البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313968 / ڈاؤنلوڈ: 9312
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

چھٹا اعتراض

اعجام قرآن پر چھٹا اعتراض یہ ہے کہ اگر ہر وہ کتاب معجزہ ہے جس کی نظیر لانے سے انسان عاجز ہو تو ہیئت کی کتاب ''اقلیدس،، اور ہندسہ کی کتاب بھی معجزہ نہیں ہوسکتی جس کی نظیر انسان نہ لاسکے۔

جواب:

اولاً: ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ انسان ان دونوں کتابو ںکی نظیر لانے سے عاجز اور قاصر ہے۔ ا س لیے کہ ان کے بعد علم ہیئت اور علم ہندسہ پر ایسی ایسی کتب لکھی جاچکی ہےں جن کا بیان زیادہ وزنی اور سمجھنا آسان ہے۔ بعد کی کتاب کئی اعتبار سے ان دونوں کتابوں پر فوقیت رکھتی ہیں اور ان میں بعض ایسی چیزیں ہیں جن کا ان دونوں کتب میں نام و نشان تک نہیں ہے۔

ثانیاً: ہم نے معجزہ کی کئی شرائط بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ معجزے کو جب پیش کیا جائے تو اسے بطور چیلنج اور اپنے الہٰی منصب کے ثبوت و دلیل میں پیش کیا جائے۔ اس کے علاوہ ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو کام بھی بطور معجزہ انجام دیا جائے وہ طبیعی قوانین سے بالاتر ہو۔ یہ دونوں شرائط ان دونوں کتب میں مفقود ہیں۔ اس کی وضاحت ہم اعجاز کی بحث کے شروع میں کرچکے ہیں۔

ساتواں اعتراض

اگر عربوں نے قرآن کا مقابلہ نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انسان قرآن کی نظیر لانے سے عاجز و قاصر ہے بلکہ اس کی اور وجوہات ہیں جن کا تعلق اعجاز سے نہیں ہے۔

۱۲۱

دعوت اسلام کے معاصر اور ان کے بعد عربوں کی طرف سے قرآن کا مقابلہ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومت اور ان کا رعب و ہیبت ان کو اس مقابلے سے روکتا تھا اور انہیں اس میں اپنی جان و مال کا خوف تھا۔ خلفاء اربعہ کی حکومت کا دور گزرنے کے بعد جب امویوں کا دور آیا، جن کی خلافتیں دعوتِ اسلامی کے محور پر قائم نھیں تھیں تو قرآن اپنے الفاظ کی متانت اور مضبوطی کی وجہ سے تمام لوگوں میں مانوس ہوچکا تھا اور نسلیں گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قرآن لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہوتا چلا گیا یہ رسوخ و راثۃً نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا گیا، جس کے نتیجے میں اس کے مقابلے سے لوگ دستبردار ہوگئے۔

جواب:

اولاً: قرآن کا چیلنج اور ایک سورہ کے مقابلے کی دعوت دینا اس زمانے کی بات ہے جب پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) مکّہ میں تھے اور اسلام کو ابھی وہ تقویت حاصل نہیں ہوئی تھی اور نہ ملسمانوں کا وہ رعب و دبدبہ تھا جس سے مخالفین پر خوف و ہراس طاری ہو جاتا۔ اس کے باوجود عرب کے فصحاء اور بلغاء قرآن کا مقابلہ نہ کرسکے۔

ثانیاً: خلفاء کے دور حکومت میں ایسا خوف نہیں تھا جس کی وجہ سے کفار اور مخالفین قرآن اپنے کفر اور مسلمانوں سے اپنی عدوات کو ظاہر نہ کرسکیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جزیرۃ العرب میں مسلمانوں کے درمیان اہل کتاب بڑے سکون و آرام کی زندگی گزارتے تھے۔ ان کو وہی حقوق حاصل تھے جو مسلمانوں کو حاصل تھے۔ ان کے فرائض وہی تھے جو مسلمانوں کے تھے۔ خاص کر حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کے دور حکومت میں جن کی عدالت اور کثرت علم کی گواہی غیر مسلم تک دیتے ہیں۔ اس قسم کے اہل کتاب یا دوسرے کفار اگر قرآن کی مثل و نظیر لانے پر قادر ہوتے تو یقیناً وہ اپنے نظریئے اور ثبوت میں اسے پیش کرتے۔

۱۲۲

ثالثاً: بالفرض اگر قرآن کے مقابلے سے انہیں خوف محسوس ہوتا تھا تو یہ خوف کھلے عام مقابلے میں مانع ہونا چاہیے تھا۔ گھروں میں اور بالکل مخفی طور پر قرآن کے مقابلے میں عبارتیں بنانے سے کون سی چیز لکھنے والوں کی راہ میں حائل تھی؟

اگر اس قسم کی کتب یا عبارتیں لکھی گئی ہوتیں تو اس خوف کے زائل ہونے کے بعد ان کو ظاہر کیا جاتا جس طرح کتب عہدلین کی خرافات اور ان کے دین سے متعلق دیگر باتیں آج بھی محفوظ ہیں۔

رابعاً: کوئی بھی کلام ہو، چاہے وہ بلاغت کے بلند ترین مقام پر ہو، انسانی طبیعت کا یہ تقاضا ہے کہ جب وہ بار بار سماعت سے ٹکرائے گا تو اپنے پہلے مقام سے گرجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بلیغ سے بلیغ قصیدہ و کلام بھی اگر انسان کے سامنے مکرر پڑھا جائے تو انسان اس سے اکتا جاتا ہے۔ کیونکہ ا س کے مقابلے میں جب کوئی دوسرا قصیدہ اسے سنایا جاتا ہے تو اسے شروع میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ دوسرا قصیدہ پہلے قصیدہ سے بہتراور اس میں زیادہ بلاغت ہے اور جب دوسرے قصیدے کو بھی بار بار پڑھا جائے تو ان دونوں میں موجود فرق واضح ہو جاتا ہے۔

یہ قاعدہ صرف کلام ہی سے مختص نہیں ہے بلکہ یہ ہر اس چیز میں جاری ہے جس سے انسان لطف اندوز وہتا ہے اور اس کے حسن و قبح کو درک کرسکتا ہے۔ چاہے اس کا تعلق کھانے پینے یا پہننے کی چیزوں سے ہو یا سنائی دینے والی آواز سے۔

اگر قرآن کریم معجزہ نہ ہوتا تو یہ کلیّہ اس پر بھی لاگو ہوتا اور سننے والوں کے نزدیک اس کا وہ مقام نہ رہتا جو شروع شروع میں اسے حاصل تھا اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی فصاحت و بلاغت میںکمی آجانی چاہیے تھی جس کے نتیجے میں قرآن کا مقابلہ آسان ہوجاتا۔

۱۲۳

لیکن ہم بالوجدان یہ دیکھ رہے ہیں کہ قرآن کریم کو بار بار پڑھنے اورسننے کے باجود اس کے حسن اور خوبیوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور اس سے عرفان و یقین حاصل ہوتا ہے اور انسان اس پر ایمان لانے اور اس کی تصدیق کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

قرآن کریم کی یہ خصوصیت اور امتیاز، دوسرے مانوس کلاموں سے بالکل مختلف ہے۔ پس قرآن کا یہ پہلو بھی اس کے معجزہ ہونے کی تائید اور تاکید کرتا ہے اور یہ اس کے اعجاز کے خلاف نہیں ہے جیسا کہ مخالف قرآن و اسلام کا توہم ہے۔

خامساً: بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ کسی کلام کو بار بار پڑھنے سے انسان اس سے مانوس اور اس کے مقابلے سے دستبردار ہوجاتا ہے تو یہ بات صرف مسلمانوں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے جو قرآن کی تصدیق کرتے ہیں اسے بار بار سنتے اور اس سے مانوس ہوتے ہیں اور چاہے جس کثرت سے بھی اس کی تلاوت کی جائے اسے رغبت و شوق سے سنتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کو چھوڑ کر دوسرے غیر مسلموں کو اس کے مقابلے سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے تھا تاکہ اس مقابلے کو کم از کم غیر مسلم ہی تسلیم کرلیتے۔

آٹھواں اعتراض

تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت ابوبکر نے جب قرآن کو جمع کرنا چاہا تو انہوںنے حضرت عمر اور زید بن ثابت کو حکم دیا کہ ومسجد کے دروازے پر بیٹھ جائیں اور ہر وہ عبارت لکھ لائیں جس کے کتاب ہونے کی گواہی دو شاہد دیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کوئی خارق العادۃ اور غیرمعمولی کلام نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر قرآن کوئی خارق العادۃ اور غیر معمولی کلام ہوتا تو اس کے لیے کسی شہادت و گواہی کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی اور بذات خود اسے ثبت ہونا چاہیے تھا۔

۱۲۴

جواب:

اولا: قرآن کی بلاغت اور اس کا اسلوب کلام معجزہ ہے، نہ کہ اس کا ایک ایک کلمہ اور لفظ معجزہ ہے۔ اس بناء پر یہ شک ہوسکتا ہے کہ اس کے مفردات اور کسی کلمہ میں تحریف نہ ہوگئی ہو یا اس میں کمی بیشی کا بھی احتمال ہوسکتا ہے۔ فرض کریں شاہدوں کی شہادت والی راویت اگر صحیح بھی ہے تو وہ اس قسم کے احتمالات کے ازالے کے لیے ہے کہ کہیں قرآن پڑھنے والا غلطی سے یا جان بوجھ کر کسی لفظ یا کلمے میں کمی بیشی نہ کردے۔

اس کے علاوہ اگر قرآن کی ایک سورۃ کی نظیر بشر نہ لا سکے تو وہ ایک آیہ کی مثل و نظیر لانے سے منافات نہیں رکھتا۔ یہ ایک ممکن کام ہے اور آج تک مسلمانوں نے اس کے محال یا ناممکن ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور قرآن نے اپنے چیلنج میں بھی یہ نہیں فرمایا کہ لوگ اس کی ایک آیت کی نظیر و مثل نہیں پیش کرسکتے۔

ثانیاً: جتنی روایات اور اخبار اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر کے زمانے میں صحابہ میں سے دو شاہدوں کی شہادت سے قرآن جمع کیا جاتا تھا۔ یہ سب خبر واحد ہیں خبر متواتر نہیں اور خبر واحد اس قسم کے واقعات میں حجت اور دلیل نہیں بن سکتی۔

ثالثاً: ان اخبار کے مقابلے میں بہت سی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہی کے زمانے میں جمع کیا گیا۔ بہت سے اصحاب نے پورا قرآن کریم حفظ کرلیا تھا اور جن حضرات کو قرآن کے بعض سورے اور حصے یاد تھے ان کا تو شمار ہی نہیں ہوسکتا۔

۱۲۵

اس کے علاوہ اگر عقلی طور پر انسان ذرا فکر سے کام لے تو اس قسم کی روایات کا کذب ثابت ہو جاتا ہے جن سے مخالفین قرآن تمسک چاہتے ہیں۔

پس قرآن جو مسلمانوں کی ہدایت کا سب سے بڑا ذریعہ اور ان کو بدبختی اور جہالت کی تاریکیوں سے سعادت اور علم کے نور کی طرف لاتا ہے اور مسلمان قرآن کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے اور دن رات اس کی تلاوت کرتے تھے، قرآن کو حفظ کرنے اور اس کی صحیح تلاوت کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے، اس کی سورتوں اور آیات کو دیکھنا مبارک سمجھتے تھے اور پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بھی اس بات کی ترغیب دیتے تھے، ان سب باتوں کے باوجود کیا کوئی عقلمند یہ احتمال دے سکتا ہے کہ کسی آیہ یا سورہ کو ثابت کرنے کے لیے دو گواہوں کی ضرورت ہوگی۔ انشاء اللہ ہم آ ئندہ ثابت کریں گے کہ قرآن مجید پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہی کے زمانے میں مکمل طور پر جمع کرلیا گیا تھا۔

نواں اعتراض

قرآن کا اسلوب، بلاغت کے مروج اسلوب سے مختلف ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید نے مختلف موضوعات کو باہم مخلوط کردیا ہے۔ مثلاً اگر تاریخ کی بات کررہا ہے تو اچانک وعدہ وعید (بہشت کے وعدوں اور جہنم کے عذاب کی دھمکیوں) میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اگر قرآن ابواب میں تقسیم ہوتا اور ہر موضوع کے متعلق جتنی آیات ہیں ان کو یکجا کردیا جاتا تو اس کا فائدہ بہت زیادہ ہوتا اور اس سے استفادہ بھی آسان ہوتا۔

جواب:

قرآن انسانوں کی ہدایت اور ان کو دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ یہ کوئی تاریخی یافقہ و اخلاق یا اسی قسم کی کوئی اور کتاب نہیں ہے کہ اس کو ان موضوعات کے لحاظ سے مستقل ابواب میں یکجا کیا جاتا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا اسلوب، مطلوبہ مقصد تک پہنچانے کا نزدیک ترین اسلوب ہے، اس لیے کہ جو انسان قرآن کی بعض سورتوں کی تلاوت کرتا ہے

۱۲۶

وہ اسی تلاوت اور قلیل وقت میں، معمولی زحمت کرکے بہت سے اغراض و مقاصد حاصل کرسکتا ہے۔ مثلاً، ایک ہی تلاوت میں وہ توحید و معدا کی طرف متوجہ ہوسکتا ہے۔ گذشتہ لوگوں کے حالات سے آگاہ ہوسکتا ہے اور اس سے عبرت حاصل کرسکتا ہے۔ اخلاق حسنہ کا استفادہ کرسکتا ہے اور دیگر علوم و معارف سے روشناس ہوسکتا ہے ان کے علاوہ اسی تلاوت میں اپنی عبادات اور معاملات سے متعلق کچھ احکام بھی سیکھ سکتا ہے۔

ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ قرآن کریم میں نظم کلام کی رعایت بھی کی گئی ہے حسن بیان کا حق ادا کردیا گیا ہے اور مقتضائے حال کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔

یہ وہ فوائد ہیں جو قرآن کو ابواب میں تقسیم کرنے سے حاصل نہ ہوسکتے۔ کیونکہ اگر اسے ابواب میں تقسیم کیا جاتا تو انسان اپنے مختلف اغراض و مقاصد اسی صورت میں حاصل کرسکتا تھا جب وہ پورے قرآن کی تلاوت کرتا اور عین ممکن ہے کہ کچھ رکاوٹیں پیش آنے کی وجہ سے انسان پورے قرآن کی تلاوت نہ کرپائے اور صرف ایک یا دو ابواب سے مستفید ہوسکے۔

مجھے اپنی زندگی کی قسم حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ باتیں اسلوب قرآن کی خوبیوں میں سے ہیں اس اسلوب کی وجہ سے قرآن کو حسن و جمال ملا ہے۔ اس لیے کہ قرآن کے ایک موضوع سے دوسرے موضوع کی طرف منتقل ہونے کے باوجود ان دونوں موضوعات میں مکمل ربط قائم رہتا ہے۔ گویا اس کے تمام جملے موتی ہیں جنہیں ایک لڑی میں پرودیا گیا ہے۔

لیکن اسلام دشمنی نے معترض کی آنکھ کو اندھا اور کان کو بہرا کردیاہے جس کی وجہ سے وہ جمال کو قبح اوراچھائی کو برائی سمجھتا ہے۔

اس کے علاوہ قرآن مجید میں بعض قصوں کی حسب ضرورت مختلف عبارتوں میں تکرار کی گئی ہے، اگر مکرر بیان کی گئی عبارتوں کو ایک ہی باب میںبیان کردیا جاتا تو قاری کو زیر نظر فائدہ حاصل نہ ہوتا۔

۱۲۷

قرآن کا مقابلہ

کتابچہ ''حسن الایجاز،،(۱) کا مصنف اپنے رسالے میں دعویٰ کرتا ہے کہ قرآن کی نظیر پیش کرنا ممکن ہے اور اس نے کچھ ایسے جملے ذکر کئے ہیں جنہیں اس نے قرآن ہی سے لیا ہے اور ان کے بعض الفاظ میں تبدیلی کرکے اپنے زعم باطل میں یہ سمجھاہے کہ وہ قرآن کا مقابلہ کررہا ہے اس طرح اس نے اپنے مبلغ علم اور بلاغت شناسی کاراز فاش کردیا ہے۔

قارئین محترم کی خدمت میں وہ عبارتیں پیش کرکے ہم اس کے وہمی اور خیالی مقابلے کی قلعی کھول دیتے ہیں اور اس کے جملوں میں جو خامیاں پای جاتی ہیں ان کی وضاحت بھی کرتے ہیں۔ ہم اپنی کتاب ''نفحات الاعجاز،، میں بھی ان خیالی مقابلوں کا جواب دے چکے ہیں۔(۲)

اس خیال باف نے سورہ فاتحہ کے مقابلے میں لکھا ہے:

الحمد الرحمن رب الاکوان، الملک الدیان، لک العبادة و بک المستعان، اهدنا صراط الایمان

اپنے زعم باطل میں یہ سمجھتا ہے کہ اس کی یہ عبارت سورۃ فاتحہ کے معانی و مفاہیم ادا کرتی ہے اور اس سے مختصر بھی ہے۔

معلوم نہیں یہ جملے لکھنے والے کو کیا جواب دیا جائے جو علمی اعتبار سے اتنا گیا گزرا ہے کہ وزنی اور ہلکے کلام میں بھی تمیز نہیں کرسکتا۔ کاش اس سے پہلے کہ اس دعویٰ کے ذریعے وہ اپنے آپ کو رسوا کرتا۔ ان عبارتوں کو علمائے نصاریٰ کے سامنے پیش کرتا جو اسلوب کلام اور فنون بلاغت سے آشنائی رکھتے ہیں۔

____________________

(۱) یہ چھوٹا سا کتابچہ ۱۹۱۲ء میں مصر کے شہر بولاق میں ایک اینگلو ارمیکن پریس میں شائع کیا گیا۔

(۲) یہ کتاب رسالہ ''حسن الایجاز،، کی رد میں لکھی گئی جو ۱۳۴۲ھ میں نجف اشرف کے علویہ پریس میں شائع کی گئی۔

۱۲۸

اسے اتنا بھی معلوم نہیں کہ کسی بھی کلام کے مقابلے کاطریقہ یہ ہے ک کوئی شاعر یا مضمون نگار اپنے ہی الفاظ، ترکیب اور اسلوب میں ایسا کلام پیش کرے جو مد مقابل کلام کے کسی پہلو اور مقصد سے مطابقت رکھتا ہو۔ مقابلے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ کلام کی ترکیب اور اسلوب میں اس کلام اور ترکیب کی نقل کی جائے جس سے مقابلہ کیا جارہا ہے اور صرف الفاظ میں رد و بدل کرلیا جائے۔

اسطرح کا مقابلہ تو ہر کلام کا کیا جاسکتا ے اور ایسا مقابلہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے ہم عصر عربوںکے لیے آسان تھا، لیکن چونکہ وہ مقابلے کے صحیح مفہوم اور بلاغت قرآن کے پہلوؤں کو سمجھتے تھے اس لیے مقابلہ نہ کرسکے۔ قران کے معجزہ ہونے کا انہوں نے اعتراف کرلیا اور انہوں نے اس پر ایمان لانا تھا وہ ایمان لے آئے اور جنہوں نے اس کا انکار کرناتھا انہوں نے انکار کردیا۔ اس کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہو رہا ہے:

( فَقَالَ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ ) ۷۴:۲۴

''پھر کہنے لگا یہ تو بس جادو ہے جو (اگلوں سے) چلا آتا ہے۔،،

اس کے علاوہ مذکورہ بالا جملوں کا سورۃ فاتحہ سے موازنہ تک نہیں ہوسکتا جس سے یہ سوال پیدا ہو کہ ان جملوں سے سورۃ فاتحہ کے معانی ادا ہو جاتے ہیں؟

کیا فن بلاغت سے اس کا بے بہرہ ہونا ہی کافی نہیں تھا کہ اس نے لوگوں کے سامنے اپنی خامیوں اور عیبوں کو بھی

ظاہر کردیا؟!! اور''الحمد للرحمٰن،، کا مقایسہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان( الْحَمْدُ لِلَّـهِ ) ۱:۲،، سے کس طرح کیا جاسکتا ہے۔

جبکہ اس جملے میں وہ معانی نہیں پائے جاتے جو مقصود الہٰی ہیں۔ اس لیے کہ لفظ ''اللہ،، علم ہے اور نام ہے اس ذات اقدس کا جو تمام صفات کمال کی جامع ہے۔

۱۲۹

ان صفات کمال میں سے ایک صفت، رحمت ہے جس کی طرف ''بسم اللہ، میں اشارہ کیا گیا ہے ''اللہ،، کی بجائے ''رحمٰن،، ذکر کرنے سے باقی صفات کمال پر دلالت نہیں ہوتی جو ذات الہٰی میں مجتمع ہیں اور وہ صفات ایسی ہیں جو بذات خود رحمت کی طرح حمد الہٰی کی موجب ہیں۔

اسی طرح اس کے جملے ''رب الاکوان،، میں بھی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:( رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) ۱:۳ کے معنی و مفہوم کا کوئی شمہ نہیں پایا جاتا۔ اس لیے کہ( رَبِّ الْعَالَمِينَ ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ عالم طولی وعرضی(۱) ایک نہیں بلکہ متعدد ہیں اور اللہ تعالیٰ ان تمام عالموں کا مالک اور پالنے والا ہے اور اس کی رحمت ان تمام عالموں کو شامل ہے۔ چنانچہ ''رحمن،، کے بعد ''رحیم،، کاذکر بھی اس امر پر دلالت کرتا ہے جس کی وضاحت انشاء اللہ ''سورہ فاتحہ،، کی تفسیر میں کی جائے گی۔

یہ پر مغز معانی کجا اور عبارت ''رب الاکوان،، کجا؟ لفظ ''کون،، کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ ''حدوث،، ''وقوع،، پذیر ''ہوجانا،، اور ''کفالت،،(۲) کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

یہ سارے معانی مصدری ہیں جن کی طرف لفظ ''رب،، بمعنی مالک و مربی کی اضافت صحیح نہیں ہے۔ البتہ لفظ ''خالق،، کی اضافت ''کون،، کی طرف ہوسکتی ہے، اور ''خالق الاکوان،، کہا جاسکتا ہے۔

____________________

(۱) فلسفیانہ نقطہئ نظر سے عالم کی دوقسمیں ہیں:

i ) عرضی۔

ii ) طولی۔

عالم عرضی سے مراد وہ عالم ہے جس کے افراد میںایک علت اور دوسرا معلول نہ ہو جسے انسان اور حیوانات۔ عالم طولی سے مراد وہ عالم ہے جس کے افراد میں ایک علت اور دوسرا معلول ہو جسے عالم ناسوت (مادہ) جس کی علت عالم ملکوت ہے اور عالم ملکوت جس کی علت عالم لاہوت ہے۔

(۲) ''لسان العرب،، کی طرف رجوع کیجئے۔

۱۳۰

اس کے علاوہ لفظ ''اکوان،، عالم موجودات کے تعدد پر دلالت نہیں کرتا جیسے لفظ ''عالمین،، دلالت کرتا ہے اور آیہ کریمہ کے دوسرے پہلو جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) ۱:۴،، اس سے جو مقصد حاصل ہوتا ہے وہ جملہ ''الملک الدیان،، سے حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ جملہ اس عالم کے علاوہ کسی اور عالم کے وجود پر دلالت نہیں کرتا جس میں اعمال کی سزا و جزا دی جائے گی اور یہ کہ اس دن کا مالک صرف خدا کی ذات ہے کسی اور کو اس میں تصرف اور اختیا رکا حق نہیں ہوگا۔ سب لوگ اس دن خدا کے حکم کے تحت ہونگے، خدا ہی کے حکم و امر کا نفاذ ہوگا اور اسی کے حکم سے بعض کو بہشت ملے گی اور بعض کو جہنم میں بھیجا جائے گا۔

جبکہ جملہ ''الملک الدیان،، صرف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خدا وہ بادشاہ ہے جو اعمال کی سزا و جزا دیتا ہے۔ کتنا فرق ہے اس جملے اور آیہ کریمہ کے معانی میں؟!

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) ۱:۵

اس کتابچے کے مصنف نے اس آیہ سے صرف اتنا سمجھا ہے کہ عبادت، خدا کی ہونی چاہیے اور مدد صرف خدا سے لینی چاہیے۔ چنانچہ اپنی اس سمجھ کے مطابق اس نے اللہ تعالیٰ کے مذکورہ فرمان کو اپنے اس قول سے بدل دیا۔''لک العبادة و بک المستعان،، یعنی ''عبادت تیرے لیے ہے اور مدد تمجھ سے ہے۔،، اور اس سے وہ مقصد فوت ہوگیا جو اس آیہ کریمہ کا تھا۔ اس آیہ کریمہ میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ مومن، توحید فی العبادۃ کااظہار کرے اس کے علاوہ عبادات اور دیگر افعال میں اپنی احتیاج کابھی اظہار کرے اور یہ اعتراف کرے کہ میں اور دوسرے تمام مومنین غیر اللہ کی عبادت نہیں کرتے اور نہ غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔ بھلا یہ نکات اس مصنف کی عبارت میںکہاںمل سکتے ہیں جبکہ اس کی عبارت آیہ مبارکہ سے زیادہ مختصر بھی نہیں ہے؟!

۱۳۱

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) ۱:۶

اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اس سے ایسے قریبی راستے کی ہدایت طلب کریں جو اپنے چلنے والے کو اعمال خیر، صفات نفسانی اور عقائد جیسے مقاصد تک پہنچائے اور اس راستے کو صرف ایمان کے راستے میں منحصر نہیں فرمایا۔ یہ مطلب مصنف کے جملہ ''اھدنا صراط الایمان،، میں نہیں پایا جاتا۔ اس کے علاوہ اس جملے میں صرف ایمان کے راستے کی ہدایت کے لیے درخواست کی گئی ہے۔ اس میں اس نکتے کی طرف اشارہ نہیں ہے کہ ایمان کا یہ راستہ مستقیم ہے اور وہ اپنے پر چلنے والے کو گمراہ نہیں کرتا۔

اس مصنف نے صرف انہی جملوں کو مثل و نظیر کے طور پر پیش کرکے یہ گمان کرلیا ہے کہ سورہ مبارکہ کے باقی حصے کی ضرورت نہیں ہے ارو یہ بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس آیہ کے مفوہم کو نہیں سمجھ سکا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) ۱:۷

اس میں حقیت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ راستہ ایک ایسا مستقیم اور سیدھا راستہ ہے کہ اس پر انبیاء(ع) صدیقین، شہداء اور صالحین چلتے ہیں، جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعتمیں نازل فرمائیں ہیں، اور اس کے مقابلے میں کچھ ایسے راستے ہیں جو مستقیم نہیں ہیں۔ ان راستوں پر وہ لوگ چلتے ہیں جن پر غضب الہٰی نازل ہوتا ہے، جو حق کے دشمن ہوتے ہیں اور حق آشکار ہونے کے باوجود اس کا انکار کرتے ہںی اور اس راستے پر چلنے والے لوگ ایسے گمراہ ہیں جو اپنی جہالت، جستجو میں کوتاہی اور اپنے آباؤ اجداد کی وراثت میں ملنے والے عقیدہ پر اکتفاء کرنے کی وجہ سے راہ حق سے بھٹک گئے ہیں، جس کے نتیجے میں بغیر کسی ہدایت اور دلیل کے انہوں نے اندھی تقلید کا راستہ اپنالیا ہے۔

۱۳۲

جو بھی اس آیہ کریمہ کو تدبّر اور تفکّر کی نگاہ سے پڑِے وہ اس نکتہ کی طرف متوجہ ہوگا کہ اخلاق و عقاید اور دوسرے اعمال میں اولیائے خدا اور اللہ کے مقربین کی اتباع کرنا چاہیے اور ان سرکشوں کی راہ سے اجتناب کرنا چاہیے جن کے اعمال یا جنکے کرتوتوں کے نتیجے میں خدا نے ان پر غضب نازل فرمایا ہو اور جو حق کے واضح ہونے کے باوجود اس کے راستے بھٹک گئے ہیں۔

اہل انصاف بتائیں کہ کیا یہ کوئی معمولی نکتہ ہے جسے اس مصنف نے نظر انداز کردیا اور اس آیہ کو غیر ضروری سمجھ کر اس کی نطیر یا متبادل عبارت کا ذکر نہیں کیا۔

یہ مصنف سورۃ ''کوثر،، کے مقابلے میں یہ عبارت پیش کرتا ہے:

''انا اعطیناک الجواهر فصل لربک و جاهر ولا تعتمد قول ساحر،،

ملاحظہ فرمائیں کہ نظم اور ترکیب میں یہ کس طرح قرآن کی نقل کررہا ہے اور اس کے بعض الفاظ بدل کر لوگوں کو یہ غلط تاثر دے رہا ہے کہ وہ قرآن کا مقابلہ کرنے میںکامیاب ہوگیا ہے، یہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ اس نے اپنی یہ عبارت کس طرح مسلیمہ کذاب کی عبارت سے چوری ی ہے۔ مسیلمہ کذاب کہتا ہے:

''انا اعطیناک الجماهر فصل لربک وهاجرو ان مبغضک رجل کافر،،

مقام حیرت ہے کہ یہ اس توہم کا شکار ہے کہ اگر دو کلام سجع میں ایک دوسرے کے مشابہ ہوں تو یہ بلاغت میں بھی یکساں ہوں گے اور اس نکتے سے غافل ہے کہ خدا کی طرف سے جواہر دیئے جانے لازمہ یہ نہیں ہے کہ نماز قائم کی جائے اور اس کا اعلان کیا جائے،نیز خداکی نعمتیں صرف جواہر ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سی نعمتیں ہیں جو کہ جواہر اور دوسرے مال و دولت سے بڑھ کر ہیں جیسے زندگی ہے، عقل اور ایمان کی نعمت ہے، جب خدا کی اتنی نعمتیں ہیں تو ان تمام کو چھوڑ کر صرف مال ہی کو کیوں نماز کا سبب قرار دیا ہے۔

۱۳۳

لیکن جو شخص تبشیری مشینری کے لیے کرائے پر کام کرتا ہو اس کاقبلہ تو مال و دولت ہی ہوگا اور مال ہی اس کا آخری ہدف ہوگا جس کے حصول کی وہ کوشش کرتا ہے اور مال ہی اس کی آخری منزل ہوتی ہے جسے وہ ہر مقصد پر برتر سمجھتا ہے، ضرب المثل ہے:

''وکل اناء بالذی فیه ینفح،،

از کوزہ ہمان تراودکہ دراواست

کوئی اس شخص سے پوچھے کہ جواہر سے کیا مراد ہے جسے اس نے الف، لام کے ساتھ ذکر ککیا ہے۔ اگر جواہر سے مراد کوئی خاص جواہر ہیں تو اس لفظ میں اس کی نشاندہی کے لیے کوئی قرینہ بھی ہونا چاہیے تھا جس سے جواہر کا تعین ہو جاتا، جو کہ موجود نہیں ہے۔

اگر جواہر سے مراد دنیا کے تمام جواہر ہیں (کیونکہ جواہر جمع ہے اور اس پر الف لام موجود ہے اور جب جمع پر الف، لام ہو تو یہ استغراق یعنی تمام افراد پردلالت کرتا ہے) تو یہ سفید جھوٹ ہے۔

اس کے علاوہ اس کے سابقہ دو جموں اور جملہ ''ولا تعتمد قول ساحر،، میں کیا مناسبت ہے؟ اور ساحر سے مراد کون ہے؟ جس پر اعتماد کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ اگر اس سے مراد کوئی خاص ساحر یا جادوگر ہے اور اس ساحر کے اقوال میں سے کوئی خاص قول مراد ہے تو اس کے لیے کسی قرینہ یا علامت کا ذکر ہونا چاہتے تھاکہ اس ساحر سے مراد فلاں ساحر اور اس کا فلاں قول ہے۔ جبکہ اس جملے میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کسی خاص ساحر اور کسی خاص قول پر دلالت کرے۔

۱۳۴

اگر ساحر سے مراد ہر ساحر ہر قول ہے(کیونکہ نہی کے بعد نکرہ استعمال ہوا ہے جس سے عموم سمجھا جاتا ہے) تو اس سے کلام کا لغو ہونا لازم آتا ہے۔ کیونکہ اس کا کوئی معقول سبب نہیں ہے کہ انسان کسی بھی ساحر کے قول پر اعتماد نہ کرے خواہ اس کی بات روزمرہ کے کسی معمول کے امر سے متعلق ہو اور انسان کو اس کے قول پر اعتماد و اطمینان بھی ہو۔

اور اگر اس کا مقصد یہ ہے کہ ساحر ہونے کی حیثیت سے، اس کی بات پر اعتماد نہ کرو، تو بھی غلط ہے۔ اس لیے کہ ساحر ہونے کی حیثیت سے تو وہ کوئی بات نہیں کرتا، وہ تو اپنے جادو اور حیلوں کے ذریعے لوگوں کو اذیت دیتا ہے۔

سورہ کوثر اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کا تمسخر اڑاتا تھا اور آپ(ص) سے کہتا تھا کہ آپ(ص) ''ابتر،، (لاولد) ہیں اور جلد ہی آپ(ص) کانام اور دین مٹ جائے گا۔ اس مطلب کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہو رہا ہے:

( أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ ) ۵۲:۳۰

''کیا (تم کو) یہ لوگ کہتے ہیں کہ (یہ) شاعر ہے (اور) ہم تو اس کے بارے میں زمانے کے حوادث کا انتظار کررہے ہیں۔،،

ان کے اس خیال کے رد میں یہ سورۃ نازل ہوا:

( إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ) ۱۰۸:۱

''(اے رسول) ہم نے تم کو کوثر عطا کیا۔،،

کوثر سے مراد وہ خیر کثیر ہے جو ہر اعتبار سے خیر ہے۔

۱۳۵

دنیا میں خیر کثیر سے مراد رسالت و نبوّت کا شرف، لوگوں کی ہدایت، مسلمانوں کی امامت، انصار و اعوان کی کثرت، دشمنوں پر غلبہ اور جناب سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی ذریت سے آپ(ص) کی نسل اور اولاد کی کثرت ہے، جن کی بدولت رہتی دنیا تک آپ(ص) کا نام قائم رہے گا۔

آخرت کا خیر کثیر آپ(ص) کی شفاعت، جنت کے بلند درجات، حوض کوثر جس سے صرف آپ(ص) اور آپ(ص) کے دوست سیراب ہوں گے اور ان کے علاوہ دیگر بہت سی نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہیں۔

( فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ )

''پس تم اپنے پروردگار کی نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔،،

ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں اور قربانی دیں۔ نحر سے مراد منیٰ کی قربانی یا عید الاضحیٰ پر دی جانے والی قربای یا نماز میں تکبیرۃ الاحرام کہنے کے دوران ہاتھوں کا گردن تک بلند کرنا یا نماز کے دوران قبلہ رخ ہونا اور متوازن کھڑے ہونا ہے۔ ان میں سے جو معنی مراد لیا جائے مناسب ہے کیونکہ یہ سب اعمال شکر کی صورتیں ہیں۔

( إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ )

''بیشک تمہارا دشمن بے اولاد رہے گا۔،،

آخر میں ارشاد ہوتا ہے کہ آپ لاولد نہیں ہیں بلکہ آپ کا دشمن ابتر و لا ولد ہو جائے گا۔

ان دشمنوں کا انجام آخر یہی ہوا جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ(ص) کو دی تھی۔ ان کا نام و نشان تک مٹ گیا اور دنیا میں ان کا کوئی ذکر خیر باقی نہیں ہے۔ ان کا اس طرح گمنام ہو جانا اس دردناک عذاب اور ابدی رسوائی کے علاوہ ہے جو انہیں نصیب ہوگی۔

۱۳۶

کیا یہ سورہ مبارکہ، جس کے معانی عظیم اور بلاغت کامل ہے، ان گئے گزرنے جملوں سے قابل مقایسہ ہے ،جن کو ترتیب سے لکھنے والے نے اپنی قوّت ضائع کی ہے؟ اس نے اپنے خیال میں نظیر پیش کرنے کے لیے قرآن مجید سے مفردات کی نقل کی ہے اور جملوں کے الفاظ اور اسلوب کو مسیلمہ کذاب سے لیا ہے۔ اس طرح اس نے اپنے عناد اور اسلام دشمنی بلکہ کھلم کھلا جہالت کے تقاضوں کو پورا کیا ہے تاکہ بلاغت اور اعجاز میں عظمت قرآن کا مقابلہ کرسکے!

رسُول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کےدیگر معجزات

تورات و انجیل میں نبوت محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی بشارت

کسی دانشمند اور محقق کو اس میں شک نہ ہوگا کہ پیغبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے معجزات میں سے اعظم معجزہ قرآن کریم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کا مقام تمام انبیاء(ع) کے معجزات سے بلند ہے۔ ہم نے گذشتہ مباحث میں اعجاز قرآن کے چند پہلوؤں کاذکر کیا اور یہ بھی واضح کردیا کہ کتاب الہٰی کو باقی معجزات پر برتری حاصل ہے۔ یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ خاتم الانبیائؐ کا معجزہ صرف قرآن کریم ہی میں منحصر نہیں ہے بلکہ آپ(ص) باقی انبیاء(ع) کے تمام معجزات میں بھی شریک ہیں اور قرآنی معجزہ صرف آپ(ص) سے مختص ہے۔ ہمارے اس دعویٰ کی دو دلیلیں ہیں:

پہلی دلیل: مسلمانوں کی متواتر روایات ہیں جن کے مطابق یہ معجزات رسولل اعظمؐ سے صادر ہوئے اور مختلف مکاتب فکر کے مسلمانوں نے ان معجزات کے موضوع پر بہت کتابیں لکھی ہیں۔ خواہش مند حضرات ان کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

ان روایات و اخبار کی دو امتیازی خصوصیات ہیں جو باقی انبیاء کے معجزات کے بارے میں اہل کتاب کی روایات میں نہیں ہیں۔

پہلی خصوصیت: ان روایات کا زمانہ ظہور معجزات کے زمانے سے نزدیک ہونا ہے۔ جب کسی چیز واقعہ کا زمانہ نزدیک ہو تو اس کا یقین آسانی سے حاصل ہوسکتا ہے جبکہ واقعہ کا زمانہ اگر دور ہو تو اس کا یقین حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا۔

۱۳۷

دوسری خصوصیت: راویوں کی کثرت ہے۔ ا س لیے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے اصحاب جنہو ں نے اپنی آنکھوں سے ان معجزات کا مشاہدہ کیا ہے ان کی تعداد بنی اسرائیل اور حضرت عیسیٰ پر ایمان لائے تھے اور آپ سے جتنے معجزات منقول ہیں ان کا سلسلہئ سند ان قلیل اور محدود مومنین تک پہنچتا ہے۔ اس کے باوجود اگر حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ کے معجزات کے بارے میں تواتر کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے تو خاتم الانبیائؐ کے معجزات کے بارے میں بطریق اولیٰ تواتر کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔

ہم گذشتہ مباحث میں واضح کرچکے ہیں کہ گذشتہ انبیاء(ع) کے معجزات بعد کے زمانے والوں کے لیے تواتر سے ثابت نہیں ہیں اور اس سلسلے میں تواتر کا دعویٰ کرنا باطل ہوگا۔

دوسری دلیل: آپ(ص) نے گذشتہ انبیاء(ع) کے بہت سے معجزات کی تصدیق و تائید فرمائی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ دعویٰ بھی فرمایا کہ آپ(ص) ان تمام انبیاء(ع) سے افضل بلکہ خاتم الانبیاء ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ یہ تمام معجزات بدرجہئ اتم آپ(ص) سے بھی صادر ہوں۔ کیونکہ یہ نامعقول ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدممی سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرے اور یہ بھی اقرار کرے کہ میں بعض صفات کے لحاظ سے دوسرے سے ناقص ہوں، نیز کیا یہ معقول ہے کہ ایک ڈاکٹر، دوسرے تمام ڈاکٹروں سے زیادہ ماہر ہونے کا دعویٰ کرے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اعتراف بھی کرے کہ بعض بیماریاں ایسی ہی ںجن کا علاج دوسرے ڈاکٹر تو کرسکتے ہیں لیکن میں نہیں کرسکتی؟! ظاہر ہے عقل کبھی بھی ایسے دعویٰ کی تصدیق نہیں کرے گی۔ اسی لیے بعض جھوٹے مدعیان نبوت نے اعجاز کا انکار کردیا اور وہ گذشتہ انبیاء کے معجزات میں سے کسی معجزے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان کی تمام تر کوشش ہوتی ہے کہ ہر اس آیہ کی تاویل و توجیہ کریں جو اعجاز پر دلالت کرے۔ یہ سب انکار اس لیے کیا جاتا ہے کہ کہیں لوگ ان سے بھی اس قسم کے معجزات کا مطالبہ نہ کر بیٹھیں جس سے ان کی عاجزی ظاہر ہو جائے اور یہ رسوا ہو جائیں۔

۱۳۸

بعض نادان اور عوام فریبیوں نے لکھا ہے کہ قرآن مجید میں چند ایسی آیات ہیں جن سے سوائے قرآن کریم کے باقی تمام معجزات رسول اعظمؐ کی نفی ہوتی ہے اور آپ(ص) کا واحد معجزہ قرآن کریم ہی ہے اور صرف یہی آپ کی نبوت کی دلیل و حجت ہے ہم ذیل میں وہ آیات ذکر کرتے ہیں جن سے ان لوگوں نے استدلال کنر کی کوشش کی ہے اور اس کے بعد ہم ان کے بطلان کو ثابت کریں گے۔

ان آیات میں سے ایک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ) ۱۷:۵۹

''اور ہمیں معجزات کے بھیجنے سے بجز اس کے اور کوئی وجہ مانع نہیں ہوئی کہ اگلوں نے انہیں جھٹلایا ارو ہم نے قوم ثمود کو (معجزے سے) اونٹی عطا کی جو (ہماری قدرت کی) دکھانے والی تھی ان لوگوں نے اس پر ظلم لیا (یہاں تک کہ مار ڈالا) اور ہم تو معجزے صرف ڈرانے کی غرض سے بھیجا کرتے ہیں۔،،

اس آیہ کریمہ سے ان کے زعم باطل کے مطابق ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) قرآن کے علاوہ اور کوئی معجزہ لے کر نہیں آئے اور اس کی وج یہ ہے کہ گذشتہ اقوام نے ان نشانیوں کی تکذیب کی جو ان کی طرف بھیجی گئی تھیں۔

جواب: اس آیہ کریمہ میں جن معجزات کی نفی کی گئی ہے اور جنہیں گذشتہ اقوام نے جھٹلالیا تھا ان سے مراد وہ معجزات ہیں جن کی گذشتہ اقوام نے اپنے انبیاء سے فرمائش کی تھی۔

۱۳۹

یہ آیہ کریم آپ(ص) سےہر قسم کے معجزات صادر ہونے کی نفی نہیں کرتی بلکہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آپ(ص) نے مشرکین کے مطلوبہ معجزات پیش نہیں کئے۔ اس کے چند دلائل ہیں:

۱۔ ''آیات،،، آیت کی جمع ہے۔ جس کے معنی ''نشانی،، کے ہیں اور جمع کے لفظ پ رالف۔ لام موجود ہے۔ ان خصوصیات کے پیش نظر آیہ کے معنی میں تین احتمال دیئے جاسکتے ہیں۔

i ) آیت سے مراد جنس آیت ہو جو آیت کی ہر فرد پر صادق آئے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کی یہ آیت ان تمام آیات کی نفی کررہی ہے جو مدعیئ نبوت کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس سے رسول اعظمؐ کی بعثت کا لغو ہونا لازم آتا ہے اسلئے کہ جب تک آپ(ص) کے دعویٰ کی صداقت کا کوئی ثبوت موجود نہ ہو آپ(ص) کو نبوّت پر فائز کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بغیر کسی معجزہ کے آپ کی نبوّت کی تصدیق اور آپ کی اتباع لازمی قرار دینا لوگوں پر ایسی ذمہ داری ڈالنا جو ان کے دائرہئ قدرت سے باہر ہے۔

ii ) اس آیہ سے مراد سب نشانیاں ہوں۔ یہ احتمال بھی باطل ہے اس لیے کہ نبی کی صداقت اس پر موقوف نہیں ہوسکتی کہ جتنی بھی آیات و نشانیاں ہوسکتی ہیں، سب پیش کی جائیں اور نہ ہی مطالبہ کرنے والوں نے سب کی سب آیات و نشانیاں پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس بناء پر آیہ کے یہ معنی بھی صحیح نہیں ہونگے۔

iii ) ''الآیات،، سے مراد کچھ مخصوص نشانیاں ہوں جن کا مشرکین مطالبہ کیا کرتے تھے اور آپ(ص) نے ان کا مطالبہ پورا نہیں فرمایا اور یہی احتمال درست ہے۔

۲۔ اگر لوگوں کی تکذیب معجزات بھیجنے میں مانع بن سکتی ہے تو اسے قرآن نازل کرنے میں بھی مانع بننا چاہےے تھا۔ کیونکہ کوئی وجہ نہی ںکہ ان کی تکذیب بعض معجزات کے لیے مانع ہو اور بعض کے لیے نہ ہو۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

اس طرح جدید قرآنی نسخے مرتب کرکے مصر، شام، مکّہ، مدینہ اور کوفہ و بصرہ بھجوا دیئے، اور آج کا موجودہ قرآن انہی نسخوں کے مطابق ہے۔ باقی جتنے بھی قرآنی نسخے تھے وہ جمع کروا دیئے گئے اور ایک نسخہ تک باقی نہ رہا۔(۱)

یہ دعویٰ ہذیان اور مجذوب کی بڑ معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ حجاج جو بنی امیہ کے والیوں میں سے ایک والی تھا، اس کی کیا جراءت تھی کہ قرآن میں تحریف کرنے کی جسارت کرتا بلکہ وہ فروع دین میں سے بھی کسی میں رد و بدل کرنے کا مرتکب نہیں ہوسکتا تھا، چہ جائیکہ وہ قرآن میں تحریف کا مرتکب ہوتا جو اساس دین اور سرچشمہئ شریعت ہے۔ اس کی کیا قدرت اورمجال تھی کہ وہ سارے اسلامی ممالک میں پھیلے ہوئے قرآنلوں کی طرف دست تجاوز دراز کرتا۔

اگر اس نے اس جرم کا ارتکاب کیا تھا تو مؤرخین نے اس عظیم المیہ کا ذکر کیوں نہیں کیا اورکیوں اسے اپنی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا؟ حالانکہ اس غیر معمولی سانحہ کا تقاضہ تھا کہ یہ تاریخ میں ثبت ہو جاتا۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ نہ تو حجاج کے زمانے میں کسی مسلمان نے اسے نقل کیا ہے اور نہ اس کے دور حکومت کے بعد کسی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تمام مسلمانوں نے حجاج کے دور حکومت کے بعد بھی اس سنگین جرم سے چشم پوشی کی ہو۔

فرض کیجیئے حجاج میں یہ قدرت تھی کہ وہ قرآن کے تمام نسخوں کو اکٹھا کرلے اور تمام اسلامی ممالک میں ایک نسخہ بھی باقی نہ رہنے دے۔ لیکن کیا مسلمانوں کے سینوں اور حافظان قرآن کے دلوں سے بھی وہ قرآن کو خارج کرسکتا تھا؟ جبکہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ جسے خدا ہی جانتا ہے۔

اس کے علاوہ اگر قرآن بنی امیہ کے خلاف کوئی آیہ ہوتی تو حجاج سے پہلے معاویہ اسے قرآن سے خارج کرنے کی کوشش کرتا جس کی قدرت و طاقت حجاج سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اگر معاویہ اس جرم کا مرتکب ہوتا تو اصحاب امیر المومنین (ع)معاویہ کے خلاف جہاں دوسرے احتجاجات اور دلائل پیش کرتے تھے جو تاریخ، کتب حدیث اور علم کلام میں ثبت ہیں، وہاں تحریف قرآن کے مسئلے

____________________

(۱) مناہل العرفان، ص ۲۵۷۔

۲۸۱

کو بھی اٹھاتے۔ حالانکہ تاریخ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

ہمارے گذشتہ بیانات سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ تحریف کا دعویٰ کرنے والے عقلی بدیہیات کے مخالف اور منکر ہیں۔ ایک ضرب المثل مشہور ہے۔

''حدث الرجل بما لا یلیق فان صدق فهو لیس بعاقل،،

''کسی آدمی سے غیر معقول بات کریں، اگر وہ اس کی تصدیق کرے تو سمجھ لیں کہ وہ عقلمند نہیں ہے۔،،

قائلین تحریف کے شبہات

تحریف کے قائل جن شبہات اور غلط فہمیوں کا سہارا لیتے ہیں ان کا بھی ذکر کرنا اور جواب دینا ضروری ہے:

پہلا شبہ:

تورات اور انجیل میں یقیناً تحریف ہوئی ہے اور شیعہ و سنی روایات متواترہ سے ثابت ہے کہ گذشتہ اقوام میںجو واقعات رونما ہوئے ہیں اس امت میں بھی ضرور واقع ہوں گے۔ چنانچہ شیخ صدوق اپنی کتاب ''اکمال الدین،، میں فرماتے ہیں کہ غیاث بن ابراہیم نے امام صادق(ع) سے اور آپ نے اپنے آباؤ اجداد(ع) سے نقل فرمایا ہے:

''قال رسول الله صلی الله علیه و آله وسلم کل ما کان فی الأمم السالفة، فانه یکون فی هذه الامة مثله حذو النعل بالنعل، و القذه بالقذه،، (۱)

''پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: جو کچھ گذشتہ اُمّتوں میں واقع ہوا ہے، بعینہ موبہ مو اس امت میں بھی واقع ہوگا۔،،

_____________________

(۱) بحار، باب افتراق الامۃ بعد النبی(ص) علی ثلاث و سبعین فرقہ، ج ۸، ص ۴، اس حدیث کے بعض حوالے اہل سنت کی سند سے اسی کتاب میں گزر چکے ہیں۔

۲۸۲

اس حدیث کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن میں تحریف ضرور واقع ہوئی ہوگی ورنہ اس حدیث کا معنی صحیح نہ ہوگا۔

جواب:

i ۔ ایسی روایات، جن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، سب کی سب خبر واحد ہیں جو باعث علم و عمل نہیں ہوسکتیں ان کے متواتر ہونے کا دعویٰ بلا دلیل ہے اور کتب اربعہ (اصول کافی، تہذیب، من لایحضرہ الفقیہ اور استبصار) میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تورات میں تحریف ہونے اور قرآن میں تحریف ہونے میں کوئی ملازمہ نہیں ہے (تورات میں تحریف ہوئی ہے تو ضروری نہیں کہ قرآن میں بھی تحریف ہو)۔

ii ۔ اگر یہ دلیل درست ہو تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن میں اضافہ بھی ہوا ہو جس طرح تورات و انجیل میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا بطلان واضح ہے۔

iii ۔ گذشتہ امتوں میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو اس امت میں رونما نہیں ہوئے۔ مثلاً بچھڑے کی پوجا کرنا، بنی اسرائیل کا چالیس سال سرگداں رہنا، فرعون اور اس کے ساتھیوں کا غرق ہونا، حضرت سلیمانؑ کا جن و انس پر حکومت کرنا، حضرت عیسیٰؑ کو آسمان کی طرف لے جانا، حضرت موسیٰ! کے وحی حضرت ہارونؑ کا حضرت موسیٰؑ سے پہلے وفات پانا، حضرت موسیٰؑ سے نو معجزات رونما ہونا۔ بغیر باپ کے حضرت عیسیٰؑ کی ولادت،گذشتہ اقوام میں سے بہت سی قوموں کا بندروں اور خنزیروں کی صورت میں مسخ ہونا اور اس قسم کے بیشمار واقعات ایسے ہیں جوگذشتہ اقوام میں تو واقع ہوئے ہیں لیکن اس اُمّت میں ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ معصومؑ کی مراد ہو نہیں جو ظاہری طور پر روایات سے سمجھی جاتی ہے۔ لامحالہ ان روایات کا مطلب یہ ہے کہ بعض باتوں میں اس امت کو گذشتہ امتوں سے تشبیہ دی گئی ہے، ہر واقعہ میں نہیں۔

۲۸۳

بنابرایں اگرچہ قرآن کا کوئی حصہ کم نہیں کیا گیا لیکن قرآن کے حروف اور الفاظ برقرار رکھتے ہوئے اس کے احکام اور حدود کی پیروی نہ کرنے پر بھی تحریف صادق آتی ہے۔ چنانچہ اس بحث کے آغاز میں مذکورہ روایت کا مفہوم بھی یہی تھا۔ اس کی تائید و تاکید ابو واقدلیثی کی روایت سے بھی ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

''خیبر کی طرف جاتے ہوئے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) مشرکین کے ایک درخت کے قریب سے گزرے جو ''ذات انواط،، کہلاتا تھا، مشرکین اس پر اپنا اسلحہ لٹکاتے تھے، اصحاب پیغمبرؐ نے عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) جسطرح مشرکین کے پاس ''ذات انواط،، ہے ہمارے لیے بھی ایک ''ذات انواط،، کا بندوبست فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! یہ اسی طرح جیسے حضرت موسیٰؑ کی قوم نے کہا تھا کہ آپ ہمارے لیے بھی بہت سے خداؤں کا انتظام کریں جس طرح ان کے کئی خدا ہیں۔ قسم بخدا! تم بھی گذشتہ اقوام کی سنت پر عمل کرو گے۔،،(۱)

یہ روایت تصریح کرتی ہے کہ اس امت میں رونما ہونے والے واقعات بعض جہات سے گذشتہ اقوام کے واقعات سے مشابہت رکھتے ہیں، ہر لحاظ سے نہیں۔

iv ۔ اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ روایات سند کے اعتبار سے متواتر ہیں اور ان کا معنی بھی وہی ہے جیسا کہ تحریف کے قائل حضرات کہتے ہی، پھر بھی ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ گذشتہ زمانے میں قرآن میں تحریف ہوئی ہے۔ اس لیے کہ ہوسکتا ہے آئندہ زمانے میں قرآن میں کو ئی کمی بیشی ہونے والی ہو۔ کیوں کہ بخاری کی روایت کے مطابق قیامت تک اس اُمّت کے واقعات گذشتہ اُمّتوں کے واقعات کی مانند رونما ہوتے رہیں گے۔

بنابرایں ان روایات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صدر اسلام یا خلفاء کے دور میں قرآن میں تحریف واقع ہوئی ہے۔

_____________________

(۱) صحیح ترمذی، باب ''ما جاء لترکبن سنن من کان قبلکم،، ج ۹، ص ۲۶۔

۲۸۴

دوسرا شبہ:

تحریف کی دوسری دلیل یہ ہے کہ امیر المومنین (ع)کے پاس موجودہ قرآن کے علاوہ ایک اور قرآن تھا جسے آپ نے لوگوں کے سامنے پیش کیا مگر انہوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا۔ یہ قرآن کچھ ایسے حصوں پر مشتمل تھا جو موجودہ قرآن میں نہیں ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ قرآن امیر المومنین (ع)کے پاس موجود قرآن سے کم ہے اور یہی وہ تحریف ہے جس کی نفی و اثبات میں اختلاف ہے اور اس موضوع کی روایات بہت سی ہیں۔

i ۔ ان میں سے ایک روایت میں ہے کہ امیر المومنین (ع)نے مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے فرمایا:

''یا طلحة ان کل آیة أنزلها الله تعالیٰ علی محمد صلی الله علیه و آله عندی باملاء رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) و خط یدی، و تأویل کل آیة أنزلها الله تعالیٰ علی محمد ؐو کل حلال ،أو حرام، أو حدّ، أو حکم، أو شیء تحتاج الیه الأمة الی یوم القیامة، فهو عندی مکتوب باملاء رسول الله و خط یدی، حتی أرش الحدش ۔۔۔،، (۱)

''اے طلحہ! قرآن کی ہر آیت جو خدا نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل فرمائی، میرے پاس موجود ہے، جس کی املاء رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے لکھوائی اور میں نے اپنے ہاتھ سے لکھی۔ ہر اس آیت کی تاویل جو خدا نے محمدؐ پر نازل فرمائی، ہر حلال، حرام، حد، حکم اور ہر وہ چیز جس کی امت محمدیؐ کو قیامت تک احتیاج ہے میرے پاس رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی دی ہوئی املاء میں میرے ہاتھ کی لکھی ہوئی موجود ہے۔ حتیٰ کہ اس میں ایک خراش کی حد (سزا) تک کا ذکر موجود ہے۔،،

______________________

(۱) مقدمہ تفسیر ا لبرھان، ص ۲۷، ا س روایت میں یہ تصریح موجود ہے کہ موجودہ قرآن میں جو کچھ ہے وہ سب قرآن ہی ہے۔

۲۸۵

ii ۔ امیر المومنین (ع)کا ایک زندیق سے استدلال کے بارے میں ہے:

''أتی بلکتاب کملاً مشتملاً علی التأویل و التنزیل، و المحکم و المتشابه ،و الناسخ و المنسوخ، لم یسقط منه حرف ألف و لا لام فلم یقباوا ذلک،، (۱)

''آپ نے ایک ایسی مکمل کتاب پیش کی جو تاویل و تنزیل، محکم و متشابہ اور ناسخ و منسوخ پر مشتمل تھی اور اس میں سے ایک الف اور لام تک ضائع نہیں ہوا تھا۔ مگر ان لوگوں نے قبول نہیں کیا۔،،

iii ۔ کافی میں جابر کی سند سے امام محمد باقر(ع) سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا:

''ما یستطیع احد ان یدعی ان عنده جمیع القرآن کله، ظاهره و باطنه غیر الاوصیائ،، (۲)

''سوائے اوصیاء کرامؑ کے کوئی انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ قرآن کا ظاہر و باطن غرض سارا قرآن اس کے پاس موجود ہے۔،،

iv ۔ جابر امام محمد باقر(ع) سے روایت کرتے ہیں:

''سمعت اءبا جعفرؑ یقول ما ادّعی اءحد من

''لوگوں میں سے جو بھی قرآن کو اس طرح جمع کرنے کا دعویٰ کرے

الناس أنه جمع القرآن کله کما أنزل الا کذاب، و ما جمعه وحفظه کما نزله الله تعالیٰ الا علی بن ابی طالب و الأئمة من بعده علیهم السلام،، (۳)

جس طرح وہ نازل ہوتا تھا وہ کذاب ہوگا۔ سوائے امیر المومنین (ع)اور باقی ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کے کسی نے بھی قرآن کو اس طرح جمع اور محفوظ نہیں کیا جس طرح وہ نازل ہوا تھا۔،،

____________________

(۱) تفسیر صافی المقدمہ السادسہ، ص ۱۱۔

(۲) الوافی، ج ۲، کتاب الحجۃ، باب ۷۶۔ ص ۱۳۰۔

(۳) الوافی، ج ۲، کتاب الحجۃ باب ۷۶، ص ۱۳۰۔

۲۸۶

جواب:

اس میں کوئی شک نہیں کہ امیر المومنین (ع)کے پاس ایک ایسا قرآن موجود تھا جو سوروں کی ترتیب کے اعتبار سے موجودہ قرآن سے مختلف تھا۔ جس پر تمام علماء کا اتفاق ہے اور یہ محتاج دلیل نہیں۔ اگرچہ یہ بھی اپنے مقام پر درست ہے کہ امیر المومنین (ع)کا قرآن کچھ ایسی زاید چیزوں پر مشتمل تھا جو موجودہ قرآن میں نہیں ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ زاید چیزیں قرآن کا حصہ تھیں جو تحریف کی وجہ سے حذف کردی گئی ہیں بلکہ صحیح اور حق یہ ہے کہ ان زاید چیزوں میں کلام کی تفسیر اور اس کی تاویل بیان کی گئی ہے یا مقصود الہٰی کی تشریح کی گئی ہے۔

دراصل اس شبہ یا دلیل کی بنیاد یہ ہے کہ تنزیل سے مراد وہ کلام ہو جو بطور قرآن نازل کیا گیا ہو اور تاویل سے کسی لفظ سے ایسی مراد کا قصد کیا جائے جو ظاہری معنی کے خلاف ہو۔ لیکن یہ دونوں معنی متاخرین کی اصطلاح ہیں۔

لغت میں ان دونوں معنی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے تا کہ روایات میں تاویل و تنزیل سے یہ معانی مراد لیے جائیں۔

تاویل جو ''اول،، کا مزید فیہ ہے اس کا معنی رجوع اور برگشت ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے:''اول الحکم الی اهله ای رده الیهم،، (یعنی) ''حکم کو اپنے اہل کی طرف پلٹاؤ،،۔

کبھی تاویل سے انجام کار مراد ہوتا ہے۔ چنانچہ اس آیہ کریمہ میں یہ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے:

( وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ) ۱۲:۶

''اور (تمہارا پروردگار) تمہیں خوابوں کی تعبیر سکھائے گا۔،،

( نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ ) :۳۶

''ہم کو اس کی تعبیر بتاؤ۔،،

( هَـٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ ) :۱۰۰

''یہ تعبیر ہے میرے اس خواب کی۔،،

۲۸۷

( ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا ) ۱۸:۸۲

''یہ حقیقت ہے ان واقعات کی جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا۔،،

ان کے علاوہ بھی دوسرے مقامات پر لفظ تاویل انجام کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ بنابرایں تاویل قرآن سے مراد کلام کی بازگشت اور اس کا انجام ہے۔ چاہے یہ ظاہری معنی ہو جسے ہر اہل لغت سمجھ سکتا ہے یا ایک مخفی معنی ہو جسے صرف راسخین فی العلم سمجھتے ہیں۔

تنزیل بھی ثلاثی مزید فیہ ہے جس کی اصل نزول ہے، کبھی تنزیل نازل شدہ چیز کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

( إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ ) ۵۶:۷۷

''بیشک یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے۔،،

( فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ ) : ۷۸

''جو کتاب (لوح) محفوظ میں ہے۔،،

( لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ) : ۷۹

''اس کو بس وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاک ہیں۔،،

( تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ) :۸۰

''سارے جہاں کے پروردگار کی طرف سے (محمدؐ پر) نازل ہوا ہے۔،،

اس بیان کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ خدا کی طرف سے بطور وحی نازل ہونے والی ہر چیز قرآن ہی ہو۔ بنابراین ان روایات سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کے قرآن میں جو زاید چیزیں تھیں وہ قرآنی آیات کی تفسیر ان میں ان آیات کا انجام بیان کیا گیا ہے۔ یہ روایات ہرگز اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ یہ زاید چیزیں قرآن کا حصہ تھیں۔

۲۸۸

امیر المومنین (ع)کے قرآن میں منافقین کے جو نام مذکور ہیں وہ بھی اسی (تنزیل و تاویل) کے ذی میں آتے ہیں۔ کیونکہ ان منافقین کے نام یقیناً بطور تفسیر ذکر کئے گئے ہیں (اور وہ قرآن کا حصہ نہیں ہےں) اس امر پر وہ قطعی دلائل بھی دلالت کرتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کا کوئی بھی حصہ ضائع نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ منافقین کے ساتھ پیغمبر اسلام ؐ کا جو برتاؤ تھا اس کا بھی یہ تقاضا نہیں کہ منافقین کے نام قرآن کی صورت میں نازل کیے جاتے کیونکہ آپ کا شیوہ یہ تھا کہ منافقین کو زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ شریک کرتے اور ان کی منافقت، جسے آپ بخوبی جانتے تھے، کو راز میں رکھتے تھے۔ یہ ایسی چیز ہے جو آپ کی سیرت اور حسن اخلاق سے آگاہ آدمی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ان حالات میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ان منافقین کے ناموں کی قرآن میں تصریح کردی جائے اور دن رات خود منافقین اور مسلمانوں کو یہ تاکید کی جائے کہ منافقین پر لغت بھیجیں۔ کیا اس قسم کی روش کا احتمال بھی دیا جاسکتا ہے تاکہ اس کی صحت اوربطلان کے بارے میں سوچا جائے اور اس کے اثبات کے لیے ان روایات سے تمسک کیا جائے جن کے مطابق امیر المومنین (ع)اور اپنے دیگر اصحاب کے لیے بعض منافقین کے نام موجود ہیں؟!

البتہ تمام منافقین کو ابو لہب، جو کہ برملا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے دشمنی کا مظاہرہ کرتا تھا اور رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بھی یہ جانتے تھے کہ یہ مشرک ہی مرے گا، پر قیاس نہیں کیا جاسکتا(۱) ہاں! بعید نہیں کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے امیر المومنین (ع)اور اپنے دیگر اصحاب کے یے بعض منافقین کی نشاندھی فرمائی ہو۔

گذشتہ مباحث کا خلاصہ یہ ہے ہوا کہ اگرچہ مصحف (قرآن) علی (علیہ السلام) میں کچھ زاید چیزیں موجود ہیں مگر یہ اس قرآن کا حصہ نہیں ہیں جس کی تبلیغ کا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو حک دیا گیا تھا اور ان زاید چیزوں کو قرآن کا حصہ قرار دینے کی کوئی دلیل ہی نہیں بلکہ یہ نظریہ بذات خود باطل ہے اور اس کے بطلان پر وہ تمام قطعی دلائل دلالت کرتے ہیں جن سے تحریف قرآن کی نفی ہوتی ہے۔

____________________

) ۱) یعنی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اگر قرآن میں ابولہب کا نام آسکتا ہے تو باقی منافقین کے نام کیوں نہیں آسکتے۔ (مترجم)

۲۸۹

تیسرا شبہ

تحریف کی تیسری دلیل کے طور پر اہل بیت عصمتؑ کی ان متواتر روایات کو پیش کیا جاتا ہے جو تحریف پر دلالت کرتی ہےں۔

جواب:

یہ روایات متنازع فیہ معنی میں تحریف واقع ہونے پر دلالت نہیں کرتیں۔

وضاحت:

بہت سی روایات سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں،کیونکہ ان میں سے کچھ تو احمد بن محمد سیاری کی کتاب سے منقول ہیں جس کے فاسد المذاہب ہونے پر تمام علمائے رجال کا اتفاق ہے، اس کے علاوہ یہ تناسخ کا بھی قائل تھا۔ کچھ روایات علی بن احمد کوفی سے منقول ہیں جو علمائے رجال کے نزدیک کذاب اور فاسد المذاہب تھا۔

یہ روایات اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں لیکن چونکہ کثرت سے ہیں اس لیے اتنا ضرور ثابت ہو جاتا ہے کہ بعض روایات ضرور ائمہ اطہار (ع) سے صادر ہوئی ہیں اور کم از کم اس کا ظن غالب ضرور حاصل ہو جاتا ہے۔

ان میں سے بعض روایات ایسی بھی ہیں جو معتبر طریقوں سے روایت کی گئی ہیں۔ لہٰذا ہر روایت کی سند کے بارے میں بحث کی ضرورت نہیں ہے۔

روایات تحریف

اس مقام پر یہ بحث ضروری ہے کہ ان روایات کا مفہوم ایک دوسرے سے مختلف ہے اور ان سے یکساں اسفادہ نہیں ہوتا، لہذا ہم ذ یل میں ان روایات کے مفاہیم اور خصوصیات بیان کرتے ہیں۔

۲۹۰

یہ روایات کئی قسم کی ہیں:

i ۔ پہلی قسم کی روایات وہ ہیں جن میں لفظ تحریف کا ذکر ہے اور اس طرح وہ تحریف پر دلالت کرتی ہیں، ایسی روایتیں بیس ہیں۔ ان میں سے چند کا ذکر ہم یہاں کرتے ہیں اور ان جیسی دیگر روایات کا ذکر نہیں کرتے۔

پہلی روایت: علی بن ابراہیم قمی اپنی سند کے ذریعے ابوذر سے نقل کرتے ہیں:

''لما نزلت هذه الآیة: یوم تبیض وجوه و تسود وجوه، قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) ترد امتی علی یوم القیامة علی خمس رایات ثم ذکر أن رسول الله صلی الله علیه و آله یسأل الریات عما فعلوا بالثقلین فتقول الرایة الأولی: أما الاکبر فحر فناه، و نبذناه وراء ظهورنا، و أما الأصغر فعادیناه، و أبغضناه، و ظلمناه و تقول الرایة الثانیة أما الأکبر فحر فناه، و مزقناه، و خالفناه، و أما الأصغر فعادیناه و قاتلناه ،،

''جب آیت کریمہ: ''یوم تبیض وجوہ و تسود وجود،، نازل ہوئی تو رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: روز قیامت میری امت پانچ جھنڈے اٹھائے میرے سامنے پیش ہوگی۔ حضرت ابوذر فرماتے ہیں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہر گروہ سے پوچھیں گے: ثم ثقلین کے ساتھ کیا سلوک کرتے رہے؟ پہلا گروہ کہے گا: ہم نے ثقل اکبر (قرآن) میں تحریف کی اور اسے پس پشت ڈال دیا اور ثقل اصغر (عترت پیغمبرؐ) سے بغض و عداوت رکھی اور اس پر ظلم کیا۔ دوسرا گروہ کہے گا: ہم نے ثقل اکبر میں تحریف کی۔ اسے پھاڑا، ٹکڑے ٹکڑے کیا اور اس کی مخالفت کی اور ثقل اصغر سے دشمنی روا رکھی اور اس سے جنگ لڑی۔،،

دوسری روایت: ابن طاؤس اور سید محدث جزائری نے اپنی سندوں سے حسن بن حسن سامری سے ایک طویل حدیث نقل کی ہے جس میں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حدود الہٰی سے تجاوز کرنے والے کے بارے میں حذیفہ سے فرمایا:

''انه یضل الناس عن سبیل الله، و یحرف کتبابه، و یغیر سنتی،،

''یہ لوگوں کی راہ خدا سے منحرف، کتاب خدا میں تحریف اور میریؐ سنت کو تبدیل کرتا ہے۔

۲۹۱

تیسری روایت: سعد بن عبداللہ قمی نے اپنی سند سے جابر جعفی اور اس نے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''دعا رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) بمنی قال: أیها الناس انی تارک فیکم الثقلین أما ان تمسکتم بهما لن تضلوا کتاب الله و عترتی والکعبة البیت الحرام ثم قال ابوجعفر : اما کتابالله فحرفوا، و أما الکعبة فهدموا، و أما فتقلوا، و کل ودائع الله قد نبذوا و منها قد تبرأوا،،

''رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے منیٰ میں دعا فرمائی اور پھر فرمایا: اے لوگو! میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ وہ دوگرانقدر چیزیں قرآن اور میری عترتؑ ہیں اور دیکھو! کعبہ، واجب الاحترام ہے۔ اس کے بعد امام(ع) نے فرمایا: لوگوں نے کتاب خدا میں تحریف کی، کعبہ کو گرایا، اور عترت پیغمبرؐ کو شہید کردیا۔ غرض انہوں نے خدا کی تمام امانتوں کو پس پشت ڈال دیا اور ان سے دور ہوگئے۔،،

چوتھی روایت: خصال میں صدوق نے اپنی سند سے جابر سے اور انہوں نے رسول اسلامؐ سے راویت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''یجیئ یوم القیامة ثلاثة یشکون: المصحف، و المسجد، العترة یقول المصحف یا رب حرفونی و مزقونی، و یقول المسجد یا رب عطلونی و ضیعونی، و تقول العترة یا رب قتلونا، و ردونا، و شر دونا،،

''تین چیزیں بارگاہ الہی میں شکایت کریں گی: قرآن، مسجد اور عترت پیغمبرؐ قرآن کہے گا: پالنے والے! لوگوں نے مجھ میں تحریف کی اور مجھے پھاڑ ڈالا۔ مسجد کہے گی: مجھے لوگوں نے بے آباد رکھا اور ضائع کردیا اور عترت محمد(ص) کہے گی: یارب! لوگوںنے ہمیں شہید کیا اور جلا وطن کیا۔،،

۲۹۲

پانچویں روایت: علی بن سوید کہتے ہیں: میں نے امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) کو ایک خط لکھا جب آپ زندان میں تھے۔ علی بن سوید نے اپنے خط اور امام(ع) کے جواب کا مکمل ذکر کیا ہے، جس میں آپ نے فرمایا:

''کتبت الی أبی الحسن موسیٰ و هو فی الحبس کتابا الی أن ذکر جوابه بتمامه، و فیه سوله اؤتمنوا علی کتاب الله فحرفوه و بدلوه،،

''لوگوں میں کتاب الہٰی بطور امانت چھوڑ دی گئی مگر انہوں نے اس میں تحریف کی اور اسے تبدیل کردیا۔،،

چھٹی روایت: ابن شہر آشوب، اپنی سند سے عبداللہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے روز عاشور اپنے خطبے میں فرمایا:

''انما انتم من طواغیت الامة، و شذاذ الأحزاب، و نبذة الکتاب، و نفئة الشیطان، و عصبة الآثام، و محر فی الکتاب،،

''تم اس امت کے طاغوت، گھٹیا گروہ، قرآن کو پس پشت ڈالنے والے، شیطان کی اولاد، گناہ کے پتلے او رکتاب خدا میں تحریف کرنے والے لوگ ہو۔،،

ساتویں روایت: ابن قولویہ نے کتاب ''کامل الزیارات،، میں جسن بن عطیہ اور اس نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اذا دخلت الحائر فقل: اللهم العن الذین کذبوا رسلک، وهدموا کعبتک، و حرفوا کتابک،،

''جب تم سید الشہداءؑ کے حرم میں داخل ہو تو کہو: ان لوگوں پر تیری لعنت ہو جنہوں نے تیرے رسولوں کی تکذیب کی، تیرے کعبہ کو منہدم کیا اور تیری کتاب میں تحریف کی۔

آٹھویں روایت: حجال نے قطبہ بن میمون سے اور اس نے عبد الاعلیٰ سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا:

''قال أبو عبدالله(ع) أصحاب العربیة یحرفون کلام الله عزوجل عن مواضعه،،

''عربیت پرست قرآن میں اس کی جگہوں میں تحریف کرتے ہیں۔،،

۲۹۳

روایات کا حقیقی مفہوم

اس مضمون کی روایات کا جواب یہ ہے اور آخری روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تحریف سے مراد قاریوں کا اختلاف اور قرااءات کے سلسلے مںی ان کا ذاتی اجتہاد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت اور اصل قرآن تو محفوظ ہے۔ صرف قراءت کی کیفیت میں اختلاف ہے اور تحریف کی بحث کے آغاز میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ اس معنی میں قرآن میں یقیناً تحریف ہوئی ہے چونکہ سات کی سات قرااءات متواتر نہیں ہیں بلکہ اگر قرااءات ہفتگانہ متواتر بھی ہوں پھر بھی اس معنی میں قرآن میں تحریف ہوئی ہے اس لیے کہ قرااءات زیادہ ہیں اور یہ سب کی سب ظنی اجتہادات پر مشتمل ہیں جن سے قہری طور پر قراءت کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ اس روایت کا مستدل کے مقصد و مدعا سے کوئی تعلق نہیں۔

جہاں تک باقی روایات کا تعلق ہے ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں تحریف سے مراد آیات قرآنی کو غلط معانی پر محمول کرنا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ اہل بیتؑ کے فضائل کا انکار، ان سے دشمنی کرنا اور جنگ لڑنا ہے۔ اس بات کی شہادت اس سے ملتی ہے کہ سید الشہداءؑ کے خطبے میں تحریف کی نسبت آپ کے مقابلے میں آنے والے بنی امیہ کی طرف دی گئی ہے۔

آغاز بحث میں مذکورہ روایت میں امام باقر (علیہ السلام) نے فرمایا ہے:

''و کان من نبذهم الکتاب أنهم أقاموا حروفه، و حرفوا حدوده،،

''ان لوگوں نے کتاب الہٰی کو اس طرح پس پشت ڈال دیا کہ اس کے حروف کو تو برقرار رکھا مگر اس کی حدود میں تحریف کی۔،،

i ۔ ہم یہ بھی بتاچکے ہیں کہ قرآن میں اس معنی (الفاظ قرآن سے غلط معنی اخذ کرنا) میں یقیناً تحریف واقع ہوئی ہے۔ یہ ہمارے محل نزاع سے خارج ہے کیونکہ اگر قرآن میں یہ تحریف واقع نہ ہوئی ہوتی تو عترت پیغمبرؐ کے حقوق محفوظ رہتے، رسول اسلامؐ کا احترام برقرار رہتا اور آہل رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے حقوق پامال کرکے رسول گرامیؐ کو اذیت نہ دی جاتی۔

۲۹۴

ii ۔ دوسری قسم کی روایات وہ ہیں جن کے مطابق قرآنی آیات میں ائمہ ہدیٰؑ کے نام موجود تھے جو تحریف کے نتیجے میں نکال دیئے گئے ہیں اور یہ روایات کثرت سے ہیں۔ان میں چند یہ ہیں:

الف۔ کافی کی روایت ہے جسے محمد بن فضیل نے ابو الحسن موسیٰ ابن جعفر(علیہما السلام) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''ولایۃ علی بن ابی طالب مکتوب فی جمیع صحف الانبیاء و لن یبعث اللہ رسولا الا بنبوۃ محمد و ''ولایۃ،، و صیہ۔ صلی اللہ علیہما و آلھما،،

''امیر المومنین (ع)کی ولایت تمام انبیاءؑ کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے کسی بھی رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو اس وقت تک نہیں بھیجا جب تک اسے خاتم الانبیائؐ کی نبوّت اور آپ کے وصی (علیہ علیہ السلام) کی ولایت سے آگاہ نہیں کیا۔،،

ب۔ عیاشی میں امام صادق(ع) سے راویت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''لو قرأ القرآن کما انزل لألفینا مسمین،،

''اگر قرآن کی اسی طرح تلاوت کی جاتی جس طرح اسے نازل کیا گیا تھا تو لوگ ہمیں نام سے پہچانتے۔،،

ج۔ کافی، تفسیر عیاشی میں امام محمد باقر(ع) سے اور کنزالفوائد میں مختلف سندوں سے ابن عباس سے اور تفسیر فرات بن ابراہیم کوفی میں متعدد سندوں سے اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے:

''قالوا: قال امیر المومنین (ع)القرآن نزل علی اربعة ارباع، ربع فینا، و ربع فی عدونا، و ربع سنن و امثال، و ربع فرائض و احکام ، و لنا کرائم القرآن،،

''امیر المومنین (ع)نے فرمایا: قرآن چار حصوں میں نازل ہوا ہے۔ اس کا ایک چوتھائی ہمارے دشمنوں کے بارے میں، ایک چوتھائی سیرت اور مثالوں کے بارے میں اور ایک چوتھائی واجبات اور دیگر احکام کے بارے میں ہے اور قرآن کی عزت و کرامت ہماری ذات سے مختص ہے۔،،

۲۹۵

د۔ کافی میں امام محمد باقر(ع) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''نزل جبرئیل بهذه الآیة علی محمد هکذا: و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فی علی فاتوا سورة من مثله،،

''جبرئیل آنحضرتؐ کی خدمت میں یہ آیت اس طرح لے کر آیا تھا: ''علیؑ کے بارے میں کچھ ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اس میں اگر شک ہو تو اس کی مانند ایک سورہ پیش کرکے دکھاؤ۔،،

جواب: بعض چیزوں تفسیر قرآن کے طور پر نازل ہوا کرتی تھیں جو کہ خود قرآن نہیں ہوتی تھیں۔ لہٰذا ان روایات سے بھی یہی مراد ہونی چاہیے کہ اگر قرآن میں ائمہ (ع) کے نام موجود تھے تو بطور تفسیر ہوں گے اور قرآن کا حصہ نہیں ہوں گے۔

اگر ان روایات سے یہ معنی اخذ نہ کئے جائیں تو سرے سے ان روایات کو رد کرنا پڑے گا کیونکہ یہ روایات کتاب و سنت اور ان قطعی دلیلوں کے خلاف ہیں جن سے عدم تحریف ثابت ہوتی ہے۔ روایات متواترہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ روایات کو قرآن و سنت کے مقابلے میں پیش کرنا ضروری ہے اور جو روایت کتاب خدا کے خلاف ہو اس کو ٹھکرا اور دیوار پر مار دینا واجب ہے۔

قرآن میں امیر المومنین (ع)کے نام کی تصریح نہ ہونے کی دلیلوں میں سے ایک دلیل حدیث غدیر ہے۔ کیونکہ حدیث غدیر می اس بات کی تصریح ہے کہ رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے خدا کی طرف سے حکم و تاکید اور اپنےؐ تحفظ کی ضمانت لینے کے بعد امیر المومنین کو اپنا ولی نصب فرمایا۔

اگر قرآن میں امیر المومنین (ع)کا نام موجود ہوتا تو اس تقرری اور مسلمانوں کے اس عظیم اجتماع کے اہتمام کی ضرورت نہ ہوتی اور نہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو کسی قسم کا خطرہ محسوس ہوتا۔

۲۹۶

خلاصہ یہ کہ حدیث غدیر کی صحت سے ان روایات کا کذب ثابت ہوتا ہے جو یہ کہتی ہیں کہ ائمہ (ع) کے اسماء قرآن مجید میں موجود ہیں۔ یہ نکتہ خاص کر قابل توجہ ہے کہ حدیث غدیر، حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اسلامؐ کی زندگی کے آخری ایام میں صادر ہوئی تھی جب سارا قرآن نازل ہوچکا اور مسلمانوں میں پھیل گیا تھا اور آخری روایت جو کافی میں نقل کی گئی ہے وہ بذات خود قابل تصدیق نہیں ہے۔

ان سب کے علاوہ جب پیغمبراکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی نبوت کو ثابت اور قرآن کی مثل لانے کا چیلنج کیا جارہا ہو تو ایسے موقع پر علی (علیہ السلام) کا نام ذکر کرتنا مقتضیٰ حال کے مطابق نہیں ہے اور ان تمام روایات کی معارض کافی کی صحیحہ ابی بصیر ہے۔ ابو بصیر کہتے ہیں: میں نے امام(ع) سے آیہ:

( أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ ) ۴:۵۹ کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:

''قال: فقال نزلت فی علی بن ابی طالب و الحسن ؑو الحسین ؑفقلت له: ان الناس یقولون فما له لم یسم علیا و أهل بیته فی کتاب الله ۔قال: فقولوا لهم ان رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) نزلت علیه الصلاة و لم یسم الله لهم ثلاثا ،و لا أربعاً، حتی کان رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) هو الذی فسر لهم ذلک ۔۔۔(۱)

''یہ آیت کریمہ علی ابن ابی طالب، حسن اور حسین(علیہم السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ میں نے عرض کیا: مولا! لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے قرآن میں آپ اور آپ کے اہل بیتؑ کے نام کیوں ذکر نہیں فرمائے؟ آپ نے فرمایا: تم ان لوگوں کو جواب میں کہو کہ خدا نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نماز بھی نازل فرمائی ہے، لیکن قرآن میں تین یا چار رکعتوں کاذکر کسی بھی جگہ نہیں ہے بلکہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) اس کی تفسیر فرمایا کرتے تھے۔،،

بنابرایں یہ روایت ان تمام روایات پر مقدم ہوگی ارویہ ان روایات کا صحیح مطلب و مقصد بیان کررہی ہے اور

____________________

(۱) الوافی، ج ۲، باب ۳۰، مانص اللہ و رسولہ علیہم، ص ۶۳۔

۲۹۷

یہ کہ قرآن میں علیؑ کا نام بطور تفسیر و تنزیل بیان کیا گیا ہے ۔ یہ قرآن کا حصہ نہیں ہے، جس کی تبلیغ کا حکم دیا گیا ہو۔

اس کے علاوہ جنہوں نے حضرت ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا تھا انہوں نے اپنے استدلال میں یہ کبھی نہیں کہا کہ حضرت علی(علیہ السلام) کا نام (بطور خلیفہ) قرآن میں موجود ہے۔ اگر آپ کا نام قرآن میں موجود ہوتا تو یہ ان لوگوں کے لئے ایک بہترین دلیل بنتی اور وہ اس کا ذکر ضرور کرتے ۔

اس دلیل کو اس اعتبار سے بھی زیادہ تقویت حاصل ہوتی ہے کہ (مستدل کے زعم میں) جمع قرآن کا مسئلہ، مسئلہ خلافت کے تصفیہ کے کافی عرصہ بعد پیش آیا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کسی آیہ میں علی (علیہ السلام) کا نام موجود نہیں تپا جس کو حذف کردیا گیا ہو۔

iii ۔ تیسری قسم کی روایات وہ ہیں جن کے مطابق قرآن میں اضافہ اور کمی کی صورت میں تحریف واقع ہوئی ہے اور یہ کہ امت نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد بعض کلمات قرآن کو تبدیل کرکے دوسرے کلمات کو رکھ دیا ہ۔ وہ روایات یہ ہیں:

الف۔ علی بن ابراہیم قمی نے حریز کی سند سے حضرت ابی عبد اللہ امام صادق (علیہ السلام) سے سورہ حمد کی آیہ کو یوں بیان فرمایا ہے:

صراط من أنعمت علیهم غیر المغضوب علیهم و غیر الضالین

ب۔ عیاشی نے ہشام بن سالم سے راویت کی ہے۔ ہشام فرماتے ہیں میں نے حضرت ابو عبداللہ صادق(ع) سے آیہ کریمہ:

( إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ ) ۳:۳۳

کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:

آیہ کریمہ اصل می ''آل ابراہیم و آل محمد علی العالمین،، تھی لوگوں نے ایک اسم کی جگہ دوسرے کو رکھ دیا ہے۔ یعنی لوگوں نے قرآن میں تبدیلی کی ہے اور آل محمد کی جگہ آل عمران رکھ دیا ہے۔

۲۹۸

جواب:

ان روایات کی سند ضعیف ہے اور اگر اس سے چشم پوشی بھی کی جائے تو یہ روایات قرآن، سنت اور اجماع مسلمین کے خلاف ہیں جن کے مطابق قرآن میں ایک حرف کی بھی زیادتی نہیں ہوئی ہے، حتیٰ کہ جو حضرات تحریف کے قائل ہیں وہ بھی اس معنی میں تحریف کے قائل نہیں ہیں۔

علماء کی ایک جماعت نے قرآن میں زیادتی و اقع نہ ہونے پر اجماع کا دعویٰ فرمایا ہے اور یہ کہ جو کچھ بھی بین دفتین موجود ہے، سب کا سب قرآن ہے اور ایک لفظ بھی زیادہ نہیں ہے۔ جن حضرات نے اجماع کا دعویٰ فرمایا ہے ان میں شیخ مفید، شیخ طوسی، شیخ بہائی اور دیگر علمائے کرام شامل ہیں۔

اس سے قبل احتجاج طبرسی کی وہ روایت بھی بیان کی جاچکی ہے جس کے مطابق قرآن میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

iv ۔ چوتھی قسم کی روایات وہ ہیں جن کے مطابق قرآن میں تحریف کمی کی صورت میں واقع ہوئی ہے۔

جواب:

ان روایات کو اس معنی پر حمل کیا جائے گا جس پر مصحف امیر المومنین (ع)میں موجود اضافات کو حمل کیا گیا ہے اور اگر کسی روایت کو اس معنی پر حمل نہ کیا جاسکے تو اسے ٹھکرا دیا جائے گا کیونکہ یہ قرآن و سنت کی مخالف سمجھی جائے گی۔

ہم نے اپنی بحثوں کے دوران اس قسم کی روایات کاایک اور معنی بھی کیا ہے۔ شاید یہ معنی سب سے قریب ہو مگر اختصار کی خاطر اس معنی کے ذکر سے احتراز کیا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ کسی اور جگہ اس کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔

اس قسم کی بعض بلکہ اکثر روایات کی سند ضعیف ہے اور بعض روایات کا تو بذات خود کوئی صحیح معنی نہیں بنتا اور علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ یا تو اس قسم کی روایات کی تاویل کرنی چاہےے یا انہیں ٹھکرادینا چاہیے۔

۲۹۹

ان علمائے کرام میں سے ایک محقق کلباسی ہیں۔ ان سے منقول ہے:

''وہ تمام روایات اجماع علماء کے خلاف ہیں جو قرآن میں تحریف پر دلالت کرتی ہیں۔،،

آپ مزید فرماتے ہیں:

''اس قول کی کوئی دلیل نہیں کہ موجودہ قرآن میں کسی قسم کی کمی موجود ہے۔ اس لیے کہ اگر اس میں کسی قسم کی کمی واقع ہوئی ہوتی تو یہ مشہور ہوجاتی بلکہ بطور تواتر اس کو نقل کیا جاتا کیونکہ غیر معمولی اور اہم واقعات کا یہی تقاضا ہے کہ انہیں بطور تواتر نقل کیا جائے اور تحریف فی القرآن سے بڑھ کر اور کون سا واقعہ اہم ہوسکتا ہے۔،،

''شارح وافیہ،، محقق بغدادی نے اس بات کی تصریح کی ہے اور اسے محقق کرکی سے نقل فرمایا ہے جنہوں نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔ محقق کرکی اس رسالہ میں فرماتے ہیں:

''جو روایات بھی قرآن میں کمی واقع ہونے پر دلالت کرتی ہیں یا تو ان کی تاویل کرنی چاہیے یا انہیں ٹھکرا دینا چاہیے، چونکہ جو حدیث بھی قرآن، سنت متواترہ اور اجماع کے خلا ف ہو اور قابل تاویل نہ ہو اسے ٹھکرانا ضروری ہے۔،،

مؤلف: محقق کرکی نے اپنے اس کلام میں اس نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس کی طرف اس سے قبل ہم نے اشارہ کیاتھا۔ یعنی روایات متواترہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جو روایت بھی قرآن کے خلاف ہو اس کو ٹھکرانا لازمی ہے ان متواترہ روایات میں سے ایک روایت یہ ہے:

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689