البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن5%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314045 / ڈاؤنلوڈ: 9316
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

متقدمین اور متاخرین میں اہل تحقیق کا صحیح نظریہ یہی ہے۔ اسی کی امام حافظ ابوعمرو عثمان بن سعید دانی نے تصریح کی ہے۔ امام ابو محمد مکی بن ابی طالب نے متعدد مقامات پر اور امام ابو العباس احمد بن عمار المھدوی نے صاف الفاظ میں اسی نظریہ کو بیان کیا ہے۔ امام حافظ ابو القاسم عبد الرحمن بن اسماعیل المعروف ابی شامہ کی تحقیق بھی یہی ہے۔ یہ وہ نظریہ ہے جس پر گذشتہ علماء کا اتفاق ہے اور اس کا کوئی مخالف دیکھنے میں نہیں آتا۔

۲۔ ابو شامہ اپنی کتاب ''المرشد الوجیز،، میں لکھتے ہیں:

''کبھی بھی ہر اس قراءت جو ان سات قاریوں میں سے کسی ایک کی طرف منسوب ہو، سے فریب نہ کھائیں اور اس پر مہر صحت ثبت نہ کریں اور نہ ہی یہ سمجھیں کہ قرآن اسی قراءت کے مطابق نازل ہوا ہے مگر یہ کہ صحت قراءت کے قواعد و ضوابط اس پر منطبق ہوں اور یہ شرائط صحت پر مشتمل ہو تو پھر اس کا ناقل تنہاایک مصنف نہیں ہوگا بلکہ یہ قراءت اجماعی ہوگی۔ کیونکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ صحت کی شرائط موجود ہیں یا نہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ قراءت کس قاری سے منسوب ہے۔ جتنی قراءتیں بھی ان سات قاریوں یا کسی اور قاری سے منسوب ہیں وہ دو قسم کی ہیں۔

i ) متفق علیہ۔

ii ) شاذ۔

لیکن چونکہ ان سات قاریوں کی شہرت ہے اور ان کی قراءتوں میں صحیح و اجماعی قراءتوں کی کثرت ہے اس لیے دوسروں کی نسبت ان کی قراءتوں پر انسان زیادہ مطمئن ہوتا ہے۔،،(۱)

____________________

(۱) النشر فی القراات العشر، ج ۱، ص ۹۔

۲۰۱

۳۔ ابن جزری کہتے ہیں:

''بعض متاخری نے قراءت کی صحت سند پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس میں تواتر کو شرط قرار دیا ہے۔ ان حضرات کا خیال ہے کہ قرآن خبر متواتر ہی ثابت ہوتا ہے خبر واحد سے نہیں۔ مخفی نہ رہے کہ یہ قول خالی از اشکال نہیں ہے۔ اس لی ےکہ جب کوئی قراءت تواتر سے ثابت ہو تو پھر باقی دو شرطوں لغت عرب اور عثمانی قرآن سے مطابقت کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ جو اختلافی قراءت بطور تواتر پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہوگی اس کو تسلیم کرنا لازمی ہوگا اور اس کے قراّ ہونے کا یقین حاصل ہوگا چاہے باقی شرائط اس میں موجود ہوں یا نہ ہوں اور اگر ہر اختلافی قراءت میں تواتر شرط ہو تو بہت ساری اختلافی قراءتیں جو سات مشہور قاریوں سے منقول ہیں باطل ثابت ہوں گی۔ پہلے میں اس نظریئے کی طرف رحجان اور جھکاؤ رکھتا تھا۔ بعد میں میرے نزدیک اس کا بطلان ثابت ہوا اور میں نے ان موجودہ اور گذشتہ علماء کرام کی رائے کو اپنایا جو تواتر شرط نہیں سمجھتے۔،،

۴۔ امام ابو شامہ اپنی کتاب ''المرشد،، میں فرماتے ہیں:

''متاخرین میں سے بعض اساتذہئ قراءت اور ان کے تابعین میں یہ مشہور ہے کہ قرااءات ہفتگانہ (سات قراءتیں) سب کی سب متواتر ہیں یعنی ان سات قاریوں میں سے ہر ایک کی ہر قراءت متواتر ہے۔ متاخرین مزید کہتے ہیں: اس بات کا یقین رکھنا بھی لازمی ہے کہ یہ قراءتیں اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔ ہم بھی اسی کے قائل ہیں لیکن صرف ان قراءتوں میں جن کی سند نقل میں سب متفق ہوں، تمام فرقوں کا ان پر اتفاق ہو اور ان کا کوئی منکر نہ ہو، جبکہ ان قراءتوں میں اختلافات کثرت سے ہیں اور ان کے منکرین بھی بہت سے ہیں۔ بنابرایں اگر کوئی قراءت تواتر سے ثابت نہیں ہوت تو کم از کم اسے مختلف فیہ بھی نہیں ہونا چاہیے اور اس کا انکار کرنے والے بھی موجود نہیں ہونے چاہیں۔،،(۱)

____________________

(۱) النشر فی القراات العشر،ج ۱، ص ۱۳۔

۲۰۲

۵۔ سیوطی فرماتے ہیں:

''قراءت کے موضوع پر سب سے عمدہ کلام اپنے دور کے امام القراء اور استاذ الاساتید ابوالخیر ابن جزری کا ہے۔ وہ اپنی کتاب ''النشر فی القراءات العشر،، میں فرماتے ہیں: ہر وہ قراءت جو لغت عرب اور عثمانی قرآنوں کے کسی نسخے کے مطابق ہو اور اس کی سند صحیح ہو وہ قراءت صحیح سمجھی جائے گی۔،،

اس کے بعد سیوطی فرماتے ہیں:

''میں تو یہ کہوں گا، ابن جزری نے اس باب میں نہایت مضبوط اور مستحکم بات کہی ہے۔،،(۱)

۶۔ ابو شامہ''کتاب البسملة،، میں فرماتے ہیں:

''ہم ان کلمات میں تواتر کے قائل نہیں جن کے بارے میں قاریوں میں اختلاف ہے کہ بلکہ تمام قراءتوں میں بعض متواتر ہیں اور بعض غیر متواتر اوریہ بات اہل انصاف و معرفت اور مختلف قراءتوں پر عبور رکھنے والوں کے لیے واضح ہے۔،،(۲)

۷۔ بعض علماء فرماتے ہیں:

''آج تک اصولیین میں سے کسی نے بھی تصریح نہیں کی کہ قراءتیں متواتر ہیں البتہ بعضوں نے کہا ہے کہ قراءتیں سات مشہور قاریوں سے بطور تواتر ثابت ہیں لیکن کا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے بطور تواتر ثابت ہونااشکال سے خالی نہیں ہے۔ کیونکہ ان قاریوں نے خبر واحد کے ذریعے قراءتوں کو پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منسوب کیا ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) الاتقان النوع ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۲۹۔

(۲) التبیان، ص ۱۰۲۔

(۳) التبیان، ص ۱۰۵۔

۲۰۳

۸۔ علماء حدیث میں سے بعض متاءخرین کا کہنا ہے:

''کچھ اصولی حضرت قرااءات ہفتگانہ اور بعض حضرات دس قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے پاس کوئی علمی دلیل نہی ںہے۔ اس کے علاوہ قاریوں ہی کی ایک جماعت نے اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے کہ انہی سات قراءتوں میں سے بعض متواتر ہیں اور بعض غیر متواتر (آحاد) ہیں۔ ان قاریوں میں سے کسی نے بھی سات کی سات قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا چہ جائیکہ دس کی دس قراءتیں متواتر ہوں۔ البتہ بعض علماء اصول تمام قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اہل فن ہی اپنے فن کے بارے میں دوسروں سے زیادہ آگاہ اور آشنا ہوا کرتے ہیں۔(۱)

۹۔ قراءتوں کے بارے میں مکّی کہتے ہیں:

''بعض حضرات صرف ان قراءتوں کو معتبر اور قابل عمل سمجھتے ہیں جن پر نافع اور عاصم متفق ہوں، کیونکہ باقی قراءتوں میں سے ان کی قراءت افضل، سند کے اعتبار سے صحیح اور عربی لغت کے اعتبار سے زیادہ فصیح ہے۔،،(۲)

۱۰۔ جن حضرات نے قرائتوں حتی کہ قرااءات ہفتگانہ کے متواتر نہ ہونے کا اعتراف کیا ہے ان میں شیخ محمد سعید العریان بھی شامل ہے۔ اس نے اپنی ''تعلیقات،، میں اس کا ذکر کیا ہے، یہ فرماتے ہیں:

''تمام کی تمام قراءتیں، حتی کہ قراءات ہفتگانہ بھی شاذ اور نامشہور قراءتوں سے خالی نہیں ہےں۔،،

یہ مزید فرماتے ہیں:

''علماء کرام کے نزدیک موثق سندکے اعتبار سے سب سے زیادہ صحیح قراءت نافع اور عاصم کی ہے اور فصاحت کے دیگر پہلوؤں کے اعتبار سے ابوعمرو اور کسائی کی ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) ایضاً، ص ۱۰۶۔

(۲) ایضاً، ص ۹۰۔

(۳) اعجاز القرآن، رافعی، طبع چہارم، ص ۵۲۔۵۳۔

۲۰۴

اقوال علماء میں قراءتوں کے متواتر نہ ہونے کا اعتراف کیا گیا ہے کو نقل کرنے میں اب تک ہم نے اختصار سے کام لیا ہے۔ اس کے بعد بھی ہم مزید علماء کرام کے اعترافات نقل کریں گے۔

خدا را ذرا غور فرمائیے! کیا اتنے علماء کرام کی تصریحات کے باوجود بھی قراءتوں کے متواتر ہونے کے دعویٰ کی کوئی وقعت و ارزش باقی رہتی ہے؟

کیا یہ ممکن ہے کہ بغیر کسی دلیل کے صرف تقلید اور بعض افراد کے دعویٰ بلا دلیل کی بنیاد پر تواتر قراءت کو ثابت کیا جائے خصوصاً جب انسان کا وجدان بھی اس قسم کے دعویٰ کی تکذیب کرے؟

مجھے اس سے زیادہ تعجب اندلس کے مفتی پر ہو رہا ہے جس نے ان لوگوں کے کفر کا فتویٰ صادر کردیا جو تواتر قراءت کے منکر ہیں!!!۔

بفرض تسلیم، اگر قراءتیں بالاتفاق متواتر بھی ہوں تب بھی جب تک یہ ضروریات دین میں سے نہ ہوں، ان کا منکر کافر نہیںگردانا جاسکتا۔

فرض کیجئے! اس خیالی تواتر کی وجہ سے قراءت ضروریات دین میں سے قرار پائے تو کیا اس کے انکار سے وہ آدمی بھی کافر ہو جاتا ہے جس کے نزدیک ان کا متواتر ہونا ثابت نہیں ہے؟

اے اللہ! یہ تیری بارگاہ میں جراءت، جسارت، تیری حدود سے تجاوز اور مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں!!!

۲۰۵

تواتر قراءت کے دلائل

جو حضرات قراءت ہفتگانہ کے قائل ہیں انہوں نے اپنے دعویٰ پر چند دلائل پیش کئے ہیں:

۱۔ ان حضرات نے تواتر قراءت پر موجودہ اورگذشتہ علماء کرام کے اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

ہمارے گذشتہ بیانات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ دعویٰ باطل اور بے بنیاد ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے اتفاق سے اجماع وجود میں نہیں آتا جبکہ دوسروں کے مخالفت بھی موجود ہےں۔ انشاء اللہ آئندہ کسی مناسب موقع پر ہم اس کی مزید وضاحت کریں گے۔

۲۔ صحابہ کرام اور ان کے تابعین، قرآن کو جس اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اس کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن کی قراءت متواتر ہو اور یہ ہر مصنف مزاج اور حقیقت طلب انسان کے لیے ایک واضح حقیقت ہے۔

جواب:

اس دلیل سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ خود قرآن متواتر ہے، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قراءتوں کی کیفیتیں بھی متواتر ہیں۔ خصوصیاً جب اکثر علمائے قراءت کی قراءتیں ان کے ذاتی اجتہاد یا ایک دو آدمیوں کی نقل پر مبنی ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ مباحث میں آپ نے ملاحظہ فرمایا۔

اگر اس دلیل میں یہ قسم موجود نہ ہو تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ تمام کی تمام قراءتیں متواتر ہیں، صرف سات یا دس قراءتوں کے متواتر ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

جیسا کہ ہم بعد میں وضاحت کریں گے کہ قراءتوں کو سات میں منحصر کرنے کا عمل تیسری صدی ہجری میں انجام دیا گیا اور اس سے پہلے اس کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ بنابرایں یا تو تمام کی تمام قراءتوں کو متواتر ہونا چاہیے یا پھر کسی بھی قراءت کو متواتر نہیں ہونا چاہیے۔

۲۰۶

پہلا احتمال تو مسلماً باطل ہے اس لیے لامحالہ ماننا پڑے گا کہ دوسرا احتمال و نظریہ صحیح اور قابل قبول ہے۔

۳۔ اگر قرااءات ہفتگانہ متواتر نہ ہوں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ قرآن مجید بھی متواتر نہ ہو اور قرآن کا متواتر نہ ہونا یقیناً باطل ہے جو محتاج بیان نہیں۔ لہذا قراءتوں کا متواتر نہ ہونا بھی باطل ہے۔ قراءتوں کے متواتر نہ ہونے سے قرآن کا متواتر نہ ہونا لازم آتا ہے۔ چونکہ قرآن ہم تک حافظان قرآن اور مشہور و معروف قاریوں کے ذریعے پہنچا ہے اس لیے اگر ان قاریوں کی قراءتیں متواتر ہونگی تو قرآن بھی متواتر ہوگا ورنہ قران بھی متواتر نہیں ہوگا، لہذا لامحالہ ماننا پڑے گا کہ قراءتیں متواتر ہیں۔

جواب:

اولاً:تواتر قرآن کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قراءتیں بھی متواتر ہیں۔ کیونکہ کسی کلمہ کی کیفیت اور ادائیگی میں اختلاف اصل کلمہ پر اتفاق ہونے سے منافات نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے ہم دیکتے ہیں کہ ''متنبی،، کے قصیدوں کے الفاظ میں بعض راویوں کا احتلاف کرنا اس بات کے منافی نہیں ہے کہ اصل قصیدہ بھی اس سے متواتراً ثابت نہ ہو۔ اسی طرح ہجرت رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خصوصیات میں راویوں کا اختلاف اصل ہجرت کے متواتر ہونے سے منافات نہیں رکھتا۔

ثانیاً: قاریوں کے ذریعے جو چیز ہم تک پہنچی ہے وہ ان کی قراءتوں کی خصوصیات ہیں اور جہاں تک اصل قرآن کا تعلق ہے وہ مسلمانوں میں تواتر کے ذریعے ہم تک پہنچا اور گذشتہ مسلمانوں سے آنے والے مسلمانوں میں منتقل ہونے سے ثابت ہوا جو کہ ان کے سینوں اور تحریروں میں محفوظ تھھا۔ اصل قران کی نقل میں قاری حضرات کا کوئی دخل نہیں ہے، اسی لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ سات یا دس قاری موجود نہ ہوتے تب بھی قرآن کریم بطور تواتر موجود ہوتا اور کلام مجید کی عظمت و شرف اس سے بالاتر ہے کہ چند گنے چنے افراد کی نقل پر یہ موقوف و منحصر ہو۔

۲۰۷

۴۔ اگر قراءتیں متواتر نہ ہوں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ قرآن کے بعض حصے متواتر نہیں ہیں جس طرح ''ملک یوم الدین،، اور ''مالک یوم الدین،، ہے۔ کیونکہ اگر ان میں سے صرف ایک کو متواتر سمجھیں گے تو یہ دعویٰ بلا دلیل ہوگا، جو باطل ہے۔ اس دلیل کو ابن حاجب اور پھر علماء کی ایک جماعت نے اسی کی پیروی میں ذکر کیا ہے۔

جواب:

اولاً: اس دلیل کا تقاضا تو یہ ہے کہ تمام کی تمام قراءتیں متواتر ہوں اور صرف سات قراءتوں کو متواتر قرار دینا دعویٰ بلادلیل ہے جو باطل ہے۔ خصوصاً جب دوسرے قاریوں میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو ان سات قاریوں سے زیادہ باعظمت اور زیادہ موثق ہیں جس کا بعض حضرات نے اعتراف بھی کی ہے۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سات مشہور قاری دوسروں سے زیادہ باوثوق اور جہاتِ قراءت کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں تو اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کی قراءتیں متواتر ہیں اور دوسرے قاریوں کی قراءتیں متواتر نہیں ہیں۔

ہاں، یہ بات قابل قبول ہے کہ عمل کے مقام پر ان کی قراءت کو ترجیح دی جائے گی۔ لیکن کسی قراءت کا مقدم سمجھا جانا اور بات ہے اور اس جا متواتر ہونا دوسری بات ہے بلکہ ان دونوں میں مشرق و مغرب کا فاصلہ ہے اور تمام کی تمام قراءتوں کو متواتر قرار دینا مسلماً باطل ہے۔

ثانیاً: قراءتوں میں اختلاف اس چیز کا باعث بنتا ہے کہ قرآن کو غیر قرآن سے تمیز نہ دی جاسکے۔ البتہ یہ ابہام الفاظ قرآن کی ہیئت (شکل و صورت) اور اعراب قرآن کے اعتبار سے پایا جائے گا، یعنی یہ معلوم نہ ہوگا کہ کون سی ہیئت اور اعراب قرآن ہیں اور کون سے نہیں اور یہ اصل قرآن کے متواتر ہوے کے منافی نہیں ہے۔

۲۰۸

بنابرایں مادہئ قرآن (مفردات قرآن) متواتر ہے اور صرف اس کی مخصوص شکل و صورت اور اعراب (زبر زیر پیش) مختلف فیہ ہیں اور ان دو یا دو سے زیادہ کیفیتوں اور حالتوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور قرآن ہے اگرچہ ہم اس کیفیت و حالت کوخصوصیت سے نہ جائیں۔

تتمہ

حق یہ ہے کہ قرآن کے متواتر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ قراءتیں بھی متواتر ہوں۔ چنانچہ اس حقیقت کا ''زرقانی،، نے اعتراف کیا ہے وہ فرماتے ہیں:

''بعض علماء نے سا ت قراءتوں کی تائید و تقویت میں مبالغہ سے کام لیا ہے اور کہا کہ قراءتوں میں تواتر کو ضروری نہ سمجھنا کفر ہے کیونکہ قراءتوں میں تواتر کا انکار قرآن کے متواتر نہ ہونے پر منتج ہوتا ہے (یعنی قراءتوں کے تواتر میں انکار کا نتیجہ تواتر قرآن کا انکار ہے) یہ رائے مفتیئ اندلس استاد ابی سعید فرج بن لب کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ اس نے اپنا نظریہ پیش کرنے کی کافی کوشش کی ہے اور اپنے نظریئے کی تائید میں ایک بڑا سا رسالہ بھی لکھا ہے اور اپنے نظریئے پر ہونے پر والے اشکالات کا جواب دیا ہے۔ مگر اس کی دلیل اس کے مدعا کو ثابت نہیں کرتی، کیونکہ قرااءات ہفتگانہ کے عدم تواتر کے قائل ہونے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قرآن بھی متواتر نہ ہو۔ اس لیے کہ اصل قرآن اور قرآن کی قراءتوں میں بہت فرق ہے اور عین ممکن ہے کہ قرآن ان سات قراءتوں کے بغیر بھی متواتر ہو یا ان الفاظ میں متواتر ہو جن پر تمام قاریوں کا اتفاق ہے یا اس مقدار میں متواتر ہو کہ جس پر اتنے افراد متفق ہیں جن کے کذب پر متفق ہونے کا خدشہ نہیں ہے۔ چاہے یہ لوگ قاری ہوں یا نہ ہوں۔،،(۱)

بعض علمائے کرام نے فرمایا ہے: ''تواتر قرآن سے قراءتوں کا متواتر ہونا لازم نہیں آتا اور علمائے اصول میں سے کسی نے آج تک اس بات کی تصریح نہیں کی کہ قراءتیں متواتر ہیں اور یہ کہ قرآن کا متواتر ہونا قراءتوں کے متواتر ہونے پر موقوف ہے، البتہ ابن حاجب نے یہ بات کہیں ہے۔،،(۲)

____________________

(۱) مناہل العرفان، ص ۴۲۸۔

(۲) التبیان، ص ۱۰۵۔

۲۰۹

زرکشی ''برہان،، میں لکھتے ہیں:

''قرآن اور قراءتیں دو مختلف حقائق ہیں، قرآن وہ وحی الہٰی ہے جو محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر بیان احکام اور اعجاز کی غرض سے نازل ہوا اور قراءتیں وحی کے مختلف تلفظ، لہجہ، لفظی کیفیت مثلاً شد اور جزم وغیرہ سے عبارت ہیں، اکثر علماء کے نزدیک سات قراءتیں متواتر ہیں اور بعض کے نزدیک یہ متواتر نہیں بلکہ مشہور ہیں۔،،

آگے چل کر زرکشی کہتے ہیں:

''بتحقیق یہ قراءتیں سات قاریوں سے متواتر منقول ہیں لیکن ان کا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے متواتر منقول ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے کیونکہ جس سلسلہ سند سے یہ روائتیں نقل کی گئی ہیں وہ قراءت کی کتب میں مذکور ہے اور اس میں صرف ایک راوی نے ایک راوی سے نق لکی ہے۔،،(۱)

قراءتیں اور سات اسلوب

کبھی یہ تصور کیا جاتا ہے کہ سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں۔ اس کے بعد اس بات کے ثبوت میں کہ یہ سات قراءتیں قرآن میں داخل ہیں، ان احادیث و روایات سے تمسک کیا ہے جو یہ کہتی ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے۔

اس غلط فہمی کی طرف قارئین کرام کی توجہ مبذول کرانا لازمی ہے کہ علماء کرام اور محققین میں سے کوئی بھی اس توہم کا شکار نہیں ہوا۔ اس لیے کہ ہم ان روایات کو تسلیم نہیں کرتے۔ ابھی ہم ان روایات کا ذکر نہیں کرتے آئندہ تفصیل سے بات ان کا ذکرکیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

____________________

(۱) الاتقان النوع، ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۳۸۔

۲۱۰

اس سلسلے میں ہم شروع میں جزائری کا کلام پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:

''سات قراءتوں کو باقی قراءتوں پر کوئی امتیاز حاصل نہیں تھا۔ یہاں تک کہ ابوبکر احمد بن موسیٰ بن عباس بن مجاہد نے تیسری صدی کے آغاز میں بغداد میں بیٹھ کر مکّہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ اور شام کے علماء قراءت میں سے سات قاریوں نافع، عبد اللہ بن کثیر، ابو عمرو بن علائ، عبد اللہ بن عامر، عاصم، حمزہ اور کسائی کا انتخاب کیا۔ اس سے لوگوں کو یہ وہم ہونے لگا کہ یہ سات قراءتیں وہی سات حروف ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بعض علماء نے ان سات عدد قراءتوں کے انتخاب کیا ہے انتہائی نامناسب عمل انجام دیا ہے۔ کیونکہ کم فکر افراد اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ روایات میں موجود سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں۔ اس لیے بہتر یہ تھا کہ سات سے کم یا زیادہ کا

انتخاب کیا جاتا تاکہ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوتے۔،،

استاد اسماعیل بن ابراہیم بن محمد قراب کتاب شافی میں لکھتے ہیں:

''صرف سات قراءتوں کے انتخاب ان کی تائید کرنے اور دوسری قراءتوں کو باطل قرار دینے کی کوئی دلیل نہی ںہے یہ تو بعض متاخرین کا کارنامہ ہے جن کو سات سے زیادہ قراءتوں کا علم نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی اور اس کا نام ''کتاب السبعہ،، رکھ دیا اس کتاب کی لوگوں میں تشہیر کی گئی اور یہ سات مشہور قراءتوں کی بنیاد و دلیل قرار پائی۔،،

امام ابو محمد مکّی فرماتے ہیں:

''ائمہ قراءت نے اپنی کتاب میں ستر سے زیادہ ایسے افراد کا ذکر کیا ہے جن کا مرتبہ ان سات مشہور قاریوں سے بلند ہے۔ اس کے باوجود یہ احتمال کیسے دیا جاسکتا ہے کہ ان سات قاریوں کی قراءتیں وہی سات حروف ہیں جن کا ذکر روایات میں ہوا ہے۔ یہ تو حق وحقیقت سے انحراف ہے۔

۲۱۱

کیا رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے کسی روایت میں یہ تصریح فرمائی ہے کہ سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں؟! اگر نہیں تو پھر کس دلیل کی بنیاد پر یہ نظریہ قائم کیا گیا ہے اور جبکہ کسائی ابھی کل یعنی مامون رشید کے دور میں ان سات قاریوں میں شامل کیا گیا ہے اور اس سے پہلے ساتواں قاری یعقوب حضرمی تھا اور ۳۰۰ھ میں ابن مجاہد نے یعقوب حضرمی کی جگہ کسائی کو ان قاریوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔،،(۱)

شرف مرسی کہتے ہیں:

''اکثر عوام کا خیال یہ ہے کہ روایات میں سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں اور یہ فاش غلطی و جہالت ہے۔،،(۲)

قرطبی کا کہنا ہے:

''داؤدی، ابن ابی سفرۃ اور دیگر ہمارے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ سات مشہور قاریوں سے منسوب یہ سات قراءتیں، وہ سات حروف نہیں ہیں جن میں سے کسی کے مطابق بھی قرآن پڑھنے کا اختیار صحابہ کرام کو دیا گیا تھا۔ ابن نحاس اور دیگر علماء کی رائے کے مطابق ان سات قراءتوں کی برگشت تو ایک حرف ہے جس کے مطابق حضرت عثمان نے قرآن جمع کیا تھا اور یہ مشہور قراءتیں علماء قراءت کا اپنا انتحاب ہے۔،،(۳)

ابن جزری اس نظریئے کو با ط ل قرار دیتے ہیں جس کے مطابق جن سات حروف پر قرآن نازل ہوا تھا وہ آج تک برقرار ہیں، وہ فرماتے ہیں:

____________________

(۱) التبیان، ص ۸۲۔

(۲) ایضاً، ص ۶۱۔

(۳) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۲۔

۲۱۲

''اس نظریہ کی کمزوری و بے مائیگی کسی سے پوشیدہ نہیں، کیونکہ سات دس اور تیرہ قراءتیں جو آج کل مشہور ہیں وہ ان قراءتوں کے مقابلے میں سمندر کے سامنے قطرہ کی مانند ہیں جو پہلی صدی میں مشہور تھیں۔ کیونکہ ان سات اور ان کے علاوہ دیگر قاریوں نے جن سے قراءتیں اخذ کی ہیں وہ ان گنت ہیں حتی کہ جب تیسری صدی آئی علماء کی مصروفیات زیادہ اور حافظے کم ہوگئے اور کتاب و سنت کے علم کا رواج عام ہوگیا تو بعض علمائے قراءت نے ان قراءتوں کی تدوین شروع کردی جو انہو ںنے گذشتہ علماء قراءت سے حاصل کی تھیں۔ سب سے پہلا بااعتماد امام قراءت جس نے تمام قراءتوں کو ایک کتاب میں جمع کیا وہ ابو عبید القاسم بن سلام تھے۔ میری معلومات کے مطابق انہوں نے سات مشہور قراءتوں سمیت کل پچیس قراءتیں قرار دیں۔ ان کا انتقال ۲۲۴ھ میں ہوا۔ اس کے بعد انطاکیہ کے رہنے والے احمد بن جبیربن محمد کوفی پانچ قراءتوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی جو ہر شہر سے ایک قاری پر مشتمل تھی۔ ان کا انتقال ۲۵۸ھ میں ہوا۔ ان کے بعد قالون کے ہم عصر قاضی اسماعل بن اسحاق مالکی نے قراءت پر ایک کتاب لکھی جس میں بیس ائمہ قراءت کی قراءتیں موجود ہیں۔ ان میں سات مشہور قراءتیں بھی شامل ہیں۔ ان کا انتقال ۲۸۲ھ میں ہوا۔ اس کے بعد امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری نے ایک مفصل کتاب ''الجامع،، لکھی جو بیس یا اس سے زیادہ ائمہ قراءت کی قراءتوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے ۳۱۰ھ میں وفات پائی۔ طبری کے کچھ ہی عرصہ بعد ابو بکر محمد بن احمد بن عمرو اجونی نے قراءت کے موضوع پر ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے ابوجعفر، جو دس قاریوں میں سے ایک ہے، کو بھی شامل کردیا۔ ان کی وفات ۳۲۴ھ میں ہوئی۔ اس کے بعد ابوبکر احمد بن موسیٰ بن عباس بن مجاہد وہ پہلا قاری ہے، جس نے صرف سات قراءتوں پر اکتفا کیا اور داجونی اور ابن جریر سے بھی اس نے قراءت نقل کی ان کا انتقال ۳۲۴ھ میں ہوا۔،،

۲۱۳

ابن جزری نے ان کے علاوہ بھی قراءت کے موضوع پر کتاب لکھنے والوں کا نام لیا ہے اور پھر فرمایا ہے:

''اس باب کو طول دینے کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں بعض جاہلوں کے بارے میں یہ اطلاع ملی ہے کہ وہ صحیح قراءتیں صرف ان سات قراءتوں میں منحصر سمجھتے ہیں اور اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ سات حروف جن کی طرف رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اشارہ فرمایا تھا یہی سات قراءتیں ہیں بلکہ ان جاہلوں میں سے بعض کا تو غالب خیال یہ ہے کہ صحیح قراءتیں وہی ہیں جو کتب ''الشاطبیہ اور التیسیر،، میں ہیں اور پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی حدیث:

''انزل القرآن علیٰ سبعة أحرف،،

''قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا۔،،

کا اشارہ انہی دو کتب میں موجود قراءتوں کی طر فہے حتی کہ ان میں سے بعض نے ہر اس قراءت کو شاذ و نادر قرار دیا ہے جو ان دونوں کتابوں میں موجود نہ ہو جبکہ حق تو یہ ہے کہ بہت سی ایسی قراءتیں جو ان کتب ''الشاطیبہ اور التیسیر،، اور ان سات قراءتوں میں شامل نہیں ہیں وہ ان کتب میں موجود قراءتوں سے زیادہ صحیح ہیں۔ لوگوں کے اس غلط فہمی کاشکار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہے ان لوگوں نے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی حدیث: ''انزل القرآن علی سبعۃ اءحرف،، سن رکھی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سات قراءتوں کا نام بھی سن لیا۔ اس سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ سات قراءتیں وہی ہیں جن کا حدیث میں ذکر ہوا ہے۔ اسی لیے گذشتہ ائمہ قراءت نے ابن مجاہد کی اس رائے کو پسند نہیں کیا اور اسے غلط قرار دیا جس کے مطابق قراءتوں کو سات میں منحصر کردیا گیا۔ اسے چاہیے تھا کہ یا تو وہ قراءتوں کو سات سے زیادہ یا ان سے کم بیان کرتایا پھر اپنے مقصد کی صحیح وضاحت کرتا تا کہ عوام غلط فہی کا شکار نہ ہوتے۔،،

۲۱۴

اس کے بعد ابن جزری نے ابن عمار مہدوی اور ابو محمد مکی کی عبارتیں نقل کی ہیں جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔(۱)

ابوشامہ فرماتے ہیں:

''ایک قوم کا گمان ہے کہ موجودہ مروج سات قراءتوں کا ہی حدیث میں ذکر ہے۔ یہ گمان تمام اہل علم کے اجماع کے خلاف ہے اور صرف جاہل ہی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتا ہے۔،،(۲)

ہمارے ان بیانات سے قارئین کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جانی چاہیے کہ یہ سات قراءتیں نہ رسول اسلامؐ سے اور نہ قاریوں سے بطور تواتر منقول ہیں بفرض تسلیم اگر یہ قراءتیں قاریوں سے بطور تواتر منقول ہیں تو رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے یقیناً بطور تواتر منقول نہیں بلکہ خبر واحد کے ذریعے منقول ہیں یا قاریوں کا اپنااجتہاد ہے۔

قراءت سے متعلق دو مقامات پر بحث کی جائے گی:

۱۔ حجیت قراءت

علماء کی ایک جماعت کے نزدیک یہ قراءتیں حجت اور سند ہیں اور ان کے ذریعے حکم شرعی پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح حیض والی عورت سے خون بند ہونے کے بعد اور غسل کرنے سے پہلے ہمبستری حرام ہونے پر حفص کے علاوہ باقی کوفی قاریوں کی قراءت:''ولا تقربوا هن حتیٰ یطهرن،، میں ط مشدد سے استدلال کیا گیا ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے: ''جب تک (تمہاری عورتیں) اپنے آپ کو (غسل کے ذریعے) پاک نہ کرلیں ان کے نزدیک نہ جاؤ۔،،(۳)

___________________

(۱) النشر فی القرات العشر، ج۱، ص ۳۳۔۳۷۔

(۲) الاتقان النوع۔ ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۳۸۔

(۳) ''حفص،، کے علاوہ کوفی قاری اسے ''یطھرن،، پڑھتے ہیں جو باب تفعل ہے اور باب تفعل میں ایک معنی ''اتخاذ،، یعنی مبداء کو اپنانا اور حاصل کرنا ہے۔ اس کی رو سے آیہ شریفہ کا ترجمہ یہی ہوگا کہ جب تک عورت غسل کے ذریعے اپنے آپ کو پاک نہ کرے اس سے ہمبستری جائز نہیں۔ دوسرے قول کے مطابق ''یطھرن،، پڑھا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے: ''اپنی عورتوں کے پاس نہ جاؤ جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں،، ظاہر ہے خودبخود تو صرف خون بند ہو جانے سے پی پاک ہوا جاسکتا ہے۔ اس قراءت کی رو سے خون بند ہونے کے بعد اور غسل کرنے سے پہلے بھی اس سے ہمبستری کی جاسکتی ہے۔ (مترجم)

۲۱۵

جواب:

لیکن حق یہی ہے کہ قراءتیں حجت نہیں ہیں اور ان کے ذریعے کسی حک شرعی کو ثابت نہیں کیاجاسکتا۔ کیونکہ ہر قاری اشتباہ و غلطی کرسکتا ہے او رمتعدد قاریوں میں سے کسی خاص کی اتباع و پیروی پر ہمارے پاس نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ نقلی دلیل اور اس بات پر عقلی و شرعی دلیل قائم ہے کہ غیر علم کی اتباع کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کی مزید وضاحت آئندہ کی جائے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

ہوسکتا ہے ہمارے اس جواب پریہ اعتراض کیا جائے کہ اگرچہ قراءتیں خود متواتر نہیں ہیں لیکن خبر واحد کے ذریعے رسول اسلامؐ سے ضرور منقول ہیں، اس بناء پر وہ دلائل قطعیہ و یقینیہ ان قراءتوں کو شامل ہوں گے جو خبر واحد کے حجت ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ جب یہ دلائل یقینیہ و قطعیہ ان قراءتوں کو شامل ہوں تو پھر ان قراءتوں پر عمل کرنا ورود یا حکومت یا تخصیص(۱) کی بنیاد پر عمل بالظن سے خارج ہو جائے گا (یعنی عمل بالظن نہیں کہلائے گا)۔

جواب:

اولاً: یہ ثابت نہیں کہ یہ قراءتیں روایت کے ذریعے منقول ہیں کہ خبر واحد کی حجیت کے دلائل ان کو بھی شامل ہوں۔ اس لئے یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ یہ قراءتیں ہر قاری کا اپنا اجتہاد ہوں۔ چنانچہ اس احتمال کی تائید بعض علمائے کرام کے کلام سے بھی ہوتی ہے بلکہ جب قاریوں کے اختلاف کی وجہ و منشاء کو دیکھتے ہیں تو اس احتمال کو مزید تقویت ملتی ہے کیوں کہ اس وقت (حضرت عثمان کے دور حکومت میں) مرکز سے دیگر علاقوں میں بھیجے جانے والے قرآنی نسخوں پر نقطے اور اعراب نہیں ہوتے تھے۔

____________________

(۱) ان معانی اور اصلاحات کی وضاحت ہم اپنے اصول فقہ کے درس کے دوران ''تعادل و ترجیح،، کی بحث میں کرچکے ہیں جو طبع ہوچکا ہے۔

۲۱۶

ابن ابی ہاشم کہتے ہیں:

''سات قراءتوں میں اختلاف کا سبب یہ ہے کہ جن علاقوں میں قرآنی نسخے مرکز سے بھیجے جاتے تھے ان علاقوں میں موجود صحابہ کرام سے لوگ قرآن سیکھتے تھے اور یہ نسخے نقطوں اور اعراب سے خالی ہوا کرتے تھے۔ یہ آگے چل کر فرماتے ہیں:

''ان علاقوں کے لوگوں نے اسی قراءت کو اخذ کیا جو انہوں نے اپنے علاقے کے اصحاب سے سیکھی تھی اور اس میں وہ صرف یہ دیکھتے تھے کہ قرآن کے خط کے موافق ہے یا نہیں۔ اگر یہ قرآنی خط کے مخالف ہوتی تو اسے چھوڑ دیتے تھے۔

پس یہیں سے مختلف شہروں کے لوگوں کی قراءتوں میں اختلاف پیدا ہوگیا۔،،(۱)

زرقانی کہتے ہیں:

''صدر اول کے علمائے کرام قرآن کو نقطے اور حرکات دینا صحیح نہیں سمجھتے تھے کیونکہ اس سے قرآن میں تغیر و تبدل

ہونے کا اندیشہ تھا، ان حرکات اور نقطے دینے کے نتیجے میں قرآن کی اصلی شکل و صورت تبدیل ہوسکتی تھی۔ مگر زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے محسوس کیا کہ جس مقصد کے لیے حرکات اور نقطے نہیں دیئے گئے اب اسی مقصد کے لیے حرکات اور نقطے دینا لازمی ہوگیا تاکہ کہیں کوئی شخص اپنی مرضی و منشاء کے مطابق کوئی حرکت اور نقطہ دے کر قرآن کو تبدیل نہ کرسکے۔،،(۲)

ثانیاً: ان قراءتوں کے راویوں کا باوثوق ہونا ثابت نہیں ہے اور جب تک ان کا باوثوق ہونا ثابت نہ ہو، خبر واحد کی حجیت کی دلیل ان قراءتوں کو شامل نہ ہوگی۔ چنانچہ قاریوں اور ان کے رایوں کی سوانح حیات سے یہ بات ظاہر ہوچکی ہے۔

____________________

(۲) التبیان، ص ۸۶۔

(۱) مناہل العرفان، ص ۴۰۲، طبع دوم۔

۲۱۷

ثالثاً: اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ان قراءتوں کا مسند اور مدرک وہ روایات ہیں اور یہ بھی مان لیا جائے کہ ان روایات کے راوی موثق ہیں پھر بھی ایک سقم باقی رہ جاتا ہے یہ کہ ہم اجمالی طور پر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ان روایات میں سے بعض یقیناً رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے صادر نہیں ہوئیں اور یہ اجمالی علم روایات کے باہمی تعارض اور ٹکراؤ کا باعث بنتا ہے اور بعض روایات سے بعض روایات کی تکذیب ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ روایات حجت نہیں بنتیں۔

اس کے علاوہ بعض مخصوص روایات کو حجت اور معتبر سمجھنا ترجیح بلا مرجع(۱) ہے جو کہ قبیح ہے۔ لامحالہ کسی نہ کسی مرجح(۲) کو تلاش کرنا پڑے گا، جو روایات کے تعارض اور ٹکراؤ کی صورت میں لازمی ہے او رمرجح کے بغیر ان روایات میں سے کسی روایت کو کسی حکم شرعی کی دلیل قرار دینا جائز نہیں ہے۔

اگر ہم ان روایات کو متواتر سمجھیں تب بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کیوکہ جب دو مختلف قراءتیں رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے بطور تواتر منقول ہوں تو اس سے یہ یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ دونوں قراءتیں قرآن ہیں جو خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں اور ان میں سند کے اعتبار سے کوئی تعارض و ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ صرف دلالت اور مفہوم کے اعتبار سے ان میں ٹکراؤ ہوگا۔

جب ہمیں اجمالی طور پر یہ علم ہے کہ دنوں ظاہری معنوںمیں سے ایک معنی کا فی الواقع ارادہ نہیں کیا گیا تو اس صورت میں دونوں معانی ساقط اور ناقابل عمل ہو جائیں گے اور کسی اور دلیل لفظی یا عملی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ کیو نکہ دونوں دلیلوں کے سند ظنی ہو، یقینی اور قطعی نہ ہو۔ ترجیح اور تخییر کی دلیلیں ان دلائل کو شامل نہیں جن کی سند قطعی ہو۔ اس کی تفصیل علم اصول کی تعادل و ترجیح کی بحث میں مذکور ہے۔

____________________

(۱) بلا وجہ کسی روایت کو دوسری روایت پر ترجیح دینا۔ (مترجم)

(۲) ترجیح دینے کی وجہ (مترجم)۔

۲۱۸

۲۔ نماز میں ان قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے

اکثر شیعہ و سنی علمائے کرام کی رائے یہی ہے کہ نماز میں ان سات قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے بلکہ ان علماء میں سے بہت سوں کے کلام میں اس مسئلہ پر اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

بعض کی رائے ہے کہ دس قراءتوں میں سے کوئی بھی نماز میں پڑھی جاسکتی ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ نماز میں ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز ہے جس کے لغت عرب اور عثمانی قرآنوں میں سے کسی کے مطابق ہونے کا احتمال ہو۔ البتہ سند صحیح ہو لیکن ان قراءتوں کی تعداد معین نہیں کی گئی۔

حق تو یہ ہے کہ قاعدہ اولیہ کی رو سے ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز نہیں جس کے بارے میں یہ ثابت نہ ہو کہ اسے رسول اسلامؐ یا کسی امام معصوم نے پڑھا ہے۔ کیونکہ نماز میں قرآن کا پڑھنا واجب ہے۔ بنابرایں ایسی چیز کا پڑھنا کافی نہ ہوگا، جس کا قرآن ہونا ثابت نہ ہو اور عقل کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک چیز کے واجب ہونے کا یقین ہو تو اس کی ادائیگی کا یقین کرنا لازمی ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ یا تو اتنی نمازیں پڑھی جایں جتنی قراءتیں ہیں یا ایک ہی مقام میں اس اختلافی مقام کو مکرر پڑھا جائے تاکہ امتثال یقینی حاصل ہو۔ مثلاً سورۃ فاتحہ میں دونوں اختلافی قراءتیں ''مالک،، اور ''ملک،، کو پڑھے اور باقی ایک سورہ جو حمد کے پڑھنا چاہیے اس میں یا تو ایسا سورہ پڑھیں جس میں کوئی اختلاف نہ ہو یا سورہ فاتحہ کی طرح اختلافی الفاظ کو مکرر پڑھیں۔

۲۱۹

(یہ وہ احکام تھے جن کا قاعدہئ اولیہ متقاضی ہے) لیکن جہاں تک ائمہ کے زمانے میں مشہور قراءتوں کے بارے میں شیعوں کے لیے معصومین کی قطعی تقریر(۱) کا تعلق ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ایسی قراءت پر اکتفاء کیا جاسکتا ہے جو معصومین(ع) کے زمانے میں مشہور تھی اور معصومین(ع) نے اسے پڑھنے سے روکا بھی نہیں۔ اس لیے کہ اگر کسی امام(علیہ السلام) نے روکا ہوتا تو اس کی خبر بطور تواتر ہم تک پہنچتی یا کم از کم خبر واحد کے ذریعے ہی پہنچتی۔ بلکہ روایات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ائمہ ھدیٰ نے ان قراءتوں کی تصدیق و تائید فرمائی ہے۔ چنانچہ معصوم کا فرمان ہے۔

''اقرأ کما یقرأ الناس،، ۔۔۔''جس طرح دوسرے پڑھتے ہیں تم بھی اسی طرح پڑھو۔،،

''اقروا کما علمتم،، ۔۔۔''جس طرح تمہیں سکھایا جاے اسی طرح پڑھو۔،،(۲)

ان روایات کی موجودگی میں صرف سات یا دس قراءتوں پر اکتفاء کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ہاں! ایسی قراءت پر اکتفاء نہیں کیا جاسکتا جو شاذ و نادر ہو، اہلسنت کے نزدیک موثق راویوں کے ذریعے ثابت نہ ہو اور من گھڑت ہو۔

مثال کے طور پر ''ملک یوم الدین،، میں ''ملک،، کے لیے صیغہ ماضی کا ہو اور یوم منصوب ہو۔ یہ شاذ و غیر معروف ہے اور جعلی قراءت کی مثال یہ ہے ۔''انما یخشی الله من عباده العلمائ،، میں لفظ ''اللہ،، پر پیش اور لفظ ''العلمائ،، پر زبر دیا گیا ہے۔ یہ خزاعی کی قراءت ہے جو ابو حنیفہ سے منقول ہے۔

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز مںی ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز ہے جو اہل بیت اطہار (علیہم السلام) کے زمانے میں مشہور تھی۔

____________________

(۱) یعنی کوئی فعل امام(علیہ السلام) کے سامنے انجام دیا جائے اور امام(علیہ السلام) اس سے نہ روکیں۔(مترجم)

(۲) الکافی: باب النو ادر کتاب فضل القرآن۔

۲۲۰

کیا قرآن سات حروف پر نازل ہوا؟

٭ روایات کے کمزور پہلو

٭ روایات میں تضاد

٭ سات حروف کی تاویل و توجیہ

٭ قریب المعنی الفاظ

٭ سات ابواب

٭ سات ابواب کا ایک اور معنی

٭ فصیح لغات

٭ قبیلہ ئ مضر کی لغت

٭ قراءتوں میں اختلاف

٭ اختلاف قراءت کا ایک اور معنی

٭ اکائیوں کی کثرت

٭ سات قراءتیں

٭ مختلف لہجے

۲۲۱

اہل سنت کی روایات بتاتی ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ بہتر ہے کہ پہلے ان روایات کو بیان کیا جائے اور پھر ان کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کی جائے۔

۱۔ طبری نے یونس اور ابی کریب سے انہوں نے ابی شہاب سے اور اس نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

قال:''أقرأنی جبرئیل علی حرف فراجعته، فلم أزل أستزیده فیزیدنی حتی انتهی الی سبعة أحرف،،

''مجھے جبرئیل نے ایک حرف میں پڑھایا۔ میں نے دوبارہ جبرئیل کی طرف رجوع کیا اور یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔،،

اس روایت کومسلم نے حرملہ سے، حرملہ نے ابن وھب سے اور اس نے یونس سے نقل کیا ہے۔(۱) بخاری نے دوسری سند سے یہ روایت بیان کی ہے اور اس کا مضمون ابن برقی اور ابن عباس کے ذریعے نقل کیا ہے۔(۲)

۲۔ ابی کریب نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کی سند سے اس نے اپنے جد کی سند سے اور اس نے ابی ابن کعب کی سند سے روایت کی ہے۔ ابیّ کہتا ہے:

''کنت فی المسجد فدخل رجل یصلی فقرأ قراءة أنکرتها علیه، ثم دخل رجل آخر فقرأ قراء ة غیر قراء ة صاحبه، فدخلنا جمیعاً علی رسول الله قال: فقلت یا رسول الله ان هذا قرأ قراء ة أنکرتها علیه، ثم دخل هذا فقرأ قراءة غیر قراءة صاحبه، فامرهما رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فقرأا ، فحسن رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) شأهما، فوقع فی نفسی من التکذیب، ولا اذ کنت فی الجاهلیة فلما رأی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) ما غشینی ضرب صدری، ففضت عرقا کأنما أنظر الی الله فرقا فقال لی: یاأبی أرسل الی ان اقرأ القرآن علی حرف، فرددت علیه أن هون علی أمتی، فرد علی فی الثانیة أن اقرأ القرآن علی حرف فرددت علیه أن هون علی أمتی، فرد علی فی الثالثة أن اقرأه علی سبعة أحرف، و لک بکل ردة رددتها مسألة تسألنبها، فقلت: اللهم اغفر لأمتی اللهم اغفر لأمتی، و اخرت الثالثه لیوم یرغب فیه الی الخلق کلهم حتی ابراهیم علیه السلام،،

____________________

(۱)صحیح مسلم باب ان القرآن انزل علی سبعة أحرف ، ج ۲، ص ۲۰۲، طبع محمد علی صبیح، مصر۔

(۲)صحیح البخاری باب انزل القرآن علی سبعة أحرف ،ج ۲، ص ۱۰۰، مطبع عامرہ۔

۲۲۲

''میں مسجد رسول میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھنی شروع کی۔ اس نے ایک ایسی قراءت پڑھی جسے میں نہ جانتا تھا۔ اس اثنا میں دوسرا آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے ایک اور قراءت سے نماز شروع کی۔ پھر جب ہم سب نماز پڑھ چکے تو رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ اس شخص نے ایسی قراءت سے نمام پڑھی کہ مجھے تعجب ہوا اور دوسرا آیا تو اس نے اس کے علاوہ ایک اور قراءت پڑھی۔ آپ نے ان دونوں کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ ان دونوں نے اسی طرح نماز پڑھی جس طرح پہلے پڑھی تھی، آپ نے دونوں کی نماز کو سراہا، اس سے میرے دل میں تکذیب آئی لیکن ایسی تکذیب نہیں جیسی زمانہ جاہلیت میں تھی۔ جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے میری یہ کیفیت دیکھی تو میرے سینے پر ہاتھ مارا جس سے میں شرم کے مارے پسینہ سے شرابور ہوگیا اور یوں لگا جیسے میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: اے اُبیّ! مجھے یہ حکم دیا گیا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے خالق کے دربار میں درخواست کی کہ میری امت پر اس فریضہ کو آسان فرما مجھے دوبارہ یہی حکم ملا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے پھر وہی درخواست دہرائی۔ اس دفعہ مجھے حکم دیا گیا کہ میری ہر دعا، جو قبول نہیں ہوئی، کے عوض ایک دعا قبول کی جائے گی۔ اس پر میں نے یہ دعا مانگی: پالنے والے! میری امت کو بخش دے۔ پالنے والے! میری اُمّت کو بخش دے اور تیسری دعا کو اس دن کے لیے محفوظ رکھا ہے جس دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک میری دعا کے محتاج ہوں گے۔،،

اس روایت کو مُسلم نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔(۱) طبری نے بھی ایک اور سند سے معمولی اختلاف کے ساتھ اس کو نقل کیا ہے اور تقریباً اسی مضمون کی یونس بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ صنعانی کے ذریعے اُبیّ بن کعب سے روایت کی گئی ہے۔

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۲، ص ۲۰۳۔

۲۲۳

۳۔ ابی کریب نے سلیمان بن صرد کی سند سے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے۔ اُبیّ بن کعب کہتا ہے:

قال: ''رحت الی المسجد فسمعت رجلاً یقرأ فقلت: من أقرأک؟ فقال: رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فانطلقت به الی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فقلت: استقریئ هذاں، فقرأ فقال: أحسنت قال: فقلت انک أقرأتنی کذا و کذا فقال: وأنت قد أحسنت قال: فقلت قد أحسنت قد أحسنت قال: فضرب بیده علی صدری، ثم قال: اللهم أذهب عن أبیّ الشک قال: ففضت عرقاً و امتلأ جو فی فرقاً ثم قال: ان اللکین أتیانی فقال أحدهما: اقرأ القرآن علی حرف، و قال الآخر: زده قال: فقلت زدنی قال: اقرأه علی حرفین حتی بلغ سبعة أحرف فقال: اقرأ علی سبعة أحرف،،

''میں مسجد میں داخل ہوا تو ایک آدمی کی قراءت سُنی، میں نے اس سے دریافت کیا تمہیں یہ قراءت کس نے پڑھائی ہے، اس نے جواب دیا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے پڑھائی ہے چنانچہ میں اسے لے کر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) اس کی قراءت سنیئے۔ اس شخص نے قراءت پڑھی اور سول اللہؐ نے سننے کے بعد فرمایا: عمدہ ہے۔ میں نے کہا: آپ نے تو مجھے اس طرح اور اس طرح قراءت پڑھائی تھی۔ آپ نے فرمایا: یقیناً تمہاری قراءت بہت اچھی ہے میں نے آپ کی نقل اتارتے ہوئے کہا: تمہاری قراءت بھی بہت اچھی ہے۔ آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور فرمایا: پالنے والے! اُبیّ کے دل شک دور فرما۔ میں (اُبیّ) خجالت کے مارے پسینے سے شرابور ہو گیا اور میری پورا وجود خوف سے لرزنے لگا۔ پھر آپ نے فرمایا: میرے پاس دو فرشتے نازل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا: قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ دوسرے فرشتے نے پہلے سے کہا: اس ایک حرف میں اضافہ کریں۔ میںؐ نے بھی فرشتے سے یہی کہا۔ فرشتے نے کہا: قرآن کو دو حرفوں میں پڑھیئے۔ فرشتہ حروف کی تعداد بڑھاتا گیا یہاں تک کہ فرشتے نے کہا قرآن کو سات حروف میں پڑھیئے۔،،

۲۲۴

۴۔ ابو کریب نے عبد الرحمن بن ابی بکرہ کی سند سے اور اس نے اپنے باپ کی سند سے روایت کی ہے۔ ابو کریب کہتا ہے:

قال: ''قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): قال جبرئیل: اقرأ القرآن علی حرف فقال میکائیل استزده فقال: علی حرفین، حتی بلغ ستة أو سبعة أحرف و الشک من أبی کریب فقال: کهها شاف کاف ما لم تختم آیة عذاب برحمة، أو آیة رحمة بعذاب کقولک: هلم و تعال،،

''پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جبرئیل نے کہا قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ میکائیل نے کہا کہ جبرئیل سے درخواست کریں کہ اسے بڑھا دے، میریؐ درخواست پر جبرئیل نے کہا دو حروف میں پڑھیئے۔ اس طرح حروف کو بڑھاتے گئے یہاں تک کہ چھ یا ست تک پہنچ گئے (چھ اور سات میں تردد ابی کریب کی طرف سے ہے) پھر آپ نے فرمایا: ان میں سے جس حرف میں بھی پڑھیں کافی ہے اور سب کا مطلب ایک ہے، جس طرح ''ھلم،، اور ''تعال،، دونوں کا معنی ہے ''آجاؤ،، بشرطیکہ رحمت کی آیہ عذاب میں اور عذاب کی آیہ رحمت میں تبدیل نہ ہو۔،،

۵۔ طبری نے احمد بن منصور کی سند سے اس نے عبد اللہ بن ابی طلحہ سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے:

قال: ''قرأ رجل عند عمر بن الخطاب فغیر علیه فقال: لقد قرأت علی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فلم یغیر علی قال: فاختصما عند النبی فقال: یا رسول الله ألم تقرئنی آیة کذا و کذا؟ قال: بلی، فوقع فی صدر عمر شیئ فعرف النبی ذلک فی وجهه قال: فضرب صدره وقال: أبعد شیطاناً، قالها ثلاثاً ثم قال: یا عمر ان القرآن کله سوائ، ما لم تجعل رحمةً عذاباً و عذاباً رحمة،،

''ایک شخص نے حضرت عمر بن خطاب کے سامنے قرآن پڑھا حضرت عمر بن خطاب نے اس پر اعتراض کیا اور اس کی اصلاح کی کوشش کی۔ اس شحص نے کہا: میں نے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے سامنے بھی اسی طرح قراءت پڑھی تھی۔ لیکن آپ نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ چنانچہ یہ دونوں فیصلے کے لیے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

۲۲۵

اس شخص نے کہا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! کیا آپ نے مجھے اس آیہ کی قراءت اس طرح نہیں پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی۔ حضرت عمر کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے جنہیں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمر کے چہرے پر نمایاں محسوس فرمایا۔ راوی کہتا ہے: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمر کے سینے پر ہاتھ مارا اور تین مرتبہ فرمایا: شیطان کو اپنے آپ سے دور رکھو۔ اس کے بعد فرمایا: یہ سب قرآن ایک جیسے ہیں جب تک کسی رحمت کو عذاب میں اور عذاب کو رحمت میں تبدیل نہ کرو۔،،

طبری نے یونس بن عبد الاعلیٰ سے حضرت عمر اور ہشام بن حکیم کا اسی قسم کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کی سند خود حضرت عمر تک پہنچتی ہے۔

بخاری، مسلم اور ترمذی نے بھی حضرت عمر کا ہشام کے ساتھ ایک واقعہ بیان کیا ہے جس کی سند اور حدیث کے الفاظ کچھ مختلف ہیں۔(۱)

۶۔ طبری نے محمد بن مثنی سے اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے:

قال: ''فأتاه جبرئیل فقال: ان الله یأمرک أن تقریئ أمّتک القرآن علی حرف فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لا تطبق ذلک قال: ثم أتاه الثانیة فقال: ان الله یأمرک أن تقریئ أمتک القرآن علی حرفین فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لا تطبق ذلک، ثم جاء الثالثة فقال: ان الله یأمرک أن تقری، امّتک القرآن علی ثلاثة أحرف فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لاتطبق ذلک، ثم جاء الرابعة فقال: ان الله یأمرک أن قری، أمّتک القرآن علی سبعة أحرف، فأنما حرف قرأوا علیه فقد أصابوا،،

''رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) قبیلہ بنی غفار کے ہاں تھے، اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی اُمّت کو ایک حرف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امّت اس کی قدرت نہیں رکھتی

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۲، ص ۲۰۲۔ صحیح بخاری، ج ۳، ص ۹۰ اور ج ۶، ص ۱۰۰،۱۱۱، ج ۸، ص ۵۳۔۲۱۵۔صحیح ترمذی، بشرح ابن العربی باب ما جاء انزل القرآن علی سبعة احرف ، ج ۱۱، ص ۶۰۔

۲۲۶

اُبیّ کہتا ہے: جبرئیل دوسری مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی اُمّت کو دو حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخوات ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ تیسری مرتبہ جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو تین حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ جبرئیل پھر چوتھی مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو سات حروف میں قرآن پڑھایئے، ان میں سے جس حرف پر بھی وہ قرآن پڑھے صحیح ہے۔،، اس روایت کو مسلم نے اپنی صحیح(۱) میں بیان کیا ہے۔ نیز طبری نے اس روایت کے کچھ حصے احمد بن محمد طوقی سے، اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے معمولی اختلاف سے بیان کئے ہیں۔ اس کے علاوہ طبری نے محمد بن مثنیٰ سے اور اس نے ابیّ بن ابی کعب سے روایت کی ہے۔

۷۔ طبری نے ابی کریب سے اس نے زر سے اور اس نے اُبیّ سے نقل کیا ہے:

قال: ''لقی رسول الله صلی الله علیه وآله جبرئیل عند أحجار المرائ ۔فقال: انی بعثت الی أمّة أمیین منهم الغلام و الخادم، و فیهم الشیخ الفانی و العجوز فقال جبرئیل: فلیقرأوا القرآن علی سبعة أحرف،، (۲)

''مقام''مراء احجار،، پر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے جبرئیل کو دیکھا آپ نے فرمایا میں ایسی ان پڑھ قوم کی طرف بھیجا گیاہوں جس میں غلام، بوڑھے اور عورتیں شامل ہیں۔ جبرئیل نے فرمایا: آپ کی امّت سات حروف میں قرآن پڑھے۔،،

۸۔ طبری نے عمرو بن عثمان عثمانی سے، اس نے مقبری سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): ان هذا القران انزل علی سبعة أحرف، فاقرأوا و لاحرج، و لکن لا تختموا طذکر رحمة بعذاب، ولا ذکر عذاب برحمة،،

''قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ جس حرف میں چاہو اسے پڑھو، کوئی حرف نہیں۔ لیکن یہ خیال رکھو کہ رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ میں بدل نہ دینا۔،،

___________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۲، ص ۲۰۳۔

(۲) اس روایت کو ترمذی نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ج ۱۱، ص ۶۲۔

۲۲۷

۹۔ طبری نے عبید بن اسباط سے، اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''قرآن چار حرفوں میں نازل کیا گیا ہے علیم، حکیم، غفور اور رحیم،،۔

اسی قسم کی روایت طبری نے ابی کریب سے اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کی ہے۔

۱۰۔ طبری سعید بن یحییٰ سے، اس نے عاصم کی سند سے، اس نے زر سے اور اس نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے، عبد اللہ ابن مسعود کہتا ہے:

قال: ''تمارینا فی سورة من القرآن، فقلنا: خمس و ثلاثون، أوست و ثلاثون آیة، قال: فانطلقنا الی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فوجدنا علیاً یناجیه قال: فقلنا انما اختلفنا فی القراء ة قال: فاحمر وجه رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) و قال: انما هلک من کان قبلکم باختلافهم بینهم قال: ثم أسرَّ الی علی شیأا فقال لنا علی: ان رسول الله یأمرکم ان تقرأوا کما علّمتم،،

''قرآن کے کسی سورۃ کے بارے میں ہمارا اختلاف ہوا۔ بعض نے کہا اس کی آیئتیں پینتیس ہیں اور بعض نے کہا چھتیس ہیں۔ چنانچہ ہم رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا کہ آپ حضرت علی(علیہ السلام) سے راز و نیاز میں مشغول ہیں۔ ابن مسعود کہتا ہے کہ ہم نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! قراءت کے بارے میں ہمارا آپس میں اختلاف ہو رہا ہے۔ ہماری بات سن کر آپ کا چہرہ مبارک غصّے سے سرخ ہوگیا آپ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگ آپس کے اختلاف کی وجہ سے ہلاکت میں مبتلا ہوگئے

پھر آپ نے آہستہ سے امیر المومنین (علیہ السلام) سے کچھ فرمایا۔ اس کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) نے ہم سے کہا: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ جس طرح تمہیں قرآن پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔،،(۱)

____________________

(۱) یہ سب روایتیں تفسیر طبری، ج ۱، ص ۹۔۱۵ میں مذکور ہیں۔

۲۲۸

۱۱۔ قرطبی نے اُبی داؤد سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:''یا اُبیّ انی قرأت القرآن ۔فقیل لی: علی حرف أوحرفین ۔فقال الملک الذی معی: قل علی حرفین ۔فقیل لی: علی حرفین أو ثلاثة ۔فقال الملک الذی معی: قل علی ثلاثة، حتی بلغ سبعة أحرف، ثم قال: لیس منها الا شاف کاف، ان قلت سمیعاً، علیماً، عزیزاً، حکیماً، مالم تخلط آیة عذاب برحمة، أو آیة رحمة بعذاب،،

''اے اُبی! میں نے قرآن کی تلاوت کی تو مجھ سے پوچھا گیا: آپ ایک حرف میں قرآن پڑھیں گے یا دو حرف میں؟ میرے ساتھ موجود فرشتے نے کہا: کہیئے دو حرف میں۔ فرشتے نے کہا: کہیئے تین حروف میں۔ اس طرح سات حروف تک سلسلہ جا پہنچا۔ اس کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ ان سات حروف میں سے جس میں چاہیں پڑھیں، کافی ہے۔ چاہیں تو سمیعاً پڑھیں یا علیماً یا عزیزاً یا حکیماً پڑھیں البتہ عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ سے اور رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ سے خلط ملط نہ کردیں۔،،(۱)

i ۔ ان روایات کے کمزور پہلو

یہ تھیں اس مضمون کی اہم روایات جو اہل سُنّت کے سلسلہئ سند سے منقول ہیں اور یہ سب روایتیں صحیحہ زرارہ کی مخالف ہیں جو حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں:

''ان القرآن واحد نزل من عند واحد، و لکن الاختلاف یحیئ من قبل الرواة،،

''قرآن ایک ہی ہے اور ایک ہی ذات کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اختلاف راویوں کے پیدا کردہ ہیں۔،،(۲)

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۳۔

(۲) اصول کافی کتاب فضل القرآن، باب نوادر روایت ۱۲۔

۲۲۹

فضیل بن یسار نے حضرت ابا عبد اللہ(ع) سے پوچھا: یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے۔ امام(ع) نے فرمایا:

''أبو عبد الله علیه السلام: کذبوا أعداء الله ولکنه نزل علی حرف واحدمن عند الواحد،،

''یہ دشمنان خدا جھوٹ بولتے ہیں۔ قرآن کو صرف ایک حرف میں اور ایک ذات کی طرف سے نازل کیا گیا۔،،(۱)

اسسے پہے بطور اختصار بیان کیا جاچکا ہے کہ دینی معاملات میں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد واحد مرجع و مرکز کتابِ خدا اور اہل بیت پیغمبرؐ ہیں جن سے خدا نے ہر قسم کے رجس و ناپاکی کو دور رکھا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اس کی مزید وضاحت بعد میں آئے گی۔

ان روایات کی کوئی وقعت نہیں ہے جو اہل بیتؑ کی صحیح روایات کی مخالف ہیں۔ اس لئے دوسری روایات کی سند کے بارے میں کسی بحث کی نوبت نہیں آئی اور روایات اہل بیتؑ کی مخالفت کی وجہ سے ہی وہ روایات ناقابل اعتبار قرار پاتی ہیں اس کے علاوہ بھی ان روایات میں آپس میں تضاد پایا جاتا ہے اور بعض روایات ایسی ہیں جن کے سوال و جواب کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔

ii ۔ روایات میں تضاد

تضاد کا ایک نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق جبرئیل نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو ایک حرف میں قرآن پڑھایا اور آپ نے مزید حروف کی درخواست کی یہاں تک کہ یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔

____________________

(۱) اصول کافی کتاب فضل القرآن، باب نوارد روایت ۱۳۔

۲۳۰

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف میں اضافہ تدریجاً ہوا ہے بعض روایات کے مطابق یہ اضافہ ایک ہی نشست میں ہوا اور آپ نے ان میں اضافے کا مطالبہ میکائیل کی ہدایت پر کیا اور جبرئیل نے سات حرف تک اضافہ کردیا اور بعض روایات کے مطابق میکائیل کی رہنمائی اور رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی درخواست کے بغیر ہی جبرئیل آسمان پر جاتے اور نازل ہوتے تھے حتیٰ کہ سات حروف مکمل ہوئے۔

تضاد کا تیسرا نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کہتی ہیں کہ اُبیّ بن کعب مسجد میں داخل ہوا اور کسی کو اپنی قراءت کے خلاف قرآن پڑھتے سنا اور بعض روایات یہ کہتی ہےں کہ اُبیّ بن کعب پہلے سے مسجد میں موجود تھا اور بعد میں دو آدمیوں نے مسجد میں داخل ہو کر اس کی قراءت کے خلاف قرآن پڑھا۔ اس کے علاوہ ان روایات میں وہ کلام بھی مختلف طریقے سے مذکور ہے جو

آنحضرت(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اُبیّ سے فرمایا۔

سوال و جواب میں مناسبت نہ ہونے کا نمونہ ابن مسعود کی روایت میں حضرت علی (علیہ السلام) کا یہ فرمانا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جس طرح تمہیں پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔ یہ جواب سائل کے سوال سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ ابن مسعود نے آیتوں کی تعدادکے بارے میں پوچھاتھا آیہ کی کیفیت اور قراءت کے بارے میں نہیں۔

ان تمام اشکالات کے علاوہ بھی قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کا کوئی معنی نہیں بنتا اور کوئی صاحب فکر و نظر کسی صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا۔

۲۳۱

سات حروف کی تاویل و توجیہ

سات حروف کی تاویل و توجیہ میں چند اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔ ذیل میں ہم ان میں سے اہم اقوال اور ان میں موجود سقم اور اشکال بیان کریں گے:

۱۔ قریب المعنی الفاظ

سات حروف کی پہلی توجیہ اور تاویل یہ کی گئی ہے کہ الفاظ مختلف ہیں اور ان کے معانی قریب قریب ہیں، جس طرح عجل اسرع اور اسع ہیں۔ ان تینوں الفاظ کا معنی ہے۔ ''جلدی کرو،، یہ حروف حضرت عثمان کے زمانے تک موجود تھے۔ اس کے بعد حضرت عثمان نے ان حروف کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی چھ حروف پر مشتمل قرآنوں کو نذر آتش کرنے کا حکم دے دیا۔

اس تاویل کو طبری اور علماء کی ایک جماعت نے بھی اختیار کیا ہے(۱) قرطبی کا کہنا ہے کہ اکثر اہل علم کا یہی نظریہ ہے(۲) اور ابو عمرو بن عبد البر کی رائے بھی یہی ہے(۳) ۔

اس تاویل پر ابن ابی بکرہ اور ابی داؤد کی روایت کے علاوہ یونس کی روایت سے استدلال کیا جاتا ہے جو ابن شہاب سے منقول ہے، اس میں انہوں نے کہا ہے:

سعید بن المسیب نے مجھے خبر دی ے کہ جس شخص کی طرف خدا نے آیہ کریمہ( إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ ) ۱۶:۱۰۳

یعنی اس (رسول) کو تو ایک بشر قرآن سکھاتا ہے،، میں نے جس کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ ایک کاتب وحی تھا جو اس لیے شک و شبہ میں مبتلا ہوگیا کہ آپ اس سے آیتوں کے آحر میں سمیع علیم یا عزیز حکیم لکھواتے تھے پھر آپ سے پوچھتا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! عزیز حکیم لکھوں یا سمیع علیم یا عزیز علیم؟ آپ فرماتے: ان

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۱۵۔

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۲۔

(۳) التبیان، ص ۳۹۔

۲۳۲

میں سے جو بھی لکھو صحیح ہے۔ اس بات سے یہ شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ محمدؐ نے قرآن میرے سپرد کرد یا ہے، میں جو چہے لکھوں۔،،

نیز یونس کی اس قراءت سے بھی استدلال کیا گیا ہے:''ان ناشئة اللیل هی اشد وطا و اصوب قیلا ۔،، (۱) کچھ لوگوں نے یونس پر اعتراض کیا: اے ابو حمزہ قرآن میں تو ''اقوم،، ہے۔ یونس نے جواب دیا: اقوم اصوب اور اھدی کا معنی ایک ہی ہے۔

اسی طرح ابن مسعود کی قراءت ''ان کانت الا زقیۃ واحدۃ،، سے استدلال کیا گیا ہے۔ اس نے ''ان کانت صیحۃ واحدۃ،، کی بجائے ''ان کانت الا ذقیۃ واحدۃ،، پڑھا ہے۔ اس لیے کہ''صیحة،، اور''زقیة،، کا معنی ایک ہے۔(۱)

اس کے علاوہ طبری کی یہ روایت بھی بطور دلیل پیش کی جاتی ہے۔ طبری نے محمد بن بشار اور ابی السائب اور انہوں نے ہمام سے روایت کی ہے:

''ابو الدرداء ایک شخص کو آیہ کریمہ،( إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ ﴿﴾ طَعَامُ الْأَثِيمِ ) (۴۴:_۴۴_۴۳) پڑھ رہا تھا اس سے یہ آیہ نہیں پڑھی جارہی تھی اور وہ بار بار بتانے کے باوجوداس شخص سے ''طعام الاثیم،، نہیں پڑھا گیا تو ابو الدرداء نے اس سے کہا کہ اس کی جگہ پڑھو''ان شجرة الزقوم طعام الفاجر،، اس لیے کہ ''اثیم،، اور ''فاجر،، کا معنی ایک ہے۔،،(۲)

اس کے علاوہ اس تاویل کی دلیل میں ان روایات کو پیش کیا جاتا ہے جن میں یہ کہہ کر قراءت میں کافی گنجائش رکھی ہے:

ما لم تختم اٰیة رحمة بعذاب او اٰیة عذاب برحمة (یعنی) قرآن میں اتنی تبدیلی کرسکتے ہو کہ رحمت کی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل نہ ہوجائے۔

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج۱،ص ۱۸۔

(۲) ایضاً، ج ۲۵، ص ۷۸۔ آیہ مبارکہ کی تفسیر کے ذیل میں۔

۲۳۳

اس حد بندی کی یہی معنی ہوسکتا ہے کہ سات حروف سے مراد سات کلمات میں سے بعض کو بعض کی جگہ استعمال کرنا ہے۔ البتہ اس سے صرف اس صورت کو مستثنیٰ قرار دیا گیا جس سے رحمت کی کوئی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل ہوجائے۔ بنابرایں ان روایات میں سے مجمل(۱) روایات کی مبین(۲) روایات پر محمول کرنے کے بعد ان سے وہی معنی مراد لیے جائیں جو ہم نے بیان کئے ہیں۔

مؤلف: سات حروف کے بارے میں جتنی بھی تاویلیں کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی روایت سے سازگار نہیں، چانچہ اس کے بارے میں آئندہ بیان کیا جائے گا۔ بنابرایں یہ تمام روایات ناقابل قبول ہیں کیونکہ ان کے مفہوم کو اپنانا اور ان پر عمل کرنا ناممکن ہے، اس لیے کہ:

اولا: یہ تاویل، قرآن کے بعض معانی پر منطبق ہوسکتی ہے جس کی سات حروف سے تعبیر ہوسکتی ہو۔ اور یہ بدیہی امر ہے کہ قرآن میں اکثریت ان معانی کی ہے جنہیں مختلف الفاظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ قرآن ان سات حروف میں نازل ہوا ہے۔

ثانیاً: اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے بعض الفاظ جن کے معنی ملتے جلتے ہوں، میں تبدیل کرنے کی اجازت دی ے اور گذشتہ روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے تو یہ احتمال، اس قرآن کی بنیاد کو منہدم کرنے کا باعث بنے گا جو ایک ابدی معجزہ اور پوری انسانیت پر خدا کی طرف سے حجّت ہے، اور کسی بھی عاقل کو اس بات میں شک نہیں ہوگا کہ یہ احتمال حقیقی قرآن کے متروک اور اس کے بے وقعت ہوے کا متقاضی ہے۔

____________________

(۱) ایسا کلام جس کا معنی واضح نہ ہو۔ (مترجم)

(۲) ایسا کلام جس کا معنی واضح ہو۔ (مترجم)

۲۳۴

کوئی عاقل یہ سوچ سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سورہ یٰس میں موجود آیات کی جگہ ان الفاظ کی تلاوت کی اجازت دی ہو:''یٰس والذکر العظیم، انک لمن الانبیآئ، علی طریق سویّ، انزال الحمید الکریم، التخوف قوماً خوف اسلافهم فهم ساهون ۔

ہم تو کہیں گے ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں جو اسے جائز سمجھتے ہیںاللهمّ ان هٰذا الا بهتان عظیم ، پالنے والے! تو جانتا ہے کہ یہ تیرے رسول پر بہتان عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:

( قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ) ۱۰:۱۵

''(اے رسول) تم کہہ دو کہ مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اسے اپنے جی سے بدل ڈالوں میں تو بس اسی کا پابند ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔،،

جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو قرآن میں اپنی طرف سے کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار نہیں ہے تو آپ دوسروں کو کیسے اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔

رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے براء بن عازب کو ایک دعا کی تعلیم فرمائی تھی جس میں یہ جملہ بھی شامل تھا: ''و نبیک الذی ارسلت،، اس کو براء نے ''و رسولک الذی ارسلت،، پڑھا تو آپ نے براء کو ٹوکا اور فرمایا ''نبی،، کی جگہ ''رسول،، مت پڑھو۔(۱)

____________________

(۱) التبیان، ص ۵۸۔

۲۳۵

جب دعا کی یہ شان اور اہمیت ہے تو قرآن کی اہمیت کتنی زیادہ ہوگی۔

اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف کے مطابق قرآن پڑھا ہے اور ان روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے توپھر مدعی کو ان سات حروف کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کرنی چاہیے جن کے مطابق رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے قرآن پڑھا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے:

( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) ۱۵:۹

''بیشک ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی تو اس کے نگہبان بھی ہیں۔،،

ثالثاً: گذشتہ روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ قرآن کو سات حروف میں نازل کرنے کی حکمت، اُمّت کی سہولت اور آسانی ہے، اس لیے کہ اُمّت ایک حرف میں قراءت کی استطاعت نہیں رکھتی اور اسی غرض سے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف تک اضافہ کرنے کی درخواست کی تھی۔

لیکن آپ نے دیکھا کہ قراءتوں میں اختلاف باعث بنا کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافر گردانیں، حتیٰ کہ حضرت عثمان نے قراءت کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی قرآنوں کو نذر آتش کردیا۔

اس سے ہم درج ذیل نتائج تک پہنچتے ہیں:

۱۔ قراءتوں میں اختلاف اُمّت کے لیے ایک عذاب تھا حضرت عثمان کے دور میں ظاہر ہوا۔ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا سے ایسی چیز کا مطالبہ کس طرح کرسکتے تھے۔ جس میں اُمّت کا فساد و نقصان ہو اور کیایہ صحیح ہے کہ خدا ایسی درخواست منطور فرمالے؟ جبکہ بہت سی روایات میں اختلاف سے روکا گیا ہے اور اختلاف کو امّت کی ہلاکت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ بعض روایات تو یہاں تک کہتی ہیںکہ جب آپ نے قراءتوں میں اختلاف کی بات سنی تو غصے سے آپ کا چہرہ مبارک سُرخ ہوگیا۔ ان میں س کچھ روایات کا ذکر ہو چکا ہے اور کچھ روایات کا ذکر بعد میں کیا جائے گا۔

۲۳۶

۲۔ گذشتہ روایات کا مفہوم یہ تھا کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: میری اُمّت ایک حرف میں قرآن پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتی اور یہ صریحاً جھوٹ ہے۔ عقل اس کو نبی کریمؐ کی طرف نسبت دینے کی اجازت نہیں دیتی۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عثمان کے بعد اُمّت پیغمبر، جس میں مختلف عناصر قبیلے اور مختلف زبانوں والے شامل تھے، قرآن کو ایک حرف میں پڑھنے پر قادر تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں ایک قراءت پر اتفاق کرنا کوئی مشکل تھا جبکہ اس وقت امّت پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فصیح عربوں پر مشتمل تھی۔

۳۔ قراءتوں میں اختلاف، جس کی بنیاد پر حضرت عثمان نے قراءتوں کو ایک حرف میں منحصر کیا، خود پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں بھی تھا۔ آپ نے ہر قاری کی تائید بھی فرمائی تھی اور مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان تمام قراءتوں کو تسلیم کرلیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ قراءتوں میں اختلاف خدا کی طرف سے رحمت ہے۔

اب حضرت عثمان اور ان کے تابعین کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ رحمت کے دروازے بند کردیں؟ جبکہ رسول اعظمؐ نے قراءت قرآن روکنے سے ممانعت فرمائی تھی۔

مسلمانوں کے پاس کیا جواز تھا کہ وہ رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے قول کو تو ٹھکرا دیں اور حضرت عثمان کی بات مان کر اس پر عمل کریں؟

کیا مسلمانوں کی نظر میں حضرت عثمان، رحمۃ العالمین سے زیادہ مہربان اور ہمدرد تھے؟

معاذ اللہ کیا حضرت عثمان کے پیش نظر ایسی حکمت اور مصلحت تھی جس سے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے خبر تھی؟ یا حاشا وکلا حضرت عثمان پر ان حروف کے منسوخ ہونے کی وحی نازل ہوئی تھی؟!

۲۳۷

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ سات حروف سے متعلق روایات کی یہ بدنما تاویل اس قابل نہیں ہے کہ اسے ردّ بھی کیا جائے۔ اسی وجہ سے علمائے اہل سُنّت میں سے متاخرین نے اس تاویل کو ٹھکرا دیا ہے اور ابو جعفر محمد بن سعد ان النحوی اور حافظ جلال الدین سیوطی ان روایات کو مشکل اور متشابہ قرار دینے پر مجبور ہوگئے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ان روایات کا کوئی مفہوم واضح نہیں ہے۔(۱) حالانکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ان روایات کا مفہوم واضح ہے اور جو بھی ان روایات کا بنظر غائر مطالعہ کرے، اس کے لیے کوئی شک و تردد باقی نہیں رہتا۔

۲۔ سات ابواب

سات حروف کی تفسیر و تاویل کے سلسلے میں دوسری رائے یہ ہے کہ ان سے مراد سات ابواب ہیں اور قرآن ان سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ان کے عنوان یہ ہیں:

i ۔ آیات زجر (نہی)۔

ii ۔ آیات امر۔

iii ۔ آیات حلال۔

iv ۔ آیات حرام۔

v ۔ آیات محکم۔

vi ۔ آیات متشابہ۔

vii ۔ آیات امثال۔

اس نظریہ پر یونس کی روایت سے استدلال کیا گیا ہے، جسے اس نے ابن مسعود کی سند سے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نقل کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:

____________________ _

(۱) التبیان، ص ۶۱۔

۲۳۸

انه قال: ''کان الکتاب الأول نزل من باب واحد علی حرف واحد، و نزل القرآن من سبعة أبواب، و علی سبعة أحرف: زجر، و أمر، و حلال، و حرام، و محکم، و متشابه، و أمثال ۔فأحلّوا حلاله، و حرّموا واعتبروا بأمثاله، و اعملوا بمحکمه، و آمنوا بمتشابهه، و قولوا آمنا به کل من عند ربنا،،

''پہلی آسمانی کتاب کا ایک ہی باب تھا اور وہ ایک ہی حرف پر نازل کی گئی تھی۔ قرآن مجید سات ابواب اور سات حروف میں نازل کیا گیاہے۔ زجر، امر، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال۔ حلال خدا کو حلا ل اور حرام خدا کو حرام سجھو، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جائے اسے انجام دو اور جس چیز سے تمہیں منع کیا جائے اس سے باز آجاؤ، قرآن کی مثالوں سے عبرت حاصل کرو، محکم آیات پر عمل کرو اور متشابہ آیات پر ایمان لے آؤ اور کہو ہم اس پر ایمان لے آئے یہ سب کچھ ہمارے ربّ کی طرف سے ہے۔،،(۱)

اس نظریہ پر بھی چند اعتراضات ہیں:

۱۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سات حروف، جن میں قرآن نازل ہوا ہے اور ہیں، اور سات ابواب، جن میں قرآن تقسیم ہوا ہے اور ہیں، لہذا اس روایت کو ان مجمل روایات کی تفسیر قرار نہیں دیا جاسکتا۔

۲۔ یہ روایت ابو کریب کی روایت سے متصادم ہے، جو اس نے ابن مسعود سے نقل کی ہے اور جس میں کہا گیا ہے:

ان الله انزل القرآن علی خمسة احرفٍ ۔حلال و حرام و محکم و متشابه و امثال ۔(۲) (یعنی) اللہ نے قرآن کو پانچ حروف ، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال میں نازل فرمایا ہے

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۳۲۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۲۴۔

۲۳۹

۳۔ اس روایت کا مفہوم مضطرب و متزلزل ہے۔ کیونکہ ''زجر،، اور ''حرام،، ایک چیز ہے، اس طرح چھ ابواب ہو جائیں گے نہ کہ سات۔ اس کے علاوہ قرآن میں اور بہت سے موضوعات کا بھی ذکر ہے جو ان سات ابواب میں شامل نہیں ہیں۔جیسے: مبدائ، معاد، قصّے، احتجاجات ، دلائل اور علوم و معارف ہیں اور اگر اس تاویل کے قائل کا مقصد یہ ہے کہ باقی ماندہ موضوعات بھی محکم و متشابہ می داخل ہیں تو باقی پانچ ابواب، حلال، حرام، امر، زجر اور امثال کو بھی دوسرے موضوعات کی طرح محکم و متشابہ میں داخل ہونا چاہیے تھا۔ اس طرح قرآن دو حروف محکم و متشابہ میں منحصر ہو جاتا۔ اس لیے کہ قرآن میں جو کچھ ہے و محکم یا متشابہ ہے۔

۴۔ سات حروف کی تفسیر، سات ابواب کرنا گذشتہ روایات سے سازگار نہیں کیونکہ گذشتہ روایات میں قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کی وجہ امّت کی سہولت بیان کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اُمّت ایک حرف پر قرآن پڑھنے کی قدرت نہیں رکھتی تھی۔

۵۔ بعض گذشتہ روایات اس بات کی تصریح کرتی ہیں کہ سات حروف سے مراد قراءت کی قسمیں ہیں، جن میں قاریوں کا اختلاف ہے۔

فرض کیا اگر اس روایت کا معنی سات ابواب ہیں تب بھی اس ایک روایت کی وجہ سے ان متعدد روایات کے ظاہری معنی سے دستبردار نہیں ہوا جاسکتا اور نہ ہی یہ ایک روایت گذشتہ روایات کے ظاہری معنی کے خلاف کسی معنی کے لیے قرینہ اور علامت بن سکتی ہے۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689