البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن11%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314017 / ڈاؤنلوڈ: 9314
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

۷۔ ابوحرب بن ابی اسود اپنے والد سے نقل کرتا ہے:

''ابو موسیٰ اشعری نے بصرہ کے قاریوں کی دعوت کی اور یہ تین سو افراد تھے جو کہ سب کے سب قاری تھے۔ جب یہ لوگ ابو موسیٰ کے گھر میں داخل ہوئے تو ابو موسیٰ نے ان سے کہا: دیکھو! تم بصرہ کے نیک اور قاری حضرات ہو، قرآن کی تلاوت کرو اور لمبی لمبی آرزوئیں نہ رکھو تا کہ تم کہیں قسی القلب نہ ہوجاؤ۔ جس طرح تم سے پہلے کے لوگ قسی القلب ہوگئے تھے۔ہم ایک سورۃ پڑھا کرتے تھے جو طویل اور سخت لہجے کے اعتبار سے سورہ براءت کی مانند تھا، لیکن اب میں اسے بھول چکا ہوں۔ اس میں سے مجھے صرف اتنا یاد ہے:''لو کان لابن آدم و ادیان من مال لابتغی و ادیاً ثالثا ولا یملا جوف ابن دم الا التراب،، اس کے علاوہ ہم ایک اور سورۃ بھی پڑھا کرتے تھے جو ''مسبحات،، کی مانند تھا۔ اسے بھی بھول چکا ہوں اور اس میں سے مجھے صرف اتناد یاد ہے:یا أیها الذین آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون، فتکتب شهادة فی أعناقکم فتسألون عنها یوم القیامة ۔،، (۱)

۸۔ زر روایت کرتا ہے کہ اُبیّ ابن کعب نے مجھ سے کہا:

''تم سورۃاحزاب میں کتنی آئتیں پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: تہتر آیات۔ اس نے کہا: ایسا نہیں ہے بلکہ اس کی آئتیں سورۃ بقرہ جتنی یا اس سے بھی زیادہ تھیں۔،،(۲)

۹۔ ابن ابی داؤد اور ابن انباری نے ابن شہاب سے روایت کی ہے کہ ابن شہاب نے کہا:

''ہم نے سنا تھا کہ بہت سارا قرآن نازل ہوا تھا لیکن علماء و حافظ قرآن جنگ یمامہ میں قتل ہوگئے جس کی وجہ سے قرآن کا ایک بڑا حصہ لکھا نہ جاسکا اور ضائع ہوگیا۔،،(۳)

۱۰۔ عمرۃ نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۳، ص ۱۰۰۔

(۲) منتخب کنز العمال باحاشیہ مسند احمد، ج ۲، ص ۴۳۔

(۳) ایضاً، ص ۵۰۔

۲۶۱

جو لوگ نسخ تلاوت کے قائل ہیں اگر ان کی مراد یہ ہے کہ خود پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نسخ واقع ہوا ہے تو یہ دلیل کا محتاج ہے۔ اسے ثابت کرنا پڑے گا اور تمام علماء کرام کا اتفاق ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ کتاب (قرآن) جائز نہیں ہے۔ چنانچہ علماء کی ایک جماعت نے کتب اصول وغیرہ(۱) میں اس بات کی تصریح کی ہے۔ بلکہ شافعی اوراس کے اکثر پیروکار اور ایسے علماء جو ظاہر قرآن پر عمل کرتے ہیں، خبر متواتر کے ذریعے بھی نسخ کتاب (قرآن) کو جائز نہیں سمجھتے۔

ایک اور نقل کے مطابقاحمد بن جنبل کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ بعض علماء ایسے ہیں جو خبر متواتر کے ذریعے نسخ کتاب کو جائز تو سمجھتے ہیں لیکن اس کے وقوع پذیر ہونے کے قائل نہیں ہیں۔(۲)

بنابرایں خبر واحد کی بنیاد پر نسخ کتاب کو رسول اسلامؐ کی طرف منسوب کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ نسخ کتاب نسبت رسول کرمؐ کی طرف دینا ان روایات کے منافی بھی ہے جن کے مطابق قرآن کا کچھ حصہ آپ کے بعد ضائع ہوگیا ہے۔

اور اگر مراد یہ ہو کہ نسخ تلاو، رسول کریمؐ کے بعد ان لوگوں سے ہوا ہے جو برسراقتدار تھے تو یہ عیناً تحیرف ہے۔ بنابرایں یہ کہا جاسکتا ے کہ علماء اہل سنت کی اکثریت تحریف کی قائل ہے۔ کیونکہ ان کی اکثریت نسخ تلاوت کی قائل ہے۔ چاہے نسخ تلاوت کے ساتھ آیہ کے حکم کو بھی نسخ کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔

چنانچہ بعض علماء اہل سنت میں سے ماہرین علم اصول اس مسئلہ میں تردد سے کام لیتے ہیں کہ آیا مجنب کے لیے نسخ شدہ آیات کی تلاوت یا محدث کے لیے انہیں چھونا جائز ہے؟ بعض کے نزدیک نسخ شدہ آیات کو پڑھنا اور چھونا جائز نہیں ہے۔ البتہ! بعض معتزلہ کا یہ نظریہ ہے کہ نسخ تلاوت جائز نہیں ہے۔(۳)

____________________

(۱) الموافقات لابی اسحاق الشاطبی، ج ۳، ص ۱۰۶ طبعۃ المطبعۃ الرحمانیۃ بمصر۔

(۲) الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی، ج ۳، ص ۲۱۷۔

(۳) ایضاً، ص ۲۰۱۔۲۰۳۔

۲۶۲

مقام تعجب ہے کہ علمائے اہل سنت کی ایک جماعت تحریف کے قول کو کسی بھی سنی عالم کی طرف نسبت دینے پر راضی نہیں ہے۔ حتی کہ آلوسی نے صاحب ''مجع البیان،، طبرسی کی اس بات کی تکذیب کی ہے کہ سنیوں کا ایک فرقہ ''حشویہ،، تحریف کا قائل ہے۔ آلوسی کہتا ہے: ''علماء ال سنت میں سے کوئی بھی تحریف کا قائل نہیں ہے۔،،

اس سے زیادہ تعجب آلوسی کی اس بات پر ہوتا ہے کہ طبرسی تحریف کا انکار کرکے اپنے ہم مسلک دوسرے علمائے شیعہ پر عقیدہئ تحریف جو دھبہ لگا ہے اس کو چھپانہ چاہتا ہے۔(۱) حالانکہ گذشتہ مباحث میں یہ بتا ثابت ہوچکی ہے کہ شیعوں میں مشہور قول یہی ہے اور شیعہ علماء و محققین کا اتفاق ہے کہ تحریف نہیں ہوئی بلکہ مرحوم طبرسی نے اپنی تفسیر ''مجمع البیان،، میں عدم تحریف پر سید مرتضیٰ علم الہٰدی کے طویل کلام اور ان کی محکم دلیل کو بھی نقل فرمایا ہے۔

تحریف، قرآن کی نظر میں

اس تمہیدی بحث کے بعد ہم اصل مطلب کی طرف آتے ہیں:

حق یہی ہے کہ تحریف متنازعہ فیہ معنو ںمیں قرآن میں بالکل واقع نہیں ہوئی ذیل میں ہم عدم تحریف پر دلائل پیش کرتے ہیں۔

( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) ۱۵:۹

''بیشک ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی تو اس کے نگہبان بھی ہیں۔،،

یہ آیہ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن محفوظ ہے اور کوئی بھی مجرم اس میں کسی قسم کی کمی کرنے یا اس سے کھیلنے کی جسارت نہیں کرسکا۔ البتہ جو حضرات تحریف کے قائل ہیں انہوں نے اس آیہ کی چند تاویلیں کی ہیں:

____________________

(۱) روح المعانی، ج ۱، ص ۲۴۔

۲۶۳

i ۔ اس آیہ شریفہ میں ذکر سے مراد خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ذات ہے اور قرآن میں ذکر، رسول کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( قَدْ أَنزَلَ اللَّـهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا ) ۶۵:۱۰

''خدا نے تمہارے لیے ذکر نازل کیا (اور)

( رَّسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّـهِ ) :۱۱

''اپنا رسول بھیج دیا ہے جو تمہارے سامنے واضح آیتیں پڑھتا ہے۔،،

بنابرایں مذکورہ آیات کا ترجمہ یہ ہوگا:

''ہم نے رسول بھیجا اور اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔،،

جواب: اس تاویل کا بطلان صاف ظاہر ہے۔ اس لیے کہ دونوں آیات میں ذکر سے مراد قرآن ہے نہ کہ رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کیذات۔ اس لیے کہ ان ایتوں میں ''تنزیل،، اور ''انزال،، کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو قرآن سے مناسبت رکھتے ہیں۔ اگر ذکر سے مراد رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ذات ہوتی تو ''انزال،، کی بجائے ''ارسال،، یا ''ارسال،، کے معنی سے ملتا جلتا کوئی دوسرا لفظ استعمال ہوتا۔ اس کے علاوہ اگر دوسری آیہ (۶۵:۱۰) میں یہ احتمال (ذکر بمعنی رسول ) صحیح بھی ہو تو پہلی آیہ (۹۵:۹) میں ذکر بمعنی رسول نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس سے پہلے یہ آیہ ہے:

( وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ ) ۱۵:۶

''(اے رسول کفارمکہ تم سے) کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس کو (یہ سودا ہے) کہ اس پر وحی او رکتاب نازل ہوئی ہے۔ تو تو (اچھا خاصا) سڑی ہے۔،،

۲۶۴

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا کہ اس آیہ شریفہ میں ذکر بمعنی قرآن ہے اور یہ اس بات کا قرینہ اور موید ہے کہ بعد والی آیہ (آیہ حفظ) میں بھی ذکر سے مراد قرآن ہے۔

ii ۔ دوسری تاویل یہ کی جاتی ہے کہ اس آیہ میں حفظ سے مراد، قرآن کا ہر قسم کے اعتراضات اور تنقیدوں سے محفوظ رہنا ہے اور قرآن کے بلند معانی اور تعلیمات باطل نہیں ہوسکتیں۔

جواب: اس تاویل کا باطل ہونا پہلے سے بھی زیادہ آشکار ہے۔ کیونکہ اگر اعتراض سے مراد یہ ہو کہ قرآن کفار کی تنقیدوں سے محفوظ ہے تو یقیناً یہ باطل ہے۔ ا س لیے کہ کفار کی طرف سے قرآن پر اتنے اعتراضات ہوئے ہیں ک ہجن کا شمار نہیں ہوسکتا۔

اگر اعتراض سے مراد یہ ہو کہ قرآن کی روش و اسلوب اتنا مستحکم و منفرد ہے کہ کوئی معترض اس پر صحیح و بجا اشکار نہیںکرسکتا اور کسی کے شک و تردد سے اس میں کسی قسم کا تزلزل نہیں آسکتا تو یہ بات اپنے مقام پر صحیح ہے لیکن یہ نزول قرآن کے بعد اس کے تحفظ سے مربوط نہیں ہے۔ جیسا کہ آیہ کا مفہوم ہے ۔ کیونکہ قرآن اپنی خصوصیات کے اعتبار سے خود اپنا محافظ ہے اور اس کے لیے وہ کسی دوسرے محافظ کا محتاج نہیں ہے۔ چنانچہ آیہ کا مفہوم بھی یہی ہے کہ نزول قرآن کے بعد اس کا تحفظ اللہ کے ذمے ہے۔

iii ۔ تیسری تاویل یہ کی گئی ہے کہ آیہ کریمہ میں قرآن سے مراد قرآن کے تمام نسخے نہیں بلکہ فی الجملہ کوئی قرآنی نسخہ ہے۔ بنابرایں ممکن ہے آیہ شریفہ اس قرآن کی طرف اشارہ کررہی ہو جو حضرت ولی عصر(ع) کے پاس محفوظ ہے۔

جواب: یہ احتمال تمام احتمالات سے زیادہ ناقابل توجہ ہے۔ کیونکہ اگر قرآن محفوظ ہے تو اسے جن کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ یعنی عام لوگوں کے لیے محفوظ رہنا چاہیے۔ صرف امام(ع) کے پاس محفوظ رہنا تو ایسا ہی ہے جیسے لوح محفوظ میں محفوظ ہو یا ایک فرشتے کے پاس محفوظ ہو۔ یہ ایک بے ربط مطلب لگتا ہے اور یہ ایسا ہے کہ جیسے کوئی کہے میں نے آپ کو ایک تحفہ بھیجا ہے اور وہ میرے یا میرے کسی خاص آدمی کے پاس محفوظ ہے۔

۲۶۵

یہ قول انتہائی تعجب خیز ہے کہ آیہ کریمہ میں حفظ قرآن سے مراد کسی ایک قرآنی نسخے کی حفاظت ہے، تمام قرآنی نسخوں کی حفاظت نہیں۔ گویا کہ یہ لوگ اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ذکر سے مراد وہ قرآن ہے جو تحریر میں آجائے یا جس کا تلفظ کیا جائے اور اس کے متعدد نسخے بنے ہوں، حالانکہ ذکر سے مراد یہ نہیں ہے کیونکہ قرآن مکتوب یا قرآن ملفوظ کو کوئی دوام حاصل نہیں ہے۔ بنابرایں آیہ حفظ سے قرآن مکتوب مراد نہیں لیا جاسکتا۔

ذکر سے مراد وہ مطالب، معانی و مفاہیم ہیں جن کو قرآن مکتوب یا قرآن ملفوظ کے ذریعے ادا کیا جائے اور یہی وہ معانی ہیں جو رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نازل کیے گئے ہیں اور اس کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ خالق نے اس کو مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں کھلونا بننے اور ضائع ہونے نہیں دیا اور عام انسانوں کی اس تک رسائی ہوسکتی ہے۔ یہ ایسا ہے جیسا کہ ہم یہ کہیں کہ فلاں شاعر اور قصیدہ اور کلام محفوظ ہے۔ اس کا مطلن یہی ہوتا ہے کہ یہ کلام محفوظ ہے اور ضائع نہیں ہوا بایں معنی کہ اس تک بہرحال رسائی حاصل ہوسکتی ہے۔

ہاں! اس مقام پر ایک اور شبہ موجود ہے، جس کے ذریعے عدم تحریف پر آیہ کریمہ سے استدلال کو ردّ کیا جاتا ہے۔ اس شبہ کا خلاصہ یہ ہے کہ فریق مخالف جو تحریف کا مدعی ہے وہ اس (زیر بحث) آیہ شریفہ میں بھی تحریف کا احتمال دیتا ہے کیونکہ یہ بھی اس قرآن ہی کا حصہ ہے جس میں تحریف واقع ہوئی ہے بنابرایں جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی اس آیہ شریفہ سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا۔

اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ اس میں وہی لوگ مبتلا ہوسکتے ہیں جنہوں نے عترت پیغمبرؐ ک وخلافت الہٰیہ سے محروم کر دیا(۱) اور انؑ کے اقوال و افعال پر ایمان نہیں لائے۔ ان لوگوں کے پاس اس شبہ کا کوئی حل نہیں ہے۔

____________________

(۱) جی چاہتا ہے یہ عرض کروں: جنہوں نے خلافت الہٰیہ کو عترت پیغمبر(ص) سے محروم کردیا۔(مترجم)

۲۶۶

لیکن جو لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ عترت پیغمبرؐ مخلوق پر حجت خدا اور وجوب اطاعت میں قرآن کے ہم پلّہ ہے ان کے نزدیک یہ شبہ بے وزن ہے۔ کیونکہ عترت پیغمبرؐ کا موجودہ قرآن سے استدلال کرنا اور اپنے اصحاب کے استدلال پر راضی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ موجودہ قرآن حجت اور واجب العمل ہے، اگرچہ کوئی ا س کی تحریف کا قائل ہو۔ البتہ تحریف کی صورت میں کتاب اس وقت حجت ہوگی جب عترت پیغمبرؐ اس کی تائید و تصدیق کرے۔

۲۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ ) (۴۱:۴۱)

''اور یہ قرآن تو یقینی ایک عالی رتبہ کتاب ہے۔،،

( لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ) (:۴۲)

''کہ جھوٹ نہ تو اس کے آگے ہی پھٹک سکتا ہے او رنہ اس کے پیچھے سے اور خوبیوں والے دانا (خدا) کی بارگاہ سے نازل ہوتی ہے۔،،

اس آیہ شریفہ کا مفہوم یہ ہے کہ باطل کی تمام قسمیں قرآن مجید سے دور ہےں۔ ا س لیے کہ جب کسی چیز کے اصل وجود کی نفی کی جائے تو اس کی تمام قسموں اور مصادیق کی نفی ہوجاتی ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تحریف باطل کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ لہٰذا یہ قرآن کے نزدیک بھی نہیں جاسکتی۔

اعتراض: ہماری اس دلیل پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آیہ کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے احکام میںکسی قسم کی تناقض گوئی نہیں ہے اور اس کی کوئی خبر جھوٹی نہیں ہوسکتی، چنانچہ اس تاویل کی تائید میں علی بن ابراہیم قمی کی روایت پیش کی جاتی ےہ جو انہوں نے اپنی تفسیر میں امام باقر(ع) سے روایت کی ہے۔ امام(ع) نے فرمایا:

۲۶۷

''لا یاتیه الباطل من قبل التوراة ولا من قبل الانجیل، و الزبور، ولا من خلفه ای لاتیه من بعده کتاب یبطله،،

''نہ تو قرآن تورات، انجیل اور زبور کے ذریعے باطل قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ قرآن کے بعد کوئی ایسی کتاب آسکتی ہے جس سے قرآن باطل ہوجائے۔،،

اس کے علاوہ مجمع البیان کی روایت بھی بطور ثبوت پیش کی جاتی ے جو امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہما السلام) سے مروی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

''لیس فی اخباره عما مضی باطل، ولا فی اخباره عما یکون فی المستقبل باطل،،

''نہ قرآن کی گذشتہ سے متعلق خبروں میں باطل کا شائبہ ہے اور نہ مستقبل سے متعلق پیشگوئیوں میں۔،،

جواب: اس روایت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ باطل صرف اسی چیز میں منحثر ہے جس کا روایت میں ذکر ہے تاکہ آیہ شریفہ باطل کی تمام قسموں کی نفی کرسکے۔ خصوصاً جب ہم ان روایات کو دیکھتے ہیں جو یہ کہتی ہےں کہ قرآن کے معانی اور مفاہیم کسی خاص زمان یا مکان سے مختص نہیں بلکہ یہ ہر دور، ہر مکان اور ہر موقع کے لیے ہیں۔ بنابرایں آیہ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن ہر دور میں باطل کی تمام اقسام سے منزہ و مبّرا رہا ہے۔ لہذا قرآن کو تحریف سے بھی پاک ہونا چاہیے جو باطل کی ایک اہم اور واضح قسم ہے۔

تحریف کے باطل (جس کی آیہ قرآن سے نفی کرتی ہے) کے ذیل میں آنے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آیہ کریمہ میں عزت کو کتاب کی صفت کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور کسی بھی چیز کے عزیز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں تغیر و تبدل اور ضائع ہونے کا خطرہ نہ ہو۔

پس آیہ کریمہ میں باطل سے صرف تناقض اورکذب مراد لینا کتاب کے عزیز ہونے سے سازگار نہیں۔ کتاب تب ہی عزیز ہوگی جب یہ ہر قسم کے باطل سے پاک و منزہ ہو۔

۲۶۸

تحریف اور سنت

۳۔ عدم تحریف کی تیسری دلیل ثقلین (قرآن و عترت) کے بارے میں روایات ہیں۔ وہ ثقلین جن کو رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اپنے بعد امت میں چھوڑا اور ساتھ ساتھ یہ خبر بھی دی کہ یہ دونوں (قرآن اور عترت) ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر یہ آپ کے پاس جمع ہوں گے اور آپ نے امت کو ان سے متمسک رہنے کا حکم دیا۔

اس مضمون کی روایات کثرت سے موجود ہیں جو فریقین کی مختلف اسناد سے منقول ہیں۔(۱) ان روایات سے عدم تحریف پر دو پہلوؤں سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔

i ۔ عقیدہئ تحریف سے یہ لازم آتا ے کہ خدا کی طرف سے نازل شدہ کتاب سے تمسک واجب نہ ہو۔ کیونکہ تحریف کی وجہ سے وہ کتاب تو امت کے ہاتھ سے ضائع ہوگئی جبکہ قیام قیامت تک کتاب الہٰی سے تمسک رکھنا واجب ہے۔ بنابرایں عقیدہئ تحریف یقیناً باطل ہے۔

وضاحت: ان روایات کا مفہوم یہ ہے کہ عترت پیغمبرؐ اور کتاب ہمیشہ ساتھ ساتھ ہیں اور قیامت تک لوگوں میں باقی رہیں گے۔ بنابرایں کسی ایسے انسان کا ہونا ضروری ے جو قرآن کے دوش بدوش رہے اور قرآن کا ہونا بھی ضروری ہے جو عترتؑ کے دوش بدوش رہے۔ یہاں تک کہ حوض کوثر پر یہ رسول اعظمؐ کی خدمت میں حاضر ہوں اور ان دونوں سے تمسک کے نیتجے میں امت گمراہی سے محفوظ رہے جس کی خود رسلو کریمؐ نے اس حدیث میں تصریح فرمائی ہے۔

یہ بھی واضح امر ہے کہ عترتؑ سے تمسک کا مطلب یہ ہے کہ ا سؑ سے محبت کی جائے، جن کاموں کا وہ حکم دے نہیں بجا لایا جائے، جن کاموں سے منع کرے ان سے باز رہا اور اس سے رہنمائی حاصل کی جائے اور یہ ایسا امر ہے جس کے لیے خود امام(ع) سے ملاقات اور بالمشافہ احکام حاصل کرنا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ امام(ع) کے زمان غیب سے پہلے بھی سب لوگوں کے لیے امام(ع) سے ملاقات یا بالمشافہ گفتگو کرنا ممکن نہیں تھا چہ جائیکہ زمان غیبت میں یہ کام ممکن ہو۔

____________________

(۱) ان روایات کے حوالے کی طرف اسی کتاب کے صفحہ ۱۸ میں اشارہ کیا جاچکا ہے۔

۲۶۹

یہ کہنا کہ بعض لوگوں کی امام(ع) تک رسائی ضروری ہے۔ یہ ایک بے بنیاد بات اور دعویٰ بلا دلیل ہے اور اس شرط کی کوئی وجہ بھی نظر نہیں آتی۔ پس شیعہ حضرات زمان غیبت میں بھی اپنے ائمہ سے متمسک، ان سے محبت رکھتے اور انؑ کے فرامین کی اطاعت کرتے ہیں۔ تازہ واقعات میں انؑ کی احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرنا بھی ائمہ (ع) کے اوامر و فرامین میں سے ہے۔

لیکن قرآن سے تمسک اسی صورت میں ممکن ہے جب قرآن تک رسائی ہوسکے لہٰذا امت میں قرآن کا ہونا لازمی امر ہے تاکہ وہ اس سے متمسک ہوسکے اور گمراہی کا شکار نہ ہو۔

ہمارے اس بیان سے اس بات کا بطلان بھی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن امام زمان(عج) کے پاس موجود اور محفوظ ہے کیونکہ قرآن سے تمسک کے لیے اس کا وجود کافی نہیں ہے اور جب تک یہ ہماری دسترسی میں نہ ہو اس سے تمسک ناممکن ہے۔

اعتراض: اس دلیل پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حدیث ثقلین تو صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کی آیات احکام (فقہی احکام) میں تحریف واقع نہیں ہوئی۔ کیونکہ مسلمانوں کو آیات احکام ہی سے تمسک کا حکم دیا گیا ہے۔ بنابرایں حدیث ثقلین باقی آیات میں تحریف ہونے کی نفی نہیں کرتی۔

جواب: خدا نے تمام قرآن انسانوں کی ہدایت اور ہر لحاظ سے ممکنہ کمال تک رہنمائی کے لیے نازل فرمایا ہے۔ چاہے وہ آیات احکام ہوں یا دوسری آیات اور اس سے قبل ہم فضل قرآن کی بحث میں یہ چیز بیان کرچکے ہیں کہ قرآن ظاہری طور پر تو قصہ لگتا ہے مگر باطن اور حقیقت میں یہ موعظہ اور نصیحت ہے۔ اس کے علاوہ تحریف کے قائل لوگوں کی اکثریت کا دعویٰ یہ ہے کہ تحریف، ولایت اور اسی طرح کے دوسرے موضوعات میں واقع ہوئی ہے جبکہ آیات ولایت کی پیروی و اطاعت کی سخت تاکید کی گئی ہے۔

ظاہر ہے ان آیات (آیات ولایت وغیرہ) کی اطاعت اسی صورت میں واجب ہوگی جب ان کا قرآن ہو نا ثابت ہو۔

۲۷۰

ii ۔ عقیدہئ تحریف سے یہ لازم آتا ہے کہ کتاب خدا حجت نہ رہے۔ جب کتاب خدا حجت نہ رہے گی تو اس کے ظاہری معانی پر عمل بھی نہ ہوسکے گا اور کوئی بھی تحریف کا قائل اس وقت تک موجودہ قرآن کی طرف رجوع نہیں کرسکے گا جب تک ائمہ معصومین(ع) اس کی تصدیق نہ کریں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کی طرف رجوع اور اس سے استدلال ائمہ معصومین(ع) کی تائید و تصدیق پر موقوف ہے۔ حالانکہ حدیث ثقلین اور دیگر متواتر روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن ایک مستقل مدرک، مرجع اور حجت ہے بلکہ ثقلین میں سے ثقل اکبر ہے۔ اس کی حجیت ثقل اصغر (ائمہ معصومین(ع)) کی حجیت کے تابع نہیں ہے۔

عقیدہ تحریف سے کتاب خدا اس لیے حجت نہیں رہتی کہ جب تحریف کے قائل ہوں گے تو یہ احتمال باقی رہے گا کہ موجودہ قرآن کی کوئی بھی آیت جو کسی مطلب پر دلالت کرتی ہے، ہوسکتا ہے اس کے ساتھ قرآن کا کچھ اور حصہ بھی ملا ہوا تھا جو موجودہ مفہوم کے خلاف تھا مگر تحریف کی وجہ سے وہ حصہ ضائع ہوگیا۔ جب تک یہ احتمال باقی رہے گا قرآن کے ان معانی پر عمل نہیں ہوسکے گا جو موجودہ قرآن سے سمجھے جائیں گے اور اس احتمال کی نفی اصالۃ عدم قرینہ کی وجہ سے بھی نہیں کی جاسکتی ،کیونکہ اس اصل کی دلیل عقلاء کی یہ سیرت ہے کہ وہ کلام سے ظاہر ہونے والے معنی پر عمل کرتے ہیں اور اس معنی کے خلاف کسی قرینہ کے احتمال کو اہمیت نہیں دیتے۔

ہم اصول کی مباحث میں ثابت کرچکے ہیں کہ عقلاء اس سیرت کو اپناتے ہیں جہاں کلام متکلم سے منفصل اور جدا کسی مستقل قرینہ کا احتمال دیاجائے کلام متکلم سے متصل قرینہ کا احتمال ہو اور قرینہ کے ضائع ہونے کی وجہ بھی بیان کے موقع پر متکلم کی غفلت کا احتمال ہو یا سامع استفادہ سے غفلت برتے۔

لیکن اگر قرینہ متصلہ کا احتمال ہو اور اس سے مستفاد نہ ہونے کی وجہ متکلم یا سامع کی غفلت نہ ہو تو عقلاء اس کلام سے ظاہر ہونے والے معانی پر عمل نہیں کرتے۔

۲۷۱

مثال کے طور پر اگر کسی انسان کو کسی ایسے شخص کا خط موصول ہوتا ہے جس کی اطاعت ضروری ہو اور اس خط میں ایک گھر خریدنے کا حکم ہے، مگر اس خط کا کچھ حصہ ضائع ہوچکاہے اور احتمال ہے کہ خط کا ضائع شدہ حصہ اس گھر کی کچھ خصوصیات مثلاً وسعت، قیمت اور محل وقوع پر مشتمل تھا، جس کے خریدنے کاحکم دیا گیا ہے تو اس صورت میں عقلاء کبھی بھی اس احتمال کو کالعدم تصور کرکے خط کے باقی مادنہ مندرجات پر عمل نہیں کریں گے اور اس حکم کے امتثال امر کی خاطر جو گھر بھی میسر آجائے اسے نہیں خریدیں گے اور نہ ہی ایسے شخص کو اپنے مولا کافرمانبردار کہا جائے گا۔

شاید ہمارے محترم قارئین کو وہم ہو کہ اس بیان کے مطابق تو فقہ اور استنباط احکام شرعیہ کی بنیاد منہدم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ احکام شریعہ کے اہم اور عمدہ دلائل معصومین(ع) کی روایات ہیں۔

ان روایات میں بھی یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے کلام معصومین(ع) کے ساتھ قرینہ ملا ہوا تھا جو ہم تک نہیں پہنچ سکا۔ لیکن اگر محترم قارئین معمولی سی بھی توجہ کریں تو یہ شبہ زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکے گا۔ کیونکہ روایات کے سلسلے میں کلام راوی پر اعتماد کیا جاتا ہے بایں معنی کہ اگر کلام میں کوئی قرینہ متصلہ ہوتا تو راوی اس کا ضرور ذکر کرتا۔ راوی کے ذکر نہ کرنے سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ قرینہ متصلہ کلام معصومؑ میں بھی نہ تھا۔ یہ احتمال چونکہ کالعدم ہے کہ شاید قرینہ موجود ہو یا راوی سے غفلت سر زد ہوئی ہو۔ اس لیے اس احتمال کو بھی کالعدم تصور کیا جائے گا کہ شاید قرینہ موجود تھا جو راوی کی غفلت کی وجہ سے رہ گیا ہے ۔ اس قاعدے کی رو سے کہ جس چیز کا وجود مشکوک ہو اسے کالعدم فرض کیا جاتا ہے، قرینہ اور راوی کی غفلت دونوں احتمالوں کی نفی کی جائے گی۔

استدلال کے دوسرے پہلو کا نتیجہ نہ نکلا کہ عقیدہئ تحریف سے یہ لازم آتا ہے کہ ظواہر قرآن سے تمسک جائز نہ ہو۔

۲۷۲

اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے اس بیان کی ضرورت نہیں کہ تحریف کی وجہ سے بعض بلا تعیین آیات کے ظاہری معنی کے درہم برہم ہونے کا اجمالی علمحاصل ہو جاتا ہے یعنی اگرچہ تحریف شدہ آیات کی تعیین نہیں کی گئی لیکن اجمالی طور پر اتنا جان لیتے ہیں کہ کسی نہ کسی آیہ میں تحریف ہوئی ہے جس کی وجہ سے قرآن قابل عمل نہیں رہتا کوینکہ اگر اس بیان کے ذریعے مذکورہ نتیجے تک پہنچنا چاہیں تو اس کا جواب یہ دیا جائے گا:

اولاً قرآن میں تحریف واقع ہونے سے مذکورہ بالا اجمالی علم لازم نہیں آتا۔ ثانیاً یہ اجمالی علم واجب العمل نہیں ہے کیونکہ اجمالی علم اس صورت میں واجب العمل ہوتا ہے جب جس چیز کے واجب ہونے کا احتمال ہے ان سب سے واسطہ پڑے، یعنی سب واجب ہوسکتے ہیں۔

ہماری اس بحث میں ایسا نہیں ہے، اس لیے کہ ان احتمالی تحریف شدہ آیات میں سے کچھ آیات ایسی ہیں جن کا تعلق احکام سے نہیں ہے۔ اس قسم کی آیات کا کوئی عملی اثر نہیں ہوا کرتا۔

بعض اوقات تحریف کے حامی حضرات یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگرچہ تحریف کی وجہ سے قرآن کی حجیت ختم ہو جاتی ہے لیکن ظواہر قرآن سے ائمہ (ع) کے استدلال اور انؑ کی طرف سے استدلال اصحاب کی تائید سے قرآن کی حجیت بحال ہوجاتی ہے۔

یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ ائمہ (ع) اپنے استدلال اور استدلال اصحاب کی تائید سے قرآن کی حجیت نہیں بنا رہے بلکہ وہ اس لیے استدلال اور استدلال کی تائید کرتے تھے کہ قرآن کی حجیت پہلے سے بذات خود ثابت تھی۔

۲۷۳

نماز میں سورتوں کی اجازت

۴۔ عدم تحریف کی چوتھی دلیل یہ ہے کہ ائمہ (ع) نے واجب نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد کم از کم ایک مکمل سورۃ پڑھنے کا حکم دیا ہے اور نماز آیات میں ایک مکمل سورۃ یا زیادہ کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے ہر رکوع سے پہلے ایک حصہ پڑھنا جائز قرار دیا ہے اور جب سے شریعت میں نماز کااعلان کیا گیا ہے یہ احکام ثابت اور موجود ہیں۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ائمہ نے تقیہ کے طور پر یہ احکام بیان فرمائے تھے، کیونکہ اس وقت تقیہ کا کوئی موقع نہیں تھا۔

بنابرایں جو حضرت تحریف کے قائل ہیں وہ ایسے سورے پر اکتفا نہیں کرسکتے جس میں تحریف کا احتمال ہو کیونکہ جس عمل کے واجب ہونے کا یقین ہو اس کی ادائیگی کا یقین حاصل کرنا واجب ہے (اور جس سورۃ میں بھی تحریف کا احتمال ہو اس کو پڑھ کر یہ یقین حاصل نہیں ہوتا کہ واجب ادا ہوگیا ہے، کیونکہ ممکن ہے تحریف شدہ سورۃ پڑھا گیا ہو)۔

کبھی تحریف کے قائل یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ کے بعد ایک مکمل سورۃ پڑھنا واجب ہی ہیں ہے، اس لیے کہ کسی بھی سورہ کو پڑھنے کے بعد انسان یہ یقین حاصل نہیں کرسکتا کہ اس نے ایک مکمل سورہ پڑھ لیا ہے۔ جب ایسا یقین حاصل کرنا ممکن نہیں ہے تو واجب بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ خداناممکن کام کی ذمہ داری عائد نہیں کرتا۔

یہ دعویٰ تب درست ہوگا جب قرآن کی تمام سورتوںمیں تحریف کااحتمال ہو۔ لیکن اگر قرآن میں ایسی سورتیں موجود ہیں جن میں تحریف کا احتمال نہ ہو، جیسے سورۃ توحید ہے، تو مکلف پر واجب ہے کہ وہ سورۃ توحید کے علاوہ کوئی اور سورۃ نہ پڑھے۔ اگرچہ ائمہ (ع) نے قرآن سے ہر سورۃ کے پڑھنے کی اجازت دی ہے لیکن تحریف کے قائل اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے کہ گو تحریف کی وجہ سے ائمہ (ع) کی اجازت سے قبل ہر آیہ پڑھنا جائز نہیں تھا لیکن ائمہ (ع) کی اجازت کے بعد کسی بھی سورہ کو پڑھا جاسکتا ہے۔

۲۷۴

یہ نتیجہ اس لیے اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ ائمہ (ع) کی طرف سے ہر سورہ پڑھنے کی اجازت ملنا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی اگر تحریف واقع ہوئی ہوتی تو اس قسم کی اجازت سے واجب نماز کا بلاوجہ فوت ہونا لازم آتا ہے اوراگر قرآن کے بعض سوروں میں تحریف کا احتمال ہوتا اور باقیوں میں نہ ہوتا تو ائمہ (ع) صرف انہیں سورتوں کو واجب قرار دیتے جن میں تحریف کا احتمال نہ ہو اور یہ تقیہ کے خلاف بھی نہ سمجھا جاتا، جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ ائمہ (ع) نے سورۃ توحید اور سورۃ قدر کو ہر نماز میں پڑھنا مستحب قرار دیا ہے۔

ائمہ (ع) کی نظر میں اس بات سے کون سی چیز مانع تھی کہ وہؑ سورہ توحید اور سورہ قدر یا کسی اور ایسے سورہ کو واجب قرار دے دیتے جس میں تحریف کا احتمال نہ ہو۔

مگر یہ کہ تحریف کے قائل یہ کہیں کہ پہلے قرآن سے ایک مکمل سورہ پڑھنا واجب تھا اور بعد میں یہ حکم منسوخ کردیا گیا اور موجودہ قرآن سے ہر سورہ کو پڑھنا جائز قرار دیا گیا۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ تحریف کے قائل حضرات اس قسم کے نسخ کے قائل ہوں گے کیونکہ رسول اسلامؐ کے بعد یقیناً کوئی نسخ واقع نہیں ہوا اگرچہ نسخ کا ممکن اور محال ہونا متنازع فیہ ہے جو ہماری اس بحث سے خارج ہے۔

خلاصہئ بحث ی ہہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ائمہ (ع) نے موجودہ قرآن میں سے کوئی سا بھی سورہ پڑھنے کا حکم دیا ہے جس میں تقیہ کا شائبہ تک نہیں ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں بھی یہی حکم تھا کہ کوئی سا سورہ پڑھ لیا جائے یا آپ کے زمانے میں کوئی اور حکم تھا اور یہ حکم بعد میں وضع کیا گیا۔

دوسری صورت (یعنی رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں حکم کوئی اور تھا) تو ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ یہ نسخ ہے جو آنحضرتؐ کے بعد یقیناً واقع نہیں ہوا اگرچہ یہ بذات خود ممکن ہے۔ لامحالہ رسول اسلامؐ کے زمانے میں بھی یہی حکم تھا جو ائمہ اطہار (ع) نے بیان فرمایا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی۔

۲۷۵

یہ استدلال صرف نماز سے مختص نہیں ہے بلکہ یہ ہر اس مقام پر ہوسکتا ہے جہاں ائمہ اطہار (ع) نے ایک مکمل سورہ یا آیۃ کو پڑھنے کا حکم دیا ہے۔

خلفاء پر تحریف کا الزام

۵۔ عدم تحریف کی پانچویں دلیل یہ ہے کہ تحریف کے قائل رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر پر تحریف کا الزام عائد کرسکتے ہیں یا حضرت عثمان پر یا کسی اور حکمران پر یہ الزام عائد کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ تینوں دعوے باطل ہیں۔

حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی طرف سے تحریف اس لیے نہیں ہوسکتی کہ:

i ۔ تحریف جان بوجھ کر نہیں بلکہ غیر اختیاری طورپر اور مکمل قرآن تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی ہوگی اس لیے کہ اس سے پہلے قرآن جمع نہیں کیا گیا تھا۔ یا انہوں نے عمداً تحریف کی ہوگی۔

ii ۔ ایسی آیات میں تحریف ہوئی ہوگی جن کا ان کی حکومت سے کوئی تعلق نہ ہو۔

یا

iii ۔ عمداً تحریف کی صورت میں تحریف شدہ آیات ان کی حکومت سے متعلق ہوں گی۔

یہ تینوں احتمالات باطل ہیں۔

i ) مکمل قرآن تک ان کی دست رسی نہ ہونے کا احتمال بالکل بے بنیاد اور باطل ہے۔ کیونکہ پیغمبر اسلامؐ کا قرآن حفظ کرنے اور اس کی تلاوت کرنے کا حکم دینے اور آپ کے زمانے میں اور آپ کی وفات کے بعد صحابہ کرام کا قرآن کو حد سے زیادہ اہمیت دینے سے ہم قطعی طور پر اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ صحابہ کرام کے پاس قرآن جمع شدہ یا متفرق طور پر، سینوں میں یا کاغذات میں، ضرور محفوظ ہوگا۔

۲۷۶

وہ صحابہ کرام جنہوں نے زمانہ جاہلیت کے اشعار اور خطبات کی حفاظت و نگہداری میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا، اس کلام پاک کی حفاظت میں کیسے کوتاہی کرتے جس کی راہ میں انہوں نے اپنی جان تک کی بازی لگا دی، وطن سے جلاوطن ہوناگوارا کیا، بیوی بچوں کی جدائی برادشت کی اور اسی قرآن کی راہ میں ان کٹھن ارو طاقت فرسا مراحل سے گزرے جن سے انہوں نے تاریخ کو سرخ کردیا۔

اس کے باوجود کوئی عاقل یہ احتمال دے سکتا ہے کہ ان حضرات نے قرآن کی حفاظت میںمعمولی سی بھی غفلت اورکوتاہی کی ہوگی جس سے قرآن ضائع ہوگیا اور اس کے ثبوت کے لیے دو عادل گواہوں کی ضرورت پڑی ہو؟

عقلی اور تاریخی اعتبار سے جس طرح قرآن میں اضافہ ہونا قابل قبول نہیں اسی طرح یہ احتمال بھی قابل قبول نہیں۔

اس کے علاوہ حدیث ثقلین بھی اس احتمال کے بطلان پر دلالت کرتی ہے۔ اگر آپ کے زمانے میں قرآن کا کچھ حصہ ضائع ہوگیا ہو تو ''انی تارک فیکم ثقلین کتاب اللہ و عترتی،، کہنا درست نہ ہوتا۔ کیونکہ اس صورت میں سارا نہیں بلکہ کچھ قرآن چھوڑا جارہا ہوتا۔

بعض روایات میں تو اس بات کی تصریح موجود ہے کہ رسول اسلامؐ کے زمانے میں ہی قرآن کی مکمل تدوین اور جمع آوری ہوچکی تھی۔ کیونکہ کسی موضوع سے متعلق متفرق یا سینوں میں محفوظ مطالب کو کتاب نہیں کہا جاسکتا اور ہم آئندہ صفحات میں یہ بحث کریں گے کہ آپ کے زمانے میں قرآن کی جمع آوری کی سعادت کس نے حاصل کی۔

اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ آنحضرتؐ کے زمانے میں مسلمانوں نے جمع قرآن کا کوئی اہتمام نہیں کیا تھا تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کے حفظ اور تلاوت کو اتنی اہمیت دینے کے باوجود اس کی جمع آوری کو آپ نے اتنی اہمیت کیوں نہ دی جس کی وجہ سے وہ ضائع نہ ہو جائے؟

۲۷۷

کیا آپ اس غفلت و کوتاہی کے نتائج سے آگاہ نہ تھے؟

یا وسائل کے فقدان کی وجہ سے قرآن کی جمع آوری پر قادر نہیں تھے؟

ii ) دوسرا یہ احتمال کی شیخین نے عمداً ان آیات میں تحریف کی ہو جن کا ان کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں تھا، بذات خود بعید ہے اس لیے کہ اس قسم کی تحریف سے ان کی کوئی غرض وابستہ نہیں ہوسکتی۔ عملی اعتبار سے یقیناً ان سے اس قسم کی تحریف واقع نہیں ہوئی۔

وہ اس طرح کی تحریف کر بھی کس طرح سکتے تھے جبکہ خلافت کی بنیاد ہی سیاست اور دینی معاملات کو اہمیت دینے پر قائم تھی۔ اگر ان سے تحریف ہوئی ہے تو ان کی بیعت سے انکار کرنے والوں نے اپنے احتجاج میں اس کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ سعد بن عبادہ اور اس کے ساتھیوں نے اعتراض کے طور پر اس کا ذکر کیوں نہیں کیا اورحضرت امیر المومنین (ع)نے اپنے خطبہئ شقشقیہ اور دیگر خطبات میں جہاں ان کی اور خامیاں بیان فرمائی ہیں، تحریف قرآن کا تذکرہ کیوں نہیں کیا؟

یہ دعویٰ بھی ناممکن اور غیر معقول ہے کہ تحریف کی وجہ سے مسلمانوں نے شیخین پر اعتراض تو کیا ہو لیکن اس کی خبر ہم تک نہ پہنچی ہو۔

iii ) تیسرا یہ احتمال کہ عمداً ان آیات میں تحریف کی ہو جن کا تعلق ان کی حکومت سے تھا، یہ تحریف بھی یقیناً واقع نہیں ہوئی کیونکہ امیر المومنینؑ، آپ کی زوجہئ صدیقہ طاہرہؑ اور آپ کے کچھ اصحابؓ نے خلافت کے سلسلے میں شیخین پر اعتراض کیا، رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے مروی روایات کے ذریعے ان کے خلاف دلائل پیش کئے، مہاجرین و انصار کو بھی اس سلسلے میں گواہ کے طور پر پیش کرتے رہے۔ منجملہ ان روایات کے حدیث غدیر کے ذریعے بھی احتجاج کیا گیا۔

۲۷۸

مرحوم طبرسی نے کتاب ''احتجاج،، میں حضرت ابوبکر کے خلاف بارہ آدمیوں کے احتجاج کو نقل کیا ہے جنہوں نے حضرت ابوبکر کے سامنے آنحضرتؐ کی نص صریح کو بیان کیا۔

مرحوم مجلسی نے اپنی کتاب''بحار الانوار،، میں ایک مکمل باب کو خلافت سے متعلق امیر المومنین (ع)کے احتجاج و دلائل سے مختص کیا ےہ۔

پس اگر قرآن میں ان کی حکومت اور خلافت سے متعلق کوئی آیہ ہوتی جس میں انہوں نے تحریف کی ہوتی تو اس کا ذکر احتجاج کے طور پر ضرور کیا جانا چاہیے تھا بلکہ خلافت کے موضوع پر باقی دلیلیوں کی نسبت ان آیات کو زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے تھی۔ خصوصاً جبکہ خلافت کا معاملہ بقول ان کے جمع قرآن سے پہلے پیش آیاتھا۔

اس کے باوجود صحابہ کرام کی طرف سے ابتدائی خلافت سے لے کر حضرت علیؑ کی خلافت تک تحریف قرآن کا ذکر نہ آنا اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی۔

باقی رہا یہ احتمال کہ حضرت عثمان نے تحریف کی ہو، یہ پہلے سے بھی زیادہ بعید اور ضعیف ہے ،کیونکہ:

i ۔ حضرت عثمان کے زمانے میں اسلام اتنا پھیل چکا تھا کہ حضرت عثمان قرآن میں سے کچھ کم کرہی نہیں سکتے تھے اور نہ ہی وہ کم کر سکتا تھا جس کا مقام حضرت عثمان سے زیادہ بلند ہوتا۔

ii ۔ اگر یہ تحریف ان آیات میں کی ہوتی جن کا خلافت سے کوئی تعلق نہیں تھا تو اس تحریف کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی اور ان آیات میں بھی یقیناً تحریف نہیں ہوسکتی جن کا تعلق خلافت سے ہوتا۔ اس لیے کہ اگر اس قسم کی کوئی آیہ ہوتی اور وہ حضرت عثمان کے زمانے تک مسلمانوں میں مشہور ہوگئی ہوتی تو خلافت ہی حضرت عثمان تک نہ پہنچتی۔

iii ۔ اگر تحریف قرآن کے مرتکب حضرت عثمان ہوتے تو یہ قائلین حضرت عثمان کے لیے معقول عذر اور بہترین دلیل بنتی اور قائلین کو یہ جواز پیش کرنے کی ضرورت نہ پڑتی کہ حضرت عثمان نے بیت المال کے سلسلے میں سیرت شیخین کی مخالفت کی ہے یا اس کے علاوہ دوسرے احتجاجوں کی ضرورت نہ ہوتی۔

۲۷۹

iv ۔ اگر حضرت عثمان نے تحریف کی ہوتی تو حضرت امیر المومنین (ع)کو چاہیے تھا کہ حضرت عثمان کے بعد تحریف شدہ حصے دوبارہ قرآن میں شامل فرما دیتے ،جس طرح قرآن رسول اسلامؐ اور شیخین کے زمانے میں پڑھا جاتا تھا اور آپ کا یہ عمل قابل تنقید نہ ہوتا اپنے ہدف تک پہنچنے میں یہ زیادہ مؤثر ہوتا اور خون حضرت عثمان کے انتقام کے نام پر قیام کرنے والوں کے خلاف یہ ایک مستحکم دلیل بنتا۔ اس کے علاوہ آپ کا یہ عمل اس اقدام سے بھی ہم آہنگ ہوتا جس کے ذریعے آپ نے حضرت عثمان کی عطا کردہ جاگیریں بیت المال میں لوٹانے کا حکم دیا تھا۔ ا سلسلے میں آپ فرماتے ہیں:

''والله لو وجدته قد تزوج به النساء و ملک به الاماء لرددته فان فی العدل سعة، و من ضاق علیه العدل فالجور علیه أضیق،، (۱)

''خدا کی قسم! اگر مجھے کہیں ایسا مال بھی نظر آئے جو عورتوں کے مہر اور کنیزوں کی خریداری پر صرف کیا جاچکا ہو تو اسے بھی واپس پلٹا دوں گا کیونکہ عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے میں زیادہ وسعت ہے اور جسے عدل کی صورت میں تنگی محسوس ہو اسے ظلم کی شک میں اور زیادہ تنگی مسحوس ہوگی۔

بیت المال کے بارے میں امیر المومنین (ع)کا مؤقف یہ ہے۔ اب اہل انصاف خود بتائیں کہ اگر قرآن میں تحریف ہوئی ہوتی تو امیر المومنین (ع)کا موقف کیا ہوتا۔

بنابرایں امیر المومنین (ع)کا موجودہ قرآن کی تائید کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی۔

جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے آج تک کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ خلفائے ثلاثہ کے بعد قرآن میں تحریف ہوئی ہے۔

البتہ بعض تحریفی حضرت کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ جب حجاج بن یوسف ثقفی نے بنی امیہ کی مدد شروع کی تو اس نے قرآن سے ان آیات کو حذف کرادیا جو بنی امیہ کی مذمت میں نازل ہوئی تھیں اور ان کی جگہ ایسی آیات کا اضافہ کردیا جو قرآن کا حصہ نہیں تھیں۔

____________________

(۱) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۵۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

الٰہی نعمتوں سے مستفید ہونے والوں کو جو یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ غضب الٰہی سے بچتے ہیں اس کے مفہوم و اطلاق کو مقید کیا گیا ہے تاکہ یہ جملہ صرف ان لوگوں کو شامل ہو جو دونوں صفات کے حامل ہیں اس طرح یہ آیت ان لوگوں کو شامل نہیں ہو گی جنہوں نے اللہ کی نعمتوں کاشکر ادا نہیں کیا۔

بنا برایں آیہ کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ بندے ، اللہ سے ایسے راستے کی ہدایت کے طالب ہیں جس پر اللہ کی نعمتوں سے بہرہ مند لوگوں میں سے کچھ خاص لوگ گامزن ہیں اور وہ ، وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفران نعمت نہیں کیا اور اللہ کی اطاعت میں ثابت قدم رہتے ہوئے آخرت کی نعمتوں سے بھی اسی طرح مستفیض ہوں گے جس طرح دنیا میں اس کی نعمتوں سے مستفیض ہوئے اس طرح دنیا و آخرت دونوں میں انہیں سعادت حاصل ہوئی۔

آیہ شریفہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے اس جملے کی مانند ہے جیسے کہا جائے : گمراہ کن کتابوں کے علاوہ دوسری کتب اپنے پاس رکھنا جائز ہے،، اس تحیل کی روشنی میں بعض حضرات کے اس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور نہ ہی اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے جو یہ کہتے ہیں ۔

''لفظ،، غیر میں بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے جو اضافت کی وجہ سے معرفہ نہیں بن سکتا اس لئے یہ کسی معرفہ کی صفت نہیں بن سکتا،،

خلاصہ بحث یہ ہوا کہ کسی بھی جملے، چاہے خبر ہو یا انشائیہ ، میں موجود حکم اگر عام ہو اور موضوع کے تمام افرادکو شامل ہو تو اس کی تخصیص جس طرح ''الا،، وغیرہ سے کی جا سکتی ہے اسی طرح لفظ ''غیر،، کے ذریعے بھی کی جا سکتی ہے گویا آپ یوں کہہ سکتے ہیں میرے پاس سارے شہر والے آئے سوائے فاسقین کے یا سب شہر والوں کا احترام کرو سوائے فاسقین کے۔

۶۲۱

الضآلین

اس لفظ کا عطف ''غیر المغضوب علیھم ،، پر ہے ۔ اس جملے میں ''لا،، نفی کو بھی استعمال کیا گیاہ ے تاکہ نفی کی تاکید ہو اور یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ''مغضوب،، اور ''ضالین،، دونوں کے مجموعے کی نفی کی گئی ہے چنانچہ لفظ ''غیر،، ضمنی طور پر نفی پر دلالت کرتا ہے اس لئے اس پر وہی حکم جاری کرتے ہیں جو حروف کا ہے مثلاً کہتے ہیں:

جالس رجلا غیر فاسق ولا سئی الخلق ، اعبدالله بغیر کس ولا ملل ،، (یعنی) ''ایسے آدمی کے ساتھ بیٹھو جو فاسق اور بداخلاق نہ ہو۔ اللہ کی عبادت کرو بغیر کسی اکتاہٹ اور سستی کے،،۔

ہمارے بعض تقریباً ہم عصر علمائے کرام کا خیال ہے لفظ ''غیر،، کا استعمال نفی میں صحیح نہیں ہے اس طرح انہوں نے آیہ کریمہ کی توجیہ کرنے میں اپنے آپ کو مشقت میں مبتلا کیا ہے آخر کار کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے اور اپنی عاجزی کا ا عتراف کر لیا ہے۔

تفسیر

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پہلے توحید فی العبادۃ اور توحید فی الاستعانۃ کا اعتراف کرنے کی تعلیم دی یعنی صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور مدد بھی صرف اسی سے مانگی جائے اس کے بعد اپنے بن دوں کو اس امر کی تلقین کی کہ وہ اللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا مانگیں۔

اس آیہ شریفہ کا پہلا حصہ اللہ کی حمد و ثناء اور بزرگی پر مشتمل ہے اور آخری حصہ ہدایت کی دعا پر ابتدائی اور آخری حصے کے درمیان آیہ شریفہ :ایاک نعبد و ایاک نستعین،، پہلی آیت کے مضمون کا نتیجہ اوربعد والی آیت میں موجود دعا کی تمہید ہے اس لئے کہ پہلی آیت میں خدا کی جو عظمت و بزرگی بیان کی گئی ہے اس پر عبادت و استعانت (مدد طلبی) کا ذات الٰہی سے مختص ہونے کا دار و مدار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات ، رحمت اور سلطنت کی وجہ سے عبادت کا مستحق ہے اور غیر اللہ عبادت و استعانت کا مستحق نہیں۔

۶۲۲

جب عبادت اور استعانت خدا کی ذات سے مختص ہوئی تو لامحالہ دعا بھی اسی کے دربار میں کی جانے چاہئے یہی وجہ ہے کہ فریقین نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔

ان الله تبارک و تعالیٰ قدجعل هذه السورة نصفین : نصف له و نصف لعبده ، فاذا قال العبد : الحمد لله رب العالمین ، یقول الله تعالیٰ : مجدنی عبدی ، و اذاقال : اهدنا الصراط المستقیم ، قال الله تعالیٰ هذا لعبدی و لعبدی ماسال ،، (۱)

''اللہ نے سورہ حمد کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا ، آدھا سورہ اللہ کیلئے اور آدھا اس کے بندوں کیلئے ، جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے تو خالق فرماتا ہے : میرے عبد نے میری عظمت بیان کی ہے اور جب بندہ کہے :اھدنا الصراط المستقیم،، تو خالق فرماتا ہے : یہ میرے عبد کا حصہ ہے میرا بندہ جو مانگے اسے دیا جائے گا،،۔

گزشتہ بحثوں سے معلوم ہوا کہ انسان اپنے ایمان و عقیدہ اوراعمال کے سلسلے میں تین میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کر سکتا ہے۔

(۱) وہ راستہ جو اللہ نے اپنے بندوں کیلئے مقرر کر رکھا ہے اس راستے پر وہ شخص چلتا ہے جسے اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ہدایت فرمائی ہے۔

(۲) وہ راستے ، جن پر گمراہ چلتے ہیں۔

(۳) وہ راستہ جس پر غضب الٰہی کے مستحق افراد چلتے ہیں۔

سورہ حمد میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ صراط مستقیم جو پہلا راستہ ہے وہ دوسرے دو راستوں سے مختلف ہے بایں معنی کہ صراط مستقیم پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اور دوسرے راستوں پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اس طرح یہاں پر یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ جو شخص طریق مستقیم سے انحراف کرے رسوائی اس کا مقدر ہوتی ہے اس لئے کہ وہ گمراہ وتا ہے یا گمراہ ہونے کے علاوہ غضب الٰہی کا بھی مستحق ہوتا ہے۔

____________________

(۱) عیون اخبار الرضا ۔ باب ماجاء من الرضامن الاخبار المتفرقہ ، ص ۱۶۶ طبع ایران ۱۳۱۷ھ

۶۲۳

اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت کی رسوائی سے بچائے اور صراط مستقیم کی ہدایت فرمائے۔

مفسرین کا کہنا ہے : اللہ سے وہ شخص ہدایت طلب کرتا ہے جو پہلے سے ہدایت یافتہ نہ ہو اور ایک مسلمان ، جو اللہ کی وحدانیت اور یگانگی کا قائل ہے وہ کیونکر اپنی نماز میں ہدایت کی دعا کرتا ہے۔

اس اعتراض کے کئی جواب دیئے گئے ہیں

(۱) آیت میں ہدایت سے مراد پہلے سے حاصل ہدایت کی بقاء اور دوام ہے یعنی جب اللہ نے اپنے بندوں کو اپنے فضل و احسان سے ایمان کی ہدایت کر دی تو اب اس کے بندے یہ دعا مانگتے ہیں : پالنے والے ! ہمیں ایمان پر ثابت قدم رہنے اور اسے برقرار رکھنے کی توفیق عنایت فرما تاکہ ہدایت کے بعد کہیں لغزش قدم کے نتیجے میں دوبارہ گمراہ نہ ہو جائیں۔

(۲) ہدایت کا معنی ثواب ہے یعنی بارالٰہا! ہمیں ثواب کے طور پر راہ جنت عطا فرما۔

(۳) ہدایت سے مراد ہدایت میں اضافہ ہے اس لئے کہ ہدایت کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی ہے جو شخص ہدایت کی ایک منزل پر فائز ہو وہ اس سے بلند منزل پر فائز ہونے کی دعا کر سکتا ہے۔

یہ تینوں جوابات خام خیالی اور ظاہر آیہ کریمہ کیخلاف ہیں ۔ صحیح جواب یہ ہے کہ جس ہدایت کی مسلمان اپنی نماز میں دعا کرتا ہے وہ ایسی ہدایت ہے جو اسے پہلے حاصل نہیں اسی لئے اللہ کے حضور اس کے حصول کی دعا مانگی جاتی ہے۔

وضاحت: اللہ کی طرف سے دو قسم کی ہدایت کی جاتی ہے۔

(۱) ہدایت عامہ

(۲) ہدایت خاصہ

۶۲۴

ہدایت عامہ: یہ ہدایت کبھی تکوینی ہوتی ہے اور کبھی تشریعی ۔ تکوینی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے جمادات ، نباتات اور حیوانات غرض تمام موجودات کو ودیعت فرمائی ہے یہ سب چیزیں قدرتی طور پر یا اپنے اختیار سے اپنے کمال اور ارتقائی منازل کی طرف رواں دواں ہیں ۔ اللہ کی ذات نے ان چیزوں میں طلب کمال کی قدرت و دیعت فرمائی ہے:

کیا آپ نے نباتات میں کبھی غور کیا ہے کہ وہ اپنی نشوونما کے دوران ایسے راستے کا انتخاب کرتی ہیں جس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ، یا کبھی حیوانات کے بارے میں سوچا ہے کہ وہ موذی حیوانوں کوکیسے دوسروں سے تمیز دے لیتے ہیں مثلاً چوہا بلی سے تو بھاگتا ہے لیکن بکری سے نہیں بھاگتا یا چیونٹی اور شہد کی مکھی اجتماع اور حکومت تشکیل دینے اور اپنی رہائشی جگہ تعمیر کرنے کی ہدایت و رہنمائی کیسے حاصل کرتی ہے ؟ یا شیر خوار طفل پستان مادر کی رہنمائی کیسے حاصل کرتا ہے اور ولادت کے فوراً بعد دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔

( قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ ) ۲۰:۵۰

''موسیٰ (ع) نے کہا ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اسی کے (مناسب) صورت عطا فرمای پھرا سی نے (زندگی بسر کرنے کے) طریقے بتائے،،۔

تشریعی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے انسانوں کی طرف نبی (ع) بھیج کر اور ان پر کتب نازل فرما کر مکمل کی پہلے خدا نے انسان کو عقل اور حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت دے کر ان پر حجت تمام کی اس کے بعد انسان کی ہدایت کیلئے انبیاء بھیجے جو انسانوںکے سامنے آیات الٰہی کی تلاوت کرتے اور ان کیلئے مختلف شریعتوں کو بیان کرتے تھے پھر اللہ نے انبیاء (ع) کو معجزات دے کر بھیجا جو ان کی نبوت کا ثبوت اور دلیل بن سکے اس کے بعد کچھ لوگ ہدایت پا گئے اور کچھ گمراہ ہو گئے اور ضلالت ان کا مقدر بن گئی۔

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ) ۷۶:۳

''اس کو رستہ بھی دکھا دیا (اب وہ ) خواہ شکر گزار ہو خواہ ناشکرا،،

۶۲۵

ہدایت خاصہ: یہ ہدایت تکوینی ہوتی ہے اور یہ اللہ کا خاص لطف و کرم ہے جس سے وہ اپنے بعض مخصوص بندوں کو اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق نوازتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے وہ اسباب و ذرائع فراہم کرتا ہے جس سے وہ اپنے کمال اور منزل مقصود تک پہنچ جائیں اگر اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت خاصہ کے ذریعے لوگوں کی ہدایت اور اصلاح نہ فرمائے تو وہ گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں جاگریں ہدایت کی اس قسم کی طرف قرآن کی متعدد آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔

( فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ ) ۷:۳۰

''اسی نے ایک فریق کی ہدایت کی اور ایک گروہ (کے سر) پر گمراہی سوار ہو گئی،،۔

( قُلْ فَلِلَّـهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ) ۶:۱۴۹

(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم کہو کہ اب (تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں) خدا تک پہنچانے والی دلیل خدا ہی کے لئے خاص ہے پھر اگر وہی چاہتا تو تم سب کی ہدایت کرتا،،

( لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۗ ) ۲:۲۷۲

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) انہیں منزل مقصود تک پہنچانا تمہارا فرض نہیں (تمہارا کام) صرف راستہ دکھانا ہے مگر ہاں خدا جس کو چاہے منزل مقصود تک پہنچا دے،،

( إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ) ۶:۱۴۴

''خدا ہرگز ظالم قوم کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا،،

( وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ) ۲:۲۱۳

''اور خدا جس کو چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے،،

( إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ) ۲۸:۵۶

(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) بیشک تم چسے چاہو منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتے مگر ہاں خا جسے چاہے منزل مقصود تک پہنچائے،،

۶۲۶

( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ ) ۲۹:۶۹

''اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا انہیں ہم ضرور اپنی راہ کی ہدایت کریں گے،،

( فَيُضِلُّ اللَّـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) ۱۴:۴

''تو یہی خدا جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہی سب پر غالب حکمت والا ہے،،

ان آیات کے علاوہ بھی قرآن کریم کی متعدد آیات ایسی ہیں جن سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ کی ہدایت خاصہ کچھ خاص قسم کے لوگوں کو نصیب ہوتی ہے سب کو نہیں بنا برایں اس سورہ فاتحہ میں مسلمان پہلے اللہ کی تشریعی و تکوینی ہدایت عامہ کا اعتراف کرتا ہے اس کے بعد درگاہ الٰہی میں تکوینی ہدایت خاصہ کی دعا کرتا ہے جو صرف مخصوص لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسان قدرتی طور پر ہلاکت اور سرکشی سے دو چار ہو سکتا ہے اس لئے مسلمان اور موحد کو چاہئے کہ وہ صرف اپنے نفس پر اعتماد نہ کرے بلکہ اپنے رب سے مدد طلب کرے اور اس سے ہدایت کی دعا مانگے تاکہ وہ اسے صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائے اور وہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جو گمراہ اور غضب الٰہی کے مستحق ہیں۔

۶۲۷

ضمیمہ جات

۱۔ حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے

۲۔ حارث کی سوانح حیات اور شعبی کے بہتان

۳۔ حدیث شریف''لترکبن سنن من قبلکم ،، کے حوالے۔

۴۔ موتف اور یہودی عالم میں بحث

۵۔ ترجمہ قرآن اور اس کی شرائط

۶۔ رسول اسلام (ص) کو شکست دینے کی قریشیوں کی کوشش۔

۷۔ صحیح بخاری میں حدیث متعہ کی تحریف

۸۔ محمد عبدہ ، اور تین طلاقیں

۹۔ شیعوں پر رازی کا افترائ

۱۰۔ احادیث اور مشیّت الٰہی

۱۱۔ دعا سے تقدیر الٰہی بدل جانے کی احادیث

۱۲۔ آیہ بسم اللہ کی اہمیت

۱۳۔ آغاز آفرینش

۱۴۔ بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی احادیث

۱۵۔ معاویہ بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا تھا

۶۲۸

۱۶۔ رسول خدا کا بسم اللہ پڑھنا اور روایت انس کی توجیح

۱۷۔ ابن تیمیہ اور زیارت قبور کے جواز کی حدیثیں

۱۸۔ آلوسی کی شیعوں پر بہتان تراشی

۱۹۔ مولف اور حجازی عالم میں بحث

۲۰۔ تربت سید الشہداء (ع) کی حقیقت

۲۱۔ مکاشفہ کے ذریعے آیہ سجود کی تاویل

۲۲۔ ابلیس اور خدا کامکالمہ

۲۳۔ اسلام اور شہداتین

۲۴۔ عبادت اور اس کے عوامل

۲۵۔ الامربین الامرین لوگوں کی نیکیاں اور برائیاں

۲۶۔ شفاعت کے مدارک

۶۲۹

ضمیمہ (۱) ص ۱۸

حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے

حدیث ثقلین کو احمد نے اپنی کتاب ''مسند،، کی جلد ۳ کے صفحہ ۱۴ ، ۱۷ ، ۲۶ اور ۵۹ پر ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے دارمی نے کتاب فضائل القرآن،، کے جزء ۲ کے صفحہ ۴۳۱ اور احمد نے اپنی کتاب ''مسند،، کے جزء ۴ کے صفحہ ۳۶۶ اور ۳۷۱ پر زید بن ارقم سے اور جزء ۵ کے ص ۱۸۶ ، ۱۸۹ پر زید بن ثابت سے روایت کیا ہے ۔

جلال ادین سیوطی نے ''جامع الصغیر،، میں طبرانی سے اور اس نے زید بن ثابت سے اس کی روایت کی ہے جلال الدین سیوطی نے یہ حدیث نقل کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے علامہ مناوی نے اپنی شرح کی جز ۳ کے صفحہ ۱۵ پر لکھا ہے : ھیثمی کا کہنا ہے '' اس حدیث کے راوی موثق ہیں،،

نیز ابویعلیٰ نے اس حدیث کی ایسے سلسلہ سند سے روایت کی جو قابل خدشہ نہیں ہے حافظ عبدالعزیز ابن الاخضر نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کااضافہ بھی کیا ہے کہ یہ حدیث حجتہ الوداع کے موقع پر صادر ہوئی اور وہ شخص (جیسا کہ ابن جوزی ہے) غلطی پر ہے جو اسے من گھڑت سمجھتا ہے سمھودی کا کہنا ہے کہ اس حدیث کو بیس سے زیادہ صحابہ نے نقل کیا ہے۔

حاکم نے کتاب ''المستدرک،، کی جزء ۳ کے صفحہ ۱۰۹ پر زید ابن ارقم سے اس حدیث کی روایت کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے ذہبی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اگرچہ روایات کی تعبیریں مختلف ہیں مگر سب کا مطلب ایک ہی ہے۔

۶۳۰

ضمیمہ (۲) ص ۱۸

حارث کی سوانح حیات اور

شعبی کے بہتان ان کا نام حارث بن عبداللہ الاعور الھمدانی ہے علمائے امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ امیر المومنین (علیہ السلام) کے بزرگ اصحاب میں سے تھے علماء کرام نے ان کو عظیم المرتبت ، متقی ، پرہیز گار اور خدمت گزارامیر المومنین (ع) کے لقب سے یاد کیا ہے۔

علماء کرام نے اپنی کتاب رجال اور دیگر کتابوں میں ان کے موثق ہونے کی تصریح کی ہے اہل سنت کے کئی بزرگ علماء نے حارث کا ذکر کیا ہے اور اس کی تعریف کی ہے ابن حجر عسقلانی ''تہذیب التہذیب،، میں لکھتے ہیں،،

''دوری نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ حارث نے ابن مسعود سے حدیث سنی ہے اور یہ قابل خدشہ نہیں ہے،،

عثمان دارمی نے ابن معین سے نقل کیا ہے : ''حارث موثق ہے،،

اشعث ابن سوار نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے ''میں نے کوفہ جا کر دیکھا کہ لوگ پانچ آدمیوں کو دوسروں پر مقدم سمجھتے تھے ان میں سے جو شخص حارث کو سب سے مقدم سمجھتا تھا وہ دوسرے نمبر پر عبیدہ کا نام لیتا تھا اور جو شخص عبیدہ کو سب سے مقدم سمجھتا تھا وہ دوسرے نمبر پر حارث کا نام لیتا تھا،،

ابن ابی داؤد کہتے ہیں ''حارث ، فقہ ، حسب و نسب اور مسائل ارث میں سب سے بہتر تھے آپ نے میراث کے احکام امیر المومنین (ع) سے حاصل کئے،،

۶۳۱

ذہبی حارث کے حالات زندگی میں لکھتا ہے ''حارث کی احادیث سنن اربعہ میں موجود ہیں اور نسائی نے رجال (راویوں) کے سلسلے میں سخت گیر ہونے کے باوجود حارث کی احادیث سے استدلال کیا ہے اور اس کی تائید کی ہے وہ (حارث) علم کے سمندر تھے،،

مرہ بن خالد کہتا ہے کہ محمد بن سیرین نے خبر دی ہے ''اصحاب بابن مسعود میں پانچ افراد ایسے تھے جن کی احادیث قابل قبول ہوتی تھیں ان میں سے چار کی زیارت کی گئی مگر حارث کی زیارت سے محروم رہا حارث کو باقی چاروں پر فضیلت حاصل تھی اور وہ ان سے بہتر تھا،،

مولف: تعصبات و خواہشات کاتقاضا یہی ہے جو شعیی نے کہا ہے ''حارث اعور نے مجھ سے حدیث بیان کی اور وہ (حارث) ایک جھوٹا انسان تھا ،، اس بات میں کچھ اور لوگوں نے بھی شعبی کی متابعت کی ہے۔

عبداللہ قرطبی اپنی تفسیر کے جزء اول صفحہ ۵ پر لکھتے ہیں۔

درحقیقت حارث کو اس لئے مطعون کیا جاتا ہے کہ ان کے دل میں حب علی (ع) کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور وہ امیر المومنین (ع) کو دوسروں سے افضل سمجھتے تھے اسی لئے شعبی نے اس (حارث) کی تکذیب کی ہے کیونکہ وہ شعبی حضرت ابوبکر کو دوسروں سے بہتر اور پہلا مسلمان سمجھتا تھا،،۔

ابن حجر ، حارث کے حالات میں لکھتا ہے کہ ابن عبدالبر نے اپنی کتاب ''العلم،، میں حارث کا شبی کی طرف سے طعن و تشینع کا نشانہ بننے کا یہ راز بیان کیا ہے۔

''حارث حب علی (ع) میں انتہا پسند تھے میرے خیال میں شعبی ، حارث کی تکذیب اور اسے جھٹلانے کی وجہ سے عذاب الٰہی کا مستحق ہو گا اس لئے کہ حارث کی کوئی بھی بات جھوٹ ثابت نہیں ہوئی،،۔

ابن شاہین نے ''ثقات،، میں لکھا ہے کہ احمد بن صالح مصری کہتے ہیں۔

''حارث کتنے مضبوط حافظہ کے مالک تھے اور انہوں نے کتنی اچھی اور زندہ روایات حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہیں،،

۶۳۲

اس کے بعد انہوں نے حارث کی تعریف و ستائش کی ہے احمد بن صالح سے کہا گیا شعبی تو کہتا ہے کہ حارث جھوٹ بولا کرتاتھا احمد بن صالح نے کہا حارث نقل حدیث کے سلسلے میں جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ صرف اس کی اپنی رائے خلاف واقعہ ہوتی تھی۔

خدارا! صاحب بصیرت نقاد بتائیں کیا علم پرور شریعت اور دین اسلام اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ کسی مسلمان کی طرف فحاشی کی نسبت صرف اس بنیاد پر دی جائے اورا س پر جھوٹ بولنے کی تہمت صرف اس لئے لگائی جائے کہ اسکے دل میں حضرت علی (ع) کی محبت ہے اور کہ وہ حضرت علی (ع) کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہے ؟ کیا خود رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کے دوسروں سے افضل ہونے کا برملا اعلان نہیں فرمایا یہاں تک کہ رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کو وہ مقام دیا جو حضرت ہارون (ع) کو حضرت موسیٰ (ع) کی نسبت حاصل تھا اور آپ (ع) کو ایسے خصائل و خصوصیات سے نوازا جو دوسرے صحابہ رسول (ص) میں سے کسی کو حاصل نہ تھیں۔

مستدرک حاکم جزء ۳ ، ۱۰۸ کے مطابق سعد ابن ابی وقاص نے معاوضہ کے سامنے ان فضائل کی اس وقت شہادت دی جب معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو امیر المومنین (ع) پر سب و شتم کرنے پر مجبور کرنا چاہا اس موقع پر سعد بن ابی وقاص نے کہا۔

کیف اسب رجلاً کانت لہ خصال من رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: لو ان لی واحدۃ منہا لکان احب الی من حمر انعم ،،

''بھلا اس ہستی پر میں کیسے سب و شتم کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسے فضائل و مناقب سے نوازا جن میں ایک فضیلت بھی مجھے نصیب ہوتی تو سرخ اونٹوں سے زیادہ میں اسے پسند کرتا،،

اس کے بعد سعد بن ابی وقاص نے حدیث کساء ، حدیث منزلت (انت منی بمنزلہ ہارون من موسیٰ ) اور جنگ خیبر میں علم دینے کا واقعہ بیان کیا رسول اللہ (ص) نے صرف انہی فضائل کے بیان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ امت کے سامنے حضرت علی (علیہ السلام) کے بلند مقام کا اعلان فرمایا۔ چنانچہ مستدرک حاکم جزء ۳ ، صفحہ ۱۰۸ پر ہے کہ رسول اللہ (ص) نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا۔

۶۳۳

''من اطاعنی فقداطاع الله و من عصانی فقد عصی الله و من اطاعک فقد اطاعنی و من عصاک فقد عصانی،،

''جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے تیری اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے تیری نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی،،

ان کے علاوہ اور بھی بہت سے فضائل ہیں جو حدو حصر سے باہر ہیں۔

ہاں ! اگر شعبی حارث پر تہمتیں لگائے اور اس کی طرف کذب کی نسبت دے تو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ شعبی وہ آدمی ہے جو بنی امیہ اور ان کے ماحول کا پروردہ اور ان کی دنیا میں موج اڑاتا اور ان کی خواہشات کے مطابق عمل کرتا تھا۔

کتاب النجوم الزاہرۃ جزء ۱ صفحہ ۲۰۸ کے مطابق ولید بن عبدالملک کی بیعت کے صلے میں عبدالملک بن مردان نے شعبی کو مصر بھیجا پھر کوفے کے والی و گورنر بشر بن مردان کی طر فسے کوفہ میں اس کا (امور حبیہ میں )وکیل رہا۔

چنانچہ کتاب الاغانی جزء ۲ ، ص ۱۲۰ پر ہے اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے کوفہ کی قضاوت کے منصب پر فائز رہا چنانچہ تاریخ طبری جزئ۵ ، ۳۱۰ پر یہ واقعہ موجود ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس کی تمام حرکات و سکنات مروانی تھیں اور وہ وہی کچھ کہتا اور کرتا تھا جو خواہشات نفسانی کاتقاضا ہو کسی جھوٹی بات سے نہ اسے کوئی جھجھک ہوتی تھی اور نہ بیہودگی سے یہ باز آتات ھا۔

ابو الفرج نے الاغانی جزء ۱ ، ص ۱۲۱ پر حسن بن عمر فقیمی سے نقل کیا ہے کہ فقیمی کہتا ہے:

''میں شعبی کے کمرے میں اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، اتنے میں، میں نے گانے کی آواز سنی میں نے شعبی سے کہا : گانے کی آواز آپ کے ہمسائے کے گھر سے آ رہی ہے میں نے اس کے ساتھ جا کر اس کے مکان کی چھت پر ایک چاند سے حسین و جمیل لڑکے کو دیکھا جوگانےگا رہا تھا حسن بن عمر فقیمی کہتا ہے کہ شعبی نے مجھ سے کہا : جانتے ہو یہ کون ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔ شعبی نھے کہا یہ وہ ہے جس کو بچپن ہی میں حکمت عطا کی گئی ہے یہ ابن سریج ہے،،۔

۶۳۴

نیز الاغانی کے جزء ۲ ، ص ۷۱ پر عمر بن ابی خلیفہ سے منقول ہے۔

''شعبی اور میرے والد گھر کے بالائی حصے میں تھے اتنے میں ہم نے اچھی آواز میں گانے کی آواز سنی میرے والد نے کہا تمہیں کچھ نظر آ رہا ہے ؟ شعبی نے کہا نہیں ۔ اس وقت ہمیں ایک خوبصورت نوجوان لڑکا نظر آیا جو گا رہا تھا اور وہ عائشہ کابیٹا تھا ، شعبی نے اس کے گانے کو پسند کیا اور کہا : خدا جسے چاہتا ہے علم و حکمت سے نوازتا ہے،،۔

الاغانی کے جزء ۲ ، ص ۱۳۳ پر مذکور ہے ''مصعب بن زبیر نے کوفے پر اپنی گورنری کے دوران شعبی کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی زوجہ عائشہ بنت طلحہ ، جو اس وقت بے حجاب تھی کی خواہب گاہ میں لے گیا اور پھر مصعب نے اپنی زوجہ کے بارے میں شعبی کی رائے پوچھی شعبی نے اپنی رائے ظاہر کی اور اس کی زوجہ کی ایسی ہی تعریف کی جیسی مصعب چاہتا تھا اس پر مصعب نے شعبی کو دس ہزار درہم اور تیس لباس دیئے،،۔

شعبی اگر حارث کو ان الفاظ میں یاد کرے تعجب کی کون سی بات ہے یہ تو وہی شخص ہے جو امیر المومنین علی (علیہ السلام) کے بارے میں قسم کھا کر کہتا تھا:

لقد دخل علی حضرة و ما حفظ القرآن،،

یعنی ''علی (ع) اپنی قبر میں پہنچ گئے مگر قرآن حفظ نہ کر سکے،،

چنانچہ قرطین کے جزء ۱ ، ص ۱۵۸ پر مذکور عبارت موجود ہے۔

صاحبی ، فقہ اللغۃ کے صفحہ ۱۷۰ پر رقمطراز ہے۔

''شعبی کا یہ جملہ اس شخص کے بارے میں انتہائی بے ہودہ ہے جو کہا کرتا تھا۔

''سلونی قبل ان تفقدونی ، سلونی فمامن آیة الااعلم بلیل نزلت ام بنهار ام فی سهل ام فی جبل ،،

یعنی ''پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ میں تم میں نہ رہوں اس لئے کہ میں قرآن کی ہر آیت کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ رات کے وقت نازل ہوئی یا دن کے وقت کسی ہموار جگہ پر نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر،،

۶۳۵

سدی نے عبد خبر سے اور اس نے علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہے۔

''آپ (ع) نے رسول خدا (ص) کی وفات کے موقع پر لوگوں کو فال بد کی کیفیت میں دیکھا جس کے بعد آپ (ع) نے قسم کھائی کہ جب تک قرآن مجید کو مکمل جمع نہ کر لوں اپنی چادر دوش پر نہیں رکھوں گا عبد خیر کہتے ہیں پس امیر المومنین (ع) نے اپنے بیت الشرف میں گوشہ نشین ہوئے اور وہیں پر آپ نے قرآن جمع کیا یہ وہ پہلا مصحف تھا جس میںق رآن جمع کیا گیا آپ نے اسی قرآن کو جمع کیا جو آپ کے قلب مطہر پر نقش اور زبانی یاد تھا اور یہ قرآن آل جعفر کے پاس تھا،،

ہر غیرت مند مسلمان کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ اس شخص نے خدا اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کیخلاف اس قسم کی بے ہودہ گوئی کی کیسی جرات کی ہے یہ الفاظ ''قرآن حفظ نہ کر سکا،، اس شخص کے بارے میں کہے جا رہے ہیں جو علم رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے شہر کا دروازہ تھااور آپ (ع) لوگوں کیلئے ان احکام کو بیان کیا کرتے تھے جنہیں دے کر رسول اللہ (ص) کوبھیجاگیا تھا اس مضمون کی بہت سی روایات ہیں جیسا کہ کنز العمال جزء ۶ ص ۱۵۶ پر موجود ہاں ! تو یہ الفاظ اس ہستی کے بارے میں کہے جا رہے ہیں جو حکمت کا شہر تھا جیسا کہ صحیح بخاری جزء ۱۳ ، ص ۱۷۱ پر موجود ہے اور اس شخص کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اسے قرآن حفظ نہیں تھا جوقرآن کے ساتھ ہے اور قرآن اس کے ساتھ اور یہ اس وقت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک حوض کوثر پر نہ پہنچیں چنانچہ مستدرک الحاکم جزء ۳ ، ص ۱۲۴ اور سیوطی کی جامع الصغیر جزء ۴ ، ص ۳۵۶ پر یہ روایت موجود ہے۔

ان الذین یکسبون الاثم سیجزون ماکانوا یقترفون

''جو لوگ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں عنقریب ان کو اپنے اعمال کی سزا ملے گی،،

۶۳۶

ضمیمہ (۳) ص ۲۰

حدیث شریف ''لترکبن سنن من قبلکم ،، کے حوالے

یہ حدیث مسند احمد کی جزء ۵ ص ۲۱۸ پر ابی واقدلیثی کی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔

بخاری میں کتاب الاعتصام بالکتاب و السنتہ باب قول النبی لتتبعن سنن من قبلکم جزء ۸ ، ص ۱۵۱ ، مسلم کی کتاب العلم باب اتباع سنن الیہود و انصاریٰ جزء ۸ ، ص ۵۷ ، اور مسند احمد جزء ۳ ، ص ۷۴ پر ابی سعید خدری سے یہ حدیث وارد ہے نیز ھیثمی کی کتاب مجمع الزوائد ، جزء ۷ ، ص ۲۶۱ پر ابن عباس سے یہ روایت مروی ہے۔

ضمیمہ (۴) ص ۴۳

مولف اور یہودی عالم میں بحث

ایک مرتبہ ایک یہودی عالم سے اس موضوع پر میری بحث ہوئی کہ شریعت یہود بھی اپنی حجت و دلیل کے ختم ہونے پر ختم ہو جاتی ہے۔

میں نے یہودی عالم سے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر عمل کرنا صرف یہودیوں پر واجب تھا یا یہ کہ یہودیوں کے علاوہ دوسری امتوں پر بھی شریعت موسیٰ ؑ پر عمل کرنا واجب ہے ؟ اگر شریعت موسیٰ ؑ صرف یہودیوں سے مختص ہو تو دوسری امتوں کیلئے کسی اور نبی کا ہونا ضروری ہے بتایئے وہ نبی کون ہے ؟ اور اگر شریعت موسیٰ ؑ تمام اقوام اور امتوں کیلئے ہو تو پھر ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت کی صداقت اور اس کے تمام امتوں کو شامل ہونے پر کوئی حجت و دلیل پیش کی جائے اور تم کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کر سکتے اس لئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات آئندہ آنے والی نسلوں نے دیکھے تک نہیں

۶۳۷

تاکہ ان معجزات پر یقین کر سکیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات آئندہ آنے والی نسلوں نے دیکھے تک نہیں تاکہ ان معجزات پر یقین کر سکیں حضرت موسیٰ (علیہ اسلام) کے معجزات کی خبر صرف اسی صورت میں تواتر کی حد تک پہنچ سکتی ہے کہ جب ہر دور میں خبر دینے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ عقلی طور پر ان سب کا جھوٹی بات پر اتفاق ناممکن ہو اور یہ وہ امر ہے جس کو ثابت کرنا تمہارے دائرہ قدرت سے باہر ہے۔

تم (یہود) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزوں کی خبر دیتے ہو ، نصاریٰ حضرت عیسی ٰ (علیہ السلام) کے معجزات کی خبر دیتے ہیں اور دوسری امتیں اپنے اپنے نبیوں کے معجزات کی خبر دیتی ہیں بھلا ان خبروں میں کوئی فرق ہے اور ایک خبر کو دوسری خبر پر کوئی فوقیت حاصل ہے ؟ اگر لوگوں پر تمہاری خبروں کی تصدیق واجب ہے تو باقی لوگوں کی خبروں کی تصدیق کیوں ضرورت نہیں جو اپنے انبیاء کے معجزات نقل کرتے ہیں جب مسئلے کی صورت یہ ہو تو پھر تم (یہود) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ دوسرے انبیاء کی تصدیق کیوں نہیں کرتے۔

یہودی عالم نے جواب میں کہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات یہود ، نصاریٰ اور مسلمان سب کے نزدیک ثابت ہیں اور سب ہی ان کا اعتراف کرتے ہیں جبکہ باقی انبیاء کے معجزات کا سب لوگ اعتراف نہیں کرتے اسی لئے باقی انبیاء کی نبوت محتاج دلیل ہے۔

میں نے کہا : مسلمانوں اور نصاریٰ کے نزدیک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اس لئے ثابت ہیں کہ ان کے نبی (حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت خاتم الانبیا (ص) نے ان معجزات کی خبر دی ہے اس وجہ سے ثابت نہیں کہ خبر متواتر ان معجزات پر دلالت کرتی ہو اگر حضرت موسیٰ ؑ کے معجزات کے بارے میں حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد مصطفی (ص) کی خبر کی تصدیق ضروری ہے تو ان کی نبوت کی تصدیق بھی ضروری ہونی چاہئے جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں اگر اس سلسلے میں ان کی تصدیق ضروری ہو تو ان کی خبر سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات بھی ثابت نہیں ہو سکیں گے یہ تو گزشتہ شریعتوں کا حال تھا۔

۶۳۸

جہاں تک شریعت اسلام کاتعلق ہے اس کی حجت اور دلیل ہمیشہ کیلئے باقی ہے اور قیامت تک آنے والی نسلوں کیلئے ایک چیلنج کے طورپر باقی رہے گی جب شریعت اسلام ثابت ہو گی تو اس کی بنیاد پر گزشتہ تمام انبیاء کی تصدیق بھی ہم پر واجب ہو گی اس لئے کہ قرآن مجید نے بھی اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا نے بھی ان انبیاء کی نبوت کی شہادت دی ہے پس معلوم یہ ہوا کہ قرآن کریم ہی وہ یگانہ اور ابدی معجزہ ہے جو تمام آسمانی کتابوں کی صداقت ، اور انبیاء علیہم السلام کی عصمت اور پاکیزگی کی شہادت دیتا ہے۔

ضمیمہ (۵) ص ۴۳

ترجمہ قرآن اور اس کی شرائط

خداوند عالم نے لوگوں کی ہدایت کیلئے اپنے نبی کو بھیجا اور قرآن کریم کے ذریعے آپ (ص) کی عظمت بیان کی اور لوگوں کو سعادت و ارتقائی مراحل تک پہنچانے والا ہر امر قرآن میں موجود ہے اور یہ خدا کا وہ لطف و کرم ہے جو کسی ایک قوم سے مختص نہیں بلکہ تمام انسانیت کو شامل ہے مشیّت الٰہی یہی ہے کہ اپنے نبی کی قوم کی زبان میں ہی اپنا پیغام آپ (ص) پر نازل کیا جائے جبکہ قرآن کی تعلیمات اور ہدایات ہر دور کے انسانوں کو شامل ہیں اسی نکتہ کے پیش نظر ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ قرآن مجید کو سمجھے تاکہ اس سے ہدایت حاصل کر سکے۔

۶۳۹

اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کا ترجمہ قرآن کو سمجھنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے لیکن ترجمہ کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ترجمہ کرنے والا شخص لغت عربی پر مکمل عبور رکھتا ہو جس سے کسی دوسرے لغت میں قرآن کا ترجمہ کرنا چاہتا ہے۔

اس لئے کہ ترجمہ چاہے کتناہی مستحکم اور مضبوط ہو اس میں فصاحت و بلاغت اور وہ خصوصیات حاصل نہیں ہو سکتیں جن کی بدولت قرآن کو امتیازی مقام حاصل ہے یہی بات قرآن کے علاوہ دوسرے کلاموں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے کیونکہ یہ عین ممکن (یہ خطرہ باقی رہتا ) ہے ترجمہ سے اس نتیجہ تک پہنچا جائے جو اس کے اصل مضمون کے بالکل برعکس ہو۔

پس ترجمہ قرآن کیلئے سب سے پہلے قرآن کا سمجھنا ضروری ہے اور قرآن فہمی کا دارو مدار تین چیزوں پر ہے ۔

۱۔ ظہور لفظی جس کو فصیح عرب سمجھیں۔

۲۔ عقل فطری کا حکم ، جو ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہو۔

۳۔ تفسیر قرآن کے سلسلے میں معصومین (ع) کی روایات۔

بنا براین مترجم کیلئے ضروری ہے کہ وہ مندرجہ بالا تین چیزوں کا مکمل احاطہ رکھتا ہو تاکہ قرآن کے معانی اور مفاہیم کو کسی دوسری لغت میں نقل کر سکے۔

باقی رہی ذاتی رائے جس کو بعض مفسرین اپنی تفسیروں میں پیش کرتے ہیں اور وہ ان گزشتہ رہنما اصولوں کی روشنی میں حاصل نہ ہو تو وہ تفسیر بالرائے ہے اور اس کی کوئی حیثیت اور مقام نہیں مترجم کو چاہئے کہ ترجمہ کے سلسلے میں اس قسم کی تفسیروں کا سہارا نہ لے۔

ترجمہ کے سلسلے میں ان نکات کومدنظر رکھتے ہوئے حقائق قرآن اور اس کے مفاہیم ہر قوم کیلئے اسی کی لغت میں پیش کئے جائیں کیونکہ قرآن تمامل وگوں کی ہدایت کیلئے نازل کیاگیا ہے ، اور جب تک قرآن کی تعلیمات اور اس کے حقائق تمام انسانوں کیلئے لغت قرآن کو ، عام انسانوں اور قرآنی تعلیمات کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہئے۔

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689