البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن11%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313917 / ڈاؤنلوڈ: 9311
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۳۔ سات ابواب کا ایک اور معنی

بعض حضرات کا خیال ہے کہ سات حروف سے مراد، امر، زجر، ترغیب، ترھیب، جدل ، قصّے اور مثالیں ہیں۔

اس احتمال پر محمد بن بشارکی روایت سے استدلال کیا گیا ہے جو ابو قلامہ سے منقول ہے، ابو قلامہ کہتا ہے:

''بلغنی أن النبی قال: انزل القرآن علی سبعة أحرف: أمر، وزجر، و ترغیب، و ترهیب، و جدل، و قصص، و مثل،،

''میں نے سنا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

قران سات حروف: امر، زجر، ترغیب، ترہیب، جدل، قصّوں اور مثالوں پر نازل کیا گیا ہے۔،،(۱)

گذشتہ تاویل کے جواب سے اس تاویل کا جواب بھی واضح ہے۔

۴۔ فصیح لغات

بعض علماء کرام نے فرمایا ہے کہ سات حروف سے مراد سات فصیح عربی لغات ہیں اور یہ لغتیں قرآن میں مختلف مقامات پر بکھری ہوئی ہیں۔ وہ لغتیں یہ ہےں:

۱۔ لغت قریش۔

۲۔ لغت ہذیل۔

۳۔ لغت ہوازن۔

۴۔ لغت یمن۔

۵۔ لغت کنانہ۔

۶۔ لغت تمیم۔

۷۔ لغت ثقیف۔

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۲۴۔

۲۴۱

یہ قول علماء کی ایک جماعت سے منسو ب ہے۔جس میں بیہقی ابہری اور صاحب قاموس شامل ہیں۔ اس قول کے بھی چند جواب ہیں:

۱۔ گذشتہ روایات نے سات حروف کے معنی و مفہوم کو بیان کردیا ہے۔ اس کے باوجود اس قسم کے معنی مراد لینا مقام و موقع روایت سے سازگار نہیں ہے۔

۲۔ سات حروف سے سات لغات مراد لینا حضرت عمر کی روایت کے منافی ہے، جس میں کہا گیا ہے:''نزل القراٰن بلغة مضر،، (۱) یعنی سارا قرآن قبیلہ مضر کی لغت میں نازل ہوا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت عمر نے ابن مسعود کی اس قراءت پر اعتراض کیا جس میں وہ ''حتی حین،، کی بجائے ''عتی حین،، پڑھا کرتا تھا اور انہوں نے اس کی طرف یہ بھی لکھ بھیجا کہ قرآن ھذیل کی لغت میں نازل نہیں ہوا۔ ا سلیے لوگوں کو لغت قریش کے مطابق قرآن پڑھایا گرو، لغت ھذیل کے مطابق نہیں۔(۲)

اسی طرح یہ احتمال حضرت عثمان کی روایت سے سازگار نہیں ہے جس مںی وہ قریش کے تین گروہوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: اگر قرآن کے بارے میں زید بن ثابت سے تمہارا اختلاف ہو تو اسے قریشی زبان میں لکھو کیوں کہ قرآن قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔(۳)

نیز یہ روایت بھی اس قول کے منافی ہے: ''سورۃ فرقان کی قراءت میں حضرت عمر اور ہشام بن حکیم میں اختلاف ہوا۔ جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے پاس جاکر ہشام نے قراءت پڑھی تو آپ نے فرمایا قرآن ایسے ہی نازل ہوا ہے جیسے تو پڑھ رہا ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر نے تلاوت کی۔ آپ نے فرمایا: قرآن ایسے ہی نازل ہوا ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔،،(۴)

____________________

(۱) التبیان، ص ۶۴۔

(۲) ایضاً، ص ۶۵۔

(۳) صحیح بخاری، باب نزل القرآن بلسان قریش، ص ۱۵۶۔

(۴) اس روایت کی طرف گذشتہ صفحات میں اشارہ کیا جاچکا ہے۔

۲۴۲

پوشیدہ نہ رہے کہ حضرت عمر اور ہشام دونوں کا تعلق قریش سے تھا۔ اس لیے ان میں اختلاف قراءت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اختلاف حروف کی تفسیر اختلاف لغت کی صورت میں کی جائے۔ اس کے علاوہ سات حروف سے سات لغات مراد لینا کوئی عالمانہ بات نہیں ہے اور یہ ایک دعویٰ بلا دلیل ہے۔

۳۔ اگر اس قول کے قائل حضرات کا مقصد یہ ہے کہ قرآن ایسی لغات پر مشتمل ہے جن سے لغت قریش خالی ہے تو اس سے امت کی وہ سہولت ختم ہوجائے گی جس کی خاطر قرآن کو سات حروف میں نازل کیا گیا۔ بلکہ یہ بات خلاف حقیقت اور خلاف واقع ہے کیونکہ لغت قریش کو باقی لغات پر برتری حاصل ہے اور وہ تمام فصیح کلمات جو دوسری لغتوں میں ہیں وہ لغت قریش میں بھی ہیں۔ اسی لیے قریش عربیت کا معیار اور کسوٹی بن گئی ہے اور عربی قواعد کے لیے اسی لغت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔

اگر ان کا مقصد یہ ہو کہ قرآن کچھ اور لغات پر بھی مشتمل ہے جو لغت قریش سے ملتی جلتی ہیں تو لغات کو سات میں منحصر کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی بلکہ قرآن میں پچاس لغات موجود ہیں۔ چنانچہ ابوبکر واسطتی کہتے ہیں: ''قرآن میں پچاس لغات موجود ہیں۔ مثلاً لغت قریش، ھذیل، کنانہ، خثعم، خزرج، اشعر، نمیر۔۔۔،،(۱)

۵۔ قبیلہ ئ مضر کی لُغت

بعض علمائے کرام کی رائے یہ ہے کہ سات حروف سے مراد قبیلہ مضر کے مختلف خاندانوں کی لغات ہیں جو پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہیں اور وہ لغات یہ ہیں:

لغت قریش، لغت اسد، لغت کنانہ، لغت ھذیل، لغت تمیم، لغت ضبّۃ، اور لغت قیس، اس احتمال پر بھی وہی اعتراضات ہیں جو چوتھے احتمال پر کئے گئے ہیں۔

____________________

(۱)الاتقان، ج ۱، نوع ۳۷، ص ۲۳۰۔

۲۴۳

۶۔ قراءتوں میں اختلاف

سات حروف سے مراد قراءت کی قسمیں ہیں۔ چنانچہ بعض ماہرین کا کہنا ہے: ہم نے قرآن کی قراءتوں کی بنظر غائر دیکھا ہے جو کہ سات سے زیادہ نہیں ہیں:

۱۔ بعض قراءتیں ایسی ہیں کہ ان سے حرکت تو بدل جاتی ہے مگر کلمے کا معنی اور صورت نہیں بدلتی جیسے''هن اطهرلکم،، یا''اطهرلکم،، پڑھا جائے۔ یعنی ''ر،، کو پیش اور زبر دیا جائے۔

۲۔ بعض قراءتیں ایسی ہیں کہ جن میں حرکت بدلنے سے کلمہ کا معنی اور صورت بدل جاتی ہے جیسے ''ربّنا باعد بین اسفارنا،، میں ''باعد،، کو صیغہ امر ''باعد،، اور صیغہ ماضی ''باعد،، پڑھا جائے۔

۳۔ ان کی بعض صورتوں میں کلمے کی صورت تو ویسی ہی رہتی ہے مگر حروف کے اختلاف سے معنی بدل جاتے ہیں، جیسے ''ننشرھا،، اور ''ننشزھا،، 'را، اور 'زا، کے ساتھ۔

۴۔ بعض میں صورت تو بدل جاتی ہے لیکن اس کامعنی نہیں بدلتا، جیسے ''کالعھن المنفوش،، اور''کالصوف المنفوش،،۔

۵۔ صورت اور معنی دونوں بدل جاتے ہیں، جیسے ''طلح منضود،، اور ''طلع منضود،،۔

۶۔ ان میں کلمات کو مقدم اور مؤخر کردیا جائے، جیسے ''وجاء ت سکرۃ الموت بالحق،، اور ''وجاء ت سکرۃ الحق بالموت۔،،

۷۔ ان میں کمی بیشی کی جائے، جیسے''تسع و تسعون نعجة انثی،، میں''انثیٰ،، ۔''اما الغلام فکان کافراو کان أبواه مومنین،، میں ''فکان کافرا،، اور ''فان اللہ بعد اکراھھن لھن غفور رحیم۔،، میں ''لھن،، بڑھا دیا گیا ہے۔

۲۴۴

جواب:

۱۔ یہ دعویٰ ہی ہے، اس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور ان روایات میں جن لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے وہ قراءتوں کے اختلاف کو سمجھتے ہی نہ تھے۔

۲۔ ان سات صورتوں میں معنیٰ کے بدلنے اور نہ بدلنے کی دو صورتیں بنائی گئی ہیں حالانکہ معنی کے بدلنے اور نہ بدلنے سے دو قسمیں نہیں بنتیں۔ کیونکہ معنیٰ کے بدلنے سے لفظ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ قراءتوں میں اختلاف تلفظ کی بنیاد پر ہے نہ کہ معنی کے۔ لہذا ایسی دو قراءتیں، ایک قراءت ہونی چاہیے نہ کہ دو۔ اس طرح قراءتیں چھ بنتی ہیں نہ کہ سات۔ اسی وجہ سے ''طلح منضود،، اور ''کالعھن المنفوش،، ایک ہی قسم شمار ہوگی۔ دو قسمیں نہیں۔

۳۔ ان قسموں میں لفظ کی صورت کے باقی رہنے جیسے۔ ''ننشزھا۔ ننشرھا،، اور باقی نہ رہنے جیسے ''طلح۔طلع،، کو بھی دو قسمیں قرار دیا گیا ہے حالانکہ یہ بھی دو قسمیں نہیں بلکہ ایک قسم ہے۔ اس لیے کہ اگرچہ کتابت میں ''ننشزھا،، اور ننشرھا،، کی ایک ہی صورت میں لیک تلفظ میں تو مختلف ہے، اس طرح ''طلح،، اور ''طلع،، میں صورت بدلی ہوئی ہے اور ''ننشزھا،، اور ننشرھا،، میں بھی بدلی ہوئی ہے۔ کیونکہ قرآن مکتوب کا نہیں مقرّر (پڑھا جائے) کا نام ہے۔ آسمان سے لفظ نازل ہوا ہے۔ مکتوب ناز نہیں ہوا۔

۴۔ ان سات حروف سے متعلق روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ شروع میں قرآن ایک حرف میں نازل کیا گیا اور یہ واضح ہے کہ اس واحد حرف سے مراد مذکورہ اختلاف کی قسموں میں سے کوئی قسم نہیں ہوسکتی۔ لہذا باقی چھ قسمیں بھی ان میں سے نہیں ہونگی۔ بنابرایں سات حروف سے مراد سات قراءتیں نہیں ہوسکتیں۔

۵۔ قرآن کی بہت سی آیات اور کلمات پر تمام قاریوں کا اتفاق ہے اور ان میں کسی کابھی اختلاف نہیں ہے۔ جب اس اتفاقی قراءت کا ان اخلاقی قراءتوں میں اضافہ کریں گے تو مجموعاً آٹھ قراءتیں بنیں گی اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن آٹھ حروف میں نازل ہوا ہے۔

۲۴۵

۶۔ گذشتہ روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاریان قرآن، کلمات قرآن میں اختلاف کرتے تھے، جیسا کہ حضرت عمر کے واقعہ سے ظاہر ہے۔ ان کا یہ اختلاف قرآن کے سات حروف میں سے ایک ہی حرف پر تھا۔ اس اختلاف کو ختم کرنے کے لیے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو یہ عذر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ ان اختلاف کا مطلب ہم یہ لیں کہ جبرئیل نے پہلے قرآن ایک حرف میں نازل کیا پھر دو حرفوں میں اس کے بعد تین میں اور پھر سات حروف میں۔

جزائری نے انصاف سے کام لیا ہے ، وہ فرماتے ہیں: ''اس مسئلے، یعنی سات حروف میں بہت سے اقوال ہیں اور اکثر اقوال حق سے دور ہیں۔،،

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقوال اختیار کرنے والوں کو خبر ہی نہیں کہ سات حروف سے متعلق روایات کس موقع پر بیان کی گئی ہیں، بس جو دل چاہا کہہ دیا۔(۱)

۷۔ اختلاف قراءت کا ایک اور معنی

ان روایات کی تفسیر و تاویل میں ساتواں قول یہ ہے کہ سات حروف سے مراد قراءتوں میں اختلاف ہے جو گذشتہ اختلاف قراءت سے کچھ مختلف ہے۔

____________________

۱) التبیان، ص ۵۹۔

۲۴۶

اس قول کو زرقانی نے اختیار کیا ہے جسے ابو الفضل رازی نے لوائح میں نقل کیا ہے۔ زرقانی فرماتے ہیں:

''کوئی بھی کلام ہو، اس میں سات قسم کے اختلافات ہوسکتے ہیں:

۱۔ اسموں کا مفرد، تثنیہ، جمع، مذکر اور مؤنث ہونے کے اعتبار سے،

۲۔ افعال میں تصریف او گردان کے اعتبار سے، جیسے ماضی ، مضارع اور امر ہے،

۳۔ اعراب اورحرکت کے اعتبار سے،

۴۔ کمی بیشی کے اعتبار سے،

۵۔ تقدیم و تاخیر کے اعتبار سے،

۶۔ کلمات کے ردّ و بدل کے لحاظ سے، اور

۷۔ لغتوں اورلہجوں کے اعتبار سے جیسے فتح امامہ ترقیق تفخیم اظہار ادغام وغیرہ ہیں۔،،

جواب:

چھٹی تاویل پر کئے جانے والے اعتراضات میں سے پہلا، چوتھا اور پانچواں اعتراض اس تاویل پر بھی وارد ہوتا ہے ان کے علاوہ اس پر یہ اعتراض بھی آتا ہے کہ اسماء میں۔ افراد تثنیہ کے اعتبار سے۔ اور افعال میں۔ تصریف کے اعتبار سے اختلاف ہیئت کے ذ یل میں آتا ہے۔ اس کو ایک مستقل قسم بنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر اس تقسیم میں چھوٹی چھوٹی خصوصیات کا لحاظ کریں تو تثنیہ، جمع، مذکر، مؤنث، ماضی، مضارع اور امر ان سب کو مستقل قرار دینا پڑے گا پھر اس اختلاف کی قسمیں سات سے تجاوز کرجائیں گی۔ اس کے علاوہ ایک کلمہ میں ادغام، اظہار، روم، اشمام تخفیف اور تسہیل کے بعد بھی ایک ہی کلمہ شمار ہوتا ہے، زیادہ نہیں اور بقول زرقارنی، ابن قتیبہ نے اس بات کی تصریح کی ہے۔(۱)

____________________

(۱) مناہل العرفان، ص ۱۵۴۔

۲۴۷

حق تو یہ ہے کہ قراءت مںی جتنے بھی اختلاف ہوسکتے ہیں ان سب کی بازگشت چھ قسموں کی طرف ہے۔

۱۔ ہیئت و صورت میں اختلاف ہو مادہ (حروف) میں نہیں۔ جیسے ''باعد،، ماضی اور ''باعد،، امر یا ''امانٰتھم،، جمع اور ''امانتھم،، مفرد میں۔

۲۔ مادہئ (کلمہ) حروف مختلف ہوں۔ ھیئت اور صورت نہیں، جیسے ''ننشزھا،، اور ''ننشرھا،، میں۔

۳۔ مادہ اور ہیئت دونوںمیں اختلاف ہو۔ جیسے ''عھن،، اور ''صوف،، میں ہے۔

۴۔ اعراب کی وجہ سے جملے کی ہیئت و صورت میں اختلاف ہو۔ جیسے ''ارجلکم،، اور ''ارجلکم،، میں ہے۔

۵۔ تقدیم و تاخیر کے اعتبار سے اختلاف ہو۔ اس کی مثال گزر چکی ہے۔

۶۔ کمی اور بیشی کی وجہ سے اختلاف ہو۔ اس کی مثال بھی گزر چکی ہے۔

۸۔ اکائیوں کی کثرت

سات حروف کی تاویل میں آٹھواں قول یہ ہے کےہ سات حروف سے سات کا عدد مراد نہیں ہے بلکہ اس سے اکائیوں کی کثرت کی طرف اشارہ ہے۔ بنابرایں سات حروف سے مراد حروف کی کثرت ہے۔ جیسا کہ ستر سے دھائیوں کی کثرت مراد لی جاتی ہے۔ ستر کا عدد نہیں۔ اسی طرح سات سو سے سینکڑوں کی کثرت مراد لی جاتی ہے، سات سو کا عدد نہیں۔ یہ قول قاضی عیاض اور اس کے پیروکاروں کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔

جواب:

یہ احتمال گذشتہ روایات کے ظاہری معنی کے خلاف ہے، بلکہ بعض روایات میں اس احتمال کے خلاف تصریح موجود ہے اس کے علاوہ آٹھویں تاویل گذشتہ سات تاویلات سے الگ کوئی مستقل تاویل نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ سات سے مراد اکائیوں کی کثرت ہے، لیکن حروف کا کوئی معنی بیان نہیں کیا گیا۔ لہذا لا محالہ گذشتہ سات معانی میں سے کوئی معنی مراد ہوگا اور سات معنوں پر جو اعتراضات کئے گئے ہیں وہ اس پر بھی ہوں گے۔

۲۴۸

۹۔ سات قراءتیں

سات حروف (موضوع بحث) کی نویں تاویل یہ ہے کہ ان سے مراد سات قراءتیں ہیں۔

جواب:

اگر ان سات قراءتوں سے مراد مشہور سات قراءتیں ہیں تو تواتر قرااءات کی بحث میں اس کا بطلان ثابت کیا جاچکا ہے اور اگر سات قراءتوں سے مراد کوئی سی سات قراءتیں ہیں تو قراءتیں صرف سات نہیں ہیں۔

اس تاویل کی یہ توجیہ بھی صحیح نہیں ہے کہ اگرچہ مجموعی طور پر قرآن میں سات سے زیادہ قراءتیں ہیں لیکن اگر ایک ایک کلمہ کو دیکھاجائے تو اس میں سات سے زیادہ قراءتیں نہیں ہیں۔

یہ توجیہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ اگر ان کلمات سے مراد اکثر کلمات ہوں (یعنی ایسے اکثر کلمات جن میں سات قراءتیں پڑھی جاتی ہیں) تو یہ درست نہیں ہے کیونکہ بہت کم کلمات ایسے ہیں جن میں سات قراءتیں پڑھی جاتی ہیں۔

یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ ان سے چند کلمات مراد ہوں کیونکہ قرآن کے کچھ کلمے ایسے ہیں جن میں سات سے زیادہ قراءتیں پڑھی جاتی ہیں۔ مثلاً، ''وعبد الطاغوت،، بائیس طریقوں سے پڑھا گیا ہے اور لفظ ''اُفّ،، کو تیس سے زیادہ طریقوں سے پڑھا گیا ہے۔

ان سب کے علاوہ تاویل کی یہ وجہ سات حروف کی روایات کے شان ورود سے بھی ساز گار نہیں ہے۔

۱۰۔ مختلف لہجے

دسویں تاویل یہ ہے کہ روایات میں سے سات حروف سے مراد ایک ہی لفظ کے مختلف لہجے ہیں۔ اس قول کو رافعی نے اپنی کتاب ''اعجاز القرآن،، میں اختیار کیا ہے۔(۱)

____________________

(۱) اعجاز القرآن، ص ۷۰۔

۲۴۹

اس قول کی وضاحت: کلمات کی ادائیگی میں عرب کی ہر قوم و قبیلے کا ایک مخصوص لہجہ ہے۔ اسی لیے ہم عربوں کو سنتے ہیں کہ وہ ایک ہی لفظ مختلف لہجوں میں استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ،یقول کے ''قاف،، کو عراق کے عرب ''گاف،، سے تلفظ کرتے ہیں اور شامی ''ہمزہ،، سے۔ چونکہ تمام قوموں اور قبیلوں کو ایک ہی لہجے کا پابند بنانا جس سے وہ نامانوس ہوں، ایک قسم کی سختی سے اس لیے عربوں کی سہولت اور آسانی کی خاطر متعدد لہجوں میں ادائیگی کی اجازت دی گئی ہے اور سات کا خصوصیت سے ذکر کرنے کا مقصد صرف قراءتوں کی کثرت کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ لہذا قراءتوں کا سات سے زیادہ ہونا سات حروف کی روایات کے منافی نہیں ہے۔

جواب:

اگرچہ یہ تاویل باقی نو تاویلوں کی نسبت بہتر ہے۔ مگر پھر بھی نامکمل اور قابل اشکال ہے۔ کیونکہ:

۱۔ یہ تاویل حضرت عمر اور حضرت عثمان کی روایت سے منافات رکھتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ قرآن قریش کی لغت میں نازل ہوا ہے اور یہ کہ حضرت عمر نے ابن مسعود کی لغت ہذیل کے مطابق ''حتی حین،، کی بجائے ''عتی حین،، پڑھنےسے منع کردیا تھا۔

۲۔ یہ تاویل حضرت عمر اور ہشام کے اختلاف کے بھی منافی ہے کیونکہ دونوں کا تعلق قریش سے تھا۔

۳۔ یہ تاویل روایت موقع اور شان ورود کے منافی ہے بلکہ بعض روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ اختلاف لہجوں یا ادائیگی کی کیفیت کا نہیں ہے بلکہ اصل لفظ کا ہے اور مختلف الفاظ ہی وہ حروف ہیں جن میں قرآن نازل کیا گی اہے۔

۴۔ لفظ ''سات،، سے کثرت مراد لینا، ظاہر روایت کے خلاف ہے بلکہ بعض روایتوں میں موجود صراحت کے خلاف ہے۔

۵۔ اس تاویل کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اب بھی قرآن کا مختلف لہجوں میں پڑھاجانا صحیح ہو۔ حالانکہ یہ بات تمام مسلمانوں کی سیرت کے خلاف ہے اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ پہلے تو مختلف لہجوں میں پڑھنا جائز تھا مگر بعد میں یہ بات منسوخ ہوگئی، کیونکہ یہ ایک دعویٰ بلادلیل ہے۔

۲۵۰

یہ بھی ممکن کہ مشہور اور ایک لہجے کے مطابق پڑھے جانے پر جو اجماع قطعی و یقینی قائم ہے اس کو نسخ کی دلیل قرار دیا جائے، کیونکہ اس اجماع کا واحد ماءخذ و مدرک یہ ہے کہ قرآن کا مختلف لہجوں میں نازل ہونا ثابت نہیں اور اگر مختلف لہجوں میں قرآن کی قراءت کا جواز ثابت ہو جیسا کہ آخری تاویل میں دعویٰ کیا گیا ہے تو اس اجماع و اتفاق کی بنیاد منہدم ہو جائیگی۔

اس کے علاوہ نسخ کا احتمال اس لیے بھی درست نہیں کہ رسول اسلامؐ کی متعدد بار درخواست پر قرآن سات حروف میں اس غرض سے نازل کیا گیا تاکہ امت کے لئے سہولت رہے۔ اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ سہولت نزول قرآن کے کچھ عرصے تک ہی حاصل رہے اور پھر سلب کرلی جائے اور اس پر اجماع علماء بھی قائم ہو جائے؟

یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ امت محمدیؐ پہلے کی نسبت آج کے دور میں زیادہ رعایت و سہولت کی محتاج ہے۔ کیونکہ صدر اسلام میں اسلام کے پیروکاروں کی تعداد کم تھی اور قرآن کے ایک لہجے پر سب کا اتفاق ہوسکتا تھا، لیکن بعد میں یہ کام مشکل ہے۔

سات حروف کے بارے میں اتنے اقوال پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور باقی اقوال کا ذکر کرنے اور ان کا جواب دینے سے احتراز کرتے ہیں۔

گذشتہ تمام بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ قرآن کا سات حروف میں نازل ہونا کوئی صحیح معنی نہیں رکھتا، لہٰذا ان تمام راویتوں کو جو سات حروف پر دلالت کرتی ہیں رد کرنا ضروری ہے۔ خصوصاً جب معصومین (علیہم السلام) کی احادیث بھی اس کی تکذیب کریں اور یہ ثابت کریں کہ قرآن صرف ایک حرف میں نازل ہوا ہے اور اختلاف رایوں کاایجاد کردہ ہے۔

۲۵۱

مسئلہ تحریف قرآن

٭ معنوی تحریف کی تعریف

٭ تحریف کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ

٭ نسخ تلاوت

٭ تحریف، قرآن کی نظر میں

٭ تحریف اور سُنّت

٭ نماز میں سورتوں کی اجازت

٭ خلفاء پر تحریف کا الزام

٭ قائلین تحریف کے شبہات

٭ روایاتِ تحریف

٭ روایات کاحقیقی مفہوم

۲۵۲

اس موضوع میں وارد ہونے قبل مناسب ہے کہ کچھ ایسے امور بیان کئے جائیں جن کا اصل مقصد سے تعلق ہے اور مقصد کی تحقیق اور وضاحت کے لیے ان سے بے نیاز نہیں رہا جاسکتا۔

۱۔ معنی تحریف کی تعریف

لفظ تحریف متعدد معنوں میں مشترکہ طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض معنیٰ میں قرآن میں تحریف بالاتفاق واقع ہوئی ہے اور بعض میں بالاتفاق واقع نہیں ہوئی اور کچھ کے بارے میں اختلاف ہے، اس کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے:(۱)

i ۔ کسی چیز کو اس کے اپنے اصلی مقام سے ہٹا کر کسی دوسرے مقام پر رکھنے کو تحریف کہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ) (۴:۴۶)

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) یہود سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو باتوں میں ان کے محل و موقع سے ہیر پھیر ڈال دیتے ہیں۔،،

قرآن کریم میں اس معنیٰ میں تحریف واقع ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اس لیے کہ حقیقت قرآن کے معنی مقصود کے خلاف تفسیر کرنے کی کوشش کرنا تحریف ہے اور آپ دیکھتے ہیں کہ اہل بدعت اور فاسد مذاہب کے پیروکار ہمیشہ قرآن کی تعبیر اپنی آراء اور خواہشات کے مطابق کرکے تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس قسم کی تحریف سے شریعت نے بھی

___________________

(۱) ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۶۔

۲۵۳

منع فرمایا ہے اور اس قسم کے لوگوں کی مذمّت کی ہے۔ چنانچہ امام محمد باقر(علیہ السلام) نے سعد الخیر کے نام اپنے ایک خط میں فرمایا:

''وکان من نبذهم الکتاب أن أقاموا حروفه و حرّفوا حدوده، فهم یروونه ولا یرعونه، والجهال یعجبهم حفظهم للروایة، و العلماء یحزنهم ترکهم للرعایة،، (۱)

''قرآن کو پس پشت ڈالنے کا ان کا ایک طریقہ یہ تھا کہ انہوں نے حروف قرآن کو تو قائم رکھا لیکن اس کی حدود میں تحریف کی۔ وہ قرآن کی روایت تو کرتے ہیں لیکن اس کی رعایت نہیں کرتے۔ جہلاء اس کی روایت کے حفظ کو پسند کرتے ہیں اور علماء اس کی رعایت کے ترک سے محزون ہوتے ہیں۔،،

ii ۔ تحریف کا دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ اصل قرآن تو محفوظ ہے لیکن اس کے حروف اور حرکات میں کمی و زیادتی ہوئی ہے۔ چنانچہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ساری قراءتیں متواتر نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن ان قراءتوں میں سے ایک قراءت کے مطابق ہے اور باقی قراءتیں یا زیادتی پر مشتمل ہیں یا ان میں کمی واقع ہوئی ہے۔

iii ۔ تحریف کا ایک معنیٰ یہ لیا جاتا ہے کہ ایک یا دو کلموں کی کمی یا زیادتی ہوئی ہے اور خود اصل قرآن محفوظ ہے۔

اس معنی کے اعتبار سے صدر اسلام اور صحابہ کرام کے دور میں تحریف بنتی ہے اور اس ضمن میں مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہی کافی ہے کہ حضرت عثمان نے متعدد قراءتوں کو جلا دیا تھا اور انہوں نے اپنے والیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ہر اس قرآن کو جلا ڈالیں جو ان کا جمع کردہ نہیں ہے اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ قرآن حضرت عثمان کے جمع کردہ قرآن سے مختلف تھے ورنہ انہیں جلانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ علماء نے وہ مقامات بھی اپنی تحریوں میں بیان کئے ہیں جہاں مختلف قرآنوں میں اختلاف موجود ہے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن داؤد سبحستانی نے اپنی کتاب ''کتاب المصاحف،، میں تحریر کیا ہے۔ بنابرایں اس قسم کی تحرف حضرت عثمان کی طرف سے یا دوسرے قرآن لکھنے والوں کی طرف سے یقیناً واقع ہوئی تھی۔

____________________

(۱) الوافی، آخر کتاب الصلوٰۃ، ج ۵، ص ۲۷۴۔

۲۵۴

ہم آگے چل کر یہ بات بھی واضح کریں گے کہ حضرت عثمان نے جس قرآن کو جمع کرنے کا اہتمام کیا تھا وہ عیناً وہی قرآن تھا جو مسلمانوںمیں رائج تھا اور حضرت رسول کریمؐ کے زمانے سے دست بہ دست ان تک پہنچا تھا۔ اس لیے تحریف زیادتی و کمی کی صورت میں اگر واقع ہوئی ہے تو ان قرآنوں میں واقع ہوئی تھی جو حضرت عثمان کے زمانے کے بعد ختم ہوگئے تھے اور اس وقت جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے، اس میں نہ کوئی کمی ہے اور نہ کوئی زیادتی۔

مختصر یہ کہ جو لوگ دیگر اصحاب کے مصاحف متواتر نہ ہونے کے قائل ہیں، جیسا کہ صحیح بھی یہی ہے تو اس معنیٰ میں اگرچہ

تحریف صدر اوّل میں واقع ہوئی تھی لیکن حضرت عثمان کے دور کے بعد اس قسم کی تحریف منقطع ہوگئی اور وہی قرآن ہمارے پاس باقی رہ گیا ج ورسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے تواتر ثابت ہے۔

جو لوگ تمام قرآنوں کے متواتر ہونے کے قائل ہیں ان کو لامحالہ متنازع فیہ معنیٰ میں تحریف قرآن اور قرآن کے کسی حصّے کے صائع ہونے کا قائل ہونا ہوگا۔ اس سلسلے میں طبری اور دوسرے لوگوں کی تصریح کا ذکر ہوچکا ہے کہ حضرت عثمان نے سات حروف میں سے چھ کو کالعدم کر دیا جس میں قرآن نازل ہوا تھا اور قرآن کو ایک ہی حرف میں منحصر کردیا۔(۱)

iv ۔ قرآنی آیات اور سورتوں میں کمی و زیادتی واقع ہوئی ہو لیکن پھر بھی رسول کریمؐ پر نازل شدہ قرآن محفوظ ہو اور رسول کریمؐ نے بھی مسلمہ طور پر ان آیات کی تلاوت فرمائی ہو۔

مثلاً بسم اللہ کے بارے میں مسلمانوں نے اتفاق کیا ہے کہ رسول کریمؐ نے سورہ براءت کے علاوہ تمام سورتوں سے پہلے بسم اللہ کی تلاوت فرمائی ہے اس کے باوجود علماء اہلسنت کا اختلاف ہے کہ آیا بسم اللہ قرآن کا حصّہ ہے؟

ان میں سے بعض نے یہی نظریہ اختیار کیا ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ نہیں ہے۔ بلکہ مالکی نظریہ یہ ہے کہ نماز میں سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنا مکروہ ہے۔ لیکن اگر نمازی اختلاف سے نکلنے کے لیے اس کو پڑھے مکروہ نہیں ہے۔

____________________

(۱) قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کے باب کی طرف رجوع فرمائیں۔

۲۵۵

ایک اور جماعت کا کہنا ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے۔ شیعوں کے نزدیک مسلم ہے کہ بسم اللہ سوائے سورہ توبہ کے باقی سورتوں کی جزء ہے اور یہ قول بعض علماء اہل سنت نے بھی اختیار کیا ہے چنانچہ اس کی تفصیل سورہ فاتحہ کی تفسیر کے دوران بیان کی جائے گی۔ اس سے یہ بات ثابت ہ وجاتی ہے کہ قرآن میں (مثلاً بسم اللہ ہی کے بارے میں) کمی یا زیادتی واقع ہوئی ہے۔

v ۔ تحریف کا پانچواں معنی یہ ہے کہ جو قرآن اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے اس کا بعض حصہ قرآن نہیں ہے۔

تحریف کی اس قسم کے باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ے بلکہ اس کا باطل ہونا بدیہی و آشکار ہے۔

vi ۔ کمی کے اعتبار سے تحریف ہو۔ بایں معنی کہ اس وقت جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے وہ اس سارے قرآن پر مشتمل نہ ہو جو آسمان سے نازل ہوا ہے بلکہ اس کا بعض حصہ لوگوں کے ہاتھ سے ضائع ہوگیا ہو۔

ا س معنی میں تحریف محل بحث ہے۔ بعض اس تحریف کے قائل ہیں اور بعض منکر ہیں۔

۲۔ تحریف کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ

مسلمانوں میں مشہور قول یہی ہے کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی اور جو قرآن اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے، وہ وہی مکمل قرآن ہے جو رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نازل ہوا ہے۔ بہت سے علماء اعلام نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ جیسے رئیس المحدثین شیخ صدوق محمد بن بابویہ ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ عقیدہئ عدم تحریف، عقائد امامیہ کا ایک حصہ ہے۔ انہی علماء میں شیخ ابو جعفر محمد بن الحسن الطوقی ہیں، جنہوں نے اپنی تفسیر التبیان میں اس کی تصریح فرمائی ہے اور اس قول کو اپنے محترم استاد سید مرتضیٰ علم الہدیٰ سے نقل فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عدم تحریف پر علم الہدیٰ کی نہایت مضبوط دلیل بھی نقل کی ہے۔

انہی علماء میں مشہو رمفسر طبرسی بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنی تفسیر مجمع البیان کے مقدمے میں ا س کی تصریح فرمائی ہے۔

انہی علماء میں شیخ الفقہا الشیخ جعفر بھی ہیں جنہوں نے اپنی کتاب ''کشف الغطائ،، میں قرآن پر بحث کے دوران عدم تحریف پر اجماع کا دعویٰ فرمایا ہے۔

۲۵۶

انہی علماء میں جلیل القدر علامہ شہشھانی بھی شامل ہیں۔ انہو ںنے اپنی کتاب ''العروۃ الوثقیٰ،، میں قرآن مجید پر بحث کے دوران اسی نظریئے کو اختیار کیا ہے اور اکثر مجتہدین کی طرف اس قول کی نسبت دی ہے۔

مشہور محّدث مولیٰ محسن کاشانی بھی انہی علماء میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنی دونو ںکتب(۱) میں اسی قول کو اختیار فرمایا ہے۔

جلیل عالم اور مجاہد شیخ محمد بلاغی بھی انہی علماء میں سے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی تفسیر ''آلاء الرحمن،، میں یہی فرمایا ہے۔

علماء کی ایک جماعت نے بھی عدم تحریف کا قول بہت سے بزرگ علماء سے نقل کیا ہے۔ جیسا کہ شیخ المشایخ شیخ مفید، شیخ بہائی، محقق قاضی نور اللہ اور اس پایہ کے دیگر علماء کرام ہیں۔

یہ کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ علماء میں سے جس نے بھی امامت کے موضوع پر کتاب لکھی ہے اور اس سلسلے میں جو ناخوشگوار واقعات تاریخ میں پیش آئے ہیں، ان سب کا ذکر انہوں نے کیا ہے لیکن تحریف قرآن کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ لہذا اگر ان کا نظریہ تحریف قرآن کا ہوتا تو وہ ضرور اس کا ذکر کرتے۔ اس لیے کہ یہ بات قرآن کو نذر آتش کرنے کے واقعہ سے کہیں زیادہ اہم اور قابل ذکر ہے۔

مختصر یہ کہ علماء محققین میں یہ امر مسلم ہے کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی۔ البتہ شیعوں میں محدثین کی ایک جماعت اور کچھ علمائے اہل سنت تحریف کے قائل ہیں۔

رافعی کہتے ہیں:

''اہل کلام میں سے کچھ لوگ، جن کو سوائے ظن و تاویل اور ہر امر اور قول میں جدلی اسلوب اختیار کرنے کے اس فن میں دست رسی حاصل نہیں تھی، کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ قرآن میں سے کچھ چیزیں ساقط ہوگئی ہوں۔ یہ بات انہوں نے

____________________

(۱) الوافی، ج ۵، ص ۲۷۴ اور علم الیقین، ص ۱۳۰۔

۲۵۷

جمع قرآن کے سلسلے میں واقع ہونے والے حالات سے اخذ کی ہے۔،،(۱)

طبرسی نے ''مجمع البیان،،میں تحریف قرآن کے قول کو سنیوں کے ایک مذہب ''حشویہ،، کی طرف نسبت دی ہے۔

مؤلف: عنقریب آپ کے سامنے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ نسخ تلاوت عیناً تحریف ہے۔ بنابرایں نسخ تلاوت کے نظریہ، جو علماء اہل سنت میں مشہور ہے، کا لازمہ ہے کہ تحریف کا نظریہ بھی مشہور ہو (یعنی جس کے نزدیک نسخ تلاوت مشہور ہے اس کے نزدیک تحریف قرآن بھی مشہور ہوناچاہیے)۔

۳۔ نسخ تلاوت

اکثر علماء اہل سنت نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ بعض قرآن کی تلاوت منسوخ ہوگئی ہے اور بعض راویات میں وارد شدہ اس مفہوم: ''اءنہ کان قرآناً علی عھد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو انہوں نے نسخ تلاوت سمجھا ہے۔ پس ہمارے لیے مناسب ہے کہ اس قسم کی روایات کا ذکر کریں تاکہ واضح ہوجائے اس قسم کی روایات کو مان لینا تحریف قرآن کو ماننے کے مترادف ہے:

۱۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے منبر پر فرمایا:

''خدا نے محمدؐ ک وبرحق مبعوث فرمایا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی۔ اس کتاب میں آیہ رجم بھی تھی۔ ہم نے اس کی تلاوت کی، ا س کو سمجھا اور اسے یا دیا۔ اسی لیے جب رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سنگساری فرمائی اس کے بعد ہم نے بھی سنگساری کی۔ مگر مجھے ڈر ہے کہ اس امت پر ایک ایسا وقت آئے گا جب کوئے کہنے والا یہ کہے گا کہ قسم بخدا آیہ رجم قرآن میں نہیں ہے اور اس طرح خدا کا ایک حکم ترک ہو جائے گا او رلوگ گمراہی میں مبتلا ہوجائیں گے، ہاں! حکم رجم، یعنی سنگساری کا حکم قرآن میں ہر اس مرد اور عورت کے لئے معین ہے جو بیوی رکھنے کے باوجود زنا کا مرتکب ہو اور جو آیہ ہم قرآن میں پڑھتے تھے وہ یہ تھی:أن لا ترغبوا عن آبائکم فانه کفر بکم أن ترغبوا عن آبائکم یا وہ اس طرح تھی:ان کفرا بکم ان ترغبوا عن آبائکم ۔(۲)

____________________

(۱) اعجاز القرآن، ص ۴۱۔

(۲) صحیح بخاری، ج ۸، ص ۲۶۔ صحیح مسلم ، ج ۵، ص ۱۱۶۔

۲۵۸

سیوطی لکھتے ہیں کہ ابن اشتر نے اپنی کتاب ''مصاحف،، میں لیث بن سعد سے روایت کی ہے:

''سب سے پہلے حضرت ابو بکر نے قرآن جمع کیا اور زید نے ان کے لیے لکھا اور جب حضرت عمر آیہ رجم لے کر آئے تو اس نے اسے نہیں لکھا، اس لیے کہ حضرت عمر اکیلے تھے۔(۱)

مؤلف: آیہ رجم، جس کے بارے میں حضرت عمر کا دعویٰ ہے کہ یہ قرآن کا حصہ ہے اور اسے قبول نہیں کیا گیا، اس کی چند صورتیں روایت ہوئی ہیں اور ان میں سے کچھ یہ ہیں:

i ۔''اذا زنی الشیخ و الشیخه فارجموهما البتة، نکالاً من الله، و الله عزیز حکیم،،

ii ۔''الشیخ و الشیخ ةفارجموهما البتة بما قضیا من اللذة،،

iii ۔''ان الشیخ و الشیخه اذا زنیا فارجموهما ألبتة،،

بہرحال موجودہ قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جس سے رجم کا حکم نکالا جاسکے۔ پس بنابرایں قرآن کے دو تہائی سے زیادہ حصے ساقط ہوگئے ہیں۔

۲۔ طبرانی نے موثق سند سے حضرت عمر بن الخطاب سے روایت کی ہے:

''قرآن دس لاکھ ستائیس ہزار حروف پر مشتمل ہے۔،،(۲)

جبکہ جو قرآن اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے یہ اس مقدار کے ایک تہائی بھی نہیں ہے۔ پس بنابرایں قرآن کے دو تہائی سے زیادہ حصے ساقط ہوگئے ہیں۔

____________________

(۱) الاتقان، ج ۱، ص ۱۰۱۔

(۲) الاتقان،ج ۱، ص ۱۲۱۔

۲۵۹

۳۔ ابن عباس نے حضرت عمر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

''اللہ تعالیٰ نے محمدؐ کو بر حق مبعوث فرمایا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی۔ اس میں سنگساری کی آیہ بھی تھی۔ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سنگساری رفمائی۔ اس کے بعد ہم نے بھی سنگساری کی۔ پھر کہا: ہم اس آیہ کو اسطرح پڑھتے تھے:''ولا ترغبوا عن آبائکم فانه کفر بکم،، یا''ان کفرا بکم ان ترغبوا عن آبائکم،، (۱)

۴۔ نافع روایت کرتا ہے کہ ابن عمر نے کہا:

''تم میں سے شاید کوئی یہ کہے کہ اس نے پورا قرآن پڑھ لیا ہے۔ اسے کیا پتہ کہ یہ پورا قرآن نہیں ہے اور اس کا ایک کثیر حصہ ضائع ہوچکا ہے۔ لہذا اسے یہ کہنا چاہیے کہ اس قرآن کا وہ حصہ اس نے لیا ہے جو موجود ہے۔(۲)

۵۔ عروۃ بن زبیر حضرت عائشہ سے روایت کرتا ہے کہ انہوں نے کہا:

''رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں سورہ احزاب دو سو آیات پر مشتمل ہوا کرتی تھی لیکن جب حضرت عثمان نے قرآن لکھا تو اس وقت وہی سورے رہ گئے جو اب ہمارے ہاتھ میں موجود ہیں۔،،(۳)

۶۔ ابو یونس کی دختر حمیدہ ناقل ہے:

''میرے والد جو ۸۰ سالہ تھے، حضرت عائشہ کے قرآن سے یہ آیہ پڑھا کرتے تھے:

''ان الله و ملائکته یصلون علی النبی یاأیها الذین آمنوا صلوا علیه و سلموا تسلیما، و علی الذین یصلون الصفوف الأول،، حمیدہ کہتی ہے: قرآن میں حضرت عثمان کے تغیر و تبدل کرنے سے پہلے کی یہ بات ہے۔،،(۴)

____________________

(۱) مسند احمد، ج ۱، ص ۴۸۔

(۲) الاتقان،ج ۲، ص ۴۰۔۴۱۔

(۳) ایضاً۔

(۴) الاتقان، ج ۲، ص ۴۰۔۴۱۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام پر نزول وحى ۳

انسان: انسانى عمل سے آگاہى ۵،۲۱; انسان كى نيتوں سے آگاہى ۵

اہل كتاب: اہل كتاب كو دھمكى ۲۲

بيت المقدس : بيت المقدس كے قبلہ ہونے كا نسخ ۷

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كو بشارت ۶; پيامبر اسلام (ص) كى تاريخ ۱،۲; پيامبر اسلام (ص) كے رجحانات۱،۷; پيامبر اسلام(ص) كى رضايت كے عوامل ۶،۱۴; پيامبر اسلام (ص) كا دائرہ اختيارات ۱۱; نزول وحى كے وقت آنحضرت (ص) ۲; پيامبر اسلام (ص) كے درجات ۷،۸; پيامبر اسلام(ص) پر جبرائيلعليه‌السلام كا نزول ۴

روايت: ۲۴،۲۵

علمائے اہل كتاب: علمائے اہل كتاب كا علم ۱۶; علمائے اہل كتاب اور حق پر پردہ ڈالنا ۱۹

عيسائي: عيسائيوں كا حق كو قبول نہ كرنا ۲۳; صدر اسلام كے عيسائي ۲۳

عيسائيت كے علماء : عيسائيت كے علماء كا علم ۱۷

قانون : قانون كے نسخ كا سرچشمہ ۱۰; قانون سازى كا سرچشمہ ۱۰

قبلہ : احكام قبلہ ۱۳،۱۵،۲۴; اہل كتاب اور تبديلى قبلہ ۲۲; تبديلى قبلہ كى بشارت ۶; تبديلى قبلہ ۱۲; انجيل ميں تبديلى قبلہ ۱۸; تورات ميں تبديلى قبلہ ۱۸; آسمانى كتابوں ميں تبديلى قبلہ ۱۸; قبلہ كى جہت ۵; تبديلى قبلہ كى حقانيت ۱۶،۱۹،۲۰; علمائے اہل كتاب اور تبديلى قبلہ ۱۶،۱۹; عيسائي علماء اور قبلہ ۱۷; يہودى علماء اور قبلہ ۱۷; تبديلى قبلہ كے اسباب ۷; تبديلى قبلہ كا فلسفہ ۲۵; مسلمانوں كا قبلہ ۱۳ ، ۱۴; پيامبر اسلام (ص) اور تبديلى قبلہ ۱; عيسائي اور تبديلى قبلہ ۲۰; قبلہ كے تعين كا سرچشمہ ۹،۱۱; يہودى اور تبديلى قبلہ ۲۰

كعبہ: كعبہ كا قبلہ ہونا ۱۸

مسجد الحرام : مسجد الحرام كاقبلہ ہونا ۱۳،۱۵; مسجد الحرام كا قبلہ قرار پانا ۱۲،۱۴،۱۷

مقربين : ۸

ملائكہ : ملائكہ وحى كے ظہور كى جگہ ۴

۵۰۱

نماز : احكام نماز ۲۴; نماز ميں قبلہ ۲۴

وحى : وحى كے ظہور كى جگہ ۳; وحى اور آسمان ۳،۴

يہود : يہودى حق كو قبول نہ كرنے والے ۲۳; صدر اسلام كے يہودى ۲۳; يہودى اور قبلہ ۲۵

يہودى علماء : علمائے يہود كا علم ۱۷

وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُواْ قِبْلَتَكَ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّكَ إِذَاً لَّمِنَ الظَّالِمِينَ ( ۱۴۵ )

اگر آپ ان اہل كتابكے پاس تمام آيتيں بھى پيش كرديں كہ يہآپ كے قبلہ كو مان ليں تو ہرگز نہ مانيں گے اور آپ بھى ان كے قبلہ كو نہ مانيں گےاور يہ آپس مين بھى ايك دوسرے كے قبلہ كونہيں مانتے اور علم كے آجانے كے بعد اگرآپ ان كے خواہشات كا اتباع كرليں گے توآپ كا شمار ظالموں ميں ہوجائے گا (۱۴۵)

۱ _ اہل كتاب كى ذمہ دارى ہے مسجد الحرام كو قبلہ كے طور پر قبول كريں _ما تبعوا قبلتك

۲ _ اہل كتاب ( يہود و نصارى ) كو باوجود اس كے كہ انہيں مسلمانوں كے قبلہ ( مسجد الحرام ) كى حقانيت كا اطمينان ہے اس كو قبول نہيں كريں گے_ليعلمون انه الحق و لئن اتيت الذين ما تبعوا قبلتك

۳ _ مسجد الحرام كو قبلہ حق كے طور پر قبول كرنے كے لئے كوئي دليل اور معجزہ اہل كتاب پر اثر انداز نہيں ہوسكتا_

و لئن اتيت الذين اوتوا الكتاب بكل آية ما تبعوا قبلتك

''آية'' كا معنى علامت و نشانى ہے البتہ يہاں اس سے مقصود معجزہ اور برہان ہے _

۴ _ اہل كتاب ( يہود و نصارى ) ضدى اور حق قبول نہ كرنے والے لوگ ہيں _و لئن اتيت الذين اوتوا الكتاب بكل آية ما تبعوا قبلتك '' لئن خدا كى قسم آپ اہل كتاب كو جو بھى

۵۰۲

معجزہ يا دليل پيش كريں تو وہ آپ كے قبلہ كى پيروى نہ كريں گے '' يہ جملہ اہل كتاب كى گہرى دشمنى ، ضد اور حق ناپذيرى كو بتاتاہے_

۵ _ يہود و نصارى اپنى ضد، دشمنى اور عناد كى وجہ سے كعبہ كو قبلہ كے طور پر ماننے كو تيار نہيں ہيں _و لئن اتيت الذين اوتوا الكتاب بكل آية ما تبعوا قبلتك

۶ _ تبديلى قبلہ كے بعد اللہ تعالى نے پيامبر اسلام (ص) سے چاہا كہ اہل كتاب كے قبلہ كى طرف ہرگز رخ نہ كريں اور نہ ہى اس كو اپنا قبلہ قرار ديں _و ما انت بتابع قبلتهم '' و ما انت تم ان كے قبلہ كى پيروى نہ كروگے '' يہ جملہ خبريہ ہے ليكن مقصود اس سے انشاء ہے اور حكم ہے كہ تم ان كے قبلہ كى پيروى نہ كرو_

۷_ يہو دو نصارى ميں سے ہر ايك كا مخصوص قبلہ ہے _و ما بعضهم بتابع قبلة بعض

۸_ يہود و نصارى ميں سے كوئي بھى ايك دوسرے كے قبلہ كو قبول نہ كريں گے _و ما بعضهم بتابع قبلة بعض

۹_ يہو د و نصارى كى كوشش تھى كہ پيامبر اسلام (ص) اور مومنين كو كعبہ سے منحرف كركے اپنے قبلہ كى طرف موڑيں _و ما انت بتابع قبلتهم و لئن اتبعت اهواء هم جملہ ''و لئن اتبعت انك لمن الظالمين'' ميں ''لئن''كى لام قسم، حرف تاكيد ''ان'' اور ''لمن'' ميں لام تاكيد كے ساتھ تاكيد اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ اہل كتاب نے پيامبر اسلام (ص) اور مومنين كو اپنے قبلہ كى طرف ترغيب دلانے كى مسلسل كوشش كرتے ہوئے اسكى زمين فراہم كرلى تھى _ ما قبل جملوں كے قرائن كى روشنى ميں '' اہوائہم '' كے مصاديق ميں سے ايك اہل كتاب كے قبلہ كى پيروى ہے _

۱۰_ يہود و نصارى اس كوشش ميں تھے كہ پيامبر اسلام (ص) اور مومنين كو اپنے دينى احكام و قوانين كى طرف ترغيب دلائيں _و لئن اتبعت اهواء هم

۱۱ _ يہو د و نصارى نے دين الہى كو اپنى نفسانى خواہشات پر مبنى آراء كے ساتھ گڈ مڈ كرديا تھا_و لئن اتبعت اهواء هم

'' اہواء ہم _( نفسانى خواہشات پر مبنى آراء ) سے مراد يہود و نصارى كا دين ہے كيونكہ ان كى پيامبر اسلا م(ص) اور اہل ايمان سے جنگ كى بنياد دينى عقائد و احكام تھے _ اہل كتاب كا دين الہى تھا ليكن آيہ مجيدہ ميں اسے نفسانى خواہشات سے تعبير كيا گيا ہے _ مذكورہ بالا مطلب اسى اعتبار سے ہے _

۱۲ _ نبى اكرم (ص) كے دين ( اسلام ) كى بنياد وحى اور حكم خداوندى تھا_من بعد ما جاء ك من العلم

'' علم '' سے مراد وہ احكام و فرامين ہيں جو اللہ

۵۰۳

تعالى كى طرف سے وحى كے ذريعے پيامبر اسلام (ص) پر نازل ہوئے _

۱۳ _ احكام و معارف كا انحصار وحى پر ہے اوريہ عالمانہ حقائق ہيں _من بعد ما جاء ك من العلم

''وحي'' كى جگہ ''علم'' كا لفظ لانا اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ وحى پر منحصر فرامين عالمانہ ہيں _

۱۴ _ بيت المقدس سے كعبہ كى طرف قبلہ كى تبديلى عالمانہ حكم ہے اسكى بنياد و حى اور فرمان الہى ہے _

وما انت بتابع قبلتهم ...من بعد ما جاء ك من العلم '' العلم'' كے مورد نظر مصاديق ميں سے وحى اور تبديلى قبلہ پر مبنى فرمان الہى ہے _

۱۵ _ پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ہے كہ يہود و نصارى كى پيروى سے پرہيز كريں اور نفسانى خواہشات پر مبنى ان كى آراء كو ردّ كريں _و لئن اتبعت اهواء هم انك اذاً لمن الظالمين

۱۶ _ اللہ تعالى نے پيامبر اسلام(ص) كو متنبہ كيا كہ اگر انہوں نے يہود و نصارى كى اتباع كى تو ستمگروں ميں سے شمار ہوں گے _لئن اتبعت اهواء هم انك اذاً لمن الظالمين

۱۷ _ قوانين ا لہى كے ہوتے ہوئے نفسانى خواہشات پر مبنى آراء و قوانين كى پيروى كرنا ظلم ہے _

لئن اتبعت اهواء هم من بعد ما جاء ك من العلم انك اذاً لمن الظالمين

۱۸ _ ايسے قوانين اور معارف قابل اتباع ہيں جو نفسانى خواہشات سے پاك ہوں اور ان كى بنياد علم پر ہو_

و لئن اتبعت اهواء هم من بعد ما جائك من العلم انك اذاً لمن الظالمين

۱۹_ اگر دين اسلام كے رہبروں نے ديگر اديان كے پيروكاروں كے ساتھ دينى معاملات ميں سازباز كى تو ستم گروں كے زمرے ميں ہوں گے_و لئن اتبعت اهواء هم انك اذاً لمن الظالمين

۲۰_ آگاہى كے باوجود گناہ كا ارتكاب ظلم ہے _و لئن اتبعتت اهواء هم من بعد ما جائك من العلم انك اذاً لمن الظالمين

اسلام: اسلام كاسرچشمہ ۱۲; اسلام كا وحى ہونا ۱۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى تنبيہات ۱۶

اہل كتاب: اہل كتاب اور مسلمانوں كا قبلہ ۲،۳; اہل كتاب كى حق ناپذيرى ۴;اہل كتاب كا قبلہ ۱; اہل كتاب كى ضد ۴; اہل كتاب كى ذمہ دارى ۱

۵۰۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام(ص) اور اہل كتاب كا قبلہ ۶; پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ۶،۱۵; پيامبر اسلام (ص) كو تنبيہ ۱۶

دين : عالمانہ دين ۱۳; دين ميں ساز باز ظلم ہے ۱۹; دين كى حقانيت كے معيارات ۱۸

دينى قائدين : دينى قائدين كى ساز باز۱۹

ظالمين : ۱۶،۱۹

ظلم : ظلم كے موارد ۱۷،۲۰

علم : علم كے آثار۲۰

عيسائي: عيسائيوں كى پيروى كے آثار۱۶; عيسائيوں سے منہ پھيرنا ۱۵; عيسائيوں كى پيروى كرنا ۱۵; عيسائيوں كى تحريف كا عمل ۱۱; عيسائيوں كى كوشش ۹; عيسائيوں كا حق قبول نہ كرنا ۴; عيسائيوں كى دشمنى ۵; عيسائيوں كا قبلہ ۷; عيسائيوں كى ضد ۴،۵;عيسائي اور مسلمانوں كا قبلہ ۲،۵،۹; عيسائي اور يہوديوں كا قبلہ ۸; عيسائي اور مومنين ۱۰; عيسائي اور پيامبر اسلام (ص) ۹،۱۰; عيسائيوں كى نفس پرستى ۱۱،۱۵

عيسائيت: عيسائيت ميں تحريف ۱۱; عيسائيت كى پيروى ۱۰

قانون: غير دينى قوانين كى اتباع ۱۷; عالمانہ قوانين ۱۸; لازم الاتباع قوانين كے معيارات۱۸

قبلہ: تبديلى قبلہ ۶; تبديلى قبلہ كا عالمانہ ہونا ۱۴; تبديلى قبلہ كا سرچشمہ ۱۴; تبديلى قبلہ كا وحى ہونا ۱۴

قرآن كريم : قرآن كريم كى پيشين گوئي ۸

كعبہ : كعبہ كا قبلہ ہونا ۵

گناہ : آگاہانہ گناہ ۲۰; گناہ ظلم ہے ۲۰

مسجد الحرام : مسجد الحرام كے قبلہ ہونے كى حقانيت ۲،۳; مسجد الحرام كا قبلہ ہونا ۱

نفس پرستى : نفس پرستى سے اجتناب ۱۸

وحي: وحى كى اہميت ۱۳، ۱۴

يہود : يہوديوں كى پيروى كے آ ثار ۱۶; يہوديوں سے

۵۰۵

منہ موڑنا ۱۵; يہوديوں كى پيروى ۱۵; يہوديوں كى تحريف كا عمل ۱۱; يہوديوں كى كوشش ۹; يہوديوں كا حق قبول نہ كرنا ۴; يہوديوں كى دشمنى ۵; يہوديوں كا قبلہ ۷; يہوديوں كى ضد ۴،۵; يہوديوں كى نفس پرستى ۱۱،۱۵; يہود اور مسلمانوں كا قبلہ ۲،۵،۹; يہود اور عيسائيوں كا قبلہ ۸; يہود اور مومنين۱۰; يہود اور پيامبراسلام (ص) ۹،۱۰

يہوديت: يہوديت ميں حق و باطل كا گڈ مڈ ہونا۱۱; يہوديت كى پيروى ۱۰

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءهُمْ وَإِنَّ فَرِيقاً مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ( ۱۴۶ )

جن لوگوں كو ہم نے كتاب دى ہے وہ رسول كوبھى اپنى اولادہى كى طرح پہنچانتے ہيں _بس ان كا ايك گروہ ہے جو حق كو ديدہ وراستہ چھپا رہا ہے (۱۴۶)

۱_ اہل كتاب كو پيامبر اسلام (ص) كى نبوت پر اس طرح اطمينان تھا جيسے انہيں اپنے بيٹوں كے فرزند ہونے كا اطمينان تھا_الذين آتيناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم ظاہر مطلب يہ ہے كہ ''يعرفونہ'' كى مفعولى ضمير پيامبر اسلام (ص) كى طرف لوٹتى ہے اگر چہ يہ احتمال بھى ہے كہ يہ ضمير تبديلى قبلہ كى طرف لوٹتى ہو ليكن چونكہ '' مشبہ بہ '' بيٹے ہيں لہذا يہ احتمال درست معلوم نہيں ہوتا كيونكہ قبلہ كى شناخت كا بيٹوں كى شناخت سے كوئي تناسب و ربط نہيں بنتا_

۲_ تورات و انجيل ميں آنحضرت (ص) كى بعثت كى خوشخبرى اور آپ (ص) كى صفات بہت ہى واضح انداز ميں بيان تھيں _الذين آتيناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم يہ بيان كرنے كے بعد كہ يہود و نصارى اہل كتاب ہيں اس حقيقت كو بيان كرنا كہ وہ لوگ آنحضرت (ص) كى حقانيت سے بخوبى آگاہ تھے اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ ان كى اس شناخت كا سرچشمہ انكى آسمانى كتاب (تورات و انجيل ) تھي_

۳ _ پيامبر موعود كى خصوصيات كى پيامبر اسلام (ص) پر تطبيق و مطابقت ميں اہل كتاب كو ہرگز شك و ترديد نہ تھا_

الذين آتناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم

۴ _ بعض اہل كتاب حقيقت ( آنحضرت (ص) كى نبوت) كى شناخت كے باوجود اس كو چھپاتے تھے_و ان فريقامنهم ليكتمون الحق و هم يعلمون

۵ _ پيامبر موعود كى خصوصيات كى پيامبر اسلام (ص) پر مطابقت كا بعض اہل كتاب اعتراف كرتے اور اس كو چھپاتے نہ تھے_و ان فريقا منهم ليكتمون الحق و هم يعلمون يہ مطلب اس جملہ ''ان فريقا ...'' كے مفہوم سے ماخوذ ہے_

۵۰۶

۶_ قبلہ كى بيت المقدس سے كعبہ كى طرف تبديلى اور اسكى حقانيت كا بيان تورات و انجيل ميں تھا_*

الذين آتيناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' يعرفونہ'' كى ضمير تبديلى قبلہ كى طرف لوٹتى ہو_

۷_ تبديلى قبلہ كى حقانيت ميں اہل كتاب كو كوئي شك و ترديد نہ تھا*الذين آتيناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم

۸_ بعض علمائے اہل كتاب كو باوجود اس كے كہ مسلمانوں كے قبلہ كى حقانيت كا اطمينان تھا پھر بھى اسكو چھپاتے تھے _و ان فريقا منهم ليكتمون الحق و هم يعلمون يہ جملہ ''و ہم يعلمون'' اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ پردہ ڈالنے والے اہل كتاب كے علمائے دين تھے_

۹_ دينى مسائل پر پردہ ڈالنے والے اگر خصوصاً علماء ہوں تو سرزنش و ملامت كے سزاوار ہيں _و ان فريقاً منهم ليكتمون الحق و هم يعلمون اس جملہ '' و ان فريقا ...'' كے لب و لہجہ ميں ان لوگوں كے لئے سرزنش و ملامت ہے جو حقيقت كو درك كرنے كے باوجود اسكا انكار كرتے ہيں _

۱۰_ دينى حقائق پر پردہ ڈالنے سے اجتناب ضرورى ہے_و ان فريقا منهم ليكتمون الحق وهم يعلمون

۱۱ _ اديان كے علماء كے ليئے حقائق پر پردہ ڈالنے كے گناہ ميں مبتلا ہونے كا خطرہ موجود ہے_و ان فريقا منهم ليكتمون الحق وهم يعلمون

۲ ۱_ امام صادق سے روايت ہے كہ آپ (ص) نے فرمايا:هذه الآية نزلت فى اليهود و النصارى يقول الله تبارك و تعالى ''الذين آتيناهم الكتاب'' يعنى التوراة والانجيل (يعرفونه) يعنى رسول الله كما يعرفون ابناء هم لان الله عزوجل قد انزل عليهم فى التوراة والزبور والانجيل صفة محمد(ص) و صفتة اصحابه و مبعثه و هجرته ...; (۱)

'' يہ آيت يہود و نصارى كے بارے ميں نازل ہوئي يہ وہى لوگ تھے جن كو تورات و انجيل عطا كى گئي اور و ہ رسو ل اللہ كى بھى اپنے فرزندوں كي

____________________

۱) تفسير قمى ج/۱ص ۳۳ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۳۸ ح ۴۲۲_

۵۰۷

طرح شناخت ركھتے تھے كيونكہ اللہ تعالى نے تورات اور زبور ميں آنحضرت (ص) كى صفات، آپ (ص) كے اصحاب كى صفات ، آپ (ص) كى بعثت ، آپ (ص) كى ہجرت كا (ذكر) نازل فرمايا تھا ...''

انجيل : انجيل كى بشارتيں ۲; انجيل كى تعليمات۲

اہل كتاب: اہل كتاب اور پيامبر موعود ۳،۵; اہل كتاب اور مسلمانوں كا قبلہ ۸; اہل كتاب او ر حق كا چھپانا ۴،۸; اہل كتاب اور پيامبر اسلام (ص) ۳،۴،۵; اہل كتاب اور پيامبر اسلام (ص) كى نبوت ۱

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى تاريخ ۵; پيامبر اسلام (ص) انجيل ميں ۲،۱۲; پيامبر اسلام (ص) تورات ميں ۲،۱۲; پيامبر اسلام (ص) آسمانى كتابوں ميں ۳

تورات: تورات كى بشارتيں ۲; تورات كى تعليمات ۲

حق : حق پر پردہ ڈالنے سے اجتناب ۱۰; حق چھپانے كا گناہ ۱۱

دين: دين چھپانے سے اجتناب ۱۰; دين پر پردہ ڈالنے كى سرزنش ۹

روايت: ۱۲

سرزنش: سرزنش كے عوامل ۹

علماء : علمائے دين اور حق كا چھپانا ۹،۱۱; علمائے دين كو تنبيہ ۱۱

علمائے اہل كتاب: علمائے اہل كتاب اور حق كا چھپانا ۸

عيسائي : عيسائيوں كى پيامبر اسلام (ص) سے آگاہى ۱۲

قبلہ : اہل كتاب اور تبديلى قبلہ ۷; انجيل ميں تبديلى قبلہ ۶; تورات ميں تبديلى قبلہ ۶; تبديلى قبلہ كى حقانيت ۶،۷; مسلمانوں كے قبلہ كى حقانيت ۸

قرآن كريم : قرآنى تشبيہات۱

كعبہ : كعبہ كا قبلہ بننا ۶

يہودي: يہوديوں كى پيامبر اسلام (ص) سے آگاہى ۱۲

۵۰۸

اَلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ( ۱۴۷ )

اے رسول يہ حقآپ كے پروردگار كى طرف سے ہے لہذا آپ انشك و شبہ كرنے والوں ميں نہ ہوجائيں (۱۴۷)

۱ _ احكام اور معارف حق ہيں جو من جانب اللہ ہيں _الحق من ربك '' الحق'' ميں '' ال '' جنسيہ ہے جو استغراق كا مفہوم دے رہاہے يعنى جو كچھ حق ہے وہ اللہ تعالى كى جانب سے ہے_ البتہ مورد كى مناسبت كے اعتبار سے اصل مقصود احكام و معارف ہيں _

۲ _ بشرى قوانين كبھى بھى خالص '' حق'' نہيں رہے بلكہ ان ميں باطل امور كى آميزش رہى ہے _الحق من ربك

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' الحق'' ميں '' ال'' زيد الرجل كى طرح افراد كى خصوصيات كے استغراق كے لئے ہے_ يعنى جس چيز كى بھى تمام تر خصوصيات حق ہوں اور كسى بھى باطل شے سے نہيں مل سكتى اور وہ اللہ تعالى كى جانب سے ہے_

۳_ قبلہ كى بيت المقدس سے كعبہ كى طرف تبديلى حق ہے اور ہر طرح كے باطل و ناروا امر سے پاك ہے_الحق من ربك ماقبل آيات كى روشنى ميں '' الحق'' كا مورد نظر مصداق قبلہ كى تبديلى ہے _

۴ _ اسلام كے احكام و معارف اللہ تعالى كى ربوبيت كا پرتو ہيں _الحق من ربك

۵ _ اللہ تعالى كى جانب سے نازل شدہ احكام و معارف كو قبول كرنا ضرورى ہے اور ان ميں شك و ترديد كرنے سے اجتناب كرنا ضرورى ہے _الحق من ربك فلا تكونن من الممترين ''ممترين'' كا مصدر '' امترائ'' ہے جسكا معنى ہے شك و ترديد كرنا _

۶ _ اہل كتاب ( يہود و نصارى ) كى احكام اسلام كے خلاف تبليغى كوششيں (پراپيگنڈہ) صدر اسلام كے مسلمانوں كے اذہان ميں شك و ترديد پيدا كرنے كا باعث بنيں _الحق من ربك فلا تكونن من الممترين

فعل ''فلا تكوننَّ'' جس ميں نون تاكيد پائي جاتى ہے كے ذريعے مسلمانوں كو شك وترديد سے اجتناب كا حكم دينا اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ مسلمانوں ميں شك و ترديد كى زمين فراہم ہوچكى تھي_ ما قبل آيات سے سمجھا جاسكتاہے كہ اس شك و ترديد كا سرچشمہ اہل كتاب كى

۵۰۹

مخالفتيں تھيں _

۷_ زمانہ بعثت كے يہود و نصارى نے اپنے قبلہ كو حق ثابت كرنے اور كعبہ كى طرف قبلہ كى تبديلى كونا حق ثابت كرنے كى مسلسل كوششيں كيں _الحق من ربك فلا تكونن من الممترين

۸_ اللہ تعالى اور اسكے افعال و صفات كى معرفت اسكى طرف سے نازل ہونے والے احكام و معارف سے شك و ترديد كے خاتمے كا باعث ہے _الحق من ربك فلا تكونن من الممترين

۹_ اصبغ بن نباتہ امير المومنين علىعليه‌السلام سے روايت كرتے ہيں كہ آپعليه‌السلام نے اس آيہ مجيدہ '' الحق من ربك ...'' كے بارے ميں فرمايا ''الحق من ربك (انك الرسول اليهم) فلا تكونن من الممترين (۱)

آپ(ص) يقيناً ان كى طرف رسول( الله كے بھيجے ہوئے ) ہيں پس اس امر ميں كسى طرح كا شك و ترديد نہ كرو _

احكام: احكام كى حقانيت كے معيارات۱

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ۶،۷; اسلام كے خلاف تبليغات ۶; اسلام كا منبع ۴

اللہ تعالى : خداشناسى كے نتائج ۸; اللہ تعالى كى ربوبيت كے مظاہر ۴

بيت المقدس: بيت المقدس كا قبلہ ہونا ۳

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام(ص) كا ايمان ۹; پيامبر اسلام (ص) كى نبوت ۹

دين : دين ميں شك كرنے سے اجتناب ۵; دين قبول كرنے كى اہميت ۵; دين كى حقانيت كے معيارات ۱; دين كا سرچشمہ ۱; دين ميں شك و ترديد كے موانع ۸

روايت:۹

شبہات: شبہات كے اسباب ۶

عيسائي: عيسائيوں كى اسلام كے خلاف تبليغات۶; عيسائيوں كا قبلہ ۷; عيسائي اور صدر اسلام كے مسلمان۶

قانون: قوانين بشرى كى خصوصيات۲

____________________

۱) كافى ج/ ۲ ص ۲۸۳ ح ۱۶ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۳۸ ح ۴۲۱_

۵۱۰

قبلہ : تبديلى قبلہ كى حقانيت ۳; عيسائي اور تبديلى قبلہ ۷; يہودى اور تبديلى قبلہ ۷

كعبہ : كعبہ كا قبلہ بننا ۳

نظريہ كائنات (جہان بيني): نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ۸

يہود : يہوديوں كى اسلام كے خلاف تبليغات ۶; يہوديوں كا قبلہ ۷; يہود اور صدر اسلام كے مسلمان ۶

وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُواْ الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُواْ يَأْتِ بِكُمُ اللّهُ جَمِيعًا إِنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( ۱۴۸ )

ہر ايك كے لئے ايك رخ معيں ہے اوروہ اسى كى طرف منہ كرتا ہے _ اب تمنيكيوں كى طرف سبقت كرو اور تم سب جہاں بھى رہوگے خدا ايك دن سب كو جمع كردے گاكہ وہ ہرشے پرقادر ہے (۱۴۸)

۱_ دينى امتوں ميں سے ہر ايك كے لئے ايك خاص قبلہ ہے_ ''وجھة'' اس چيز كو كہتے ہيں جس كى طرف انسان رخ كرے_ ماقبل اور مابعد كى آيات كے قرينہ كى روشنى ميں اس سے مراد قبلہ ہے_ لفظ ''كل'' كا مضاف اليہ ''امة'' جيسا كوئي لفظ ہے_ البتہ ''ہو موليہا'' كے قرينہ سے اس سے مراد دينى امتيں ہيں _

۲ _ امتوں كے لئے قبلہ كا تعين كرنے والا اللہ تعالى ہے_و لكل وجهة هو موليها ''ہو'' كى ضمير ماقبل آيت ميں ''ربك'' كى طرف لوٹتى ہے _ ''مولّي'' كا معنى پلٹانے يا لوٹانے والا ہے اسكا پہلا مفعول ''كل امة'' ہے جو بہت واضح ہونے

كى بناپر كلام ميں نہيں آيا _ بنابريں ''ہوموليّھا'' كا معنى يہ بنتاہے اللہ تعالى ہے جو امتوں كو ايك خاص قبلہ كى طرف پلٹاتاہے ( يعنى حكم ديتاہے كہ كس سمت كو اپنا قبلہ قرار دو ) _

۳ _ تبديلى قبلہ اور اسكے تعين كے بارے ميں بحث كرنا بے جا امر ہے _و لكل وجهة هو موليها اہل كتاب كى مخالفت اور تبديلى قبلہ كے خلاف تبليغات نے مسلمانوں كے درميان اختلافات كو جنم ديا_ اس چيز كے بيان كے بعد اس حقيقت كى ياد دہانى كرانا كہ قبلہ كا متعين كرنے والا اللہ تعالى ہى ہے اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ توحيد پرستوں كوزيب نہيں ديتا كہ قبلہ كى تبديلى اور تعين كے بارے ميں بحث يا اختلاف كريں كيونكہ خداوند متعال ہے جو قبلہ كو متعين كرنے والا ہے _

۵۱۱

۴ _ اس امر كى طرف توجہ كہ قبلہ كى تبديلى اور تعين الہى افعال ميں سے ہے اسكے بارے ميں اختلاف كو ختم كرنے كا موجب ہے _و لكل وجهة هو موليها

۵ _ نيكى كے كاموں كو انجام دينا اور ان ميں سبقت كرنا ضرورى ہے _فاستبقوا الخيرات

۶ _ امتوں كى فضيلت و برترى كا معيار نيك كاموں ميں سبقت كرناہے نہ خاص قبلہ ركھنا _و لكل وجهة هو موليها فاستبقوا الخيرات '' ہو موليہا'' كے بعد اس جملہ '' فاستبقوا الخيرات'' كو لانا قبلہ كى تبديلى كے بارے ميں بحث و تمحيص اور اختلاف كے بے جا ہونے كے بارے ميں ايك اور حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ فقط قبلہ رخ ہونا ہى كافى نہيں ہے بلكہ نيك كاموں كى انجام دہى اہم ہے پس ان ميں سبقت كرو_

۷_ دين كے فروعى احكام كے بارے ميں دوسرے اديان كے پيروكاروں سے بحث،جدل اور اختلاف كرنے سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_ *لكل وجهة هو موليها فاستبقوا الخيرات

۸_ قبلہ اور فرعى احكام كے بارے ميں اختلاف اور جدل سے كام لينا نيكى كے مصاديق ميں سے نہيں ہے _لكل وجهة هو موليها فاستبقوا الخيرات

۹_ اللہ تعالى تمام انسانوں كو جہاں كہيں بھى ہوں گے ميدان محشر ميں حاضر كرے گا _اين ما تكونوا يا ت بكم الله جميعا

۱۰_ قيامت ميں تمام انسانوں كا يكبارگى اور اجتماعى طور پر حاضر ہونا _اين ما تكونوا يأت بكم الله جميعاً

۱۱ _ قيامت نيك اعمال كى جزا كا وقت ہے _فاستبقوا الخيرات اين ما تكونوا يأت بكم الله جميعاً

جملہ'' اين ما تكونوا ...'' ما قبل جملے كى تعليل ہے يعنى چونكہ تم سب كے لئے قيامت كا وقت ہے پس دنيا ميں نيك اعمال بجا لاؤ يہ علت اس

۵۱۲

مفہوم كى طرف اشارہ ہے كہ آخرت ميں انسان كى سعادت دنيا ميں نيك اعمال سے وابستہ ہے_

۱۲ _ اللہ تعالى مطلق ( لامحدود) قدرت و قوت كا مالك ہے _ان الله على كل شى قدير

۱۳ _ قيامت كو برپا كرنا اور وہاں سب انسانوں كو جمع كرنا اللہ تعالى كى لا محدود قدرت كا مظہر ہے _يأت بكم الله جميعاً ان الله على كل شيء قدير

۱۴ _ قيامت كو برپا كرنا اور وہاں سب انسانوں كو حاضر كرنا صرف ايسى ہستى كے لئے ممكن ہے جو قادر مطلق ہو _

يأت بكم الله جميعاً ان الله على كل شيء قدير

۱۵ _ قيامت اور وہاں انسانوں كے حاضر ہونے پر يقين انسان كو نيك كاموں كى انجام دہى كى ترغيب دلاتاہے_

فاستبقوا الخيرات اين ما تكونوا يأت بكم الله جميعاً

نيك كاموں كا حكم دينے كے بعد قيامت كى ياد آورى اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ انسان قيامت پر يقين اور توجہ كى وجہ سے نيك كام انجام دينے ميں سستى نہ كرے گا _

اسماء اور صفات: قدير ۱۲

اقدار: قدروں كا معيار ۶

اللہ تعالى : افعال الہى ۲،۶; قدرت الہى ۱۲; قدرت الہى كے مظاہر۱۳،۱۴

امتيں : امتوں كى فضيلت و برترى كے معيارات ۶

انسان: انسان قيامت ميں ۹،۱۰; انسانوں كا آخرت ميں محشور ہونا۹،۱۰،۱۳،۱۴

ايمان : حشر پہ ايمان كے نتائج ۱۵;قيامت پر ايمان كے نتائج ۱۵

ترغيب : ترغيب كے عوامل ۱۵

دين : فروع دين ميں مجادلہ ۷،۸

عمل : پسنديدہ عمل كى اہميت ۵،۶; اخروى عمل كى پاداش ۱۱; پسنديدہ عمل كا اجر ۱۱; پسنديدہ عمل كى زمين فراہم ہونا ۱۵; ناپسنديدہ عمل ۸; عمل كے نتيجے كا وقت ۱۱

۵۱۳

قبلہ : قبلہ كے بارے ميں بحث و گفتگو ۳; امتوں كا قبلہ ۱،۲; قبلہ كے بارے ميں جدل ۸; قبلہ كے تعين كا سرچشمہ ۲،۴; قبلہ كى تبديلى كا سرچشمہ ۴

قيامت : قيامت كا برپاہونا ۱۳، ۱۴; قيامت كى خصوصيات ۱۱

كردار: كردار كى بنياديں ۱۵

گفتگو: بے جا گفتگو ۳

مجادلہ : ناپسنديدہ مجادلہ ۴،۷

نظريہ كائنات ( جہان بيني): نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ۱۵

نيكى : يكى ميں سبقت ۵،۶

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ( ۱۴۹ )

پيغمبر آپجہاں سے باہر نكليں اپنا رخ مسجدالحرام كيسمت ہى ركھيں كہ يہى پروردگار كى طرف سےحق ہے اور الله تم لوگوں كے اعمال سے غافلنہيں ہے (۱۴۹)

۱ _ پيامبر اسلام (ص) كے ليئے مسجد الحرام كو قبلہ قرار دينا اللہ تعالى كى جانب سے ہے_ ومن حيث خرجت فول وجهك شطر المسجد الحرام و انه للحق من ربك

۲ _ پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى قرار دى گئي كہ وہ اعمال جو قبلہ رخ انجام دينے ضرورى ہيں ان كو مسجد الحرام كے رخ ادا كريں _و من حيث خرجت فول وجهك شطر المسجد الحرام

۳ _ مسجد الحرام كو قبلہ كے طور پر متعين كرنا حق ( با حكمت او ر بجا حكم ) ہے جو اللہ تعالى كى جانب سے ہے_

و انه للحق من ربك

۴ _ وہ اعمال جن ميں قبلہ رخ ہونا شرط ہے ان ميں مسجد

۵۱۴

الحرام كى جہت اور سمت كى طرف رخ كرنا كافى ہے _فول وجهك شطر المسجد الحرام

يہ واضح ہے كہ مسجد الحرام يا كعبہ ہى قبلہ ہے پس ''شطر'' كا لفظ لانا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ جن اعمال ميں قبلہ رخ ہونا شرط ہے ضرورى نہيں ايك براہ راست، مستقيم يا سيدھا خط كھينچا جائے جو كعبہ كے بالكل روبرو ہو بلكہ اس سمت اور جہت كى طرف رخ كرناكافى ہے جس ميں كعبہ يا مسجد الحرام ہے _

۵ _ مسجد الحرام كو قبلہ كے طور پر متعين كرنا پيامبر اسلام (ص) پر اللہ تعالى كى ربوبيت كا پرتو ہے اور يہ عمل آنحضرت (ص) كے اہداف كى تكميل كے لئے تھا_و انه للحق من ربك لفظ '' رب _ (تربيت كرنے والا' مدبر) كى ضمير ''ك'' كى طرف اضافت جو آنحضرت (ص) كو خطاب ہے ممكن ہے اس معنى كى طرف اشارہ ہو كہ تبديلى قبلہ آنحضرت (ص) كے امور ( رسالت كے اہداف) كى تدبير كے لئے ہے_

۶ _ اللہ تعالى ہرگز انسانوں كے اعمال سے غافل نہيں ہے_و ما الله بغافل عما تعملون

۷_ اللہ تعالى كى سزا ان لوگوں كے انتظار ميں جو احكام الہى (مثلاً مسجد الحرام كو قبلہ قرار دينا ) كى مخالفت كرتے ہيں _

و ما الله بغافل عما تعملون بندوں كے اعمال پر اللہ تعالى كى نظارت كے ذكر كرنے كا ہدف ان لوگوں كو دھمكى دينا ہے جو احكام الہى كى مخالفت كرتے ہيں _

۸_ مسلمانوں كے مابين فرمان خدا ( تبديلى و تعيين قبلہ) كى نافرمانى كى آمادگى پائي جاتى ہے _و ما الله بغافل عما تعملون

ظاہراً '' تعملون'' كا مورد خطاب مسلمان ہيں _ پس يہ جو مسلمانوں كو دھمكى دى گئي ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ مسلمانوں كے درميان ايسے افراد تھے جو نئے قبلہ ميں شك و ترديد سے دوچار تھے يا پھر مخالفت كے در پے تھے_

احكام : ۲،۴

اسماء اور صفات: جلالى صفات۶

اللہ تعالى : افعال الہى ۱; حكمت الہى ۳; اللہ تعالى اور غفلت ۶; الہى سزائيں ۷; ربوبيت خدا كے مظاہر ۵

انسان: انسانى عمل سے آگاہى ۶

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام كے اہداف ۵; پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارياں ۲

دين : دين كى مخالفت كى سزا ۷

۵۱۵

سزا : سزا كے موجبات ۷

قبلہ : قبلہ كے احكام ۲،۴; قبلہ كى جہت ۴; قبلہ كے تعين كا منبع ۱،۳، ۸

مسجد الحرام : كے قبلہ بننے كا فلسفہ ۳; مسجد الحرام كا قبلہ ہونا ۲،۴; مسجد الحرام كا قبلہ بننا ۱،۵; مسجد الحرام كے قبلہ بننے كى مخالفت ۷

مسلمان : مسلمانوں كى نافرمانى كى زمين فراہم ہونا ۸

نافرمانى : اللہ تعالى كى نافرمانى ۸

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلاَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ( ۱۵۰ )

اور آپ جہاں سے بھى نكليں اپنا رخ خانہ كعبہ كى طرف ركھيں اور پھرتم سب جہاں رہو تم سب بھى اپنا رخ ادھرہيركھو تا كہ لوگوں كے لئے تمھارے اوپركوئي حجت نہ رہ جائے سوائے ان لوگوں كےكہ جو ظالم ہيں تو ان كا خوف نہ كرو بلكہالله سے ڈرو كہ ہم تم پر اپنى نعمت تمامكردينا چاہتے ہيں كہ شايد تم ہدايت يافتہہوجاؤ(۱۵۰)

۱ _ مسجد الحرام آنحضرت (ص) اور تمام مسلمانان عالم كا قبلہ ہے _و من حيث و حيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره

مسجد الحرام كے قبلہ بننے كى حقانيت ۳; مسجد الحرام

۲ _ مسجد الحرام كسى خاص علاقے يا كسى خاص گروہ كا قبلہ نہيں ہے _و حيث ما كنتم فولوا و جوهكم شطره

۵۱۶

۳ _ جن اعمال ميں قبلہ رخ ہونا شرط ہے كافى ہے كہ مسجد الحرام كى جہت و سمت كى طرف منہ كيا جائے_

فول وجهك شطر المسجد الحرام و حيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره يہ مطلب كلمہ '' شطر'' كہ جو سمت اور جہت كے معنى ميں ہے ، سے مستفاد ہے _

۴ _ بيت المقدس كے مسلسل قبلہ كے طور پر رہنے سے مخالفين اسلام كو آنحضرت (ص) اور مسلمانوں كے خلاف دليل و حجت مل جاتى _فول وجهك فولوا وجوهكم شطره لئلا يكون للناس عليكم حجة

۵ _ قبلہ كى بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف تبديلى سے مخالفين اسلام و مسلمين كا پراپيگنڈہ نقش بر آب ہوگيا _

فول وجهك شطر المسجد الحرام لئلا يكون للناس عليكم حجة

۶ _ دشمنان اسلام كے تبليغاتى نقشوں كو ختم كرنا مسلمانوں كے ضرورى فرائض ميں سے ہے _لئلا يكون للناس عليكم حجة

۷_ بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف قبلہ كى تبديلى سابقہ اديان ميں مذكور پيامبر موعود كى حقانيت كے دلائل ميں سے ہے _فول وجهك شطر المسجد الحرام لئلا يكون للناس عليكم حجة '' لئلا يكون'' كى تعليل بيان كررہى ہے كہ مسلمانوں كا سابق قبلہ (بيت المقدس) پر باقى رہنا باعث بنتا كہ مخالفين اسلام پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت اور مسلمانوں كے خلاف دليل قائم كريں _ بنابرايں تبديلى قبلہ كو گذشتہ آسمانى كتابوں ميں پيامبر موعود كى حقانيت كے دلائل يا نشانيوں ميں سے ہونا چاہيئے_

۸ _ كعبہ كے مسلمانوں كے قبلہ كے طور پر متعين ہونے سے بعض مخالفين پر پيامبر اسلام(ص) كى حقانيت واضح ہوگئي_لئلا يكون للناس عليكم حجة الا الذين ظلموا منهم ظالمين كے لئے حجت اور دليل كا وجود _ جو جملہ استثنائيہ كا مفاد ہے _اس اعتبار سے نہيں ہے كہ ظالموں كے پاس مسلمانوں كے خلاف كوئي دليل ہے بلكہ اس سے مراد مخالفين كى دو گروہوں ميں تقسيم ہے _ ايك وہ گروہ جو ظلم و ستم كے بناپر پيامبر اسلام (ص) كى مخالفت كرتاہے اور دوسرا گروہ وہ ہے جو شبہ كى بناپر مخالفت كرتاہے پہلا گروہ قبلہ تبديل ہوتا يا نہ ہوتا اپنى مخالفت اور دشمنى كو ہر صورت جارى ركھتا _ دوسرا گروہ پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت كو درك كركے پراپيگنڈا يا تبليغات سوء كو چھوڑ ديتا_

۹_ مسجد الحرام كے قبلہ كے طور پر متعين ہونے كے بعد فقط ظالمين تھے جو ٹسووں ، بہانوں سے دستبردار نہ ہوئے اور مسلمانوں كے خلاف اپنى دشمنى كو جارى ركھا_لئلا يكون للناس عليكم حجة الا الذين ظلموا منهم

۵۱۷

۱۰_ اہل ايمان كو دشمنان دين سے ہرگز نہيں ڈرنا چاہيئے_فلا تخشوهم

۱۱_ مسلمانوں كو دشمنان دين كے خوف اور ان سے احساس خطر كے بہانے احكام الہى كے اجرا كرنے ميں كوتاہى نہيں كرنى چاہيئے_فولوا وجوهكم شطره الا الذين ظلموا منهم فلا تخشوهم

۱۲ _ مسلمانوں كو احكام الہى پر عمل كرنے اور اپنے برحق موقف كے حوالے سے دشمنوں كے پراپيگنڈے، جنجال اور تبليغات سے خوفزدہ نہيں ہونا چاہيئے_فلا تخشوهم

۱۳ _ صر ف اللہ تعالى سے ڈرنے كى ضرورت ہے اور اسكے احكام كى مخالفت سے اجتناب كرنا چاہيئے_واخشوني

۱۴ _ اللہ تعالى سے ڈر اور خوف ہے جو اسكے احكام پر عمل كرنے كے لئے راہ ہموار كرتاہے_فولوا وجوهكم شطره فلا تخشوهم واخشوني

۱۵ _ بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف تبديلى قبلہ نے مسلمانوں پر اللہ كى نعمت كے تمام ہونے كى راہ ہموار كى _

فولوا وجوهكم شطره لاتم نعمتى عليكم يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' لاتم نعمتي ...'' ، '' لئلا يكون ...'' پر عطف ہو نتيجتاً '' لاتم ...'' جملہ '' فولوا وجوہكم شطرہ'' كے لئے ہدف اورغايت كا بيان ہوگا_

۱۶_ مسلمانوں كے لئے خصوصى ہدايت كى فراہمى كى زمين كا ہموار ہونا مسجد الحرام كے انكے لئے قبلہ كے طور پر متعين ہونے كے اہداف ميں سے ہے _فولوا وجوهكم شطره لعلكم تهتدون

آيہ مجيدہ كے مخاطبين مسلمان ہيں اور وہ اپنے اسلام پر ايمان كى وجہ سے ہدايت يافتہ ہيں اس سے معلوم ہوتاہے كہ '' تھتدون'' ميں بيان شدہ ہدايت سے مراد پہلى ہدايت كى نسبت ايك كاملتر اور مخصوص ہدايت ہے _

۱۷ _ بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف تبديلى قبلہ كا واقعہ تاريخ اسلام ميں بہت ہى اہم اور تاريخ ساز ہے _

و من حيث خرجت فول وجهك شطر المسجد الحرام و لعلكم تهتدون قبلہ كى تبديلى اور تعين كے بارے ميں متعدد آيات كا نزول ، ''فول ...'' كے فرمان كا تكرار (آيات ۱۴۴ ، ۱۴۹ ، ۱۵۰) اور اس سے پيامبر اسلام (ص) كو مخاطب قرار دينا نيز ''قولوا وجوہكم شطرہ'' كے ذريعے مسلمانوں كو بار بار مخاطب قرار دينا (آيات ۱۴۴ ، ۱۵۰) خاص اہميت كا حامل ہے اوراس سے قبلہ كے تعين و تبديلى كى اہميت واضح ہوتى ہے _ اسى طرح قبلہ كے لئے جو بنيادى احكام بيان كئے گئے ہيں وہ اس كے تاريخ ساز ہونے پر دلالت كرتے ہيں _

۵۱۸

۱۸ _ ہدايت كے مختلف مراحل اور درجات ہيں _و لعلكم تهتدون

'' لعلكم ...'' كا خطاب چونكہ مسلمانوں كے لئے ہے جبكہ وہ ہدايت كا ايك مرحلہ طے كرچكے ہيں اس سے معلوم ہوتاہے كہ '' تھتدون'' كى ہدايت سے مراد اسكا ايك بالاتر مرحلہ ہے اس سے روشن ہوتاہے كہ ہدايت كے مختلف مراحل ہيں _

۱۹_ جناب ابن عباس سے روايت كہ آنحضرت (ص) نے فرمايا:'البيت قبلة لاهل المسجد و المسجد قبلة لاهل الحرم و الحرم قبلة لاهل الأرض فى مشارقها و مغاربها من امتى ''(۱) كعبہ مسجد الحرام والوں كے لئے قبلہ ہے ، مسجد الحرام اہل حرم (مكہ اور اسكے اطراف كے مقامات ميں رہنے والوں ) كے لئے قبلہ ہے اور حرم اہل زمين كے مشرق و مغرب ميں رہنے والے ميرى امت كے تمام افراد كے لئے قبلہ ہے_

احكام : ۱،۳،۱۹

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ۱۷ دشمنان اسلام كا پراپيگنڈا۵; دشمنان اسلام كے دلائل ۴

اللہ تعالى : اوامر الہى كى مخالفت سے اجتناب ۱۳; نعمات الہى ۱۵

انبياءعليه‌السلام : اديان ميں پيامبر موعود ۷

بيت المقدس: بيت ا لمقدس كے مسلسل قبلہ رہنے كے آثار۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام كى حقانيت كے دلائل ۷،۸;اديان ميں پيامبر اسلام (ص) ۷

ترغيب: ترغيب كے عوامل ۱۴

تكليف شرعي: تكليف شرعى پر آمادگى ۱۴; تكليف شرعى پر عمل ميں قاطعيت ۱۱،۱۲; تكليف شرعى پر عمل ميں كوتاہى كرنا ۱۱

خوف : خوف خدا كے نتائج ۱۴; خوف خدا كى اہميت ۱۳ ; دشمنوں سے خوف ۱۰،۱۱،۱۲; پسنديدہ خوف ۱۴; ناپسنديدہ خوف ۱۰،۱۲

دشمن: دشمنوں كا پراپيگنڈا ۱۲; دشمنوں كو پراپيگنڈے سے روكنا ۶

روايت:۱۹

____________________

۱) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۳۵۵_

۵۱۹

ظالمين : ظالموں كى بہانہ تراشياں ۹; ظالموں كى دشمنى ۹

قبلہ : تبديلى قبلہ كے نتائج ۵،۸،۱۵; قبلہ كے احكام ۱،۳،۱۹; تبديلى قبلہ كى اہميت ۱۷; اديان ميں تبديلى قبلہ ۷; قبلہ كى جہت ۳; اہل حرم كا قبلہ ۱۹; اہل مكہ كا قبلہ ۱۹; پيامبر اسلام كا قبلہ ۱; مكہ سے دور رہنے والوں كا قبلہ ۱۹; مسلمانوں كا قبلہ ۱

مسجد الحرام : مسجد الحرام كے قبلہ بننے كے نتائج ۸،۹،۱۵; مسجد الحرام كے قبلہ بننے كا فلسفہ ۱۶; مسجد الحرام كا قبلہ ہونا ۱،۲،۳; مسجد الحرام كا قبلہ بننا۱۷

مسلمان: مسلمانوں كے دشمن ۹; مسلمانوں كى ذمہ دارى ۶،۱۲; مسلمانوں كى نعمتيں ۱۵;مسلمانوں كى ہدايت ۱۶

مؤمنين: مومنين كى ذمہ دارى ۱۰،۱۱

نعمت: نعمت كى تكميل كا پيش خيمہ ۱۵

ہدايت:

ہدايت كى راہ ہموار ہونا ۱۶; ہدايت كے مراتب ۱۸; وہ لوگ جن كو خصوصى ہدايت ميسر آتى ہے ۱۶; خصوصى ہدايت ۱۴

كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ ( ۱۵۱ )

جس طرح ہم نے تمھارے در ميانتمھيں ميں سے ايك رسول بھيجا ہے جو تم پرہمارى آيات كى تلاوت كرتا ہے تمھيں پاك وپاكيزہ بناتا ہے اور تمھيں كتاب و حكمتكى تعليم ديتا ہے اور وہ سب كچھ بتاتا ہےجو تم نہيں جانتے تھے (۱۵۱)

۱_ حضرت محمد (ص) ، اللہ تعالى كى جانب سے مبعوث ہوئے_كما ارسلنا فيكم رسولا

۲ _ آنحضرت (ص) ، لوگوں ميں رسول مبعوث ہوئے اور انہى ميں سے تھے_كما ارسلنا فيكم رسولاً منكم

۳ _ بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف تبديلى قبلہ رسالت كى نعمت كے ہمراہ ايك بڑى نعمت ہے _

فولوا وجوهكم شطره لعلكم تهتدون، كما ارسلنا فيكم رسولا يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''كما'' ميں ''كاف'' تشبيہ كے لئے ہو پس تبديلى قبلہ جو ماقبل آيت ميں مذكور ہے ''مشبہہ'' ہے اور پيامبر كى بعثت ''مشبہہ بہ '' ہے قبلہ كو رسالت كى نعمت سے تشبيہ دينا اس مسئلے كى عظمت اور اس نعمت كى بزرگى كى دليل ہے _

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689