البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن0%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی رح
زمرہ جات:

صفحے: 689
مشاہدے: 302518
ڈاؤنلوڈ: 8562

تبصرے:

البیان فی تفسیر القرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 302518 / ڈاؤنلوڈ: 8562
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

اس طرح جدید قرآنی نسخے مرتب کرکے مصر، شام، مکّہ، مدینہ اور کوفہ و بصرہ بھجوا دیئے، اور آج کا موجودہ قرآن انہی نسخوں کے مطابق ہے۔ باقی جتنے بھی قرآنی نسخے تھے وہ جمع کروا دیئے گئے اور ایک نسخہ تک باقی نہ رہا۔(۱)

یہ دعویٰ ہذیان اور مجذوب کی بڑ معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ حجاج جو بنی امیہ کے والیوں میں سے ایک والی تھا، اس کی کیا جراءت تھی کہ قرآن میں تحریف کرنے کی جسارت کرتا بلکہ وہ فروع دین میں سے بھی کسی میں رد و بدل کرنے کا مرتکب نہیں ہوسکتا تھا، چہ جائیکہ وہ قرآن میں تحریف کا مرتکب ہوتا جو اساس دین اور سرچشمہئ شریعت ہے۔ اس کی کیا قدرت اورمجال تھی کہ وہ سارے اسلامی ممالک میں پھیلے ہوئے قرآنلوں کی طرف دست تجاوز دراز کرتا۔

اگر اس نے اس جرم کا ارتکاب کیا تھا تو مؤرخین نے اس عظیم المیہ کا ذکر کیوں نہیں کیا اورکیوں اسے اپنی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا؟ حالانکہ اس غیر معمولی سانحہ کا تقاضہ تھا کہ یہ تاریخ میں ثبت ہو جاتا۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ نہ تو حجاج کے زمانے میں کسی مسلمان نے اسے نقل کیا ہے اور نہ اس کے دور حکومت کے بعد کسی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تمام مسلمانوں نے حجاج کے دور حکومت کے بعد بھی اس سنگین جرم سے چشم پوشی کی ہو۔

فرض کیجیئے حجاج میں یہ قدرت تھی کہ وہ قرآن کے تمام نسخوں کو اکٹھا کرلے اور تمام اسلامی ممالک میں ایک نسخہ بھی باقی نہ رہنے دے۔ لیکن کیا مسلمانوں کے سینوں اور حافظان قرآن کے دلوں سے بھی وہ قرآن کو خارج کرسکتا تھا؟ جبکہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ جسے خدا ہی جانتا ہے۔

اس کے علاوہ اگر قرآن بنی امیہ کے خلاف کوئی آیہ ہوتی تو حجاج سے پہلے معاویہ اسے قرآن سے خارج کرنے کی کوشش کرتا جس کی قدرت و طاقت حجاج سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اگر معاویہ اس جرم کا مرتکب ہوتا تو اصحاب امیر المومنین (ع)معاویہ کے خلاف جہاں دوسرے احتجاجات اور دلائل پیش کرتے تھے جو تاریخ، کتب حدیث اور علم کلام میں ثبت ہیں، وہاں تحریف قرآن کے مسئلے

____________________

(۱) مناہل العرفان، ص ۲۵۷۔

۲۸۱

کو بھی اٹھاتے۔ حالانکہ تاریخ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

ہمارے گذشتہ بیانات سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ تحریف کا دعویٰ کرنے والے عقلی بدیہیات کے مخالف اور منکر ہیں۔ ایک ضرب المثل مشہور ہے۔

''حدث الرجل بما لا یلیق فان صدق فهو لیس بعاقل،،

''کسی آدمی سے غیر معقول بات کریں، اگر وہ اس کی تصدیق کرے تو سمجھ لیں کہ وہ عقلمند نہیں ہے۔،،

قائلین تحریف کے شبہات

تحریف کے قائل جن شبہات اور غلط فہمیوں کا سہارا لیتے ہیں ان کا بھی ذکر کرنا اور جواب دینا ضروری ہے:

پہلا شبہ:

تورات اور انجیل میں یقیناً تحریف ہوئی ہے اور شیعہ و سنی روایات متواترہ سے ثابت ہے کہ گذشتہ اقوام میںجو واقعات رونما ہوئے ہیں اس امت میں بھی ضرور واقع ہوں گے۔ چنانچہ شیخ صدوق اپنی کتاب ''اکمال الدین،، میں فرماتے ہیں کہ غیاث بن ابراہیم نے امام صادق(ع) سے اور آپ نے اپنے آباؤ اجداد(ع) سے نقل فرمایا ہے:

''قال رسول الله صلی الله علیه و آله وسلم کل ما کان فی الأمم السالفة، فانه یکون فی هذه الامة مثله حذو النعل بالنعل، و القذه بالقذه،، (۱)

''پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: جو کچھ گذشتہ اُمّتوں میں واقع ہوا ہے، بعینہ موبہ مو اس امت میں بھی واقع ہوگا۔،،

_____________________

(۱) بحار، باب افتراق الامۃ بعد النبی(ص) علی ثلاث و سبعین فرقہ، ج ۸، ص ۴، اس حدیث کے بعض حوالے اہل سنت کی سند سے اسی کتاب میں گزر چکے ہیں۔

۲۸۲

اس حدیث کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن میں تحریف ضرور واقع ہوئی ہوگی ورنہ اس حدیث کا معنی صحیح نہ ہوگا۔

جواب:

i ۔ ایسی روایات، جن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، سب کی سب خبر واحد ہیں جو باعث علم و عمل نہیں ہوسکتیں ان کے متواتر ہونے کا دعویٰ بلا دلیل ہے اور کتب اربعہ (اصول کافی، تہذیب، من لایحضرہ الفقیہ اور استبصار) میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تورات میں تحریف ہونے اور قرآن میں تحریف ہونے میں کوئی ملازمہ نہیں ہے (تورات میں تحریف ہوئی ہے تو ضروری نہیں کہ قرآن میں بھی تحریف ہو)۔

ii ۔ اگر یہ دلیل درست ہو تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن میں اضافہ بھی ہوا ہو جس طرح تورات و انجیل میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا بطلان واضح ہے۔

iii ۔ گذشتہ امتوں میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو اس امت میں رونما نہیں ہوئے۔ مثلاً بچھڑے کی پوجا کرنا، بنی اسرائیل کا چالیس سال سرگداں رہنا، فرعون اور اس کے ساتھیوں کا غرق ہونا، حضرت سلیمانؑ کا جن و انس پر حکومت کرنا، حضرت عیسیٰؑ کو آسمان کی طرف لے جانا، حضرت موسیٰ! کے وحی حضرت ہارونؑ کا حضرت موسیٰؑ سے پہلے وفات پانا، حضرت موسیٰؑ سے نو معجزات رونما ہونا۔ بغیر باپ کے حضرت عیسیٰؑ کی ولادت،گذشتہ اقوام میں سے بہت سی قوموں کا بندروں اور خنزیروں کی صورت میں مسخ ہونا اور اس قسم کے بیشمار واقعات ایسے ہیں جوگذشتہ اقوام میں تو واقع ہوئے ہیں لیکن اس اُمّت میں ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ معصومؑ کی مراد ہو نہیں جو ظاہری طور پر روایات سے سمجھی جاتی ہے۔ لامحالہ ان روایات کا مطلب یہ ہے کہ بعض باتوں میں اس امت کو گذشتہ امتوں سے تشبیہ دی گئی ہے، ہر واقعہ میں نہیں۔

۲۸۳

بنابرایں اگرچہ قرآن کا کوئی حصہ کم نہیں کیا گیا لیکن قرآن کے حروف اور الفاظ برقرار رکھتے ہوئے اس کے احکام اور حدود کی پیروی نہ کرنے پر بھی تحریف صادق آتی ہے۔ چنانچہ اس بحث کے آغاز میں مذکورہ روایت کا مفہوم بھی یہی تھا۔ اس کی تائید و تاکید ابو واقدلیثی کی روایت سے بھی ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

''خیبر کی طرف جاتے ہوئے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) مشرکین کے ایک درخت کے قریب سے گزرے جو ''ذات انواط،، کہلاتا تھا، مشرکین اس پر اپنا اسلحہ لٹکاتے تھے، اصحاب پیغمبرؐ نے عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) جسطرح مشرکین کے پاس ''ذات انواط،، ہے ہمارے لیے بھی ایک ''ذات انواط،، کا بندوبست فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! یہ اسی طرح جیسے حضرت موسیٰؑ کی قوم نے کہا تھا کہ آپ ہمارے لیے بھی بہت سے خداؤں کا انتظام کریں جس طرح ان کے کئی خدا ہیں۔ قسم بخدا! تم بھی گذشتہ اقوام کی سنت پر عمل کرو گے۔،،(۱)

یہ روایت تصریح کرتی ہے کہ اس امت میں رونما ہونے والے واقعات بعض جہات سے گذشتہ اقوام کے واقعات سے مشابہت رکھتے ہیں، ہر لحاظ سے نہیں۔

iv ۔ اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ روایات سند کے اعتبار سے متواتر ہیں اور ان کا معنی بھی وہی ہے جیسا کہ تحریف کے قائل حضرات کہتے ہی، پھر بھی ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ گذشتہ زمانے میں قرآن میں تحریف ہوئی ہے۔ اس لیے کہ ہوسکتا ہے آئندہ زمانے میں قرآن میں کو ئی کمی بیشی ہونے والی ہو۔ کیوں کہ بخاری کی روایت کے مطابق قیامت تک اس اُمّت کے واقعات گذشتہ اُمّتوں کے واقعات کی مانند رونما ہوتے رہیں گے۔

بنابرایں ان روایات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صدر اسلام یا خلفاء کے دور میں قرآن میں تحریف واقع ہوئی ہے۔

_____________________

(۱) صحیح ترمذی، باب ''ما جاء لترکبن سنن من کان قبلکم،، ج ۹، ص ۲۶۔

۲۸۴

دوسرا شبہ:

تحریف کی دوسری دلیل یہ ہے کہ امیر المومنین (ع)کے پاس موجودہ قرآن کے علاوہ ایک اور قرآن تھا جسے آپ نے لوگوں کے سامنے پیش کیا مگر انہوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا۔ یہ قرآن کچھ ایسے حصوں پر مشتمل تھا جو موجودہ قرآن میں نہیں ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ قرآن امیر المومنین (ع)کے پاس موجود قرآن سے کم ہے اور یہی وہ تحریف ہے جس کی نفی و اثبات میں اختلاف ہے اور اس موضوع کی روایات بہت سی ہیں۔

i ۔ ان میں سے ایک روایت میں ہے کہ امیر المومنین (ع)نے مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے فرمایا:

''یا طلحة ان کل آیة أنزلها الله تعالیٰ علی محمد صلی الله علیه و آله عندی باملاء رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) و خط یدی، و تأویل کل آیة أنزلها الله تعالیٰ علی محمد ؐو کل حلال ،أو حرام، أو حدّ، أو حکم، أو شیء تحتاج الیه الأمة الی یوم القیامة، فهو عندی مکتوب باملاء رسول الله و خط یدی، حتی أرش الحدش ۔۔۔،، (۱)

''اے طلحہ! قرآن کی ہر آیت جو خدا نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل فرمائی، میرے پاس موجود ہے، جس کی املاء رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے لکھوائی اور میں نے اپنے ہاتھ سے لکھی۔ ہر اس آیت کی تاویل جو خدا نے محمدؐ پر نازل فرمائی، ہر حلال، حرام، حد، حکم اور ہر وہ چیز جس کی امت محمدیؐ کو قیامت تک احتیاج ہے میرے پاس رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی دی ہوئی املاء میں میرے ہاتھ کی لکھی ہوئی موجود ہے۔ حتیٰ کہ اس میں ایک خراش کی حد (سزا) تک کا ذکر موجود ہے۔،،

______________________

(۱) مقدمہ تفسیر ا لبرھان، ص ۲۷، ا س روایت میں یہ تصریح موجود ہے کہ موجودہ قرآن میں جو کچھ ہے وہ سب قرآن ہی ہے۔

۲۸۵

ii ۔ امیر المومنین (ع)کا ایک زندیق سے استدلال کے بارے میں ہے:

''أتی بلکتاب کملاً مشتملاً علی التأویل و التنزیل، و المحکم و المتشابه ،و الناسخ و المنسوخ، لم یسقط منه حرف ألف و لا لام فلم یقباوا ذلک،، (۱)

''آپ نے ایک ایسی مکمل کتاب پیش کی جو تاویل و تنزیل، محکم و متشابہ اور ناسخ و منسوخ پر مشتمل تھی اور اس میں سے ایک الف اور لام تک ضائع نہیں ہوا تھا۔ مگر ان لوگوں نے قبول نہیں کیا۔،،

iii ۔ کافی میں جابر کی سند سے امام محمد باقر(ع) سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا:

''ما یستطیع احد ان یدعی ان عنده جمیع القرآن کله، ظاهره و باطنه غیر الاوصیائ،، (۲)

''سوائے اوصیاء کرامؑ کے کوئی انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ قرآن کا ظاہر و باطن غرض سارا قرآن اس کے پاس موجود ہے۔،،

iv ۔ جابر امام محمد باقر(ع) سے روایت کرتے ہیں:

''سمعت اءبا جعفرؑ یقول ما ادّعی اءحد من

''لوگوں میں سے جو بھی قرآن کو اس طرح جمع کرنے کا دعویٰ کرے

الناس أنه جمع القرآن کله کما أنزل الا کذاب، و ما جمعه وحفظه کما نزله الله تعالیٰ الا علی بن ابی طالب و الأئمة من بعده علیهم السلام،، (۳)

جس طرح وہ نازل ہوتا تھا وہ کذاب ہوگا۔ سوائے امیر المومنین (ع)اور باقی ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کے کسی نے بھی قرآن کو اس طرح جمع اور محفوظ نہیں کیا جس طرح وہ نازل ہوا تھا۔،،

____________________

(۱) تفسیر صافی المقدمہ السادسہ، ص ۱۱۔

(۲) الوافی، ج ۲، کتاب الحجۃ، باب ۷۶۔ ص ۱۳۰۔

(۳) الوافی، ج ۲، کتاب الحجۃ باب ۷۶، ص ۱۳۰۔

۲۸۶

جواب:

اس میں کوئی شک نہیں کہ امیر المومنین (ع)کے پاس ایک ایسا قرآن موجود تھا جو سوروں کی ترتیب کے اعتبار سے موجودہ قرآن سے مختلف تھا۔ جس پر تمام علماء کا اتفاق ہے اور یہ محتاج دلیل نہیں۔ اگرچہ یہ بھی اپنے مقام پر درست ہے کہ امیر المومنین (ع)کا قرآن کچھ ایسی زاید چیزوں پر مشتمل تھا جو موجودہ قرآن میں نہیں ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ زاید چیزیں قرآن کا حصہ تھیں جو تحریف کی وجہ سے حذف کردی گئی ہیں بلکہ صحیح اور حق یہ ہے کہ ان زاید چیزوں میں کلام کی تفسیر اور اس کی تاویل بیان کی گئی ہے یا مقصود الہٰی کی تشریح کی گئی ہے۔

دراصل اس شبہ یا دلیل کی بنیاد یہ ہے کہ تنزیل سے مراد وہ کلام ہو جو بطور قرآن نازل کیا گیا ہو اور تاویل سے کسی لفظ سے ایسی مراد کا قصد کیا جائے جو ظاہری معنی کے خلاف ہو۔ لیکن یہ دونوں معنی متاخرین کی اصطلاح ہیں۔

لغت میں ان دونوں معنی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے تا کہ روایات میں تاویل و تنزیل سے یہ معانی مراد لیے جائیں۔

تاویل جو ''اول،، کا مزید فیہ ہے اس کا معنی رجوع اور برگشت ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے:''اول الحکم الی اهله ای رده الیهم،، (یعنی) ''حکم کو اپنے اہل کی طرف پلٹاؤ،،۔

کبھی تاویل سے انجام کار مراد ہوتا ہے۔ چنانچہ اس آیہ کریمہ میں یہ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے:

( وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ) ۱۲:۶

''اور (تمہارا پروردگار) تمہیں خوابوں کی تعبیر سکھائے گا۔،،

( نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ ) :۳۶

''ہم کو اس کی تعبیر بتاؤ۔،،

( هَـٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ ) :۱۰۰

''یہ تعبیر ہے میرے اس خواب کی۔،،

۲۸۷

( ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا ) ۱۸:۸۲

''یہ حقیقت ہے ان واقعات کی جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا۔،،

ان کے علاوہ بھی دوسرے مقامات پر لفظ تاویل انجام کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ بنابرایں تاویل قرآن سے مراد کلام کی بازگشت اور اس کا انجام ہے۔ چاہے یہ ظاہری معنی ہو جسے ہر اہل لغت سمجھ سکتا ہے یا ایک مخفی معنی ہو جسے صرف راسخین فی العلم سمجھتے ہیں۔

تنزیل بھی ثلاثی مزید فیہ ہے جس کی اصل نزول ہے، کبھی تنزیل نازل شدہ چیز کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

( إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ ) ۵۶:۷۷

''بیشک یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے۔،،

( فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ ) : ۷۸

''جو کتاب (لوح) محفوظ میں ہے۔،،

( لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ) : ۷۹

''اس کو بس وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاک ہیں۔،،

( تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ) :۸۰

''سارے جہاں کے پروردگار کی طرف سے (محمدؐ پر) نازل ہوا ہے۔،،

اس بیان کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ خدا کی طرف سے بطور وحی نازل ہونے والی ہر چیز قرآن ہی ہو۔ بنابراین ان روایات سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کے قرآن میں جو زاید چیزیں تھیں وہ قرآنی آیات کی تفسیر ان میں ان آیات کا انجام بیان کیا گیا ہے۔ یہ روایات ہرگز اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ یہ زاید چیزیں قرآن کا حصہ تھیں۔

۲۸۸

امیر المومنین (ع)کے قرآن میں منافقین کے جو نام مذکور ہیں وہ بھی اسی (تنزیل و تاویل) کے ذی میں آتے ہیں۔ کیونکہ ان منافقین کے نام یقیناً بطور تفسیر ذکر کئے گئے ہیں (اور وہ قرآن کا حصہ نہیں ہےں) اس امر پر وہ قطعی دلائل بھی دلالت کرتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کا کوئی بھی حصہ ضائع نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ منافقین کے ساتھ پیغمبر اسلام ؐ کا جو برتاؤ تھا اس کا بھی یہ تقاضا نہیں کہ منافقین کے نام قرآن کی صورت میں نازل کیے جاتے کیونکہ آپ کا شیوہ یہ تھا کہ منافقین کو زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ شریک کرتے اور ان کی منافقت، جسے آپ بخوبی جانتے تھے، کو راز میں رکھتے تھے۔ یہ ایسی چیز ہے جو آپ کی سیرت اور حسن اخلاق سے آگاہ آدمی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ان حالات میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ان منافقین کے ناموں کی قرآن میں تصریح کردی جائے اور دن رات خود منافقین اور مسلمانوں کو یہ تاکید کی جائے کہ منافقین پر لغت بھیجیں۔ کیا اس قسم کی روش کا احتمال بھی دیا جاسکتا ہے تاکہ اس کی صحت اوربطلان کے بارے میں سوچا جائے اور اس کے اثبات کے لیے ان روایات سے تمسک کیا جائے جن کے مطابق امیر المومنین (ع)اور اپنے دیگر اصحاب کے لیے بعض منافقین کے نام موجود ہیں؟!

البتہ تمام منافقین کو ابو لہب، جو کہ برملا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے دشمنی کا مظاہرہ کرتا تھا اور رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بھی یہ جانتے تھے کہ یہ مشرک ہی مرے گا، پر قیاس نہیں کیا جاسکتا(۱) ہاں! بعید نہیں کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے امیر المومنین (ع)اور اپنے دیگر اصحاب کے یے بعض منافقین کی نشاندھی فرمائی ہو۔

گذشتہ مباحث کا خلاصہ یہ ہے ہوا کہ اگرچہ مصحف (قرآن) علی (علیہ السلام) میں کچھ زاید چیزیں موجود ہیں مگر یہ اس قرآن کا حصہ نہیں ہیں جس کی تبلیغ کا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو حک دیا گیا تھا اور ان زاید چیزوں کو قرآن کا حصہ قرار دینے کی کوئی دلیل ہی نہیں بلکہ یہ نظریہ بذات خود باطل ہے اور اس کے بطلان پر وہ تمام قطعی دلائل دلالت کرتے ہیں جن سے تحریف قرآن کی نفی ہوتی ہے۔

____________________

) ۱) یعنی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اگر قرآن میں ابولہب کا نام آسکتا ہے تو باقی منافقین کے نام کیوں نہیں آسکتے۔ (مترجم)

۲۸۹

تیسرا شبہ

تحریف کی تیسری دلیل کے طور پر اہل بیت عصمتؑ کی ان متواتر روایات کو پیش کیا جاتا ہے جو تحریف پر دلالت کرتی ہےں۔

جواب:

یہ روایات متنازع فیہ معنی میں تحریف واقع ہونے پر دلالت نہیں کرتیں۔

وضاحت:

بہت سی روایات سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں،کیونکہ ان میں سے کچھ تو احمد بن محمد سیاری کی کتاب سے منقول ہیں جس کے فاسد المذاہب ہونے پر تمام علمائے رجال کا اتفاق ہے، اس کے علاوہ یہ تناسخ کا بھی قائل تھا۔ کچھ روایات علی بن احمد کوفی سے منقول ہیں جو علمائے رجال کے نزدیک کذاب اور فاسد المذاہب تھا۔

یہ روایات اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں لیکن چونکہ کثرت سے ہیں اس لیے اتنا ضرور ثابت ہو جاتا ہے کہ بعض روایات ضرور ائمہ اطہار (ع) سے صادر ہوئی ہیں اور کم از کم اس کا ظن غالب ضرور حاصل ہو جاتا ہے۔

ان میں سے بعض روایات ایسی بھی ہیں جو معتبر طریقوں سے روایت کی گئی ہیں۔ لہٰذا ہر روایت کی سند کے بارے میں بحث کی ضرورت نہیں ہے۔

روایات تحریف

اس مقام پر یہ بحث ضروری ہے کہ ان روایات کا مفہوم ایک دوسرے سے مختلف ہے اور ان سے یکساں اسفادہ نہیں ہوتا، لہذا ہم ذ یل میں ان روایات کے مفاہیم اور خصوصیات بیان کرتے ہیں۔

۲۹۰

یہ روایات کئی قسم کی ہیں:

i ۔ پہلی قسم کی روایات وہ ہیں جن میں لفظ تحریف کا ذکر ہے اور اس طرح وہ تحریف پر دلالت کرتی ہیں، ایسی روایتیں بیس ہیں۔ ان میں سے چند کا ذکر ہم یہاں کرتے ہیں اور ان جیسی دیگر روایات کا ذکر نہیں کرتے۔

پہلی روایت: علی بن ابراہیم قمی اپنی سند کے ذریعے ابوذر سے نقل کرتے ہیں:

''لما نزلت هذه الآیة: یوم تبیض وجوه و تسود وجوه، قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) ترد امتی علی یوم القیامة علی خمس رایات ثم ذکر أن رسول الله صلی الله علیه و آله یسأل الریات عما فعلوا بالثقلین فتقول الرایة الأولی: أما الاکبر فحر فناه، و نبذناه وراء ظهورنا، و أما الأصغر فعادیناه، و أبغضناه، و ظلمناه و تقول الرایة الثانیة أما الأکبر فحر فناه، و مزقناه، و خالفناه، و أما الأصغر فعادیناه و قاتلناه ،،

''جب آیت کریمہ: ''یوم تبیض وجوہ و تسود وجود،، نازل ہوئی تو رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: روز قیامت میری امت پانچ جھنڈے اٹھائے میرے سامنے پیش ہوگی۔ حضرت ابوذر فرماتے ہیں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہر گروہ سے پوچھیں گے: ثم ثقلین کے ساتھ کیا سلوک کرتے رہے؟ پہلا گروہ کہے گا: ہم نے ثقل اکبر (قرآن) میں تحریف کی اور اسے پس پشت ڈال دیا اور ثقل اصغر (عترت پیغمبرؐ) سے بغض و عداوت رکھی اور اس پر ظلم کیا۔ دوسرا گروہ کہے گا: ہم نے ثقل اکبر میں تحریف کی۔ اسے پھاڑا، ٹکڑے ٹکڑے کیا اور اس کی مخالفت کی اور ثقل اصغر سے دشمنی روا رکھی اور اس سے جنگ لڑی۔،،

دوسری روایت: ابن طاؤس اور سید محدث جزائری نے اپنی سندوں سے حسن بن حسن سامری سے ایک طویل حدیث نقل کی ہے جس میں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حدود الہٰی سے تجاوز کرنے والے کے بارے میں حذیفہ سے فرمایا:

''انه یضل الناس عن سبیل الله، و یحرف کتبابه، و یغیر سنتی،،

''یہ لوگوں کی راہ خدا سے منحرف، کتاب خدا میں تحریف اور میریؐ سنت کو تبدیل کرتا ہے۔

۲۹۱

تیسری روایت: سعد بن عبداللہ قمی نے اپنی سند سے جابر جعفی اور اس نے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''دعا رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) بمنی قال: أیها الناس انی تارک فیکم الثقلین أما ان تمسکتم بهما لن تضلوا کتاب الله و عترتی والکعبة البیت الحرام ثم قال ابوجعفر : اما کتابالله فحرفوا، و أما الکعبة فهدموا، و أما فتقلوا، و کل ودائع الله قد نبذوا و منها قد تبرأوا،،

''رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے منیٰ میں دعا فرمائی اور پھر فرمایا: اے لوگو! میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ وہ دوگرانقدر چیزیں قرآن اور میری عترتؑ ہیں اور دیکھو! کعبہ، واجب الاحترام ہے۔ اس کے بعد امام(ع) نے فرمایا: لوگوں نے کتاب خدا میں تحریف کی، کعبہ کو گرایا، اور عترت پیغمبرؐ کو شہید کردیا۔ غرض انہوں نے خدا کی تمام امانتوں کو پس پشت ڈال دیا اور ان سے دور ہوگئے۔،،

چوتھی روایت: خصال میں صدوق نے اپنی سند سے جابر سے اور انہوں نے رسول اسلامؐ سے راویت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''یجیئ یوم القیامة ثلاثة یشکون: المصحف، و المسجد، العترة یقول المصحف یا رب حرفونی و مزقونی، و یقول المسجد یا رب عطلونی و ضیعونی، و تقول العترة یا رب قتلونا، و ردونا، و شر دونا،،

''تین چیزیں بارگاہ الہی میں شکایت کریں گی: قرآن، مسجد اور عترت پیغمبرؐ قرآن کہے گا: پالنے والے! لوگوں نے مجھ میں تحریف کی اور مجھے پھاڑ ڈالا۔ مسجد کہے گی: مجھے لوگوں نے بے آباد رکھا اور ضائع کردیا اور عترت محمد(ص) کہے گی: یارب! لوگوںنے ہمیں شہید کیا اور جلا وطن کیا۔،،

۲۹۲

پانچویں روایت: علی بن سوید کہتے ہیں: میں نے امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) کو ایک خط لکھا جب آپ زندان میں تھے۔ علی بن سوید نے اپنے خط اور امام(ع) کے جواب کا مکمل ذکر کیا ہے، جس میں آپ نے فرمایا:

''کتبت الی أبی الحسن موسیٰ و هو فی الحبس کتابا الی أن ذکر جوابه بتمامه، و فیه سوله اؤتمنوا علی کتاب الله فحرفوه و بدلوه،،

''لوگوں میں کتاب الہٰی بطور امانت چھوڑ دی گئی مگر انہوں نے اس میں تحریف کی اور اسے تبدیل کردیا۔،،

چھٹی روایت: ابن شہر آشوب، اپنی سند سے عبداللہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے روز عاشور اپنے خطبے میں فرمایا:

''انما انتم من طواغیت الامة، و شذاذ الأحزاب، و نبذة الکتاب، و نفئة الشیطان، و عصبة الآثام، و محر فی الکتاب،،

''تم اس امت کے طاغوت، گھٹیا گروہ، قرآن کو پس پشت ڈالنے والے، شیطان کی اولاد، گناہ کے پتلے او رکتاب خدا میں تحریف کرنے والے لوگ ہو۔،،

ساتویں روایت: ابن قولویہ نے کتاب ''کامل الزیارات،، میں جسن بن عطیہ اور اس نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اذا دخلت الحائر فقل: اللهم العن الذین کذبوا رسلک، وهدموا کعبتک، و حرفوا کتابک،،

''جب تم سید الشہداءؑ کے حرم میں داخل ہو تو کہو: ان لوگوں پر تیری لعنت ہو جنہوں نے تیرے رسولوں کی تکذیب کی، تیرے کعبہ کو منہدم کیا اور تیری کتاب میں تحریف کی۔

آٹھویں روایت: حجال نے قطبہ بن میمون سے اور اس نے عبد الاعلیٰ سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا:

''قال أبو عبدالله(ع) أصحاب العربیة یحرفون کلام الله عزوجل عن مواضعه،،

''عربیت پرست قرآن میں اس کی جگہوں میں تحریف کرتے ہیں۔،،

۲۹۳

روایات کا حقیقی مفہوم

اس مضمون کی روایات کا جواب یہ ہے اور آخری روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تحریف سے مراد قاریوں کا اختلاف اور قرااءات کے سلسلے مںی ان کا ذاتی اجتہاد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت اور اصل قرآن تو محفوظ ہے۔ صرف قراءت کی کیفیت میں اختلاف ہے اور تحریف کی بحث کے آغاز میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ اس معنی میں قرآن میں یقیناً تحریف ہوئی ہے چونکہ سات کی سات قرااءات متواتر نہیں ہیں بلکہ اگر قرااءات ہفتگانہ متواتر بھی ہوں پھر بھی اس معنی میں قرآن میں تحریف ہوئی ہے اس لیے کہ قرااءات زیادہ ہیں اور یہ سب کی سب ظنی اجتہادات پر مشتمل ہیں جن سے قہری طور پر قراءت کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ اس روایت کا مستدل کے مقصد و مدعا سے کوئی تعلق نہیں۔

جہاں تک باقی روایات کا تعلق ہے ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں تحریف سے مراد آیات قرآنی کو غلط معانی پر محمول کرنا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ اہل بیتؑ کے فضائل کا انکار، ان سے دشمنی کرنا اور جنگ لڑنا ہے۔ اس بات کی شہادت اس سے ملتی ہے کہ سید الشہداءؑ کے خطبے میں تحریف کی نسبت آپ کے مقابلے میں آنے والے بنی امیہ کی طرف دی گئی ہے۔

آغاز بحث میں مذکورہ روایت میں امام باقر (علیہ السلام) نے فرمایا ہے:

''و کان من نبذهم الکتاب أنهم أقاموا حروفه، و حرفوا حدوده،،

''ان لوگوں نے کتاب الہٰی کو اس طرح پس پشت ڈال دیا کہ اس کے حروف کو تو برقرار رکھا مگر اس کی حدود میں تحریف کی۔،،

i ۔ ہم یہ بھی بتاچکے ہیں کہ قرآن میں اس معنی (الفاظ قرآن سے غلط معنی اخذ کرنا) میں یقیناً تحریف واقع ہوئی ہے۔ یہ ہمارے محل نزاع سے خارج ہے کیونکہ اگر قرآن میں یہ تحریف واقع نہ ہوئی ہوتی تو عترت پیغمبرؐ کے حقوق محفوظ رہتے، رسول اسلامؐ کا احترام برقرار رہتا اور آہل رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے حقوق پامال کرکے رسول گرامیؐ کو اذیت نہ دی جاتی۔

۲۹۴

ii ۔ دوسری قسم کی روایات وہ ہیں جن کے مطابق قرآنی آیات میں ائمہ ہدیٰؑ کے نام موجود تھے جو تحریف کے نتیجے میں نکال دیئے گئے ہیں اور یہ روایات کثرت سے ہیں۔ان میں چند یہ ہیں:

الف۔ کافی کی روایت ہے جسے محمد بن فضیل نے ابو الحسن موسیٰ ابن جعفر(علیہما السلام) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''ولایۃ علی بن ابی طالب مکتوب فی جمیع صحف الانبیاء و لن یبعث اللہ رسولا الا بنبوۃ محمد و ''ولایۃ،، و صیہ۔ صلی اللہ علیہما و آلھما،،

''امیر المومنین (ع)کی ولایت تمام انبیاءؑ کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے کسی بھی رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو اس وقت تک نہیں بھیجا جب تک اسے خاتم الانبیائؐ کی نبوّت اور آپ کے وصی (علیہ علیہ السلام) کی ولایت سے آگاہ نہیں کیا۔،،

ب۔ عیاشی میں امام صادق(ع) سے راویت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''لو قرأ القرآن کما انزل لألفینا مسمین،،

''اگر قرآن کی اسی طرح تلاوت کی جاتی جس طرح اسے نازل کیا گیا تھا تو لوگ ہمیں نام سے پہچانتے۔،،

ج۔ کافی، تفسیر عیاشی میں امام محمد باقر(ع) سے اور کنزالفوائد میں مختلف سندوں سے ابن عباس سے اور تفسیر فرات بن ابراہیم کوفی میں متعدد سندوں سے اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے:

''قالوا: قال امیر المومنین (ع)القرآن نزل علی اربعة ارباع، ربع فینا، و ربع فی عدونا، و ربع سنن و امثال، و ربع فرائض و احکام ، و لنا کرائم القرآن،،

''امیر المومنین (ع)نے فرمایا: قرآن چار حصوں میں نازل ہوا ہے۔ اس کا ایک چوتھائی ہمارے دشمنوں کے بارے میں، ایک چوتھائی سیرت اور مثالوں کے بارے میں اور ایک چوتھائی واجبات اور دیگر احکام کے بارے میں ہے اور قرآن کی عزت و کرامت ہماری ذات سے مختص ہے۔،،

۲۹۵

د۔ کافی میں امام محمد باقر(ع) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''نزل جبرئیل بهذه الآیة علی محمد هکذا: و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فی علی فاتوا سورة من مثله،،

''جبرئیل آنحضرتؐ کی خدمت میں یہ آیت اس طرح لے کر آیا تھا: ''علیؑ کے بارے میں کچھ ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اس میں اگر شک ہو تو اس کی مانند ایک سورہ پیش کرکے دکھاؤ۔،،

جواب: بعض چیزوں تفسیر قرآن کے طور پر نازل ہوا کرتی تھیں جو کہ خود قرآن نہیں ہوتی تھیں۔ لہٰذا ان روایات سے بھی یہی مراد ہونی چاہیے کہ اگر قرآن میں ائمہ (ع) کے نام موجود تھے تو بطور تفسیر ہوں گے اور قرآن کا حصہ نہیں ہوں گے۔

اگر ان روایات سے یہ معنی اخذ نہ کئے جائیں تو سرے سے ان روایات کو رد کرنا پڑے گا کیونکہ یہ روایات کتاب و سنت اور ان قطعی دلیلوں کے خلاف ہیں جن سے عدم تحریف ثابت ہوتی ہے۔ روایات متواترہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ روایات کو قرآن و سنت کے مقابلے میں پیش کرنا ضروری ہے اور جو روایت کتاب خدا کے خلاف ہو اس کو ٹھکرا اور دیوار پر مار دینا واجب ہے۔

قرآن میں امیر المومنین (ع)کے نام کی تصریح نہ ہونے کی دلیلوں میں سے ایک دلیل حدیث غدیر ہے۔ کیونکہ حدیث غدیر می اس بات کی تصریح ہے کہ رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے خدا کی طرف سے حکم و تاکید اور اپنےؐ تحفظ کی ضمانت لینے کے بعد امیر المومنین کو اپنا ولی نصب فرمایا۔

اگر قرآن میں امیر المومنین (ع)کا نام موجود ہوتا تو اس تقرری اور مسلمانوں کے اس عظیم اجتماع کے اہتمام کی ضرورت نہ ہوتی اور نہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو کسی قسم کا خطرہ محسوس ہوتا۔

۲۹۶

خلاصہ یہ کہ حدیث غدیر کی صحت سے ان روایات کا کذب ثابت ہوتا ہے جو یہ کہتی ہیں کہ ائمہ (ع) کے اسماء قرآن مجید میں موجود ہیں۔ یہ نکتہ خاص کر قابل توجہ ہے کہ حدیث غدیر، حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اسلامؐ کی زندگی کے آخری ایام میں صادر ہوئی تھی جب سارا قرآن نازل ہوچکا اور مسلمانوں میں پھیل گیا تھا اور آخری روایت جو کافی میں نقل کی گئی ہے وہ بذات خود قابل تصدیق نہیں ہے۔

ان سب کے علاوہ جب پیغمبراکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی نبوت کو ثابت اور قرآن کی مثل لانے کا چیلنج کیا جارہا ہو تو ایسے موقع پر علی (علیہ السلام) کا نام ذکر کرتنا مقتضیٰ حال کے مطابق نہیں ہے اور ان تمام روایات کی معارض کافی کی صحیحہ ابی بصیر ہے۔ ابو بصیر کہتے ہیں: میں نے امام(ع) سے آیہ:

( أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ ) ۴:۵۹ کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:

''قال: فقال نزلت فی علی بن ابی طالب و الحسن ؑو الحسین ؑفقلت له: ان الناس یقولون فما له لم یسم علیا و أهل بیته فی کتاب الله ۔قال: فقولوا لهم ان رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) نزلت علیه الصلاة و لم یسم الله لهم ثلاثا ،و لا أربعاً، حتی کان رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) هو الذی فسر لهم ذلک ۔۔۔(۱)

''یہ آیت کریمہ علی ابن ابی طالب، حسن اور حسین(علیہم السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ میں نے عرض کیا: مولا! لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے قرآن میں آپ اور آپ کے اہل بیتؑ کے نام کیوں ذکر نہیں فرمائے؟ آپ نے فرمایا: تم ان لوگوں کو جواب میں کہو کہ خدا نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نماز بھی نازل فرمائی ہے، لیکن قرآن میں تین یا چار رکعتوں کاذکر کسی بھی جگہ نہیں ہے بلکہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) اس کی تفسیر فرمایا کرتے تھے۔،،

بنابرایں یہ روایت ان تمام روایات پر مقدم ہوگی ارویہ ان روایات کا صحیح مطلب و مقصد بیان کررہی ہے اور

____________________

(۱) الوافی، ج ۲، باب ۳۰، مانص اللہ و رسولہ علیہم، ص ۶۳۔

۲۹۷

یہ کہ قرآن میں علیؑ کا نام بطور تفسیر و تنزیل بیان کیا گیا ہے ۔ یہ قرآن کا حصہ نہیں ہے، جس کی تبلیغ کا حکم دیا گیا ہو۔

اس کے علاوہ جنہوں نے حضرت ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا تھا انہوں نے اپنے استدلال میں یہ کبھی نہیں کہا کہ حضرت علی(علیہ السلام) کا نام (بطور خلیفہ) قرآن میں موجود ہے۔ اگر آپ کا نام قرآن میں موجود ہوتا تو یہ ان لوگوں کے لئے ایک بہترین دلیل بنتی اور وہ اس کا ذکر ضرور کرتے ۔

اس دلیل کو اس اعتبار سے بھی زیادہ تقویت حاصل ہوتی ہے کہ (مستدل کے زعم میں) جمع قرآن کا مسئلہ، مسئلہ خلافت کے تصفیہ کے کافی عرصہ بعد پیش آیا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کسی آیہ میں علی (علیہ السلام) کا نام موجود نہیں تپا جس کو حذف کردیا گیا ہو۔

iii ۔ تیسری قسم کی روایات وہ ہیں جن کے مطابق قرآن میں اضافہ اور کمی کی صورت میں تحریف واقع ہوئی ہے اور یہ کہ امت نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد بعض کلمات قرآن کو تبدیل کرکے دوسرے کلمات کو رکھ دیا ہ۔ وہ روایات یہ ہیں:

الف۔ علی بن ابراہیم قمی نے حریز کی سند سے حضرت ابی عبد اللہ امام صادق (علیہ السلام) سے سورہ حمد کی آیہ کو یوں بیان فرمایا ہے:

صراط من أنعمت علیهم غیر المغضوب علیهم و غیر الضالین

ب۔ عیاشی نے ہشام بن سالم سے راویت کی ہے۔ ہشام فرماتے ہیں میں نے حضرت ابو عبداللہ صادق(ع) سے آیہ کریمہ:

( إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ ) ۳:۳۳

کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:

آیہ کریمہ اصل می ''آل ابراہیم و آل محمد علی العالمین،، تھی لوگوں نے ایک اسم کی جگہ دوسرے کو رکھ دیا ہے۔ یعنی لوگوں نے قرآن میں تبدیلی کی ہے اور آل محمد کی جگہ آل عمران رکھ دیا ہے۔

۲۹۸

جواب:

ان روایات کی سند ضعیف ہے اور اگر اس سے چشم پوشی بھی کی جائے تو یہ روایات قرآن، سنت اور اجماع مسلمین کے خلاف ہیں جن کے مطابق قرآن میں ایک حرف کی بھی زیادتی نہیں ہوئی ہے، حتیٰ کہ جو حضرات تحریف کے قائل ہیں وہ بھی اس معنی میں تحریف کے قائل نہیں ہیں۔

علماء کی ایک جماعت نے قرآن میں زیادتی و اقع نہ ہونے پر اجماع کا دعویٰ فرمایا ہے اور یہ کہ جو کچھ بھی بین دفتین موجود ہے، سب کا سب قرآن ہے اور ایک لفظ بھی زیادہ نہیں ہے۔ جن حضرات نے اجماع کا دعویٰ فرمایا ہے ان میں شیخ مفید، شیخ طوسی، شیخ بہائی اور دیگر علمائے کرام شامل ہیں۔

اس سے قبل احتجاج طبرسی کی وہ روایت بھی بیان کی جاچکی ہے جس کے مطابق قرآن میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

iv ۔ چوتھی قسم کی روایات وہ ہیں جن کے مطابق قرآن میں تحریف کمی کی صورت میں واقع ہوئی ہے۔

جواب:

ان روایات کو اس معنی پر حمل کیا جائے گا جس پر مصحف امیر المومنین (ع)میں موجود اضافات کو حمل کیا گیا ہے اور اگر کسی روایت کو اس معنی پر حمل نہ کیا جاسکے تو اسے ٹھکرا دیا جائے گا کیونکہ یہ قرآن و سنت کی مخالف سمجھی جائے گی۔

ہم نے اپنی بحثوں کے دوران اس قسم کی روایات کاایک اور معنی بھی کیا ہے۔ شاید یہ معنی سب سے قریب ہو مگر اختصار کی خاطر اس معنی کے ذکر سے احتراز کیا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ کسی اور جگہ اس کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔

اس قسم کی بعض بلکہ اکثر روایات کی سند ضعیف ہے اور بعض روایات کا تو بذات خود کوئی صحیح معنی نہیں بنتا اور علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ یا تو اس قسم کی روایات کی تاویل کرنی چاہےے یا انہیں ٹھکرادینا چاہیے۔

۲۹۹

ان علمائے کرام میں سے ایک محقق کلباسی ہیں۔ ان سے منقول ہے:

''وہ تمام روایات اجماع علماء کے خلاف ہیں جو قرآن میں تحریف پر دلالت کرتی ہیں۔،،

آپ مزید فرماتے ہیں:

''اس قول کی کوئی دلیل نہیں کہ موجودہ قرآن میں کسی قسم کی کمی موجود ہے۔ اس لیے کہ اگر اس میں کسی قسم کی کمی واقع ہوئی ہوتی تو یہ مشہور ہوجاتی بلکہ بطور تواتر اس کو نقل کیا جاتا کیونکہ غیر معمولی اور اہم واقعات کا یہی تقاضا ہے کہ انہیں بطور تواتر نقل کیا جائے اور تحریف فی القرآن سے بڑھ کر اور کون سا واقعہ اہم ہوسکتا ہے۔،،

''شارح وافیہ،، محقق بغدادی نے اس بات کی تصریح کی ہے اور اسے محقق کرکی سے نقل فرمایا ہے جنہوں نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔ محقق کرکی اس رسالہ میں فرماتے ہیں:

''جو روایات بھی قرآن میں کمی واقع ہونے پر دلالت کرتی ہیں یا تو ان کی تاویل کرنی چاہیے یا انہیں ٹھکرا دینا چاہیے، چونکہ جو حدیث بھی قرآن، سنت متواترہ اور اجماع کے خلا ف ہو اور قابل تاویل نہ ہو اسے ٹھکرانا ضروری ہے۔،،

مؤلف: محقق کرکی نے اپنے اس کلام میں اس نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس کی طرف اس سے قبل ہم نے اشارہ کیاتھا۔ یعنی روایات متواترہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جو روایت بھی قرآن کے خلاف ہو اس کو ٹھکرانا لازمی ہے ان متواترہ روایات میں سے ایک روایت یہ ہے:

۳۰۰