البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن11%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313910 / ڈاؤنلوڈ: 9311
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

کیا قرآن سات حروف پر نازل ہوا؟

٭ روایات کے کمزور پہلو

٭ روایات میں تضاد

٭ سات حروف کی تاویل و توجیہ

٭ قریب المعنی الفاظ

٭ سات ابواب

٭ سات ابواب کا ایک اور معنی

٭ فصیح لغات

٭ قبیلہ ئ مضر کی لغت

٭ قراءتوں میں اختلاف

٭ اختلاف قراءت کا ایک اور معنی

٭ اکائیوں کی کثرت

٭ سات قراءتیں

٭ مختلف لہجے

۲۲۱

اہل سنت کی روایات بتاتی ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ بہتر ہے کہ پہلے ان روایات کو بیان کیا جائے اور پھر ان کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کی جائے۔

۱۔ طبری نے یونس اور ابی کریب سے انہوں نے ابی شہاب سے اور اس نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

قال:''أقرأنی جبرئیل علی حرف فراجعته، فلم أزل أستزیده فیزیدنی حتی انتهی الی سبعة أحرف،،

''مجھے جبرئیل نے ایک حرف میں پڑھایا۔ میں نے دوبارہ جبرئیل کی طرف رجوع کیا اور یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔،،

اس روایت کومسلم نے حرملہ سے، حرملہ نے ابن وھب سے اور اس نے یونس سے نقل کیا ہے۔(۱) بخاری نے دوسری سند سے یہ روایت بیان کی ہے اور اس کا مضمون ابن برقی اور ابن عباس کے ذریعے نقل کیا ہے۔(۲)

۲۔ ابی کریب نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کی سند سے اس نے اپنے جد کی سند سے اور اس نے ابی ابن کعب کی سند سے روایت کی ہے۔ ابیّ کہتا ہے:

''کنت فی المسجد فدخل رجل یصلی فقرأ قراءة أنکرتها علیه، ثم دخل رجل آخر فقرأ قراء ة غیر قراء ة صاحبه، فدخلنا جمیعاً علی رسول الله قال: فقلت یا رسول الله ان هذا قرأ قراء ة أنکرتها علیه، ثم دخل هذا فقرأ قراءة غیر قراءة صاحبه، فامرهما رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فقرأا ، فحسن رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) شأهما، فوقع فی نفسی من التکذیب، ولا اذ کنت فی الجاهلیة فلما رأی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) ما غشینی ضرب صدری، ففضت عرقا کأنما أنظر الی الله فرقا فقال لی: یاأبی أرسل الی ان اقرأ القرآن علی حرف، فرددت علیه أن هون علی أمتی، فرد علی فی الثانیة أن اقرأ القرآن علی حرف فرددت علیه أن هون علی أمتی، فرد علی فی الثالثة أن اقرأه علی سبعة أحرف، و لک بکل ردة رددتها مسألة تسألنبها، فقلت: اللهم اغفر لأمتی اللهم اغفر لأمتی، و اخرت الثالثه لیوم یرغب فیه الی الخلق کلهم حتی ابراهیم علیه السلام،،

____________________

(۱)صحیح مسلم باب ان القرآن انزل علی سبعة أحرف ، ج ۲، ص ۲۰۲، طبع محمد علی صبیح، مصر۔

(۲)صحیح البخاری باب انزل القرآن علی سبعة أحرف ،ج ۲، ص ۱۰۰، مطبع عامرہ۔

۲۲۲

''میں مسجد رسول میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھنی شروع کی۔ اس نے ایک ایسی قراءت پڑھی جسے میں نہ جانتا تھا۔ اس اثنا میں دوسرا آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے ایک اور قراءت سے نماز شروع کی۔ پھر جب ہم سب نماز پڑھ چکے تو رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ اس شخص نے ایسی قراءت سے نمام پڑھی کہ مجھے تعجب ہوا اور دوسرا آیا تو اس نے اس کے علاوہ ایک اور قراءت پڑھی۔ آپ نے ان دونوں کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ ان دونوں نے اسی طرح نماز پڑھی جس طرح پہلے پڑھی تھی، آپ نے دونوں کی نماز کو سراہا، اس سے میرے دل میں تکذیب آئی لیکن ایسی تکذیب نہیں جیسی زمانہ جاہلیت میں تھی۔ جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے میری یہ کیفیت دیکھی تو میرے سینے پر ہاتھ مارا جس سے میں شرم کے مارے پسینہ سے شرابور ہوگیا اور یوں لگا جیسے میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: اے اُبیّ! مجھے یہ حکم دیا گیا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے خالق کے دربار میں درخواست کی کہ میری امت پر اس فریضہ کو آسان فرما مجھے دوبارہ یہی حکم ملا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے پھر وہی درخواست دہرائی۔ اس دفعہ مجھے حکم دیا گیا کہ میری ہر دعا، جو قبول نہیں ہوئی، کے عوض ایک دعا قبول کی جائے گی۔ اس پر میں نے یہ دعا مانگی: پالنے والے! میری امت کو بخش دے۔ پالنے والے! میری اُمّت کو بخش دے اور تیسری دعا کو اس دن کے لیے محفوظ رکھا ہے جس دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک میری دعا کے محتاج ہوں گے۔،،

اس روایت کو مُسلم نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔(۱) طبری نے بھی ایک اور سند سے معمولی اختلاف کے ساتھ اس کو نقل کیا ہے اور تقریباً اسی مضمون کی یونس بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ صنعانی کے ذریعے اُبیّ بن کعب سے روایت کی گئی ہے۔

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۲، ص ۲۰۳۔

۲۲۳

۳۔ ابی کریب نے سلیمان بن صرد کی سند سے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے۔ اُبیّ بن کعب کہتا ہے:

قال: ''رحت الی المسجد فسمعت رجلاً یقرأ فقلت: من أقرأک؟ فقال: رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فانطلقت به الی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فقلت: استقریئ هذاں، فقرأ فقال: أحسنت قال: فقلت انک أقرأتنی کذا و کذا فقال: وأنت قد أحسنت قال: فقلت قد أحسنت قد أحسنت قال: فضرب بیده علی صدری، ثم قال: اللهم أذهب عن أبیّ الشک قال: ففضت عرقاً و امتلأ جو فی فرقاً ثم قال: ان اللکین أتیانی فقال أحدهما: اقرأ القرآن علی حرف، و قال الآخر: زده قال: فقلت زدنی قال: اقرأه علی حرفین حتی بلغ سبعة أحرف فقال: اقرأ علی سبعة أحرف،،

''میں مسجد میں داخل ہوا تو ایک آدمی کی قراءت سُنی، میں نے اس سے دریافت کیا تمہیں یہ قراءت کس نے پڑھائی ہے، اس نے جواب دیا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے پڑھائی ہے چنانچہ میں اسے لے کر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) اس کی قراءت سنیئے۔ اس شخص نے قراءت پڑھی اور سول اللہؐ نے سننے کے بعد فرمایا: عمدہ ہے۔ میں نے کہا: آپ نے تو مجھے اس طرح اور اس طرح قراءت پڑھائی تھی۔ آپ نے فرمایا: یقیناً تمہاری قراءت بہت اچھی ہے میں نے آپ کی نقل اتارتے ہوئے کہا: تمہاری قراءت بھی بہت اچھی ہے۔ آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور فرمایا: پالنے والے! اُبیّ کے دل شک دور فرما۔ میں (اُبیّ) خجالت کے مارے پسینے سے شرابور ہو گیا اور میری پورا وجود خوف سے لرزنے لگا۔ پھر آپ نے فرمایا: میرے پاس دو فرشتے نازل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا: قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ دوسرے فرشتے نے پہلے سے کہا: اس ایک حرف میں اضافہ کریں۔ میںؐ نے بھی فرشتے سے یہی کہا۔ فرشتے نے کہا: قرآن کو دو حرفوں میں پڑھیئے۔ فرشتہ حروف کی تعداد بڑھاتا گیا یہاں تک کہ فرشتے نے کہا قرآن کو سات حروف میں پڑھیئے۔،،

۲۲۴

۴۔ ابو کریب نے عبد الرحمن بن ابی بکرہ کی سند سے اور اس نے اپنے باپ کی سند سے روایت کی ہے۔ ابو کریب کہتا ہے:

قال: ''قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): قال جبرئیل: اقرأ القرآن علی حرف فقال میکائیل استزده فقال: علی حرفین، حتی بلغ ستة أو سبعة أحرف و الشک من أبی کریب فقال: کهها شاف کاف ما لم تختم آیة عذاب برحمة، أو آیة رحمة بعذاب کقولک: هلم و تعال،،

''پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جبرئیل نے کہا قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ میکائیل نے کہا کہ جبرئیل سے درخواست کریں کہ اسے بڑھا دے، میریؐ درخواست پر جبرئیل نے کہا دو حروف میں پڑھیئے۔ اس طرح حروف کو بڑھاتے گئے یہاں تک کہ چھ یا ست تک پہنچ گئے (چھ اور سات میں تردد ابی کریب کی طرف سے ہے) پھر آپ نے فرمایا: ان میں سے جس حرف میں بھی پڑھیں کافی ہے اور سب کا مطلب ایک ہے، جس طرح ''ھلم،، اور ''تعال،، دونوں کا معنی ہے ''آجاؤ،، بشرطیکہ رحمت کی آیہ عذاب میں اور عذاب کی آیہ رحمت میں تبدیل نہ ہو۔،،

۵۔ طبری نے احمد بن منصور کی سند سے اس نے عبد اللہ بن ابی طلحہ سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے:

قال: ''قرأ رجل عند عمر بن الخطاب فغیر علیه فقال: لقد قرأت علی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فلم یغیر علی قال: فاختصما عند النبی فقال: یا رسول الله ألم تقرئنی آیة کذا و کذا؟ قال: بلی، فوقع فی صدر عمر شیئ فعرف النبی ذلک فی وجهه قال: فضرب صدره وقال: أبعد شیطاناً، قالها ثلاثاً ثم قال: یا عمر ان القرآن کله سوائ، ما لم تجعل رحمةً عذاباً و عذاباً رحمة،،

''ایک شخص نے حضرت عمر بن خطاب کے سامنے قرآن پڑھا حضرت عمر بن خطاب نے اس پر اعتراض کیا اور اس کی اصلاح کی کوشش کی۔ اس شحص نے کہا: میں نے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے سامنے بھی اسی طرح قراءت پڑھی تھی۔ لیکن آپ نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ چنانچہ یہ دونوں فیصلے کے لیے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

۲۲۵

اس شخص نے کہا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! کیا آپ نے مجھے اس آیہ کی قراءت اس طرح نہیں پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی۔ حضرت عمر کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے جنہیں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمر کے چہرے پر نمایاں محسوس فرمایا۔ راوی کہتا ہے: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمر کے سینے پر ہاتھ مارا اور تین مرتبہ فرمایا: شیطان کو اپنے آپ سے دور رکھو۔ اس کے بعد فرمایا: یہ سب قرآن ایک جیسے ہیں جب تک کسی رحمت کو عذاب میں اور عذاب کو رحمت میں تبدیل نہ کرو۔،،

طبری نے یونس بن عبد الاعلیٰ سے حضرت عمر اور ہشام بن حکیم کا اسی قسم کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کی سند خود حضرت عمر تک پہنچتی ہے۔

بخاری، مسلم اور ترمذی نے بھی حضرت عمر کا ہشام کے ساتھ ایک واقعہ بیان کیا ہے جس کی سند اور حدیث کے الفاظ کچھ مختلف ہیں۔(۱)

۶۔ طبری نے محمد بن مثنی سے اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے:

قال: ''فأتاه جبرئیل فقال: ان الله یأمرک أن تقریئ أمّتک القرآن علی حرف فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لا تطبق ذلک قال: ثم أتاه الثانیة فقال: ان الله یأمرک أن تقریئ أمتک القرآن علی حرفین فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لا تطبق ذلک، ثم جاء الثالثة فقال: ان الله یأمرک أن تقری، امّتک القرآن علی ثلاثة أحرف فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لاتطبق ذلک، ثم جاء الرابعة فقال: ان الله یأمرک أن قری، أمّتک القرآن علی سبعة أحرف، فأنما حرف قرأوا علیه فقد أصابوا،،

''رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) قبیلہ بنی غفار کے ہاں تھے، اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی اُمّت کو ایک حرف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امّت اس کی قدرت نہیں رکھتی

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۲، ص ۲۰۲۔ صحیح بخاری، ج ۳، ص ۹۰ اور ج ۶، ص ۱۰۰،۱۱۱، ج ۸، ص ۵۳۔۲۱۵۔صحیح ترمذی، بشرح ابن العربی باب ما جاء انزل القرآن علی سبعة احرف ، ج ۱۱، ص ۶۰۔

۲۲۶

اُبیّ کہتا ہے: جبرئیل دوسری مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی اُمّت کو دو حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخوات ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ تیسری مرتبہ جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو تین حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ جبرئیل پھر چوتھی مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو سات حروف میں قرآن پڑھایئے، ان میں سے جس حرف پر بھی وہ قرآن پڑھے صحیح ہے۔،، اس روایت کو مسلم نے اپنی صحیح(۱) میں بیان کیا ہے۔ نیز طبری نے اس روایت کے کچھ حصے احمد بن محمد طوقی سے، اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے معمولی اختلاف سے بیان کئے ہیں۔ اس کے علاوہ طبری نے محمد بن مثنیٰ سے اور اس نے ابیّ بن ابی کعب سے روایت کی ہے۔

۷۔ طبری نے ابی کریب سے اس نے زر سے اور اس نے اُبیّ سے نقل کیا ہے:

قال: ''لقی رسول الله صلی الله علیه وآله جبرئیل عند أحجار المرائ ۔فقال: انی بعثت الی أمّة أمیین منهم الغلام و الخادم، و فیهم الشیخ الفانی و العجوز فقال جبرئیل: فلیقرأوا القرآن علی سبعة أحرف،، (۲)

''مقام''مراء احجار،، پر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے جبرئیل کو دیکھا آپ نے فرمایا میں ایسی ان پڑھ قوم کی طرف بھیجا گیاہوں جس میں غلام، بوڑھے اور عورتیں شامل ہیں۔ جبرئیل نے فرمایا: آپ کی امّت سات حروف میں قرآن پڑھے۔،،

۸۔ طبری نے عمرو بن عثمان عثمانی سے، اس نے مقبری سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): ان هذا القران انزل علی سبعة أحرف، فاقرأوا و لاحرج، و لکن لا تختموا طذکر رحمة بعذاب، ولا ذکر عذاب برحمة،،

''قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ جس حرف میں چاہو اسے پڑھو، کوئی حرف نہیں۔ لیکن یہ خیال رکھو کہ رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ میں بدل نہ دینا۔،،

___________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۲، ص ۲۰۳۔

(۲) اس روایت کو ترمذی نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ج ۱۱، ص ۶۲۔

۲۲۷

۹۔ طبری نے عبید بن اسباط سے، اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''قرآن چار حرفوں میں نازل کیا گیا ہے علیم، حکیم، غفور اور رحیم،،۔

اسی قسم کی روایت طبری نے ابی کریب سے اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کی ہے۔

۱۰۔ طبری سعید بن یحییٰ سے، اس نے عاصم کی سند سے، اس نے زر سے اور اس نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے، عبد اللہ ابن مسعود کہتا ہے:

قال: ''تمارینا فی سورة من القرآن، فقلنا: خمس و ثلاثون، أوست و ثلاثون آیة، قال: فانطلقنا الی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فوجدنا علیاً یناجیه قال: فقلنا انما اختلفنا فی القراء ة قال: فاحمر وجه رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) و قال: انما هلک من کان قبلکم باختلافهم بینهم قال: ثم أسرَّ الی علی شیأا فقال لنا علی: ان رسول الله یأمرکم ان تقرأوا کما علّمتم،،

''قرآن کے کسی سورۃ کے بارے میں ہمارا اختلاف ہوا۔ بعض نے کہا اس کی آیئتیں پینتیس ہیں اور بعض نے کہا چھتیس ہیں۔ چنانچہ ہم رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا کہ آپ حضرت علی(علیہ السلام) سے راز و نیاز میں مشغول ہیں۔ ابن مسعود کہتا ہے کہ ہم نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! قراءت کے بارے میں ہمارا آپس میں اختلاف ہو رہا ہے۔ ہماری بات سن کر آپ کا چہرہ مبارک غصّے سے سرخ ہوگیا آپ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگ آپس کے اختلاف کی وجہ سے ہلاکت میں مبتلا ہوگئے

پھر آپ نے آہستہ سے امیر المومنین (علیہ السلام) سے کچھ فرمایا۔ اس کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) نے ہم سے کہا: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ جس طرح تمہیں قرآن پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔،،(۱)

____________________

(۱) یہ سب روایتیں تفسیر طبری، ج ۱، ص ۹۔۱۵ میں مذکور ہیں۔

۲۲۸

۱۱۔ قرطبی نے اُبی داؤد سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:''یا اُبیّ انی قرأت القرآن ۔فقیل لی: علی حرف أوحرفین ۔فقال الملک الذی معی: قل علی حرفین ۔فقیل لی: علی حرفین أو ثلاثة ۔فقال الملک الذی معی: قل علی ثلاثة، حتی بلغ سبعة أحرف، ثم قال: لیس منها الا شاف کاف، ان قلت سمیعاً، علیماً، عزیزاً، حکیماً، مالم تخلط آیة عذاب برحمة، أو آیة رحمة بعذاب،،

''اے اُبی! میں نے قرآن کی تلاوت کی تو مجھ سے پوچھا گیا: آپ ایک حرف میں قرآن پڑھیں گے یا دو حرف میں؟ میرے ساتھ موجود فرشتے نے کہا: کہیئے دو حرف میں۔ فرشتے نے کہا: کہیئے تین حروف میں۔ اس طرح سات حروف تک سلسلہ جا پہنچا۔ اس کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ ان سات حروف میں سے جس میں چاہیں پڑھیں، کافی ہے۔ چاہیں تو سمیعاً پڑھیں یا علیماً یا عزیزاً یا حکیماً پڑھیں البتہ عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ سے اور رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ سے خلط ملط نہ کردیں۔،،(۱)

i ۔ ان روایات کے کمزور پہلو

یہ تھیں اس مضمون کی اہم روایات جو اہل سُنّت کے سلسلہئ سند سے منقول ہیں اور یہ سب روایتیں صحیحہ زرارہ کی مخالف ہیں جو حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں:

''ان القرآن واحد نزل من عند واحد، و لکن الاختلاف یحیئ من قبل الرواة،،

''قرآن ایک ہی ہے اور ایک ہی ذات کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اختلاف راویوں کے پیدا کردہ ہیں۔،،(۲)

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۳۔

(۲) اصول کافی کتاب فضل القرآن، باب نوادر روایت ۱۲۔

۲۲۹

فضیل بن یسار نے حضرت ابا عبد اللہ(ع) سے پوچھا: یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے۔ امام(ع) نے فرمایا:

''أبو عبد الله علیه السلام: کذبوا أعداء الله ولکنه نزل علی حرف واحدمن عند الواحد،،

''یہ دشمنان خدا جھوٹ بولتے ہیں۔ قرآن کو صرف ایک حرف میں اور ایک ذات کی طرف سے نازل کیا گیا۔،،(۱)

اسسے پہے بطور اختصار بیان کیا جاچکا ہے کہ دینی معاملات میں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد واحد مرجع و مرکز کتابِ خدا اور اہل بیت پیغمبرؐ ہیں جن سے خدا نے ہر قسم کے رجس و ناپاکی کو دور رکھا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اس کی مزید وضاحت بعد میں آئے گی۔

ان روایات کی کوئی وقعت نہیں ہے جو اہل بیتؑ کی صحیح روایات کی مخالف ہیں۔ اس لئے دوسری روایات کی سند کے بارے میں کسی بحث کی نوبت نہیں آئی اور روایات اہل بیتؑ کی مخالفت کی وجہ سے ہی وہ روایات ناقابل اعتبار قرار پاتی ہیں اس کے علاوہ بھی ان روایات میں آپس میں تضاد پایا جاتا ہے اور بعض روایات ایسی ہیں جن کے سوال و جواب کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔

ii ۔ روایات میں تضاد

تضاد کا ایک نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق جبرئیل نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو ایک حرف میں قرآن پڑھایا اور آپ نے مزید حروف کی درخواست کی یہاں تک کہ یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔

____________________

(۱) اصول کافی کتاب فضل القرآن، باب نوارد روایت ۱۳۔

۲۳۰

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف میں اضافہ تدریجاً ہوا ہے بعض روایات کے مطابق یہ اضافہ ایک ہی نشست میں ہوا اور آپ نے ان میں اضافے کا مطالبہ میکائیل کی ہدایت پر کیا اور جبرئیل نے سات حرف تک اضافہ کردیا اور بعض روایات کے مطابق میکائیل کی رہنمائی اور رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی درخواست کے بغیر ہی جبرئیل آسمان پر جاتے اور نازل ہوتے تھے حتیٰ کہ سات حروف مکمل ہوئے۔

تضاد کا تیسرا نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کہتی ہیں کہ اُبیّ بن کعب مسجد میں داخل ہوا اور کسی کو اپنی قراءت کے خلاف قرآن پڑھتے سنا اور بعض روایات یہ کہتی ہےں کہ اُبیّ بن کعب پہلے سے مسجد میں موجود تھا اور بعد میں دو آدمیوں نے مسجد میں داخل ہو کر اس کی قراءت کے خلاف قرآن پڑھا۔ اس کے علاوہ ان روایات میں وہ کلام بھی مختلف طریقے سے مذکور ہے جو

آنحضرت(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اُبیّ سے فرمایا۔

سوال و جواب میں مناسبت نہ ہونے کا نمونہ ابن مسعود کی روایت میں حضرت علی (علیہ السلام) کا یہ فرمانا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جس طرح تمہیں پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔ یہ جواب سائل کے سوال سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ ابن مسعود نے آیتوں کی تعدادکے بارے میں پوچھاتھا آیہ کی کیفیت اور قراءت کے بارے میں نہیں۔

ان تمام اشکالات کے علاوہ بھی قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کا کوئی معنی نہیں بنتا اور کوئی صاحب فکر و نظر کسی صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا۔

۲۳۱

سات حروف کی تاویل و توجیہ

سات حروف کی تاویل و توجیہ میں چند اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔ ذیل میں ہم ان میں سے اہم اقوال اور ان میں موجود سقم اور اشکال بیان کریں گے:

۱۔ قریب المعنی الفاظ

سات حروف کی پہلی توجیہ اور تاویل یہ کی گئی ہے کہ الفاظ مختلف ہیں اور ان کے معانی قریب قریب ہیں، جس طرح عجل اسرع اور اسع ہیں۔ ان تینوں الفاظ کا معنی ہے۔ ''جلدی کرو،، یہ حروف حضرت عثمان کے زمانے تک موجود تھے۔ اس کے بعد حضرت عثمان نے ان حروف کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی چھ حروف پر مشتمل قرآنوں کو نذر آتش کرنے کا حکم دے دیا۔

اس تاویل کو طبری اور علماء کی ایک جماعت نے بھی اختیار کیا ہے(۱) قرطبی کا کہنا ہے کہ اکثر اہل علم کا یہی نظریہ ہے(۲) اور ابو عمرو بن عبد البر کی رائے بھی یہی ہے(۳) ۔

اس تاویل پر ابن ابی بکرہ اور ابی داؤد کی روایت کے علاوہ یونس کی روایت سے استدلال کیا جاتا ہے جو ابن شہاب سے منقول ہے، اس میں انہوں نے کہا ہے:

سعید بن المسیب نے مجھے خبر دی ے کہ جس شخص کی طرف خدا نے آیہ کریمہ( إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ ) ۱۶:۱۰۳

یعنی اس (رسول) کو تو ایک بشر قرآن سکھاتا ہے،، میں نے جس کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ ایک کاتب وحی تھا جو اس لیے شک و شبہ میں مبتلا ہوگیا کہ آپ اس سے آیتوں کے آحر میں سمیع علیم یا عزیز حکیم لکھواتے تھے پھر آپ سے پوچھتا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! عزیز حکیم لکھوں یا سمیع علیم یا عزیز علیم؟ آپ فرماتے: ان

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۱۵۔

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۲۔

(۳) التبیان، ص ۳۹۔

۲۳۲

میں سے جو بھی لکھو صحیح ہے۔ اس بات سے یہ شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ محمدؐ نے قرآن میرے سپرد کرد یا ہے، میں جو چہے لکھوں۔،،

نیز یونس کی اس قراءت سے بھی استدلال کیا گیا ہے:''ان ناشئة اللیل هی اشد وطا و اصوب قیلا ۔،، (۱) کچھ لوگوں نے یونس پر اعتراض کیا: اے ابو حمزہ قرآن میں تو ''اقوم،، ہے۔ یونس نے جواب دیا: اقوم اصوب اور اھدی کا معنی ایک ہی ہے۔

اسی طرح ابن مسعود کی قراءت ''ان کانت الا زقیۃ واحدۃ،، سے استدلال کیا گیا ہے۔ اس نے ''ان کانت صیحۃ واحدۃ،، کی بجائے ''ان کانت الا ذقیۃ واحدۃ،، پڑھا ہے۔ اس لیے کہ''صیحة،، اور''زقیة،، کا معنی ایک ہے۔(۱)

اس کے علاوہ طبری کی یہ روایت بھی بطور دلیل پیش کی جاتی ہے۔ طبری نے محمد بن بشار اور ابی السائب اور انہوں نے ہمام سے روایت کی ہے:

''ابو الدرداء ایک شخص کو آیہ کریمہ،( إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ ﴿﴾ طَعَامُ الْأَثِيمِ ) (۴۴:_۴۴_۴۳) پڑھ رہا تھا اس سے یہ آیہ نہیں پڑھی جارہی تھی اور وہ بار بار بتانے کے باوجوداس شخص سے ''طعام الاثیم،، نہیں پڑھا گیا تو ابو الدرداء نے اس سے کہا کہ اس کی جگہ پڑھو''ان شجرة الزقوم طعام الفاجر،، اس لیے کہ ''اثیم،، اور ''فاجر،، کا معنی ایک ہے۔،،(۲)

اس کے علاوہ اس تاویل کی دلیل میں ان روایات کو پیش کیا جاتا ہے جن میں یہ کہہ کر قراءت میں کافی گنجائش رکھی ہے:

ما لم تختم اٰیة رحمة بعذاب او اٰیة عذاب برحمة (یعنی) قرآن میں اتنی تبدیلی کرسکتے ہو کہ رحمت کی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل نہ ہوجائے۔

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج۱،ص ۱۸۔

(۲) ایضاً، ج ۲۵، ص ۷۸۔ آیہ مبارکہ کی تفسیر کے ذیل میں۔

۲۳۳

اس حد بندی کی یہی معنی ہوسکتا ہے کہ سات حروف سے مراد سات کلمات میں سے بعض کو بعض کی جگہ استعمال کرنا ہے۔ البتہ اس سے صرف اس صورت کو مستثنیٰ قرار دیا گیا جس سے رحمت کی کوئی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل ہوجائے۔ بنابرایں ان روایات میں سے مجمل(۱) روایات کی مبین(۲) روایات پر محمول کرنے کے بعد ان سے وہی معنی مراد لیے جائیں جو ہم نے بیان کئے ہیں۔

مؤلف: سات حروف کے بارے میں جتنی بھی تاویلیں کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی روایت سے سازگار نہیں، چانچہ اس کے بارے میں آئندہ بیان کیا جائے گا۔ بنابرایں یہ تمام روایات ناقابل قبول ہیں کیونکہ ان کے مفہوم کو اپنانا اور ان پر عمل کرنا ناممکن ہے، اس لیے کہ:

اولا: یہ تاویل، قرآن کے بعض معانی پر منطبق ہوسکتی ہے جس کی سات حروف سے تعبیر ہوسکتی ہو۔ اور یہ بدیہی امر ہے کہ قرآن میں اکثریت ان معانی کی ہے جنہیں مختلف الفاظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ قرآن ان سات حروف میں نازل ہوا ہے۔

ثانیاً: اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے بعض الفاظ جن کے معنی ملتے جلتے ہوں، میں تبدیل کرنے کی اجازت دی ے اور گذشتہ روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے تو یہ احتمال، اس قرآن کی بنیاد کو منہدم کرنے کا باعث بنے گا جو ایک ابدی معجزہ اور پوری انسانیت پر خدا کی طرف سے حجّت ہے، اور کسی بھی عاقل کو اس بات میں شک نہیں ہوگا کہ یہ احتمال حقیقی قرآن کے متروک اور اس کے بے وقعت ہوے کا متقاضی ہے۔

____________________

(۱) ایسا کلام جس کا معنی واضح نہ ہو۔ (مترجم)

(۲) ایسا کلام جس کا معنی واضح ہو۔ (مترجم)

۲۳۴

کوئی عاقل یہ سوچ سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سورہ یٰس میں موجود آیات کی جگہ ان الفاظ کی تلاوت کی اجازت دی ہو:''یٰس والذکر العظیم، انک لمن الانبیآئ، علی طریق سویّ، انزال الحمید الکریم، التخوف قوماً خوف اسلافهم فهم ساهون ۔

ہم تو کہیں گے ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں جو اسے جائز سمجھتے ہیںاللهمّ ان هٰذا الا بهتان عظیم ، پالنے والے! تو جانتا ہے کہ یہ تیرے رسول پر بہتان عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:

( قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ) ۱۰:۱۵

''(اے رسول) تم کہہ دو کہ مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اسے اپنے جی سے بدل ڈالوں میں تو بس اسی کا پابند ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔،،

جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو قرآن میں اپنی طرف سے کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار نہیں ہے تو آپ دوسروں کو کیسے اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔

رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے براء بن عازب کو ایک دعا کی تعلیم فرمائی تھی جس میں یہ جملہ بھی شامل تھا: ''و نبیک الذی ارسلت،، اس کو براء نے ''و رسولک الذی ارسلت،، پڑھا تو آپ نے براء کو ٹوکا اور فرمایا ''نبی،، کی جگہ ''رسول،، مت پڑھو۔(۱)

____________________

(۱) التبیان، ص ۵۸۔

۲۳۵

جب دعا کی یہ شان اور اہمیت ہے تو قرآن کی اہمیت کتنی زیادہ ہوگی۔

اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف کے مطابق قرآن پڑھا ہے اور ان روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے توپھر مدعی کو ان سات حروف کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کرنی چاہیے جن کے مطابق رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے قرآن پڑھا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے:

( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) ۱۵:۹

''بیشک ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی تو اس کے نگہبان بھی ہیں۔،،

ثالثاً: گذشتہ روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ قرآن کو سات حروف میں نازل کرنے کی حکمت، اُمّت کی سہولت اور آسانی ہے، اس لیے کہ اُمّت ایک حرف میں قراءت کی استطاعت نہیں رکھتی اور اسی غرض سے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف تک اضافہ کرنے کی درخواست کی تھی۔

لیکن آپ نے دیکھا کہ قراءتوں میں اختلاف باعث بنا کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافر گردانیں، حتیٰ کہ حضرت عثمان نے قراءت کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی قرآنوں کو نذر آتش کردیا۔

اس سے ہم درج ذیل نتائج تک پہنچتے ہیں:

۱۔ قراءتوں میں اختلاف اُمّت کے لیے ایک عذاب تھا حضرت عثمان کے دور میں ظاہر ہوا۔ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا سے ایسی چیز کا مطالبہ کس طرح کرسکتے تھے۔ جس میں اُمّت کا فساد و نقصان ہو اور کیایہ صحیح ہے کہ خدا ایسی درخواست منطور فرمالے؟ جبکہ بہت سی روایات میں اختلاف سے روکا گیا ہے اور اختلاف کو امّت کی ہلاکت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ بعض روایات تو یہاں تک کہتی ہیںکہ جب آپ نے قراءتوں میں اختلاف کی بات سنی تو غصے سے آپ کا چہرہ مبارک سُرخ ہوگیا۔ ان میں س کچھ روایات کا ذکر ہو چکا ہے اور کچھ روایات کا ذکر بعد میں کیا جائے گا۔

۲۳۶

۲۔ گذشتہ روایات کا مفہوم یہ تھا کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: میری اُمّت ایک حرف میں قرآن پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتی اور یہ صریحاً جھوٹ ہے۔ عقل اس کو نبی کریمؐ کی طرف نسبت دینے کی اجازت نہیں دیتی۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عثمان کے بعد اُمّت پیغمبر، جس میں مختلف عناصر قبیلے اور مختلف زبانوں والے شامل تھے، قرآن کو ایک حرف میں پڑھنے پر قادر تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں ایک قراءت پر اتفاق کرنا کوئی مشکل تھا جبکہ اس وقت امّت پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فصیح عربوں پر مشتمل تھی۔

۳۔ قراءتوں میں اختلاف، جس کی بنیاد پر حضرت عثمان نے قراءتوں کو ایک حرف میں منحصر کیا، خود پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں بھی تھا۔ آپ نے ہر قاری کی تائید بھی فرمائی تھی اور مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان تمام قراءتوں کو تسلیم کرلیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ قراءتوں میں اختلاف خدا کی طرف سے رحمت ہے۔

اب حضرت عثمان اور ان کے تابعین کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ رحمت کے دروازے بند کردیں؟ جبکہ رسول اعظمؐ نے قراءت قرآن روکنے سے ممانعت فرمائی تھی۔

مسلمانوں کے پاس کیا جواز تھا کہ وہ رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے قول کو تو ٹھکرا دیں اور حضرت عثمان کی بات مان کر اس پر عمل کریں؟

کیا مسلمانوں کی نظر میں حضرت عثمان، رحمۃ العالمین سے زیادہ مہربان اور ہمدرد تھے؟

معاذ اللہ کیا حضرت عثمان کے پیش نظر ایسی حکمت اور مصلحت تھی جس سے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے خبر تھی؟ یا حاشا وکلا حضرت عثمان پر ان حروف کے منسوخ ہونے کی وحی نازل ہوئی تھی؟!

۲۳۷

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ سات حروف سے متعلق روایات کی یہ بدنما تاویل اس قابل نہیں ہے کہ اسے ردّ بھی کیا جائے۔ اسی وجہ سے علمائے اہل سُنّت میں سے متاخرین نے اس تاویل کو ٹھکرا دیا ہے اور ابو جعفر محمد بن سعد ان النحوی اور حافظ جلال الدین سیوطی ان روایات کو مشکل اور متشابہ قرار دینے پر مجبور ہوگئے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ان روایات کا کوئی مفہوم واضح نہیں ہے۔(۱) حالانکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ان روایات کا مفہوم واضح ہے اور جو بھی ان روایات کا بنظر غائر مطالعہ کرے، اس کے لیے کوئی شک و تردد باقی نہیں رہتا۔

۲۔ سات ابواب

سات حروف کی تفسیر و تاویل کے سلسلے میں دوسری رائے یہ ہے کہ ان سے مراد سات ابواب ہیں اور قرآن ان سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ان کے عنوان یہ ہیں:

i ۔ آیات زجر (نہی)۔

ii ۔ آیات امر۔

iii ۔ آیات حلال۔

iv ۔ آیات حرام۔

v ۔ آیات محکم۔

vi ۔ آیات متشابہ۔

vii ۔ آیات امثال۔

اس نظریہ پر یونس کی روایت سے استدلال کیا گیا ہے، جسے اس نے ابن مسعود کی سند سے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نقل کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:

____________________ _

(۱) التبیان، ص ۶۱۔

۲۳۸

انه قال: ''کان الکتاب الأول نزل من باب واحد علی حرف واحد، و نزل القرآن من سبعة أبواب، و علی سبعة أحرف: زجر، و أمر، و حلال، و حرام، و محکم، و متشابه، و أمثال ۔فأحلّوا حلاله، و حرّموا واعتبروا بأمثاله، و اعملوا بمحکمه، و آمنوا بمتشابهه، و قولوا آمنا به کل من عند ربنا،،

''پہلی آسمانی کتاب کا ایک ہی باب تھا اور وہ ایک ہی حرف پر نازل کی گئی تھی۔ قرآن مجید سات ابواب اور سات حروف میں نازل کیا گیاہے۔ زجر، امر، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال۔ حلال خدا کو حلا ل اور حرام خدا کو حرام سجھو، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جائے اسے انجام دو اور جس چیز سے تمہیں منع کیا جائے اس سے باز آجاؤ، قرآن کی مثالوں سے عبرت حاصل کرو، محکم آیات پر عمل کرو اور متشابہ آیات پر ایمان لے آؤ اور کہو ہم اس پر ایمان لے آئے یہ سب کچھ ہمارے ربّ کی طرف سے ہے۔،،(۱)

اس نظریہ پر بھی چند اعتراضات ہیں:

۱۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سات حروف، جن میں قرآن نازل ہوا ہے اور ہیں، اور سات ابواب، جن میں قرآن تقسیم ہوا ہے اور ہیں، لہذا اس روایت کو ان مجمل روایات کی تفسیر قرار نہیں دیا جاسکتا۔

۲۔ یہ روایت ابو کریب کی روایت سے متصادم ہے، جو اس نے ابن مسعود سے نقل کی ہے اور جس میں کہا گیا ہے:

ان الله انزل القرآن علی خمسة احرفٍ ۔حلال و حرام و محکم و متشابه و امثال ۔(۲) (یعنی) اللہ نے قرآن کو پانچ حروف ، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال میں نازل فرمایا ہے

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۳۲۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۲۴۔

۲۳۹

۳۔ اس روایت کا مفہوم مضطرب و متزلزل ہے۔ کیونکہ ''زجر،، اور ''حرام،، ایک چیز ہے، اس طرح چھ ابواب ہو جائیں گے نہ کہ سات۔ اس کے علاوہ قرآن میں اور بہت سے موضوعات کا بھی ذکر ہے جو ان سات ابواب میں شامل نہیں ہیں۔جیسے: مبدائ، معاد، قصّے، احتجاجات ، دلائل اور علوم و معارف ہیں اور اگر اس تاویل کے قائل کا مقصد یہ ہے کہ باقی ماندہ موضوعات بھی محکم و متشابہ می داخل ہیں تو باقی پانچ ابواب، حلال، حرام، امر، زجر اور امثال کو بھی دوسرے موضوعات کی طرح محکم و متشابہ میں داخل ہونا چاہیے تھا۔ اس طرح قرآن دو حروف محکم و متشابہ میں منحصر ہو جاتا۔ اس لیے کہ قرآن میں جو کچھ ہے و محکم یا متشابہ ہے۔

۴۔ سات حروف کی تفسیر، سات ابواب کرنا گذشتہ روایات سے سازگار نہیں کیونکہ گذشتہ روایات میں قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کی وجہ امّت کی سہولت بیان کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اُمّت ایک حرف پر قرآن پڑھنے کی قدرت نہیں رکھتی تھی۔

۵۔ بعض گذشتہ روایات اس بات کی تصریح کرتی ہیں کہ سات حروف سے مراد قراءت کی قسمیں ہیں، جن میں قاریوں کا اختلاف ہے۔

فرض کیا اگر اس روایت کا معنی سات ابواب ہیں تب بھی اس ایک روایت کی وجہ سے ان متعدد روایات کے ظاہری معنی سے دستبردار نہیں ہوا جاسکتا اور نہ ہی یہ ایک روایت گذشتہ روایات کے ظاہری معنی کے خلاف کسی معنی کے لیے قرینہ اور علامت بن سکتی ہے۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

۴ _ انسانوں كى ہدايت تك دستيابى اور ان پر نعمت الہى كى تكميل آنحضرت (ص) كى بعثت كے اہداف سے ہے_

فولوا وجوهكم شطره و لعلكم تهتدون كما ارسلنا فيكم رسولاً اگر ''كما ارسلنا'' تبديلى قبلہ كى پيامبر اسلام (ص) كى رسالت سے تشبيہ كو بيان كررہاہو تو ''لاتم نعمتى عليكم و لعلكم تہتدون'' وجہ شبہ كا بيان ہے يعنى يہ كہ جس طرح آنحضرت (ص) ، كى بعثت بندوں پر اتمام نعمت اور انكى ہدايت كے حصول كے لئے ہے اسى طرح تبديلى قبلہ كے بھى ايسے ہى اہداف و نتائج ہيں _

۵ _ اللہ تعالى كى طرف سے انسانوں كو دى گئي نعمتيں آنحضرت (ص) كى بعثت كے بغير نامكمل تھيں _

و لاتم نعمتى عليكم و لعلكم تهتدون كما ارسلنا فيكم رسولاً يہ مطلب ماقبل مطلب كے ارتباط سے حاصل ہوتاہے_

۶ _ انبيائ( عليہم السلام) كا انتخاب خود عوام ميں سے ہونا اللہ تعالى كى نعمات ميں سے ہے _كما ارسلنا فيكم رسولاً منكم

۷_ انسانوں كے لئے آيات الہى كى تلاوت اور ان كو آلودگيوں (شرك اور ...) سے پاك كرنا پيامبر اسلام (ص) كے فرائض اور آپ (ص) كى رسالت كے اہداف ميں سے ہے _يتلوا عليكم آياتنا و يزكيكم

۸_ لوگوں كو قرآنى حقائق و معارف اور حكمت كى تعليم دينا آنحضرت (ص) كے فرائض اور آپ (ص) كى رسالت كے اہداف ميں سے ہے _و يعلمكم الكتاب و الحكمه

۹_ بشريت كو ايسے علوم و حقائق كى تعليم دينا جن تك ان كى رسائي ممكن نہيں ہے آنحضرت (ص) كے اہداف اور پروگراموں ميں سے ہے _و يعلمكم ما لم تكونوا تعلمون

۱۰_ خود كو آلودگيوں ، ناپاكيوں سے پاك كرنا، قرآن كريم كو سيكھنا ، حكمت كى تعليم حاصل كرنا اور دينى احكام و معارف كو سيكھنا نہايت ہى بلند و برتر اور قابل قدر امر ہے _كما ارسلنا فيكم رسولاً و يعلمكم الكتاب والحكمة

۱۱_ دين كے مبلغين كے بنيادى ترين فرائض اور سرفہرست امور انسانوں كو آلودگيوں سے پاك كرنا

۵۲۱

اور دينى احكام و معارف اور قرآن حكيم كى تعليم دينا ہے_يتلوا عليكم آياتنا و يزكيكم و يعلمكم الكتاب والحكمة

۱۲ _ پيامبر اسلام (ص) نے انسانوں كو دينى راہوں اور الہى معارف كى تعليم دينے كے علاوہ ديگر علوم كى بھى تعليم دي_*و يعلمكم ما لم تكونوا تعلمون ''يعلمكم'' كا تكرار اس امر كى طرف اشارہ ہے كہ پيامبر اسلام(ص) نے انسانوں كو دو طرح كے علوم كى تعليم دي_

الف) دينى علوم اور يہ جملہ''يعلمكم الكتاب والحكمة'' اس امر كى طرف اشارہ ہے _

ب) ديگر علوم اور يہ جملہ''يعلمكم ما لم تكونوا تعلمون'' اس امر كى طرف اشارہ ہے_

آيات الہى : آيات الہى كى تلاوت ۷

اقدار: قدروں كا معيار ۱۰

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى نعمتيں ۴،۶

اللہ تعالى كے انبياءعليه‌السلام : ۱

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كا بشر ہونا ۶; انبياءعليه‌السلام كى موقعيت ۶; انبياءعليه‌السلام كا نعمت ہونا ۶

انسان: انسانوں كو تعليم دينے كى اہميت ۷،۸; انسانوں كا تزكيہ ۷،۱۱; انسانوں كى تعليم ۹،۱۲; انسانوں كى ہدايت۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كے اہداف ۷،۸،۹; آنحضرت (ص) كى بعثت كى اہميت ۵; آنحضرت (ص) كا بشر ہونا۲; آنحضرت (ص) كى تاريخ ۱; آنحضرت (ص) كى تعليمات ۹; آنحضرت (ص) كا مقام و موقعيت ۲; آنحضرت (ص) كى رسالت ۱; آنحضرت (ص) كى بعثت كا فلسفہ ۴; آنحضرت (ص) كى تعليمات كا دائرہ ۱۲; آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۷،۸; آنحضرت (ص) كى رسالت كى نعمت ۳

تزكيہ : تزكيہ كى قدر و منزلت ۱۰

حكمت : حكمت كى تعليم كى قدر و منزلت ۱۰; حكمت كى تعليم ۸

دين: دين سيكھنے كى قدر و منزلت ۱۰; دين كى تعليم ۱۱

قبلہ : تبديلى قبلہ كى نعمت ۳

۵۲۲

قرآن حكيم: قرآن حكيم كى تعليم كى قدر و منزلت ۱۰ قرآن حكيم كى تعليم ۸،۱۱

مبلغين : مبلغين كى ذمہ دارى ۱۱;فعل '' اذكر'' امر كا جواب ہے لہذا ايك مقدر حرف شرط كے ساتھ مجزوم ہے _ پس يہ جملہ در حقيقت يوں بنتا ہے '' فاذكرونى ان

مسجد الحرام : مسجد الحرام كا قبلہ بننا۳

نعمت : نعمت كى تكميل ۴; تكميل نعمت كے اسباب ۵; نعمت كے درجات ۴

ہدايت: ہدايت كى اہميت ۴

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ ( ۱۵۲ )

اب تم ياد كروتا كہ ہم تمھيں ياد ركھيں اور ہماراشكريہ ادا كرو اور كفران نعمت نہ كرو(۱۵۲)

۱_ اللہ تعالى كا ذكر كرنا اور اس سے غفلت نہ كرنا ضرورى ہے_فاذكروني

۲_ اللہ تعالى كى ياد ميں رہنا اسكى عنايات اور خصوصى توجہ كو جذب كرنے كا باعث ہے_فاذكرونى اذكركم

تذكرونى اذكركم_ ميرى ياد ميں رہو اور ميرى ياد ميں رہوگے تو ميں تمہارى ياد ميں ر ہوں گا'' اللہ تعالى كا بندوں كو ياد كرنا ان پر عنايت و توجہ كے معنى ميں ہے _

۳ _ بارگاہ پروردگار ميں شكرگزارى ضرورى ہے _واشكروالي

۴ _ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت اور بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف قبلہ كى تبديلى اللہ تعالى كى مسلمانوں پر ايسى نعمتيں ہين جن كے احترام ميں مسلمانوں كو كيلئے ضرورى ہے كہ ہميشہ اللہ تعالى كى ياد ميں رہيں _

فولوا وجوهكم شطره كما ارسلنا فيكم رسولاً فاذكروني يہ مطلب حرف ''فا''سے متضاد ہے

۵۲۳

'اذكروني'' كو مذكورہ نعمتوں (قبلہ كى تبديلى اور پيامبر اسلام (ص) كى رسالت )پر تفريع كررہا ہے_

۵ _ آنحضرت (ص) كى بعثت اور تبديلى قبلہ اللہ تعالى كى اپنے بندوں سے ياد اور توجہ كا ايك نمونہ ہے *

و حيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره كما ارسلنا فيكم رسولاً فاذكرونى اذكركم مذكورہ مطلب جملہ'' فاذكروني ...'' كى بعثت پيامبر(ص) اور تبديلى قبلہ پر تفريع سے حاصل ہونے والا ايك دوسرا احتمال ہے يہكه''فاذكرونى اذكركم كما ذكرتكم بارسال الرسول و تحويل القبلة ''

۶ _ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت اور تبديلى قبلہ ايسى دو نعمتيں ہيں جو بارگاہ ايزدى ميں شكر گزاى كے لائق ہيں _

فولوا وجوهكم شطره كما ارسلنا فيكم رسولاً و اشكروا لي شكر نعمت كے مقابلے ميں ہوتاہے اور ماقبل آيات كى روشنى ميں يہاں نعمت كا مورد نظر مصداق رسالت اور تبديلى قبلہ ہے _

۷_ اللہ تعالى كى نعمتوں كے كفران سے اجتناب ضرورى ہے _و لا تكفرون يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' لا تكفرون'' در اصل يوں ہو ''و لا تكفروا نعمتي''

۸_ ياد خدا سے غفلت اور اسكى نعمات كى ناسپاسى تعمت كے مقد ہونے كى وجہ سے و ناشكرى اللہ تعالى كے انكار كے برابر ہے _فاذكرونى و اشكرولى و لا تكفرون اللہ تعالى كے شكر و سپاس ادا كرنے كا حكم دينے كے بعد( لا تكفرون) اللہ تعالى كے كفر و انكار سے نہى كرنے كا ذكر كرنا اس مطلب كو بيان كرتاہے كہ ياد خدا سے غفلت اوراسكى ناشكرى انسان كو خدا كے انكار اور كفر كى طرف كھينچ لے جاتى ہے يا يہ كہ يہ خود اللہ كے كفر اور انكار كے مساوى ہے _

۹_ ابوعمرو زبيرى امام صادقعليه‌السلام سے روايت كرتے ہيں كہ حضرتعليه‌السلام نے فرمايا'' الوجه الثالث من الكفر كفر النعم و ذلك قوله تعالى فاذكرونى اذكركم و اشكروالى و لا تكفرون ...''(۱) '' كفر كى اقسام ميں سے تيسرى قسم كفر ان نعمت ہے اسى بارے ميں كلام خداوندى ہے... فاذكرونى اذكركم و اشكروالى و لا تكفرون ''

۱۰_ محمد بن مسلم امام باقرعليه‌السلام سے روايت كرتے ہيں كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا''تسبيح فاطمة عليه‌السلام من ذكر الله الكثير الذى قال اذكرونى اذكركم (۲) تسبيح حضرت فاطمةعليه‌السلام ذكر كثير ہے جو اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے ''ميرا ذكر كرو تو ميں تمہارا ذكركروں گا''_

____________________

۱) كافى ج/ ۲ ص ۳۹۰ ح۱ ، نور الثقلين ج/۱ص ۱۴۰ ح ۴۳۰_ ۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۶۷ ح ۱۲۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۴۰ ح ۴۲۹_

۵۲۴

۱۱_''وروى ان رسول الله(ص) خرج على اصحابه فقال: قال سبحانه: فاذكرونى اذكركم يعنى اذكرونى بالطاعة والعبادة اذكركم بالنعم والاحسان والرحمة والرضوان (۱) اللہ تعالى كے اس كلام ''اذكرونى اذكركم'' كے بارے ميں رسول خدا (ص) سے روايت ہے كہ اس مراد يہ ہے كہ تم اطاعت اورعبادت كے ساتھ مجھے ياد كرو تو ميں تمہيں نعمات، احسان ، رحمت اور رضوان كے ساتھ ياد كروں گا''_

۱۲ _ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ رسول اسلام (ص) نے ارشاد فرمايا''ان الملك ينزل الصحيفة اول النهار و اول الليل يكتب فيها عمل ابن آدم فاملوا فى اولها خيراً و فى آخرها خيراً فان الله يغفر لكم ما بين ذلك انشاء الله فان الله يقول اذكرونى اذكركم'' (۲) ''فرشتہ دن كے شروع اور رات كے آغاز ميں انسان كا نامہ اعمال لاتا اور اس ميں بنى آدم كے اعمال كو تحرير كرتاہے پس كوشش كرو كہ دن اور رات آغازميں اچھى املاء (تحرير) لكھاؤ بےشك اللہ تعالى اس كے مابين جو كچھ (گزرا) ہے معاف فرمائے گا انشاء اللہ كيونكہ اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے تم مجھے ياد كرو ميں تمہيں ياد كرونگا_''

اطاعت: اللہ تعالى كى اطاعت ۱۱

اللہ تعالى : رحمت الہى ۱۱; اللہ تعالى كو جھٹلانے كى بنياد۸; عنايات الہى كو جذب كرنے كى بنياد۲; نعمات الہى ۴

انسان: انسانى عمل كا تحرير ہونا ۱۲

بندگان خدا: اللہ تعالى كا بندوں كا ذكر كرنا ۵; بندوں الله كى طرف سے كے ذكر كے اسباب۲،۱۱

پيامبر اسلام (ص) : بعثت پيامبر (ص) كى اہميت ۶; بعثت پيامبر (ص) ۵; بعثت پيامبر (ص) كى نعمت ۶; رسالت پيامبر (ص) كى نعمت ۴

حضرت فاطمہعليه‌السلام : حضرت فاطمہعليه‌السلام كى تسبيح ۱۰

ذكر: ذكر الہى كے نتائج ۲; ذكر الہى كى اہميت۴; ذكر الہى ۱۰،۱۱

روايت: ۹،۱۰،۱۱،۱۲

شكر: شكر الہى كى اہميت ۳; شكر نعمت ۴،۶

____________________

۱) عدةالداعى ص ۲۳۸ ، بحار الانوار ج/۹۰ ص ۱۶۳ ح ۴۲_

۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۶۷ ح ۱۱۹، مجمع البيان ج/ ۱ ص ۴۳۱_

۵۲۵

عبادت: عبادت الہى ۱۱

غفلت : اللہ تعالى سے غفلت كے نتائج ۸ غفلت سے اجتناب ۱

قبلہ : تبديلى قبلہ كى اہميت ۶; تبديلى قبلہ ۵; تبديلى قبلہ كى نعمت ۴،۶

كفر: كفر كى اقسام ۹

كفران: كفران نعمت كے آثار۸; كفران نعمت سے اجتناب ۷; كفران نعمت ۹

مسلمان: مسلمانوں كى ذمہ دارى ۴

ملائكہ : ملائكہ كا اعمال تحرير كرنا ۱۲;ملائكہ كى اہميت و كردار۱۲

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ( ۱۵۳ )

ايمان والو صبر اور نماز كے ذريعہمدد مانگو كہ خدا صبر كرنے والوں كے ساتھہے (۱۵۳)

۱ _ مومنين كو اللہ تعالى كا فرمان اور نصيحت ہے كہ صبر كريں اور نماز قائم كريں _يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة

۲ _ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت پہ ايمان لانا مومنين كے لئے مشكلات اور پريشانيوں كا باعث ہے _

يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة آنحضرت (ص) كى رسالت كے بيان كرنے كے بعد مومنين كو مخاطب كركے صبر اور نماز كى نصيحت كرنا اورانہيں مدد طلب كرنے كا فرمان دينا در اصل مخاطبين كو يہ نكتہ القا كرنا مقصود ہے كہ آنحضرت (ص) كى رسالت پر ايمان كے باعث مشكلات اور پريشانيوں سے دوچار ہونا پڑے گا_

۳ _ ايمان كى راہ ميں آنے والى مشكلات اور پريشانيوں سے نمٹنے كے لئے كاميابى و كامرانى كے دو راستے ہيں ايك صبر و استقامت اختيار كرنا اور دوسرے

۵۲۶

نماز قائم كرنا _يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة

۴ _ عنايات و نصرت الہى كو جذب كرنے كا عامل صبر اور نماز ہے _يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة

۵ _ راہ ايمان ميں صبر و استقامت كرنے والوں كا اللہ تعالى ياور و مددگار ہے_ان الله مع الصابرين

۶ _ مومنين كے لئے ياد خدا ميں رہنے اور ياد خدا سے غفلت كے خاتمے ميں صبر اور نماز مددگار ہيں _*فاذكرونى اذكركم يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة يہ مطلب اور اسكے بعد والا مطلب اس آيت اور اس سے قبل والى آيت ميں ارتباط كو بيان كررہے ہيں يعنى مورد بحث آيہ مجيدہ ايك راہنمائي ہے كہ ياد خدا سے غفلت كو كس طرح دلوں سے اكھاڑا جاسكتاہے اور اسكے مقابل شكر الہى كے جذبہ كو كيسے دلوں ميں جگہ دى جائے_

۷_ اللہ تعالى كے حضور شكر گزارى اور اس كے كفر سے دورى كے جذبے كو پيدا كرنے كے لئے صبر اور نماز دو كامياب عوامل ہيں _*واشكروالى و لا تكفرون يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة

۸_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل '' و استعينوا بالصبر'' قال الصبرالصيام (۱) اللہ تعالى كے اس كلام ''واستعينوا بالصبر'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا صبر سے مراد روزہ ہے _

اللہ تعالى : الہى امداد ۵; الہى نصيحتيں ۱; اللہ تعالى كى حمايت و عنايت جذب كرنے كے عوامل ۴

ايمان : پيامبر اسلام (ص) پر ايمان كے نتائج ۲

ذكر: ذكر خدا كى بنياد۶

روايت: ۸

روزہ : روزہ كى اہميت ۸

سختى : سختى كو آسان بنانے كى روش ۳

شكر : شكر كا جذبہ پيدا كرنا ۷

____________________

۱) كافى ج/ ۴ ص ۶۳ ح ۷ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۷۶ ح ۱۸۲_

۵۲۷

صابر لوگ: صابرين كى امداد ۵

صبر: صبر كے نتائج ۳،۴،۶،۷; صبر كى اہميت ۱

غفلت : غفلت كو دور كرنے كى بنياد ۶

كاميابى : كاميابى كے عوامل ۳

كفر: كفر سے اجتناب كے اسباب ۷

مدد طلب كرنا : روزہ سے مدد طلب كرنا ۸

مومنين : مومنين كى شرعى ذمہ دارى ۱; مومنين كو نصيحت ۱; مومنين كى مشكلات ۲

نماز : نماز كے نتائج ۳، ۴،۶ ،۷; نماز كى اہميت ۱

وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ ( ۱۵۴ )

اور جو لوك راہ خدا ميں قتلہوجاتے ہيں انھيں مردہ نہ كہو بلكہ وہزندہ ہيں ليكن تمھيں ان كى زندگى كا شعورنہيں ہے (۱۵۴)

۱ _ راہ خدا ميں قتل ہونے والے زندہ ہيں اور خصوصى زندگى كے مالك ہيں _و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء شہداء كے علاوہ ديگر انسان بھى عالم برزخ كى زندگى ركھتے ہيں ليكن اسكے باوجود اللہ تعالى نے شہداء كے لئے زندگى كا ذكر فرمايا ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ شہداء كى زندگى خاص طرح كى ہے _

۲ _ اللہ كى راہ ميں قتل ہونے والوں كو مردہ نہيں كہنا چاہيئے اور نہ ہى انہيں مردوں ميں شمار كرنا چاہيئے _

و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء

۵۲۸

۳ _ دشمنان دين سے بر سر پيكار ہونا اللہ تعالى كے نزديك اعلى اقدار ميں سے ہے _و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء شہداء خصوصى حيات كے مالك ہيں اس حقيقت كو بيان كرنے كا ہدف جہاد كى ترغيب دلانا اور يہ بيان كرناہے كہ يہ اعلى ترين اقدار ميں سے ہے _

۴ _اعمال كى قدر و قيمت كا معيار فى سبيل اللہ ہونا ہے _و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله

۵ _ شہداء زندہ ہيں ليكن افكار اس امر كو درك كرنے سے عاجز ہيں _بل احياء و لكن لا تشعرون

۶_ عالم ہستى ميں ايسے حقائق بھى ہيں جو انسانى افكار و شعور سے ماوراء ہيں _بل احياء و لكن لا تشعرون

۷_ عالم برزخ اور برزخى زندگى كا وجود عالم ہستى كے حقائق ميں سے ہے _ولا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء

۸ _ راہ ايمان كى مشكلات ميں سے ايك اللہ كى راہ ميں جہاد، نبرد آزمائي اور اسكى سختياں ہيں جنكے لئے صبر و استقامت اور نماز سے مدد لينى چاہيئے اور اپنے ايمان پر ثابت قدم رہنا چاہيئے_ استعينوا بالصبر والصلوة و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات

۹_ شہداء كو خصوصى زندگى عطا كرنا راہ ايمان ميں صبر و استقامت كرنے والوں كے لئے اللہ تعالى كى حمايت و نصرت كا ايك جلوہ ہے _ان الله مع الصابرين _ و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات

۱۰_ قرآن حكيم كى روشوں ميں سے ايك يہ ہے كہ اہل ايمان كو الہى ذمہ داريوں كى ادائيگى كى طرف ترغيب دلانے كے ساتھ ساتھ ان كى فكرى بنيادوں كو مضبوط كرے _و لاتقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء

انسانوں كو ايمان كى راہ ميں صبر و استقامت اور سختيوں كو برداشت كرنے كى دعوت جسكا واضح نمونہ جہاد اور قتل ہونا ہے _ كے بعد اللہ تعالى اس كا حقيقت كو بيان فرمانا كہ فى سبيل اللہ قتل ہونے والے خصوصى زندگى كے حامل ہيں شہداء كے فنا اور نابود ہونے كے نظريئے كى نفى كرتا ہے تا كہ اہل ايمان فرامين الہى ( راہ ايمان ميں صبر واستقامت كا مظاہرہ كرنا اور ...) كو بہتر طور سے انجام ديں _

۱۱ _ انسان كا اپنے اعمال پر قائم رہنا اور استقامت كا مظاہرہ كرنا اسكے افكار و نظريات سے مطابقت كے ذريعے ممكن ہے _و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء

مذكورہ مطلب كہ مورد بحث آيہ مجيدہ ميں اعمال كى بنياديں فراہم كرنے كے ليئے نظريات كو پيش كيا گياہے_

۵۲۹

اقدار:۳ قدروں كا معيار ۴

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى عنايات۹; اللہ تعالى كى حمايت كے مظاہر ۹; اللہ تعالى كى معيت ۹

امداد طلب كرنا : صبر سے امداد طلب كرنا۸; نماز سے مدد طلب كرنا ۸

ايمان : ايمان ميں استقامت ۸; ايمان كى راہ ميں سختياں ۸

تكليف شرعي: تكليف شرعى كى تشويق ۱۰

جہاد: جہاد كى قدر و منزلت ۳; جہاد كى سختياں ۸

حقائق : غير قابل ادراك حقائق ۵،۶

خلقت: عالم خلقت كے حقائق كا ادراك ۶; عالم خلقت كے حقائق ۷

حيات: برزخى زندگى كى حقانيت ۷

سبيل اللہ : سبيل اللہ كى اہميت ۴

سختى : سختى كو برداشت كرنا ۸; سختى كو آسان كرنے كى روش ۸

شہداء : شہداء كى زندگى كا ادراك ۵; شہداء كى زندگى ۱،۲،۹;شہداء كے درجات ۱،۲

صابرين : صابرين كى حمايت ۹

صبر: صبر كى اہميت ۸

عالم برزخ : عالم برزخ كى حقانيت ۷

عمل: عمل كى اہميت ۴; عمل كے تسلسل كے عوامل ۱۱

فكر: فكر و عمل كى نسبت ۱۱

قرآن كريم : قرآن كى روش بيان ۱۰

نماز : نماز كى اہميت ۸

۵۳۰

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ( ۱۵۵ )

اور ہم يقينا تمھيں تھوڑےخوف تھوڑى بھوك اور اموال ، نفوس اورثمرات كى كمى سے آزمائيں گے اور اےپيغمبر آپ ان صبر كرنے والوں كو بشارتديديں (۱۵۵)

۱ _ مومنين كى آزمائش اللہ تعالى كى حتمى سنتوں (روشوں ) ميں سے ہے _و لنبلونكم ''بلائ'' كا معنى آزمائش ہے فعل ''لنبلون'' ميں لام قسم اور نون تاكيد اسكے استمرار اور حتمى ہونے كو بيان كررہے ہيں _

۲ _ اہل ايمان كو خوف اور بھوك ميں مبتلا كركے اللہ تعالى انہيں آزماتاہے _و لنبلونكم بشيء من الخوف والجوع

۳ _ و ہ امور جن ميں مالى ، جاني، كمائي كا نقصان اور نعمتوں كى كمى ہو ان ميں مبتلا كركے اللہ تعالى مومنين كى آزمائش كرتاہے _و لنبلونكم بشيء من نقص من الاموال والانفس والمثرات

۴_ دشمنان دين سے نبرد آزمائي اور بر سر پيكار ہونا اور اس كے نتائج ( خوف، بھوك، مالى و جانى نقصان اورنعمتوں كى كمي) راہ ايمان كى مشكلات ميں سے ہيں _لا تقولوا لمن يقتل و لنبلونكم بشيء من الخوف

جہاد اور فى سبيل اللہ قتل ہونے كے بعد خوف، بھوك اور سے آزمائش كا بيان كرنا اس مطلب كى حكايت كرتاہے كہ ''الخوف و ...'' سے مراد وہ خوف اور بھوك ہيں جو دشمنان دين كے ساتھ معركہ آرائي كى وجہ سے پيدا ہوتے ہيں يعنى يہ كہ رسالت پر ايمان كا نتيجہ دشمنان دين سے صف آرائي اور اسكے نتائج خوف، بھوك اور ہيں _

۵ _ اللہ كى راہ ميں قتل ہونے والے ايك ايمانى معاشرے كے لئے امتحان كا ذريعہ ہيں _و لنبلونكم بشيء و نقص من الاموال والانفس ماقبل آيت كى روشنى ميں '' نقص الانفس'' كا مورد نظر مصداق راہ خدا ميں قتل ہونے والے افراد ہيں _

۶_ سالكان راہ ايمان كے لئے خوف اور بھوك كى مختلف اقسام، مالى و جانى نقصانات اور نعمتوں كو برداشت

كرنے كے لئے بہترين اور كارآمد وسيلہ صبر و استقامت اور نماز كا قيام ہے_يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر و لنبلونكم بشيء من الخوف والثمرات

۵۳۱

۷_ راہ ہدايت كو پيش كرنے كے ساتھ ساتھ مشكلات اور پھر ان مشكلات پر قابو پانے كا كامياب راستہ بيان كرنا قرآن حكيم كى روشوں ميں سے ايك ہے_يا ايها الذين آمنوا لنبلونكم بشيء من الخوف و بشر الصابرين

آيات كے اس حصہ ميں راہ ہدايت جس سے مراد ايمان بر رسالت اور ...ہے كو پيش كرنے كے ساتھ ساتھ اللہ تعالى نے اس راہ ميں پيش آنے والى مشكلات كا ذكر فرماياہے اسى طرح ان پر قابو پانے كے لئے نماز اور صبر سے امداد حاصل كرنے كا امر فرماياہے_

۸_ معاشرے كے منتظمين اور تربيت كرنے والوں كو چاہيئے كہ مجوزہ راستوں ميں پيش آنے والى مشكلات كو ان راستوں پر چلنے والوں كے لئے بيان كريں اور ان پر كاميابى كے اسباب كو بھى بيان كريں _و لنبلونكم بشيء من الخوف و بشر الصابرين مورد بحث آيہ مجيدہ اور ماقبل آيات مباركہ سے جوبات سامنے آتى ہے وہ صحيح راہ، اس ميں پيش آنے والى مشكلات اور ان پر كاميابى كے طريقے كو بيان كرنا ہے يہ چيز سب تربيت كرنے والوں اور منتظمين كے لئے ايك درس ہے كہ فقط صحيح راہ كو بيان كرنے پر اكتفا نہ كريں بلكہ مشكلات اور ان پر كاميابى كے راستوں كو بھى بيان كريں _

۹_ الہى امتحانات اور آزمائشيں انسانوں كے لئے طاقت فرسا اور ناقابل برداشت نہيں ہيں _و لنبلونكم بشيء من الخوف مفسرين نے وضاحت كى ہے كہ '' شيئ'' كو نكرہ استعمال كرنا اسكى كمى كو بيان كرنے كے لئے ہے يعنى '' بشيء يسير من الخوف ...'' الہى امتحانات كے موارد كو ناچيز اور كم شمار كرنا اس امر كى طرف اشارہ ہے كہ الہى آزمائشيں طاقت فرسا نہيں ہوتيں _

۱۰_ اللہ تعالى جن امور سے مومنين كو آزماتاہے مختلف، متنوع اور گوناگوں ہيں _و لنبلونكم بشيء من الخوف والجوع و نقص من الاموال والانفس والثمرات

۱۱ _ مومنين كو صبر كرنے والے اور صبر نہ كرنے والوں ميں تقسيم كرنا قرآن كريم ميں اہل ايمان ككى درجہ بنديوں ميں سے ہے _و بشر الصابرين

۱۲ _ وہ مومنين جو راہ ايمان كى سختيوں اور دشواريوں كو برداشت كرتے ہيں ان كو عظيم اجر ملے گا_و بشر الصابرين يہ جو بشارت كے متعلق كا ذكر نہيں ہوا اور صابرين كے اجر كو مشخص نہيں كيا گيا اس امر كى طرف اشارہ ہے كہ يہ اجر بہت گراں قدر اور عظيم ہے (الميزان سے اقتباس)_

۵۳۲

۱۳ _ پيامبر اسلام(ص) كى ذمہ دارى ہے كہ صابرين كے لئے الہى بشارتوں كا اعلان فرمائيں _و بشر الصابرين

۱۴ _ دينى قائدين كو چاہيئے كہ صابرين كو خوشخبرى ديں كہ وہ الہى رحمتوں سے بہرہ مند ہوں گے_و بشرالصابرين

۱۵_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''من صبر كرهاً ...نصيبه ماقال الله عزوجل ''و بشر الصابرين'' اى بالجنة والمغفرة (۱) جو كوئي مشكلات ميں صبر كرے تو اسكى جزا مغفرت اور جنت ہے يہى ہے جو اللہ تعالى كے كلام '' و بشر الصابرين '' ميں خوشخبرى دى گئي ہے_

۱۶_قال رسول الله (ص) يابن مسعود قول الله '' و لنبلونكم بشيء من الخوف و بشر الصابرين'' قلنا يا رسول الله (ص) فمن الصابرون ؟ قال الذين يصبرون على طاعة الله و اجتنبوا معصيته الذين كسبوا طيباً و انفقوا قصداًو قدموا فضلاً فافلحوا (۲) رسول اسلام (ص) سے روايت ہے كہ آپ (ص) نے ارشاد فرمايا اے ابن مسعود اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے ''و لنبلونكم بشيء من الخوف و بشر الصابرين'' ہم نے آنحضرت (ص) سے عرض كيا كہ صابرين كون لوگ ہيں ؟ تو آپ (ص) نے فرمايا وہ لوگ ہيں جو اللہ كى اطاعت پر صبر كريں ، گناہوں سے دورى اختيار كريں ، پاكيزہ روزى كمائيں ، خرچ كرنے ميں ميانہ روى اختيار كريں اور جو ان كى در آمد ميں اضافہ ہو اسكو انفاق كريں پس يہى لوگ ہيں جو سعادت مند ہيں _

ابتلاء ( آزمائش ) : خوف كے ذريعے ابتلاء ۲،۴; جہاد كے ذريعے ابتلاء ۴; جانى نقصان كے ذريعے آزمائش ۴; مالى نقصان كے ذريعے آزمائش ۴; نعمتوں كى كمى كے ذريعے آزمائش ۴; بھو ك كے ذريعے آزمائش ۲،۴

اجر: اجر كے درجات ۱۲

اللہ تعالى : و بخشش الہى ۱۵; الہى امتحانات ۱، ۲ ، ۳ ، ۱۰; الہى بشارتيں ۱۳،۱۵; الہى سنتيں ''روشيں '' ۱; الہى امتحانات كا آساں ہونا ۹

الہى سنتيں (روشيں ): اللہ تعالى كے امتحان كى سنت ۱

امتحان : امتحان كا وسيلہ ۲،۳،۵; جانى نقصان كے ذريعے امتحان ۳; مالى نقصان امتحان ۳; شہداء كے ذريعے امتحان ۵; نعمتوں كى كمى كے ذريعے امتحان ۳;امتحانى ذرائع ميں تنوع ۱۰

انفاق ( خرچ كرنا ) : انفاق ميں اعتدال۱۶

____________________

۱) مصباح الشريعة ص ۱۸۵ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۴۳ ح ۴۴۹_ ۲) مكارم الاخلاق ص ۴۴۶ ، بحار الانوار ج/ ۷۴ ص ۹۳ ح/۱_

۵۳۳

ايمان : ايمان كى سختياں ۴،۱۲

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ۱۳

دينى قائدين : دينى قائدين كى ذمہ دارى ۱۴

رحمت : رحمت كى بشارت ۱۴; وہ افراد جن كے رحمت شامل حال ہو ۱۴

روايت:۱۵،۱۶

سختياں : سختيوں ميں صبر كى اہميت ۱۲; سختيوں ميں صبر كا اجر ۱۵; سختيوں كو آسان بنانے كى روش ۶،۷

روزي: حلال روزى كمانا ۱۶

سعادت مند لوگ : ۱۶

صابرين: صابرين كو بشارت ۱۳،۱۴; صابرين سے مراد كون لوگ ہيں ۱۶

صبر: صبر كے نتائج ۶; اطاعت ميں صبر ۱۶

كاميابي: كاميابى كى روش كا بيان كرنا ۷; كاميابى كے اسباب كا بيان ۸

گناہ : گناہ سے اجتناب ۱۶

مشكلات: مشكلات بيان كرنے كى اہميت ۸

معاشرہ : دينى معاشرے كا امتحان ۵;معاشرے كے قائدين كى ذمہ دارى ۸

معاشرتى طبقات:۱۱

مومنين: مومنين كا امتحان ۱،۲،۳،۵،۱۰; صابر مومنين كا اجر ۱۲; مومنين كا خوف ۶; مومنين كا جانى نقصان ۶; مومنين كا مالى نقصان ۶; مومنين كى بھوك ۶; مومنين كى مشكلات۴; صابر مومنين ۱۱; غير صابر مومنين ۱۱

نماز : نماز قائم كرنے كے آثار۶

ہدايت: راہ ہدايت كى مشكلات كا بيان ۷

۵۳۴

الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ ( ۱۵۶ )

جو مصيبت پرنے كے بعد يہ كہتے ہيں كہ ہم الله ہى كے لئے ہيں اور اسيكى بارگاہ ميں واپس جانے والے ہيں (۱۵۶)

۱ _ اللہ تعالى انسانوں كا مالك و مختار ہے جبكہ انسان اسكے مملوك اور اسكے اختيار ميں ہيں _قالوا انا لله

۲ _ انسان اور اسكے تمام امور و معاملات كا منبع اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے اور انسان اسى كى طرف لوٹ جائے گا_

قالوا انا اليه راجعون ''رجوع ''كا معنى اس چيز كى طرف لوٹنا ہے جو منبع ياسر چشم ہو ''انا'' ميں ''نا''سے مراد انسان اور اس سے متعلق امور ہيں بنابريں جملہ''انا اليہ راجعون'' حكايت كررہاہے كہ انسان اور جو كچھ اس سے متعلق ہے اسكا سرچشمہ اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے اور سب كچھ اسى كى طرف لوٹ جائے گا _

۳ _ صابرين وہ لوگ ہيں جو مشكلات كا سامنا ہو تو قضائے الہى كے سامنے سر تسليم خم ہوجاتے ہيں ، اپنے تمام امور كو خداوند متعال كى جانب سے جانتے ہيں اور اسى كا اظہار كرتے ہيں _و بشر الصابرين _ الذين قالوا انا لله و انا اليه راجعون

۴_ اللہ تعالى كى مالكيت اور اس پر يقين كہ انسان بالآخر خدا كى طرف لوٹ جائے گا يہ امر مصائب و مشكلات كو آسان كرنے والا ہے _الذين اذا اصابتهم مصيبة قالوا انا لله و انا اليه راجعون

۵ _ صابر مومنين كا نظريہ ( اللہ كى طرف سے ہيں اور اسى كى طرف بازگشت ہوگي)ان كے صبر و استقامت كى دليل ہے جسكا مظاہرہ انہوں نے راہ ايمان ميں پيش آنے والى مشكلات كے مقابل كيا_الذين اذا اصابتهم مصيبة قالوا انا لله و انا اليه راجعون آيه مجيدة ' ' الذين قالوا ...'' صابرين كى صفات بيان كرنے كے ساتھ ساتھ ان كے صبر كى دليل كو بھى بيان كررہى ہے _

۶_مصائب و مشكلات كے وقت استرجاع ( انا للہ و انا اليہ راجعون) صابر مومنين كا وطيرہ ( شعار) ہے_

و بشر الصابرين _ الذين اذا اصابتهم مصيبة قالوا انا لله وانا اليه راجعون

۵۳۵

'' استرجاع '' يعنى ''انا لله و انا اليه واجعون'' كہنا_

۷_الہى بشارت ان مومنين كے لئے جو مشكلات و پريشانيوں كے مقابل قضائے الہى كے سامنے سر تسليم خم ہوجاتے ہيں _و بشر الصابرين _الذين اذا اصابتهم مصيبة قالوا انا لله و انا اليه راجعون

۸_''وسمع رجلاً يقول''انا لله و انا اليه راجون'' فقال عليه‌السلام ان قولنا ''انا لله'' اقرار على انفسنا بالملك وقولنا ''انا اليه راجعون'' ''اقرار على انفسنا بالهلك'' (۱) امير المومنين علىعليه‌السلام نے ايك شخص سے كلمہ استرجاع سنا تو فرمايا'' انا للہ'' كہنا اللہ تعالى كى اپنے اوپر مالكيت كو تسليم كرنا ہے اور''انا اليه راجعون'' كہنا اپنى موت و ہلاكت كا اعتراف ہے_

۹_ ابوامامہ كہتے ہيں''انقطع قبال النبي(ص) فاسترجع فقالوا مصيبةيارسول الله؟ فقال ما اصاب المومن مما يكره فهو مصيبة'' (۲) نبى صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے جوتے كا تسمہ ٹوٹ گيا تو آپ (ص) نے كلمہ استرجاع '' انا للہ و انا اليہ راجعون'' زبان پر جارى فرمايا تو اصحاب نے كہا يا رسو ل اللہ (ص) كيا يہ بھى مصيبت ہے ؟ تو آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمايا ہر ناپسنديدگى يا سختى جو مومن كو پہنچے مصيبت ہے_

۱۰_رسول اسلام (ص) سے روايت ہے آپ (ص) نے فرمايا''اعطيت امتى شيئاً لم يعطه احد من الامم ان يقولوا عند المصيبة ''انا لله وانا اليه راجعون'' (۳) ميرى امت كو ايك ايسى چيز عطا ہوئي ہے جو سابقہ امتوں ميں سے كسى كو عطا نہ كى گئي اور وہ مصيبت كے وقت ''انا للہ و انا اليہ راجعون'' كہناہے_

اقرار : اللہ تعالى كى مالكيت كا اقرار ۸; موت كا اقرار ۸

اللہ تعالى : الہى بشارتيں ۷; اللہ تعالى كى مالكيت ۱ اللہ تعالى كى طرف بازگشت : ۲،۴،۵

انسان: انسان كا انجام ۲; انسان كا مالك ۱; انسان كا مبداء و آغاز ۲،۵

ايمان : اللہ تعالى كى مالكيت پر ايمان ۴; ايمان كى سختياں ۵

روايت: ۸،۹،۱۰

____________________

۱) نہج البلاغة حكمت ۹۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص۱۴۵ ح ۴۵۷_ ۲) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۳۷۹_ ۳) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۳۷۷_

۵۳۶

سختياں : سختيوں سے نمٹنے كے آداب ۳،۶; سختيوں كے آسان كرنے كى روش ۴; سختيوں ميں صبر ۵

سر تسليم خم ہونا: خداوند متعال كى قضا كے سامنے سر تسليم خم ہونا ۳،۷

صابر لوگ: صابرين كا عقيدہ ۳; صابرين كى خصوصيات ۳

كلمہ استرجاع : ۸

أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ( ۱۵۷ )

كہ ان كے لئے پروردگار كى طرف سے صلواتاور رحمت ہے اور وہى ہدايت يافتہ ہيں (۱۵۷)

۱_ اللہ تعالى كا لطف و عنايات ، اسكى خاص رحمت ، درود و سلام اور ثنا كا سايہ ہميشہ صابر مومنين پر رہتاہے_

اولئك عليهم صلوت من ربهم و رحمة صلوة كا معنى توجہ كردنا اور مورد محبت قرار دينا ہے (الكشاف)

۲ _ اللہ تعالى كى خاص رحمت اور اسكے الطاف و عنايات كا صابر مومنين پر سايہ فگن رہنا خداوند متعال كى ربوبيت كا ايك پرتو ہے _

مصائب: مصائب سے نمٹنے كے آداب ۶; مصائب ميں كلمہ استرجاع ۶،۱۰; مصائب كو آسان كرنے كى روش ۴; مصيبت سے مراد كيا ہے ۹

مؤمنين: مومنين كو بشارت۷; مومنين كا نظريہ ۵; مومنين كى روش يا وطيرہ ۶; مومنين كے صبر كے عوامل ۵; صابر مومنين ۵،۷; مومنين كى مشكلات ۷; صابر مومنين كى خصوصيات۶من ربهم

۳ _ وہ مومنين جو اس يقين اور عقيدہ ( خدا كى طرف سے ہيں اور اسى كى طرف لوٹ جائيں گے ) كى بناپر راہ ا يمان ميں مصيبتوں كو برداشت كرتے ہيں ان كا اللہ تعالى كے ہاں بڑا بلند مقام ہے _قالوا انا لله و انا اليه راجعون_اولئك عليهم صلوات من ربهم

۵۳۷

۴ _ وہ مومنين جو راہ ايمان ميں مصيبتوں پر صابر ہيں وہ حقيقى ہدايت كو حاصل كر پائيں گے _قالوا انا لله و انا اليه راجعون و اولئك هم المهتدون

۵ _ فقط صابر مومنين ہيں جو اپنے اہداف (دنيا و آخرت كى سعادت) اور كاميابيوں كو حاصل كر پائيں گے_*و اولئك هم المهتدون

۶ _ كاميابى كا حصول اللہ تعالى كے الطاف اور رحمت سے ہى ممكن ہے _اولئك عليهم صلوات من ربهم و رحمة و اولئك هم المهتدون يہ مطلب اس بناپر ہے كہ( ذيل آيت ميں ) ''اولئك'' ان لوگوں كى طرف اشارہ ہو جن كے شامل حال صلوات اور رحمت الہى ہے (اولئك عليهم )_

۷_ راہ ايمان ميں صبر كرنے والوں كو اللہ تعالى كى جانب سے خوشخبرى اور بشارت دى گئي ہے كہ وہ لوگ ہدايت و رحمت اور الطاف الہى كو حاصل كرپائيں گے_و بشر الصابرين اولئك هم المهتدون

يہ جملہ ''اولئك عليہم ...'' ممكن ہے اس نويد اور خوشخبرى ''و بشر الصابرين'' كى طرف اشارہ ہو يعنى ''بشر ہم بان عليہم صلوات و ...''

۸_ وہ مومنين جو مصيبتوں اور سختيوں ميں صابر اور قضائے الہى كے سامنے سرتسليم خم ہيں فقط يہى لوگ ہيں جو ہدايت يافتہ ہيں _و بشر الصابرين _الذين واولئك هم المهتدون ضمير فصل ''ہم'' اور خبر ''المہتدون'' كا معرفة ہونا حصر كا معنى دے رہاہے _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى رحمت كے نتائج ۶; لطف الہى كے اثرات ۶; الہى بشارتيں ۷; اللہ تعالى كى خاص رحمت ۱،۲; اللہ تعالى كى طرف سے صلوات ۱; لطف الہى ۲; ربوبيت الہى كے مظاہر ۲

انسان: انسان كا مبداء ۳

ايمان : ايمان كے نتائج ۳; اللہ تعالى كى طرف بازگشت بر ايمان ۳; ايمان كى سختياں ۳; ايمان كے متعلقات۳

رحمت : رحمت كا حصول ۷; وہ لوگ جن كے رحمت شامل حال ہوتى ہے ۱،۲

سختي: سختيوں ميں صبر ۸

سر تسليم خم ہونا :

۵۳۸

قضائے الہى كے سامنے سر تسليم خم ہونا ۸

سعادت مند لوگ: ۵ صابرين :

صابرين كو بشارت۷; صابرين كى ہدايت ۸

لطف الہي: لطف الہى كا حصول ۷; جن لوگوں كے لطف الہى شامل حال ہوتاہے ۱

مصائب: مصائب پر صبر كرنا ۳،۴،۸

مؤمنين: مومنين كى اخروى سعادت۵; مؤمنين كى دنياوى سعادت۵; صابر مومنين كے درجات ۳; صابر مومنين ۱،۲،۴; صابر مومنين كى كاميابى ۵; صابر مومنين كى خصوصيات ۵،۸; صابر مومنين كى ہدايت ۴

ہدايت: ہدايت كا حصول ۷; ہدايت كى شرائط ۶ ہدايت يافتہ لوگ: ۴،۸

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ اللّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ ( ۱۵۸ )

بيشك صفا اور مروہ دونوں پہاڑياں الله كى نشانيوں ميں ہيں لہذا جو شخص بھيحج يا عمرہ كرے اس كے لئے كوئي حرج نہيں ہے كہ ان دونوں پہاڑيوں كا چكر لگائے اورجو مزيد خير كرے گا تو خدا اس كے عمل كاقدردان اور اس سے خوب واقف ہے (۱۵۸)

۱ _ صفا و مروہ كے پہاڑ دو ايسى علامتيں ہيں جن كو اللہ تعالى نے عبادات كا مقام قرار دياہے_ان الصفا والمروة من شعائر الله '' شعيرة'' كى جمع شعائر ہے_ ايسى نشانيوں يا علامتوں كو كہتے ہيں جن كو خاص اعمال كے لئے قرا ر ديا گيا ہو _ كہا جاتاہے كہ'' شعائر اللہ '' ايسى علامتيں ہيں جن كو اللہ تعالى نے عبادت كے لئے قرار ديا ہے ( مجمع البيان سے اقتباس) پس ''صفا و مروہ'' كو ''شعائر اللہ '' كہنا يعنى اللہ تعالى نے ان دو جگہوں كو ايسى علامتيں قرار ديا ہے كہ بند گان خدا وہاں عبادت كريں _

۲ _ صفا و مروہ كا طواف ( ان دو كے درميان سعى كرنا ) عبادت اور حج و عمرہ كے مناسك ميں سے ہے _

ان الصفا و المروه فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما ''اعتمر'' كا مصدر '' اعتمار'' ہے جس كا معنى زيارت كرنا اور عمرہ بجالاناہے _ صفا و مروة كو عبادت كى علامت قرار دينے كے بعد ''من حج البيت ...''كى اس

۵۳۹

پر تفريع اس مطلب كو بيان كررہى ہے كہ اولاً صفا و مروة كا طواف ( ان كے درميان سعي) اللہ كى عبادت ہے اور ثانياً يہ عبادت حج و عمرہ كے اعمال و مناسك ميں سے ہے _

۳ _ اللہ تعالى ان انسانوں كا شكر گزار ہے جو نيك اعمال كو توجہ اور رغبت سے انجام ديتے ہيں _و من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم فعل '' تطوع'' چونكہ متعدى استعمال ہوا ہے اس لئے اس ميں ''اتي'' كا معنى پايا جاتاہے بنابريں '' من تطوع خيراً'' يعنى جو كوئي بھى نيك عمل كو اطاعت كى بناپر انجام دے_

۴ _ اللہ تعالى شاكر ( سپاس گزار) اور عليم ( جاننے والا) ہے _فان الله شاكر عليم

۵ _ صفا و مروہ كے مابين سعى حج و عمرہ كے بہترين اعمال ميں سے ہے _فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما و من تطوع خيراً ما قبل جملے كى روشنى ميں ''خيراً'' كا مورد نظر مصداق صفا و مروة كے مابين سعى ہے_

۶_ صدر اسلام كے بعض مسلمان صفا و مروة كے مابين سعى سے كر اہت كرتے اور نہ چاہتے تھے كہ يہ مناسك حج ميں سے ہو_فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما صفا و مروة كى سعى پر اعتراض كو اس جملہ '' فلا جناح ...'' سے رد كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ مسلمان اس عمل كو كرنا نہ چاہتے تھے _ اسكى وجہ جيسا كہ شان نزول ميں اسكا ذكر ہوا ہے وہ بت تھے جو مشركين نے صفا و مروة ميں يا ان دو كے مابين نصب كيئے ہوئے تھے_

۷_ خانہ خدا كے زائرين كے اعمال ( حج و عمرہ اور صفا و مروہ كى سعي) سے اللہ تعالى آگاہ ہے_فمن حج البيت او اعتمر ...و من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم

۸ _ جو لوگ نيك اعمال ( صفا و مروة كے مابين سعى اور ...) انجام ديتے ہيں اللہ تعالى كى جزاؤں سے بہرہ مند ہوں گے_

من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم بندوں سے اللہ تعالى كا سپاس گزار ہونا يہ اللہ تعالى كى جزائيں عطا كرنے سے كنايہ ہے _

۹ _ بندوں كے نيك اعمال سے اللہ تعالى كى علم و آگاہى ان كے اجر كے ضائع نہ ہونے كى ضمانت ہے _و من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم

۱۰_ امام باقرعليه‌السلام فرماتے ہيں : ''قال الله عزوجل: '' ان الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت اواعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما'' الا ترون ان الطواف بهما واجب مفروض لان الله عزوجل ذكره فى كتابه و صنعه نبيه عليه‌السلام ..''

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689