البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314059 / ڈاؤنلوڈ: 9316
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

تورات و انجیل میں نبوّت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بشارت

قرآن کی متعدد آیات میں وضاحت کی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رسالت کی بشارت دی ہے اور یہ بشارت تورات و انجیل میں مذکورہ ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ ) ۷:۱۵۷

''جو لوگ ہمارے نبی امی پیغمبر کے قدم بقدم چلتے ہیں جس (کی بشارت) کو اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں (وہ نبی) جو اچھے کام کا حکم دیتا ہے اور برے کاموں سے روکتا ہے۔،،

( وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ ) ۶۱:۶

''اور (یاد کرو) جب مریم کے بیٹے عیسی نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس خاد کا بھیجا ہوا (آیا) ہوں (اور) جو کتاب توریت میرے سامنے موجود ہے اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک پیغمبر جن کا نام احمد ہوگا (اور) میرے بعد آئیں گے، ان کی خوشخبری سناتا ہوں۔،،

چنانچہ آپ(ص) کی زندگی میں اور آپ(ص) کی رحلت کے بعد بھی بہت سے یہودیوں اور نصرانیوں نے آپ(ص) کی نبوّت کی تصدیق کی اور آپ(ص) پر ایمان لائے۔ یہ سب اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ آپ(ص) کی دعوت اسلام کے وقت یہ بشارت تورات و انجیل میں موجود تھی اور اگر تورات و انجیل میں آپ(ص) کی نبوّت کی بشارت موجود نہ ہوتی تو یہی بات یہود و نصاریٰ کی طرف سے قرآن مجید کی تکذیب کے لیے کافی تھی اور وہ دعوت اسلام میں آپ کی تکذیب اور آپ کا شدت سے انکار کرسکتے تھے۔

پس ان میں سے اکثر یہودیوں اور نصرانیوں کا آپ(ص) کی زندگی میں اور آپ(ص) کی رحلت کے بعد بھی اسلام لانا اور آپ(ص) کی دعوت کی تصدیق کرنا اس امر کا قطعی ثبوت ہے کہ یہ بشارت تورات و انجیل میں موجود تھی۔

۱۶۱

بنابرایں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) پرایمان لانے کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر بھی ایمان لایا جائے اور اس کے لیے کسی معجزے کی بھی ضرورت نہیں ہے جو آپ(ص) کی نبوّت کی تصدیق کرے۔

ہاں! ان لوگوں کے لیے معجزے کی ضرورت ہے جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) اور ان کی کتب پر ایمان نہ لائے ہوں اور گذشتہ دلائل سے یہ ثابت ہوگیا کہ قرآن مجید نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی نبوّت کا دائمی معجزہ اور حجت الہٰی ہے اور قرآن مجید کے علاوہ دوسرے معجزات گذشتہ انبیاء(ع) کے معجزات سے زیادہ قابل تصدیق ہیں۔

۱۶۲

قاریوں پر ایک نظر

تمہید

٭ ۱۔ عبد اللہ بن عامر دمشقی

٭ ۲۔ ابن کثیر مکّی

٭ ۳۔ عاصم بن بہدلۃ کوفی

٭ ۴۔ ابو عمر و بصری

٭ ۵۔ حمزہ کوفی

٭ ۶۔ نافع مدنی

٭ ۷۔ کسائی کوفی

٭ ۸۔ خلف بن ہشام بزار

٭ ۹۔ یعقوب بن اسحاق

٭ ۱۰۔ یزید بن قعقاع

۱۶۳

تمہید

سات مشہور قراءتوں کے بارے میں لوگوں کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ علماء اہل سنت میں سے بعض کی یہ رائے ہے کہ سب قراءتیں بطور تواتر پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہیں۔ بعض لوگ اس قول کو ان کا مشہور قول قرار دیتے ہیں۔ علامہ ''سبکی،، سے تو یہ قول منقول ہے کہ دس قراءتیں متواتر ہیں۔(۱) بعض علماء اہل سنت تو حد سے بڑھ گئے اور اپنے زعم میں یہ کہا کہ جو یہ کہے کہ ان سات قراءتوں میں تواتر لازم نہیں اس کا یہ قول کفر ہے، اور یہ قول مفتی اندلس ''ابو سعید فرج ابن لب،، سے منسوب ہے۔(۲)

امامیہ کے نزدیک یہ قراءتیں متواتر نہیں ہیں۔ بلکہ بعض قراءتیں تو قاری کے ذاتی اجتہاد کا نتیجہ ہیں اور بعض قراءتیں خبر واحد(۳) کے ذریعے منقول ہیں۔ اس قول کو اھل سنت کے بعض علاء نے بھی اختیار کیا ہے اور بعید نہیں کہ یہ قول ان میں بھی مشہور ہو۔ ہمارے نزدیک یہی قول (قراءت کا متواتر نہ ہونا) صحیح ہے۔

اس مطلب کی تحقیق سے قبل دو چیزوں کا ذکر ضروری ہے:

اوّل: مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کا اس بات پر اتفاق ےہ کہ قرآن مجید صرف تواتر(۴) کے ذریعے ہی ثابت ہوسکتا ہے۔ اس پر بہت سے علماء شیعہ و سنی نے یوں استدلال کیا ہے:

قرآن ایسی کتاب ہے جس کے نقل کئے جانے کے عوامل و اسباب زیادہ ہیں۔ اس لیے کہ یہ دین اسلام کی اساس و بنیاد

____________________

(۱) مناھل العرفان، زرقائی، ص ۴۳۳۔

(۲) ایضا، ص ۴۲۸۔

(۳) خبر واحد وہ خبر ہے جس کو نقل کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ نہ ہو کہ اس سے یقین حاصل ہوسکے۔

(۴) خبر متواتر وہ خبر ہے جسےنقل کرنے والوں کی اتنی کثرت ہو کہ اس خبر کی صداقت کا یقین ہو جائے۔

۱۶۴

کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے نبی کی رسالت پرالہٰی معجزہ ہے اور ہر وہ بات جس کے نقل کیے جانے کے عوامل و اسباب زیادہ ہوں اس کو لازمی طور پر متواتر ہونا چاہیے۔ اس قاعدہ کے تحت جو کلام بھی خبر واحد کے ذریعے نقل کیا جائے گا وہ ہرگز قرآن نہیں ہوسکتا۔

التبہ سیوطی فرماتے ہیں:

قاضی ابوبکر ''انتصار،، میں لکھتے ہیں: ''فقہاء او رمتکلمین کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی آیۃ، خبر واحد، جس کا درجہ خبر مستفیض سے نیچے ہوتا ہے کے ذریعے نقل کی جائے تو اس پر قرآن کا حکم تو جاری ہوگا لیکن اس کا قرآن ہونا یقینی نہیں ہے، مگر اہل حق نے یہ قول پسند کرکے اسے ماننے سے انکار کردیا ہے۔،،(۱)

یہ قول جسے قاضی ابوبکر سے نقل کیا گیا ہے صاف بائل ہے اور اس کی وجہ بھی گزر چکی ہے۔

یعنی نقل قرآن کے عوامل و اسباب وافر مقدار میں ہونے کے باوصف صرف ایک یا دو آدمیوں کے ذریعے نقل ہونا اس خبر کے کذب کی قطعی دلیل ہے۔ چنانچہ اگر ایک یا دو آدمی کسی سربراہ مملکت کے شہر میں آنے کی خبر دیں اور ایسے آدمی کی آمد عام حالات میں لوگوں سے پوشیدہ نہ رہ سکتی ہو تو ایسی خبر کے جھوٹا ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوگا جبکہ اسے دو ہی آدمی نقل کریں۔ جب اس خبر کا جھوٹا ہونا ثابت ہو تو پھر وہ انتظامات کےسے کئے جائیں گے جو ایک سربراہ مملکت کی کسی ملک میں آمد کے موقع پر کئے جاتے ہیں۔

__________________

(۱) الاتقان فی النوع ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۲۴۳، طبع سوم۔

۱۶۵

پس خبر واحد کے ذریعے قرآن کا نقل کیا جانا اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ منقول، کلام الہٰی نہیں ہے اور جب اس کا کذب مسلم ہو تو پھر اس میں موجود احکام پر عمل کیسے ممکن ہے۔

ِبہر کیف مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن اور اس کے کلام الہٰی ہونے کا ثبوت خبر متواتر ہی کے ذریعے مل سکتا ہے۔ نیز اس بیان سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوگئی کہ تواتر قرآن اور عدم تواتر قراءت میں کوئی ملازمہ نہیں پایا جاتا۔ کیو نکہ تواتر قرآن اور تواتر لازمی ہونے کے دلائل سے کبھی تواتر قراءت ثابت نہیں ہوتا اور نہ تواتر قراءت کی نفی سے تواتر قرآن پر کوئی زد پڑسکتی ہے۔

اس کی تفصیل قراءت پر ایک نظر کے ذیل میں بیان کی جائے گی۔

ثانی: عدم تواتر قراءت ثابت کرنے کا بہترین طریقہ خود قاریوں کو پہچاننا اوررایوں اور روایت کے طریقے کو سمجھنا ہے۔

مشہور قاری، سات ہیں۔ ان کے ساتھ تین قاری اور ہیں۔ مجموعی طور پر دس قاری بن جاتے ہیں تین قاریوں کا ذکر ان سات کے بعد کیا جائے گا، اب آپ کے سامنے ایک ایک قاری کے حالات زندگی بیان کئے جاتے ہیں۔

۱۶۶

۱۔ عبد اللہ بن عامر دمشقی

اس کا نام: عبد اللہ بن عامر دمشقی۔ کنیت ابو عمران اور لقب یحصبی ہے۔ اس نے قرآن مغیرہ بن ابی شہاب سے پڑھا۔ ہیثم بن عمران کا کہنا ہے کہ عبد اللہ بن عامر، ولید بن عبد الملک کے دور میں اہل مسجد کا رئیس ہوا کرتاتھا۔ ا سکے خیال میں اس کا تعلق قبیلہئ حمیر سے تھا اور وہ اس کے نسب کو مخدوش سمجھتا تھا۔

عجلی اور نسائی نے اسے ثقہ لکھا ہے ابوعمرو اور دانی لکھتے ہیں:

بلال بن ابی الدرداء کے بعد عبد اللہ بن عامر کو دمشق کی قضاوت کا عہدہ مل گیا تھا۔ اہل شام نے اسے قراءت اور اس کے اختیار میں اس کو اپنا امام بنالیا تھا۔،،(۱)

ابن جزری کہتا ہے:

''قراءت ابن عامر کی سند میں نو اقوال ہیں ان میں سے صحیح قول یہی ہے کہ اس نے مغیرہ کے پاس پڑھاتھا۔،،

بعض کا کہنا ہے:

''یہ معلوم نہیں کہ ابن عامر نے قراءت کس سے پڑھی۔،،

عبد اللہ ابن عامر ۸ھ میں میں پیدا ہوئے اور ۱۱۸ھ میں انہوں نے وفات پائی۔(۲)

عبد اللہ ابن عامر کے راوی دو ہیں، جنہوں نے کئی واسطوں سے اس کی قراءت کی روایت کی ہے اور یہ راوی ہشام اور ابن ذکوان ہیں۔

ہشام: اس کی کنیت ابن عمارہ اور نہ نصیر بن میسرہ کا فرزند ہے۔ اس نے ایوب بن تمیم سے قراءت سیکھی اور پھر اسے اس کے سامنے تصدیق کے لیے پیش کیا۔

____________________

(۱) تہذیب التہذیب، ج ۵، ص ۲۷۴۔

(۲) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۴۰۴۔

۱۶۷

یحییٰ بن معین کا کہنا ہے:''یہ ثقہ ہے،،۔ نسائی کا کہنا ہے: ''اس پر اعتبار کرنے میں کوئی حرج نہیں،، اور دار قطنی کا کہنا ہے:''یہ بڑا جلیل القدر اور راست گو انسان تھا۔،،

یہ ۱۵۳ھ میں پیدا ہوا اور ۲۴۵ھ میں اس کا انتقال ہوگیا۔(۱)

آجری، ابی داؤد سے نقل کرتے ہیں:

''ابو ایوب (سلیمان بن عبد الرحمن) ہشام سے بہتر ہے کیونکہ ہشام نے چار سو احادیث نقل کیں جو کہ سب بے بنیاد ہیں۔،،

ابن وارۃ کا کہنا ہے:

''میں نے ایک زمانے میں فیصلہ کرلیا تھا کہ ہشام کی روایتیں بیان نہیں کروں گا، اس لیے کہ وہ حدیث فروش ہے۔،،

صالح بن محمد کہتا ہے:

''ہشام، حدیث نقل کرنےکے پیسے لیتا تھا اور پیشہ لیے بغیر وہ حدیث نقل ہی نہ کرتا تھا۔،،

مروزی کہتا ہے:

''احمد، ہشام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتا تھا: وہ متلون المزاج، بے وقعت اور گھٹیا آدمی تھا۔ اس کے بعد اس نے لفظ قرآن کا ایک قصہ اس سے نقل کیا اور اس نے برا منایا اور پھر کہا: جو کوئی اس کی اقتداء میں نماز پڑھے اسے اپنی نماز دوبارہ پڑھنی چاہیے۔،،(۲)

مؤلف: اس بات میں اختلاف ہے کہ کن کن راویوں نے اس سے روایت نقل کی ہے، اس کے لیے ''طبقات القرآئ،، وغیرہ کی طرف رجوع کیا جائے۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۳۵۴۔۳۵۶۔

(۲) تہذیب التہذیب، ج ۱۱، ص۵۲۔۵۴۔

۱۶۸

باقی رہا ابن ذکوان: اس کا نام عبد اللہ ابن احمد ابن بشیر ہے۔ کبھی وہ بشیر بن ذکوان بھی کہلاتا ہے، اس نے ایوب بن تمیم سے قراءت سیکھی اور تصدیق کے لیے اسے اس کے سامنے پیش کیا۔

ابو عمرو الحافظ کہتا ہے:

''کسائی جب شام آیا تو ابن ذکوان نے اس سے قراءت سیکھی۔،،

ابن ذکوان ۱۷۳ھ میں روز عاشورہ پیدا ہوا اور ۲۴۲ھ میں اس کا انتقال ہوگیا۔

مؤلف: ہشامکی طرح ذکوان کے ناقلوں کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ کس قسم کے لوگ اس سے قراءت نقل کرتے تھے۔

۱۶۹

۲۔ ابن کثیر مکّی

اس کا نام عبد اللہ بن کثیر بن عمر وبن عبد اللہ بن زاذان بن فیروزان بن ہرمز تھا۔ یہ مکّہ کا رہنے والا، قبیلہئ دار سے تعلق رکھتا تھا اور نسلی اعتبار سے یہ ایرانی تھا۔ کتاب الیتسیر کے مطابق اس نے قراءت عبد اللہ بن سائب سے سیکھی اور اسی کے سامنے تصدیق کے لیے پیش کی۔ چنانچہ حافظ ابو عمرو الدانی وغیرہ اسی نظریے کو قطعی اور یقینی سمجھتے ہیں۔

حافظ (ابوالعلاء الہمدانی) کے نزدیک یہ قول ضعیف ہے اور اس کا کہنا ہے: ''یہ قول ہمارے نزدیک مشہور نہیں ہے۔،،

ابن کثیرنے اپنی قراءت کو ''مجاہدین جبیر،، اور ''ابن عباس،، کے غلام ''درباس،، کے سامنے بھی تصدیق کے لیے پیش کیا۔

ابن کثیر ۴۵ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۲۰ھ میں وفات پاگئے۔(۱)

علی بن مدینی کہتے ہیں:

''ابن کثیر ثقہ تھے،،۔ ابن سعد کا کہنا ہ: ''یہ موثق آدمی ہیں،،۔ ابو عمرو دانی کہتا ہے: ''اس نے قراءت عبد اللہ بن سائب مخزومی سے سیکھی،،۔ لیکن مشہور یہی ہے کہ اس نے قراءت مجاہد سے سیکھی۔(۲)

عبد اللہ بن کثیر کے روای بھی دو ہیں جنہوں نے کئی واسطوں سے اس کی قراءت نقل کی ہے، یہ بزی اور قنبل ہیں۔

بزی: اس کا نام احمد بن محمد بن عبداللہ بن قاسم بن نافع بن ابی بزہ (بشار) ہے۔ اس کا تعلق ایران کے شہر ہمدان سے تھا۔ یہ سائب بن ابی سائب مخزومی کے ہاتھ پر ایمان لایا۔

ابن جزری کہتے ہیں:

____________________

(۱) طبقات القرائ، ص ۴۴۳۔۴۴۵۔

(۲) تہذیب التہذیب، ج ۵، ص ۳۷۔

۱۷۰

''یہ استاد اور محقق تھے اور ان کا حافظہ مضبوط تھا۔،،

یہ ۱۷۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۵۰ھ میں انتقال کرگئے۔(۱)

بزی نے قراءت، ابوالحسن احمد بن محمد علقمہ جو قواس کے نام سے مشہور تھا، ابو اخریط وہب بن واضح مکّی، ابو القاسم عکرمہ بن سلیمان بن کثیر بن عامر مکّی اور عبد اللہ بن زیاد بن عبد اللہ بن یسار مکّی سے سیکھی۔(۲)

عقیلی کہتا ہے:

''وہ (بزی)ناقابل اعتماد تھا۔،،

ابو حاتم کہتا ہے:

''بزی نقل احادیث میں ضعیف ہے اور اس سے روایات نقل نہیں کرتا۔،،(۳)

مؤلف: دوسرے راویوں کی طرح ان کے بارے میں بھی اختلاف ہے جو بزی سے حدیث بیان کرتے ہیں۔

قنبل: اس کا نام محمد بن عبدالرحمن بن خالد بن محمد تھا۔ اس کی کنیت ''ابو عمرو،، تھی اور یہ قبیلہئ بنو مخزوم سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ اسی قبیلے کا آزاد کردہ اور مکّہ کا رہنے والا تھا۔

اس نے قراءت احمد بن محمد بن عون نبال سے سیکھی۔ احمد بن محمد بن عون نبال نے قنبل کو مکّہ میں اپنی جگہ تعینات کیا اور قراءت کی ذمہ داری اسے سوپنی۔ قنبل نے بزی سے بھی قراءت نقل کی ہے۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۱۱۹۔

(۲) النصر فی القرائٰ ت العشر، ج ۱، ص ۱۲۰۔

(۳) لسان المیزان، ج ۱، ص ۲۸۳۔

۱۷۱

آخر کار حجاز میں تعلیم قراءت کی ریاست اس کو نصیب ہوئی۔ مکّہ میں پولیس کے محکمے سے بھی منسلک رہا اور ۹۵ھ میں پیدا ہوا اور ۲۹۱ھ میں وفات پائی۔(۴)

یہ ترقی کرتے کرتے پولیس افسر کے عہدے پر پہنچ گیا۔ جس کی وجہ سے اس کی سیرت و کردار داغدار ہوگیا اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی عادت میں بھی تبدیلی آتی گئی حتیٰ کہ مرنے سے سات سال قبل یہ تعلیم قراءت کا کام بالکل ترک کرچکا تھا۔(۵)

مؤلف: اس کے راوی بھی محل نزاع ہیںکہ یہ کون لوگ تھے۔

۳۔ عاصم بن بہدلہ کوفی

اس کی کنیت، ابو بکر اور نام عاصم بن ابی النجود ہے۔ یہ قبیلہ بنی اسد کا آزاد کردہ اور کوفہ کا رہنے والا تھا۔ اس نے قراءت زربن جیش، ابی عبد الرحمن سلمی اور ابی عمر وشیبانی سے سیکھی اورانہی سے اس کی تصدیق کرائی۔

ابوبکر بن عیاش کہتا ہے:

''عاصم مجھ سے کہا کرتا تھا: مجھے عبد الرحمن سلمیٰ کے سوا کسی او رنے قراءت کا ایک حرف بھی نہیں پڑھایا، میں عبد الرحمن سلمی سے قراءت پڑھتا تھا اور زر کے سامنے پیش کرکے اس سے تائید لیتا تھا۔،،

____________________

۴) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۲۰۵۔

۵) لسان المیزان، ج ۵، ص ۲۴۹۔

۱۷۲

''حفص،، کہتا ہے:

''عاصم نقل کرتا ہے کہ میں تجھے قراءت کی جو تعلیم بھی دی ہے وہ میں نے عبد الرحمن سلمی سے سیکھی ہے اور اس نے یہ علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے سیکھی ہے اور ابوبکر بن عیاش کو میں نے جو قراءت سکھائی ہے اس کا استفادہ زر بن جیش سے کیا ہے اور اس (زر بن جیش) نے ابن مسعود سے قراءت سیکھی ہے۔(۱)

ابن سعد کہتا ہے:

''عاصم معتمد تو تھا مگر اپنے بیان میں غلطیاں زیادہ کرتا تھا۔،،

عجلی کا کہنا ہے:

''وہ صاب سنت و قراءت تھا۔ وہ ثقہ اور قاریان قرآن کا پیشوا اور عثمان کے حامیوں سے تھا۔،،

''عاصم قابل اعتماد آدمی تھا۔ لیکن پھر بھی اس کی باتیں تزلزل سے خالی نہ تھیں۔،

ابن علیہ بھی عاصم پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں:

''حدیث کے راویوں اور ناقلین میں عاصم کا نام جو بھی ہو، اس کا حافظہ کمزور تھا۔،،

نسائی کا کہنا ہے:

''عاصم میں کوئی اور خرابی نہیں۔،،

ابن خراش کی نظر میں:

اس کی حدیث ''قابل ردّ و انکار ہے۔،،

عقیلی کا کہنا ہے:

''اس میں حافظہ کی کمزوری کے علاوہ کوئی اور عیب یا خامی ہیں تھی۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص۳۴۸۔

۱۷۳

دار قطنی کی رائے ہے:

''اس کا حافظہ قابل اعتراض ہے۔،،

حماد بن سلمہ کا کہنا ہے:

''عاصم زندگی کے آخری ایّام میں کھوٹے کھرے میں تمیز نہیں کرسکتا تھا۔،،

عاصم نے ۱۲۷ھ یا ۱۲۸ھ میں وفات پائی۔(۱)

عاصم بن بہدلہ سے دو آدمیوں حفص اور ابوبکر نے بلاواسطہ قراءت نقل کی ہے۔

حفص: اس کے والد کا نام سلیمان اور تعلق بنی اسد سے تھا، وہ عاصم کا پروردہ تھا۔

ذہبی کا کہنا ہے:

نقل حدیث میں اس کا کوئی حافظہ نہیں تھا۔ لیکن قراءت قرآن کے سلسلے میں یہ قابل اطمینان تھا اور یہ قراءت کو صحیح طرح حفظ کرلیتا تھا۔،،

حفص کہتا ہے:

''سورہ روم کے ایک حرف کے علاوہ قراءت میں کسی اور مقام پر میرا عاصم سے اختلام نہیں ہے اور وہ حرف سورہ روم کی آیت ۳:''الله الذی خلقکم من ضعف،، میں ''ض،، ہے میں اسے پیش کے ساتھ پڑھتا تھا جبکہ عاصم اسے زبر کے ساتھ پڑھتا تھا۔،،

حفص کا سال پیدائش ۹۰ھ اور سال وفات ۱۸۰ھ ہے۔(۲)

____________________

(۱) تہذیب التہذیب، ج ۵، ص ۳۹۔

(۲) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۲۵۴۔

۱۷۴

ابن ابی حاتم، عبد اللہ سے اور وہ اپنے باپ سے ناقل ہے:

''حفص متروک الحدیث اور ناقابل اعتماد تھا۔،،

عثمان دارمی وغیرہ ابن معین سے نقل کرتے ہیں:

''حفص قابل اعتماد نہیں تھا۔،،

ابن مدینی لکھتے ہیں:

''حفص نقل حدیث میں کمزور اور ناقابل اعتماد ہے، اسی وجہ سے میں عمداً اس سے حدیث نقل نہیں کرتا۔،،

بخاری فرماتے ہیں:

''ماہرین علم رجال نے اسے ترک کردیا ہے۔،،

مسلم کہتے ہیں:

''حفص متروک آدمی ہے۔،،

نسائی اس کے بارے میں کہتے ہیں:

''حفص قابل اعتماد نہیں تھا اور نہ اس کی احادیث لکھی جاتی ہیں۔،،

صالح بن محمد کا کہنا ہے:

''حفص کی حدیثیں لکھنے کے قابل نہیں، کیونکہ اس کی تمام حدیثیں جھوٹی اور بے بنیاد ہیں۔،،

ابن خراش کا کہنا ہے:

حفص جھوٹا اور متروک الحدیث انسان ہے اور اس کا کام ہی احادیث گھڑنا ہے۔،،

۱۷۵

ابن حیان کا کہنا ہے:

''حفص حدیثوں کی سند تبدیل کردیتا تھا اور جس حدیث کی سند نہ ہوتی اس کی سند خود ہی بنالیتا تھا۔،،

ابن جوزی کتاب ''موضوعات،، میں عبد الرحمن بن مہدی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ حفص کے بارے میں کہا کرتا تھا:

''خدا کی قسم! اس سے کوئی روایت نقل کرنا جائز نہیں ہے۔،،

دار قطنی کا کہنا ہے:

''حفص نقل احادیث میں کمزور ہے۔،،

ساجی کہتا ہے:

''حفص ان افراد میں سے ہے جن کی تمام حدیثیں ختم ہوگئی ہیں اور سوائے چند جھوٹی حدیثوں کے ان کے پاس کچھ نہیں۔،،(۱)

مؤلف: اس کی قراءت کے راویوں کا حال بھی وہی ہے جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے۔ (یعنی یہ مجہول اور گمنام افراد ہیں۔ مترجم)

ابوبکر: اس کا نام شیعہ اور یہ عباس بن سالم حناط کا بیٹھا تھا۔ اس کا تعلق قبیلہ بنی اسد سے ہے اور یہ کوفہ کا رہنے والا تھا۔

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''اس نے تین مرتبہ اپنی قراءت تصدیق کے لیے عاصم کے سامنے پیش کی، اس کے علاوہ عطا بن سائب اور اسلم منقری کے سامنے بھی اپنی قراءت پیش کی۔ شیعہ نے طویل عمر پائی لیکن انتقال سے سات سال (ایک روایت کے مطابق سات سال سے زیادہ) قبل قراءت سے دستبردار ہوگیا تھا۔ یہ قراءت اور احکام میں پیشوا اور عالم باعمل سمجھا جاتا تھا۔ کبھی تو وہ خود کہا کرتا تھا کہ میں نصف اسلام ہوں۔ وہ سنت کا پیشوا تھا۔ مرتے وقت جب اس کی ہمیشرہ رونے لگی تو اس سے کہنے لگا: تمہارے رونے کی کیا وجہ ہے۔ گھر کے اس کونے کی طرف دیکھو جہاں بیٹھ کر میں نے اٹھارہ ہزار مرتبہ قرآن ختم کیا ہے۔،،

____________________

(۱) تہذیب التہذیب، ج ۲، ص ۴۰۱۔

۱۷۶

یہ ۹۵ھ میں پیدا ہوا اور ۱۹۳ھ میں وفات پائی۔ ایک قول کے مطابق ۱۹۴ھ میں وفات پائی۔(۱)

اس کے بارے میں عبد اللہ ابن احمد اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں:

''وہ قابل اعتماد تھے لیکن ان سے غلطیان زیادہ سرزد ہوتی تھیں۔،،

عثمان دارمی اس کے بارے میں کہتے ہیں:

''یہ حدیث کے سلسلے میں کوئی خاص قابل اعتماد نہیں۔،،

ابن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے ابوبکر بن عیاش اور ابو الاحوص کے بارے میں اپنے والد سے سوال کیا تو انہوں نے کہا:

''میں ان میں سے کسی کی تائید نہیں کرتا۔،،

ابن سعد کہتا ہے:

'' وہ سچا اور قابل اعتماد تھا۔ وہ احادیث اور کچھ دوسرے علوم سے آشنا ضرور تھا، مگر اس سے غلطیاں زیادہ ہوتی تھیں۔،،

یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں:

''اس کی حدیث میں تزلزل پایا جاتا ہے۔،،

ابو نعیم کا کہنا ہے:

____________________

(۱) طبقات القراء ج ۱، ص ۳۲۵۔۳۲۷۔

۱۷۷

''ہمارے علماء اور بزرگوں میں ابوبکر سے زیادہ غلطیاں کسی سے بھی سرزد نہیں ہوتی تھیں۔،،

بزاز کہتا ہے:

''ابوبکر کا حافظہ نہیں تھا اور وہ حافظ حدیث نہ تھا۔،،(۱)

۴۔ ابو عمرو بصری

اس کانام زبان بن علا بن عمار مازنی اور یہ بصرہ کا رہنے والا تھا۔ بعض کا خاال ہے کہ یہ نسلاً ایرانی تھا۔ حجاج بن یوسف کے خوف سے فرار ہو کر ابو عمرو اپنے والد کے ہمراہ حجاز آگیا اور مکّہ و مدینہ میں اس نے قراءت سیکھی۔ کوفہ اور بصرہ میں بھی اس نے بہت سے استادوں سے قراءت سیکھی۔ سات مشہور قاریوں میں سے کسی کے بھی اتنے استاد نہ تھے۔

پانچ سو سال تک اہل شام ابن عامر کی قراءت پر عمل کرتے رہے اور بعد میں اس کی قراءت ترک کردی۔ کیونکہ اہل عراق میں سے ایک شخص مسجد اموی میں ابو عمرو کی قراءت کے مطابق قراءت کی تعلیم دیا کرتا تھا اورا س کے درس میں لوگ جمع ہوتے تھے۔ اس کے بعد شام میں ابو عمرو کی قراءت مشہور ہوگئی۔

اصعمی کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے والدابو عمرو کو یہ کہتے سنا ہے:

''میں نے اپنے سے پہلے کسی کو عالم نہیں پایا۔،

___________________

(۱) تہذیب التہذیب، ج ۱۲، ص ۳۵۔۳۷۔

۱۷۸

ابوعمرو ۶۸ھ میں پیدا ہوئے اوربہت سے لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ ۱۵۴ھ میں ان کا انتقال ہوا۔(۱)

دوری، ابن معین سے نقل کرتے ہیں:

''ابوعمرو موثق اور قابل اعتماد انسان تھے۔،،

ابو خیثمہ کہتے ہیں:

''ابو عمرو بن علاء او رکوئی اعتراض تو نہیں تھا لیکن وہ حافظ حدیث نہ تھے۔،،

نصر بن علی جھضمی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ شعبہ نے ان سے کہا:

''ابو عمرو کی قراءت میں دقت اور غور کرو، وہ جس قراءت پر بھی عمل کرے اسے نوٹ کرو۔ کیونکہ وہ مستقبل قریب میں قراءت کا استاد بننے والا ہے۔،،

ابو معاویہ ازہری تہذیب میں نقل کرتے ہیں:

''ابوعمرو قراءت کی اقسام ، الفاظ عرب، عمدہ و نایاب کلام عرب اور فصیح اشعار عرب سے، سب سے زیادہ آشنا تھے۔،،(۲)

ابوعمرو کی قراءت دو راویوں نے یحییٰ بن مبارک کے واسطے سے نقل کی ہے۔ یہ دو راوی ''دوری،، اور ''موسی،، ہیں۔

یحییٰ بن مبارک: ان کے بارے میں ابن جزری کہتے ہیں:

''یہ نحوی قاری، ثقہ اور جلیل القدر عالم تھے۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۲۸۸۔۲۹۲۔

(۲) تہذیب التہذیب،ج ۱۲، ص ۱۷۸۔۱۸۰۔

۱۷۹

یہ بغداد میں داخل ہوئے اور یزیدی کے نام سے شہرت پائی کیوں کہ یہ خلیفہ مہدی عبّاسی کے ماموں یزید بن منصور حمیری سے زیادہ مانوس تھے اور اسی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور اس کے بیٹوں کی تربیت کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی قراءت ابوعمرو کے سامنے پیش کی اور ابوعمرو نےان کو تعلیم قراءت کے لیے اپنا جانشین مقرر کیا۔ انہوں نے ابوعمرو کے علاوہ حمزہ سے بھی قراءت سیکھی، انہوں نے ابوعمرو، دوری اور ابو شعیب سوسی سے قراءت نقل کی ہے۔ یہ قراءت میں صاحب نظریہ تھے اور بعض مقامات پر بعض حروف میں ابوعمرو سے اختلاف رکھتے تھے۔

ابن مجاہد کا کہنا ہے:

''ابوعمرو کے باقی شاگرد یحییٰ سے بہتر ہیں۔ لیکن اس کے باوجود قراءت میں اس پر اس لیے اعتماد کیا جاتا ہے کہ نقل قراءت کے علاوہ ان کا کوئی اور مشغلہ نہ تھا اور ابوعمرو کے شاگردوں میں سب سے زیادہ حافظہ اسی کا تھا۔،،

انہوں نے ۲۰۲ھ میں ۷۴ سال کی عمر میں مرو میں وفات پائی۔ بعض کا کہنا ہے کہ مرتے وقت ان کی عمر نوے سال سے زیادہ سو سال کے لگ بھگ تھی۔(۱)

دوری: اس کا نام حفص بن عمرو بن عبدالعزیز دوری تھا۔ اس کا تعلق قبیلہ ازد سے تھا اور یہ بغداد کا رہنے والا تھا۔

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ ایک قابل اعتماد اور جلیل القدر انسان تھے۔ تمام مطالب اور مسائل حفظ کرلیتے تھے، وہ سب سے پہلے انسان ہیں جس نے مختلف قراءتوں کو جمع کیا۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۳۷۵۔۳۷۷۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

متقدمین اور متاخرین میں اہل تحقیق کا صحیح نظریہ یہی ہے۔ اسی کی امام حافظ ابوعمرو عثمان بن سعید دانی نے تصریح کی ہے۔ امام ابو محمد مکی بن ابی طالب نے متعدد مقامات پر اور امام ابو العباس احمد بن عمار المھدوی نے صاف الفاظ میں اسی نظریہ کو بیان کیا ہے۔ امام حافظ ابو القاسم عبد الرحمن بن اسماعیل المعروف ابی شامہ کی تحقیق بھی یہی ہے۔ یہ وہ نظریہ ہے جس پر گذشتہ علماء کا اتفاق ہے اور اس کا کوئی مخالف دیکھنے میں نہیں آتا۔

۲۔ ابو شامہ اپنی کتاب ''المرشد الوجیز،، میں لکھتے ہیں:

''کبھی بھی ہر اس قراءت جو ان سات قاریوں میں سے کسی ایک کی طرف منسوب ہو، سے فریب نہ کھائیں اور اس پر مہر صحت ثبت نہ کریں اور نہ ہی یہ سمجھیں کہ قرآن اسی قراءت کے مطابق نازل ہوا ہے مگر یہ کہ صحت قراءت کے قواعد و ضوابط اس پر منطبق ہوں اور یہ شرائط صحت پر مشتمل ہو تو پھر اس کا ناقل تنہاایک مصنف نہیں ہوگا بلکہ یہ قراءت اجماعی ہوگی۔ کیونکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ صحت کی شرائط موجود ہیں یا نہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ قراءت کس قاری سے منسوب ہے۔ جتنی قراءتیں بھی ان سات قاریوں یا کسی اور قاری سے منسوب ہیں وہ دو قسم کی ہیں۔

i ) متفق علیہ۔

ii ) شاذ۔

لیکن چونکہ ان سات قاریوں کی شہرت ہے اور ان کی قراءتوں میں صحیح و اجماعی قراءتوں کی کثرت ہے اس لیے دوسروں کی نسبت ان کی قراءتوں پر انسان زیادہ مطمئن ہوتا ہے۔،،(۱)

____________________

(۱) النشر فی القراات العشر، ج ۱، ص ۹۔

۲۰۱

۳۔ ابن جزری کہتے ہیں:

''بعض متاخری نے قراءت کی صحت سند پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس میں تواتر کو شرط قرار دیا ہے۔ ان حضرات کا خیال ہے کہ قرآن خبر متواتر ہی ثابت ہوتا ہے خبر واحد سے نہیں۔ مخفی نہ رہے کہ یہ قول خالی از اشکال نہیں ہے۔ اس لی ےکہ جب کوئی قراءت تواتر سے ثابت ہو تو پھر باقی دو شرطوں لغت عرب اور عثمانی قرآن سے مطابقت کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ جو اختلافی قراءت بطور تواتر پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہوگی اس کو تسلیم کرنا لازمی ہوگا اور اس کے قراّ ہونے کا یقین حاصل ہوگا چاہے باقی شرائط اس میں موجود ہوں یا نہ ہوں اور اگر ہر اختلافی قراءت میں تواتر شرط ہو تو بہت ساری اختلافی قراءتیں جو سات مشہور قاریوں سے منقول ہیں باطل ثابت ہوں گی۔ پہلے میں اس نظریئے کی طرف رحجان اور جھکاؤ رکھتا تھا۔ بعد میں میرے نزدیک اس کا بطلان ثابت ہوا اور میں نے ان موجودہ اور گذشتہ علماء کرام کی رائے کو اپنایا جو تواتر شرط نہیں سمجھتے۔،،

۴۔ امام ابو شامہ اپنی کتاب ''المرشد،، میں فرماتے ہیں:

''متاخرین میں سے بعض اساتذہئ قراءت اور ان کے تابعین میں یہ مشہور ہے کہ قرااءات ہفتگانہ (سات قراءتیں) سب کی سب متواتر ہیں یعنی ان سات قاریوں میں سے ہر ایک کی ہر قراءت متواتر ہے۔ متاخرین مزید کہتے ہیں: اس بات کا یقین رکھنا بھی لازمی ہے کہ یہ قراءتیں اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔ ہم بھی اسی کے قائل ہیں لیکن صرف ان قراءتوں میں جن کی سند نقل میں سب متفق ہوں، تمام فرقوں کا ان پر اتفاق ہو اور ان کا کوئی منکر نہ ہو، جبکہ ان قراءتوں میں اختلافات کثرت سے ہیں اور ان کے منکرین بھی بہت سے ہیں۔ بنابرایں اگر کوئی قراءت تواتر سے ثابت نہیں ہوت تو کم از کم اسے مختلف فیہ بھی نہیں ہونا چاہیے اور اس کا انکار کرنے والے بھی موجود نہیں ہونے چاہیں۔،،(۱)

____________________

(۱) النشر فی القراات العشر،ج ۱، ص ۱۳۔

۲۰۲

۵۔ سیوطی فرماتے ہیں:

''قراءت کے موضوع پر سب سے عمدہ کلام اپنے دور کے امام القراء اور استاذ الاساتید ابوالخیر ابن جزری کا ہے۔ وہ اپنی کتاب ''النشر فی القراءات العشر،، میں فرماتے ہیں: ہر وہ قراءت جو لغت عرب اور عثمانی قرآنوں کے کسی نسخے کے مطابق ہو اور اس کی سند صحیح ہو وہ قراءت صحیح سمجھی جائے گی۔،،

اس کے بعد سیوطی فرماتے ہیں:

''میں تو یہ کہوں گا، ابن جزری نے اس باب میں نہایت مضبوط اور مستحکم بات کہی ہے۔،،(۱)

۶۔ ابو شامہ''کتاب البسملة،، میں فرماتے ہیں:

''ہم ان کلمات میں تواتر کے قائل نہیں جن کے بارے میں قاریوں میں اختلاف ہے کہ بلکہ تمام قراءتوں میں بعض متواتر ہیں اور بعض غیر متواتر اوریہ بات اہل انصاف و معرفت اور مختلف قراءتوں پر عبور رکھنے والوں کے لیے واضح ہے۔،،(۲)

۷۔ بعض علماء فرماتے ہیں:

''آج تک اصولیین میں سے کسی نے بھی تصریح نہیں کی کہ قراءتیں متواتر ہیں البتہ بعضوں نے کہا ہے کہ قراءتیں سات مشہور قاریوں سے بطور تواتر ثابت ہیں لیکن کا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے بطور تواتر ثابت ہونااشکال سے خالی نہیں ہے۔ کیونکہ ان قاریوں نے خبر واحد کے ذریعے قراءتوں کو پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منسوب کیا ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) الاتقان النوع ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۲۹۔

(۲) التبیان، ص ۱۰۲۔

(۳) التبیان، ص ۱۰۵۔

۲۰۳

۸۔ علماء حدیث میں سے بعض متاءخرین کا کہنا ہے:

''کچھ اصولی حضرت قرااءات ہفتگانہ اور بعض حضرات دس قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے پاس کوئی علمی دلیل نہی ںہے۔ اس کے علاوہ قاریوں ہی کی ایک جماعت نے اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے کہ انہی سات قراءتوں میں سے بعض متواتر ہیں اور بعض غیر متواتر (آحاد) ہیں۔ ان قاریوں میں سے کسی نے بھی سات کی سات قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا چہ جائیکہ دس کی دس قراءتیں متواتر ہوں۔ البتہ بعض علماء اصول تمام قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اہل فن ہی اپنے فن کے بارے میں دوسروں سے زیادہ آگاہ اور آشنا ہوا کرتے ہیں۔(۱)

۹۔ قراءتوں کے بارے میں مکّی کہتے ہیں:

''بعض حضرات صرف ان قراءتوں کو معتبر اور قابل عمل سمجھتے ہیں جن پر نافع اور عاصم متفق ہوں، کیونکہ باقی قراءتوں میں سے ان کی قراءت افضل، سند کے اعتبار سے صحیح اور عربی لغت کے اعتبار سے زیادہ فصیح ہے۔،،(۲)

۱۰۔ جن حضرات نے قرائتوں حتی کہ قرااءات ہفتگانہ کے متواتر نہ ہونے کا اعتراف کیا ہے ان میں شیخ محمد سعید العریان بھی شامل ہے۔ اس نے اپنی ''تعلیقات،، میں اس کا ذکر کیا ہے، یہ فرماتے ہیں:

''تمام کی تمام قراءتیں، حتی کہ قراءات ہفتگانہ بھی شاذ اور نامشہور قراءتوں سے خالی نہیں ہےں۔،،

یہ مزید فرماتے ہیں:

''علماء کرام کے نزدیک موثق سندکے اعتبار سے سب سے زیادہ صحیح قراءت نافع اور عاصم کی ہے اور فصاحت کے دیگر پہلوؤں کے اعتبار سے ابوعمرو اور کسائی کی ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) ایضاً، ص ۱۰۶۔

(۲) ایضاً، ص ۹۰۔

(۳) اعجاز القرآن، رافعی، طبع چہارم، ص ۵۲۔۵۳۔

۲۰۴

اقوال علماء میں قراءتوں کے متواتر نہ ہونے کا اعتراف کیا گیا ہے کو نقل کرنے میں اب تک ہم نے اختصار سے کام لیا ہے۔ اس کے بعد بھی ہم مزید علماء کرام کے اعترافات نقل کریں گے۔

خدا را ذرا غور فرمائیے! کیا اتنے علماء کرام کی تصریحات کے باوجود بھی قراءتوں کے متواتر ہونے کے دعویٰ کی کوئی وقعت و ارزش باقی رہتی ہے؟

کیا یہ ممکن ہے کہ بغیر کسی دلیل کے صرف تقلید اور بعض افراد کے دعویٰ بلا دلیل کی بنیاد پر تواتر قراءت کو ثابت کیا جائے خصوصاً جب انسان کا وجدان بھی اس قسم کے دعویٰ کی تکذیب کرے؟

مجھے اس سے زیادہ تعجب اندلس کے مفتی پر ہو رہا ہے جس نے ان لوگوں کے کفر کا فتویٰ صادر کردیا جو تواتر قراءت کے منکر ہیں!!!۔

بفرض تسلیم، اگر قراءتیں بالاتفاق متواتر بھی ہوں تب بھی جب تک یہ ضروریات دین میں سے نہ ہوں، ان کا منکر کافر نہیںگردانا جاسکتا۔

فرض کیجئے! اس خیالی تواتر کی وجہ سے قراءت ضروریات دین میں سے قرار پائے تو کیا اس کے انکار سے وہ آدمی بھی کافر ہو جاتا ہے جس کے نزدیک ان کا متواتر ہونا ثابت نہیں ہے؟

اے اللہ! یہ تیری بارگاہ میں جراءت، جسارت، تیری حدود سے تجاوز اور مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں!!!

۲۰۵

تواتر قراءت کے دلائل

جو حضرات قراءت ہفتگانہ کے قائل ہیں انہوں نے اپنے دعویٰ پر چند دلائل پیش کئے ہیں:

۱۔ ان حضرات نے تواتر قراءت پر موجودہ اورگذشتہ علماء کرام کے اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

ہمارے گذشتہ بیانات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ دعویٰ باطل اور بے بنیاد ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے اتفاق سے اجماع وجود میں نہیں آتا جبکہ دوسروں کے مخالفت بھی موجود ہےں۔ انشاء اللہ آئندہ کسی مناسب موقع پر ہم اس کی مزید وضاحت کریں گے۔

۲۔ صحابہ کرام اور ان کے تابعین، قرآن کو جس اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اس کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن کی قراءت متواتر ہو اور یہ ہر مصنف مزاج اور حقیقت طلب انسان کے لیے ایک واضح حقیقت ہے۔

جواب:

اس دلیل سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ خود قرآن متواتر ہے، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قراءتوں کی کیفیتیں بھی متواتر ہیں۔ خصوصیاً جب اکثر علمائے قراءت کی قراءتیں ان کے ذاتی اجتہاد یا ایک دو آدمیوں کی نقل پر مبنی ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ مباحث میں آپ نے ملاحظہ فرمایا۔

اگر اس دلیل میں یہ قسم موجود نہ ہو تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ تمام کی تمام قراءتیں متواتر ہیں، صرف سات یا دس قراءتوں کے متواتر ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

جیسا کہ ہم بعد میں وضاحت کریں گے کہ قراءتوں کو سات میں منحصر کرنے کا عمل تیسری صدی ہجری میں انجام دیا گیا اور اس سے پہلے اس کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ بنابرایں یا تو تمام کی تمام قراءتوں کو متواتر ہونا چاہیے یا پھر کسی بھی قراءت کو متواتر نہیں ہونا چاہیے۔

۲۰۶

پہلا احتمال تو مسلماً باطل ہے اس لیے لامحالہ ماننا پڑے گا کہ دوسرا احتمال و نظریہ صحیح اور قابل قبول ہے۔

۳۔ اگر قرااءات ہفتگانہ متواتر نہ ہوں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ قرآن مجید بھی متواتر نہ ہو اور قرآن کا متواتر نہ ہونا یقیناً باطل ہے جو محتاج بیان نہیں۔ لہذا قراءتوں کا متواتر نہ ہونا بھی باطل ہے۔ قراءتوں کے متواتر نہ ہونے سے قرآن کا متواتر نہ ہونا لازم آتا ہے۔ چونکہ قرآن ہم تک حافظان قرآن اور مشہور و معروف قاریوں کے ذریعے پہنچا ہے اس لیے اگر ان قاریوں کی قراءتیں متواتر ہونگی تو قرآن بھی متواتر ہوگا ورنہ قران بھی متواتر نہیں ہوگا، لہذا لامحالہ ماننا پڑے گا کہ قراءتیں متواتر ہیں۔

جواب:

اولاً:تواتر قرآن کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قراءتیں بھی متواتر ہیں۔ کیونکہ کسی کلمہ کی کیفیت اور ادائیگی میں اختلاف اصل کلمہ پر اتفاق ہونے سے منافات نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے ہم دیکتے ہیں کہ ''متنبی،، کے قصیدوں کے الفاظ میں بعض راویوں کا احتلاف کرنا اس بات کے منافی نہیں ہے کہ اصل قصیدہ بھی اس سے متواتراً ثابت نہ ہو۔ اسی طرح ہجرت رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خصوصیات میں راویوں کا اختلاف اصل ہجرت کے متواتر ہونے سے منافات نہیں رکھتا۔

ثانیاً: قاریوں کے ذریعے جو چیز ہم تک پہنچی ہے وہ ان کی قراءتوں کی خصوصیات ہیں اور جہاں تک اصل قرآن کا تعلق ہے وہ مسلمانوں میں تواتر کے ذریعے ہم تک پہنچا اور گذشتہ مسلمانوں سے آنے والے مسلمانوں میں منتقل ہونے سے ثابت ہوا جو کہ ان کے سینوں اور تحریروں میں محفوظ تھھا۔ اصل قران کی نقل میں قاری حضرات کا کوئی دخل نہیں ہے، اسی لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ سات یا دس قاری موجود نہ ہوتے تب بھی قرآن کریم بطور تواتر موجود ہوتا اور کلام مجید کی عظمت و شرف اس سے بالاتر ہے کہ چند گنے چنے افراد کی نقل پر یہ موقوف و منحصر ہو۔

۲۰۷

۴۔ اگر قراءتیں متواتر نہ ہوں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ قرآن کے بعض حصے متواتر نہیں ہیں جس طرح ''ملک یوم الدین،، اور ''مالک یوم الدین،، ہے۔ کیونکہ اگر ان میں سے صرف ایک کو متواتر سمجھیں گے تو یہ دعویٰ بلا دلیل ہوگا، جو باطل ہے۔ اس دلیل کو ابن حاجب اور پھر علماء کی ایک جماعت نے اسی کی پیروی میں ذکر کیا ہے۔

جواب:

اولاً: اس دلیل کا تقاضا تو یہ ہے کہ تمام کی تمام قراءتیں متواتر ہوں اور صرف سات قراءتوں کو متواتر قرار دینا دعویٰ بلادلیل ہے جو باطل ہے۔ خصوصاً جب دوسرے قاریوں میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو ان سات قاریوں سے زیادہ باعظمت اور زیادہ موثق ہیں جس کا بعض حضرات نے اعتراف بھی کی ہے۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سات مشہور قاری دوسروں سے زیادہ باوثوق اور جہاتِ قراءت کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں تو اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کی قراءتیں متواتر ہیں اور دوسرے قاریوں کی قراءتیں متواتر نہیں ہیں۔

ہاں، یہ بات قابل قبول ہے کہ عمل کے مقام پر ان کی قراءت کو ترجیح دی جائے گی۔ لیکن کسی قراءت کا مقدم سمجھا جانا اور بات ہے اور اس جا متواتر ہونا دوسری بات ہے بلکہ ان دونوں میں مشرق و مغرب کا فاصلہ ہے اور تمام کی تمام قراءتوں کو متواتر قرار دینا مسلماً باطل ہے۔

ثانیاً: قراءتوں میں اختلاف اس چیز کا باعث بنتا ہے کہ قرآن کو غیر قرآن سے تمیز نہ دی جاسکے۔ البتہ یہ ابہام الفاظ قرآن کی ہیئت (شکل و صورت) اور اعراب قرآن کے اعتبار سے پایا جائے گا، یعنی یہ معلوم نہ ہوگا کہ کون سی ہیئت اور اعراب قرآن ہیں اور کون سے نہیں اور یہ اصل قرآن کے متواتر ہوے کے منافی نہیں ہے۔

۲۰۸

بنابرایں مادہئ قرآن (مفردات قرآن) متواتر ہے اور صرف اس کی مخصوص شکل و صورت اور اعراب (زبر زیر پیش) مختلف فیہ ہیں اور ان دو یا دو سے زیادہ کیفیتوں اور حالتوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور قرآن ہے اگرچہ ہم اس کیفیت و حالت کوخصوصیت سے نہ جائیں۔

تتمہ

حق یہ ہے کہ قرآن کے متواتر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ قراءتیں بھی متواتر ہوں۔ چنانچہ اس حقیقت کا ''زرقانی،، نے اعتراف کیا ہے وہ فرماتے ہیں:

''بعض علماء نے سا ت قراءتوں کی تائید و تقویت میں مبالغہ سے کام لیا ہے اور کہا کہ قراءتوں میں تواتر کو ضروری نہ سمجھنا کفر ہے کیونکہ قراءتوں میں تواتر کا انکار قرآن کے متواتر نہ ہونے پر منتج ہوتا ہے (یعنی قراءتوں کے تواتر میں انکار کا نتیجہ تواتر قرآن کا انکار ہے) یہ رائے مفتیئ اندلس استاد ابی سعید فرج بن لب کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ اس نے اپنا نظریہ پیش کرنے کی کافی کوشش کی ہے اور اپنے نظریئے کی تائید میں ایک بڑا سا رسالہ بھی لکھا ہے اور اپنے نظریئے پر ہونے پر والے اشکالات کا جواب دیا ہے۔ مگر اس کی دلیل اس کے مدعا کو ثابت نہیں کرتی، کیونکہ قرااءات ہفتگانہ کے عدم تواتر کے قائل ہونے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قرآن بھی متواتر نہ ہو۔ اس لیے کہ اصل قرآن اور قرآن کی قراءتوں میں بہت فرق ہے اور عین ممکن ہے کہ قرآن ان سات قراءتوں کے بغیر بھی متواتر ہو یا ان الفاظ میں متواتر ہو جن پر تمام قاریوں کا اتفاق ہے یا اس مقدار میں متواتر ہو کہ جس پر اتنے افراد متفق ہیں جن کے کذب پر متفق ہونے کا خدشہ نہیں ہے۔ چاہے یہ لوگ قاری ہوں یا نہ ہوں۔،،(۱)

بعض علمائے کرام نے فرمایا ہے: ''تواتر قرآن سے قراءتوں کا متواتر ہونا لازم نہیں آتا اور علمائے اصول میں سے کسی نے آج تک اس بات کی تصریح نہیں کی کہ قراءتیں متواتر ہیں اور یہ کہ قرآن کا متواتر ہونا قراءتوں کے متواتر ہونے پر موقوف ہے، البتہ ابن حاجب نے یہ بات کہیں ہے۔،،(۲)

____________________

(۱) مناہل العرفان، ص ۴۲۸۔

(۲) التبیان، ص ۱۰۵۔

۲۰۹

زرکشی ''برہان،، میں لکھتے ہیں:

''قرآن اور قراءتیں دو مختلف حقائق ہیں، قرآن وہ وحی الہٰی ہے جو محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر بیان احکام اور اعجاز کی غرض سے نازل ہوا اور قراءتیں وحی کے مختلف تلفظ، لہجہ، لفظی کیفیت مثلاً شد اور جزم وغیرہ سے عبارت ہیں، اکثر علماء کے نزدیک سات قراءتیں متواتر ہیں اور بعض کے نزدیک یہ متواتر نہیں بلکہ مشہور ہیں۔،،

آگے چل کر زرکشی کہتے ہیں:

''بتحقیق یہ قراءتیں سات قاریوں سے متواتر منقول ہیں لیکن ان کا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے متواتر منقول ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے کیونکہ جس سلسلہ سند سے یہ روائتیں نقل کی گئی ہیں وہ قراءت کی کتب میں مذکور ہے اور اس میں صرف ایک راوی نے ایک راوی سے نق لکی ہے۔،،(۱)

قراءتیں اور سات اسلوب

کبھی یہ تصور کیا جاتا ہے کہ سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں۔ اس کے بعد اس بات کے ثبوت میں کہ یہ سات قراءتیں قرآن میں داخل ہیں، ان احادیث و روایات سے تمسک کیا ہے جو یہ کہتی ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے۔

اس غلط فہمی کی طرف قارئین کرام کی توجہ مبذول کرانا لازمی ہے کہ علماء کرام اور محققین میں سے کوئی بھی اس توہم کا شکار نہیں ہوا۔ اس لیے کہ ہم ان روایات کو تسلیم نہیں کرتے۔ ابھی ہم ان روایات کا ذکر نہیں کرتے آئندہ تفصیل سے بات ان کا ذکرکیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

____________________

(۱) الاتقان النوع، ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۳۸۔

۲۱۰

اس سلسلے میں ہم شروع میں جزائری کا کلام پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:

''سات قراءتوں کو باقی قراءتوں پر کوئی امتیاز حاصل نہیں تھا۔ یہاں تک کہ ابوبکر احمد بن موسیٰ بن عباس بن مجاہد نے تیسری صدی کے آغاز میں بغداد میں بیٹھ کر مکّہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ اور شام کے علماء قراءت میں سے سات قاریوں نافع، عبد اللہ بن کثیر، ابو عمرو بن علائ، عبد اللہ بن عامر، عاصم، حمزہ اور کسائی کا انتخاب کیا۔ اس سے لوگوں کو یہ وہم ہونے لگا کہ یہ سات قراءتیں وہی سات حروف ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بعض علماء نے ان سات عدد قراءتوں کے انتخاب کیا ہے انتہائی نامناسب عمل انجام دیا ہے۔ کیونکہ کم فکر افراد اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ روایات میں موجود سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں۔ اس لیے بہتر یہ تھا کہ سات سے کم یا زیادہ کا

انتخاب کیا جاتا تاکہ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوتے۔،،

استاد اسماعیل بن ابراہیم بن محمد قراب کتاب شافی میں لکھتے ہیں:

''صرف سات قراءتوں کے انتخاب ان کی تائید کرنے اور دوسری قراءتوں کو باطل قرار دینے کی کوئی دلیل نہی ںہے یہ تو بعض متاخرین کا کارنامہ ہے جن کو سات سے زیادہ قراءتوں کا علم نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی اور اس کا نام ''کتاب السبعہ،، رکھ دیا اس کتاب کی لوگوں میں تشہیر کی گئی اور یہ سات مشہور قراءتوں کی بنیاد و دلیل قرار پائی۔،،

امام ابو محمد مکّی فرماتے ہیں:

''ائمہ قراءت نے اپنی کتاب میں ستر سے زیادہ ایسے افراد کا ذکر کیا ہے جن کا مرتبہ ان سات مشہور قاریوں سے بلند ہے۔ اس کے باوجود یہ احتمال کیسے دیا جاسکتا ہے کہ ان سات قاریوں کی قراءتیں وہی سات حروف ہیں جن کا ذکر روایات میں ہوا ہے۔ یہ تو حق وحقیقت سے انحراف ہے۔

۲۱۱

کیا رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے کسی روایت میں یہ تصریح فرمائی ہے کہ سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں؟! اگر نہیں تو پھر کس دلیل کی بنیاد پر یہ نظریہ قائم کیا گیا ہے اور جبکہ کسائی ابھی کل یعنی مامون رشید کے دور میں ان سات قاریوں میں شامل کیا گیا ہے اور اس سے پہلے ساتواں قاری یعقوب حضرمی تھا اور ۳۰۰ھ میں ابن مجاہد نے یعقوب حضرمی کی جگہ کسائی کو ان قاریوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔،،(۱)

شرف مرسی کہتے ہیں:

''اکثر عوام کا خیال یہ ہے کہ روایات میں سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں اور یہ فاش غلطی و جہالت ہے۔،،(۲)

قرطبی کا کہنا ہے:

''داؤدی، ابن ابی سفرۃ اور دیگر ہمارے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ سات مشہور قاریوں سے منسوب یہ سات قراءتیں، وہ سات حروف نہیں ہیں جن میں سے کسی کے مطابق بھی قرآن پڑھنے کا اختیار صحابہ کرام کو دیا گیا تھا۔ ابن نحاس اور دیگر علماء کی رائے کے مطابق ان سات قراءتوں کی برگشت تو ایک حرف ہے جس کے مطابق حضرت عثمان نے قرآن جمع کیا تھا اور یہ مشہور قراءتیں علماء قراءت کا اپنا انتحاب ہے۔،،(۳)

ابن جزری اس نظریئے کو با ط ل قرار دیتے ہیں جس کے مطابق جن سات حروف پر قرآن نازل ہوا تھا وہ آج تک برقرار ہیں، وہ فرماتے ہیں:

____________________

(۱) التبیان، ص ۸۲۔

(۲) ایضاً، ص ۶۱۔

(۳) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۲۔

۲۱۲

''اس نظریہ کی کمزوری و بے مائیگی کسی سے پوشیدہ نہیں، کیونکہ سات دس اور تیرہ قراءتیں جو آج کل مشہور ہیں وہ ان قراءتوں کے مقابلے میں سمندر کے سامنے قطرہ کی مانند ہیں جو پہلی صدی میں مشہور تھیں۔ کیونکہ ان سات اور ان کے علاوہ دیگر قاریوں نے جن سے قراءتیں اخذ کی ہیں وہ ان گنت ہیں حتی کہ جب تیسری صدی آئی علماء کی مصروفیات زیادہ اور حافظے کم ہوگئے اور کتاب و سنت کے علم کا رواج عام ہوگیا تو بعض علمائے قراءت نے ان قراءتوں کی تدوین شروع کردی جو انہو ںنے گذشتہ علماء قراءت سے حاصل کی تھیں۔ سب سے پہلا بااعتماد امام قراءت جس نے تمام قراءتوں کو ایک کتاب میں جمع کیا وہ ابو عبید القاسم بن سلام تھے۔ میری معلومات کے مطابق انہوں نے سات مشہور قراءتوں سمیت کل پچیس قراءتیں قرار دیں۔ ان کا انتقال ۲۲۴ھ میں ہوا۔ اس کے بعد انطاکیہ کے رہنے والے احمد بن جبیربن محمد کوفی پانچ قراءتوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی جو ہر شہر سے ایک قاری پر مشتمل تھی۔ ان کا انتقال ۲۵۸ھ میں ہوا۔ ان کے بعد قالون کے ہم عصر قاضی اسماعل بن اسحاق مالکی نے قراءت پر ایک کتاب لکھی جس میں بیس ائمہ قراءت کی قراءتیں موجود ہیں۔ ان میں سات مشہور قراءتیں بھی شامل ہیں۔ ان کا انتقال ۲۸۲ھ میں ہوا۔ اس کے بعد امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری نے ایک مفصل کتاب ''الجامع،، لکھی جو بیس یا اس سے زیادہ ائمہ قراءت کی قراءتوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے ۳۱۰ھ میں وفات پائی۔ طبری کے کچھ ہی عرصہ بعد ابو بکر محمد بن احمد بن عمرو اجونی نے قراءت کے موضوع پر ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے ابوجعفر، جو دس قاریوں میں سے ایک ہے، کو بھی شامل کردیا۔ ان کی وفات ۳۲۴ھ میں ہوئی۔ اس کے بعد ابوبکر احمد بن موسیٰ بن عباس بن مجاہد وہ پہلا قاری ہے، جس نے صرف سات قراءتوں پر اکتفا کیا اور داجونی اور ابن جریر سے بھی اس نے قراءت نقل کی ان کا انتقال ۳۲۴ھ میں ہوا۔،،

۲۱۳

ابن جزری نے ان کے علاوہ بھی قراءت کے موضوع پر کتاب لکھنے والوں کا نام لیا ہے اور پھر فرمایا ہے:

''اس باب کو طول دینے کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں بعض جاہلوں کے بارے میں یہ اطلاع ملی ہے کہ وہ صحیح قراءتیں صرف ان سات قراءتوں میں منحصر سمجھتے ہیں اور اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ سات حروف جن کی طرف رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اشارہ فرمایا تھا یہی سات قراءتیں ہیں بلکہ ان جاہلوں میں سے بعض کا تو غالب خیال یہ ہے کہ صحیح قراءتیں وہی ہیں جو کتب ''الشاطبیہ اور التیسیر،، میں ہیں اور پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی حدیث:

''انزل القرآن علیٰ سبعة أحرف،،

''قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا۔،،

کا اشارہ انہی دو کتب میں موجود قراءتوں کی طر فہے حتی کہ ان میں سے بعض نے ہر اس قراءت کو شاذ و نادر قرار دیا ہے جو ان دونوں کتابوں میں موجود نہ ہو جبکہ حق تو یہ ہے کہ بہت سی ایسی قراءتیں جو ان کتب ''الشاطیبہ اور التیسیر،، اور ان سات قراءتوں میں شامل نہیں ہیں وہ ان کتب میں موجود قراءتوں سے زیادہ صحیح ہیں۔ لوگوں کے اس غلط فہمی کاشکار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہے ان لوگوں نے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی حدیث: ''انزل القرآن علی سبعۃ اءحرف،، سن رکھی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سات قراءتوں کا نام بھی سن لیا۔ اس سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ سات قراءتیں وہی ہیں جن کا حدیث میں ذکر ہوا ہے۔ اسی لیے گذشتہ ائمہ قراءت نے ابن مجاہد کی اس رائے کو پسند نہیں کیا اور اسے غلط قرار دیا جس کے مطابق قراءتوں کو سات میں منحصر کردیا گیا۔ اسے چاہیے تھا کہ یا تو وہ قراءتوں کو سات سے زیادہ یا ان سے کم بیان کرتایا پھر اپنے مقصد کی صحیح وضاحت کرتا تا کہ عوام غلط فہی کا شکار نہ ہوتے۔،،

۲۱۴

اس کے بعد ابن جزری نے ابن عمار مہدوی اور ابو محمد مکی کی عبارتیں نقل کی ہیں جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔(۱)

ابوشامہ فرماتے ہیں:

''ایک قوم کا گمان ہے کہ موجودہ مروج سات قراءتوں کا ہی حدیث میں ذکر ہے۔ یہ گمان تمام اہل علم کے اجماع کے خلاف ہے اور صرف جاہل ہی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتا ہے۔،،(۲)

ہمارے ان بیانات سے قارئین کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جانی چاہیے کہ یہ سات قراءتیں نہ رسول اسلامؐ سے اور نہ قاریوں سے بطور تواتر منقول ہیں بفرض تسلیم اگر یہ قراءتیں قاریوں سے بطور تواتر منقول ہیں تو رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے یقیناً بطور تواتر منقول نہیں بلکہ خبر واحد کے ذریعے منقول ہیں یا قاریوں کا اپنااجتہاد ہے۔

قراءت سے متعلق دو مقامات پر بحث کی جائے گی:

۱۔ حجیت قراءت

علماء کی ایک جماعت کے نزدیک یہ قراءتیں حجت اور سند ہیں اور ان کے ذریعے حکم شرعی پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح حیض والی عورت سے خون بند ہونے کے بعد اور غسل کرنے سے پہلے ہمبستری حرام ہونے پر حفص کے علاوہ باقی کوفی قاریوں کی قراءت:''ولا تقربوا هن حتیٰ یطهرن،، میں ط مشدد سے استدلال کیا گیا ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے: ''جب تک (تمہاری عورتیں) اپنے آپ کو (غسل کے ذریعے) پاک نہ کرلیں ان کے نزدیک نہ جاؤ۔،،(۳)

___________________

(۱) النشر فی القرات العشر، ج۱، ص ۳۳۔۳۷۔

(۲) الاتقان النوع۔ ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۳۸۔

(۳) ''حفص،، کے علاوہ کوفی قاری اسے ''یطھرن،، پڑھتے ہیں جو باب تفعل ہے اور باب تفعل میں ایک معنی ''اتخاذ،، یعنی مبداء کو اپنانا اور حاصل کرنا ہے۔ اس کی رو سے آیہ شریفہ کا ترجمہ یہی ہوگا کہ جب تک عورت غسل کے ذریعے اپنے آپ کو پاک نہ کرے اس سے ہمبستری جائز نہیں۔ دوسرے قول کے مطابق ''یطھرن،، پڑھا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے: ''اپنی عورتوں کے پاس نہ جاؤ جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں،، ظاہر ہے خودبخود تو صرف خون بند ہو جانے سے پی پاک ہوا جاسکتا ہے۔ اس قراءت کی رو سے خون بند ہونے کے بعد اور غسل کرنے سے پہلے بھی اس سے ہمبستری کی جاسکتی ہے۔ (مترجم)

۲۱۵

جواب:

لیکن حق یہی ہے کہ قراءتیں حجت نہیں ہیں اور ان کے ذریعے کسی حک شرعی کو ثابت نہیں کیاجاسکتا۔ کیونکہ ہر قاری اشتباہ و غلطی کرسکتا ہے او رمتعدد قاریوں میں سے کسی خاص کی اتباع و پیروی پر ہمارے پاس نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ نقلی دلیل اور اس بات پر عقلی و شرعی دلیل قائم ہے کہ غیر علم کی اتباع کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کی مزید وضاحت آئندہ کی جائے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

ہوسکتا ہے ہمارے اس جواب پریہ اعتراض کیا جائے کہ اگرچہ قراءتیں خود متواتر نہیں ہیں لیکن خبر واحد کے ذریعے رسول اسلامؐ سے ضرور منقول ہیں، اس بناء پر وہ دلائل قطعیہ و یقینیہ ان قراءتوں کو شامل ہوں گے جو خبر واحد کے حجت ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ جب یہ دلائل یقینیہ و قطعیہ ان قراءتوں کو شامل ہوں تو پھر ان قراءتوں پر عمل کرنا ورود یا حکومت یا تخصیص(۱) کی بنیاد پر عمل بالظن سے خارج ہو جائے گا (یعنی عمل بالظن نہیں کہلائے گا)۔

جواب:

اولاً: یہ ثابت نہیں کہ یہ قراءتیں روایت کے ذریعے منقول ہیں کہ خبر واحد کی حجیت کے دلائل ان کو بھی شامل ہوں۔ اس لئے یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ یہ قراءتیں ہر قاری کا اپنا اجتہاد ہوں۔ چنانچہ اس احتمال کی تائید بعض علمائے کرام کے کلام سے بھی ہوتی ہے بلکہ جب قاریوں کے اختلاف کی وجہ و منشاء کو دیکھتے ہیں تو اس احتمال کو مزید تقویت ملتی ہے کیوں کہ اس وقت (حضرت عثمان کے دور حکومت میں) مرکز سے دیگر علاقوں میں بھیجے جانے والے قرآنی نسخوں پر نقطے اور اعراب نہیں ہوتے تھے۔

____________________

(۱) ان معانی اور اصلاحات کی وضاحت ہم اپنے اصول فقہ کے درس کے دوران ''تعادل و ترجیح،، کی بحث میں کرچکے ہیں جو طبع ہوچکا ہے۔

۲۱۶

ابن ابی ہاشم کہتے ہیں:

''سات قراءتوں میں اختلاف کا سبب یہ ہے کہ جن علاقوں میں قرآنی نسخے مرکز سے بھیجے جاتے تھے ان علاقوں میں موجود صحابہ کرام سے لوگ قرآن سیکھتے تھے اور یہ نسخے نقطوں اور اعراب سے خالی ہوا کرتے تھے۔ یہ آگے چل کر فرماتے ہیں:

''ان علاقوں کے لوگوں نے اسی قراءت کو اخذ کیا جو انہوں نے اپنے علاقے کے اصحاب سے سیکھی تھی اور اس میں وہ صرف یہ دیکھتے تھے کہ قرآن کے خط کے موافق ہے یا نہیں۔ اگر یہ قرآنی خط کے مخالف ہوتی تو اسے چھوڑ دیتے تھے۔

پس یہیں سے مختلف شہروں کے لوگوں کی قراءتوں میں اختلاف پیدا ہوگیا۔،،(۱)

زرقانی کہتے ہیں:

''صدر اول کے علمائے کرام قرآن کو نقطے اور حرکات دینا صحیح نہیں سمجھتے تھے کیونکہ اس سے قرآن میں تغیر و تبدل

ہونے کا اندیشہ تھا، ان حرکات اور نقطے دینے کے نتیجے میں قرآن کی اصلی شکل و صورت تبدیل ہوسکتی تھی۔ مگر زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے محسوس کیا کہ جس مقصد کے لیے حرکات اور نقطے نہیں دیئے گئے اب اسی مقصد کے لیے حرکات اور نقطے دینا لازمی ہوگیا تاکہ کہیں کوئی شخص اپنی مرضی و منشاء کے مطابق کوئی حرکت اور نقطہ دے کر قرآن کو تبدیل نہ کرسکے۔،،(۲)

ثانیاً: ان قراءتوں کے راویوں کا باوثوق ہونا ثابت نہیں ہے اور جب تک ان کا باوثوق ہونا ثابت نہ ہو، خبر واحد کی حجیت کی دلیل ان قراءتوں کو شامل نہ ہوگی۔ چنانچہ قاریوں اور ان کے رایوں کی سوانح حیات سے یہ بات ظاہر ہوچکی ہے۔

____________________

(۲) التبیان، ص ۸۶۔

(۱) مناہل العرفان، ص ۴۰۲، طبع دوم۔

۲۱۷

ثالثاً: اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ان قراءتوں کا مسند اور مدرک وہ روایات ہیں اور یہ بھی مان لیا جائے کہ ان روایات کے راوی موثق ہیں پھر بھی ایک سقم باقی رہ جاتا ہے یہ کہ ہم اجمالی طور پر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ان روایات میں سے بعض یقیناً رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے صادر نہیں ہوئیں اور یہ اجمالی علم روایات کے باہمی تعارض اور ٹکراؤ کا باعث بنتا ہے اور بعض روایات سے بعض روایات کی تکذیب ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ روایات حجت نہیں بنتیں۔

اس کے علاوہ بعض مخصوص روایات کو حجت اور معتبر سمجھنا ترجیح بلا مرجع(۱) ہے جو کہ قبیح ہے۔ لامحالہ کسی نہ کسی مرجح(۲) کو تلاش کرنا پڑے گا، جو روایات کے تعارض اور ٹکراؤ کی صورت میں لازمی ہے او رمرجح کے بغیر ان روایات میں سے کسی روایت کو کسی حکم شرعی کی دلیل قرار دینا جائز نہیں ہے۔

اگر ہم ان روایات کو متواتر سمجھیں تب بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کیوکہ جب دو مختلف قراءتیں رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے بطور تواتر منقول ہوں تو اس سے یہ یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ دونوں قراءتیں قرآن ہیں جو خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں اور ان میں سند کے اعتبار سے کوئی تعارض و ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ صرف دلالت اور مفہوم کے اعتبار سے ان میں ٹکراؤ ہوگا۔

جب ہمیں اجمالی طور پر یہ علم ہے کہ دنوں ظاہری معنوںمیں سے ایک معنی کا فی الواقع ارادہ نہیں کیا گیا تو اس صورت میں دونوں معانی ساقط اور ناقابل عمل ہو جائیں گے اور کسی اور دلیل لفظی یا عملی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ کیو نکہ دونوں دلیلوں کے سند ظنی ہو، یقینی اور قطعی نہ ہو۔ ترجیح اور تخییر کی دلیلیں ان دلائل کو شامل نہیں جن کی سند قطعی ہو۔ اس کی تفصیل علم اصول کی تعادل و ترجیح کی بحث میں مذکور ہے۔

____________________

(۱) بلا وجہ کسی روایت کو دوسری روایت پر ترجیح دینا۔ (مترجم)

(۲) ترجیح دینے کی وجہ (مترجم)۔

۲۱۸

۲۔ نماز میں ان قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے

اکثر شیعہ و سنی علمائے کرام کی رائے یہی ہے کہ نماز میں ان سات قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے بلکہ ان علماء میں سے بہت سوں کے کلام میں اس مسئلہ پر اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

بعض کی رائے ہے کہ دس قراءتوں میں سے کوئی بھی نماز میں پڑھی جاسکتی ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ نماز میں ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز ہے جس کے لغت عرب اور عثمانی قرآنوں میں سے کسی کے مطابق ہونے کا احتمال ہو۔ البتہ سند صحیح ہو لیکن ان قراءتوں کی تعداد معین نہیں کی گئی۔

حق تو یہ ہے کہ قاعدہ اولیہ کی رو سے ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز نہیں جس کے بارے میں یہ ثابت نہ ہو کہ اسے رسول اسلامؐ یا کسی امام معصوم نے پڑھا ہے۔ کیونکہ نماز میں قرآن کا پڑھنا واجب ہے۔ بنابرایں ایسی چیز کا پڑھنا کافی نہ ہوگا، جس کا قرآن ہونا ثابت نہ ہو اور عقل کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک چیز کے واجب ہونے کا یقین ہو تو اس کی ادائیگی کا یقین کرنا لازمی ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ یا تو اتنی نمازیں پڑھی جایں جتنی قراءتیں ہیں یا ایک ہی مقام میں اس اختلافی مقام کو مکرر پڑھا جائے تاکہ امتثال یقینی حاصل ہو۔ مثلاً سورۃ فاتحہ میں دونوں اختلافی قراءتیں ''مالک،، اور ''ملک،، کو پڑھے اور باقی ایک سورہ جو حمد کے پڑھنا چاہیے اس میں یا تو ایسا سورہ پڑھیں جس میں کوئی اختلاف نہ ہو یا سورہ فاتحہ کی طرح اختلافی الفاظ کو مکرر پڑھیں۔

۲۱۹

(یہ وہ احکام تھے جن کا قاعدہئ اولیہ متقاضی ہے) لیکن جہاں تک ائمہ کے زمانے میں مشہور قراءتوں کے بارے میں شیعوں کے لیے معصومین کی قطعی تقریر(۱) کا تعلق ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ایسی قراءت پر اکتفاء کیا جاسکتا ہے جو معصومین(ع) کے زمانے میں مشہور تھی اور معصومین(ع) نے اسے پڑھنے سے روکا بھی نہیں۔ اس لیے کہ اگر کسی امام(علیہ السلام) نے روکا ہوتا تو اس کی خبر بطور تواتر ہم تک پہنچتی یا کم از کم خبر واحد کے ذریعے ہی پہنچتی۔ بلکہ روایات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ائمہ ھدیٰ نے ان قراءتوں کی تصدیق و تائید فرمائی ہے۔ چنانچہ معصوم کا فرمان ہے۔

''اقرأ کما یقرأ الناس،، ۔۔۔''جس طرح دوسرے پڑھتے ہیں تم بھی اسی طرح پڑھو۔،،

''اقروا کما علمتم،، ۔۔۔''جس طرح تمہیں سکھایا جاے اسی طرح پڑھو۔،،(۲)

ان روایات کی موجودگی میں صرف سات یا دس قراءتوں پر اکتفاء کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ہاں! ایسی قراءت پر اکتفاء نہیں کیا جاسکتا جو شاذ و نادر ہو، اہلسنت کے نزدیک موثق راویوں کے ذریعے ثابت نہ ہو اور من گھڑت ہو۔

مثال کے طور پر ''ملک یوم الدین،، میں ''ملک،، کے لیے صیغہ ماضی کا ہو اور یوم منصوب ہو۔ یہ شاذ و غیر معروف ہے اور جعلی قراءت کی مثال یہ ہے ۔''انما یخشی الله من عباده العلمائ،، میں لفظ ''اللہ،، پر پیش اور لفظ ''العلمائ،، پر زبر دیا گیا ہے۔ یہ خزاعی کی قراءت ہے جو ابو حنیفہ سے منقول ہے۔

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز مںی ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز ہے جو اہل بیت اطہار (علیہم السلام) کے زمانے میں مشہور تھی۔

____________________

(۱) یعنی کوئی فعل امام(علیہ السلام) کے سامنے انجام دیا جائے اور امام(علیہ السلام) اس سے نہ روکیں۔(مترجم)

(۲) الکافی: باب النو ادر کتاب فضل القرآن۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689