البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314070 / ڈاؤنلوڈ: 9316
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

طرف اشارہ كرتاہے كہ روز قيامت انسان كے لئے وقايہ وہى قرآن پر ايمان اور ہوگا _

۴_ مختلف طرح كے عذاب اور قيامت كى ہولناكيوں سے بچنے كے لئے كارآمد اور مفيد اسباب نماز كا قيام ،زكوة كى ادائيگى اور نماز با جماعت ميں شركت ہے_واقيموا الصلوة و اتقوا يوماً

۵ _ قيامت كے دن كوئي شخص بھى كسى دوسرے كا ذرہ برابر عذاب اپنے ذمے نہيں لے گا اور نہ اسكا متحمل ہوسكے گا _

واتقوا يوماً لا تجزى نفس عن نفس شيئاً

۶_ قيامت كے دن كسى كى كسى اور كے بارے ميں شفاعت قبول نہ كى جائے گى _و لا يقبل منها شفاعة

'' منھا'' كى ضمير ممكن ہے دوسرے '' نفس'' كى طرف لوٹتى ہو يعنى مورد مؤاخذہ شخص اگر شفيع لائے تو اس كى شفاعت قبول نہيں كى جائے گى _ ہوسكتاہے يہ ضمير پہلے '' نفس'' كى طرف لوٹتى ہو اور اس سے مراد دوست ، عزيز، رشتہ دار و غيرہ ہيں يعنى يہ كہ دوست اپنے دوستوں كا عذاب اپنے ذمہ نہ ليں گے اگر شفاعت بھى كريں تو قبول نہيں كى جائے گي_

۷ _ قيامت كے دن كسى سے كوئي عوض جس سے وہ فرد خود كو اسيرى و عذاب سے نجات دلاسكے قبول نہيں كيا جائے گا _و لا يؤخذ منها عدل لفظ ''عدل'' كا معنى فديہ اور عوض ہے جسكو كوئي اپنى يا كسى اور كى آزادى كے لئے ادا كرے تا كہ اسارت سے آزاد ہوجائے _

۸ _ قيامت كے دن كوئي كسى كا دفاع نہيں كرے گا اور نہ كسى كى كوئي مدد كرے گا _و لا هم ينصرون

۹_ روز قيامت قرآن كے كافروں كے لئے كوئي راہ نجات نہ ہوگى _آمنوا بما انزلت و اتقوا يوماً لا تجزى نفس عن نفس قيامت كى اسطرح تعريف كرناكہ اس دن كسى سے كوئي فديہ يا عوض قبول نہيں كيا جائے گا اسكا مقصد عذاب كے مستحقين كو مايوس كرنا ہے _ كہيں ايسا نہ ہو كہ لوگ ايمان اور كے علاوہ اپنے لئے كوئي اور راہ نجات كى اميد لگائے بيٹھے ہوں يا كسى خيال سے خوش فہمى ميں مبتلا ہوں _

۱۰_ قيامت كے دن وہ لوگ جواحكامات الہى ( نماز قائم كرنا اورزكوة ادا كرنا ) كى مخالفت كرتے ہيں اور محرمات ( دين فروشى ، حق پر پردہ ڈالنا اور ...) كا ارتكاب كرتے ہيں ان كے لئے كوئي راہ نجات نہ ہوگى _لا تشتروا بآياتى و اقيمو ا الصلوة و اتقوا يوماً لا تجزى نفس عن نفس

۱۱ _ يہ تو ہم كہ قيامت كے روز انسان كو اس كے دوست عذاب قيامت سے نجات دلائيں گے يا اسكے گناہ اپنے ذمہ لے ليں گے بنى اسرائيل كے باطل

۱۶۱

خيالات تھے _واتقوا يوماً لا تجزى نفس عن نفس شيئاً و لا هم ينصرون

۱۲ _ اس خيال سے گناہ كرنا كہ شفاعت ہوجائے گى يا يہ كہ عذاب قيامت سے رہائي كے لئے عوض يا ہديہ قبول كرليا جائے گا بنى اسرائيل كا وہم و گمان اور باطل خيال تھا_واتقوا يوماً و لا يقبل منها شفاعة و لايؤخذ منها عدل

اطاعت: اللہ كى اطاعت كے نتائج ۳

انسان: قيامت كے روز انسا ن۱; انسان كا انجام ۱

ايمان: قرآن پر ايمان كے نتائج ۳

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا عقيدہ ۱۱،۱۲

حق : قيامت كے دن حق كى پردہ پوشى كرنے والے ۱۰

دين فروش: قيامت كے دن دين فروش ۱۰

زكوة: زكوة كے اثرات و نتائج ۴

سزا: سزا كا نظام ۵،۷،۸

سزائيں : سزاؤں كا انفرادى ہونا ۵; سزاؤں كى خصوصيات ۵

عذاب: اخروى عذاب سے نجات كے عوامل ۳ ، ۴; اخروى عذاب سے نجات ۱۱،۱۲

عقيدہ: باطل عقيدہ ۱۱،۱۲

قرآن حكيم : قرآن كے كافر ۹

قيامت : قيامت كے روز امداد ۸; قيامت كى ہولناكياں ۲،۳،۴; قيامت ميں شفاعت ۶،۱۱،۱۲; قيامت ميں ہديہ و فديہ ۷،۱۲; قيامت ميں سزا كا نظام ۵،۶،۷،۸; قيامت كى خصوصيات ۲،۷،۸

كفار: كفار كے لئے حتمى عذاب ۹; كفار قيامت ميں ۹

محرمات : محرمات سے اجتناب كے نتائج ۳; محرمات كا ارتكاب كرنے والوں كيلئے حتمى عذاب ۱۰

نافرمان: نافرمانوں كے لئے حتمى عذا ب ۱۰;نافرمان قيامت ميں ۱۰

نماز: نماز قائم كرنے كے نتائج و نتائج ۴;با جماعت نماز كے نتائج ۴; قيامت كے دن نماز ترك كرنيوالے ۱۰

۱۶۲

وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوَءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءكُمْ وَفِي ذَلِكُم بَلاء مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ ( ۴۹ )

اور جب ہم نے تم كو فرعون والوں سے بچاليا جو تمھيں بدترين دكھ دے رہے تھے ، تمھارے بچوں كو قتل كررہے تھے اور عورتوں كو وزندہ ركھتے تھے اور اس ميں تمھارے لئے بہت بڑا امتحان تھا_

۱ _ بنى اسرائيل مدتوں سے مسلسل خاندان اور لشكر فرعون كے سخت شكنجوں ميں گرفتا ر رہے _و اذ نجينكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب ''يسومون'' كا مصدر ''سوم'' ہے جس كا معنى ہے تكليف ميں ڈالنا يا ذليل كرنا _ ''سوئ'' كا ''العذاب'' كى طرف اضافہ صفت كا موصوف كى طرف اضافہ ہے يعنى''العذاب السوئ'' _

۲_ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى بعثت كے ذريعے بنى اسرائيل كو فرعونيوں كے شديد شكنجوں اور تسلط سے نجات دلائي _و اذ نجينكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب ان جملوں ''انعمت عليكم'' اور ''انى فضلتكم'' ميں نعمت عطا كرنے اور برترى عنايت كرنے كى نسبت اللہ تعالى كى طرف دي گئي ہے جبكہ ''نجيناكم_ ہم نے تمہيں نجات دى '' ميں نجات كو ضمير '' نا _ ہم '' كى طرف نسبت دى گئي ہے _ يہاں سے يہ مطلب سمجھا جاسكتاہے كہ نجات دينے ميں خداوند متعال كى نظر اسباب پر بھى ہے جنكا قرينہ بعد كى آيات ميں موجود ہے لہذا كہا جاسكتاہے كہ وہ سبب حضرت موسىعليه‌السلام كى بعثت تھي_

۳ _ فرعونيوں كے شكنجوں اور سختيوں كے چنگل سے نجات ايك ايسا اہم واقعہ تھا جو اس قابل تھا كہ بنى اسرائيل اس كو ہميشہ ہميشہ كے لئے ياد ركھتے *و اذ نجينكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب ''اذ نجينكم'' ، ''نعمتي'' (آيت ۴۸) پر عطف ہے جبكہ در حقيقت '' اذكروا'' كے لئے مفعول ہے_

۴ _ لشكر فرعون بنى اسرائيل كے بيٹوں كا سركاٹتا اور ان كى

۱۶۳

عورتوں كو زندہ رہنے ديتا_يذبحون ابناء كم و يستحيون نساء كم '' ذبح'' كا معنى سر كاٹنا ہے اور '' يذبحون'' كا مصدر تذبيح ہے جو سر كاٹنے كے معاملے ميں كثرت پر دلالت كرتاہے _ '' يستحيون'' كا مصدر '' استحيائ'' ہے جسكا معنى ہے زندگى پر باقى ركھنا _

۵_ بنى اسرائيل كے بيٹوں كا وسيع سطح پر كشت و كشتار اور ان كى عورتوں كو زندہ چھوڑدينا فرعونيوں كى طرف سے شديدترين شكنجے تھے_يسومونكم سوء العذاب يذبحون ابناء كم و يستحيون نساء كم جملہ'' يذبحون ...'' ممكن ہے ماقبل جملے كى تفسير ہو يعنى '' سوء العذاب'' سے مراد بنى اسرائيل كے فرزندوں كے سر كاٹنا اور ان كى عورتوں كو زندہ چھوڑدينا تا ہم يہ بھى ممكن ہے كہ اسكا واضح مصداق ہو گويا فراعنہ بنى اسرائيل پر جو ظلم و ستم روا ركھتے تھے ان ميں سے ايك ان كے فرزندوں كے سر كاٹنا تھا_ بنابريں يہ جو مخصوص عذاب كا بالخصوص ذكر كيا گيا ہے يہ غالباً شدت كى خاطر ہے _

۶ _ فراعنہ كے تسلط اور زمانہ حكمرانى ميں بنى اسرائيل كى خواتين بھى انتہائي سختيوں ، شكنجوں اور موت كے منہ ميں مبتلا تھيں _يسومونكم سوء العذاب يذبحون ابناء كم و يستحيون نساء كم

۷ _ بنى اسرائيل كى عورتيں اپنے بچوں كے فراعنہ كے ہاتھوں بے تحاشا قتل كى بناپر لذت حيات كھوچكى تھيں اسطرح ان كا خود زندہ رہنا بھى عذاب تھا_يسومونكم سوء العذاب يذبحون ابناء كم و يستحيون نساء كم عورتوں كا زندہ رہنا بنى اسرائيل كے لئے ايك عذاب كے طور پر بيان ہوا ہے _ جبكہ قتل نہ كرنا تو عذاب نہيں ہوتا_ پس جملہ '' يستحيون نساء كم'' چونكہ جملہ ''يذبحون ابناء كم'' كے بعد ذكر ہوا ہے كہا جاسكتاہے كہ عورتيں اپنے بچوں كے ا نتہائي فجيع قتل اور اپنے زندہ رہنے سے انتہائي شديد عذاب كى حالت ميں تھيں _ اس مطلب كى اس نكتہ سے تائيد ہوتى ہے كہ بيٹوں كے مقابل لڑكيوں كا ذكر نہيں كيا گيا بلكہ عورتوں كا ذكر ہوا ہے_

۸ _ يہ جو فراعنہ بنى اسرائيل كى عورتوں كو زندہ چھوڑ ديتے تھے اس كا ہدف عورتوں سے استفادہ كرنا تھا*يسومونكم سوء العذاب و يستحيون نساء كم عورتوں كو زندہ چھوڑنا ايك عذاب كے طور پر كيوں بيان ہوا ہے؟ اسكى ايك اور توجيہ عورتوں سے استفادہ كرنا ہے _

۹_ اگر اللہ تعالى بنى اسرائيل كو فراعنہ كے تسلط سے نجات عنايت نہ فرماتا تو ان كے شكنجو ں اور فرزندوں كے كشت و كشتار ميں تسلسل رہتا_يسومونكم سوء العذاب يذبحون ابنا ء كم و يستحيون نساء كم يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''يسومون'' ،

۱۶۴

''يذبحون'' ، '' يستحيون'' سب كے سب فعل مضارع استعمال ہوئے ہيں _

۱۰_ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو فراعنہ كے مختلف طرح كے شديد عذاب سے ايك بہت بڑى آزمائش ميں مبتلا كيا _

و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم لغت ميں ''بلائ'' كا معنى آزمائش اور نعمت دونوں آيا ہے_''ذلكم'' كا مشار اليہ ''عذاب''ہے يا پھر عذاب سے نجات ''نجيناكم'' ہے _ مذكورہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ بلاء كا معنى آزمائش اور '' ذلكم'' كا اشارہ عذاب كى طرف ہو_

۱۱ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو فراعنہ كے شديد شكنجوں سے نجات عنايت كركے انہيں ايك بہت بڑى آزمائش ميں مبتلا فرمايا _و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم يہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ بلاء كا معنى آزمائش ہو اور ذلكم كا اشارہ عذاب سے نجات اور رہائي '' نجيناكم'' كى طرف ہو_

۱۲ _ فراعنہ كے شكنجوں سے نجات بنى اسرائيل كے لئے اللہ تعالى كى عظيم نعمتوں ميں سے تھا_و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم اس مفہوم ميں ''بلائ'' كا معنى نعمت ہے اور ''ذلكم'' عذاب سے رہائي كى طرف اشارہ ہے_

۱۳ _ انسان سختيوں ، نعمتوں اور اللہ تعالى كى عنايات سے الہى آزمائش و امتحان ميں مبتلا كيا جاتاہے _و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

۱۴ _ انسانوں كى سختيوں نيز نعمتوں اور آسائشوں سے آزمائش اللہ تعالى كے مقام ربوبيت سے ہے اور انسانوں كى تربيت اور رشد و ہدايت كى خاطر ہے _و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' رب '' كا معنى مربي، مدير و مدبر ہو_

۱۵ _ اللہ تعالى تاريخ اور اس كے واقعات پر حاكم ہے _و اذ نجيناكم و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

۱۶ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے : ''... اما مولد موسى عليه‌السلام فان فرعون لما وقف على ان زوال ملكه على يده فلم يزل يأمر اصحابه بشق بطون الحوامل من نساء بنى اسرائيل حتى قتل فى طلبه نيف و عشرون الف مولود (۱) ليكن حضرت موسىعليه‌السلام كى ولادت كا واقعہ پس جب فرعون كو پتہ چلا كہ اسكى سلطنت كا زوال موسىعليه‌السلام كے ہاتھوں ہوگا پس مسلسل اپنے اطرافيوں كو حكم ديتا كہ بنى اسرائيل كى حاملہ عورتوں كے شكم پارہ كردو _ يہاں تك كہ بيس ہزار سے زيادہ بچے حضرت موسىعليه‌السلام كى تلاش ميں قتل كرديئے گئے _

____________________

۱) غيبت شيخ طوسى ص ۱۶۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۰ ح ۱۹۴_

۱۶۵

آل فرعون:آل فرعون اور بنى اسرائيل ۱; آل فرعون كے جرائم ۱; آل فرعون كے شكنجے ۱

اللہ تعالى : الہى امتحانات ۱۳; حاكميت الہى ۱۵; ربويت الہى ۱۴; الہى نعمتيں ۱۲

امتحان: امتحان كے ذرائع ۱۳; سختيوں كے ساتھ امتحان ۱۳،۱۴; نعمتوں كے ساتھ امتحان ۱۳،۱۴;امتحان كا فلسفہ ۱۴

انسان: انسان كا امتحان ۱۳

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كى آزمائش ۱۰; عورتوں سے استفادہ ۸;بنى اسرائيل كى عورتوں كو زندہ چھوڑنا ۴،۵ ، ۸; بنى اسرائيل كا امتحان ۱۰، ۱۱; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۴،۹،۱۰،۱۱،۱۲;بنى اسرائيل كو شكنجے ۱،۵، ۹، ۱۰، ۱۱; بنى اسرائيل كى عورتوں كو شكنجے ۶،۷; بنى اسرائيل كے فرزندوں كا قتل ۴،۵،۷،۹،۱۶; بنى اسرائيل كى نجات ۲،۹،۱۱،۱۲; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۱۲

تاريخ: تاريخ كے تغيرات و تحولات كا سرچشمہ ۱۵

تربيت : تربيت ميں مؤثر عوامل ۱۴

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كى بعثت كے نتائج۲

ذكر: بنى اسرائيل كى نجات كا ذكر ۳

رشد و تكامل: رشد و تكامل كے عوامل۱۴

روايت:۱۶

فراعنہ: فراعنہ كے جرائم ۴،۵،۶،۷،۹،۱۱،۱۲; فراعنہ كے شكنجے ۶،۱۰،۱۱،۱۲; فراعنہ اور بنى اسرائيل ۲،۴،۵،۹; فراعنہ اور بنى اسرائيل كى عورتيں ۶; فراعنہ كے قتل ۴،۵،۹; فراعنہ كے اجتماعى قتل ۷

فرعون: فرعون كى خون ريزى ۱۶

۱۶۶

وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ( ۵۰ )

ہمارا يہ احسان بھى ياد كرو كہ ہم نے دريا كو شگافتہ كركے تمھيں بچا ليا اور فرعون و الوں كو تمھارى نگاہوں كے سامنے ڈبوديا_

۱_ بنى اسرائيل درياے نيل كے كنارے فرعونى فوج كے محاصرے ميں تھے_و اذ فرقنا بكم البحر

''البحر'' ميں الف لام عہد ذكرى ہے جو دريائے مذكور كى طرف اشارہ ہے بہت سے مفسرين كے مطابق يہ دريائے نيل ہے _ بنى اسرائيل كى نجات اور دريا كے پھٹ جانے كے باعث فرعونيوں كے غرق ہونے كا ذكر اس بات پر دلالت كرتاہے كہ فرعونى لشكر دريا كے كنارے بنى اسرائيل پر حملہ كرنے كے در پے تھا_

۲ _ دريائے نيل كو پار كرنے كے لئے اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كے لئے دريا كو پاٹ ديا _و اذ فرقنا بكم البحر ''فرقنا'' كا مصدر ''فرق'' ہے جسكا معنى ہے شگاف ڈالنا اور فاصلہ پيدا كرنا _

۳ _ بنى اسرائيل دريا كو عبور كركے نجات پاگئے اور فرعون اپنى فوج سميت دريا ميں غرق ہوگيا _فانجيناكم و اغرقنا آل فرعون

۴ _ اللہ تعالى بنى اسرائيل كو نجات بخشنے والا اور فرعونيوں كو ہلاك كرنے والا ہے _فانجيناكم و اغرقنا آل فرعون

۵ _ دريا كا پھٹنا فرعون اور اسكى فوج كے غرق ہونے اور ہلاك ہونے كا باعث بنا _و اذ فرقنا بكم البحر فانجيناكم و اغرقنا آل فرعون ''انجيناكم'' كى حرف ''فائ'' كے ذريعے ''فرقنا'' پر تفريع اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ دريا كا شگافتہ ہونا بنى اسرائيل كى نجات كا وسيلہ بنا اور اس لئے كہ ''اغرقنا'' ، ''انجيناكم'' پر عطف ہے پس دريا كايہى شگافتہ ہونا فرعون اور اسكى فوج كے غرق ہونے كا ذريعہ قرار پايا _ فرعون اور اسكى فوج نے دريا ميں عبور كے رستے كو ديكھتے ہوئے بنى اسرائيل كا تعاقب كيا تو دريا كا شگاف برابر ہوگيا اور يہ لوگ ہلاك ہوگئے _

۱۶۷

۶ _ عالم طبيعات كے اسباب پر اللہ تعالى كى حاكميت ہے_و اذ فرقنا بكم البحر

۷ _ دريا كے پھٹ جانے ميں بنى اسرائيل كا كردار اہم تھا_و اذ فرقنا بكم البحر يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''بكم'' كى باء سببيت كے لئے ہے _

۸ _ اللہ تعالى كى آزمائش كے دور ان بنى اسرائيل كا سختياں اور مشكلات برداشت كرنا اور ان ميں كامياب ہونا ان كے لئے اللہ تعالى كى نصرت اور نجات كا سبب بنا _يسومونكم سوء العذاب و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم و اذ فرقنا بكم البحر اس سے ماقبل آيہ مجيدہ ميں بنى اسرائيل كى الہى آزمائش كا بيان تھا جس ميں انہوں نے سختيوں اور مشكلات كو برداشت كيا يہى چيز سبب بنى كہ بنى اسرائيل كے لئے دريا پھٹ گيا گويا كہ بنى اسرائيل نے چونكہ اسطرح عمل كيا كہ جو ان كى اس لياقت كا باعث بنا اور اللہ تعالى نے دريا كو شگافتہ كركے بنى اسرائيل كو نجات عطا فرمائي اور ان كے دشمنوں كو ہلا ك كرديا _

۹ _ انسان كا عمل اللہ تعالى كے تدبير امور كى كيفيت كو معين كرنے ميں بہت اہميت كا حامل ہے _يسومونكم سوء العذاب فى ذلكم بلاء و اذ فرقنا بكم البحر

۱۰_ بنى اسرائيل نے فرعون اور اسكى فوج كے غرق ہونے اور ہلاكت كے منظر كا نظارہ كيا _ ''نظر'' كامعنى ہے ديكھنا اور نظارہ كرنا ما قبل جملے كے قرينے سے تنظرون كا مفعول فرعون اور اسكى فوج كى ہلاكت ہے _

۱۱ _ فرعون اور اسكى فوج كى نابودى كا نظارہ كرنا بنى اسرائيل كے لئے اللہ تعالى كى نعمتوں ميں سے ايك تھا_و اذ فرقنا بكم البحر و اغرقنا آل فرعون و انتم تنظرون ان آيات ميں چونكہ ان نعمتوں كا ذكر ہورہا ہے جو اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو عنايت فرمائيں _ اس اعتبار سے كہا جاسكتاہے كہ ''و انتم تنظرون'' كو بھى نعمت كے طور پر بيان فرمايا گيا ہے _

۱۲ _ ظالموں اور ستم گروں سے مظلوموں كے سامنے انتقام ايك پسنديدہ اور اچھا عمل ہے _و اغرقنا آل فرعون و انتم تنظرون

۱۳ _ دريا كے شگافتہ ہونے سے بنى اسرائيل كى نجات اور فرعون اور اسكے لشكر و خاندان كى نابودى ايك عبرت آموز اور ياد ركھنے والا واقعہ ہے _و اذ فرقنا بكم البحر و انتم تنظرون ''اذ فرقنا'' نعمتى (آيت ۴۷) پر عطف ہے پس ''اذفرقنا'' ،''اذكروا'' كے لئے مفعول ہے_

۱۶۸

اللہ تعالى : افعال الہى ۲،۴; اللہ تعالى كى مدد و نصرت ۲،۴; تدبير الہى ۹; اللہ تعالى كى حاكميت ۶; اللہ تعالى كى نصرت كے عوامل ۸; اللہ تعالى كا نجات عطا كرنا ۴

انتقام: پسنديدہ انتقام ۱۲; مظلوموں كى موجودگى ميں انتقام ۱۲

انسان: انسان كى تقدير يا سرنوشت ۹; انسان كے تدبير امور كا سرچشمہ ۹

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كى كاميابى كے نتائج ۸; بنى اسرائيل كا امتحان ۸; بنى اسرائيل كى امداد ۸; بنى اسرائيل دريائے نيل ميں ۲; بنى اسرائيل اور دريا كا پھٹنا ۷;بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲،۳،۱۰، ۱۳; بنى اسرائيل كا دريا عبور كرنا ۳; بنى اسرائيل كى نجات كے اسباب ۸; بنى اسرائيل كا امتحان ميں كامياب ہونا ۸; بنى اسرائيل كا محاصرہ ۱; بنى اسرائيل كى نجات ۳،۴،۱۳; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۱۱

تاريخ : تاريخ سے عبرت ۱۳

تقدير: تقدير ميں مؤثر عوامل ۹

دريا : دريائے نيل ۱; دريا كے پانى ميں شگاف ۲،۵

ذكر: تاريخ كا ذكر ۱۳

ظالمين : ظالمين سے انتقام ۱۲

عالم طبيعات كے عوامل : طبعى عوامل كا عمل ۶

عبرت : عبرت كے عوامل ۱۳

عمل: عمل كے نتائج ۹

لشكر فرعون: لشكر فرعون كى ہلاكت كے اسباب ۵; لشكر فرعون كا غرق ہونا ۳، ۵، ۱۰، ۱۳; لشكر فرعون اور بنى اسرائيل ۱; لشكر فرعون كى ہلاكت ۴، ۱۱ ، ۱۳

۱۶۹

وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ ( ۵۱ )

اور ہم نے موسى سے چاليس راتوں كا وعدہ ليا تو تم نے ان كے بعد گوسالہ تيار كرليا كہ تم بڑے ظالم ہو _

۱ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو فرعون اور اسكے لشكر كے تسلط سے نجات دلانے كے بعد حضرت موسىعليه‌السلام كو عبادت اور خاص مناجات كے لئے دعوت دي_و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة ''ليلة'' كا معمولاً استعمال شب و روز كے لئے اور '' يوم'' كا استعمال دن كے لئے ہوتاہے _ يہاں '' ليلة'' كا استعمال اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ اللہ تعالى كا حضرت موسىعليه‌السلام سے وعدہ عبادت اورمناجات كے لئے تھا_ يہ جو حضرت موسىعليه‌السلام بنى اسرائيل كے درميان عبادات انجام ديتے تھے معلوم ہوتاہے كہ آپعليه‌السلام كو خاص عبادت و مناجات كے لئے دعوت دى گئي _

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام اللہ تعالى كے ہاں عظيم مقام و منزلت ركھتے ہيں _و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى خاص عبادت اور مناجات كے لئے چاليس (۴۰) شب كا تعين ہوا _و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۴ _ الہى رہبروں اور قائدين كا معاشرے سے كچھ محدود مدت تك اللہ تعالى كى عبادت كے لئے كنارہ كشى كرنا ايك پسنديدہ اور اچھا عمل ہے _و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۵ _ رات كى عبادت و مناجات كى ايك خاص اہميت ہے_واذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۶ _ چاليس رات لوگوں سے دور ہوكر عبادت و مناجات كرنے كا ايك خاص اثر ہے _و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۷ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل نے بچھڑے كى پوجا كرنا شروع كردى _

ثم اتخذتم العجل من بعده

'' من بعدہ'' يعنى حضرت موسىعليه‌السلام كے دور چلے جانے كے بعد _ ''اتخذتم'' ان افعال ميں سے ہے جو '' تصيير'' كا مفہوم ركھتے ہيں اسكا پہلا مفعول '' العجل '' ہے اور دوسرا مفعول '' الہاً'' ہے جو بہت واضح ہونے كى بناپر كلام ميں ذكر نہيں ہوا _ گويا مطلب يوں ہے ''ثم جعلتم العجل الهاً لكم''

۱۷۰

۸ _ تاريخى اور معاشرتى واقعات ميں شخصيات كا نقش اور كردار اہم ہوتاہے _ثم اتخذتم العجل من بعده

''من بعدہ'' جس سے مراد حضرت موسىعليه‌السلام كى عدم موجودگى ہے اس كا استعمال اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے جب تك حضرت موسىعليه‌السلام ان كے درميان تھے تو انہوں نے شرك كى طرف تمايل اختيار نہيں كيا _ پس تاريخ كے اہم واقعات ميں شخصيات بھى اہميت كى حامل ہيں _

۹ _ انبياءعليه‌السلام اور الہى قائدين كى عدم موجودگى سے امتوں ميں انحراف كا خطرہ رہتاہے _ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون

۱۰ _ بنى اسرائيل نے بچھڑے كى پوجا كى طرف رغبت دريا سے عبور اور فرعونى لشكر سے نجات كے بعد اختيار كى _

و اذ فرقنا بكم البحر و اذ واعدنا ثم اتخذتم العجل من بعده

۱۱ _ بنى اسرائيل كے پا س گوسالہ پرستى كى طرف رغبت و تمايل كا كوئي بہانہ يا عذر نہ تھا_ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون ''انتم ظالمون _ در آں حاليكہ تم ظالم تھے'' يہ جملہ حاليہ اس معنى ميں ظہور ركھتاہے كہ ظالم ہونا ايك ايسى حالت تھى جو گوسالہ پرستى كے ہمراہ تھى يعنى يہ كہ بنى اسرائيل كى شرك كى طرف رغبت ظلم كى وجہ سے تھى جبكہ جہالت يا اسطرح كا كوئي اور عذر يا بہانہ درميان ميں نہ تھا_

۱۲ _ اللہ تعالى كى نعمتوں كے مقابل بنى اسرائيل انتہائي ناشكرى قوم ہے _فانجيناكم و اغرقنا آل فرعون ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون بنى اسرائيل پر عظيم الہى نعمتوں كے ذكر كے بعد ان كے غير خدا كى پرستش كى طرف رجحان كا بيان كرنا اس بات كى نشاندہى ہے كہ يہ قوم انتہائي ناشكرى ہے _

۱۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كا اپنى قوم سے دور چلے جانے اور اس قوم كا گوسالہ پرستى اختيار كرلينا انتہائي عبرت ناك ، سبق آموز اور ياد ركھنے كے قابل واقعہ ہے_و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة ثم اتخذتم العجل من بعده

۱۴_ ظلم و ستم كرنا بنى اسرائيل كى عادت اور راہ و روش ہے _و انتم ظالمون

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''و انتم ظالمون'' جملہ معترضہ ہونہ كہ حاليہ يعنى تم لوگ ستمگر ہو جس كا ايك پہلو گوسالہ پرستى ہے _

۱۵ _بچھڑے كى پوجا بنى اسرائيل كى ستم كاريوں ميں سے

۱۷۱

ايك تھي_ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون

۱۶ _ غير خدا كى پرستش ظلم ہے_ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون

۱۷_عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله ''واذ واعدنا موسى اربعين ليلة'' قال كان فى العلم و التقدير ثلاثين ليلة ثم بدأ لله فزاد عشراً فتم ميقات ربه للاوّل والآخر اربعين ليلة (۱) اللہ تعالى كے اس فرمان''و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة'' كے بارے ميں امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ علم و تقدير الہى ميں تيس راتيں تھيں پھر اللہ تعالى كے لئے بدا حاصل ہو اتو دس دنوں كا اضافہ كرديا گيا پس حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنے رب كے ميقات كو اول و آخر چاليس شب ميں پورا كيا

اعداد: چاليس كا عدد ۳،۶

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے لئے بداء ۱۷ اللہ تعالى كى دعوتيں ۱

امتيں : امتوں كے انحراف كى بنياد۹

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كى عدم موجودگى كے نتائج ۹

بنى اسرائيل : بنى اسرائيل حضرت موسىعليه‌السلام كى عدم موجودگى ميں ۷; بنى اسرائيل كى تاريخ ۷،۱۰،۱۲; بنى اسرائيل كا ظلم ۱۴،۱۵; بنى اسرائيل كا دريا سے عبور كرنا ۱۰; بنى اسرائيل كا كفر ان ۱۲; بنى اسرائيل كى گوسالہ پرستى ۷،۱۰،۱۱،۱۳،۱۵; بنى اسرائيل كى نجات ۱،۱۰

تاريخ: تاريخ سے عبرت ۱۳; تاريخى تغيرات اور تحولات كے عوامل ۸; تاريخ كا محرك ۸; شخصيات كا تاريخ ميں كردار و اہميت ۸

چلہ نشيني: چلہ نشينى كے آثارو نتائج۶

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كى چلہ نشينى ۳،۱۷; حضرت موسىعليه‌السلام كو دعوت ۱; حضرت موسىعليه‌السلام كى عبادت ۱; بنى اسرائيل كے درميان سے حضرت موسىعليه‌السلام كى غيبت ۱۳; حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳;حضرت موسىعليه‌السلام كى عبادت كى مدت ۳; حضرت موسىعليه‌السلام كى مناجات كى

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۴۴ ح ۴۶، تفسير برہان ج/۱ ص ۹۸ ح ۲_

۱۷۲

مدت ۳; حضرت موسىعليه‌السلام كے درجات و مقامات ۲; حضرت موسىعليه‌السلام كى مناجات ۱; حضرت موسىعليه‌السلام كا ميقات (يعنى خدا كا حضرت موسىعليه‌السلام سے وعدہ جس كيلئے مدت معين كى گئي )۱۷

دينى رہبر: دينى قائدين كى عدم موجودگى كے نتائج ۹ دينى رہبروں كى پسنديدہ كنارہ كشى ۴

ذكر : تاريخ كے ذكر كى اہميت ۱۳

روايت:۱۷

شرك: عبادتى شرك كا ظلم ۱۶

ظالمين : ۱۴

ظلم : ظلم كے موارد ۱۵،۱۶

عبادت: غير خدا كى عبارت ۱۶

عمل: پسنديدہ عمل ۴

قدريں : ۵

كفران: كفران نعمت ۱۲

كنارہ كشي: پسنديدہ كنارہ كشى ۴

معاشرتى تبديلياں : معاشرتى تبديليوں كے عوامل ۸

مقربين : ۲

نماز تہجد: نماز تہجد كى اہميت ۵

۱۷۳

ثُمَّ عَفَوْنَا عَنكُمِ مِّن بَعْدِ ذَلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ( ۵۲ )

پھر ہم نے تمھيں معاف كرديا كہ شايد شكر گذار بن جاؤ_

۱ _ بنى اسرائيل كا بچھڑے كى پوجا و الا گناہ اللہ تعالى نے معاف فرماديا _ثم عفونا عنكم من بعد ذلك

۲ _ انسانوں كے گناہوں كى بخشش و آمرزش اللہ تعالى كے دست قدرت اور اختيار ميں ہے _ثم عفونا عنكم

۳ _ مرتد ہونے كا گناہ اللہ تعالى كے ہاں قابل عفو و بخشش ہے _ثم اتخذتم العجل ثم عفونا عنكم

۴ _ بنى اسرائيل كے ارتداد اور گوسالہ پرستى كے گناہ كى بخشش اللہ تعالى كى جانب سے بنى اسرائيل پر عظيم نعمتوں ميں سے تھي_ ثم عفونا عنكم من بعد ذلك اس حصے كى آيات مباركہ چونكہ بنى اسرائيل پر اللہ تعالى كى عظيم نعمتوں كو بيان كررہى ہيں اس لئے ''عفونا عنكم'' سے بھى مراد نعمت كا ذكر ہے جبكہ يہ مطلب '' ثم'' كےساتھ دوسرى نعمتوں پر عطف ہوا ہے يہ اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ معافى اور بخشش كى نعمت دوسرى نعمتوں سے بالاتر اور والاتر ہے _

۵ _ گوسالہ پرستى كے گناہ كى معافى سے اللہ تعالى نے بنى اسرائيل پر احسان فرمايا_ثم عفونا عنكم من بعد ذلك

واضح ہے كہ معافى گناہ كے ارتكاب كے بعد ہوتى ہے بنابريں''من بعد ذلك ''معافى كے وقت و زمان كو بيان نہيں كررہاہے بلكہ اس مفہوم كى طرف اشارہ ہے كہ بنى اسرائيل بخشش كا استحقاق تو نہ ركھتے تھے اس كے باوجود اللہ تعالى نے ان پر فضل و كرم كيا اور ان كا گناہ بخش ديا _

۶_ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں شكر و سپاس گذارى كرنا لازم و ضرورى ہے _لعلكم تشكرون

۷ _ بنى اسرائيل ناشكرى قوم تھي_ثم عفونا عنكم من بعد ذلك لعلكم تشكرون

۱۷۴

۸ _ بنى اسرائيل ميں شكر و سپاس گذارى كى زمين كو ہموار كرنا ان كے مرتد ہونے كے گناہ كو معاف كرنے كے اہداف ميں سے تھا_ثم عفونا عنكم من بعد ذلك لعلكم تشكرون

۹ _ اللہ تعالى كى بارگاہ اقدس ميں سپاس و شكر گزارى اور شاكرين كے مقام تك پہنچنے كى راہ ميں گناہان كبيرہ ركاوٹ بنتے ہيں _ثم عفونا عنكم من بعد ذلك لعلكم تشكرون

۱۰ _ گناہ كا معاف ہونا ايك ايسى نعمت ہے جس كا شكر ادا كيا جانا چاہيئے _ثم عفونا عنكم لعلكم تشكرون

ارتداد (مرتد ہونا ) : ارتداد كى معافى ۳; ارتداد كا گنا ہ ۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى بخشش ۲; اللہ تعالى سے مختص امور ۲; اللہ تعالى كا احسان ۵; اللہ تعالى كى معافى ۱،۳

بخشش: بخشش كى نعمت ۴ ، ۱۰

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا ارتداد ۴،۸; بنى اسرائيل كے شكر كى زمين ہموار ہونا ۸; بنى اسرائيل كى بخشش ۱،۴،۵; بنى اسرائيل كى بخشش كا فلسفہ ۸; بنى اسرائيل كا كفران ۷; بنى اسرائيل كى گوسالہ پرستى ۱،۴،۵; بنى اسرائيل پر احسان ۵; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۴

شاكرين: شاكرين كے درجات و مقامات ۹

شكر: شكر خدا كى اہميت ۶; بخشش كى نعمت ۱۰; شكر كے موانع ۹

گناہ : گناہان كبيرہ كے نتائج ۹; گناہ كى معافى ۱۰;گناہ كى بخشش كا سرچشمہ ۲

۱۷۵

وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ( ۵۳ )

اور ہم نے موسى كو كتاب اور حق و باطل كو جدا كرنے والا قانون ديا كہ شايد تم ہدايت يافتہ بن جاؤ_

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام صاحب كتاب و شريعت انبياءعليه‌السلام ميں سے تھے_و اذ آتينا موسى الكتاب

۲ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كو تورات عطا فرمائي _و اذ آتينا موسى الكتاب '' الكتاب'' ميں الف لام عہد ذہنى ہے جو تورات كى طرف اشارہ ہے _

۳ _ اللہ تعالى نے تورات كے علاوہ بھى حقائق عنايت فرمائے جو حق و باطل كے مابين امتياز كا وسيلہ ہيں _ و اذ آتينا موسى الكتاب و الفرقان '' الفرقان '' كا '' الكتاب'' پر عطف ممكن ہے صفت كا صفت پر عطف ہو اور ہر ايك تورات كے پہلوؤں ميں سے ايك پہلو ہو _ يعنى يہ كہ ہم نے موسىعليه‌السلام كو ايك ايسى چيز عطا كى جو كتاب بھى ہے اور فرقان بھى يہ بھى ممكن ہے كہ كتاب اور فرقان دو مختلف چيزيں ہوں يعنى ہم نے موسى كو كتاب ( تورات) دى اور فرقان بھى عطا كيا _ اس اعتبار سے فرقان سے مراد معجزات ، دلائل و براہين يا اس طرح كے امور ہوسكتے ہيں _ (تفسير الكشاف سے اقتباس )_

۴ _ تورات حق و باطل كے مابين تشخيص كا بہترين وسيلہ ہے _و اذ آتينا موسى الكتاب والفرقان

'' فرقان'' يعنى تشخيص و امتياز كا ذريعہ اور اس سے يہاں مراد احكام و معارف الہى كى حدود ميں رہتے ہوئے حق كو باطل سے تميز دينا ہے _

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام كو جو تورات عطا كى گئي وہ بنى اسرائيل پر اللہ تعالى كى نعمتوں ميں سے ايك تھى _اذ آتينا موسى الكتاب والفرقان

آيت نمبر ۴۷ سے معلوم ہوتاہے كہ آيات كا يہ حصہ اللہ تعالى كى بنى اسرائيل پر عظيم اور گراں قدر نعمات كو بيان كررہاہے پس اس آيہ مباركہ ميں تورات اور فرقان بھى عظيم نعمت كے طور پر بيان ہوئے ہيں _

۶_ كتب سماوى اور انسانوں كى ہدايت كے اسباب بنى

۱۷۶

اسرائيل پر اللہ تعالى كى عظيم نعمات ميں سے تھے_و اذ آتينا موسى الكتاب و الفرقان لعلكم تهتدون

۷ _ تورات كے نزول كا ہدف بنى اسرائيل كا ہدايت پانا ہے_واذآتينا موسى الكتاب والفرقان لعلكم تهتدون

۸ _ سماوى كتابوں كے نزول كا ہدف انسانوں كا ہدايت پاناہے _و اذ آتينا موسى الكتاب والفرقان لعلكم تهتدون

۹ _ ہدايت اور گمراہى كے قبول كرنے كا اختيار ،انسان تكوينى طور پر ركھتاہے_لعلكم تهتدون

۱۰_ تورات كے حقائق كو بنى اسرائيل تك پہنچانا حضرت موسىعليه‌السلام كے بنيادى فرائض ميں سے تھا_واذآتيناموسى الكتاب والفرقان لعلكم تهتدون حضرت موسىعليه‌السلام كو كتاب عطا اور بنى اسرائيل كى ہدايت كے درميان رابطے (آتينا موسى لعلكم تہتدون) كا مطلب يہ ہے كہ يہ جملہ تقدير ميں ہو '' ہم نے ان كو حكم ديا كہ كتاب كو تمہارے لئے تلاوت كرے اور احكام و معارف كى تمہيں تعليم دے '' يہ معنى بہت واضح ہونے كے باعث اور اختصار كو مدنظر ركھتے ہوئے بيان نہيں كيا گيا _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى عنايات ۲،۳،۵; اللہ تعالى كى نعمتيں ۶

انبياءعليه‌السلام : اولو العزم انبياءعليه‌السلام ۱

انسان: انسان كا تكوينى اختيار ۹; انسانوں كى ہدايت ۸

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كى ہدايت كا سرچشمہ ۷; بنى اسرائيل كى نعمات ۵

تورات: تورات كى تبليغ ۱۰; تورات اور حق كى تشخيص ۳،۴; تورات كے نزول كا فلسفہ ۷; تورات كى نعمت ۵;تورات كى اہميت و كردار ۴،۷

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كى تبليغ ۱۰; حضرت موسىعليه‌السلام كى تورات ۲; حضرت موسىعليه‌السلام كى شريعت ۱; حضرت موسىعليه‌السلام كا فرقان ۳; حضرت موسىعليه‌السلام كى كتاب ۱;حضرت موسىعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۱۰; حضرت موسىعليه‌السلام كى نبوت ۱

حق : حق كى تشخيص كے وسائل ۳،۴; حق اور باطل ۴

۱۷۷

كتب سماوى : كتب سماوى كے نزول كا فلسفہ ۸; كتب سماوى كى نعمت ۶; كتب سماوى كى اہميت و كردار۸

گمراہي: گمراہى كا اختيار۹

ہدايت: ہدايت كا اختيار ۹; ہدايت كے اسباب ۶،۸

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُواْ إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ( ۵۴ )

اور وہ وقت بھى ياد كرو جب موسى نے اپنى قوم سے كہا كہ تم نے گوسالہ بناكر اپنے اوپر ظلم كيا ہے _ اب تم خالق كى بارگاہ ميں توبہ كرو اور اپنے نفسوں كو قتل كرڈالو كہ يہى تمھارے حق ميں خير ہے_ پھر خدا نے تمھارى توبہ قبول كرلى كہ وہ بڑا توبہ قبول كرنے والا مہربان ہے _

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے بچھڑے كى پوجا كركے خود پر ظلم كيا اور سزا كے مستحق قرار پائے _يا قوم انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل

۲_ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى قوم كى ستمگرى كے بيان كے ساتھ ہى ان كو فرمان ديا كہ اللہ كى بارگاہ ميں توبہ كرو _

و اذ قال موسى لقومه فتوبوا الى بارئكم

۳ _ انسان شرك اختيار كرنے اور غير خدا كى عبادت كرنے سے خود پر ظلم اور ستم كا ارتكاب كرتا ہے_انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل

۴ _ شرك اختيار كرنے اور غير خدا كى پرستش كرنے سے خداوند متعال كو كوئي ضرر يا نقصان نہيں ہوتا_

انكم ظلمتم أنفسكم باتخذكم العجل

۵ _ گناہ انسان كى اللہ تعالى سے دورى كا سبب بنتاہے _

فتوبوا الى بارئكم

۱۷۸

'' توبوا '' كا مصدر توب اور توبہ ہے جسكا معنى ہے رجوع كرنا اور لوٹنا _ اس سے يہ مطلب نكلتا ہے كہ گناہ كے سبب انسان اللہ تعالى سے دور ہوجاتا ہے اور فاصلہ پيدا كرليتاہے _

۶ _ گناہگاروں كى ضرورى اور اہم ذمہ دارى ہے كہ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں توبہ كے ذريعے بازگشت كريں _انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل فتوبوا الى بارئكم

۷ _ بنى اسرائيل كے گوسالہ پرستوں كى توبہ ايك دوسرے كو قتل كرنا معين كى گئي _فتوبوا الى بارئكم فاقتلوا أنفسكم

'' فاقتلوا'' ميں '' فائ'' تفسير يہ ہے يعنى ''فاقتلوا أنفسكم'' اور يہ''توبوا ...'' كى تفسير ہے _ اس جملہ '' فاقتلوا أنفسكم'' كے بارے ميں دو طرح كى تفسير بيان ہوئي ہے ۱ _ فاقتلوا بعضكم بعضاً _ ايك دوسرے كو قتل كرو ۲ _ ہر كوئي خود كو قتل كرے_

۸ _ گناہوں سے توبہ كا طريقہ كار اس گناہ كى نوعيت كے اعتبار سے مختلف ہوتاہے_انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل فتوبوا الى بارئكم فاقتلوا أنفسكم

۹_ بنى اسرائيل كے مرتدوں كى فكرى و نفسياتى آمادگى كے بعد حضرت موسىعليه‌السلام نے انہيں امر الہى ( ايك دوسرے كو قتل كرنے) كے اجراء اور قبوليت پر آمادہ كيا _يا قوم انكم ظلمتم أنفسكم يہ جو حضرت موسىعليه‌السلام نے قوم كو اپنے ساتھ نسبت دى ( اے ميرى قوم ) يہ اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام نے قوم كو توبہ كى دعوت سوز دل كے ساتھ دى اور ان سے چاہا كہ حكم الہى كے سامنے گردن جھكا ديں _يہ جو صراحت كى گئي ہے كہ بنى اسرائيل نے گوسالہ پرستى كے ذريعے خود پر ستم كيا ہے يہ بھى اسى معنى كے اعتبار سے ہے _

۱۰_ گناہگاروں ميں حدود الہى كى قبوليت كے لئے روحى اور فكرى آمادگى پيدا كرنا ايك اچھا اور بہتر عمل ہے_يا قوم انكم ظلمتم أنفسكم فتوبوا الى بارئكم

۱۱_ تنقيد اور نصيحت سے پہلے مہربانى اور محبت سے پيش آنا ايك اچھا اور بہت بہتر عمل ہے _يا قوم انكم ظلمتم أنفسكم

۱۲ _ الہ يا معبود ہونے كى لياقت و استعداد فقط خالق انسان ميں ہے _انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل فتوبوا الى بارئكم

'' بارء '' اللہ تعالى كے اسماء اور صفات ميں سے ہے جسكا معنى خالق ہے _ جملہ ''توبوا الى بارئكم'' ميں حضرت موسىعليه‌السلام كا اس اسم اور صفت كا انتخاب كرنا جبكہ آپعليه‌السلام كے ;مخاطبين وہ لوگ تھے جو غير خدا كى پرستش اختيار كرچكے تھے يہ مطلب اس طرف اشارہ ہے كہ انسان كا خالق ہى

۱۷۹

معبود بننے كى صلاحيت ركھتاہے لہذا تم نے غير كى طرف كيوں رجوع اور رجحان پيدا كيا ؟ پس تو بہ كرو _

۱۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى شريعت ميں مرتدوں كو قتل كرنا سزاؤں كے قوانين ميں سے تھا_ *فتوبوا الى بارئكم فاقتلوا أنفسكم

۱۴ _ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى قوم كے مرتدوں كى خيرو سعادت كو انكى توبہ اور ايك دوسرے كے قتل ميں جانا _

فاقتلوا أنفسكم ذلكم خير لكم عند بارئكم

۱۵ حضرت موسيعليه‌السلام نے مرتدوں كو اللہ تعالى كى خالقيت كى طرف متوجہ كرنے كے ساتھ ان كے قتل كى سزا كو انكے لئے ايك مفيد امرسمجھا_ذلكم خير لكم عند بارئكم حكم قتل كے اجراء كے وقت '' بارء '' كا انتخاب اس مفہوم كى طرف اشارہ ہے اگر چہ قتل ہونا ظاہراً ختم ہونا اور نابود ہوناہے ليكن در حقيقت دوبارہ زندگى پانا اور خلق ہونا ہے _ '' بارئكم'' كا جملہ ''توبوا الى بارئكم'' اور '' ذلكم خير لكم عند بارئكم'' ميں تكرار قابل توجہ ہے گويا ايك خاص ہدف كے لئے ايسا كيا گيا ہے _

۱۶ _ اللہ تعالى ہى انسانوں كا خالق ہے _فتوبوا الى بارئكم ذلكم خير لكم عند بارئكم

۱۷ _ اديان الہى ميں سزاؤں كے احكام و قوانين ، اگر چہ وہ سزا قتل ہونے كى ہو ،يہ سب گناہگاروں اور خطاكاروں كے لئے فلاح و سعادت كى ضمانت فراہم كرتے ہيں _فاقتلوا أنفسكم ذلكم خير لكم عند بارئكم

۱۸_ اديان الہى كے احكام و فرامين كى بنياد انسانوں كى مصلحت ہے_ذلكم خير لكم

۱۹_ بنى اسرائيل كے مرتدوں ( گوسالہ پرستوں ) نے حضرت موسىعليه‌السلام كے فرمان كے بعد ايك دوسرے كو قتل كرنا شروع كيا _فاقتلوا أنفسكم فتاب عليكم جملہ '' تاب عليكم'' ايك مقدر جملے پر عطف ہے يعنى ''ففعلتم ما امرتم بہ فتاب عليكم پس تم نے جسكا حكم ديا گيا تھا اس پر عمل كردكھا يا تو خداوند عالم نے تمہارى توبہ كو قبول فرماليا'' قابل توجہ ہے كہ '' تاب '' كى ضمير ما بعد جملے كے قرينہ سے '' بارئكم _ تمہارا خالق'' كى طرف لوٹتى ہے_

۲۰_ بنى اسرائيل كے گوسالہ پرستوں كى توبہ كى قبوليت اللہ تعالى كى ان پر نعمتوں ميں سے ايك تھي_و اذ قال موسى فتاب عليكم اس سورہ مباركہ جيسا كہ آغاز ميں آياہے'' يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى ...'' اس سے پتہ چلتاہے كہ آيات كے اس حصے ميں ان نعمتوں كا ذكر ہے جو اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو عنايت فرمائي تھيں _

۱۸۰

۲۴۶ھ میں انہوں نے وفات پائی۔(۱)

دارقطنی کا کہنا ہے: ''یہ ضعیف ہیں،،۔ اور عقیلی کا کہنا ہے: ''یہ قابل اعتماد ہیں۔،،(۲)

مؤلف: جنہوں نے دوری سے قراءت نقل کی ہے وہ گذشتہ راویوں کی طرح مجہول الحال ہیں۔

سوسی: اس کانام صالح اور کنیت ابو شعیب تھی۔ اس کے والد کا نام زیاد بن عبد اللہ ہے۔ اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''موسی مسائل حفظ کرتا اور لکھتا اور یہ باوثوق آدمی تھا۔،،

اس نے قراءت ابو محمد یزیدی سے سیکھی اور اسی کو تصدیق کے لیے سنائی اور یہ ابو محمد یزیدی کے اصحاب میں سے تھا۔ ۲۶۱ھ کے آغاز میں اس نے ستر سال کی عمر میں وفات پائی۔(۳)

ابوحاتم کا کہنا ہے:

''یہ راست گو انسان تھا۔،،

نسائی کا کہنا ہے:

''یہ قابل اعتماد تھا۔،،

___________________

(۱) ایضاً،ج ۱، ص ۰۲۵۵

(۲) تہذیب التہذیب،ج ۲، ص۴۰۸۔

(۳) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۳۳۲۔

۱۸۱

ابن حیان نے بھی اس کو قابل اعتماد قرار دیا ہے اور ابو عمرو دانی کا کہنا ہے:

''نسائی نے قراءت سوسی سے نقل کی ہے۔ مسلم بن قاسم اندلسی نے بلا وجہ اور بغیر کسی دلیل کے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔،،(۱)

مؤلف: اس کی قراءت کے راوی بھی مجہول اور گمنام ہیں۔

۵۔ حمزہ کوفی

یہ حبیب بن عمارۃ بن اسماعیل کا بیٹا اور اس کی کنیت ابو عمارۃ ہے اور یہ کوفہ کا رہنے والا اور قبیلہ بنی تمیم سے تعلق رکھتا تھا اس نے اپنے بچپن میں صحابہ کو درک کرلیا تھا اس نے سلمان بن اعمش اور حمران بن اعین سے قراءت سیکھی اور انہیں کو تصدیق کے لیے سنائی۔

کتاب''الکفایة الکبریٰ و الیتسیر،، میں مذکور ہے کہ اس نے مغیرہ بن مقسم، منصور ادرلیث بن ابی سلیم سے قراءت سیکھی۔ صاحب کتاب ''الیتسیر و المستنیر،، لکھتے ہیں کہ اس نے قراءت میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے سیکھی۔ ان کا کہنا ہے:

''حمزہ نے شروع میں قراءت حمران سے سیکھی اور اعمش، ابو اسحاق اور ابن ابی لیلیٰ کو تصدیق کے لئے سنائی اور عاصم و اعمش کے بعد علم قراءت میں امامت اور پیشوائی کا منصب اسی کے سپرد کیا گیا وہ اس فن کا امام، قابل وثوق اور بے نظیر آدمی تھا۔،،

____________________

(۱) تہذیب التہذیب،ج ۴، ص ۳۹۲۔

۱۸۲

عبد اللہ عجلی کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ نے حمزہ سے مخاطب ہو کر کہا:

''آپ کو دو موضوعات ''قرآن،، اور ''فرائض،،(۱) میں ہم پر بالا دستی حاصل ہے ان میں ہم آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔،،

سفیان ثوری کا کہنا ہے:

''قرآن،، اور ''فرائض،، میں حمزہ کے ہم پایہ کوئی آدمی نہیں ہے۔،،

عبداللہ بن موسیٰ کہتے ہیں:

''حمزۃ کا استاد اعمش جب بھی حمزہ کو دیکھتا تو کہتا: یہ عالم قرآن ہے۔،،

حمزہ ۸۰ھ میں پیدا ہوا اور ۱۵۶ھ میں اس کا انتقال ہوا۔(۲)

ابن معین کہتا ہے۔

''حمزہ باوثوق اور قابل اعتماد ہے۔،،

نسائی کہتا ہے:

''اس (حمزہ) میں کوئی حرج نہیں۔،،

عجلی کا کہنا ہے:

''یہ قابل اعتماد اور نیک انسان تھا۔،،

___________________

(۱) یعنی مسائل میراث (مترجم)

(۲) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۲۶۱۔

۱۸۳

ابن سعد کا کہنا ہے:

''حمزہ نیک آدمی تھا، اس کے پاس بہت سی احادیث تھیں، یہ ایک سچا انسان تھا اور علم قراءت میں خاص روش کا مالک تھا۔،،

ساجی کہتا ہے:

''حمزہ سچا انسان تھا لیکن اس کا حافظہ اچھا نہیں تھا۔ اس لیے اس کی حدیث میں کوئی پختگی نہیں ہے۔،،

بعض اہل حدیث نے قراءت میں بھی اس پر تنقید کی ہے اور بعض حضرات اس کی قراءت کے مطابق پڑھی گئی نماز کو باطل سمجھتے ہیں۔

ساجی اور ازدی کا کہنا ہے:

اس کی قراءت پر علماء میں چہ میگوئیاں ہوتی ہیں اور وہ ایک مذموم حالت کی طرف اس کی نسبت دیتے ہیں۔،،

اس کے علاوہ ساجی کا کہنا ہے:

''میں نے سلمۃ بن شبیب کو یہ کہتے ہوئے سنا: احمد بن حنبل اس شخص کی اقتداء کرنا پسند نہیں کرتے تھے جو حمزہ کی قراءت پر عمل کرتا ہو۔،،

آجری، احمد بن سنان سے نقل کرتے ہیں:

''یزید بن ہاروں کو حمزہ کی قراءت سے سخت نفرت تھی۔،،

احمد بن سنان کہتے ہیں کہ میں نے ابن مہدی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے:

''اگر مجھ میں قدرت ہوتی تو ان لوگوں کو زدو کوب کرتا جو حمزہ کی قراءت پر عمل کرتے ہیں۔،،

ابوبکر بن عیاش کہتے ہیں:

''حمزہ کی قراءت میرے نزدیک بدعت ہے۔،،

۱۸۴

ابن دری کہتا ہے:

''میں چاہتا ہوں کہ کوفہ سے حمزہ کی قراءت کامکمل خاتمہ ہو جائے۔،،(۱)

اس کے دو راوی ہیں جنہوں نے بالواسطہ اس سے قراءت نقل کی ہے اور یہ ''خلف بن ہشام،، اور ''خلاد بن خالد،، ہیں۔

خلف: اس کی کنیت ابو محمد تھی اور اس کا تعلق بنی اسد سے تھا۔ اس کے والد کا نام ہشام بن ثعلب بزاز تھا، جو بغداد کا رہنے والا تھا۔

ابن جزری کہتا ہے:

''خلف دس قاریوں میں سے ایک ہے۔ سلیم کے واسطے سے حمزہ کی قراءت روایت کرنے والوں میں سے یہ ایک ہے۔ اس نے دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا تھا اور تیرہ سال کی عمر میں علم قراءت کی تحصیل میں مشغول ہوگیا اور وہ ثقہ، جلیل القدر، زاہد و عابد اور دانشمند انسان تھا۔،،

ابن اشتہ کا کہنا ہے:

''خلف نے قراءت میں حمزہ کی روش اپنائی لیکن وہ ایک سو بیس مقامات پر حمزہ سے اختلاف رکھتا تھا۔،،

یہ ۱۵۰ھ میں پیدا ہوا اور ۲۲۹ھ میں اس نے وفات پائی۔(۲)

لالکائی کا کہنا ہے:

''عباس دوری سے جب اس داستان کے متعلق پوچھا گیا جو احمد بن جنبل نے خلف کے بارے میں نقل کی ہے تو عباس دوری نے جواب میں کہا: میں نے خود احمد بن حنبل سے یہ داستان نہیں سنی البتہ میرے دوسرے نقل کرتے ہیں کہ احمد بن حنبل کے پاس خلف کا نام لیا گیا اور باتوں باتوں میں یہ بِھی کہا گیا کہ خلف شراب پیتا تھا

____________________

(۱) تہذیب التہذیب، ج ۳، ص۲۷۔

(۲) طبقات القرائ،ج ۱، ص ۲۷۲۔

۱۸۵

تو احمد نے کہا: ہمارے نزدیک یہ واقعہ ثابت ہے لیکن اس کے باوجود (واللہ) وہ ہمارے نزدیک قابل اعتماد ہے۔،،

نسائی کہتا ہے:

''خلف بغدادی ہے اور قابل اعتماد آدمی ہے۔،،

دار قطنی کا کہنا ہے:

''خلف کہا کرتا تھا: میں نے اپنی چالیس سال کی نمازیں دوبارہ پڑھی ہیں، کیونکہ اس دوران میں کوفیوں کے مسلک کے مطابق شراب پیتا تھا۔،،

خطیب بغدادی، اپنی تاریخ میں محمد بن حاتم کندی سے نقل کرتے ہیں:

''یحییٰ بن معین سے جب خلف کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا: ''اسے اتنا بھی معلوم نہیں

تھا کہ علم حدیث کیا چیز ہے۔،،(۱)

مؤلف: خلف سے قراءت نقل کرنے والے راویوں کے بارے میں گفتگو بعدمیں کی جاھے گی۔

خلاد بن خالد: ابو عیسیٰ شیبانی کے نام سے مشہور ہے اور یہ کوفہ کا رہنے والا تھا۔ اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''خلاد، علم قراءت میں پیشوا اور قابل اطمینان آدمی ہے اور وہ اس علم کا دانشمند، محقق اور استاد ہے۔،،

اس نے قراءت سلیم سے سیکھی اور تصدیق کے لیے اسی کو سنائی۔ اپنے ساتھیوں میں اس کا حافظہ سب سے تیز تھا اور یہ سب سے زیادہ قابل قدر تھا۔ ۲۲۰ھ میں اس نے وفات پائی۔(۲)

مؤلف: اس کی قراءت کے راوی بھی گذشتہ راویوں کی طرح گمنام اور مجہول الحال ہیں۔

____________________

(۱) تہذیب التہذیب،ج ۳، ص۱۵۲۔

(۲) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۲۷۴۔

۱۸۶

۶۔ نافع مدنی

اس کا نام نفع بن عبد الرحمن ابی نعیم ہے۔ ابن جزری کہتے ہیں:

''نافع، سات مشہور قاریوں او علماء میں سے ایک ہے۔ یہ باوثوق اور نیک آدمی ہے۔ یہ اصل میں اصفہان کا ہے۔،،

اس نے اہل مدینہ کے تابعین کی ایک جماعت سے قراءت سیکھی اور انہیں کو تصدیق کے لئے سنائی۔

سعید ابن منصور نے کہا کہ میں نے مالک بن انس کو یہ کہتے سنا ہے:

''اہل مدینہ کی قراءت، سنت اور روش پیغمبرؐ ہے۰ اس (مالک بن انس) سے پوچھا گیا: کیا قراءت اہل مدینہ سے مراد، نافع کی قراءت ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں۔،،

عبد اللہ بن احمد حنبل کہتے ہیں:

''میں نے اپنے والد سے پوچھا: آپ کون سی قراءت زیادہ پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا: اہل مدینہ کی قراءت۔ میں نے کہا: اگر یہ قراءت میسر نہ ہو تو؟ انہوں نے جواب دیا: عاصم کی قراءت کو۔،

نافع نے ۱۶۹ھ میں وفات پائی۔(۱)

ابو طالب نے احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے:

''لوگ قرآن نافع سے سیکھتے تھے لیکن نقل حدیث میں اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔،،

دوری نے ابن معین سے نقل کیا ہے:

''نافع قابل اعتماد آدمی تھا۔،،

نسائی کہتا ہے:

''نافع میں کوئی عیب نہیں تھا۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۳۳۰۔

۱۸۷

ابن حیان نے بھی نافع کو قابل اعتماد افراد میں شمار کیا ہے۔

ساجی کا کہنا ہے:

''نافع راست گو آدمی ہے۔ لیکن احمد اوریحییٰ کی رائے اس کے بارے میں مختلف ہے۔ احمد کہتا ہے: اس کی حثیت قابل قبول نہیں اوریحییٰ کا کہنا ہے: یہ قابل اعتماد ہے۔،،(۱)

نافع کی قراءت دو راویوں ''قانون،، اور ''ورش،، نے بلا واسطہ نقل کی ہے۔

قالون: اس کا نام عیسیٰ اور کنیت ابو موسیٰ ہے اور اس کے والد کا نام میناء ابن وردان ہے اور یہ قبیلہ زہرہ کا آزاد کردہ ہے۔

منقول ہے کہ یہ نافع کاپروردہ تھا۔ قراءت میں اس کی ہوشیاری او زیرکی کی وجہ سے نافع نے اس کا نام ''قالون،، رکھا، کیونکہ رومی لغت میں قالون کا معنی ''عمدہ،، ہے۔

عبد اللہ بن علی کہتے ہیں:

''اسے قانون کالقب اس لیے دیا گیا کہ وہ اصل میں رومی تھا اور اس کا پر دادا رومیوں کا غلام تھا۔،،

اس نے قراءت نافع سے سیکھی اور تصدیق کے لیے اسی کو سنائی۔

ابن ابی حاتم کہتے ہیں:

''اسے قانون کا لقب اس لیے دیا گیا کہ وہ اصل میں رومی تھا اور اس کا پردادا رومیوں کا غلام تھا۔،،

اس نے قراءت نافع سے سیکھی اور تصدیق کے لیے اسی کو سنائی۔

____________________

(۱) تہذیب التہذیب،ج ۱۰، ص ۴۰۷۔

۱۸۸

ابن ابی حاتم کہتے ہیں:

''قالون گونگا تھا اور وہ لبوں کے اشاروں سے قرآن پڑھتا اور ہونٹوں کے اشارے سے ہی لوگوں کو قراءت کی اغلاط کی طرف متوجہ کرتی تھا۔،،

یہ ۱۲۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۲۰ھ میں وفات پاگئے۔(۱)

ابن حجر کہتے ہیں:

''قالون قراءت میں قابل اعتماد اور باوثوق ہے۔ لیکن حدیث کے اعتبار سے اس کی احادیث کسی حد تک قابل درج ہیں۔،،

احمد بن صالح مصری سے قالون کی حدیثوں کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ مسکرائے اور کہنے لگے:

''کیا ہر کس و ناکس کی حدیث لکھی جاتی ہے۔،،(۲)

مؤلف: قالون کے راوی بھی دوسرے قاریوں کے راویوں کی طرح گمنام ہیں۔

ورش: اس کا نام عثمان اور اس کے والد کا نام سعید ہے۔

ابن جزری کا کہنا ہے:

''میرے دور میں تعلیم قراءت کی ریاست کا منصب مصر میں ورش کے حوالے کردیا گیا۔ قراءت میں اس کا اپنانظریہ ہے جس میں اس نے نافع سے اختلاف کیا ہے۔ قراءت میں یہ قابل اعتماد ہے اور اس کی باتیں حجت و مدرک کی حیثیت رکھتی ہیں۔،،

یہ ۱۱۰ھ میں مصر میں پیدا ہوئے اور ۱۹۷ھ میں وہیں انتقال کرگئے۔(۳)

مؤلف: اس کی قراءت کے راویوں کا حال بھی گذشتہ راویوں کی طرح ہے۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۶۱۵۔

(۲) لسان المیزان، ج ۴، ص ۴۰۸۔

(۳) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۵۰۲۔

۱۸۹

۷۔ کسائی کوفی

اس کا نام علی اور یہ کسائی کے نام سے مشہو رتھا۔ اس کے والد کا نام حمزہ ابن عبداللہ بن بہمن بن فیروز ہے اور یہ قبیلہ بنی اسد سے تعلق رکھتا تھا۔ اسے بنی اسد نے آزاد کرایا تھا۔ اس کے آباؤ اجداد ایرانی تھے۔

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ قراءت کا پیشوا ہے جسے ''حمزہ زیارت،، کے بعد کوفہ میں علم قراءت کی ریاست سونپی گئی۔ اس نے قراءت حمزہ سے سیکھی اور اسی سے اس کی تائیدلی۔ اس نے اپنی قراءت چار مرتبہ حمزہ کو سنائی۔ وہ قراءت میں صرف حمزہ پر اعتماد کرتا تھا۔،،

ابو عبید اپنی کتاب ''القرءات،، میں کہتا ہے:

''قراءت میں کسائی کی روش مخصوص تھی اور حمزہ کی بعض قراءتیں اس نے قبول کیں اور بعض ترک کردیں۔،،

کسائی کی تاریخ وفات میں اختلاف ہے۔ جو تاریخ وفات ہماری نظر میں صحیح ہے اور بعض مؤرخین نے بھی اسے لکھا ہے وہ ۱۸۹ھ ہے۔(۱)

اس نے ''حمزہ زیارت،، سے بطور مذاکرہ اور محمد بن عبدالرحمن بن لیلی، عیسیٰ بن عمرو اعمش اور ابوبکر بن عیاش سے قراءت سیکھی اور انہیں سے حدیث کا درس حاصل کیا۔ ان کے علاوہ سلیمان بن ارقم، امام جعفر صادق (علیہ السلام)، عزرمی اور ابن عیینہ سے بھی قراءت سیکھی۔ اس نے خلیفہ رشید اور پھر اس کے بیٹے امین کو قراءت کی تعلیم دی۔(۲)

''مرزبانی،،، ''ابن اعرابی،، سے نقل کرتا ہے:

''اگرچہ کسائی گناہگار تھا اور ہر وقت شراب پیتا تھا اور بعض دوسرے گناہوں کا بھی علی الاعلان مرتکب ہوتا تھا،

____________________

(۱) طبقات القرائ،ج ۱، ص ۵۳۵۔

(۲) تہذیب التہذیب،ج ۷، ص ۳۱۳۔

۱۹۰

اس کے باوجود وہ ایک سچا آدمی، قاری قرآن، مضبوط و تیز حافظہ کا مالک اور عربی زبان کا ماہر تھا۔،،(۱)

کسائی کی قراءت کے دو بلا واسطہ راوی لیث بن خالد اور حفص بن عمر ہیں۔

لیث: اس کی کنیت ابو الحارث تھی، والد کا نام خالد اور یہ بغداد کا رہنے والا تھا۔ اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ ایک معروف، قابل اعتماد، استاد حاذق اور مضبوط حافظے والا انسان ہے اور یہ کسائی کے بڑے شاگردوں میں سے ہے۔،،

اس نے کسائی سے قراءت سیکھی۔ اس کی تاریخ وفات ۲۴۰ھ ہے۔(۲)

مؤلف: اس کے راویوں کی حالت بھی گذشتہ راویوں کی طرح ہے۔

حفص بن عمر دوری کے حالات، عاصم کے حالات کے ضمن میں بیان کیے جاچکے ہیں۔

یہ تھے سات قاری۔ جن کی قراءتوں اور راویوں کے مفصل حالات کا یہاں ذکر کیا گیا۔

قاسم بن فیرہ نے اپنے قصیدہ ''لامیہ،، معروف بہ ''شاطبیہ،، میں سات قاریوں اور ان کے راویوں کے نام نظم کی صورت میں بیان کئے ہیں۔

دس قاریوں میں سے تین قاریوں کے نام یہ ہیں:

خلف ۔ یعقوب اور یزید بن قعقاع۔

____________________

(۱) معجم الادبائ، ج ۵، ص ۱۸۵۔

(۲) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۳۴۔

۱۹۱

۸۔ خلف بن ہشام بزار

خلف کے حالات، حمزہ کے حالات کے ذیل میں بیان کئے جاچکے ہیں۔ اس کی قراءت کے راوی ''اسحاق،، اور ''ادریس،، ہیں۔

اسحاق: اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''اسحاق کے والد کا نام ابراہیم بن عثمان بن عبد اللہ اور اس کی کنیت ابو یعقوب تھی۔ اصل میں یہ مروز کا باشندہ تھا اور بعد میں اس نے بغداد کو اپنا وطن بنالیا۔یہ خلف کی قراءت کا ناقل، اس کے کتابخانے کا مسؤل اور قابل اعتماد انسان تھا۔،،

اس نے ۲۸۶ھ میں وفات پائی۔(۱)

مؤلف: قراءت اسحاق کے راوی بھی دیگر راویوں کی طرح مجہول الحال ہیں۔

ادریس: اس کے بارے ابن جزری کا کہنا ہے:

''ا سکا نام ادریس اور اس کے والد کا نام عبد الکریم حداد تھا۔ اس کی کنیت ابو الحسن تھی اور یہ بغداد کا رہنے والا تھا، یہ علم قراءت کا امام، مضبوط حافظہ کا مالک اور قابل اطمینان انسان ہے، اس نے قراءت خلف بن ہشام سے سیکھی۔،،

دار قطنی سے جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا:

''باوثوق بلکہ اس سے بھی بہتر ہے۔،،

اس نے ۲۹۲ء میں وفات پائی۔(۲)

مؤلف: اس کے راوی بھی دوسروں کی طرح مجہول الحال ہیں۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۱۵۵۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۱۵۴۔

۱۹۲

۹۔ یعقوب بن اسحاق

اس کا نام یعقوب، والد کا نام اسحاق اور اس کی کنیت ابو محمد ہے، یہ قبیلہ حضرمی کا آزاد کردہ اور بصرے کا رہنے والا تھا۔

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ دس قاریوں میں سے ایک ہے۔،،

یعقوب کا کہنا ہے:

''میں نے سلام سے ڈیڑھ سال اور شہاب بن شرنفۃ مجاشعی سے پانچ دن قراءت سیکھی۔ شہاب نے نو دن مسلمہ نے محارب المحاربی سے اور مسلمۃ نے ابی الاسود دؤلی سے اور اس نے امیر المومنین (علیہ السلام) سے قراءت سیکھی۔،،

اس نے ۲۰۵ھ میں ۸۸ سال کی عمر میں وفات پائی۔(۱)

اس کے بارے میں احمد اور ابو حاتم کا کہنا ہے:

''یہ صادق انسان تھا۔،،

ابن حیان نے بھی اسے قابل اطمینان افراد میں شمار کیا ہے لیکن ابن سعد کا کہنا ہے:

''علمائے رجال کی نظر میں یہ کوئی پایہ کا محقق نہیں ہے۔،،(۲)

اس کی قراءت کے دو راوی ''رویس،، اور ''روح،، ہیں۔

رویس: اس کا نام محمد، والد کا نام متوکل معروف بہ لؤلؤ تھا۔ اس کی کنیت ابو عبد اللہ تھی اور یہ بصرہ کا رہنے والا تھا۔

ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ قراءت میں استاد اور مضبوط حافظہ کا مالک تھا۔ فن قراءت میں اسے خاصی مہارت اور شہرت حاصل تھی۔ اس نے یعقوب حضرمی سے قراءت سیکھی اور تصدیق کے لیے اسی کو سنائی۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ،ج ۲، ص ۳۸۔

(۲) تہذیب التہذیب،ج ۱۱، ص ۳۸۲۔

۱۹۳

دانی کا کہنا ہے:

''یہ یعقوب کے ماہر شاگردوں میں سے تھا۔،،

اس سے محمدبن ہارون تمار اور امام ابو عبد اللہ زبیر بن احمد زبیری شافعی نے قراءت نقل کی ہے۔

اس نے ۳۳۸ھ میں وفات پائی۔(۱)

روح: اس کی کنیت ابو الحسن، والد کا نام عبد المومن اور تعلق قبیلہ ھذل سے تھا اور یہ اسی قبیلے کا آزاد کردہ اور بصرے کا رہنے والا تھا، اس کا شمار دانشمندان علم نحو میں ہوتا تھا۔

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''وہ قراءت میں استاد او رجلیل القدر شخصیت تھا، وہ موثق اور قوی حافظہ کا مالک تھا۔،،

اس نے قراءت یعقوب حضرمی سے سیکھی اور اس کا شمار یعقوب کے نامور شاگردوں میں ہوتا تھا۔ اس نے ۲۳۴ھ یا ۲۳۵ھ میں وفات پائی۔(۲)

مولف: جنہو ں نے اسے قرآن پڑھ کر سنایا ان کی حالت بھی گذشتہ رایوں کی طرح ہے۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۲۳۴۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۲۸۵۔

۱۹۴

۱۰۔ یزید بن قعقاع

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''اس کا نام یزید اور والد کا نام قعقاع تھا۔ اس کی کنیت ابو جعفر ہے۔ اس کا تعلق قبیلہ مخزوم سے اور یہ مدینہ کا رہنے والا تھا، وہ اپنے فن میں امام تھا اور اس کا شمار دس مشہور قاریوں اور تابعین میں ہوتا ہے۔ یہ ایک معروف اور جلیل القدر شخصیت ہے۔،،

اس نے عبد اللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ، عبد اللہ بن عباس اور ابوھریرہ سے قراءت سیکھی اور انہی کو تصدیق کے لیے سنائی۔

یحییٰ بن معین کہتا ہے:

''ابن قعقاع، قراءت میں اہل مدینہ کاامام تھا اور اسی لیے اس کا نام قاری رکھا گیا، وہ ایک قابل اعتماد انسان تھا لیکن اس نے احادیث کم نقل کی ہیں۔،،

ابن ابی حاتم کا کہنا ہے:

''میں نے اس کے بارے میں اپنے والد سے پوچھا تو انہو ںنے جواب دیا: وہ بیان حدیث میں نیک انسان ہے۔،،

اس نے ۱۳۰ھ میں مدینہ میں وفات پائی۔(۱)

ابو جعفر (ابن قعقاع) کی قراءت کے دو راوی ''عیسیٰ،، اور ''ابن جماز،، ہیں۔

عیسیٰ: اس کے والد کا نام ''وردان،، اور کنیت ابو الحارث تھی۔ یہ مدینہ کا رہنے والا حذاء کے نام سے مشہور تھا۔

ابن جزری کا کہنا ہے:

''عیسیٰ، قراءت کااستاد اور امام تھا۔ یہ راویئ حدیث، محقق، قوی حافظہ رکھنے والا محتاط انسان تھا۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۳۸۲۔

۱۹۵

اس نے قراءت شروع میں ابو جعفر اور شیبہ سے اور بعد میں نافع سے سیکھی۔

دانی اس کے بارے میں کہتا ہے:

''عیسیٰ، نافع کے پرانے اور جلیل القدر شاگردوں میں سے ہے۔ نقل حدیث اور سند میں یہ نافع کا شریک رہا ہے۔،،

میرے خیال میں عیسیٰ کا سن وفات ۱۶۰ھ ہے۔(۱)

مؤلف: اس کی قراءت کے راوی بھی گذشتہ راویوں کی مانند ہیں۔

ابن جماز: اس کا نام سلیمان اور والد کا نام مسلم بن جماز تھا، اس کی کنیت ابوالربیع تھی۔ یہ قبیلہ زہرہ کا آزاد کردہ تھا اور اس نے مدینہ کو اپنا وطن بنایا۔

ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ قراءت کا استاد اور جلیل القدر ہونے کے ساتھ ساتھ مضبوط حافظہ کا مالک تھا۔،،

کتب ''الکامل،، اور ''المستنیر،، کے مطابق اس نے شروع میں قراءت ابو جعفر اور شیبہ سے سیکھی اور بعد میں تصدیق کے لیے نافع کو سنائی۔ میرے خیال میں اس نے ۱۷۰ھ کے بعد وفات پائی۔(۲)

اب تک جن دس قاریوں اور ان کے راویوں کا ذکر کیاگیا ہے، سوانح نگاروں میں انہیں کی شہرت ہے۔ لیکن ان مذکورہ طریقوں کے علاوہ جن قراءتوں کی روایت کی گئی ہے وہ مدون شکل میں نہیں ہےں۔

ان دس قاریوں کے دیگر راویوں کے بارے میں سوانح نگاروں میں اختلاف پایا جاتا ہے جس کی طرف اس سے قبل اشارہ کیا جاچکا ہے۔ اس لیے اس کا ذکر یہاں نہیں کررہے۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۶۱۶۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۳۱۵۔

۱۹۶

قراءتوں پر ایک نظر

٭ تواتر قرآن کے منکرین کی تصریح

٭ تواتر قراءت کے دلائل

٭ قراءتیں اور سات اسلوب

٭ حجیت قراءت

٭ نماز میں ان قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے

۱۹۷

اس سے قبل قاریوں سے متعلق تمہیدی بحث کے دوران قراءت کے تواتر اور عدم تواتر کے بارے میں بعض علمائے کرام کی رائے بیان کی گئی اور اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا گیا کہ محققین تواتر قراءت کے منکر ہیں۔ جبکہ تمام مسلمانوں کا قرآن کے تواتر ہونے پر اتفاق ہے۔

اب ہم ذیل میں قراءت کے متواتر نہ ہونے پر چند دلائل پیش کرتے ہیں:

۱۔ راویوں کے حالات زندگی کے مطالعہ اور ان میں تحقیق سے حتماً یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ قراءتیں خبر واحد کے ذریعے نقل کی گئی ہیں خبر متواتر کے ذریعے نہیں۔ چونکہ قاریوں کے حالات زندگی میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے لہذا ان قراءتوں کے تواتر کا دعویٰ درست نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ بعض راویان قراءت کا موثق ہونا بھی ثابت نہیں ہے۔

۲۔ اگر قاریوں کے قراءت حاصل کرنے کے ذرائع اور طریقوں پر غور کیا جائے تو بھی قطعاً یہ ثابت ہوجاتا ے کہ یہ قراءتیں خبر واحد کے ذریعے ان قاریوں تک پہنچی ہیں، خبر متواتر کے ذریعے نہیں۔

۳۔ ہر قراءت کے سلسلہ سند کا قاریوں تک منتہی ہونا تواتر اسناد کو قطع کردیتا ہے اگر چہ ہر طبقہ میں قراءتوں کے قاریوں کا کذب پر اتفاق ممتنع اور محال ہو۔ ا سلیے کہ ہر قاری صرف اپنی قراءت نقل کرتا ہے، جو خبر واحد ہے۔

۴۔ ہر قاری اور اس کے پیروکاروں کا صحت قراءت کے لیے استدلال کرنا اور دوسروں کی قراءت سے اعراض و احتراز اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ ان قراءتوں کا مسند و مدرک قاریوں کا اپنا اجتہاد اور اپنی ذاتی رائے ہے۔ کیوں کہ اگر یہ قراءتیں بطور تواتر پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہوتیں تو ان کی صحت ثابت کرنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہ ہوتی۔

۵۔ بعض علماء و محققین کا بعض روایات قراءت کا انکار کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ قراءت متواتر نہیں کیونکہ اگر یہ قراءتیں متواتر ہوتیں تو ان کا انکار درست نہ ہوتا۔

۱۹۸

چنانچہ ابن جریر طبری نے ابن عامر کی قراءت تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اس نے ان سات مشہور قراءتوں میں سے بعض کو ہدف تنقید قرار دیا ہے۔

بعض علماء نے حمزہ کی قراءت کو بھی مورد اشکار و اعتراض قرار دیا ہے۔ اسی طرح بعض نے ابوعمرو کی اور بعض نے ابن کثیر کی قراءت رد کردی ہے اور بہت سے دانشمندوں نے تو ہر اس قراءت کے تواتر کو مسترد کردیا ہے جس کی وجہ اور منشاء لغت عرب میں موجود نہ ہو اور اس سلسلے میں بعض قاریوں کی خطا و لغزش کا حکم لگایا ہے۔(۱)

حمزہ کے حالات زندگی میں بھی ذکر کیا جاچکا ہے کہ اس (حمزہ) کی قراءت کو حنبلیوں کے امام، احمد بن حنبل، یزید بن ہارون، ابن مہدی(۲) ، ابوبکر بن عیاش اور ابن درید نے تسلیم نہیںکیا۔

زرکشی کہتے ہیں:

''قراءتیں توقیفی(۳) ہیں۔ علماء کی ایک جماعت ،جس میں زمخشری بھی شامل ہیں، نے اسسے اختلاف کیا ہے۔ کیو نکہ ان کا خیال ہے کہ قراءتیں اختیاری ہیں اور ان کا دارو مدار فصحاء کے اختیار و انتخاب اوربلغاء کے اجتہاد پر ہے۔،،

____________________

(۱) معتصم باللہ طاہر بن صالح بن احمدالجزائری کی کتاب ''التبیان،، ص ۱۰۶، طبع ''المنار،،،، ۱۳۳۴ھ۔

(۲) اس کا نام عبدالرحمن بن مہدی ہے ''تہذیب التہدیب، ج ۶، ص ۲۸۰ میں مذکور ہے: احمد بن سنان کہتے ہیں: میں نے علی ابن المدینی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: ''عبد الرحمن بن مہدی لوگوں میں سب سے زیادہ عالم ہیں،، اس جملے کو اس نے کئی بار دہرایا۔ خلیلی نے کہا''ابن مہدی امام ہے اس کے مقابلے میں کوئی نہیں ہے،، اس کے بارے میں شافعی کا کہنا ہے کہ میں نے دنیا میں اس کا کوئی مثل و نظیر نہیں دیکھا۔

(۳) یعنی، جو تلفظ رسولؐ نے فرمایا وہی تلفظ ہمیں بھی کرنا چاہیے۔ قاری کو کسی قرت کے انتخاب کا اختیار نہیں ہے۔ (مترجم)

۱۹۹

اس کے بعد زرکشی حمزہ کے اس قراءت کو رد کرتے ہیں جس میں ''والارحام،، کو زیر دی گئی ہے۔ ابی زید، اصمعی اور یعقوب حضرمی سے منقول ہے کہ انہوں نے حمزہ کی اس قراءت کو غلط قرار دیا ہے جس میں اس نے ''وما انتم بمصرخی،، میں تشدید کے ساتھ زیر دی ہے نیز انہوں نے ابو عمرو کی اس قراءت کوبھی تسلیم نہیں کیا جس میں اس نے ''یغفرلکم،، میں ''ر،، کو لام میں مدغم کرکے پڑھا ہے اور زجاج کا کہنا ہے: ''اس طرح پڑھنا فاش غلطی ہے۔،،(۱)

تواتر قراءت کے منکرین کی تصریح

اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علم قراءت کے بعض ماہرین کا کلام پیش کیا جائے جس میں انہوں نے قراءت کے متواتر نہ ہونے کی تصریح کی ہے تاکہ حق اپنی بہترین صورت میں ظاہر ہ وجائے۔

۱۔ ابن جزری کہتے ہیں:

''ہر وہ قراءت جو لغتِ عرب کے مطابق ہو، اگرچہ ایک پہلو ہی سے ہو اور عثمانیوں کے قرآنوں میں سے کسی کے مطابق ہو، خواہ اس کا احتمال ہی ہو اور اس کی سند بھی صحیح ہو تو ایسی قراءت صحیح ہوگی اور اس کو رد کرنا جائز نہیں اور اس کا انکار حلال نہیں ہے، بلکہ یہ ان سات اسلوبوں میں سے ایک اسلوب ہوگا جس کے مطابق قرآن نازل ہوا ہے اور واجب ہے کہ لوگ اسے قبول کرلیں چاہے یہ قراءت ان سات مشہور قاریوں میں سے کسی کی ہو یا دس میں سے کسی کی ہو یا ان دس کے علاوہ کسی اور قابل قبول قاری کی ہو لیکن اگر کسی کی قراءت میں ان تین اہم شرائط و ارکان میں سے کوئی ایک مفقود ہو تو وہ قراءت ضعیف، شاذ و نادر اور باطل سمجھی جائے گی چاہے یہ قراءت ان سات قاریوں میں سے کسی کی ہو یا ان سے بڑے کی ہو۔،،

____________________

(۱) التبیان، ص ۸۷۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689