البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن5%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313929 / ڈاؤنلوڈ: 9312
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

۷۔ ابوحرب بن ابی اسود اپنے والد سے نقل کرتا ہے:

''ابو موسیٰ اشعری نے بصرہ کے قاریوں کی دعوت کی اور یہ تین سو افراد تھے جو کہ سب کے سب قاری تھے۔ جب یہ لوگ ابو موسیٰ کے گھر میں داخل ہوئے تو ابو موسیٰ نے ان سے کہا: دیکھو! تم بصرہ کے نیک اور قاری حضرات ہو، قرآن کی تلاوت کرو اور لمبی لمبی آرزوئیں نہ رکھو تا کہ تم کہیں قسی القلب نہ ہوجاؤ۔ جس طرح تم سے پہلے کے لوگ قسی القلب ہوگئے تھے۔ہم ایک سورۃ پڑھا کرتے تھے جو طویل اور سخت لہجے کے اعتبار سے سورہ براءت کی مانند تھا، لیکن اب میں اسے بھول چکا ہوں۔ اس میں سے مجھے صرف اتنا یاد ہے:''لو کان لابن آدم و ادیان من مال لابتغی و ادیاً ثالثا ولا یملا جوف ابن دم الا التراب،، اس کے علاوہ ہم ایک اور سورۃ بھی پڑھا کرتے تھے جو ''مسبحات،، کی مانند تھا۔ اسے بھی بھول چکا ہوں اور اس میں سے مجھے صرف اتناد یاد ہے:یا أیها الذین آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون، فتکتب شهادة فی أعناقکم فتسألون عنها یوم القیامة ۔،، (۱)

۸۔ زر روایت کرتا ہے کہ اُبیّ ابن کعب نے مجھ سے کہا:

''تم سورۃاحزاب میں کتنی آئتیں پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: تہتر آیات۔ اس نے کہا: ایسا نہیں ہے بلکہ اس کی آئتیں سورۃ بقرہ جتنی یا اس سے بھی زیادہ تھیں۔،،(۲)

۹۔ ابن ابی داؤد اور ابن انباری نے ابن شہاب سے روایت کی ہے کہ ابن شہاب نے کہا:

''ہم نے سنا تھا کہ بہت سارا قرآن نازل ہوا تھا لیکن علماء و حافظ قرآن جنگ یمامہ میں قتل ہوگئے جس کی وجہ سے قرآن کا ایک بڑا حصہ لکھا نہ جاسکا اور ضائع ہوگیا۔،،(۳)

۱۰۔ عمرۃ نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۳، ص ۱۰۰۔

(۲) منتخب کنز العمال باحاشیہ مسند احمد، ج ۲، ص ۴۳۔

(۳) ایضاً، ص ۵۰۔

۲۶۱

جو لوگ نسخ تلاوت کے قائل ہیں اگر ان کی مراد یہ ہے کہ خود پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نسخ واقع ہوا ہے تو یہ دلیل کا محتاج ہے۔ اسے ثابت کرنا پڑے گا اور تمام علماء کرام کا اتفاق ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ کتاب (قرآن) جائز نہیں ہے۔ چنانچہ علماء کی ایک جماعت نے کتب اصول وغیرہ(۱) میں اس بات کی تصریح کی ہے۔ بلکہ شافعی اوراس کے اکثر پیروکار اور ایسے علماء جو ظاہر قرآن پر عمل کرتے ہیں، خبر متواتر کے ذریعے بھی نسخ کتاب (قرآن) کو جائز نہیں سمجھتے۔

ایک اور نقل کے مطابقاحمد بن جنبل کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ بعض علماء ایسے ہیں جو خبر متواتر کے ذریعے نسخ کتاب کو جائز تو سمجھتے ہیں لیکن اس کے وقوع پذیر ہونے کے قائل نہیں ہیں۔(۲)

بنابرایں خبر واحد کی بنیاد پر نسخ کتاب کو رسول اسلامؐ کی طرف منسوب کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ نسخ کتاب نسبت رسول کرمؐ کی طرف دینا ان روایات کے منافی بھی ہے جن کے مطابق قرآن کا کچھ حصہ آپ کے بعد ضائع ہوگیا ہے۔

اور اگر مراد یہ ہو کہ نسخ تلاو، رسول کریمؐ کے بعد ان لوگوں سے ہوا ہے جو برسراقتدار تھے تو یہ عیناً تحیرف ہے۔ بنابرایں یہ کہا جاسکتا ے کہ علماء اہل سنت کی اکثریت تحریف کی قائل ہے۔ کیونکہ ان کی اکثریت نسخ تلاوت کی قائل ہے۔ چاہے نسخ تلاوت کے ساتھ آیہ کے حکم کو بھی نسخ کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔

چنانچہ بعض علماء اہل سنت میں سے ماہرین علم اصول اس مسئلہ میں تردد سے کام لیتے ہیں کہ آیا مجنب کے لیے نسخ شدہ آیات کی تلاوت یا محدث کے لیے انہیں چھونا جائز ہے؟ بعض کے نزدیک نسخ شدہ آیات کو پڑھنا اور چھونا جائز نہیں ہے۔ البتہ! بعض معتزلہ کا یہ نظریہ ہے کہ نسخ تلاوت جائز نہیں ہے۔(۳)

____________________

(۱) الموافقات لابی اسحاق الشاطبی، ج ۳، ص ۱۰۶ طبعۃ المطبعۃ الرحمانیۃ بمصر۔

(۲) الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی، ج ۳، ص ۲۱۷۔

(۳) ایضاً، ص ۲۰۱۔۲۰۳۔

۲۶۲

مقام تعجب ہے کہ علمائے اہل سنت کی ایک جماعت تحریف کے قول کو کسی بھی سنی عالم کی طرف نسبت دینے پر راضی نہیں ہے۔ حتی کہ آلوسی نے صاحب ''مجع البیان،، طبرسی کی اس بات کی تکذیب کی ہے کہ سنیوں کا ایک فرقہ ''حشویہ،، تحریف کا قائل ہے۔ آلوسی کہتا ہے: ''علماء ال سنت میں سے کوئی بھی تحریف کا قائل نہیں ہے۔،،

اس سے زیادہ تعجب آلوسی کی اس بات پر ہوتا ہے کہ طبرسی تحریف کا انکار کرکے اپنے ہم مسلک دوسرے علمائے شیعہ پر عقیدہئ تحریف جو دھبہ لگا ہے اس کو چھپانہ چاہتا ہے۔(۱) حالانکہ گذشتہ مباحث میں یہ بتا ثابت ہوچکی ہے کہ شیعوں میں مشہور قول یہی ہے اور شیعہ علماء و محققین کا اتفاق ہے کہ تحریف نہیں ہوئی بلکہ مرحوم طبرسی نے اپنی تفسیر ''مجمع البیان،، میں عدم تحریف پر سید مرتضیٰ علم الہٰدی کے طویل کلام اور ان کی محکم دلیل کو بھی نقل فرمایا ہے۔

تحریف، قرآن کی نظر میں

اس تمہیدی بحث کے بعد ہم اصل مطلب کی طرف آتے ہیں:

حق یہی ہے کہ تحریف متنازعہ فیہ معنو ںمیں قرآن میں بالکل واقع نہیں ہوئی ذیل میں ہم عدم تحریف پر دلائل پیش کرتے ہیں۔

( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) ۱۵:۹

''بیشک ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی تو اس کے نگہبان بھی ہیں۔،،

یہ آیہ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن محفوظ ہے اور کوئی بھی مجرم اس میں کسی قسم کی کمی کرنے یا اس سے کھیلنے کی جسارت نہیں کرسکا۔ البتہ جو حضرات تحریف کے قائل ہیں انہوں نے اس آیہ کی چند تاویلیں کی ہیں:

____________________

(۱) روح المعانی، ج ۱، ص ۲۴۔

۲۶۳

i ۔ اس آیہ شریفہ میں ذکر سے مراد خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ذات ہے اور قرآن میں ذکر، رسول کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( قَدْ أَنزَلَ اللَّـهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا ) ۶۵:۱۰

''خدا نے تمہارے لیے ذکر نازل کیا (اور)

( رَّسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّـهِ ) :۱۱

''اپنا رسول بھیج دیا ہے جو تمہارے سامنے واضح آیتیں پڑھتا ہے۔،،

بنابرایں مذکورہ آیات کا ترجمہ یہ ہوگا:

''ہم نے رسول بھیجا اور اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔،،

جواب: اس تاویل کا بطلان صاف ظاہر ہے۔ اس لیے کہ دونوں آیات میں ذکر سے مراد قرآن ہے نہ کہ رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کیذات۔ اس لیے کہ ان ایتوں میں ''تنزیل،، اور ''انزال،، کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو قرآن سے مناسبت رکھتے ہیں۔ اگر ذکر سے مراد رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ذات ہوتی تو ''انزال،، کی بجائے ''ارسال،، یا ''ارسال،، کے معنی سے ملتا جلتا کوئی دوسرا لفظ استعمال ہوتا۔ اس کے علاوہ اگر دوسری آیہ (۶۵:۱۰) میں یہ احتمال (ذکر بمعنی رسول ) صحیح بھی ہو تو پہلی آیہ (۹۵:۹) میں ذکر بمعنی رسول نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس سے پہلے یہ آیہ ہے:

( وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ ) ۱۵:۶

''(اے رسول کفارمکہ تم سے) کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس کو (یہ سودا ہے) کہ اس پر وحی او رکتاب نازل ہوئی ہے۔ تو تو (اچھا خاصا) سڑی ہے۔،،

۲۶۴

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا کہ اس آیہ شریفہ میں ذکر بمعنی قرآن ہے اور یہ اس بات کا قرینہ اور موید ہے کہ بعد والی آیہ (آیہ حفظ) میں بھی ذکر سے مراد قرآن ہے۔

ii ۔ دوسری تاویل یہ کی جاتی ہے کہ اس آیہ میں حفظ سے مراد، قرآن کا ہر قسم کے اعتراضات اور تنقیدوں سے محفوظ رہنا ہے اور قرآن کے بلند معانی اور تعلیمات باطل نہیں ہوسکتیں۔

جواب: اس تاویل کا باطل ہونا پہلے سے بھی زیادہ آشکار ہے۔ کیونکہ اگر اعتراض سے مراد یہ ہو کہ قرآن کفار کی تنقیدوں سے محفوظ ہے تو یقیناً یہ باطل ہے۔ ا س لیے کہ کفار کی طرف سے قرآن پر اتنے اعتراضات ہوئے ہیں ک ہجن کا شمار نہیں ہوسکتا۔

اگر اعتراض سے مراد یہ ہو کہ قرآن کی روش و اسلوب اتنا مستحکم و منفرد ہے کہ کوئی معترض اس پر صحیح و بجا اشکار نہیںکرسکتا اور کسی کے شک و تردد سے اس میں کسی قسم کا تزلزل نہیں آسکتا تو یہ بات اپنے مقام پر صحیح ہے لیکن یہ نزول قرآن کے بعد اس کے تحفظ سے مربوط نہیں ہے۔ جیسا کہ آیہ کا مفہوم ہے ۔ کیونکہ قرآن اپنی خصوصیات کے اعتبار سے خود اپنا محافظ ہے اور اس کے لیے وہ کسی دوسرے محافظ کا محتاج نہیں ہے۔ چنانچہ آیہ کا مفہوم بھی یہی ہے کہ نزول قرآن کے بعد اس کا تحفظ اللہ کے ذمے ہے۔

iii ۔ تیسری تاویل یہ کی گئی ہے کہ آیہ کریمہ میں قرآن سے مراد قرآن کے تمام نسخے نہیں بلکہ فی الجملہ کوئی قرآنی نسخہ ہے۔ بنابرایں ممکن ہے آیہ شریفہ اس قرآن کی طرف اشارہ کررہی ہو جو حضرت ولی عصر(ع) کے پاس محفوظ ہے۔

جواب: یہ احتمال تمام احتمالات سے زیادہ ناقابل توجہ ہے۔ کیونکہ اگر قرآن محفوظ ہے تو اسے جن کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ یعنی عام لوگوں کے لیے محفوظ رہنا چاہیے۔ صرف امام(ع) کے پاس محفوظ رہنا تو ایسا ہی ہے جیسے لوح محفوظ میں محفوظ ہو یا ایک فرشتے کے پاس محفوظ ہو۔ یہ ایک بے ربط مطلب لگتا ہے اور یہ ایسا ہے کہ جیسے کوئی کہے میں نے آپ کو ایک تحفہ بھیجا ہے اور وہ میرے یا میرے کسی خاص آدمی کے پاس محفوظ ہے۔

۲۶۵

یہ قول انتہائی تعجب خیز ہے کہ آیہ کریمہ میں حفظ قرآن سے مراد کسی ایک قرآنی نسخے کی حفاظت ہے، تمام قرآنی نسخوں کی حفاظت نہیں۔ گویا کہ یہ لوگ اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ذکر سے مراد وہ قرآن ہے جو تحریر میں آجائے یا جس کا تلفظ کیا جائے اور اس کے متعدد نسخے بنے ہوں، حالانکہ ذکر سے مراد یہ نہیں ہے کیونکہ قرآن مکتوب یا قرآن ملفوظ کو کوئی دوام حاصل نہیں ہے۔ بنابرایں آیہ حفظ سے قرآن مکتوب مراد نہیں لیا جاسکتا۔

ذکر سے مراد وہ مطالب، معانی و مفاہیم ہیں جن کو قرآن مکتوب یا قرآن ملفوظ کے ذریعے ادا کیا جائے اور یہی وہ معانی ہیں جو رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نازل کیے گئے ہیں اور اس کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ خالق نے اس کو مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں کھلونا بننے اور ضائع ہونے نہیں دیا اور عام انسانوں کی اس تک رسائی ہوسکتی ہے۔ یہ ایسا ہے جیسا کہ ہم یہ کہیں کہ فلاں شاعر اور قصیدہ اور کلام محفوظ ہے۔ اس کا مطلن یہی ہوتا ہے کہ یہ کلام محفوظ ہے اور ضائع نہیں ہوا بایں معنی کہ اس تک بہرحال رسائی حاصل ہوسکتی ہے۔

ہاں! اس مقام پر ایک اور شبہ موجود ہے، جس کے ذریعے عدم تحریف پر آیہ کریمہ سے استدلال کو ردّ کیا جاتا ہے۔ اس شبہ کا خلاصہ یہ ہے کہ فریق مخالف جو تحریف کا مدعی ہے وہ اس (زیر بحث) آیہ شریفہ میں بھی تحریف کا احتمال دیتا ہے کیونکہ یہ بھی اس قرآن ہی کا حصہ ہے جس میں تحریف واقع ہوئی ہے بنابرایں جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی اس آیہ شریفہ سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا۔

اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ اس میں وہی لوگ مبتلا ہوسکتے ہیں جنہوں نے عترت پیغمبرؐ ک وخلافت الہٰیہ سے محروم کر دیا(۱) اور انؑ کے اقوال و افعال پر ایمان نہیں لائے۔ ان لوگوں کے پاس اس شبہ کا کوئی حل نہیں ہے۔

____________________

(۱) جی چاہتا ہے یہ عرض کروں: جنہوں نے خلافت الہٰیہ کو عترت پیغمبر(ص) سے محروم کردیا۔(مترجم)

۲۶۶

لیکن جو لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ عترت پیغمبرؐ مخلوق پر حجت خدا اور وجوب اطاعت میں قرآن کے ہم پلّہ ہے ان کے نزدیک یہ شبہ بے وزن ہے۔ کیونکہ عترت پیغمبرؐ کا موجودہ قرآن سے استدلال کرنا اور اپنے اصحاب کے استدلال پر راضی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ موجودہ قرآن حجت اور واجب العمل ہے، اگرچہ کوئی ا س کی تحریف کا قائل ہو۔ البتہ تحریف کی صورت میں کتاب اس وقت حجت ہوگی جب عترت پیغمبرؐ اس کی تائید و تصدیق کرے۔

۲۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ ) (۴۱:۴۱)

''اور یہ قرآن تو یقینی ایک عالی رتبہ کتاب ہے۔،،

( لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ) (:۴۲)

''کہ جھوٹ نہ تو اس کے آگے ہی پھٹک سکتا ہے او رنہ اس کے پیچھے سے اور خوبیوں والے دانا (خدا) کی بارگاہ سے نازل ہوتی ہے۔،،

اس آیہ شریفہ کا مفہوم یہ ہے کہ باطل کی تمام قسمیں قرآن مجید سے دور ہےں۔ ا س لیے کہ جب کسی چیز کے اصل وجود کی نفی کی جائے تو اس کی تمام قسموں اور مصادیق کی نفی ہوجاتی ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تحریف باطل کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ لہٰذا یہ قرآن کے نزدیک بھی نہیں جاسکتی۔

اعتراض: ہماری اس دلیل پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آیہ کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے احکام میںکسی قسم کی تناقض گوئی نہیں ہے اور اس کی کوئی خبر جھوٹی نہیں ہوسکتی، چنانچہ اس تاویل کی تائید میں علی بن ابراہیم قمی کی روایت پیش کی جاتی ےہ جو انہوں نے اپنی تفسیر میں امام باقر(ع) سے روایت کی ہے۔ امام(ع) نے فرمایا:

۲۶۷

''لا یاتیه الباطل من قبل التوراة ولا من قبل الانجیل، و الزبور، ولا من خلفه ای لاتیه من بعده کتاب یبطله،،

''نہ تو قرآن تورات، انجیل اور زبور کے ذریعے باطل قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ قرآن کے بعد کوئی ایسی کتاب آسکتی ہے جس سے قرآن باطل ہوجائے۔،،

اس کے علاوہ مجمع البیان کی روایت بھی بطور ثبوت پیش کی جاتی ے جو امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہما السلام) سے مروی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

''لیس فی اخباره عما مضی باطل، ولا فی اخباره عما یکون فی المستقبل باطل،،

''نہ قرآن کی گذشتہ سے متعلق خبروں میں باطل کا شائبہ ہے اور نہ مستقبل سے متعلق پیشگوئیوں میں۔،،

جواب: اس روایت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ باطل صرف اسی چیز میں منحثر ہے جس کا روایت میں ذکر ہے تاکہ آیہ شریفہ باطل کی تمام قسموں کی نفی کرسکے۔ خصوصاً جب ہم ان روایات کو دیکھتے ہیں جو یہ کہتی ہےں کہ قرآن کے معانی اور مفاہیم کسی خاص زمان یا مکان سے مختص نہیں بلکہ یہ ہر دور، ہر مکان اور ہر موقع کے لیے ہیں۔ بنابرایں آیہ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن ہر دور میں باطل کی تمام اقسام سے منزہ و مبّرا رہا ہے۔ لہذا قرآن کو تحریف سے بھی پاک ہونا چاہیے جو باطل کی ایک اہم اور واضح قسم ہے۔

تحریف کے باطل (جس کی آیہ قرآن سے نفی کرتی ہے) کے ذیل میں آنے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آیہ کریمہ میں عزت کو کتاب کی صفت کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور کسی بھی چیز کے عزیز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں تغیر و تبدل اور ضائع ہونے کا خطرہ نہ ہو۔

پس آیہ کریمہ میں باطل سے صرف تناقض اورکذب مراد لینا کتاب کے عزیز ہونے سے سازگار نہیں۔ کتاب تب ہی عزیز ہوگی جب یہ ہر قسم کے باطل سے پاک و منزہ ہو۔

۲۶۸

تحریف اور سنت

۳۔ عدم تحریف کی تیسری دلیل ثقلین (قرآن و عترت) کے بارے میں روایات ہیں۔ وہ ثقلین جن کو رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اپنے بعد امت میں چھوڑا اور ساتھ ساتھ یہ خبر بھی دی کہ یہ دونوں (قرآن اور عترت) ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر یہ آپ کے پاس جمع ہوں گے اور آپ نے امت کو ان سے متمسک رہنے کا حکم دیا۔

اس مضمون کی روایات کثرت سے موجود ہیں جو فریقین کی مختلف اسناد سے منقول ہیں۔(۱) ان روایات سے عدم تحریف پر دو پہلوؤں سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔

i ۔ عقیدہئ تحریف سے یہ لازم آتا ے کہ خدا کی طرف سے نازل شدہ کتاب سے تمسک واجب نہ ہو۔ کیونکہ تحریف کی وجہ سے وہ کتاب تو امت کے ہاتھ سے ضائع ہوگئی جبکہ قیام قیامت تک کتاب الہٰی سے تمسک رکھنا واجب ہے۔ بنابرایں عقیدہئ تحریف یقیناً باطل ہے۔

وضاحت: ان روایات کا مفہوم یہ ہے کہ عترت پیغمبرؐ اور کتاب ہمیشہ ساتھ ساتھ ہیں اور قیامت تک لوگوں میں باقی رہیں گے۔ بنابرایں کسی ایسے انسان کا ہونا ضروری ے جو قرآن کے دوش بدوش رہے اور قرآن کا ہونا بھی ضروری ہے جو عترتؑ کے دوش بدوش رہے۔ یہاں تک کہ حوض کوثر پر یہ رسول اعظمؐ کی خدمت میں حاضر ہوں اور ان دونوں سے تمسک کے نیتجے میں امت گمراہی سے محفوظ رہے جس کی خود رسلو کریمؐ نے اس حدیث میں تصریح فرمائی ہے۔

یہ بھی واضح امر ہے کہ عترتؑ سے تمسک کا مطلب یہ ہے کہ ا سؑ سے محبت کی جائے، جن کاموں کا وہ حکم دے نہیں بجا لایا جائے، جن کاموں سے منع کرے ان سے باز رہا اور اس سے رہنمائی حاصل کی جائے اور یہ ایسا امر ہے جس کے لیے خود امام(ع) سے ملاقات اور بالمشافہ احکام حاصل کرنا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ امام(ع) کے زمان غیب سے پہلے بھی سب لوگوں کے لیے امام(ع) سے ملاقات یا بالمشافہ گفتگو کرنا ممکن نہیں تھا چہ جائیکہ زمان غیبت میں یہ کام ممکن ہو۔

____________________

(۱) ان روایات کے حوالے کی طرف اسی کتاب کے صفحہ ۱۸ میں اشارہ کیا جاچکا ہے۔

۲۶۹

یہ کہنا کہ بعض لوگوں کی امام(ع) تک رسائی ضروری ہے۔ یہ ایک بے بنیاد بات اور دعویٰ بلا دلیل ہے اور اس شرط کی کوئی وجہ بھی نظر نہیں آتی۔ پس شیعہ حضرات زمان غیبت میں بھی اپنے ائمہ سے متمسک، ان سے محبت رکھتے اور انؑ کے فرامین کی اطاعت کرتے ہیں۔ تازہ واقعات میں انؑ کی احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرنا بھی ائمہ (ع) کے اوامر و فرامین میں سے ہے۔

لیکن قرآن سے تمسک اسی صورت میں ممکن ہے جب قرآن تک رسائی ہوسکے لہٰذا امت میں قرآن کا ہونا لازمی امر ہے تاکہ وہ اس سے متمسک ہوسکے اور گمراہی کا شکار نہ ہو۔

ہمارے اس بیان سے اس بات کا بطلان بھی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن امام زمان(عج) کے پاس موجود اور محفوظ ہے کیونکہ قرآن سے تمسک کے لیے اس کا وجود کافی نہیں ہے اور جب تک یہ ہماری دسترسی میں نہ ہو اس سے تمسک ناممکن ہے۔

اعتراض: اس دلیل پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حدیث ثقلین تو صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کی آیات احکام (فقہی احکام) میں تحریف واقع نہیں ہوئی۔ کیونکہ مسلمانوں کو آیات احکام ہی سے تمسک کا حکم دیا گیا ہے۔ بنابرایں حدیث ثقلین باقی آیات میں تحریف ہونے کی نفی نہیں کرتی۔

جواب: خدا نے تمام قرآن انسانوں کی ہدایت اور ہر لحاظ سے ممکنہ کمال تک رہنمائی کے لیے نازل فرمایا ہے۔ چاہے وہ آیات احکام ہوں یا دوسری آیات اور اس سے قبل ہم فضل قرآن کی بحث میں یہ چیز بیان کرچکے ہیں کہ قرآن ظاہری طور پر تو قصہ لگتا ہے مگر باطن اور حقیقت میں یہ موعظہ اور نصیحت ہے۔ اس کے علاوہ تحریف کے قائل لوگوں کی اکثریت کا دعویٰ یہ ہے کہ تحریف، ولایت اور اسی طرح کے دوسرے موضوعات میں واقع ہوئی ہے جبکہ آیات ولایت کی پیروی و اطاعت کی سخت تاکید کی گئی ہے۔

ظاہر ہے ان آیات (آیات ولایت وغیرہ) کی اطاعت اسی صورت میں واجب ہوگی جب ان کا قرآن ہو نا ثابت ہو۔

۲۷۰

ii ۔ عقیدہئ تحریف سے یہ لازم آتا ہے کہ کتاب خدا حجت نہ رہے۔ جب کتاب خدا حجت نہ رہے گی تو اس کے ظاہری معانی پر عمل بھی نہ ہوسکے گا اور کوئی بھی تحریف کا قائل اس وقت تک موجودہ قرآن کی طرف رجوع نہیں کرسکے گا جب تک ائمہ معصومین(ع) اس کی تصدیق نہ کریں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کی طرف رجوع اور اس سے استدلال ائمہ معصومین(ع) کی تائید و تصدیق پر موقوف ہے۔ حالانکہ حدیث ثقلین اور دیگر متواتر روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن ایک مستقل مدرک، مرجع اور حجت ہے بلکہ ثقلین میں سے ثقل اکبر ہے۔ اس کی حجیت ثقل اصغر (ائمہ معصومین(ع)) کی حجیت کے تابع نہیں ہے۔

عقیدہ تحریف سے کتاب خدا اس لیے حجت نہیں رہتی کہ جب تحریف کے قائل ہوں گے تو یہ احتمال باقی رہے گا کہ موجودہ قرآن کی کوئی بھی آیت جو کسی مطلب پر دلالت کرتی ہے، ہوسکتا ہے اس کے ساتھ قرآن کا کچھ اور حصہ بھی ملا ہوا تھا جو موجودہ مفہوم کے خلاف تھا مگر تحریف کی وجہ سے وہ حصہ ضائع ہوگیا۔ جب تک یہ احتمال باقی رہے گا قرآن کے ان معانی پر عمل نہیں ہوسکے گا جو موجودہ قرآن سے سمجھے جائیں گے اور اس احتمال کی نفی اصالۃ عدم قرینہ کی وجہ سے بھی نہیں کی جاسکتی ،کیونکہ اس اصل کی دلیل عقلاء کی یہ سیرت ہے کہ وہ کلام سے ظاہر ہونے والے معنی پر عمل کرتے ہیں اور اس معنی کے خلاف کسی قرینہ کے احتمال کو اہمیت نہیں دیتے۔

ہم اصول کی مباحث میں ثابت کرچکے ہیں کہ عقلاء اس سیرت کو اپناتے ہیں جہاں کلام متکلم سے منفصل اور جدا کسی مستقل قرینہ کا احتمال دیاجائے کلام متکلم سے متصل قرینہ کا احتمال ہو اور قرینہ کے ضائع ہونے کی وجہ بھی بیان کے موقع پر متکلم کی غفلت کا احتمال ہو یا سامع استفادہ سے غفلت برتے۔

لیکن اگر قرینہ متصلہ کا احتمال ہو اور اس سے مستفاد نہ ہونے کی وجہ متکلم یا سامع کی غفلت نہ ہو تو عقلاء اس کلام سے ظاہر ہونے والے معانی پر عمل نہیں کرتے۔

۲۷۱

مثال کے طور پر اگر کسی انسان کو کسی ایسے شخص کا خط موصول ہوتا ہے جس کی اطاعت ضروری ہو اور اس خط میں ایک گھر خریدنے کا حکم ہے، مگر اس خط کا کچھ حصہ ضائع ہوچکاہے اور احتمال ہے کہ خط کا ضائع شدہ حصہ اس گھر کی کچھ خصوصیات مثلاً وسعت، قیمت اور محل وقوع پر مشتمل تھا، جس کے خریدنے کاحکم دیا گیا ہے تو اس صورت میں عقلاء کبھی بھی اس احتمال کو کالعدم تصور کرکے خط کے باقی مادنہ مندرجات پر عمل نہیں کریں گے اور اس حکم کے امتثال امر کی خاطر جو گھر بھی میسر آجائے اسے نہیں خریدیں گے اور نہ ہی ایسے شخص کو اپنے مولا کافرمانبردار کہا جائے گا۔

شاید ہمارے محترم قارئین کو وہم ہو کہ اس بیان کے مطابق تو فقہ اور استنباط احکام شرعیہ کی بنیاد منہدم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ احکام شریعہ کے اہم اور عمدہ دلائل معصومین(ع) کی روایات ہیں۔

ان روایات میں بھی یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے کلام معصومین(ع) کے ساتھ قرینہ ملا ہوا تھا جو ہم تک نہیں پہنچ سکا۔ لیکن اگر محترم قارئین معمولی سی بھی توجہ کریں تو یہ شبہ زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکے گا۔ کیونکہ روایات کے سلسلے میں کلام راوی پر اعتماد کیا جاتا ہے بایں معنی کہ اگر کلام میں کوئی قرینہ متصلہ ہوتا تو راوی اس کا ضرور ذکر کرتا۔ راوی کے ذکر نہ کرنے سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ قرینہ متصلہ کلام معصومؑ میں بھی نہ تھا۔ یہ احتمال چونکہ کالعدم ہے کہ شاید قرینہ موجود ہو یا راوی سے غفلت سر زد ہوئی ہو۔ اس لیے اس احتمال کو بھی کالعدم تصور کیا جائے گا کہ شاید قرینہ موجود تھا جو راوی کی غفلت کی وجہ سے رہ گیا ہے ۔ اس قاعدے کی رو سے کہ جس چیز کا وجود مشکوک ہو اسے کالعدم فرض کیا جاتا ہے، قرینہ اور راوی کی غفلت دونوں احتمالوں کی نفی کی جائے گی۔

استدلال کے دوسرے پہلو کا نتیجہ نہ نکلا کہ عقیدہئ تحریف سے یہ لازم آتا ہے کہ ظواہر قرآن سے تمسک جائز نہ ہو۔

۲۷۲

اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے اس بیان کی ضرورت نہیں کہ تحریف کی وجہ سے بعض بلا تعیین آیات کے ظاہری معنی کے درہم برہم ہونے کا اجمالی علمحاصل ہو جاتا ہے یعنی اگرچہ تحریف شدہ آیات کی تعیین نہیں کی گئی لیکن اجمالی طور پر اتنا جان لیتے ہیں کہ کسی نہ کسی آیہ میں تحریف ہوئی ہے جس کی وجہ سے قرآن قابل عمل نہیں رہتا کوینکہ اگر اس بیان کے ذریعے مذکورہ نتیجے تک پہنچنا چاہیں تو اس کا جواب یہ دیا جائے گا:

اولاً قرآن میں تحریف واقع ہونے سے مذکورہ بالا اجمالی علم لازم نہیں آتا۔ ثانیاً یہ اجمالی علم واجب العمل نہیں ہے کیونکہ اجمالی علم اس صورت میں واجب العمل ہوتا ہے جب جس چیز کے واجب ہونے کا احتمال ہے ان سب سے واسطہ پڑے، یعنی سب واجب ہوسکتے ہیں۔

ہماری اس بحث میں ایسا نہیں ہے، اس لیے کہ ان احتمالی تحریف شدہ آیات میں سے کچھ آیات ایسی ہیں جن کا تعلق احکام سے نہیں ہے۔ اس قسم کی آیات کا کوئی عملی اثر نہیں ہوا کرتا۔

بعض اوقات تحریف کے حامی حضرات یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگرچہ تحریف کی وجہ سے قرآن کی حجیت ختم ہو جاتی ہے لیکن ظواہر قرآن سے ائمہ (ع) کے استدلال اور انؑ کی طرف سے استدلال اصحاب کی تائید سے قرآن کی حجیت بحال ہوجاتی ہے۔

یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ ائمہ (ع) اپنے استدلال اور استدلال اصحاب کی تائید سے قرآن کی حجیت نہیں بنا رہے بلکہ وہ اس لیے استدلال اور استدلال کی تائید کرتے تھے کہ قرآن کی حجیت پہلے سے بذات خود ثابت تھی۔

۲۷۳

نماز میں سورتوں کی اجازت

۴۔ عدم تحریف کی چوتھی دلیل یہ ہے کہ ائمہ (ع) نے واجب نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد کم از کم ایک مکمل سورۃ پڑھنے کا حکم دیا ہے اور نماز آیات میں ایک مکمل سورۃ یا زیادہ کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے ہر رکوع سے پہلے ایک حصہ پڑھنا جائز قرار دیا ہے اور جب سے شریعت میں نماز کااعلان کیا گیا ہے یہ احکام ثابت اور موجود ہیں۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ائمہ نے تقیہ کے طور پر یہ احکام بیان فرمائے تھے، کیونکہ اس وقت تقیہ کا کوئی موقع نہیں تھا۔

بنابرایں جو حضرت تحریف کے قائل ہیں وہ ایسے سورے پر اکتفا نہیں کرسکتے جس میں تحریف کا احتمال ہو کیونکہ جس عمل کے واجب ہونے کا یقین ہو اس کی ادائیگی کا یقین حاصل کرنا واجب ہے (اور جس سورۃ میں بھی تحریف کا احتمال ہو اس کو پڑھ کر یہ یقین حاصل نہیں ہوتا کہ واجب ادا ہوگیا ہے، کیونکہ ممکن ہے تحریف شدہ سورۃ پڑھا گیا ہو)۔

کبھی تحریف کے قائل یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ کے بعد ایک مکمل سورۃ پڑھنا واجب ہی ہیں ہے، اس لیے کہ کسی بھی سورہ کو پڑھنے کے بعد انسان یہ یقین حاصل نہیں کرسکتا کہ اس نے ایک مکمل سورہ پڑھ لیا ہے۔ جب ایسا یقین حاصل کرنا ممکن نہیں ہے تو واجب بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ خداناممکن کام کی ذمہ داری عائد نہیں کرتا۔

یہ دعویٰ تب درست ہوگا جب قرآن کی تمام سورتوںمیں تحریف کااحتمال ہو۔ لیکن اگر قرآن میں ایسی سورتیں موجود ہیں جن میں تحریف کا احتمال نہ ہو، جیسے سورۃ توحید ہے، تو مکلف پر واجب ہے کہ وہ سورۃ توحید کے علاوہ کوئی اور سورۃ نہ پڑھے۔ اگرچہ ائمہ (ع) نے قرآن سے ہر سورۃ کے پڑھنے کی اجازت دی ہے لیکن تحریف کے قائل اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے کہ گو تحریف کی وجہ سے ائمہ (ع) کی اجازت سے قبل ہر آیہ پڑھنا جائز نہیں تھا لیکن ائمہ (ع) کی اجازت کے بعد کسی بھی سورہ کو پڑھا جاسکتا ہے۔

۲۷۴

یہ نتیجہ اس لیے اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ ائمہ (ع) کی طرف سے ہر سورہ پڑھنے کی اجازت ملنا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی اگر تحریف واقع ہوئی ہوتی تو اس قسم کی اجازت سے واجب نماز کا بلاوجہ فوت ہونا لازم آتا ہے اوراگر قرآن کے بعض سوروں میں تحریف کا احتمال ہوتا اور باقیوں میں نہ ہوتا تو ائمہ (ع) صرف انہیں سورتوں کو واجب قرار دیتے جن میں تحریف کا احتمال نہ ہو اور یہ تقیہ کے خلاف بھی نہ سمجھا جاتا، جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ ائمہ (ع) نے سورۃ توحید اور سورۃ قدر کو ہر نماز میں پڑھنا مستحب قرار دیا ہے۔

ائمہ (ع) کی نظر میں اس بات سے کون سی چیز مانع تھی کہ وہؑ سورہ توحید اور سورہ قدر یا کسی اور ایسے سورہ کو واجب قرار دے دیتے جس میں تحریف کا احتمال نہ ہو۔

مگر یہ کہ تحریف کے قائل یہ کہیں کہ پہلے قرآن سے ایک مکمل سورہ پڑھنا واجب تھا اور بعد میں یہ حکم منسوخ کردیا گیا اور موجودہ قرآن سے ہر سورہ کو پڑھنا جائز قرار دیا گیا۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ تحریف کے قائل حضرات اس قسم کے نسخ کے قائل ہوں گے کیونکہ رسول اسلامؐ کے بعد یقیناً کوئی نسخ واقع نہیں ہوا اگرچہ نسخ کا ممکن اور محال ہونا متنازع فیہ ہے جو ہماری اس بحث سے خارج ہے۔

خلاصہئ بحث ی ہہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ائمہ (ع) نے موجودہ قرآن میں سے کوئی سا بھی سورہ پڑھنے کا حکم دیا ہے جس میں تقیہ کا شائبہ تک نہیں ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں بھی یہی حکم تھا کہ کوئی سا سورہ پڑھ لیا جائے یا آپ کے زمانے میں کوئی اور حکم تھا اور یہ حکم بعد میں وضع کیا گیا۔

دوسری صورت (یعنی رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں حکم کوئی اور تھا) تو ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ یہ نسخ ہے جو آنحضرتؐ کے بعد یقیناً واقع نہیں ہوا اگرچہ یہ بذات خود ممکن ہے۔ لامحالہ رسول اسلامؐ کے زمانے میں بھی یہی حکم تھا جو ائمہ اطہار (ع) نے بیان فرمایا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی۔

۲۷۵

یہ استدلال صرف نماز سے مختص نہیں ہے بلکہ یہ ہر اس مقام پر ہوسکتا ہے جہاں ائمہ اطہار (ع) نے ایک مکمل سورہ یا آیۃ کو پڑھنے کا حکم دیا ہے۔

خلفاء پر تحریف کا الزام

۵۔ عدم تحریف کی پانچویں دلیل یہ ہے کہ تحریف کے قائل رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر پر تحریف کا الزام عائد کرسکتے ہیں یا حضرت عثمان پر یا کسی اور حکمران پر یہ الزام عائد کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ تینوں دعوے باطل ہیں۔

حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی طرف سے تحریف اس لیے نہیں ہوسکتی کہ:

i ۔ تحریف جان بوجھ کر نہیں بلکہ غیر اختیاری طورپر اور مکمل قرآن تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی ہوگی اس لیے کہ اس سے پہلے قرآن جمع نہیں کیا گیا تھا۔ یا انہوں نے عمداً تحریف کی ہوگی۔

ii ۔ ایسی آیات میں تحریف ہوئی ہوگی جن کا ان کی حکومت سے کوئی تعلق نہ ہو۔

یا

iii ۔ عمداً تحریف کی صورت میں تحریف شدہ آیات ان کی حکومت سے متعلق ہوں گی۔

یہ تینوں احتمالات باطل ہیں۔

i ) مکمل قرآن تک ان کی دست رسی نہ ہونے کا احتمال بالکل بے بنیاد اور باطل ہے۔ کیونکہ پیغمبر اسلامؐ کا قرآن حفظ کرنے اور اس کی تلاوت کرنے کا حکم دینے اور آپ کے زمانے میں اور آپ کی وفات کے بعد صحابہ کرام کا قرآن کو حد سے زیادہ اہمیت دینے سے ہم قطعی طور پر اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ صحابہ کرام کے پاس قرآن جمع شدہ یا متفرق طور پر، سینوں میں یا کاغذات میں، ضرور محفوظ ہوگا۔

۲۷۶

وہ صحابہ کرام جنہوں نے زمانہ جاہلیت کے اشعار اور خطبات کی حفاظت و نگہداری میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا، اس کلام پاک کی حفاظت میں کیسے کوتاہی کرتے جس کی راہ میں انہوں نے اپنی جان تک کی بازی لگا دی، وطن سے جلاوطن ہوناگوارا کیا، بیوی بچوں کی جدائی برادشت کی اور اسی قرآن کی راہ میں ان کٹھن ارو طاقت فرسا مراحل سے گزرے جن سے انہوں نے تاریخ کو سرخ کردیا۔

اس کے باوجود کوئی عاقل یہ احتمال دے سکتا ہے کہ ان حضرات نے قرآن کی حفاظت میںمعمولی سی بھی غفلت اورکوتاہی کی ہوگی جس سے قرآن ضائع ہوگیا اور اس کے ثبوت کے لیے دو عادل گواہوں کی ضرورت پڑی ہو؟

عقلی اور تاریخی اعتبار سے جس طرح قرآن میں اضافہ ہونا قابل قبول نہیں اسی طرح یہ احتمال بھی قابل قبول نہیں۔

اس کے علاوہ حدیث ثقلین بھی اس احتمال کے بطلان پر دلالت کرتی ہے۔ اگر آپ کے زمانے میں قرآن کا کچھ حصہ ضائع ہوگیا ہو تو ''انی تارک فیکم ثقلین کتاب اللہ و عترتی،، کہنا درست نہ ہوتا۔ کیونکہ اس صورت میں سارا نہیں بلکہ کچھ قرآن چھوڑا جارہا ہوتا۔

بعض روایات میں تو اس بات کی تصریح موجود ہے کہ رسول اسلامؐ کے زمانے میں ہی قرآن کی مکمل تدوین اور جمع آوری ہوچکی تھی۔ کیونکہ کسی موضوع سے متعلق متفرق یا سینوں میں محفوظ مطالب کو کتاب نہیں کہا جاسکتا اور ہم آئندہ صفحات میں یہ بحث کریں گے کہ آپ کے زمانے میں قرآن کی جمع آوری کی سعادت کس نے حاصل کی۔

اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ آنحضرتؐ کے زمانے میں مسلمانوں نے جمع قرآن کا کوئی اہتمام نہیں کیا تھا تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کے حفظ اور تلاوت کو اتنی اہمیت دینے کے باوجود اس کی جمع آوری کو آپ نے اتنی اہمیت کیوں نہ دی جس کی وجہ سے وہ ضائع نہ ہو جائے؟

۲۷۷

کیا آپ اس غفلت و کوتاہی کے نتائج سے آگاہ نہ تھے؟

یا وسائل کے فقدان کی وجہ سے قرآن کی جمع آوری پر قادر نہیں تھے؟

ii ) دوسرا یہ احتمال کی شیخین نے عمداً ان آیات میں تحریف کی ہو جن کا ان کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں تھا، بذات خود بعید ہے اس لیے کہ اس قسم کی تحریف سے ان کی کوئی غرض وابستہ نہیں ہوسکتی۔ عملی اعتبار سے یقیناً ان سے اس قسم کی تحریف واقع نہیں ہوئی۔

وہ اس طرح کی تحریف کر بھی کس طرح سکتے تھے جبکہ خلافت کی بنیاد ہی سیاست اور دینی معاملات کو اہمیت دینے پر قائم تھی۔ اگر ان سے تحریف ہوئی ہے تو ان کی بیعت سے انکار کرنے والوں نے اپنے احتجاج میں اس کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ سعد بن عبادہ اور اس کے ساتھیوں نے اعتراض کے طور پر اس کا ذکر کیوں نہیں کیا اورحضرت امیر المومنین (ع)نے اپنے خطبہئ شقشقیہ اور دیگر خطبات میں جہاں ان کی اور خامیاں بیان فرمائی ہیں، تحریف قرآن کا تذکرہ کیوں نہیں کیا؟

یہ دعویٰ بھی ناممکن اور غیر معقول ہے کہ تحریف کی وجہ سے مسلمانوں نے شیخین پر اعتراض تو کیا ہو لیکن اس کی خبر ہم تک نہ پہنچی ہو۔

iii ) تیسرا یہ احتمال کہ عمداً ان آیات میں تحریف کی ہو جن کا تعلق ان کی حکومت سے تھا، یہ تحریف بھی یقیناً واقع نہیں ہوئی کیونکہ امیر المومنینؑ، آپ کی زوجہئ صدیقہ طاہرہؑ اور آپ کے کچھ اصحابؓ نے خلافت کے سلسلے میں شیخین پر اعتراض کیا، رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے مروی روایات کے ذریعے ان کے خلاف دلائل پیش کئے، مہاجرین و انصار کو بھی اس سلسلے میں گواہ کے طور پر پیش کرتے رہے۔ منجملہ ان روایات کے حدیث غدیر کے ذریعے بھی احتجاج کیا گیا۔

۲۷۸

مرحوم طبرسی نے کتاب ''احتجاج،، میں حضرت ابوبکر کے خلاف بارہ آدمیوں کے احتجاج کو نقل کیا ہے جنہوں نے حضرت ابوبکر کے سامنے آنحضرتؐ کی نص صریح کو بیان کیا۔

مرحوم مجلسی نے اپنی کتاب''بحار الانوار،، میں ایک مکمل باب کو خلافت سے متعلق امیر المومنین (ع)کے احتجاج و دلائل سے مختص کیا ےہ۔

پس اگر قرآن میں ان کی حکومت اور خلافت سے متعلق کوئی آیہ ہوتی جس میں انہوں نے تحریف کی ہوتی تو اس کا ذکر احتجاج کے طور پر ضرور کیا جانا چاہیے تھا بلکہ خلافت کے موضوع پر باقی دلیلیوں کی نسبت ان آیات کو زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے تھی۔ خصوصاً جبکہ خلافت کا معاملہ بقول ان کے جمع قرآن سے پہلے پیش آیاتھا۔

اس کے باوجود صحابہ کرام کی طرف سے ابتدائی خلافت سے لے کر حضرت علیؑ کی خلافت تک تحریف قرآن کا ذکر نہ آنا اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی۔

باقی رہا یہ احتمال کہ حضرت عثمان نے تحریف کی ہو، یہ پہلے سے بھی زیادہ بعید اور ضعیف ہے ،کیونکہ:

i ۔ حضرت عثمان کے زمانے میں اسلام اتنا پھیل چکا تھا کہ حضرت عثمان قرآن میں سے کچھ کم کرہی نہیں سکتے تھے اور نہ ہی وہ کم کر سکتا تھا جس کا مقام حضرت عثمان سے زیادہ بلند ہوتا۔

ii ۔ اگر یہ تحریف ان آیات میں کی ہوتی جن کا خلافت سے کوئی تعلق نہیں تھا تو اس تحریف کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی اور ان آیات میں بھی یقیناً تحریف نہیں ہوسکتی جن کا تعلق خلافت سے ہوتا۔ اس لیے کہ اگر اس قسم کی کوئی آیہ ہوتی اور وہ حضرت عثمان کے زمانے تک مسلمانوں میں مشہور ہوگئی ہوتی تو خلافت ہی حضرت عثمان تک نہ پہنچتی۔

iii ۔ اگر تحریف قرآن کے مرتکب حضرت عثمان ہوتے تو یہ قائلین حضرت عثمان کے لیے معقول عذر اور بہترین دلیل بنتی اور قائلین کو یہ جواز پیش کرنے کی ضرورت نہ پڑتی کہ حضرت عثمان نے بیت المال کے سلسلے میں سیرت شیخین کی مخالفت کی ہے یا اس کے علاوہ دوسرے احتجاجوں کی ضرورت نہ ہوتی۔

۲۷۹

iv ۔ اگر حضرت عثمان نے تحریف کی ہوتی تو حضرت امیر المومنین (ع)کو چاہیے تھا کہ حضرت عثمان کے بعد تحریف شدہ حصے دوبارہ قرآن میں شامل فرما دیتے ،جس طرح قرآن رسول اسلامؐ اور شیخین کے زمانے میں پڑھا جاتا تھا اور آپ کا یہ عمل قابل تنقید نہ ہوتا اپنے ہدف تک پہنچنے میں یہ زیادہ مؤثر ہوتا اور خون حضرت عثمان کے انتقام کے نام پر قیام کرنے والوں کے خلاف یہ ایک مستحکم دلیل بنتا۔ اس کے علاوہ آپ کا یہ عمل اس اقدام سے بھی ہم آہنگ ہوتا جس کے ذریعے آپ نے حضرت عثمان کی عطا کردہ جاگیریں بیت المال میں لوٹانے کا حکم دیا تھا۔ ا سلسلے میں آپ فرماتے ہیں:

''والله لو وجدته قد تزوج به النساء و ملک به الاماء لرددته فان فی العدل سعة، و من ضاق علیه العدل فالجور علیه أضیق،، (۱)

''خدا کی قسم! اگر مجھے کہیں ایسا مال بھی نظر آئے جو عورتوں کے مہر اور کنیزوں کی خریداری پر صرف کیا جاچکا ہو تو اسے بھی واپس پلٹا دوں گا کیونکہ عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے میں زیادہ وسعت ہے اور جسے عدل کی صورت میں تنگی محسوس ہو اسے ظلم کی شک میں اور زیادہ تنگی مسحوس ہوگی۔

بیت المال کے بارے میں امیر المومنین (ع)کا مؤقف یہ ہے۔ اب اہل انصاف خود بتائیں کہ اگر قرآن میں تحریف ہوئی ہوتی تو امیر المومنین (ع)کا موقف کیا ہوتا۔

بنابرایں امیر المومنین (ع)کا موجودہ قرآن کی تائید کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی۔

جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے آج تک کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ خلفائے ثلاثہ کے بعد قرآن میں تحریف ہوئی ہے۔

البتہ بعض تحریفی حضرت کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ جب حجاج بن یوسف ثقفی نے بنی امیہ کی مدد شروع کی تو اس نے قرآن سے ان آیات کو حذف کرادیا جو بنی امیہ کی مذمت میں نازل ہوئی تھیں اور ان کی جگہ ایسی آیات کا اضافہ کردیا جو قرآن کا حصہ نہیں تھیں۔

____________________

(۱) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۵۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

''اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شب قدر کو اس سال رونما ہونے والے حق و باطل اور اس سال جو کچھ بھی ہونے والا ہے، کو مقدر فرماتا ہے۔ اس کے باوجود ان مقدرات میں مشیّت الہٰی کے مطابق تعیّر و تبدل (بدائ) بھی واقع ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ اجل، رزق، بلائیں، بیماریاں اور دیگر عارضوں میں سے جسے چاہتا ہے مقدم اور جسے چاہتا ہے مؤخر فرماتا ہے۔ نیز ان مقدرات میں جو چاہے اضافہ اور جو چاہے کمی کردیتا ہے۔،،(۱)

iii ) کتب احتجاج طبرسی میں امیر المومنین(ع) سے مروی ہے:

''انه قال: لولا اٰیة فی کتاب الله ، لاخبر تکم بما کان و بما یکون و بما هوکائن الیٰ یو القیامة و هی هذه الایة: یمحوا الله ۔۔۔،(۲)

آپ نے فرمایا: اگر قرآن کی ایک آیہ: یمحوا اللہ۔۔۔ نہ ہوتی تو میں تمہیں خبر دیتا کہ ماضی میں کیا کیا واقعات پیش آئے، اب کیا ہو رہا ہے اور قیامت تک کیا ہوگا۔،،

iv ) تفسیر عیاشی میں زرارہ نے امام صادق(ع) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام زین العابدینؑ فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی ایک آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبر دیتا۔ میں (زرارہ) نے عرض کی: وہ کون سی آیت ہے۔ آپ نے فرمایا:( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔۔(۳)

) ''قرب الاسناد،، میں بزنطی نے امام رضا(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام جعفر صادق، امام محمد باقر، امام زین العابدین، امام حسن اور امیر المومنین (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی آیت( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔ نہ ہوتی تو ہم قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی تمہیں خبر دیتے۔،،(۴)

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۴

(۲) احتجاج طبرسی، ص ۱۳۷

(۳) منقول از بحار، ج ۲، ص ۱۳۹

(۴) ایضاً ص ۱۳۲

۵۰۱

ان کے علاوہ بھی کچھ روایات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان مقدرات الہٰی اور فیصلوں میں تغیر و تبدل واقع ہوتا ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہوتے ہیں۔

خلاصہئ بحث یہ ہے کہ حتمی قضائے الہٰی، جسے لوحِ محفوظ، ام الکتاب اور علم مخزون عند اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، میں کسی قسم کے تغیر و تبدل اور بداء کا واقع ہونا محال ہے اور اس میں کیونکر بداء واقع ہوسکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ روز ازل سے تمام اشیاء کا عالم ہے اور زمین و آسمان میں سے ذرہ بھر بھی اس کے علم سے خارج نہیں ہے۔

کتاب ''اکمال الدین،، میں صدوق، ابو بصیر اور سماعۃ کی سند سے امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو شخص یہ خیال کرے کہ خدا کے سامنے ایسی تازہ چیز ظاہر ہوتی ہے جسے وہ کل نہیں جانتا تھا، ایسے شخص سے برات کرو۔،،(۱)

عیاشی نے ابن سنان سے اور اس نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے مقدم اور جس کو چاہتا ہے مؤخر فرما دیتا ہے۔ نیز جسے چاہے محو اور جسے چاہے ثبت کردیتا ہے۔ کتاب کااصلی نسخہ اللہ ہی کے پاس ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو کچھ کرنا چاہے اسے انجام دینے سے پہلے ہی اس کا علم رکھتا ہے جس کام میں بھی بداء واقع ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ افعال الہٰی میں کوئی تغیر و تبدل جہالت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔،،(۲)

عمار بن موسیٰ امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ سے فرمان الہٰی: یمحوا اللہ۔۔۔ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۶

(۲) ایضاً ص ۱۳۹

۵۰۲

''یہ وہ کتاب ہے جس میں خدا جو چاہتا ہے ثبت کرتا ہے جو چاہتا ہے محو کردیتا ہے۔ دعا کے ذریعے اس قسم کے مقدرات بدل جاتے ہیں لیکن جب مقدرات اس کتاب (لوح محو و اثبات) سے منتقل ہو کر امّ الکتاب یا لوح محفوظ میں آجاتے ہیں تو اس پر دعا کوئی اثر نہیں کرتی اور وہ ہو کر رہتے ہیں۔،،(۱)

شیخ طوسی اپنی کتاب ''الغیبۃ،، میں بزنطی سے اور وہ امام رضا(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: امام زمین العابدینؑ اور آپ سے پہلے امیر المومنین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے:

''آیہ کریمہ : یمحوا اللہ۔۔۔ کی موجودگی میں ہم کیسے کسی واقعہ کے بارے میں حتمی پیشگوئی کرسکتے ہیں۔ البتہ خدا کے بارے میں جس شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ کو کسی بھی چیز کے واقع ہونے کے بعد اس کا علم ہوتا ہے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔،،(۲)

اہل بیت اطہار(ع) کی وہ روایات، جن کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی خلقت سے پہلے ہی اس کا عالم ہوتا ہے، حدو حصر سے زیادہ ہیں۔ کتاب الہیٰ و سنت پیغمبر(ص) کی پیروی کرتے ہوئے تمام شیعہ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے اور صحیح و فطری عقل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

عقیدہ ئ بداء کے ثمرات

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ بداء ان مقدرات الہی میں واقع ہوتاہے جو مشیت الہی ہر موقوف ہوتے ہیں اور جن کو لوح محو و اثبات سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس بداء کا قائل ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ہم نے اللہ کی طرف (العیاذ باللہ) جہالت کی نسبت دی ہو اور نہ ہی یہ کوئی عقیدہ عظمت الہی کے منافی ہے۔

____________________

(۱) منقول ازبحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۹

(۲) ایضاً، ص ۱۳۶۔ شیخ کلینی نے اپنی سند سے عبد اللہ ابن سنان سے اور اس نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: کسی بھی چیز میں بداء واقع ہونے سے پہلے ہی خدا اس کا عالم ہوتا ہے۔ الوافی، باب ج۱، ص ۱۱۳

۵۰۳

بداء کا قائل ہونا واضح اعتراف ہے کہ پورا عالم ہستی اپنے وجود و بقاء میں قدرت و سلطنت الہٰی کے تابع ہے اور یہ کہ ارادہئ الہٰی ازل تا ابد تمام چیزوں میں کار فرما ہے بلکہ عقیدہئ بداء ہی کی بدولت علم الہٰی اور علم مخلوق میں فرق واضح ہوتا ہے اس لیے کہ مخلوق کا علم، خواہ وہ انبیاء(ع) و اولیاء کا علم ہی کیوں نہ ہو، ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ، علم خدا کرتا ہے اور بعض اولیاء اللہ اگرچہ تعلیم الہی کی بنیاد پر، تمام ممکنات اور اعلمین کا علم رکھتے ہیں پھر بھی ان کا علم ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ اللہ کا مخزون اور اپنی ذات سے مختص علم کرتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی چیز کے بارے میں مشیت الہی اور عدم مشیت الہی کا عالم وہی ہوسکتا ہے جسے اللہ نے حتمی طور پر خبر دی ہو۔

بداء کا قائل ہونا اس امر کا باعث بنتا ہے کہ بندے ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور بندوں سے اپنی

امیدوں کے بندھن توڑ دیں اور استجابت دعا، حاجت روائی، اطاعت کی توفیق اور معصیت سے دوری کی درخواست اس کی ذات اقدس سے کریں۔

کیونکہ بداء کا انکار کرنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے وہ بلا استثناء ہو کر رہے گا، اپنے کو استجابت دعا سے مایوس کر دینا ہے، اس لیے کہ انسان جس چیز کی دعا کرتا ہے، اگر قلم تقدیر نے اس کے واقع ہونے کی پیشگوئی کی ہے تو وہ لامحالہ ہو کر رہے گی۔ انسان کی دعا اور توسّل کی ضرورت ہی نہیں اور اگر قلم تقدیر نے اس کی دعا کے خلاف لکھا ہو تو وہ کام کبھی بھی نہیں ہوسکتا اور دعا و تضرع کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور جب انسان استجابت دعا سے مایوس ہوگا تو وہ اپنے خالق کے دربار میں دعا و تضرع ترک کردے گا کیونکہ یہ بے فائدہ ثابت ہوگی اس طرح وہ عبادات اور صدقات بھی ترک ہو جائیں گے جو روایات معصومین(ع) کے مطابق عمر اور رزق میں اضافہ اور حاجت روائی کا باعث بنتے ہیں۔

۵۰۴

یہی وہ راز ہے جس کی وجہ سے معصومین(ع) سے بداء کی شان اور اہمیت کے بارے میں کثرت سے روایات وارد ہوئی ہےں۔

مرحوم صدوق نے کتاب ''توحید،، میں زرارہ سے اور انہوں نے امام محمد باقرؑ اور امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' ما عبد الله عزوجل بشیئ مثل البدائ،، (۱)

''بداء کی مانند ایسا کوئی عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔،،

یعنی عقیدہ بداء کے مانند کوئی عبادت نہیں۔ نیز ہشام بن سالم، امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''خدا کی جو تعظیم بداء کے ذریعے ہوسکتی ہے کسی اور عمل کے ذریعے نہیں ہوسکتی۔،،(۲)

صدق نے محمد بن مسلم سے اور انہوں امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا (پہلے) اس سے تین باتوں کا اقرار لیا: اللہ کی عبودیت کا اقرار، شریک خدا کی نفی اور یہ کہ اللہ جسے چاہتا ہے مقدم کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے مؤخر کرتا ہے۔،،(۳)

اس اہمیت کا راز یہ ہے کہ بداء کا انکار کرنا اور اس بات کا قائل ہونا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے اللہ اس میں تبدیلی پر قادر نہیں ہے، دونوں کا نتیجہ ایک ہے۔ کیونکہ یہ دونوں عقیدے انسان کو استجابت دعا سے مایوس

____________________

(۱) روایت کے دوسرے نسخے کے مطابق: بداء سے بہتر کوئی ایسا عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔

(۲) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

(۳) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

۵۰۵

کر دیتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی مشکلات اور مقاصد میں اپنے ربّ کی طرف توجہ نہ کرے۔

حقیقت بداء شیعوں کی نظر میں

جس بداء کے شیعہ امامیہ قائل ہیں، حقیقت میں اس کا معنی ''اظہار،، ہے (یعنی ایک چیز جو بندوں کے لیے پوشیدہ ہو اور اللہ اسے ظاہر کردے) اسکی جگہ ''بدائ،، (جس کا معنی خلقت اور آفرینش ہے) کا استعمال اس لیے ہوتا ہے کہ ان دونوں کے معنی میں شباہت پائی جاتی ہے کیونکہ ''اظہار،، کی طرح ''خلقت،، کے ذریعے مخلوق کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اہل سنت کی کچھ روایات میں بھی ''بدائ،، اسی معنی (اظہار) میں استعمال ہوا ہے۔

بخاری نے ابو عمرہ سے راویت کی ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا:

''بنی اسرائیل میں تین ایسے آدمی تھے جن میں سے ایک برص کا مریض، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا تھا۔ اللہ کے لیے بداء واقع ہوا کہ ان کا امتحان لیا جائے، چنانچہ برص کے مریض کے پاس ایک فرشتہ بھیجا ۔۔۔،،(۱)

قرآن میں بھی اس کی متعدد مثالین ملتی ہیں:

( الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ ) ۸:۶۶

''اب خدا نے سے (اپنے حکم کی سختی ہیں) تخفیف کردی ہے اور دیکھ لیا کہ تم میں یقیناً کمزوری ہے۔،،

( لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا ) ۱۸:۱۲

''تاکہ ہم دیکھیں کہ گروہوں میں سے کس کو (غار میں) ٹھہرنے کی مدّت خوب یاد ہے۔،،

( لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ) ۱۸:۷

''تاکہ ہم لوگ کا امتحان لیں کہ ان میں سے کون سب سے اچھے چلن کا ہے۔،،

____________________

(۱) صحیح بخاری، ج ۴ باب ماذکر عن بنی اسرائیل، ص ۱۴۲

۵۰۶

اہل سنّت کی روایات کثیرہ میں ہے کہ دعا اور صدقہ قضائے الہی کو تبدیل کردیتے ہیں۔(۱)

جہاں تک اہل بیت اطہار(ع) کی ان روایات کا تعلّق ہے، جن میں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی پیش گوئی کی گئی ہے، ان میں تحقیق یہی ہے کہ اگر معصوم(ع) حتمی طور پر اور بغیر کسی شرط و قید کے مستقبل میں کسی واقعہ کے رونما ہونے کی خبر دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو حتمی ہے اور اس میں کسی قسم کا بداء واقع نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ نہ اپنی ذات کو جھٹلاتا ہے اور نہ اپنے نبی کو اور اگر معصوم(ع) کسی امر کی پیشگوئی اس شرط پر کرے کہ مشیّت الہی اس کے خلاف نہ ہو اس پر کوئی قرینہ متصل و منفصل قائم کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہے اور اس میں بداء واقع ہوسکتا ہے اور معصوم(ع) کی یہ خبر اور پیشگوئی سو فیصد صادق ہوگی اگرچہ اس میں بداء واقع ہو اور مشیّت الہٰی اس پیشگوئی کے خلاف ہو، کیونکہ معصوم(ع) کی پیشگوئی میں اس شرط پر واقع کے رونما ہونے کی خبر دی گئی ہے کہ مشیّت الہٰی اس کے خلاف نہ ہو۔

عیاشی نے عمرو بن حمق سے روایت کی ہے:

''جس وقت امیر المومنین(ع) کے سرمبارک پر ضربت لگی، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: اے عمرو! عنقریب میں تم سے جدا ہو جاؤں گا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہےے کہ ۷۰ھ میں ایک بلا نازل ہوگی۔ میں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا ۷۰ھ کے بعد یہ بلاٹل جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ بلا کے بعد آسائش ہوگی۔ پھر آپ نے آیہ کریمہ: یمحوا اللہ۔۔۔ کی تلاوت فرمائی۔،،

____________________

(۱) دعا سے قضاء کے تبدیل ہونے کے بارے میں روایات اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۱ میں ملاحظہ فرمائیں۔

۵۰۷

اصول تفسیر

مدارک تفسیر

خبر واحدسے قرآن کی تخصیص

چند توہمات اور ان کا ازالہ

۵۰۸

تفسیر، کتاب الٰہی کی کسی آیت میں مقصود الہی کی وضاحت کا نام ہے بنا برایں اس سلسلے میں ظن اور عقلی استحسانات پر اعتماد اور ان پر عمل کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ایسی چیز پر اعتماد کیا جا سکتا ہے جس کی تجیت عقلی اور شرعی طورپر ثابت نہ ہو کیونکہ قرآن میںظن کی پیروی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور اللہ کی اجازت کے بغیر اس کی طرف کسی چیز کی نسبت دینا حرام ہے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔

( قُلْ آللَّـهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّـهِ تَفْتَرُونَ ) ۱۰:۵۹

(''اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ کیا خدا نے تمہیں اجازت دی ہے یاتم خدا پر بہتان باندھتے ہو،،۔

( وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ ) ۱۷:۳۶

''اور جس چیز کا تمہیں یقین نہ ہو(خواہ مخواہ) اس کے پیچھے نہ پڑا کرو،،۔

انکے علاوہ بھی قرآنی آیات اور روایات موجود ہیں جن میں غیر علم پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے شیعہ اورسنی کتب احادیث میں کثرت سے روایات موجود ہیں جن میں تفسیر بالائے سے نہی کی گئی ہے۔

ان آیات اور روایات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تفسیر قرآن کے سلسلے میں مفسرین کی ذاتی رائے پر عمل کرناجائز نہیں ہے چاہے یہ مفسر کوئی صحیح المسلک آدمی ہو یا نہ ہو کیونکہ ذاتی رائے پر عمل کرنا اتباع ظن ہے جو حق سے بے نیاز نہیں کرسکتا۔

مدارک تفسیر

مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ فہم قرآن اور تفسیر قرآن میں ان ظواہر پر عمل کرے جو ایک صحیح عرب سمجھتاہے (ہم اس سے پہلے ظواہر کی حجیت کو ثابت کر چکے ہیں) یا ان فیصلوں پر عمل کرے جو ایک صحیح اور فطری عقل صادر کرے کیونکہ جس طرح نبی حجت ظاہری ہے اسی طرح عقل حجت باطنی ہے یااس معنی اور مفہوم پر عمل کرے جو معصومین (ع) سے ثابت ہو کیونکہ یہی ہسپتال مرجع دین ہیں اور رسول اللہ (ص) نے انہی سے تمسک کی وصیت فرمائی ہے آپ (ص) نے فرمایا۔

۵۰۹

انی تارک فکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بینی ، ما ان تمسکم بهما لن تضلوا بعدی ابدا (۱)

''میں (ص) تم میں دو گرانقدار چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت (ع) جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے کبھی بھی میرے بعدگمراہ نہیں ہو گے،،۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قطعی اور یقینی ذریعے سےاہل بیت اطہار (ع) کا قول ثابت ہو جاتا ہے اور خبر ضعیف (جس میں حجیت کی شرائط موجود نہ ہوں) کے ذریعے قول معصوم (ع) ثابت نہیں ہوتا۔

لیکن اس میں اختلاف ہے کہ آیا اس ظنی طریقے (خبر واحد اور دیگر دلائل) سے قول معصوم (ع) ثابت ہو جاتاہے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو؟

بعض علمائے کرام اس خبر واحد کی حجیت کو مورد اشکال قرار دیتے ہیں جو تفسیر کے بارے میں وارد ہوئی ہو اعتراض یہ ہے کہ خبر واحد اور دوسرے ظنی ادلہ کی حجیت کا مطلب یہ ہے کہ جب حقیقت اور واقع ہونا معلوم نہ ہو تو اس خبر واحد کے مفہوم پر واقع کے آثار مرتب کئے جائیں جس طرح واقع اور یقین حاصل ہونے کی صورت میں آثار مرتب کئے جاتے ہیںاس معنی میں حجیت وہاں متحقق ہو سکتی ہے جہاں خبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہویاکوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا اور ممکن ہے جہاںخبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہو یا کوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا ہو اور ممکن ہے کہ یہ شرط اس خبر واحد میں نہ پائی جائے جوتفسیر کے بارے میں ورد ہوئی ہے (کیونکہ کچھ روایات ایسی ہیں جو گزشتہ اقوام کے قصوں اور داستانوں کے متعلق قرآنی آیات کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں جن کا حکم اور موضوع حکم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا)

____________________

نمبر۱اس حدیث کے حوالے اسی کتاب کے آخر پر ضمیمہ نمبر ۱ میں ذکر کئے جائیں گے نیز کنز العمال باب الاعتصام بالکتاب و السنتہ ج ۱ ، ص ۱۵۳ اور ۳۳۲

نمبر۲ جب کہا جائے شراب حرام ہے یانماز واجب ہے تو''شراب ،، اور ''نماز،، موضوع اور ''وجوب،، اور ''حرمت،، حکم کہلاتے ہیں (مترجم)۔

۵۱۰

لیکن یہ اشکال تحقیق کیخلاف ہے کیونکہ ہم نے علم ا صول میں اس کی وضاحت کر دی ہے کہ اجتہادی دلیل جس کی نظر واقع پر ہوتی ہے یعنی جو واقع کی نشاندہی کرتی ہے کہ حجیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حکم شرع میں علم کامقام دیا گیا ہے گویا اس طرح واجب العمل ظنی دلیل کو علم شمار کیا گیا ہے یہ ایسا علم ہے جس کو شارع نے علم کارتبہ دیا ہے یہ علم وجدانی نہیں ہے لہٰذا اس پر بھی وہی آثار مرتب ہوں گے جو قطع و یقین پر مرتب ہوتے

ہیں نیز ان روایات کے مضمون کے مطابق خبر دینا صحیح ہو گا جس طرح وجدانی علم کے مطابق خبر دی جاتی ہے اس طرح یہ (خبر واحد وغیرہ پر عمل کرنا) بغیر علم کے خبر دینے کے مترادف نہیں ہوگا۔

چنانچہ اس طرز عمل کی تائیدسیرت عقلاء سے بھی ہوتی ہے کیونکہ عقلاء اس قسم کی دلیلوں پر اسی طرح عمل کرتے ہیں جس طرح وجدانی علم پر کرتے ہیں اور دونوں کے آثار میں کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں ہوتے مثلاً جس کسی کے ہاتھ میں کوئی چیز ہو ، عقلاء کے نزدیک قبضہ اس شخص کی ملکیت کی دلیل سمجھا جاتا ہے جس کے ہاتھ میں مال ہو اس بنیاد پر کہا جاتاہے کہ فلاں آدمی فلاں چیز کامالک ہے اس روش کا کوئی منکر نہیں اور شارع مقدس نے بھی عقلاء کی اس دائمی سیرت اور روش پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔

ہاں ! البتہ خبر موثق اور دیگر شرعی دلیلوں کے قابل عمل ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ حجیت کی تمام شرائط پر مشتمل ہوں۔ ان میں سے ایک اہم شرط یہ ہے کہ اس خبر کے جھوٹے ہونے کا یقین نہ ہو کیونکہ جس خبر کاکذب یقینی ہو اسے حجیت کی دلیل شامل ہی نہیں ہو سکتی بنا برایں وہ روایات جو اجماع ، سنت قطعیہ ، کتاب الٰہی اور صحیح حکم عمقل کے خلاف ہوں کبھی بھی حجیت نہیں ہو سکتیں اگرچہ حجیت کی باقی شرائط اس خبر واحد اور روایت میں موجود ہوں اس حکم میں وہ اخبار جو کسی حکم شرعی پر مشتمل ہوں اور دوسرے اخبار یکساں ہیں۔

۵۱۱

اس شرط کاراز یہ ہے کہ راوی ، چاہے کتنا ہی موثق ہو اس کی خبر واقع کیخلاف بھی ہو سکتی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ راوی کیلئے حقیقت حال مشتبہ ہو گئی ہو خصوصاً جب واسطے (سلسلہ رواۃ) زیادہ ہوں تو اس احتمال کو اور زیادہ تقویت ملتی ہے اس لئے اس احتمال کے ازالے اور اس کالعدم فرض کرنے کیلئے حجیت کی دلیل کاسہارالیناضروری ہو جاتا ہے۔

لیکن جہاں خبر کیخلاف واقع ہونے کا یقین ہو وہاں پرتعبداً اسے معدوم فرض کرنا غیر معقول ہے کیونکہ یقین کی کاشفیت ذاتی ہے یعنی اس کی یہ ذاتی خصوصیت ہے کہ وہ واقع کاانکشاف کرتا ہے اور اس کی حجیت بحکم عقل بدیہی طورپر ثابت ہے۔

بنا بریں حجیت خبر واحد کے دلائل صرف انہی روایات کو شامل ہوں گے جن کے کاذب اور مخالف واقع ہونے کا علم اور یقین نہ ہو۔ یہی حکم خبر واحد کے علاوہ دوسرے شرعی دلائل کا بھی ہو گا جو واقع کاانکشاف کرتے ہیں یہ حقائق ایک ایسا دروازہ ہے جس سے کئی اور دروازے کھلتے ہیں اور اس سے بہت سے اعتراضات اور اشکالات کا جواب دیا جا سکتا ہے اس لئے قارئین کرام کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے۔

خبر واحد سے قرآن کی تخصیص

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی قطعی دلیل کے ذریعے خبر واحد کی حجیت ثابت ہو جائے تو کیا اس خبر واحد کے ذریعے ان عمومات کی تخصیص ہو سکتی ہے جو قرآن میں موجود ہیں؟

مشہور کا مسلک یہی ہے کہ خبر واحد کے ذریعے عمومات قرآن کی تخصیص جائز ہے اور بعض علمائے اہل سنت نے اس (جواز) کی مخالفت سنی ہے البتہ ان میں سے بعض نے تو معطلقاً اسے ناجائز قرار دیا ہے عیسیٰ بن ابان کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر عام قرآن کی پہلے کسی قطعی دلیل کے ذریعے تخصیص ہو چکی ہو تو خبر واحد کے ذریعے اس کی مزید تخصیص جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔

کرخی کا نظریہ ہے کہ اگر کسی دلیل منفصل کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہوئی ہو تو خبر واحد کے ذریعے مزید تخصیص جائز ہے ورنہ نہیں اور قاضی ابوبکر نے توقف اختیار کیا ہے (وہ نہ جواز کاقائل ہوا ہے اور نہ عدم جواز کا)۔

۵۱۲

ہمارا عقیدہ وہی ہے جو مشہور علماء کا ہے یعنی خبر واحد کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خبر واحد کی حجیت (اس کا لازم العمل ہونا) قطعی اور یقینی ہے اور اس کا تقاضا یہی ہے کہ جب تک کوئی مانع پیش نہ آئے اس خبر کے مدلول و مضمون پر عمل کرنا واجب ہے اس کالازمی نتیجہ یہی ہے کہ اس کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو جاتی ہے۔

چندتوہمات اور ان کاازالہ

چند چیزوں کو مانع کے طورپر ذکر کیا گیا ہے لیکن درحقیقت وہ مانع بننے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ۔

۱۔ مانعین کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کریم کلام الٰہی ہے جس کو اللہ نے اپنے نبی (ص) پر نازل فرمایا ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں لیکن خبر واحدکے مطابق واقع ہونے کا یقین نہیں اور نہ اس بات کا یقین ہے کہ یہ خبر معصوم (ع) سے صادر ہوئی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال باقی ہے کہ راوی کو اشتباہ ہوا ہو اور عقل کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک ایسی دلیل کی وجہ سے جس میں خطاء کا احتمال موجود ہو ایک قطعی دلیل سے دستبردار ہوا جائے۔

جواب: یہ درست ہے کہ قرآن قطعی ا لصدور ہے (اس کے کلام خدا ہونے میں کوئی شک نہیں) لیکن ہمیں اس بات کا یقین نہیں کہ حکم واقعی ، عمومات قرآن کے مطابق ہو عمومات قرآن اس لئے واجب العمل ہیں کہ یہ ظاہر کلام ہیں اور عقلاء کی سیرت اس بات پر قائم ہے کہ وہ ظواہر کو حجت جانتے ہیں اور شارع مقدس نے بھی اس سیرت اور روش سے منع نہیں فرمایا۔

لیکن یہ بھی واضح ہے کہ سیرت عقلاء کی رو سے ظواہراس صورت میں حجت ہیں جب ان کے ظاہری معنی کیخلاف کوئی قریہ متصل و مقصل قائم نہ ہو اور اگر کسی مقام پر ظاہری معنی کیخلاف کوئی قرینہ قائم ہو تو اس طاہری معنی سے دستبردار ہونا اور قرینہ کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔

۵۱۳

بنا برایں یہ بات تسلیم کرناناگزیر ہے کہ عمومات قرآن کی اس خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہے جس کی حجیت پر کوئی قطعی دلیل قائم ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس خبر کا مضمون ، معصوم (ع) سے صادر ہونے کو شرعی طور سے تسلیم کر لیں دوسرے الفاظ میں اگرچہ قرآن کی سند قطعی ہے لیکن اس کی دلالت ظنی ہے اور عقل کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ایک ظنی دلالت سے کسی ایسی ظنی دلیل کی بنیاد پر دستبردار ہوا جائے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو۔

۲۔ دوسرا تو ہم یہ ہے کہ معصومین (ع) کی صحیح روایات کہتی ہیں کہ روایات کو کتاب خدا کے سامنے پیش کیا جائے ان میں سے جو روایات کتاب خدا کے خلاف ہو اس کو ترک کر دیا جائے اور اسے دیوار پر مار دیا جائے اور یہ کہ وہ روایت معصوم (ع) سے صادر ہی نہیں ہوئی جو مخالف کتاب خداہو یہ روایت صحیحہ اس خبر واحد کو بھی شامل ہوں گی جو عموم قرآن کیخلاف ہو یعنی اس کو مخالف قرآن ہونے کی وجہ سے ترک کر دیا جائے گا۔

جواب: وہ قرائن عرفیہ جو مراد خداوندی کو بیان کریں ، عرف کے نزدیک مخالف قرآن نہیں سمجھتے جاتے اور دلیل خاص ہمیشہ دلیل عام کی وضاحت ہوا کرتی ہے کوئی دو دلیلیں اس وقت ایک دوسری کی مخالف سمجھی جاتی ہیں جب ان کا آپس میں تعارض ہو۔ بایں معنی کہ جب کسی متکلم سے یہ دونوں دلیلیں صادر ہوں تو اہل عرف اس سے مقصود و متکلم کو نہ سمجھیں اور حیران رہ جائیں بنا برایں خبر واحد جو خاص ہو عام قرآن کی مخالف نہیں بلکہ وہ مراد اور مقصود قرآن کو بیان کرتی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں قطعی طورپر علم ہے کہ معصومین (ع) سے ایسی روایات صادر ہوئی ہیں جو عمومات قرآن کیلئے مخصص اور مطلقات قرآن کیلئے مقید ہیں اگر تخصیص و تقیید ، قرآن کی مخالفت کہلاتی تو ان کایہ فرمان درست نہ ہوتا ''جو کلام خدا کا مخالف ہے وہ ہمارا قول نہیں ہے بلکہ جھوٹ یاباطل ہے،، لہٰذا ان روایات کا ائمہ (ع) سے صادر ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ تخصیص و تقیید قرآن کی مخالف نہیں ہے۔

۵۱۴

اس کے علاوہ معصومین(ع) نے دو روایتوں میں سے ایک کے موافق قرآن ہونے کو ، دوسری روایت پر مقدم ہونے کامرجح قرار دیا ہے اس کامطلب یہ ہوا کہ مخالف روایت بھی (جو موافق قرآن نہیں) اگر معارض نہ ہوتی تو بذات خود حجیت تھی اور یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں کہ اگر اس متروک روایت کی مخالفت اس نوعیت کی ہوتی جو قرآن کے ساتھ ہرگز سازگار نہ ہوتی توبذات خود بھی حجیت نہ ہوتی اور تعارض اور ترجیح کی نوبت نہ آتی۔

معلوم ہوا روایت کا موافق کتاب نہ ہونے کامطلب یہ ہے کہ عرفاً یہ دونوں تخصیص یا تقیید کے ذریعے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔

اس بحث کانتیجہ یہ نکلا کہ خبر واحد جو کسی عام کیلئے مخصص یا مطلق کیلئے مقید قرار پائے بذات خود حجیت اور لازم العمل ہے مگر یہ کہ کسی دوسری دلیل سے اس کاتعارض ہو۔

۳۔ تیرا شبہ یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اگر خبر واحد کے ذریعے قرآن کی تخصیص جائز ہو تو اس کے ذریعے قرآن کا نسخ بھی جائز ہونا چاہئے جبکہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کا نسخ ہونا یقیناً جائز نہیں ہے اس لئے تخصیص بھی جائز نہیں ہونی چاہئے۔

اس ملازمہ کی دلیل یہ ہے کہ نسخ (جس کی وضاحت ہم نسخ کی بحث میں کر چکے ہیں) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کانام ہے اور دلیل ناسخ اس کا انکشاف کرتی ہے کہ حکم سابق (منسوخ) ایک خاص زمانے اور مدت سے مختص تھا جو دلیل ناسخ کے آنے پر ختم ہو گیا بنا برایں کسی حکم کا نسخ ہو جانا حقیقی معنوں میں اس حکم کا اٹھا دینا نہیں بلکہ ظاہری شکل میں حکم کا ازالہ ہوتا ہے افراد کی تخصیص (حکم عام سے اس کے بعض افرادکو خارج کرنا) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کے مانند ہے اس طرح یہ دونوں تخصیص ہیں۔ اگر پہلی تخصیص جائز ہو تو دوسری کوبھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۵

جواب: یہ درست ہے کہ یہ دونوں تخصیص ہیں لیکن ان دونوں تخصیصوں میں فرق ہے یہ کہ اجتماع قطعی اس بات پر قائم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ جائز نہیں ہے اگر عدم جواز پر اجتماع قائم نہ ہوتاتو خبر واحد کے ذریعے تخصیص کی طرح اس کے ذریعے نسخ بھی جائز ہوتا اس سے قبل یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ قرآن اگرچہ قطعی الصدور ہے مگر اس کی دلالت ظنی ہے قطعی نہیں اور خبر واحد ، جس کی حجیت دلیل قطعی سے ثابت ہے کہ ذریعے اس ظنی دلالت سے دستبردار ہوا جا سکتا ہے۔

ہاں ! یہ بات ضرور ہے کہ عدم جواز نسخ پر قائم ہونے والا اجماع تعبدی نہیں بلکہ بعض مسائل اور واقعات اس اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہوتے ہیں کہ اگر خارج میں رونما ہوں تو خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہوتے ہیں ایسے مسائل اور واقعات کوصرف چند آدمی نقل کریں تواس راوی کے کذب اور اس کی خطا کی دلیل ہو گی اور حجیت خبر واحد کی دلیلیں ایسی خبروں اور روایات کو شامل نہیں ہوں گی جنہیں ا ہمیت کی حامل ہونے کے باوجود ایک یا چندآدمی نقل کریں اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ خبر واحد کے ذریعے قرآن ثابت نہیں ہوسکتا۔

یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ نسخ قرآن کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو مسلمانوں کی صرف ایک قوم سے مختص ہو اس کے علاوہ نسخ واقع ہونے کی صورت میں اس کی خبر نقل ہونے کے اسباب و عوامل بھی زیادہ ہوتے ہیںبنا برایں اگر نسخ واقع ہو تو یہ ایک ایسی غیر معمولی خبر ہے جسے خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہونا چاہئے اگر اسے صرف ایک یا دو آدمی نقل کریں تو یہ اس راوی کے جھوٹ یا اشتباہ کا ثبوت ہو گا یہیں سے نسخ اور تخصیص کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے اور وہ ملازمہ بھی باطل ہو جاتا ہے جس کی رو سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہو تو نسخ بھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۶

قرآن حادث ہے قدیم

یونانی فلسفہ کا مسلمانوںکی زندگی پر اثر

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

کلام نفسی

کیا ''طلب،، کلام نفسی ہے ؟

کلام نفسی کا کوئی وجود نہیں

کلام نفسی پر اشاعرہ کے دلائل

۵۱۷

کسی مسلمان کو اس بات میں شک نہیں کہ کلام اللہ وہی ہے جسے اللہ نے نبوت کی دلیل کے طور پر رسول اللہ (ص) پر نازل فرمایانیز اس بات میں بھی کسی مسلمان کو شک نہیں کہ ''تکلم،، خدا کی صفات ثبوتیہ میں سے ایک صفت ہے ، جن کو صفات جمال کہتے ہیںچنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس صفت کو اپنی ذات کیلئے استعمال کیا ہے۔

( وَكَلَّمَ اللَّـهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ) ۴:۱۶۴

''اور خدا نے تو موسیٰ سے (بہت سی) باتیںبھی کیں،،

یونانی فلسفہ کا مسلمانوں کی زندگی پر اثر

تمام مسلمانوں کا مذکورہ دو باتوں پر اتفاق تھا اور ان میں کسی قسم کا اختلاف نہیںپایا جاتاتھا یہاں تک کہ یونانی فلسفہ مسلمانوں میں داخل ہو گیا اور مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں بانٹ کر رکھ دیا حتیٰ کہ ایک فرقہ دوسرے کو کافر گرداننے لگا اور زبانی اختلاف ہاتھا پائی اور قتل و قتال میں تبدیل ہو گیا کئی مسلمانوں کی ناموس کی توہین کی گئی اور کئی بے گناہ افرادکا خون بہایا گیا جبکہ قاتل اور مقتول دونوں توحید کے قائل تھے اور رسالت و معاد کا اقرار کرتے تھے۔

کیا یہ مقام تعجب نہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی عصمت دری اور قتل کے درپے ہو جب کہ دونوں مسلمان گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد (ص) اللہ کے بن دہ اور رسول ہیں جو اللہ کی طرف سے پیام حق لے کر آئے ہیں اوریہ کہ اللہ روز محشر تمام لوگوںکو (حساب کتاب کیلئے) قبروں سے دوبارہ اٹھائے گا۔

کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ(ص) کے بعد ولی امر (ع) کی سیرت یہ نہیں رہی کہ جو شخص بھی ان باتوں کی گواہی دے اس پر مسلمان کے احکام و آثار مرتب کئے جائیں ؟ کیا کوئی روایت یہ کہتی ہے کہ رسول اللہ (ص) یا آپ (ص) کے جانشینوں (ع) میں سے کسی نے کسی بھی شخص سے قرآن کے قدیم یا حادث ہونے یا اس کے علاوہ دوسرے اختلافی مسائل کے بارے میں سوال فرمایا ہو اور ان کے اختلافی مسائل میں سے کسی ایک کا اقرار لینے کے بعد اسے مسلمان قرار دیا ہو؟

۵۱۸

میں نہیں سمجھتا کہ (اور کاش سمجھتا) کہ جو لوگ اس طرح مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کا بیج بوتے ہیں خدا کو کیا جواب دیں گے اور کیاعذر پیش کریں گے ۔انا لله و انا الیه راجعون ۔

حدوث قرآن اور قدم قرآن کے مسئلے نے اس وقت جنم لیا جب مسلمان دو گروہوں (اشعری اور غیر اشعری) میں تقسیم ہو گئے اشاعرہ اس بات کے قائل ہوئے کہ قرآن کریم ہے (یعنی ابد سے ہے اور اس کی کوئی ابتداء نہیں) اوریہ کہ کلام کی دو قسمیں ہیں ۔ ۱۔کلام لفظی ۲۔ کلام نفسی۔ کلام نفسی اللہ کی ذات کے ساتھ قائم اور موجود ہے اور اللہ کے قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا کلام نفسی بھی قدیم ہے اور یہ کہ کلام نفسی خدا کی صفات ذاتیہ میں سے ایک صفت ہے معزلہ اور عدلیہ (امامیہ) کا یہ عقیدہ ہے کہ ''قرآن،، حادث (مخلوق) ہےاور یہ کہ کلام صرف لفظی ہی ہوا کرتی ہے کلام نفسی نامی کوئی چیز موجودن ہیں ہے اور ''تکلم،، اللہ کی صفات فعلیہ میں سے ہے۔

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

اللہ کی صفات ذاتی اور فعلی میں فرق یہ ہے کہ اس کی ذات میں صفات ذاتی کا نقیض و عکس کبھی نہیں پایا جا سکتا دوسرے الفاظ میں اللہ کی ذاتی صفات وہ صفات ہیں جو کبھی بھی اللہ سے سلب نہیں ہو سکتیں جس طرح علم ، قدرت اور حیات ہیں اللہ کی ذات ہمیشہ سے عالم ، قادر اور زندہ ہے اور عالم ، قادر اور زندہ رہے گی یہ امر محال ہے کہ ایک لمحہ کیلئے بھی اللہ عالم ، قادر اور حّی نہ ہو۔

اللہ کی صفات فعلیہ وہ ہیں کہ اللہ کی ذات کبھی ان سے متصف ہوتی اور کبھی ان کے نقیض و عکس سے متصف ہوتی ہے جس طرح خلق کرنا اور رزق دینا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ نے فلاں چیز کو خلق فرمایا اور فلاں چیز کو خلق نہیں فرمایا فلاں کو اللہ نے فرزند عطا فرمایا اور مال عطا نہیں فرمایا۔

اس بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ''تکلم،، صفات فعلیہ میں سے ہے صفات ذاتیہ میں سے نہیں کیونکہ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اللہ ت عالیٰ حضرت موسی ٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا اور فرعون سے ہمکلام نہیں ہوا یااللہ کوہ طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا ، اور بحرنیل میں ہمکلام نہیں ہوا۔

۵۱۹

کلام نفسی

تمام اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ عام اور مشہور کلام لفظی کے علاوہ بھی ایک کلام موجود ہے جس کانام انہوںنے کلام نفسی رکھا ہے البتہ کلام نفسی کی حقیقت کے بارے میں ان سے اختلاف ہے بعض اشاعرہ کا کہنا ہے کہ کلام نفسی ، کلام لفظی کے مدلول اور اس کے معنی کا نام ہے اور بعض اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ کلام نفسی مدلول لفظ سے مختلف ہے اور لفظ اس کلام نفسی پر دلالت و وضعیہ نہیں کرتا بلکہ لفظ کی دلالت اس کلام پر ایسی ہے جیسے انسان کے اختیاری افعال ہیں جو فاعل کے ارادہ علم اور اس کی حیات پر دلالت کرتے ہیں بہرحال اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں موجود کلام ہی قدیم ہے لیکن فاضل قوشجی نے بعض اشاعرہ کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ کلام قرآن کی طرح اس کی جلد اور غلام بھی قدیم ہے جیسا کہ اس سے پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ اشاعرہ کے علاوہ سب کا اتفاق ہے کہ قرآن حادث ہے اور یہ کہ اللہ کا کلام لفظی کائنات کی دیگر مخلوقات کی طرحایک مخلوق ہے اور اس کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

البتہ اس مسئلہ میں بحث و تمحیص اور تحقیق سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اس لئے کہ یہ مسئلہ اصول دین میں سے ہے اور نہ فروغ دین میں سے بلکہ اس کا دنی مسائل اور الٰہی معارف سے دُور کابھی واسطہ نہیں ۔ تاہم میں نے چاہا کہ اس مسئلے کے بارے میں بھی کچھ بحث کی جائے تاکہ ہمارے اشاعرہ بھائیوں (جن کی مسلمانوں میںا کثریت ہے) کیلئے یہ بات واضح ہو جائے کہ جس مسلک کو انہوں نے اختیار کیا ہے اور جس عقیدے کو واجب سمجھتے ہیں وہ محض ایک خیالی چیز ہے عقلی اور شرعی اعتبار سے اس کی کوئی بنیاداور اساس نہیں۔

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689