ۹:۱۷

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی ہے۔،،

( كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ) ۱:۱۴

''(اے رسول یہ قرآن وہ) کتاب ہے جس کو ہم نے تمہارے پاس اس لیے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے (کفر کی) تاریکی سے (ایمان کی) روشنی میں نکال لاؤ۔ غرض اس کی راہ پر لاؤ جو غالب اور سزا وار حمد ہے۔،،

( هَـٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ ) ۱۳۸:۳

''یہ (جو ہم نے کہا) عام لوگوں کے لیے تو صرف بیان (واقعہ) ہے (مگر) اور پرہیزگاروں کے لیے نصیحت ہے۔،،

اس سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی روایت منقول ہے جس میں آپ (صلعم) فرماتے ہیں:

''کلام خدا کو دوسروں کے کلام پر وہی فوقیت اور فضیلت حاصل ہے جو خود ذات باری تعالیٰ کو باقی مخلوقات پر ہے۔،،(۱)

یہاں پر اس اس حقیقت کا راز کھل کر سامنے آجاتا ہے جس کا میں نے آغاز کلام میں ہی اعتراف کرلیا تھا، یعنی مناسب یہی ہے کہ انسان قرآن کی عظمت اور اس کی فضیلت میں لب کشائی کی جسارت نہ کرے اوراسے ان ہستیوں کے سپرد کردے جو قرآن کے ہم پلہ اور علوم قرآن میں راسخ اور ماہر ہیں۔ کیونکہ یہ حضرات سب سے زیادہ قرآن کی عظمت اوراس کی حقیقت سے آشنا اور آگاہ ہیں۔

____________________

(۱) بحارالانوار ج ۱۹، ص۶، صحیح ترمذی شرح ابن عربی ج۱۱، ص۴۷، ابواب فضائل۔

۱۷

یہی ہستیاں ہیں جو قرآن کی ارزش (قدر و منزلت) اور صحیح حقیقت کی طرف لوگوں کی رہنمائی فرماتی ہیں۔ یہی ہستیاں فضیلت میں قرآن کی ہمدوش اور ہم پلہ ہیں اور ہدایت و رہبری میں قرآن کی شریک اور معاون و مددگار ہیں۔ ان حضرات کے جد امجد وہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں جنہوں نے قرآن کو انسانیت کے سامنے پیش کیا اور اس کے احکام کی طرف دعوت دی۔۔۔ وہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو قرآنی تعلیمات اور اس کے حقائق کے ناشر ہیں۔ آپ قرآن سے ان حضرات کا تعلق یوں بیان فرماتے ہیں:

''انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللّٰه و عترتی اهل بیتی و انهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض،، (۱)

''میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت و اہل بیت اوریہ ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے حتیٰ کہ حوض کوثر پر یہ میرے پاس پہنچیں۔

پس اہل بیت اور عترت پیغمبر ہی ہیں جو قرآن کے رہنما اور اس کی فضیلتوں سے مکمل آگاہ ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم انہیں کے اقوال پر اکتفاء کریں اور انہیں کے ارشادات سے مستفیض ہوں۔ قرآن کی فضیلت میں بہت سی احادیث ائمہ اطہار سے منقول ہیں، جنہیں مجلسی مرحوم نے کتاب بحارالانوار کی ج ۱۶ میں یکجا فرمایا ہے۔ البتہ ہم صرف چند احادیث پراکتفاء کرتے ہیں۔

حارث ہمدانی فرماتے ہیں:

''میں مسجد میں داخل ہوا تور دیکھاکہ کچھ لوگ بعض (بے فائدہ) باتوں میں الجھے ہوئے ہیں، چنانچہ میں امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ واقعہ آپ کے سامنے بیان کردیا آپ نے فرمایا: ۔۔۔ واقعاً ایسا ہی ہے؟ ۔۔۔ میں نے عرض

___________________

(۱) ترمذی ۱۳/۲۰۰۔۲۰۱ مناقب اہل بیت، سند حدیث کی تفصیل کے لئے کتاب کے آخر میں ضمیمہ نمبر ۱ کی طرف رجوع فرمائیں۔

۱۸

کیا، ہاں یا مولا!۔۔۔ آپ نے فرمایا:... اے حارث! میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:عنقریب فتنے برپاہوں گے۔ میں نے عرض کیا مولا!۔۔۔ ان فتنوں سے نجات حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ آپ نے فرمایا: راہ نجات، کتاب الہی ہے۔ وہی کتاب جس میں گذشتہ اور آنے والی نسلوں کے واقعات اور خبریں اور تم لوگوں کے اختلافی مسائل کے فیصلے موجود ہیں۔ وہی کتاب جو حق کو باطل سے بآسانی تمیز کر سکتی ہے۔ اس میں مذاق اور شوخی کا کوئی پہلو نہیں۔ وہی کتاب جس کو جو جابر و ظالم بادشاہ بھی ترک اور نظر انداز کرے، خدا اس کی کمر توڑ دیتا ہے۔ جو شخص غیر قرآن سے ہدایت حاصل کرنا چاہے خالق اسے گمراہ کر دیتا ہے۔ یہ (قرآن) خدا کی مضبوط رسی اور حکمت آمیز ذکر ہے۔ یہ صراط مستقیم ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے ہوا و ہوس اور خواہشات نفسانی منحرف نہیں کر سکتیں۔ قرآن کی بدولت زبانیں التباس اور غلطیوں سے محفوظ رہتی ہیں۔ علاء اور دانشور اسے پڑھنے اور اس میں فکر کرنے سے سیر نہیں ہوتے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے سن کر جن یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ہم نے عجیب و غریب قرآن سنا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے کہ جو بھی اس کی زبان میں بولے صادق ہی ہوگا اور جو قرآن کی روشنی میں فیصلے کرے گا یقینا عادل ہوگا، جو قرآن پر عمل کرے وہ ماجور ہوگا، جو قران (احکام قرآن) کی طرف دعوت دے وہ صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے۔

۱۹

اس کے بعد امیر المومنین نے حارث ہمدانی سے فرمایا: حارث! اس حدیث کو لے لو اور یاد رکھو۔،،(۱)

اس حدیث شریف میں چند غیر معمولی نکتے ہیںجن میں سے اہم نکتوں کی ہم وضاحت کرتے ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:

''فیه نباء من کان قبلکم و خبرمعادکم ۔،، ''قرآن میں گذشتہ اور آئندہ کی خبریں موجود ہیں۔،،

اس جملے کے بارے میں چنداحتمال دیئے جاسکتے ہیں:

۱: اس کا اشارہ عالم برزخ اور روز محشر کی خبروں کی طرف ہو، جس میں نیک اور برے اعمال کامحاسبہ ہوگا، شاید یہ احتمال باقی احتمالات سے زیادہ قوی ہو۔ چنانچہ اس احتمال کی تائید امیر المومنین کے اس خطبے سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:

''اس قرآن میں گذشتگان کی خبریں، تمہارے باہمی اختلافات کے فیصلے اور قیامت کی خبریں موجود ہیں۔،،(۲)

۲: ان غیبی خبروں کی طرف اشارہ ہو جن کی قرآن نے خبر دی ہے اور آئندہ نسلوں میں بھی رونما ہوں گی۔

۳: ان سے مراد گذشتہ امتوں میں رونما ہونے والے واقعات ہوں جو بعینہ اس امت میں بھی رونما ہوں گے۔ گویا یہ حدیث اس آیہ شریفہ کی ہم معنی ہے:

____________________

(۱) سنن دارمی، ج۲، ص۴۳۵، کتاب فضائل القرآن میں بھی اس طرح سے موجود ہے۔ صحیح ترمذی، ج ۱۱، ص ۳۰،باب فضائل قرآن میں بھی معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ موجود ہے۔ بحار، ج۹، ص ۷ میں تفسیر عیاشی سے منقول ہے۔

(۲) بحار الانوار، ج ۱۹، ص۶۔

۲۰