البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن0%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی رح
زمرہ جات:

صفحے: 689
مشاہدے: 302112
ڈاؤنلوڈ: 8558

تبصرے:

البیان فی تفسیر القرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 302112 / ڈاؤنلوڈ: 8558
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

۷۔ ابوحرب بن ابی اسود اپنے والد سے نقل کرتا ہے:

''ابو موسیٰ اشعری نے بصرہ کے قاریوں کی دعوت کی اور یہ تین سو افراد تھے جو کہ سب کے سب قاری تھے۔ جب یہ لوگ ابو موسیٰ کے گھر میں داخل ہوئے تو ابو موسیٰ نے ان سے کہا: دیکھو! تم بصرہ کے نیک اور قاری حضرات ہو، قرآن کی تلاوت کرو اور لمبی لمبی آرزوئیں نہ رکھو تا کہ تم کہیں قسی القلب نہ ہوجاؤ۔ جس طرح تم سے پہلے کے لوگ قسی القلب ہوگئے تھے۔ہم ایک سورۃ پڑھا کرتے تھے جو طویل اور سخت لہجے کے اعتبار سے سورہ براءت کی مانند تھا، لیکن اب میں اسے بھول چکا ہوں۔ اس میں سے مجھے صرف اتنا یاد ہے:''لو کان لابن آدم و ادیان من مال لابتغی و ادیاً ثالثا ولا یملا جوف ابن دم الا التراب،، اس کے علاوہ ہم ایک اور سورۃ بھی پڑھا کرتے تھے جو ''مسبحات،، کی مانند تھا۔ اسے بھی بھول چکا ہوں اور اس میں سے مجھے صرف اتناد یاد ہے:یا أیها الذین آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون، فتکتب شهادة فی أعناقکم فتسألون عنها یوم القیامة ۔،، (۱)

۸۔ زر روایت کرتا ہے کہ اُبیّ ابن کعب نے مجھ سے کہا:

''تم سورۃاحزاب میں کتنی آئتیں پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: تہتر آیات۔ اس نے کہا: ایسا نہیں ہے بلکہ اس کی آئتیں سورۃ بقرہ جتنی یا اس سے بھی زیادہ تھیں۔،،(۲)

۹۔ ابن ابی داؤد اور ابن انباری نے ابن شہاب سے روایت کی ہے کہ ابن شہاب نے کہا:

''ہم نے سنا تھا کہ بہت سارا قرآن نازل ہوا تھا لیکن علماء و حافظ قرآن جنگ یمامہ میں قتل ہوگئے جس کی وجہ سے قرآن کا ایک بڑا حصہ لکھا نہ جاسکا اور ضائع ہوگیا۔،،(۳)

۱۰۔ عمرۃ نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۳، ص ۱۰۰۔

(۲) منتخب کنز العمال باحاشیہ مسند احمد، ج ۲، ص ۴۳۔

(۳) ایضاً، ص ۵۰۔

۲۶۱

جو لوگ نسخ تلاوت کے قائل ہیں اگر ان کی مراد یہ ہے کہ خود پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نسخ واقع ہوا ہے تو یہ دلیل کا محتاج ہے۔ اسے ثابت کرنا پڑے گا اور تمام علماء کرام کا اتفاق ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ کتاب (قرآن) جائز نہیں ہے۔ چنانچہ علماء کی ایک جماعت نے کتب اصول وغیرہ(۱) میں اس بات کی تصریح کی ہے۔ بلکہ شافعی اوراس کے اکثر پیروکار اور ایسے علماء جو ظاہر قرآن پر عمل کرتے ہیں، خبر متواتر کے ذریعے بھی نسخ کتاب (قرآن) کو جائز نہیں سمجھتے۔

ایک اور نقل کے مطابقاحمد بن جنبل کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ بعض علماء ایسے ہیں جو خبر متواتر کے ذریعے نسخ کتاب کو جائز تو سمجھتے ہیں لیکن اس کے وقوع پذیر ہونے کے قائل نہیں ہیں۔(۲)

بنابرایں خبر واحد کی بنیاد پر نسخ کتاب کو رسول اسلامؐ کی طرف منسوب کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ نسخ کتاب نسبت رسول کرمؐ کی طرف دینا ان روایات کے منافی بھی ہے جن کے مطابق قرآن کا کچھ حصہ آپ کے بعد ضائع ہوگیا ہے۔

اور اگر مراد یہ ہو کہ نسخ تلاو، رسول کریمؐ کے بعد ان لوگوں سے ہوا ہے جو برسراقتدار تھے تو یہ عیناً تحیرف ہے۔ بنابرایں یہ کہا جاسکتا ے کہ علماء اہل سنت کی اکثریت تحریف کی قائل ہے۔ کیونکہ ان کی اکثریت نسخ تلاوت کی قائل ہے۔ چاہے نسخ تلاوت کے ساتھ آیہ کے حکم کو بھی نسخ کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔

چنانچہ بعض علماء اہل سنت میں سے ماہرین علم اصول اس مسئلہ میں تردد سے کام لیتے ہیں کہ آیا مجنب کے لیے نسخ شدہ آیات کی تلاوت یا محدث کے لیے انہیں چھونا جائز ہے؟ بعض کے نزدیک نسخ شدہ آیات کو پڑھنا اور چھونا جائز نہیں ہے۔ البتہ! بعض معتزلہ کا یہ نظریہ ہے کہ نسخ تلاوت جائز نہیں ہے۔(۳)

____________________

(۱) الموافقات لابی اسحاق الشاطبی، ج ۳، ص ۱۰۶ طبعۃ المطبعۃ الرحمانیۃ بمصر۔

(۲) الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی، ج ۳، ص ۲۱۷۔

(۳) ایضاً، ص ۲۰۱۔۲۰۳۔

۲۶۲

مقام تعجب ہے کہ علمائے اہل سنت کی ایک جماعت تحریف کے قول کو کسی بھی سنی عالم کی طرف نسبت دینے پر راضی نہیں ہے۔ حتی کہ آلوسی نے صاحب ''مجع البیان،، طبرسی کی اس بات کی تکذیب کی ہے کہ سنیوں کا ایک فرقہ ''حشویہ،، تحریف کا قائل ہے۔ آلوسی کہتا ہے: ''علماء ال سنت میں سے کوئی بھی تحریف کا قائل نہیں ہے۔،،

اس سے زیادہ تعجب آلوسی کی اس بات پر ہوتا ہے کہ طبرسی تحریف کا انکار کرکے اپنے ہم مسلک دوسرے علمائے شیعہ پر عقیدہئ تحریف جو دھبہ لگا ہے اس کو چھپانہ چاہتا ہے۔(۱) حالانکہ گذشتہ مباحث میں یہ بتا ثابت ہوچکی ہے کہ شیعوں میں مشہور قول یہی ہے اور شیعہ علماء و محققین کا اتفاق ہے کہ تحریف نہیں ہوئی بلکہ مرحوم طبرسی نے اپنی تفسیر ''مجمع البیان،، میں عدم تحریف پر سید مرتضیٰ علم الہٰدی کے طویل کلام اور ان کی محکم دلیل کو بھی نقل فرمایا ہے۔

تحریف، قرآن کی نظر میں

اس تمہیدی بحث کے بعد ہم اصل مطلب کی طرف آتے ہیں:

حق یہی ہے کہ تحریف متنازعہ فیہ معنو ںمیں قرآن میں بالکل واقع نہیں ہوئی ذیل میں ہم عدم تحریف پر دلائل پیش کرتے ہیں۔

( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) ۱۵:۹

''بیشک ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی تو اس کے نگہبان بھی ہیں۔،،

یہ آیہ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن محفوظ ہے اور کوئی بھی مجرم اس میں کسی قسم کی کمی کرنے یا اس سے کھیلنے کی جسارت نہیں کرسکا۔ البتہ جو حضرات تحریف کے قائل ہیں انہوں نے اس آیہ کی چند تاویلیں کی ہیں:

____________________

(۱) روح المعانی، ج ۱، ص ۲۴۔

۲۶۳

i ۔ اس آیہ شریفہ میں ذکر سے مراد خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ذات ہے اور قرآن میں ذکر، رسول کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( قَدْ أَنزَلَ اللَّـهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا ) ۶۵:۱۰

''خدا نے تمہارے لیے ذکر نازل کیا (اور)

( رَّسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّـهِ ) :۱۱

''اپنا رسول بھیج دیا ہے جو تمہارے سامنے واضح آیتیں پڑھتا ہے۔،،

بنابرایں مذکورہ آیات کا ترجمہ یہ ہوگا:

''ہم نے رسول بھیجا اور اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔،،

جواب: اس تاویل کا بطلان صاف ظاہر ہے۔ اس لیے کہ دونوں آیات میں ذکر سے مراد قرآن ہے نہ کہ رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کیذات۔ اس لیے کہ ان ایتوں میں ''تنزیل،، اور ''انزال،، کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو قرآن سے مناسبت رکھتے ہیں۔ اگر ذکر سے مراد رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ذات ہوتی تو ''انزال،، کی بجائے ''ارسال،، یا ''ارسال،، کے معنی سے ملتا جلتا کوئی دوسرا لفظ استعمال ہوتا۔ اس کے علاوہ اگر دوسری آیہ (۶۵:۱۰) میں یہ احتمال (ذکر بمعنی رسول ) صحیح بھی ہو تو پہلی آیہ (۹۵:۹) میں ذکر بمعنی رسول نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس سے پہلے یہ آیہ ہے:

( وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ ) ۱۵:۶

''(اے رسول کفارمکہ تم سے) کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس کو (یہ سودا ہے) کہ اس پر وحی او رکتاب نازل ہوئی ہے۔ تو تو (اچھا خاصا) سڑی ہے۔،،

۲۶۴

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا کہ اس آیہ شریفہ میں ذکر بمعنی قرآن ہے اور یہ اس بات کا قرینہ اور موید ہے کہ بعد والی آیہ (آیہ حفظ) میں بھی ذکر سے مراد قرآن ہے۔

ii ۔ دوسری تاویل یہ کی جاتی ہے کہ اس آیہ میں حفظ سے مراد، قرآن کا ہر قسم کے اعتراضات اور تنقیدوں سے محفوظ رہنا ہے اور قرآن کے بلند معانی اور تعلیمات باطل نہیں ہوسکتیں۔

جواب: اس تاویل کا باطل ہونا پہلے سے بھی زیادہ آشکار ہے۔ کیونکہ اگر اعتراض سے مراد یہ ہو کہ قرآن کفار کی تنقیدوں سے محفوظ ہے تو یقیناً یہ باطل ہے۔ ا س لیے کہ کفار کی طرف سے قرآن پر اتنے اعتراضات ہوئے ہیں ک ہجن کا شمار نہیں ہوسکتا۔

اگر اعتراض سے مراد یہ ہو کہ قرآن کی روش و اسلوب اتنا مستحکم و منفرد ہے کہ کوئی معترض اس پر صحیح و بجا اشکار نہیںکرسکتا اور کسی کے شک و تردد سے اس میں کسی قسم کا تزلزل نہیں آسکتا تو یہ بات اپنے مقام پر صحیح ہے لیکن یہ نزول قرآن کے بعد اس کے تحفظ سے مربوط نہیں ہے۔ جیسا کہ آیہ کا مفہوم ہے ۔ کیونکہ قرآن اپنی خصوصیات کے اعتبار سے خود اپنا محافظ ہے اور اس کے لیے وہ کسی دوسرے محافظ کا محتاج نہیں ہے۔ چنانچہ آیہ کا مفہوم بھی یہی ہے کہ نزول قرآن کے بعد اس کا تحفظ اللہ کے ذمے ہے۔

iii ۔ تیسری تاویل یہ کی گئی ہے کہ آیہ کریمہ میں قرآن سے مراد قرآن کے تمام نسخے نہیں بلکہ فی الجملہ کوئی قرآنی نسخہ ہے۔ بنابرایں ممکن ہے آیہ شریفہ اس قرآن کی طرف اشارہ کررہی ہو جو حضرت ولی عصر(ع) کے پاس محفوظ ہے۔

جواب: یہ احتمال تمام احتمالات سے زیادہ ناقابل توجہ ہے۔ کیونکہ اگر قرآن محفوظ ہے تو اسے جن کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ یعنی عام لوگوں کے لیے محفوظ رہنا چاہیے۔ صرف امام(ع) کے پاس محفوظ رہنا تو ایسا ہی ہے جیسے لوح محفوظ میں محفوظ ہو یا ایک فرشتے کے پاس محفوظ ہو۔ یہ ایک بے ربط مطلب لگتا ہے اور یہ ایسا ہے کہ جیسے کوئی کہے میں نے آپ کو ایک تحفہ بھیجا ہے اور وہ میرے یا میرے کسی خاص آدمی کے پاس محفوظ ہے۔

۲۶۵

یہ قول انتہائی تعجب خیز ہے کہ آیہ کریمہ میں حفظ قرآن سے مراد کسی ایک قرآنی نسخے کی حفاظت ہے، تمام قرآنی نسخوں کی حفاظت نہیں۔ گویا کہ یہ لوگ اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ذکر سے مراد وہ قرآن ہے جو تحریر میں آجائے یا جس کا تلفظ کیا جائے اور اس کے متعدد نسخے بنے ہوں، حالانکہ ذکر سے مراد یہ نہیں ہے کیونکہ قرآن مکتوب یا قرآن ملفوظ کو کوئی دوام حاصل نہیں ہے۔ بنابرایں آیہ حفظ سے قرآن مکتوب مراد نہیں لیا جاسکتا۔

ذکر سے مراد وہ مطالب، معانی و مفاہیم ہیں جن کو قرآن مکتوب یا قرآن ملفوظ کے ذریعے ادا کیا جائے اور یہی وہ معانی ہیں جو رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نازل کیے گئے ہیں اور اس کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ خالق نے اس کو مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں کھلونا بننے اور ضائع ہونے نہیں دیا اور عام انسانوں کی اس تک رسائی ہوسکتی ہے۔ یہ ایسا ہے جیسا کہ ہم یہ کہیں کہ فلاں شاعر اور قصیدہ اور کلام محفوظ ہے۔ اس کا مطلن یہی ہوتا ہے کہ یہ کلام محفوظ ہے اور ضائع نہیں ہوا بایں معنی کہ اس تک بہرحال رسائی حاصل ہوسکتی ہے۔

ہاں! اس مقام پر ایک اور شبہ موجود ہے، جس کے ذریعے عدم تحریف پر آیہ کریمہ سے استدلال کو ردّ کیا جاتا ہے۔ اس شبہ کا خلاصہ یہ ہے کہ فریق مخالف جو تحریف کا مدعی ہے وہ اس (زیر بحث) آیہ شریفہ میں بھی تحریف کا احتمال دیتا ہے کیونکہ یہ بھی اس قرآن ہی کا حصہ ہے جس میں تحریف واقع ہوئی ہے بنابرایں جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی اس آیہ شریفہ سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا۔

اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ اس میں وہی لوگ مبتلا ہوسکتے ہیں جنہوں نے عترت پیغمبرؐ ک وخلافت الہٰیہ سے محروم کر دیا(۱) اور انؑ کے اقوال و افعال پر ایمان نہیں لائے۔ ان لوگوں کے پاس اس شبہ کا کوئی حل نہیں ہے۔

____________________

(۱) جی چاہتا ہے یہ عرض کروں: جنہوں نے خلافت الہٰیہ کو عترت پیغمبر(ص) سے محروم کردیا۔(مترجم)

۲۶۶

لیکن جو لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ عترت پیغمبرؐ مخلوق پر حجت خدا اور وجوب اطاعت میں قرآن کے ہم پلّہ ہے ان کے نزدیک یہ شبہ بے وزن ہے۔ کیونکہ عترت پیغمبرؐ کا موجودہ قرآن سے استدلال کرنا اور اپنے اصحاب کے استدلال پر راضی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ موجودہ قرآن حجت اور واجب العمل ہے، اگرچہ کوئی ا س کی تحریف کا قائل ہو۔ البتہ تحریف کی صورت میں کتاب اس وقت حجت ہوگی جب عترت پیغمبرؐ اس کی تائید و تصدیق کرے۔

۲۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ ) (۴۱:۴۱)

''اور یہ قرآن تو یقینی ایک عالی رتبہ کتاب ہے۔،،

( لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ) (:۴۲)

''کہ جھوٹ نہ تو اس کے آگے ہی پھٹک سکتا ہے او رنہ اس کے پیچھے سے اور خوبیوں والے دانا (خدا) کی بارگاہ سے نازل ہوتی ہے۔،،

اس آیہ شریفہ کا مفہوم یہ ہے کہ باطل کی تمام قسمیں قرآن مجید سے دور ہےں۔ ا س لیے کہ جب کسی چیز کے اصل وجود کی نفی کی جائے تو اس کی تمام قسموں اور مصادیق کی نفی ہوجاتی ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تحریف باطل کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ لہٰذا یہ قرآن کے نزدیک بھی نہیں جاسکتی۔

اعتراض: ہماری اس دلیل پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آیہ کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے احکام میںکسی قسم کی تناقض گوئی نہیں ہے اور اس کی کوئی خبر جھوٹی نہیں ہوسکتی، چنانچہ اس تاویل کی تائید میں علی بن ابراہیم قمی کی روایت پیش کی جاتی ےہ جو انہوں نے اپنی تفسیر میں امام باقر(ع) سے روایت کی ہے۔ امام(ع) نے فرمایا:

۲۶۷

''لا یاتیه الباطل من قبل التوراة ولا من قبل الانجیل، و الزبور، ولا من خلفه ای لاتیه من بعده کتاب یبطله،،

''نہ تو قرآن تورات، انجیل اور زبور کے ذریعے باطل قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ قرآن کے بعد کوئی ایسی کتاب آسکتی ہے جس سے قرآن باطل ہوجائے۔،،

اس کے علاوہ مجمع البیان کی روایت بھی بطور ثبوت پیش کی جاتی ے جو امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہما السلام) سے مروی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

''لیس فی اخباره عما مضی باطل، ولا فی اخباره عما یکون فی المستقبل باطل،،

''نہ قرآن کی گذشتہ سے متعلق خبروں میں باطل کا شائبہ ہے اور نہ مستقبل سے متعلق پیشگوئیوں میں۔،،

جواب: اس روایت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ باطل صرف اسی چیز میں منحثر ہے جس کا روایت میں ذکر ہے تاکہ آیہ شریفہ باطل کی تمام قسموں کی نفی کرسکے۔ خصوصاً جب ہم ان روایات کو دیکھتے ہیں جو یہ کہتی ہےں کہ قرآن کے معانی اور مفاہیم کسی خاص زمان یا مکان سے مختص نہیں بلکہ یہ ہر دور، ہر مکان اور ہر موقع کے لیے ہیں۔ بنابرایں آیہ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن ہر دور میں باطل کی تمام اقسام سے منزہ و مبّرا رہا ہے۔ لہذا قرآن کو تحریف سے بھی پاک ہونا چاہیے جو باطل کی ایک اہم اور واضح قسم ہے۔

تحریف کے باطل (جس کی آیہ قرآن سے نفی کرتی ہے) کے ذیل میں آنے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آیہ کریمہ میں عزت کو کتاب کی صفت کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور کسی بھی چیز کے عزیز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں تغیر و تبدل اور ضائع ہونے کا خطرہ نہ ہو۔

پس آیہ کریمہ میں باطل سے صرف تناقض اورکذب مراد لینا کتاب کے عزیز ہونے سے سازگار نہیں۔ کتاب تب ہی عزیز ہوگی جب یہ ہر قسم کے باطل سے پاک و منزہ ہو۔

۲۶۸

تحریف اور سنت

۳۔ عدم تحریف کی تیسری دلیل ثقلین (قرآن و عترت) کے بارے میں روایات ہیں۔ وہ ثقلین جن کو رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اپنے بعد امت میں چھوڑا اور ساتھ ساتھ یہ خبر بھی دی کہ یہ دونوں (قرآن اور عترت) ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر یہ آپ کے پاس جمع ہوں گے اور آپ نے امت کو ان سے متمسک رہنے کا حکم دیا۔

اس مضمون کی روایات کثرت سے موجود ہیں جو فریقین کی مختلف اسناد سے منقول ہیں۔(۱) ان روایات سے عدم تحریف پر دو پہلوؤں سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔

i ۔ عقیدہئ تحریف سے یہ لازم آتا ے کہ خدا کی طرف سے نازل شدہ کتاب سے تمسک واجب نہ ہو۔ کیونکہ تحریف کی وجہ سے وہ کتاب تو امت کے ہاتھ سے ضائع ہوگئی جبکہ قیام قیامت تک کتاب الہٰی سے تمسک رکھنا واجب ہے۔ بنابرایں عقیدہئ تحریف یقیناً باطل ہے۔

وضاحت: ان روایات کا مفہوم یہ ہے کہ عترت پیغمبرؐ اور کتاب ہمیشہ ساتھ ساتھ ہیں اور قیامت تک لوگوں میں باقی رہیں گے۔ بنابرایں کسی ایسے انسان کا ہونا ضروری ے جو قرآن کے دوش بدوش رہے اور قرآن کا ہونا بھی ضروری ہے جو عترتؑ کے دوش بدوش رہے۔ یہاں تک کہ حوض کوثر پر یہ رسول اعظمؐ کی خدمت میں حاضر ہوں اور ان دونوں سے تمسک کے نیتجے میں امت گمراہی سے محفوظ رہے جس کی خود رسلو کریمؐ نے اس حدیث میں تصریح فرمائی ہے۔

یہ بھی واضح امر ہے کہ عترتؑ سے تمسک کا مطلب یہ ہے کہ ا سؑ سے محبت کی جائے، جن کاموں کا وہ حکم دے نہیں بجا لایا جائے، جن کاموں سے منع کرے ان سے باز رہا اور اس سے رہنمائی حاصل کی جائے اور یہ ایسا امر ہے جس کے لیے خود امام(ع) سے ملاقات اور بالمشافہ احکام حاصل کرنا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ امام(ع) کے زمان غیب سے پہلے بھی سب لوگوں کے لیے امام(ع) سے ملاقات یا بالمشافہ گفتگو کرنا ممکن نہیں تھا چہ جائیکہ زمان غیبت میں یہ کام ممکن ہو۔

____________________

(۱) ان روایات کے حوالے کی طرف اسی کتاب کے صفحہ ۱۸ میں اشارہ کیا جاچکا ہے۔

۲۶۹

یہ کہنا کہ بعض لوگوں کی امام(ع) تک رسائی ضروری ہے۔ یہ ایک بے بنیاد بات اور دعویٰ بلا دلیل ہے اور اس شرط کی کوئی وجہ بھی نظر نہیں آتی۔ پس شیعہ حضرات زمان غیبت میں بھی اپنے ائمہ سے متمسک، ان سے محبت رکھتے اور انؑ کے فرامین کی اطاعت کرتے ہیں۔ تازہ واقعات میں انؑ کی احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرنا بھی ائمہ (ع) کے اوامر و فرامین میں سے ہے۔

لیکن قرآن سے تمسک اسی صورت میں ممکن ہے جب قرآن تک رسائی ہوسکے لہٰذا امت میں قرآن کا ہونا لازمی امر ہے تاکہ وہ اس سے متمسک ہوسکے اور گمراہی کا شکار نہ ہو۔

ہمارے اس بیان سے اس بات کا بطلان بھی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن امام زمان(عج) کے پاس موجود اور محفوظ ہے کیونکہ قرآن سے تمسک کے لیے اس کا وجود کافی نہیں ہے اور جب تک یہ ہماری دسترسی میں نہ ہو اس سے تمسک ناممکن ہے۔

اعتراض: اس دلیل پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حدیث ثقلین تو صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کی آیات احکام (فقہی احکام) میں تحریف واقع نہیں ہوئی۔ کیونکہ مسلمانوں کو آیات احکام ہی سے تمسک کا حکم دیا گیا ہے۔ بنابرایں حدیث ثقلین باقی آیات میں تحریف ہونے کی نفی نہیں کرتی۔

جواب: خدا نے تمام قرآن انسانوں کی ہدایت اور ہر لحاظ سے ممکنہ کمال تک رہنمائی کے لیے نازل فرمایا ہے۔ چاہے وہ آیات احکام ہوں یا دوسری آیات اور اس سے قبل ہم فضل قرآن کی بحث میں یہ چیز بیان کرچکے ہیں کہ قرآن ظاہری طور پر تو قصہ لگتا ہے مگر باطن اور حقیقت میں یہ موعظہ اور نصیحت ہے۔ اس کے علاوہ تحریف کے قائل لوگوں کی اکثریت کا دعویٰ یہ ہے کہ تحریف، ولایت اور اسی طرح کے دوسرے موضوعات میں واقع ہوئی ہے جبکہ آیات ولایت کی پیروی و اطاعت کی سخت تاکید کی گئی ہے۔

ظاہر ہے ان آیات (آیات ولایت وغیرہ) کی اطاعت اسی صورت میں واجب ہوگی جب ان کا قرآن ہو نا ثابت ہو۔

۲۷۰

ii ۔ عقیدہئ تحریف سے یہ لازم آتا ہے کہ کتاب خدا حجت نہ رہے۔ جب کتاب خدا حجت نہ رہے گی تو اس کے ظاہری معانی پر عمل بھی نہ ہوسکے گا اور کوئی بھی تحریف کا قائل اس وقت تک موجودہ قرآن کی طرف رجوع نہیں کرسکے گا جب تک ائمہ معصومین(ع) اس کی تصدیق نہ کریں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کی طرف رجوع اور اس سے استدلال ائمہ معصومین(ع) کی تائید و تصدیق پر موقوف ہے۔ حالانکہ حدیث ثقلین اور دیگر متواتر روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن ایک مستقل مدرک، مرجع اور حجت ہے بلکہ ثقلین میں سے ثقل اکبر ہے۔ اس کی حجیت ثقل اصغر (ائمہ معصومین(ع)) کی حجیت کے تابع نہیں ہے۔

عقیدہ تحریف سے کتاب خدا اس لیے حجت نہیں رہتی کہ جب تحریف کے قائل ہوں گے تو یہ احتمال باقی رہے گا کہ موجودہ قرآن کی کوئی بھی آیت جو کسی مطلب پر دلالت کرتی ہے، ہوسکتا ہے اس کے ساتھ قرآن کا کچھ اور حصہ بھی ملا ہوا تھا جو موجودہ مفہوم کے خلاف تھا مگر تحریف کی وجہ سے وہ حصہ ضائع ہوگیا۔ جب تک یہ احتمال باقی رہے گا قرآن کے ان معانی پر عمل نہیں ہوسکے گا جو موجودہ قرآن سے سمجھے جائیں گے اور اس احتمال کی نفی اصالۃ عدم قرینہ کی وجہ سے بھی نہیں کی جاسکتی ،کیونکہ اس اصل کی دلیل عقلاء کی یہ سیرت ہے کہ وہ کلام سے ظاہر ہونے والے معنی پر عمل کرتے ہیں اور اس معنی کے خلاف کسی قرینہ کے احتمال کو اہمیت نہیں دیتے۔

ہم اصول کی مباحث میں ثابت کرچکے ہیں کہ عقلاء اس سیرت کو اپناتے ہیں جہاں کلام متکلم سے منفصل اور جدا کسی مستقل قرینہ کا احتمال دیاجائے کلام متکلم سے متصل قرینہ کا احتمال ہو اور قرینہ کے ضائع ہونے کی وجہ بھی بیان کے موقع پر متکلم کی غفلت کا احتمال ہو یا سامع استفادہ سے غفلت برتے۔

لیکن اگر قرینہ متصلہ کا احتمال ہو اور اس سے مستفاد نہ ہونے کی وجہ متکلم یا سامع کی غفلت نہ ہو تو عقلاء اس کلام سے ظاہر ہونے والے معانی پر عمل نہیں کرتے۔

۲۷۱

مثال کے طور پر اگر کسی انسان کو کسی ایسے شخص کا خط موصول ہوتا ہے جس کی اطاعت ضروری ہو اور اس خط میں ایک گھر خریدنے کا حکم ہے، مگر اس خط کا کچھ حصہ ضائع ہوچکاہے اور احتمال ہے کہ خط کا ضائع شدہ حصہ اس گھر کی کچھ خصوصیات مثلاً وسعت، قیمت اور محل وقوع پر مشتمل تھا، جس کے خریدنے کاحکم دیا گیا ہے تو اس صورت میں عقلاء کبھی بھی اس احتمال کو کالعدم تصور کرکے خط کے باقی مادنہ مندرجات پر عمل نہیں کریں گے اور اس حکم کے امتثال امر کی خاطر جو گھر بھی میسر آجائے اسے نہیں خریدیں گے اور نہ ہی ایسے شخص کو اپنے مولا کافرمانبردار کہا جائے گا۔

شاید ہمارے محترم قارئین کو وہم ہو کہ اس بیان کے مطابق تو فقہ اور استنباط احکام شرعیہ کی بنیاد منہدم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ احکام شریعہ کے اہم اور عمدہ دلائل معصومین(ع) کی روایات ہیں۔

ان روایات میں بھی یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے کلام معصومین(ع) کے ساتھ قرینہ ملا ہوا تھا جو ہم تک نہیں پہنچ سکا۔ لیکن اگر محترم قارئین معمولی سی بھی توجہ کریں تو یہ شبہ زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکے گا۔ کیونکہ روایات کے سلسلے میں کلام راوی پر اعتماد کیا جاتا ہے بایں معنی کہ اگر کلام میں کوئی قرینہ متصلہ ہوتا تو راوی اس کا ضرور ذکر کرتا۔ راوی کے ذکر نہ کرنے سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ قرینہ متصلہ کلام معصومؑ میں بھی نہ تھا۔ یہ احتمال چونکہ کالعدم ہے کہ شاید قرینہ موجود ہو یا راوی سے غفلت سر زد ہوئی ہو۔ اس لیے اس احتمال کو بھی کالعدم تصور کیا جائے گا کہ شاید قرینہ موجود تھا جو راوی کی غفلت کی وجہ سے رہ گیا ہے ۔ اس قاعدے کی رو سے کہ جس چیز کا وجود مشکوک ہو اسے کالعدم فرض کیا جاتا ہے، قرینہ اور راوی کی غفلت دونوں احتمالوں کی نفی کی جائے گی۔

استدلال کے دوسرے پہلو کا نتیجہ نہ نکلا کہ عقیدہئ تحریف سے یہ لازم آتا ہے کہ ظواہر قرآن سے تمسک جائز نہ ہو۔

۲۷۲

اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے اس بیان کی ضرورت نہیں کہ تحریف کی وجہ سے بعض بلا تعیین آیات کے ظاہری معنی کے درہم برہم ہونے کا اجمالی علمحاصل ہو جاتا ہے یعنی اگرچہ تحریف شدہ آیات کی تعیین نہیں کی گئی لیکن اجمالی طور پر اتنا جان لیتے ہیں کہ کسی نہ کسی آیہ میں تحریف ہوئی ہے جس کی وجہ سے قرآن قابل عمل نہیں رہتا کوینکہ اگر اس بیان کے ذریعے مذکورہ نتیجے تک پہنچنا چاہیں تو اس کا جواب یہ دیا جائے گا:

اولاً قرآن میں تحریف واقع ہونے سے مذکورہ بالا اجمالی علم لازم نہیں آتا۔ ثانیاً یہ اجمالی علم واجب العمل نہیں ہے کیونکہ اجمالی علم اس صورت میں واجب العمل ہوتا ہے جب جس چیز کے واجب ہونے کا احتمال ہے ان سب سے واسطہ پڑے، یعنی سب واجب ہوسکتے ہیں۔

ہماری اس بحث میں ایسا نہیں ہے، اس لیے کہ ان احتمالی تحریف شدہ آیات میں سے کچھ آیات ایسی ہیں جن کا تعلق احکام سے نہیں ہے۔ اس قسم کی آیات کا کوئی عملی اثر نہیں ہوا کرتا۔

بعض اوقات تحریف کے حامی حضرات یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگرچہ تحریف کی وجہ سے قرآن کی حجیت ختم ہو جاتی ہے لیکن ظواہر قرآن سے ائمہ (ع) کے استدلال اور انؑ کی طرف سے استدلال اصحاب کی تائید سے قرآن کی حجیت بحال ہوجاتی ہے۔

یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ ائمہ (ع) اپنے استدلال اور استدلال اصحاب کی تائید سے قرآن کی حجیت نہیں بنا رہے بلکہ وہ اس لیے استدلال اور استدلال کی تائید کرتے تھے کہ قرآن کی حجیت پہلے سے بذات خود ثابت تھی۔

۲۷۳

نماز میں سورتوں کی اجازت

۴۔ عدم تحریف کی چوتھی دلیل یہ ہے کہ ائمہ (ع) نے واجب نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد کم از کم ایک مکمل سورۃ پڑھنے کا حکم دیا ہے اور نماز آیات میں ایک مکمل سورۃ یا زیادہ کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے ہر رکوع سے پہلے ایک حصہ پڑھنا جائز قرار دیا ہے اور جب سے شریعت میں نماز کااعلان کیا گیا ہے یہ احکام ثابت اور موجود ہیں۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ائمہ نے تقیہ کے طور پر یہ احکام بیان فرمائے تھے، کیونکہ اس وقت تقیہ کا کوئی موقع نہیں تھا۔

بنابرایں جو حضرت تحریف کے قائل ہیں وہ ایسے سورے پر اکتفا نہیں کرسکتے جس میں تحریف کا احتمال ہو کیونکہ جس عمل کے واجب ہونے کا یقین ہو اس کی ادائیگی کا یقین حاصل کرنا واجب ہے (اور جس سورۃ میں بھی تحریف کا احتمال ہو اس کو پڑھ کر یہ یقین حاصل نہیں ہوتا کہ واجب ادا ہوگیا ہے، کیونکہ ممکن ہے تحریف شدہ سورۃ پڑھا گیا ہو)۔

کبھی تحریف کے قائل یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ کے بعد ایک مکمل سورۃ پڑھنا واجب ہی ہیں ہے، اس لیے کہ کسی بھی سورہ کو پڑھنے کے بعد انسان یہ یقین حاصل نہیں کرسکتا کہ اس نے ایک مکمل سورہ پڑھ لیا ہے۔ جب ایسا یقین حاصل کرنا ممکن نہیں ہے تو واجب بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ خداناممکن کام کی ذمہ داری عائد نہیں کرتا۔

یہ دعویٰ تب درست ہوگا جب قرآن کی تمام سورتوںمیں تحریف کااحتمال ہو۔ لیکن اگر قرآن میں ایسی سورتیں موجود ہیں جن میں تحریف کا احتمال نہ ہو، جیسے سورۃ توحید ہے، تو مکلف پر واجب ہے کہ وہ سورۃ توحید کے علاوہ کوئی اور سورۃ نہ پڑھے۔ اگرچہ ائمہ (ع) نے قرآن سے ہر سورۃ کے پڑھنے کی اجازت دی ہے لیکن تحریف کے قائل اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے کہ گو تحریف کی وجہ سے ائمہ (ع) کی اجازت سے قبل ہر آیہ پڑھنا جائز نہیں تھا لیکن ائمہ (ع) کی اجازت کے بعد کسی بھی سورہ کو پڑھا جاسکتا ہے۔

۲۷۴

یہ نتیجہ اس لیے اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ ائمہ (ع) کی طرف سے ہر سورہ پڑھنے کی اجازت ملنا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی اگر تحریف واقع ہوئی ہوتی تو اس قسم کی اجازت سے واجب نماز کا بلاوجہ فوت ہونا لازم آتا ہے اوراگر قرآن کے بعض سوروں میں تحریف کا احتمال ہوتا اور باقیوں میں نہ ہوتا تو ائمہ (ع) صرف انہیں سورتوں کو واجب قرار دیتے جن میں تحریف کا احتمال نہ ہو اور یہ تقیہ کے خلاف بھی نہ سمجھا جاتا، جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ ائمہ (ع) نے سورۃ توحید اور سورۃ قدر کو ہر نماز میں پڑھنا مستحب قرار دیا ہے۔

ائمہ (ع) کی نظر میں اس بات سے کون سی چیز مانع تھی کہ وہؑ سورہ توحید اور سورہ قدر یا کسی اور ایسے سورہ کو واجب قرار دے دیتے جس میں تحریف کا احتمال نہ ہو۔

مگر یہ کہ تحریف کے قائل یہ کہیں کہ پہلے قرآن سے ایک مکمل سورہ پڑھنا واجب تھا اور بعد میں یہ حکم منسوخ کردیا گیا اور موجودہ قرآن سے ہر سورہ کو پڑھنا جائز قرار دیا گیا۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ تحریف کے قائل حضرات اس قسم کے نسخ کے قائل ہوں گے کیونکہ رسول اسلامؐ کے بعد یقیناً کوئی نسخ واقع نہیں ہوا اگرچہ نسخ کا ممکن اور محال ہونا متنازع فیہ ہے جو ہماری اس بحث سے خارج ہے۔

خلاصہئ بحث ی ہہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ائمہ (ع) نے موجودہ قرآن میں سے کوئی سا بھی سورہ پڑھنے کا حکم دیا ہے جس میں تقیہ کا شائبہ تک نہیں ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں بھی یہی حکم تھا کہ کوئی سا سورہ پڑھ لیا جائے یا آپ کے زمانے میں کوئی اور حکم تھا اور یہ حکم بعد میں وضع کیا گیا۔

دوسری صورت (یعنی رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں حکم کوئی اور تھا) تو ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ یہ نسخ ہے جو آنحضرتؐ کے بعد یقیناً واقع نہیں ہوا اگرچہ یہ بذات خود ممکن ہے۔ لامحالہ رسول اسلامؐ کے زمانے میں بھی یہی حکم تھا جو ائمہ اطہار (ع) نے بیان فرمایا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی۔

۲۷۵

یہ استدلال صرف نماز سے مختص نہیں ہے بلکہ یہ ہر اس مقام پر ہوسکتا ہے جہاں ائمہ اطہار (ع) نے ایک مکمل سورہ یا آیۃ کو پڑھنے کا حکم دیا ہے۔

خلفاء پر تحریف کا الزام

۵۔ عدم تحریف کی پانچویں دلیل یہ ہے کہ تحریف کے قائل رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر پر تحریف کا الزام عائد کرسکتے ہیں یا حضرت عثمان پر یا کسی اور حکمران پر یہ الزام عائد کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ تینوں دعوے باطل ہیں۔

حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی طرف سے تحریف اس لیے نہیں ہوسکتی کہ:

i ۔ تحریف جان بوجھ کر نہیں بلکہ غیر اختیاری طورپر اور مکمل قرآن تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی ہوگی اس لیے کہ اس سے پہلے قرآن جمع نہیں کیا گیا تھا۔ یا انہوں نے عمداً تحریف کی ہوگی۔

ii ۔ ایسی آیات میں تحریف ہوئی ہوگی جن کا ان کی حکومت سے کوئی تعلق نہ ہو۔

یا

iii ۔ عمداً تحریف کی صورت میں تحریف شدہ آیات ان کی حکومت سے متعلق ہوں گی۔

یہ تینوں احتمالات باطل ہیں۔

i ) مکمل قرآن تک ان کی دست رسی نہ ہونے کا احتمال بالکل بے بنیاد اور باطل ہے۔ کیونکہ پیغمبر اسلامؐ کا قرآن حفظ کرنے اور اس کی تلاوت کرنے کا حکم دینے اور آپ کے زمانے میں اور آپ کی وفات کے بعد صحابہ کرام کا قرآن کو حد سے زیادہ اہمیت دینے سے ہم قطعی طور پر اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ صحابہ کرام کے پاس قرآن جمع شدہ یا متفرق طور پر، سینوں میں یا کاغذات میں، ضرور محفوظ ہوگا۔

۲۷۶

وہ صحابہ کرام جنہوں نے زمانہ جاہلیت کے اشعار اور خطبات کی حفاظت و نگہداری میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا، اس کلام پاک کی حفاظت میں کیسے کوتاہی کرتے جس کی راہ میں انہوں نے اپنی جان تک کی بازی لگا دی، وطن سے جلاوطن ہوناگوارا کیا، بیوی بچوں کی جدائی برادشت کی اور اسی قرآن کی راہ میں ان کٹھن ارو طاقت فرسا مراحل سے گزرے جن سے انہوں نے تاریخ کو سرخ کردیا۔

اس کے باوجود کوئی عاقل یہ احتمال دے سکتا ہے کہ ان حضرات نے قرآن کی حفاظت میںمعمولی سی بھی غفلت اورکوتاہی کی ہوگی جس سے قرآن ضائع ہوگیا اور اس کے ثبوت کے لیے دو عادل گواہوں کی ضرورت پڑی ہو؟

عقلی اور تاریخی اعتبار سے جس طرح قرآن میں اضافہ ہونا قابل قبول نہیں اسی طرح یہ احتمال بھی قابل قبول نہیں۔

اس کے علاوہ حدیث ثقلین بھی اس احتمال کے بطلان پر دلالت کرتی ہے۔ اگر آپ کے زمانے میں قرآن کا کچھ حصہ ضائع ہوگیا ہو تو ''انی تارک فیکم ثقلین کتاب اللہ و عترتی،، کہنا درست نہ ہوتا۔ کیونکہ اس صورت میں سارا نہیں بلکہ کچھ قرآن چھوڑا جارہا ہوتا۔

بعض روایات میں تو اس بات کی تصریح موجود ہے کہ رسول اسلامؐ کے زمانے میں ہی قرآن کی مکمل تدوین اور جمع آوری ہوچکی تھی۔ کیونکہ کسی موضوع سے متعلق متفرق یا سینوں میں محفوظ مطالب کو کتاب نہیں کہا جاسکتا اور ہم آئندہ صفحات میں یہ بحث کریں گے کہ آپ کے زمانے میں قرآن کی جمع آوری کی سعادت کس نے حاصل کی۔

اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ آنحضرتؐ کے زمانے میں مسلمانوں نے جمع قرآن کا کوئی اہتمام نہیں کیا تھا تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کے حفظ اور تلاوت کو اتنی اہمیت دینے کے باوجود اس کی جمع آوری کو آپ نے اتنی اہمیت کیوں نہ دی جس کی وجہ سے وہ ضائع نہ ہو جائے؟

۲۷۷

کیا آپ اس غفلت و کوتاہی کے نتائج سے آگاہ نہ تھے؟

یا وسائل کے فقدان کی وجہ سے قرآن کی جمع آوری پر قادر نہیں تھے؟

ii ) دوسرا یہ احتمال کی شیخین نے عمداً ان آیات میں تحریف کی ہو جن کا ان کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں تھا، بذات خود بعید ہے اس لیے کہ اس قسم کی تحریف سے ان کی کوئی غرض وابستہ نہیں ہوسکتی۔ عملی اعتبار سے یقیناً ان سے اس قسم کی تحریف واقع نہیں ہوئی۔

وہ اس طرح کی تحریف کر بھی کس طرح سکتے تھے جبکہ خلافت کی بنیاد ہی سیاست اور دینی معاملات کو اہمیت دینے پر قائم تھی۔ اگر ان سے تحریف ہوئی ہے تو ان کی بیعت سے انکار کرنے والوں نے اپنے احتجاج میں اس کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ سعد بن عبادہ اور اس کے ساتھیوں نے اعتراض کے طور پر اس کا ذکر کیوں نہیں کیا اورحضرت امیر المومنین (ع)نے اپنے خطبہئ شقشقیہ اور دیگر خطبات میں جہاں ان کی اور خامیاں بیان فرمائی ہیں، تحریف قرآن کا تذکرہ کیوں نہیں کیا؟

یہ دعویٰ بھی ناممکن اور غیر معقول ہے کہ تحریف کی وجہ سے مسلمانوں نے شیخین پر اعتراض تو کیا ہو لیکن اس کی خبر ہم تک نہ پہنچی ہو۔

iii ) تیسرا یہ احتمال کہ عمداً ان آیات میں تحریف کی ہو جن کا تعلق ان کی حکومت سے تھا، یہ تحریف بھی یقیناً واقع نہیں ہوئی کیونکہ امیر المومنینؑ، آپ کی زوجہئ صدیقہ طاہرہؑ اور آپ کے کچھ اصحابؓ نے خلافت کے سلسلے میں شیخین پر اعتراض کیا، رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے مروی روایات کے ذریعے ان کے خلاف دلائل پیش کئے، مہاجرین و انصار کو بھی اس سلسلے میں گواہ کے طور پر پیش کرتے رہے۔ منجملہ ان روایات کے حدیث غدیر کے ذریعے بھی احتجاج کیا گیا۔

۲۷۸

مرحوم طبرسی نے کتاب ''احتجاج،، میں حضرت ابوبکر کے خلاف بارہ آدمیوں کے احتجاج کو نقل کیا ہے جنہوں نے حضرت ابوبکر کے سامنے آنحضرتؐ کی نص صریح کو بیان کیا۔

مرحوم مجلسی نے اپنی کتاب''بحار الانوار،، میں ایک مکمل باب کو خلافت سے متعلق امیر المومنین (ع)کے احتجاج و دلائل سے مختص کیا ےہ۔

پس اگر قرآن میں ان کی حکومت اور خلافت سے متعلق کوئی آیہ ہوتی جس میں انہوں نے تحریف کی ہوتی تو اس کا ذکر احتجاج کے طور پر ضرور کیا جانا چاہیے تھا بلکہ خلافت کے موضوع پر باقی دلیلیوں کی نسبت ان آیات کو زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے تھی۔ خصوصاً جبکہ خلافت کا معاملہ بقول ان کے جمع قرآن سے پہلے پیش آیاتھا۔

اس کے باوجود صحابہ کرام کی طرف سے ابتدائی خلافت سے لے کر حضرت علیؑ کی خلافت تک تحریف قرآن کا ذکر نہ آنا اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی۔

باقی رہا یہ احتمال کہ حضرت عثمان نے تحریف کی ہو، یہ پہلے سے بھی زیادہ بعید اور ضعیف ہے ،کیونکہ:

i ۔ حضرت عثمان کے زمانے میں اسلام اتنا پھیل چکا تھا کہ حضرت عثمان قرآن میں سے کچھ کم کرہی نہیں سکتے تھے اور نہ ہی وہ کم کر سکتا تھا جس کا مقام حضرت عثمان سے زیادہ بلند ہوتا۔

ii ۔ اگر یہ تحریف ان آیات میں کی ہوتی جن کا خلافت سے کوئی تعلق نہیں تھا تو اس تحریف کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی اور ان آیات میں بھی یقیناً تحریف نہیں ہوسکتی جن کا تعلق خلافت سے ہوتا۔ اس لیے کہ اگر اس قسم کی کوئی آیہ ہوتی اور وہ حضرت عثمان کے زمانے تک مسلمانوں میں مشہور ہوگئی ہوتی تو خلافت ہی حضرت عثمان تک نہ پہنچتی۔

iii ۔ اگر تحریف قرآن کے مرتکب حضرت عثمان ہوتے تو یہ قائلین حضرت عثمان کے لیے معقول عذر اور بہترین دلیل بنتی اور قائلین کو یہ جواز پیش کرنے کی ضرورت نہ پڑتی کہ حضرت عثمان نے بیت المال کے سلسلے میں سیرت شیخین کی مخالفت کی ہے یا اس کے علاوہ دوسرے احتجاجوں کی ضرورت نہ ہوتی۔

۲۷۹

iv ۔ اگر حضرت عثمان نے تحریف کی ہوتی تو حضرت امیر المومنین (ع)کو چاہیے تھا کہ حضرت عثمان کے بعد تحریف شدہ حصے دوبارہ قرآن میں شامل فرما دیتے ،جس طرح قرآن رسول اسلامؐ اور شیخین کے زمانے میں پڑھا جاتا تھا اور آپ کا یہ عمل قابل تنقید نہ ہوتا اپنے ہدف تک پہنچنے میں یہ زیادہ مؤثر ہوتا اور خون حضرت عثمان کے انتقام کے نام پر قیام کرنے والوں کے خلاف یہ ایک مستحکم دلیل بنتا۔ اس کے علاوہ آپ کا یہ عمل اس اقدام سے بھی ہم آہنگ ہوتا جس کے ذریعے آپ نے حضرت عثمان کی عطا کردہ جاگیریں بیت المال میں لوٹانے کا حکم دیا تھا۔ ا سلسلے میں آپ فرماتے ہیں:

''والله لو وجدته قد تزوج به النساء و ملک به الاماء لرددته فان فی العدل سعة، و من ضاق علیه العدل فالجور علیه أضیق،، (۱)

''خدا کی قسم! اگر مجھے کہیں ایسا مال بھی نظر آئے جو عورتوں کے مہر اور کنیزوں کی خریداری پر صرف کیا جاچکا ہو تو اسے بھی واپس پلٹا دوں گا کیونکہ عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے میں زیادہ وسعت ہے اور جسے عدل کی صورت میں تنگی محسوس ہو اسے ظلم کی شک میں اور زیادہ تنگی مسحوس ہوگی۔

بیت المال کے بارے میں امیر المومنین (ع)کا مؤقف یہ ہے۔ اب اہل انصاف خود بتائیں کہ اگر قرآن میں تحریف ہوئی ہوتی تو امیر المومنین (ع)کا موقف کیا ہوتا۔

بنابرایں امیر المومنین (ع)کا موجودہ قرآن کی تائید کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی۔

جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے آج تک کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ خلفائے ثلاثہ کے بعد قرآن میں تحریف ہوئی ہے۔

البتہ بعض تحریفی حضرت کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ جب حجاج بن یوسف ثقفی نے بنی امیہ کی مدد شروع کی تو اس نے قرآن سے ان آیات کو حذف کرادیا جو بنی امیہ کی مذمت میں نازل ہوئی تھیں اور ان کی جگہ ایسی آیات کا اضافہ کردیا جو قرآن کا حصہ نہیں تھیں۔

____________________

(۱) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۵۔

۲۸۰