البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن11%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314021 / ڈاؤنلوڈ: 9314
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

اس طرح جدید قرآنی نسخے مرتب کرکے مصر، شام، مکّہ، مدینہ اور کوفہ و بصرہ بھجوا دیئے، اور آج کا موجودہ قرآن انہی نسخوں کے مطابق ہے۔ باقی جتنے بھی قرآنی نسخے تھے وہ جمع کروا دیئے گئے اور ایک نسخہ تک باقی نہ رہا۔(۱)

یہ دعویٰ ہذیان اور مجذوب کی بڑ معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ حجاج جو بنی امیہ کے والیوں میں سے ایک والی تھا، اس کی کیا جراءت تھی کہ قرآن میں تحریف کرنے کی جسارت کرتا بلکہ وہ فروع دین میں سے بھی کسی میں رد و بدل کرنے کا مرتکب نہیں ہوسکتا تھا، چہ جائیکہ وہ قرآن میں تحریف کا مرتکب ہوتا جو اساس دین اور سرچشمہئ شریعت ہے۔ اس کی کیا قدرت اورمجال تھی کہ وہ سارے اسلامی ممالک میں پھیلے ہوئے قرآنلوں کی طرف دست تجاوز دراز کرتا۔

اگر اس نے اس جرم کا ارتکاب کیا تھا تو مؤرخین نے اس عظیم المیہ کا ذکر کیوں نہیں کیا اورکیوں اسے اپنی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا؟ حالانکہ اس غیر معمولی سانحہ کا تقاضہ تھا کہ یہ تاریخ میں ثبت ہو جاتا۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ نہ تو حجاج کے زمانے میں کسی مسلمان نے اسے نقل کیا ہے اور نہ اس کے دور حکومت کے بعد کسی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تمام مسلمانوں نے حجاج کے دور حکومت کے بعد بھی اس سنگین جرم سے چشم پوشی کی ہو۔

فرض کیجیئے حجاج میں یہ قدرت تھی کہ وہ قرآن کے تمام نسخوں کو اکٹھا کرلے اور تمام اسلامی ممالک میں ایک نسخہ بھی باقی نہ رہنے دے۔ لیکن کیا مسلمانوں کے سینوں اور حافظان قرآن کے دلوں سے بھی وہ قرآن کو خارج کرسکتا تھا؟ جبکہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ جسے خدا ہی جانتا ہے۔

اس کے علاوہ اگر قرآن بنی امیہ کے خلاف کوئی آیہ ہوتی تو حجاج سے پہلے معاویہ اسے قرآن سے خارج کرنے کی کوشش کرتا جس کی قدرت و طاقت حجاج سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اگر معاویہ اس جرم کا مرتکب ہوتا تو اصحاب امیر المومنین (ع)معاویہ کے خلاف جہاں دوسرے احتجاجات اور دلائل پیش کرتے تھے جو تاریخ، کتب حدیث اور علم کلام میں ثبت ہیں، وہاں تحریف قرآن کے مسئلے

____________________

(۱) مناہل العرفان، ص ۲۵۷۔

۲۸۱

کو بھی اٹھاتے۔ حالانکہ تاریخ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

ہمارے گذشتہ بیانات سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ تحریف کا دعویٰ کرنے والے عقلی بدیہیات کے مخالف اور منکر ہیں۔ ایک ضرب المثل مشہور ہے۔

''حدث الرجل بما لا یلیق فان صدق فهو لیس بعاقل،،

''کسی آدمی سے غیر معقول بات کریں، اگر وہ اس کی تصدیق کرے تو سمجھ لیں کہ وہ عقلمند نہیں ہے۔،،

قائلین تحریف کے شبہات

تحریف کے قائل جن شبہات اور غلط فہمیوں کا سہارا لیتے ہیں ان کا بھی ذکر کرنا اور جواب دینا ضروری ہے:

پہلا شبہ:

تورات اور انجیل میں یقیناً تحریف ہوئی ہے اور شیعہ و سنی روایات متواترہ سے ثابت ہے کہ گذشتہ اقوام میںجو واقعات رونما ہوئے ہیں اس امت میں بھی ضرور واقع ہوں گے۔ چنانچہ شیخ صدوق اپنی کتاب ''اکمال الدین،، میں فرماتے ہیں کہ غیاث بن ابراہیم نے امام صادق(ع) سے اور آپ نے اپنے آباؤ اجداد(ع) سے نقل فرمایا ہے:

''قال رسول الله صلی الله علیه و آله وسلم کل ما کان فی الأمم السالفة، فانه یکون فی هذه الامة مثله حذو النعل بالنعل، و القذه بالقذه،، (۱)

''پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: جو کچھ گذشتہ اُمّتوں میں واقع ہوا ہے، بعینہ موبہ مو اس امت میں بھی واقع ہوگا۔،،

_____________________

(۱) بحار، باب افتراق الامۃ بعد النبی(ص) علی ثلاث و سبعین فرقہ، ج ۸، ص ۴، اس حدیث کے بعض حوالے اہل سنت کی سند سے اسی کتاب میں گزر چکے ہیں۔

۲۸۲

اس حدیث کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن میں تحریف ضرور واقع ہوئی ہوگی ورنہ اس حدیث کا معنی صحیح نہ ہوگا۔

جواب:

i ۔ ایسی روایات، جن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، سب کی سب خبر واحد ہیں جو باعث علم و عمل نہیں ہوسکتیں ان کے متواتر ہونے کا دعویٰ بلا دلیل ہے اور کتب اربعہ (اصول کافی، تہذیب، من لایحضرہ الفقیہ اور استبصار) میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تورات میں تحریف ہونے اور قرآن میں تحریف ہونے میں کوئی ملازمہ نہیں ہے (تورات میں تحریف ہوئی ہے تو ضروری نہیں کہ قرآن میں بھی تحریف ہو)۔

ii ۔ اگر یہ دلیل درست ہو تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن میں اضافہ بھی ہوا ہو جس طرح تورات و انجیل میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا بطلان واضح ہے۔

iii ۔ گذشتہ امتوں میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو اس امت میں رونما نہیں ہوئے۔ مثلاً بچھڑے کی پوجا کرنا، بنی اسرائیل کا چالیس سال سرگداں رہنا، فرعون اور اس کے ساتھیوں کا غرق ہونا، حضرت سلیمانؑ کا جن و انس پر حکومت کرنا، حضرت عیسیٰؑ کو آسمان کی طرف لے جانا، حضرت موسیٰ! کے وحی حضرت ہارونؑ کا حضرت موسیٰؑ سے پہلے وفات پانا، حضرت موسیٰؑ سے نو معجزات رونما ہونا۔ بغیر باپ کے حضرت عیسیٰؑ کی ولادت،گذشتہ اقوام میں سے بہت سی قوموں کا بندروں اور خنزیروں کی صورت میں مسخ ہونا اور اس قسم کے بیشمار واقعات ایسے ہیں جوگذشتہ اقوام میں تو واقع ہوئے ہیں لیکن اس اُمّت میں ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ معصومؑ کی مراد ہو نہیں جو ظاہری طور پر روایات سے سمجھی جاتی ہے۔ لامحالہ ان روایات کا مطلب یہ ہے کہ بعض باتوں میں اس امت کو گذشتہ امتوں سے تشبیہ دی گئی ہے، ہر واقعہ میں نہیں۔

۲۸۳

بنابرایں اگرچہ قرآن کا کوئی حصہ کم نہیں کیا گیا لیکن قرآن کے حروف اور الفاظ برقرار رکھتے ہوئے اس کے احکام اور حدود کی پیروی نہ کرنے پر بھی تحریف صادق آتی ہے۔ چنانچہ اس بحث کے آغاز میں مذکورہ روایت کا مفہوم بھی یہی تھا۔ اس کی تائید و تاکید ابو واقدلیثی کی روایت سے بھی ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

''خیبر کی طرف جاتے ہوئے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) مشرکین کے ایک درخت کے قریب سے گزرے جو ''ذات انواط،، کہلاتا تھا، مشرکین اس پر اپنا اسلحہ لٹکاتے تھے، اصحاب پیغمبرؐ نے عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) جسطرح مشرکین کے پاس ''ذات انواط،، ہے ہمارے لیے بھی ایک ''ذات انواط،، کا بندوبست فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! یہ اسی طرح جیسے حضرت موسیٰؑ کی قوم نے کہا تھا کہ آپ ہمارے لیے بھی بہت سے خداؤں کا انتظام کریں جس طرح ان کے کئی خدا ہیں۔ قسم بخدا! تم بھی گذشتہ اقوام کی سنت پر عمل کرو گے۔،،(۱)

یہ روایت تصریح کرتی ہے کہ اس امت میں رونما ہونے والے واقعات بعض جہات سے گذشتہ اقوام کے واقعات سے مشابہت رکھتے ہیں، ہر لحاظ سے نہیں۔

iv ۔ اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ روایات سند کے اعتبار سے متواتر ہیں اور ان کا معنی بھی وہی ہے جیسا کہ تحریف کے قائل حضرات کہتے ہی، پھر بھی ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ گذشتہ زمانے میں قرآن میں تحریف ہوئی ہے۔ اس لیے کہ ہوسکتا ہے آئندہ زمانے میں قرآن میں کو ئی کمی بیشی ہونے والی ہو۔ کیوں کہ بخاری کی روایت کے مطابق قیامت تک اس اُمّت کے واقعات گذشتہ اُمّتوں کے واقعات کی مانند رونما ہوتے رہیں گے۔

بنابرایں ان روایات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صدر اسلام یا خلفاء کے دور میں قرآن میں تحریف واقع ہوئی ہے۔

_____________________

(۱) صحیح ترمذی، باب ''ما جاء لترکبن سنن من کان قبلکم،، ج ۹، ص ۲۶۔

۲۸۴

دوسرا شبہ:

تحریف کی دوسری دلیل یہ ہے کہ امیر المومنین (ع)کے پاس موجودہ قرآن کے علاوہ ایک اور قرآن تھا جسے آپ نے لوگوں کے سامنے پیش کیا مگر انہوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا۔ یہ قرآن کچھ ایسے حصوں پر مشتمل تھا جو موجودہ قرآن میں نہیں ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ قرآن امیر المومنین (ع)کے پاس موجود قرآن سے کم ہے اور یہی وہ تحریف ہے جس کی نفی و اثبات میں اختلاف ہے اور اس موضوع کی روایات بہت سی ہیں۔

i ۔ ان میں سے ایک روایت میں ہے کہ امیر المومنین (ع)نے مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے فرمایا:

''یا طلحة ان کل آیة أنزلها الله تعالیٰ علی محمد صلی الله علیه و آله عندی باملاء رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) و خط یدی، و تأویل کل آیة أنزلها الله تعالیٰ علی محمد ؐو کل حلال ،أو حرام، أو حدّ، أو حکم، أو شیء تحتاج الیه الأمة الی یوم القیامة، فهو عندی مکتوب باملاء رسول الله و خط یدی، حتی أرش الحدش ۔۔۔،، (۱)

''اے طلحہ! قرآن کی ہر آیت جو خدا نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل فرمائی، میرے پاس موجود ہے، جس کی املاء رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے لکھوائی اور میں نے اپنے ہاتھ سے لکھی۔ ہر اس آیت کی تاویل جو خدا نے محمدؐ پر نازل فرمائی، ہر حلال، حرام، حد، حکم اور ہر وہ چیز جس کی امت محمدیؐ کو قیامت تک احتیاج ہے میرے پاس رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی دی ہوئی املاء میں میرے ہاتھ کی لکھی ہوئی موجود ہے۔ حتیٰ کہ اس میں ایک خراش کی حد (سزا) تک کا ذکر موجود ہے۔،،

______________________

(۱) مقدمہ تفسیر ا لبرھان، ص ۲۷، ا س روایت میں یہ تصریح موجود ہے کہ موجودہ قرآن میں جو کچھ ہے وہ سب قرآن ہی ہے۔

۲۸۵

ii ۔ امیر المومنین (ع)کا ایک زندیق سے استدلال کے بارے میں ہے:

''أتی بلکتاب کملاً مشتملاً علی التأویل و التنزیل، و المحکم و المتشابه ،و الناسخ و المنسوخ، لم یسقط منه حرف ألف و لا لام فلم یقباوا ذلک،، (۱)

''آپ نے ایک ایسی مکمل کتاب پیش کی جو تاویل و تنزیل، محکم و متشابہ اور ناسخ و منسوخ پر مشتمل تھی اور اس میں سے ایک الف اور لام تک ضائع نہیں ہوا تھا۔ مگر ان لوگوں نے قبول نہیں کیا۔،،

iii ۔ کافی میں جابر کی سند سے امام محمد باقر(ع) سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا:

''ما یستطیع احد ان یدعی ان عنده جمیع القرآن کله، ظاهره و باطنه غیر الاوصیائ،، (۲)

''سوائے اوصیاء کرامؑ کے کوئی انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ قرآن کا ظاہر و باطن غرض سارا قرآن اس کے پاس موجود ہے۔،،

iv ۔ جابر امام محمد باقر(ع) سے روایت کرتے ہیں:

''سمعت اءبا جعفرؑ یقول ما ادّعی اءحد من

''لوگوں میں سے جو بھی قرآن کو اس طرح جمع کرنے کا دعویٰ کرے

الناس أنه جمع القرآن کله کما أنزل الا کذاب، و ما جمعه وحفظه کما نزله الله تعالیٰ الا علی بن ابی طالب و الأئمة من بعده علیهم السلام،، (۳)

جس طرح وہ نازل ہوتا تھا وہ کذاب ہوگا۔ سوائے امیر المومنین (ع)اور باقی ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کے کسی نے بھی قرآن کو اس طرح جمع اور محفوظ نہیں کیا جس طرح وہ نازل ہوا تھا۔،،

____________________

(۱) تفسیر صافی المقدمہ السادسہ، ص ۱۱۔

(۲) الوافی، ج ۲، کتاب الحجۃ، باب ۷۶۔ ص ۱۳۰۔

(۳) الوافی، ج ۲، کتاب الحجۃ باب ۷۶، ص ۱۳۰۔

۲۸۶

جواب:

اس میں کوئی شک نہیں کہ امیر المومنین (ع)کے پاس ایک ایسا قرآن موجود تھا جو سوروں کی ترتیب کے اعتبار سے موجودہ قرآن سے مختلف تھا۔ جس پر تمام علماء کا اتفاق ہے اور یہ محتاج دلیل نہیں۔ اگرچہ یہ بھی اپنے مقام پر درست ہے کہ امیر المومنین (ع)کا قرآن کچھ ایسی زاید چیزوں پر مشتمل تھا جو موجودہ قرآن میں نہیں ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ زاید چیزیں قرآن کا حصہ تھیں جو تحریف کی وجہ سے حذف کردی گئی ہیں بلکہ صحیح اور حق یہ ہے کہ ان زاید چیزوں میں کلام کی تفسیر اور اس کی تاویل بیان کی گئی ہے یا مقصود الہٰی کی تشریح کی گئی ہے۔

دراصل اس شبہ یا دلیل کی بنیاد یہ ہے کہ تنزیل سے مراد وہ کلام ہو جو بطور قرآن نازل کیا گیا ہو اور تاویل سے کسی لفظ سے ایسی مراد کا قصد کیا جائے جو ظاہری معنی کے خلاف ہو۔ لیکن یہ دونوں معنی متاخرین کی اصطلاح ہیں۔

لغت میں ان دونوں معنی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے تا کہ روایات میں تاویل و تنزیل سے یہ معانی مراد لیے جائیں۔

تاویل جو ''اول،، کا مزید فیہ ہے اس کا معنی رجوع اور برگشت ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے:''اول الحکم الی اهله ای رده الیهم،، (یعنی) ''حکم کو اپنے اہل کی طرف پلٹاؤ،،۔

کبھی تاویل سے انجام کار مراد ہوتا ہے۔ چنانچہ اس آیہ کریمہ میں یہ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے:

( وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ) ۱۲:۶

''اور (تمہارا پروردگار) تمہیں خوابوں کی تعبیر سکھائے گا۔،،

( نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ ) :۳۶

''ہم کو اس کی تعبیر بتاؤ۔،،

( هَـٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ ) :۱۰۰

''یہ تعبیر ہے میرے اس خواب کی۔،،

۲۸۷

( ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا ) ۱۸:۸۲

''یہ حقیقت ہے ان واقعات کی جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا۔،،

ان کے علاوہ بھی دوسرے مقامات پر لفظ تاویل انجام کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ بنابرایں تاویل قرآن سے مراد کلام کی بازگشت اور اس کا انجام ہے۔ چاہے یہ ظاہری معنی ہو جسے ہر اہل لغت سمجھ سکتا ہے یا ایک مخفی معنی ہو جسے صرف راسخین فی العلم سمجھتے ہیں۔

تنزیل بھی ثلاثی مزید فیہ ہے جس کی اصل نزول ہے، کبھی تنزیل نازل شدہ چیز کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

( إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ ) ۵۶:۷۷

''بیشک یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے۔،،

( فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ ) : ۷۸

''جو کتاب (لوح) محفوظ میں ہے۔،،

( لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ) : ۷۹

''اس کو بس وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاک ہیں۔،،

( تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ) :۸۰

''سارے جہاں کے پروردگار کی طرف سے (محمدؐ پر) نازل ہوا ہے۔،،

اس بیان کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ خدا کی طرف سے بطور وحی نازل ہونے والی ہر چیز قرآن ہی ہو۔ بنابراین ان روایات سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کے قرآن میں جو زاید چیزیں تھیں وہ قرآنی آیات کی تفسیر ان میں ان آیات کا انجام بیان کیا گیا ہے۔ یہ روایات ہرگز اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ یہ زاید چیزیں قرآن کا حصہ تھیں۔

۲۸۸

امیر المومنین (ع)کے قرآن میں منافقین کے جو نام مذکور ہیں وہ بھی اسی (تنزیل و تاویل) کے ذی میں آتے ہیں۔ کیونکہ ان منافقین کے نام یقیناً بطور تفسیر ذکر کئے گئے ہیں (اور وہ قرآن کا حصہ نہیں ہےں) اس امر پر وہ قطعی دلائل بھی دلالت کرتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کا کوئی بھی حصہ ضائع نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ منافقین کے ساتھ پیغمبر اسلام ؐ کا جو برتاؤ تھا اس کا بھی یہ تقاضا نہیں کہ منافقین کے نام قرآن کی صورت میں نازل کیے جاتے کیونکہ آپ کا شیوہ یہ تھا کہ منافقین کو زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ شریک کرتے اور ان کی منافقت، جسے آپ بخوبی جانتے تھے، کو راز میں رکھتے تھے۔ یہ ایسی چیز ہے جو آپ کی سیرت اور حسن اخلاق سے آگاہ آدمی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ان حالات میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ان منافقین کے ناموں کی قرآن میں تصریح کردی جائے اور دن رات خود منافقین اور مسلمانوں کو یہ تاکید کی جائے کہ منافقین پر لغت بھیجیں۔ کیا اس قسم کی روش کا احتمال بھی دیا جاسکتا ہے تاکہ اس کی صحت اوربطلان کے بارے میں سوچا جائے اور اس کے اثبات کے لیے ان روایات سے تمسک کیا جائے جن کے مطابق امیر المومنین (ع)اور اپنے دیگر اصحاب کے لیے بعض منافقین کے نام موجود ہیں؟!

البتہ تمام منافقین کو ابو لہب، جو کہ برملا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے دشمنی کا مظاہرہ کرتا تھا اور رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بھی یہ جانتے تھے کہ یہ مشرک ہی مرے گا، پر قیاس نہیں کیا جاسکتا(۱) ہاں! بعید نہیں کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے امیر المومنین (ع)اور اپنے دیگر اصحاب کے یے بعض منافقین کی نشاندھی فرمائی ہو۔

گذشتہ مباحث کا خلاصہ یہ ہے ہوا کہ اگرچہ مصحف (قرآن) علی (علیہ السلام) میں کچھ زاید چیزیں موجود ہیں مگر یہ اس قرآن کا حصہ نہیں ہیں جس کی تبلیغ کا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو حک دیا گیا تھا اور ان زاید چیزوں کو قرآن کا حصہ قرار دینے کی کوئی دلیل ہی نہیں بلکہ یہ نظریہ بذات خود باطل ہے اور اس کے بطلان پر وہ تمام قطعی دلائل دلالت کرتے ہیں جن سے تحریف قرآن کی نفی ہوتی ہے۔

____________________

) ۱) یعنی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اگر قرآن میں ابولہب کا نام آسکتا ہے تو باقی منافقین کے نام کیوں نہیں آسکتے۔ (مترجم)

۲۸۹

تیسرا شبہ

تحریف کی تیسری دلیل کے طور پر اہل بیت عصمتؑ کی ان متواتر روایات کو پیش کیا جاتا ہے جو تحریف پر دلالت کرتی ہےں۔

جواب:

یہ روایات متنازع فیہ معنی میں تحریف واقع ہونے پر دلالت نہیں کرتیں۔

وضاحت:

بہت سی روایات سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں،کیونکہ ان میں سے کچھ تو احمد بن محمد سیاری کی کتاب سے منقول ہیں جس کے فاسد المذاہب ہونے پر تمام علمائے رجال کا اتفاق ہے، اس کے علاوہ یہ تناسخ کا بھی قائل تھا۔ کچھ روایات علی بن احمد کوفی سے منقول ہیں جو علمائے رجال کے نزدیک کذاب اور فاسد المذاہب تھا۔

یہ روایات اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں لیکن چونکہ کثرت سے ہیں اس لیے اتنا ضرور ثابت ہو جاتا ہے کہ بعض روایات ضرور ائمہ اطہار (ع) سے صادر ہوئی ہیں اور کم از کم اس کا ظن غالب ضرور حاصل ہو جاتا ہے۔

ان میں سے بعض روایات ایسی بھی ہیں جو معتبر طریقوں سے روایت کی گئی ہیں۔ لہٰذا ہر روایت کی سند کے بارے میں بحث کی ضرورت نہیں ہے۔

روایات تحریف

اس مقام پر یہ بحث ضروری ہے کہ ان روایات کا مفہوم ایک دوسرے سے مختلف ہے اور ان سے یکساں اسفادہ نہیں ہوتا، لہذا ہم ذ یل میں ان روایات کے مفاہیم اور خصوصیات بیان کرتے ہیں۔

۲۹۰

یہ روایات کئی قسم کی ہیں:

i ۔ پہلی قسم کی روایات وہ ہیں جن میں لفظ تحریف کا ذکر ہے اور اس طرح وہ تحریف پر دلالت کرتی ہیں، ایسی روایتیں بیس ہیں۔ ان میں سے چند کا ذکر ہم یہاں کرتے ہیں اور ان جیسی دیگر روایات کا ذکر نہیں کرتے۔

پہلی روایت: علی بن ابراہیم قمی اپنی سند کے ذریعے ابوذر سے نقل کرتے ہیں:

''لما نزلت هذه الآیة: یوم تبیض وجوه و تسود وجوه، قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) ترد امتی علی یوم القیامة علی خمس رایات ثم ذکر أن رسول الله صلی الله علیه و آله یسأل الریات عما فعلوا بالثقلین فتقول الرایة الأولی: أما الاکبر فحر فناه، و نبذناه وراء ظهورنا، و أما الأصغر فعادیناه، و أبغضناه، و ظلمناه و تقول الرایة الثانیة أما الأکبر فحر فناه، و مزقناه، و خالفناه، و أما الأصغر فعادیناه و قاتلناه ،،

''جب آیت کریمہ: ''یوم تبیض وجوہ و تسود وجود،، نازل ہوئی تو رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: روز قیامت میری امت پانچ جھنڈے اٹھائے میرے سامنے پیش ہوگی۔ حضرت ابوذر فرماتے ہیں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہر گروہ سے پوچھیں گے: ثم ثقلین کے ساتھ کیا سلوک کرتے رہے؟ پہلا گروہ کہے گا: ہم نے ثقل اکبر (قرآن) میں تحریف کی اور اسے پس پشت ڈال دیا اور ثقل اصغر (عترت پیغمبرؐ) سے بغض و عداوت رکھی اور اس پر ظلم کیا۔ دوسرا گروہ کہے گا: ہم نے ثقل اکبر میں تحریف کی۔ اسے پھاڑا، ٹکڑے ٹکڑے کیا اور اس کی مخالفت کی اور ثقل اصغر سے دشمنی روا رکھی اور اس سے جنگ لڑی۔،،

دوسری روایت: ابن طاؤس اور سید محدث جزائری نے اپنی سندوں سے حسن بن حسن سامری سے ایک طویل حدیث نقل کی ہے جس میں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حدود الہٰی سے تجاوز کرنے والے کے بارے میں حذیفہ سے فرمایا:

''انه یضل الناس عن سبیل الله، و یحرف کتبابه، و یغیر سنتی،،

''یہ لوگوں کی راہ خدا سے منحرف، کتاب خدا میں تحریف اور میریؐ سنت کو تبدیل کرتا ہے۔

۲۹۱

تیسری روایت: سعد بن عبداللہ قمی نے اپنی سند سے جابر جعفی اور اس نے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''دعا رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) بمنی قال: أیها الناس انی تارک فیکم الثقلین أما ان تمسکتم بهما لن تضلوا کتاب الله و عترتی والکعبة البیت الحرام ثم قال ابوجعفر : اما کتابالله فحرفوا، و أما الکعبة فهدموا، و أما فتقلوا، و کل ودائع الله قد نبذوا و منها قد تبرأوا،،

''رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے منیٰ میں دعا فرمائی اور پھر فرمایا: اے لوگو! میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ وہ دوگرانقدر چیزیں قرآن اور میری عترتؑ ہیں اور دیکھو! کعبہ، واجب الاحترام ہے۔ اس کے بعد امام(ع) نے فرمایا: لوگوں نے کتاب خدا میں تحریف کی، کعبہ کو گرایا، اور عترت پیغمبرؐ کو شہید کردیا۔ غرض انہوں نے خدا کی تمام امانتوں کو پس پشت ڈال دیا اور ان سے دور ہوگئے۔،،

چوتھی روایت: خصال میں صدوق نے اپنی سند سے جابر سے اور انہوں نے رسول اسلامؐ سے راویت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''یجیئ یوم القیامة ثلاثة یشکون: المصحف، و المسجد، العترة یقول المصحف یا رب حرفونی و مزقونی، و یقول المسجد یا رب عطلونی و ضیعونی، و تقول العترة یا رب قتلونا، و ردونا، و شر دونا،،

''تین چیزیں بارگاہ الہی میں شکایت کریں گی: قرآن، مسجد اور عترت پیغمبرؐ قرآن کہے گا: پالنے والے! لوگوں نے مجھ میں تحریف کی اور مجھے پھاڑ ڈالا۔ مسجد کہے گی: مجھے لوگوں نے بے آباد رکھا اور ضائع کردیا اور عترت محمد(ص) کہے گی: یارب! لوگوںنے ہمیں شہید کیا اور جلا وطن کیا۔،،

۲۹۲

پانچویں روایت: علی بن سوید کہتے ہیں: میں نے امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) کو ایک خط لکھا جب آپ زندان میں تھے۔ علی بن سوید نے اپنے خط اور امام(ع) کے جواب کا مکمل ذکر کیا ہے، جس میں آپ نے فرمایا:

''کتبت الی أبی الحسن موسیٰ و هو فی الحبس کتابا الی أن ذکر جوابه بتمامه، و فیه سوله اؤتمنوا علی کتاب الله فحرفوه و بدلوه،،

''لوگوں میں کتاب الہٰی بطور امانت چھوڑ دی گئی مگر انہوں نے اس میں تحریف کی اور اسے تبدیل کردیا۔،،

چھٹی روایت: ابن شہر آشوب، اپنی سند سے عبداللہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے روز عاشور اپنے خطبے میں فرمایا:

''انما انتم من طواغیت الامة، و شذاذ الأحزاب، و نبذة الکتاب، و نفئة الشیطان، و عصبة الآثام، و محر فی الکتاب،،

''تم اس امت کے طاغوت، گھٹیا گروہ، قرآن کو پس پشت ڈالنے والے، شیطان کی اولاد، گناہ کے پتلے او رکتاب خدا میں تحریف کرنے والے لوگ ہو۔،،

ساتویں روایت: ابن قولویہ نے کتاب ''کامل الزیارات،، میں جسن بن عطیہ اور اس نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اذا دخلت الحائر فقل: اللهم العن الذین کذبوا رسلک، وهدموا کعبتک، و حرفوا کتابک،،

''جب تم سید الشہداءؑ کے حرم میں داخل ہو تو کہو: ان لوگوں پر تیری لعنت ہو جنہوں نے تیرے رسولوں کی تکذیب کی، تیرے کعبہ کو منہدم کیا اور تیری کتاب میں تحریف کی۔

آٹھویں روایت: حجال نے قطبہ بن میمون سے اور اس نے عبد الاعلیٰ سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا:

''قال أبو عبدالله(ع) أصحاب العربیة یحرفون کلام الله عزوجل عن مواضعه،،

''عربیت پرست قرآن میں اس کی جگہوں میں تحریف کرتے ہیں۔،،

۲۹۳

روایات کا حقیقی مفہوم

اس مضمون کی روایات کا جواب یہ ہے اور آخری روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تحریف سے مراد قاریوں کا اختلاف اور قرااءات کے سلسلے مںی ان کا ذاتی اجتہاد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت اور اصل قرآن تو محفوظ ہے۔ صرف قراءت کی کیفیت میں اختلاف ہے اور تحریف کی بحث کے آغاز میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ اس معنی میں قرآن میں یقیناً تحریف ہوئی ہے چونکہ سات کی سات قرااءات متواتر نہیں ہیں بلکہ اگر قرااءات ہفتگانہ متواتر بھی ہوں پھر بھی اس معنی میں قرآن میں تحریف ہوئی ہے اس لیے کہ قرااءات زیادہ ہیں اور یہ سب کی سب ظنی اجتہادات پر مشتمل ہیں جن سے قہری طور پر قراءت کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ اس روایت کا مستدل کے مقصد و مدعا سے کوئی تعلق نہیں۔

جہاں تک باقی روایات کا تعلق ہے ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں تحریف سے مراد آیات قرآنی کو غلط معانی پر محمول کرنا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ اہل بیتؑ کے فضائل کا انکار، ان سے دشمنی کرنا اور جنگ لڑنا ہے۔ اس بات کی شہادت اس سے ملتی ہے کہ سید الشہداءؑ کے خطبے میں تحریف کی نسبت آپ کے مقابلے میں آنے والے بنی امیہ کی طرف دی گئی ہے۔

آغاز بحث میں مذکورہ روایت میں امام باقر (علیہ السلام) نے فرمایا ہے:

''و کان من نبذهم الکتاب أنهم أقاموا حروفه، و حرفوا حدوده،،

''ان لوگوں نے کتاب الہٰی کو اس طرح پس پشت ڈال دیا کہ اس کے حروف کو تو برقرار رکھا مگر اس کی حدود میں تحریف کی۔،،

i ۔ ہم یہ بھی بتاچکے ہیں کہ قرآن میں اس معنی (الفاظ قرآن سے غلط معنی اخذ کرنا) میں یقیناً تحریف واقع ہوئی ہے۔ یہ ہمارے محل نزاع سے خارج ہے کیونکہ اگر قرآن میں یہ تحریف واقع نہ ہوئی ہوتی تو عترت پیغمبرؐ کے حقوق محفوظ رہتے، رسول اسلامؐ کا احترام برقرار رہتا اور آہل رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے حقوق پامال کرکے رسول گرامیؐ کو اذیت نہ دی جاتی۔

۲۹۴

ii ۔ دوسری قسم کی روایات وہ ہیں جن کے مطابق قرآنی آیات میں ائمہ ہدیٰؑ کے نام موجود تھے جو تحریف کے نتیجے میں نکال دیئے گئے ہیں اور یہ روایات کثرت سے ہیں۔ان میں چند یہ ہیں:

الف۔ کافی کی روایت ہے جسے محمد بن فضیل نے ابو الحسن موسیٰ ابن جعفر(علیہما السلام) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''ولایۃ علی بن ابی طالب مکتوب فی جمیع صحف الانبیاء و لن یبعث اللہ رسولا الا بنبوۃ محمد و ''ولایۃ،، و صیہ۔ صلی اللہ علیہما و آلھما،،

''امیر المومنین (ع)کی ولایت تمام انبیاءؑ کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے کسی بھی رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو اس وقت تک نہیں بھیجا جب تک اسے خاتم الانبیائؐ کی نبوّت اور آپ کے وصی (علیہ علیہ السلام) کی ولایت سے آگاہ نہیں کیا۔،،

ب۔ عیاشی میں امام صادق(ع) سے راویت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''لو قرأ القرآن کما انزل لألفینا مسمین،،

''اگر قرآن کی اسی طرح تلاوت کی جاتی جس طرح اسے نازل کیا گیا تھا تو لوگ ہمیں نام سے پہچانتے۔،،

ج۔ کافی، تفسیر عیاشی میں امام محمد باقر(ع) سے اور کنزالفوائد میں مختلف سندوں سے ابن عباس سے اور تفسیر فرات بن ابراہیم کوفی میں متعدد سندوں سے اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے:

''قالوا: قال امیر المومنین (ع)القرآن نزل علی اربعة ارباع، ربع فینا، و ربع فی عدونا، و ربع سنن و امثال، و ربع فرائض و احکام ، و لنا کرائم القرآن،،

''امیر المومنین (ع)نے فرمایا: قرآن چار حصوں میں نازل ہوا ہے۔ اس کا ایک چوتھائی ہمارے دشمنوں کے بارے میں، ایک چوتھائی سیرت اور مثالوں کے بارے میں اور ایک چوتھائی واجبات اور دیگر احکام کے بارے میں ہے اور قرآن کی عزت و کرامت ہماری ذات سے مختص ہے۔،،

۲۹۵

د۔ کافی میں امام محمد باقر(ع) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''نزل جبرئیل بهذه الآیة علی محمد هکذا: و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فی علی فاتوا سورة من مثله،،

''جبرئیل آنحضرتؐ کی خدمت میں یہ آیت اس طرح لے کر آیا تھا: ''علیؑ کے بارے میں کچھ ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اس میں اگر شک ہو تو اس کی مانند ایک سورہ پیش کرکے دکھاؤ۔،،

جواب: بعض چیزوں تفسیر قرآن کے طور پر نازل ہوا کرتی تھیں جو کہ خود قرآن نہیں ہوتی تھیں۔ لہٰذا ان روایات سے بھی یہی مراد ہونی چاہیے کہ اگر قرآن میں ائمہ (ع) کے نام موجود تھے تو بطور تفسیر ہوں گے اور قرآن کا حصہ نہیں ہوں گے۔

اگر ان روایات سے یہ معنی اخذ نہ کئے جائیں تو سرے سے ان روایات کو رد کرنا پڑے گا کیونکہ یہ روایات کتاب و سنت اور ان قطعی دلیلوں کے خلاف ہیں جن سے عدم تحریف ثابت ہوتی ہے۔ روایات متواترہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ روایات کو قرآن و سنت کے مقابلے میں پیش کرنا ضروری ہے اور جو روایت کتاب خدا کے خلاف ہو اس کو ٹھکرا اور دیوار پر مار دینا واجب ہے۔

قرآن میں امیر المومنین (ع)کے نام کی تصریح نہ ہونے کی دلیلوں میں سے ایک دلیل حدیث غدیر ہے۔ کیونکہ حدیث غدیر می اس بات کی تصریح ہے کہ رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے خدا کی طرف سے حکم و تاکید اور اپنےؐ تحفظ کی ضمانت لینے کے بعد امیر المومنین کو اپنا ولی نصب فرمایا۔

اگر قرآن میں امیر المومنین (ع)کا نام موجود ہوتا تو اس تقرری اور مسلمانوں کے اس عظیم اجتماع کے اہتمام کی ضرورت نہ ہوتی اور نہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو کسی قسم کا خطرہ محسوس ہوتا۔

۲۹۶

خلاصہ یہ کہ حدیث غدیر کی صحت سے ان روایات کا کذب ثابت ہوتا ہے جو یہ کہتی ہیں کہ ائمہ (ع) کے اسماء قرآن مجید میں موجود ہیں۔ یہ نکتہ خاص کر قابل توجہ ہے کہ حدیث غدیر، حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اسلامؐ کی زندگی کے آخری ایام میں صادر ہوئی تھی جب سارا قرآن نازل ہوچکا اور مسلمانوں میں پھیل گیا تھا اور آخری روایت جو کافی میں نقل کی گئی ہے وہ بذات خود قابل تصدیق نہیں ہے۔

ان سب کے علاوہ جب پیغمبراکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی نبوت کو ثابت اور قرآن کی مثل لانے کا چیلنج کیا جارہا ہو تو ایسے موقع پر علی (علیہ السلام) کا نام ذکر کرتنا مقتضیٰ حال کے مطابق نہیں ہے اور ان تمام روایات کی معارض کافی کی صحیحہ ابی بصیر ہے۔ ابو بصیر کہتے ہیں: میں نے امام(ع) سے آیہ:

( أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ ) ۴:۵۹ کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:

''قال: فقال نزلت فی علی بن ابی طالب و الحسن ؑو الحسین ؑفقلت له: ان الناس یقولون فما له لم یسم علیا و أهل بیته فی کتاب الله ۔قال: فقولوا لهم ان رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) نزلت علیه الصلاة و لم یسم الله لهم ثلاثا ،و لا أربعاً، حتی کان رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) هو الذی فسر لهم ذلک ۔۔۔(۱)

''یہ آیت کریمہ علی ابن ابی طالب، حسن اور حسین(علیہم السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ میں نے عرض کیا: مولا! لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے قرآن میں آپ اور آپ کے اہل بیتؑ کے نام کیوں ذکر نہیں فرمائے؟ آپ نے فرمایا: تم ان لوگوں کو جواب میں کہو کہ خدا نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نماز بھی نازل فرمائی ہے، لیکن قرآن میں تین یا چار رکعتوں کاذکر کسی بھی جگہ نہیں ہے بلکہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) اس کی تفسیر فرمایا کرتے تھے۔،،

بنابرایں یہ روایت ان تمام روایات پر مقدم ہوگی ارویہ ان روایات کا صحیح مطلب و مقصد بیان کررہی ہے اور

____________________

(۱) الوافی، ج ۲، باب ۳۰، مانص اللہ و رسولہ علیہم، ص ۶۳۔

۲۹۷

یہ کہ قرآن میں علیؑ کا نام بطور تفسیر و تنزیل بیان کیا گیا ہے ۔ یہ قرآن کا حصہ نہیں ہے، جس کی تبلیغ کا حکم دیا گیا ہو۔

اس کے علاوہ جنہوں نے حضرت ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا تھا انہوں نے اپنے استدلال میں یہ کبھی نہیں کہا کہ حضرت علی(علیہ السلام) کا نام (بطور خلیفہ) قرآن میں موجود ہے۔ اگر آپ کا نام قرآن میں موجود ہوتا تو یہ ان لوگوں کے لئے ایک بہترین دلیل بنتی اور وہ اس کا ذکر ضرور کرتے ۔

اس دلیل کو اس اعتبار سے بھی زیادہ تقویت حاصل ہوتی ہے کہ (مستدل کے زعم میں) جمع قرآن کا مسئلہ، مسئلہ خلافت کے تصفیہ کے کافی عرصہ بعد پیش آیا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کسی آیہ میں علی (علیہ السلام) کا نام موجود نہیں تپا جس کو حذف کردیا گیا ہو۔

iii ۔ تیسری قسم کی روایات وہ ہیں جن کے مطابق قرآن میں اضافہ اور کمی کی صورت میں تحریف واقع ہوئی ہے اور یہ کہ امت نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد بعض کلمات قرآن کو تبدیل کرکے دوسرے کلمات کو رکھ دیا ہ۔ وہ روایات یہ ہیں:

الف۔ علی بن ابراہیم قمی نے حریز کی سند سے حضرت ابی عبد اللہ امام صادق (علیہ السلام) سے سورہ حمد کی آیہ کو یوں بیان فرمایا ہے:

صراط من أنعمت علیهم غیر المغضوب علیهم و غیر الضالین

ب۔ عیاشی نے ہشام بن سالم سے راویت کی ہے۔ ہشام فرماتے ہیں میں نے حضرت ابو عبداللہ صادق(ع) سے آیہ کریمہ:

( إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ ) ۳:۳۳

کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:

آیہ کریمہ اصل می ''آل ابراہیم و آل محمد علی العالمین،، تھی لوگوں نے ایک اسم کی جگہ دوسرے کو رکھ دیا ہے۔ یعنی لوگوں نے قرآن میں تبدیلی کی ہے اور آل محمد کی جگہ آل عمران رکھ دیا ہے۔

۲۹۸

جواب:

ان روایات کی سند ضعیف ہے اور اگر اس سے چشم پوشی بھی کی جائے تو یہ روایات قرآن، سنت اور اجماع مسلمین کے خلاف ہیں جن کے مطابق قرآن میں ایک حرف کی بھی زیادتی نہیں ہوئی ہے، حتیٰ کہ جو حضرات تحریف کے قائل ہیں وہ بھی اس معنی میں تحریف کے قائل نہیں ہیں۔

علماء کی ایک جماعت نے قرآن میں زیادتی و اقع نہ ہونے پر اجماع کا دعویٰ فرمایا ہے اور یہ کہ جو کچھ بھی بین دفتین موجود ہے، سب کا سب قرآن ہے اور ایک لفظ بھی زیادہ نہیں ہے۔ جن حضرات نے اجماع کا دعویٰ فرمایا ہے ان میں شیخ مفید، شیخ طوسی، شیخ بہائی اور دیگر علمائے کرام شامل ہیں۔

اس سے قبل احتجاج طبرسی کی وہ روایت بھی بیان کی جاچکی ہے جس کے مطابق قرآن میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

iv ۔ چوتھی قسم کی روایات وہ ہیں جن کے مطابق قرآن میں تحریف کمی کی صورت میں واقع ہوئی ہے۔

جواب:

ان روایات کو اس معنی پر حمل کیا جائے گا جس پر مصحف امیر المومنین (ع)میں موجود اضافات کو حمل کیا گیا ہے اور اگر کسی روایت کو اس معنی پر حمل نہ کیا جاسکے تو اسے ٹھکرا دیا جائے گا کیونکہ یہ قرآن و سنت کی مخالف سمجھی جائے گی۔

ہم نے اپنی بحثوں کے دوران اس قسم کی روایات کاایک اور معنی بھی کیا ہے۔ شاید یہ معنی سب سے قریب ہو مگر اختصار کی خاطر اس معنی کے ذکر سے احتراز کیا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ کسی اور جگہ اس کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔

اس قسم کی بعض بلکہ اکثر روایات کی سند ضعیف ہے اور بعض روایات کا تو بذات خود کوئی صحیح معنی نہیں بنتا اور علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ یا تو اس قسم کی روایات کی تاویل کرنی چاہےے یا انہیں ٹھکرادینا چاہیے۔

۲۹۹

ان علمائے کرام میں سے ایک محقق کلباسی ہیں۔ ان سے منقول ہے:

''وہ تمام روایات اجماع علماء کے خلاف ہیں جو قرآن میں تحریف پر دلالت کرتی ہیں۔،،

آپ مزید فرماتے ہیں:

''اس قول کی کوئی دلیل نہیں کہ موجودہ قرآن میں کسی قسم کی کمی موجود ہے۔ اس لیے کہ اگر اس میں کسی قسم کی کمی واقع ہوئی ہوتی تو یہ مشہور ہوجاتی بلکہ بطور تواتر اس کو نقل کیا جاتا کیونکہ غیر معمولی اور اہم واقعات کا یہی تقاضا ہے کہ انہیں بطور تواتر نقل کیا جائے اور تحریف فی القرآن سے بڑھ کر اور کون سا واقعہ اہم ہوسکتا ہے۔،،

''شارح وافیہ،، محقق بغدادی نے اس بات کی تصریح کی ہے اور اسے محقق کرکی سے نقل فرمایا ہے جنہوں نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔ محقق کرکی اس رسالہ میں فرماتے ہیں:

''جو روایات بھی قرآن میں کمی واقع ہونے پر دلالت کرتی ہیں یا تو ان کی تاویل کرنی چاہیے یا انہیں ٹھکرا دینا چاہیے، چونکہ جو حدیث بھی قرآن، سنت متواترہ اور اجماع کے خلا ف ہو اور قابل تاویل نہ ہو اسے ٹھکرانا ضروری ہے۔،،

مؤلف: محقق کرکی نے اپنے اس کلام میں اس نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس کی طرف اس سے قبل ہم نے اشارہ کیاتھا۔ یعنی روایات متواترہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جو روایت بھی قرآن کے خلاف ہو اس کو ٹھکرانا لازمی ہے ان متواترہ روایات میں سے ایک روایت یہ ہے:

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

الٰہی نعمتوں سے مستفید ہونے والوں کو جو یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ غضب الٰہی سے بچتے ہیں اس کے مفہوم و اطلاق کو مقید کیا گیا ہے تاکہ یہ جملہ صرف ان لوگوں کو شامل ہو جو دونوں صفات کے حامل ہیں اس طرح یہ آیت ان لوگوں کو شامل نہیں ہو گی جنہوں نے اللہ کی نعمتوں کاشکر ادا نہیں کیا۔

بنا برایں آیہ کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ بندے ، اللہ سے ایسے راستے کی ہدایت کے طالب ہیں جس پر اللہ کی نعمتوں سے بہرہ مند لوگوں میں سے کچھ خاص لوگ گامزن ہیں اور وہ ، وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفران نعمت نہیں کیا اور اللہ کی اطاعت میں ثابت قدم رہتے ہوئے آخرت کی نعمتوں سے بھی اسی طرح مستفیض ہوں گے جس طرح دنیا میں اس کی نعمتوں سے مستفیض ہوئے اس طرح دنیا و آخرت دونوں میں انہیں سعادت حاصل ہوئی۔

آیہ شریفہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے اس جملے کی مانند ہے جیسے کہا جائے : گمراہ کن کتابوں کے علاوہ دوسری کتب اپنے پاس رکھنا جائز ہے،، اس تحیل کی روشنی میں بعض حضرات کے اس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور نہ ہی اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے جو یہ کہتے ہیں ۔

''لفظ،، غیر میں بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے جو اضافت کی وجہ سے معرفہ نہیں بن سکتا اس لئے یہ کسی معرفہ کی صفت نہیں بن سکتا،،

خلاصہ بحث یہ ہوا کہ کسی بھی جملے، چاہے خبر ہو یا انشائیہ ، میں موجود حکم اگر عام ہو اور موضوع کے تمام افرادکو شامل ہو تو اس کی تخصیص جس طرح ''الا،، وغیرہ سے کی جا سکتی ہے اسی طرح لفظ ''غیر،، کے ذریعے بھی کی جا سکتی ہے گویا آپ یوں کہہ سکتے ہیں میرے پاس سارے شہر والے آئے سوائے فاسقین کے یا سب شہر والوں کا احترام کرو سوائے فاسقین کے۔

۶۲۱

الضآلین

اس لفظ کا عطف ''غیر المغضوب علیھم ،، پر ہے ۔ اس جملے میں ''لا،، نفی کو بھی استعمال کیا گیاہ ے تاکہ نفی کی تاکید ہو اور یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ''مغضوب،، اور ''ضالین،، دونوں کے مجموعے کی نفی کی گئی ہے چنانچہ لفظ ''غیر،، ضمنی طور پر نفی پر دلالت کرتا ہے اس لئے اس پر وہی حکم جاری کرتے ہیں جو حروف کا ہے مثلاً کہتے ہیں:

جالس رجلا غیر فاسق ولا سئی الخلق ، اعبدالله بغیر کس ولا ملل ،، (یعنی) ''ایسے آدمی کے ساتھ بیٹھو جو فاسق اور بداخلاق نہ ہو۔ اللہ کی عبادت کرو بغیر کسی اکتاہٹ اور سستی کے،،۔

ہمارے بعض تقریباً ہم عصر علمائے کرام کا خیال ہے لفظ ''غیر،، کا استعمال نفی میں صحیح نہیں ہے اس طرح انہوں نے آیہ کریمہ کی توجیہ کرنے میں اپنے آپ کو مشقت میں مبتلا کیا ہے آخر کار کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے اور اپنی عاجزی کا ا عتراف کر لیا ہے۔

تفسیر

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پہلے توحید فی العبادۃ اور توحید فی الاستعانۃ کا اعتراف کرنے کی تعلیم دی یعنی صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور مدد بھی صرف اسی سے مانگی جائے اس کے بعد اپنے بن دوں کو اس امر کی تلقین کی کہ وہ اللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا مانگیں۔

اس آیہ شریفہ کا پہلا حصہ اللہ کی حمد و ثناء اور بزرگی پر مشتمل ہے اور آخری حصہ ہدایت کی دعا پر ابتدائی اور آخری حصے کے درمیان آیہ شریفہ :ایاک نعبد و ایاک نستعین،، پہلی آیت کے مضمون کا نتیجہ اوربعد والی آیت میں موجود دعا کی تمہید ہے اس لئے کہ پہلی آیت میں خدا کی جو عظمت و بزرگی بیان کی گئی ہے اس پر عبادت و استعانت (مدد طلبی) کا ذات الٰہی سے مختص ہونے کا دار و مدار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات ، رحمت اور سلطنت کی وجہ سے عبادت کا مستحق ہے اور غیر اللہ عبادت و استعانت کا مستحق نہیں۔

۶۲۲

جب عبادت اور استعانت خدا کی ذات سے مختص ہوئی تو لامحالہ دعا بھی اسی کے دربار میں کی جانے چاہئے یہی وجہ ہے کہ فریقین نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔

ان الله تبارک و تعالیٰ قدجعل هذه السورة نصفین : نصف له و نصف لعبده ، فاذا قال العبد : الحمد لله رب العالمین ، یقول الله تعالیٰ : مجدنی عبدی ، و اذاقال : اهدنا الصراط المستقیم ، قال الله تعالیٰ هذا لعبدی و لعبدی ماسال ،، (۱)

''اللہ نے سورہ حمد کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا ، آدھا سورہ اللہ کیلئے اور آدھا اس کے بندوں کیلئے ، جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے تو خالق فرماتا ہے : میرے عبد نے میری عظمت بیان کی ہے اور جب بندہ کہے :اھدنا الصراط المستقیم،، تو خالق فرماتا ہے : یہ میرے عبد کا حصہ ہے میرا بندہ جو مانگے اسے دیا جائے گا،،۔

گزشتہ بحثوں سے معلوم ہوا کہ انسان اپنے ایمان و عقیدہ اوراعمال کے سلسلے میں تین میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کر سکتا ہے۔

(۱) وہ راستہ جو اللہ نے اپنے بندوں کیلئے مقرر کر رکھا ہے اس راستے پر وہ شخص چلتا ہے جسے اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ہدایت فرمائی ہے۔

(۲) وہ راستے ، جن پر گمراہ چلتے ہیں۔

(۳) وہ راستہ جس پر غضب الٰہی کے مستحق افراد چلتے ہیں۔

سورہ حمد میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ صراط مستقیم جو پہلا راستہ ہے وہ دوسرے دو راستوں سے مختلف ہے بایں معنی کہ صراط مستقیم پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اور دوسرے راستوں پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اس طرح یہاں پر یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ جو شخص طریق مستقیم سے انحراف کرے رسوائی اس کا مقدر ہوتی ہے اس لئے کہ وہ گمراہ وتا ہے یا گمراہ ہونے کے علاوہ غضب الٰہی کا بھی مستحق ہوتا ہے۔

____________________

(۱) عیون اخبار الرضا ۔ باب ماجاء من الرضامن الاخبار المتفرقہ ، ص ۱۶۶ طبع ایران ۱۳۱۷ھ

۶۲۳

اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت کی رسوائی سے بچائے اور صراط مستقیم کی ہدایت فرمائے۔

مفسرین کا کہنا ہے : اللہ سے وہ شخص ہدایت طلب کرتا ہے جو پہلے سے ہدایت یافتہ نہ ہو اور ایک مسلمان ، جو اللہ کی وحدانیت اور یگانگی کا قائل ہے وہ کیونکر اپنی نماز میں ہدایت کی دعا کرتا ہے۔

اس اعتراض کے کئی جواب دیئے گئے ہیں

(۱) آیت میں ہدایت سے مراد پہلے سے حاصل ہدایت کی بقاء اور دوام ہے یعنی جب اللہ نے اپنے بندوں کو اپنے فضل و احسان سے ایمان کی ہدایت کر دی تو اب اس کے بندے یہ دعا مانگتے ہیں : پالنے والے ! ہمیں ایمان پر ثابت قدم رہنے اور اسے برقرار رکھنے کی توفیق عنایت فرما تاکہ ہدایت کے بعد کہیں لغزش قدم کے نتیجے میں دوبارہ گمراہ نہ ہو جائیں۔

(۲) ہدایت کا معنی ثواب ہے یعنی بارالٰہا! ہمیں ثواب کے طور پر راہ جنت عطا فرما۔

(۳) ہدایت سے مراد ہدایت میں اضافہ ہے اس لئے کہ ہدایت کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی ہے جو شخص ہدایت کی ایک منزل پر فائز ہو وہ اس سے بلند منزل پر فائز ہونے کی دعا کر سکتا ہے۔

یہ تینوں جوابات خام خیالی اور ظاہر آیہ کریمہ کیخلاف ہیں ۔ صحیح جواب یہ ہے کہ جس ہدایت کی مسلمان اپنی نماز میں دعا کرتا ہے وہ ایسی ہدایت ہے جو اسے پہلے حاصل نہیں اسی لئے اللہ کے حضور اس کے حصول کی دعا مانگی جاتی ہے۔

وضاحت: اللہ کی طرف سے دو قسم کی ہدایت کی جاتی ہے۔

(۱) ہدایت عامہ

(۲) ہدایت خاصہ

۶۲۴

ہدایت عامہ: یہ ہدایت کبھی تکوینی ہوتی ہے اور کبھی تشریعی ۔ تکوینی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے جمادات ، نباتات اور حیوانات غرض تمام موجودات کو ودیعت فرمائی ہے یہ سب چیزیں قدرتی طور پر یا اپنے اختیار سے اپنے کمال اور ارتقائی منازل کی طرف رواں دواں ہیں ۔ اللہ کی ذات نے ان چیزوں میں طلب کمال کی قدرت و دیعت فرمائی ہے:

کیا آپ نے نباتات میں کبھی غور کیا ہے کہ وہ اپنی نشوونما کے دوران ایسے راستے کا انتخاب کرتی ہیں جس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ، یا کبھی حیوانات کے بارے میں سوچا ہے کہ وہ موذی حیوانوں کوکیسے دوسروں سے تمیز دے لیتے ہیں مثلاً چوہا بلی سے تو بھاگتا ہے لیکن بکری سے نہیں بھاگتا یا چیونٹی اور شہد کی مکھی اجتماع اور حکومت تشکیل دینے اور اپنی رہائشی جگہ تعمیر کرنے کی ہدایت و رہنمائی کیسے حاصل کرتی ہے ؟ یا شیر خوار طفل پستان مادر کی رہنمائی کیسے حاصل کرتا ہے اور ولادت کے فوراً بعد دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔

( قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ ) ۲۰:۵۰

''موسیٰ (ع) نے کہا ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اسی کے (مناسب) صورت عطا فرمای پھرا سی نے (زندگی بسر کرنے کے) طریقے بتائے،،۔

تشریعی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے انسانوں کی طرف نبی (ع) بھیج کر اور ان پر کتب نازل فرما کر مکمل کی پہلے خدا نے انسان کو عقل اور حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت دے کر ان پر حجت تمام کی اس کے بعد انسان کی ہدایت کیلئے انبیاء بھیجے جو انسانوںکے سامنے آیات الٰہی کی تلاوت کرتے اور ان کیلئے مختلف شریعتوں کو بیان کرتے تھے پھر اللہ نے انبیاء (ع) کو معجزات دے کر بھیجا جو ان کی نبوت کا ثبوت اور دلیل بن سکے اس کے بعد کچھ لوگ ہدایت پا گئے اور کچھ گمراہ ہو گئے اور ضلالت ان کا مقدر بن گئی۔

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ) ۷۶:۳

''اس کو رستہ بھی دکھا دیا (اب وہ ) خواہ شکر گزار ہو خواہ ناشکرا،،

۶۲۵

ہدایت خاصہ: یہ ہدایت تکوینی ہوتی ہے اور یہ اللہ کا خاص لطف و کرم ہے جس سے وہ اپنے بعض مخصوص بندوں کو اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق نوازتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے وہ اسباب و ذرائع فراہم کرتا ہے جس سے وہ اپنے کمال اور منزل مقصود تک پہنچ جائیں اگر اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت خاصہ کے ذریعے لوگوں کی ہدایت اور اصلاح نہ فرمائے تو وہ گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں جاگریں ہدایت کی اس قسم کی طرف قرآن کی متعدد آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔

( فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ ) ۷:۳۰

''اسی نے ایک فریق کی ہدایت کی اور ایک گروہ (کے سر) پر گمراہی سوار ہو گئی،،۔

( قُلْ فَلِلَّـهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ) ۶:۱۴۹

(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم کہو کہ اب (تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں) خدا تک پہنچانے والی دلیل خدا ہی کے لئے خاص ہے پھر اگر وہی چاہتا تو تم سب کی ہدایت کرتا،،

( لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۗ ) ۲:۲۷۲

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) انہیں منزل مقصود تک پہنچانا تمہارا فرض نہیں (تمہارا کام) صرف راستہ دکھانا ہے مگر ہاں خدا جس کو چاہے منزل مقصود تک پہنچا دے،،

( إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ) ۶:۱۴۴

''خدا ہرگز ظالم قوم کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا،،

( وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ) ۲:۲۱۳

''اور خدا جس کو چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے،،

( إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ) ۲۸:۵۶

(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) بیشک تم چسے چاہو منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتے مگر ہاں خا جسے چاہے منزل مقصود تک پہنچائے،،

۶۲۶

( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ ) ۲۹:۶۹

''اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا انہیں ہم ضرور اپنی راہ کی ہدایت کریں گے،،

( فَيُضِلُّ اللَّـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) ۱۴:۴

''تو یہی خدا جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہی سب پر غالب حکمت والا ہے،،

ان آیات کے علاوہ بھی قرآن کریم کی متعدد آیات ایسی ہیں جن سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ کی ہدایت خاصہ کچھ خاص قسم کے لوگوں کو نصیب ہوتی ہے سب کو نہیں بنا برایں اس سورہ فاتحہ میں مسلمان پہلے اللہ کی تشریعی و تکوینی ہدایت عامہ کا اعتراف کرتا ہے اس کے بعد درگاہ الٰہی میں تکوینی ہدایت خاصہ کی دعا کرتا ہے جو صرف مخصوص لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسان قدرتی طور پر ہلاکت اور سرکشی سے دو چار ہو سکتا ہے اس لئے مسلمان اور موحد کو چاہئے کہ وہ صرف اپنے نفس پر اعتماد نہ کرے بلکہ اپنے رب سے مدد طلب کرے اور اس سے ہدایت کی دعا مانگے تاکہ وہ اسے صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائے اور وہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جو گمراہ اور غضب الٰہی کے مستحق ہیں۔

۶۲۷

ضمیمہ جات

۱۔ حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے

۲۔ حارث کی سوانح حیات اور شعبی کے بہتان

۳۔ حدیث شریف''لترکبن سنن من قبلکم ،، کے حوالے۔

۴۔ موتف اور یہودی عالم میں بحث

۵۔ ترجمہ قرآن اور اس کی شرائط

۶۔ رسول اسلام (ص) کو شکست دینے کی قریشیوں کی کوشش۔

۷۔ صحیح بخاری میں حدیث متعہ کی تحریف

۸۔ محمد عبدہ ، اور تین طلاقیں

۹۔ شیعوں پر رازی کا افترائ

۱۰۔ احادیث اور مشیّت الٰہی

۱۱۔ دعا سے تقدیر الٰہی بدل جانے کی احادیث

۱۲۔ آیہ بسم اللہ کی اہمیت

۱۳۔ آغاز آفرینش

۱۴۔ بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی احادیث

۱۵۔ معاویہ بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا تھا

۶۲۸

۱۶۔ رسول خدا کا بسم اللہ پڑھنا اور روایت انس کی توجیح

۱۷۔ ابن تیمیہ اور زیارت قبور کے جواز کی حدیثیں

۱۸۔ آلوسی کی شیعوں پر بہتان تراشی

۱۹۔ مولف اور حجازی عالم میں بحث

۲۰۔ تربت سید الشہداء (ع) کی حقیقت

۲۱۔ مکاشفہ کے ذریعے آیہ سجود کی تاویل

۲۲۔ ابلیس اور خدا کامکالمہ

۲۳۔ اسلام اور شہداتین

۲۴۔ عبادت اور اس کے عوامل

۲۵۔ الامربین الامرین لوگوں کی نیکیاں اور برائیاں

۲۶۔ شفاعت کے مدارک

۶۲۹

ضمیمہ (۱) ص ۱۸

حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے

حدیث ثقلین کو احمد نے اپنی کتاب ''مسند،، کی جلد ۳ کے صفحہ ۱۴ ، ۱۷ ، ۲۶ اور ۵۹ پر ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے دارمی نے کتاب فضائل القرآن،، کے جزء ۲ کے صفحہ ۴۳۱ اور احمد نے اپنی کتاب ''مسند،، کے جزء ۴ کے صفحہ ۳۶۶ اور ۳۷۱ پر زید بن ارقم سے اور جزء ۵ کے ص ۱۸۶ ، ۱۸۹ پر زید بن ثابت سے روایت کیا ہے ۔

جلال ادین سیوطی نے ''جامع الصغیر،، میں طبرانی سے اور اس نے زید بن ثابت سے اس کی روایت کی ہے جلال الدین سیوطی نے یہ حدیث نقل کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے علامہ مناوی نے اپنی شرح کی جز ۳ کے صفحہ ۱۵ پر لکھا ہے : ھیثمی کا کہنا ہے '' اس حدیث کے راوی موثق ہیں،،

نیز ابویعلیٰ نے اس حدیث کی ایسے سلسلہ سند سے روایت کی جو قابل خدشہ نہیں ہے حافظ عبدالعزیز ابن الاخضر نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کااضافہ بھی کیا ہے کہ یہ حدیث حجتہ الوداع کے موقع پر صادر ہوئی اور وہ شخص (جیسا کہ ابن جوزی ہے) غلطی پر ہے جو اسے من گھڑت سمجھتا ہے سمھودی کا کہنا ہے کہ اس حدیث کو بیس سے زیادہ صحابہ نے نقل کیا ہے۔

حاکم نے کتاب ''المستدرک،، کی جزء ۳ کے صفحہ ۱۰۹ پر زید ابن ارقم سے اس حدیث کی روایت کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے ذہبی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اگرچہ روایات کی تعبیریں مختلف ہیں مگر سب کا مطلب ایک ہی ہے۔

۶۳۰

ضمیمہ (۲) ص ۱۸

حارث کی سوانح حیات اور

شعبی کے بہتان ان کا نام حارث بن عبداللہ الاعور الھمدانی ہے علمائے امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ امیر المومنین (علیہ السلام) کے بزرگ اصحاب میں سے تھے علماء کرام نے ان کو عظیم المرتبت ، متقی ، پرہیز گار اور خدمت گزارامیر المومنین (ع) کے لقب سے یاد کیا ہے۔

علماء کرام نے اپنی کتاب رجال اور دیگر کتابوں میں ان کے موثق ہونے کی تصریح کی ہے اہل سنت کے کئی بزرگ علماء نے حارث کا ذکر کیا ہے اور اس کی تعریف کی ہے ابن حجر عسقلانی ''تہذیب التہذیب،، میں لکھتے ہیں،،

''دوری نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ حارث نے ابن مسعود سے حدیث سنی ہے اور یہ قابل خدشہ نہیں ہے،،

عثمان دارمی نے ابن معین سے نقل کیا ہے : ''حارث موثق ہے،،

اشعث ابن سوار نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے ''میں نے کوفہ جا کر دیکھا کہ لوگ پانچ آدمیوں کو دوسروں پر مقدم سمجھتے تھے ان میں سے جو شخص حارث کو سب سے مقدم سمجھتا تھا وہ دوسرے نمبر پر عبیدہ کا نام لیتا تھا اور جو شخص عبیدہ کو سب سے مقدم سمجھتا تھا وہ دوسرے نمبر پر حارث کا نام لیتا تھا،،

ابن ابی داؤد کہتے ہیں ''حارث ، فقہ ، حسب و نسب اور مسائل ارث میں سب سے بہتر تھے آپ نے میراث کے احکام امیر المومنین (ع) سے حاصل کئے،،

۶۳۱

ذہبی حارث کے حالات زندگی میں لکھتا ہے ''حارث کی احادیث سنن اربعہ میں موجود ہیں اور نسائی نے رجال (راویوں) کے سلسلے میں سخت گیر ہونے کے باوجود حارث کی احادیث سے استدلال کیا ہے اور اس کی تائید کی ہے وہ (حارث) علم کے سمندر تھے،،

مرہ بن خالد کہتا ہے کہ محمد بن سیرین نے خبر دی ہے ''اصحاب بابن مسعود میں پانچ افراد ایسے تھے جن کی احادیث قابل قبول ہوتی تھیں ان میں سے چار کی زیارت کی گئی مگر حارث کی زیارت سے محروم رہا حارث کو باقی چاروں پر فضیلت حاصل تھی اور وہ ان سے بہتر تھا،،

مولف: تعصبات و خواہشات کاتقاضا یہی ہے جو شعیی نے کہا ہے ''حارث اعور نے مجھ سے حدیث بیان کی اور وہ (حارث) ایک جھوٹا انسان تھا ،، اس بات میں کچھ اور لوگوں نے بھی شعبی کی متابعت کی ہے۔

عبداللہ قرطبی اپنی تفسیر کے جزء اول صفحہ ۵ پر لکھتے ہیں۔

درحقیقت حارث کو اس لئے مطعون کیا جاتا ہے کہ ان کے دل میں حب علی (ع) کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور وہ امیر المومنین (ع) کو دوسروں سے افضل سمجھتے تھے اسی لئے شعبی نے اس (حارث) کی تکذیب کی ہے کیونکہ وہ شعبی حضرت ابوبکر کو دوسروں سے بہتر اور پہلا مسلمان سمجھتا تھا،،۔

ابن حجر ، حارث کے حالات میں لکھتا ہے کہ ابن عبدالبر نے اپنی کتاب ''العلم،، میں حارث کا شبی کی طرف سے طعن و تشینع کا نشانہ بننے کا یہ راز بیان کیا ہے۔

''حارث حب علی (ع) میں انتہا پسند تھے میرے خیال میں شعبی ، حارث کی تکذیب اور اسے جھٹلانے کی وجہ سے عذاب الٰہی کا مستحق ہو گا اس لئے کہ حارث کی کوئی بھی بات جھوٹ ثابت نہیں ہوئی،،۔

ابن شاہین نے ''ثقات،، میں لکھا ہے کہ احمد بن صالح مصری کہتے ہیں۔

''حارث کتنے مضبوط حافظہ کے مالک تھے اور انہوں نے کتنی اچھی اور زندہ روایات حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہیں،،

۶۳۲

اس کے بعد انہوں نے حارث کی تعریف و ستائش کی ہے احمد بن صالح سے کہا گیا شعبی تو کہتا ہے کہ حارث جھوٹ بولا کرتاتھا احمد بن صالح نے کہا حارث نقل حدیث کے سلسلے میں جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ صرف اس کی اپنی رائے خلاف واقعہ ہوتی تھی۔

خدارا! صاحب بصیرت نقاد بتائیں کیا علم پرور شریعت اور دین اسلام اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ کسی مسلمان کی طرف فحاشی کی نسبت صرف اس بنیاد پر دی جائے اورا س پر جھوٹ بولنے کی تہمت صرف اس لئے لگائی جائے کہ اسکے دل میں حضرت علی (ع) کی محبت ہے اور کہ وہ حضرت علی (ع) کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہے ؟ کیا خود رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کے دوسروں سے افضل ہونے کا برملا اعلان نہیں فرمایا یہاں تک کہ رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کو وہ مقام دیا جو حضرت ہارون (ع) کو حضرت موسیٰ (ع) کی نسبت حاصل تھا اور آپ (ع) کو ایسے خصائل و خصوصیات سے نوازا جو دوسرے صحابہ رسول (ص) میں سے کسی کو حاصل نہ تھیں۔

مستدرک حاکم جزء ۳ ، ۱۰۸ کے مطابق سعد ابن ابی وقاص نے معاوضہ کے سامنے ان فضائل کی اس وقت شہادت دی جب معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو امیر المومنین (ع) پر سب و شتم کرنے پر مجبور کرنا چاہا اس موقع پر سعد بن ابی وقاص نے کہا۔

کیف اسب رجلاً کانت لہ خصال من رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: لو ان لی واحدۃ منہا لکان احب الی من حمر انعم ،،

''بھلا اس ہستی پر میں کیسے سب و شتم کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسے فضائل و مناقب سے نوازا جن میں ایک فضیلت بھی مجھے نصیب ہوتی تو سرخ اونٹوں سے زیادہ میں اسے پسند کرتا،،

اس کے بعد سعد بن ابی وقاص نے حدیث کساء ، حدیث منزلت (انت منی بمنزلہ ہارون من موسیٰ ) اور جنگ خیبر میں علم دینے کا واقعہ بیان کیا رسول اللہ (ص) نے صرف انہی فضائل کے بیان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ امت کے سامنے حضرت علی (علیہ السلام) کے بلند مقام کا اعلان فرمایا۔ چنانچہ مستدرک حاکم جزء ۳ ، صفحہ ۱۰۸ پر ہے کہ رسول اللہ (ص) نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا۔

۶۳۳

''من اطاعنی فقداطاع الله و من عصانی فقد عصی الله و من اطاعک فقد اطاعنی و من عصاک فقد عصانی،،

''جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے تیری اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے تیری نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی،،

ان کے علاوہ اور بھی بہت سے فضائل ہیں جو حدو حصر سے باہر ہیں۔

ہاں ! اگر شعبی حارث پر تہمتیں لگائے اور اس کی طرف کذب کی نسبت دے تو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ شعبی وہ آدمی ہے جو بنی امیہ اور ان کے ماحول کا پروردہ اور ان کی دنیا میں موج اڑاتا اور ان کی خواہشات کے مطابق عمل کرتا تھا۔

کتاب النجوم الزاہرۃ جزء ۱ صفحہ ۲۰۸ کے مطابق ولید بن عبدالملک کی بیعت کے صلے میں عبدالملک بن مردان نے شعبی کو مصر بھیجا پھر کوفے کے والی و گورنر بشر بن مردان کی طر فسے کوفہ میں اس کا (امور حبیہ میں )وکیل رہا۔

چنانچہ کتاب الاغانی جزء ۲ ، ص ۱۲۰ پر ہے اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے کوفہ کی قضاوت کے منصب پر فائز رہا چنانچہ تاریخ طبری جزئ۵ ، ۳۱۰ پر یہ واقعہ موجود ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس کی تمام حرکات و سکنات مروانی تھیں اور وہ وہی کچھ کہتا اور کرتا تھا جو خواہشات نفسانی کاتقاضا ہو کسی جھوٹی بات سے نہ اسے کوئی جھجھک ہوتی تھی اور نہ بیہودگی سے یہ باز آتات ھا۔

ابو الفرج نے الاغانی جزء ۱ ، ص ۱۲۱ پر حسن بن عمر فقیمی سے نقل کیا ہے کہ فقیمی کہتا ہے:

''میں شعبی کے کمرے میں اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، اتنے میں، میں نے گانے کی آواز سنی میں نے شعبی سے کہا : گانے کی آواز آپ کے ہمسائے کے گھر سے آ رہی ہے میں نے اس کے ساتھ جا کر اس کے مکان کی چھت پر ایک چاند سے حسین و جمیل لڑکے کو دیکھا جوگانےگا رہا تھا حسن بن عمر فقیمی کہتا ہے کہ شعبی نے مجھ سے کہا : جانتے ہو یہ کون ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔ شعبی نھے کہا یہ وہ ہے جس کو بچپن ہی میں حکمت عطا کی گئی ہے یہ ابن سریج ہے،،۔

۶۳۴

نیز الاغانی کے جزء ۲ ، ص ۷۱ پر عمر بن ابی خلیفہ سے منقول ہے۔

''شعبی اور میرے والد گھر کے بالائی حصے میں تھے اتنے میں ہم نے اچھی آواز میں گانے کی آواز سنی میرے والد نے کہا تمہیں کچھ نظر آ رہا ہے ؟ شعبی نے کہا نہیں ۔ اس وقت ہمیں ایک خوبصورت نوجوان لڑکا نظر آیا جو گا رہا تھا اور وہ عائشہ کابیٹا تھا ، شعبی نے اس کے گانے کو پسند کیا اور کہا : خدا جسے چاہتا ہے علم و حکمت سے نوازتا ہے،،۔

الاغانی کے جزء ۲ ، ص ۱۳۳ پر مذکور ہے ''مصعب بن زبیر نے کوفے پر اپنی گورنری کے دوران شعبی کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی زوجہ عائشہ بنت طلحہ ، جو اس وقت بے حجاب تھی کی خواہب گاہ میں لے گیا اور پھر مصعب نے اپنی زوجہ کے بارے میں شعبی کی رائے پوچھی شعبی نے اپنی رائے ظاہر کی اور اس کی زوجہ کی ایسی ہی تعریف کی جیسی مصعب چاہتا تھا اس پر مصعب نے شعبی کو دس ہزار درہم اور تیس لباس دیئے،،۔

شعبی اگر حارث کو ان الفاظ میں یاد کرے تعجب کی کون سی بات ہے یہ تو وہی شخص ہے جو امیر المومنین علی (علیہ السلام) کے بارے میں قسم کھا کر کہتا تھا:

لقد دخل علی حضرة و ما حفظ القرآن،،

یعنی ''علی (ع) اپنی قبر میں پہنچ گئے مگر قرآن حفظ نہ کر سکے،،

چنانچہ قرطین کے جزء ۱ ، ص ۱۵۸ پر مذکور عبارت موجود ہے۔

صاحبی ، فقہ اللغۃ کے صفحہ ۱۷۰ پر رقمطراز ہے۔

''شعبی کا یہ جملہ اس شخص کے بارے میں انتہائی بے ہودہ ہے جو کہا کرتا تھا۔

''سلونی قبل ان تفقدونی ، سلونی فمامن آیة الااعلم بلیل نزلت ام بنهار ام فی سهل ام فی جبل ،،

یعنی ''پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ میں تم میں نہ رہوں اس لئے کہ میں قرآن کی ہر آیت کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ رات کے وقت نازل ہوئی یا دن کے وقت کسی ہموار جگہ پر نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر،،

۶۳۵

سدی نے عبد خبر سے اور اس نے علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہے۔

''آپ (ع) نے رسول خدا (ص) کی وفات کے موقع پر لوگوں کو فال بد کی کیفیت میں دیکھا جس کے بعد آپ (ع) نے قسم کھائی کہ جب تک قرآن مجید کو مکمل جمع نہ کر لوں اپنی چادر دوش پر نہیں رکھوں گا عبد خیر کہتے ہیں پس امیر المومنین (ع) نے اپنے بیت الشرف میں گوشہ نشین ہوئے اور وہیں پر آپ نے قرآن جمع کیا یہ وہ پہلا مصحف تھا جس میںق رآن جمع کیا گیا آپ نے اسی قرآن کو جمع کیا جو آپ کے قلب مطہر پر نقش اور زبانی یاد تھا اور یہ قرآن آل جعفر کے پاس تھا،،

ہر غیرت مند مسلمان کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ اس شخص نے خدا اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کیخلاف اس قسم کی بے ہودہ گوئی کی کیسی جرات کی ہے یہ الفاظ ''قرآن حفظ نہ کر سکا،، اس شخص کے بارے میں کہے جا رہے ہیں جو علم رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے شہر کا دروازہ تھااور آپ (ع) لوگوں کیلئے ان احکام کو بیان کیا کرتے تھے جنہیں دے کر رسول اللہ (ص) کوبھیجاگیا تھا اس مضمون کی بہت سی روایات ہیں جیسا کہ کنز العمال جزء ۶ ص ۱۵۶ پر موجود ہاں ! تو یہ الفاظ اس ہستی کے بارے میں کہے جا رہے ہیں جو حکمت کا شہر تھا جیسا کہ صحیح بخاری جزء ۱۳ ، ص ۱۷۱ پر موجود ہے اور اس شخص کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اسے قرآن حفظ نہیں تھا جوقرآن کے ساتھ ہے اور قرآن اس کے ساتھ اور یہ اس وقت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک حوض کوثر پر نہ پہنچیں چنانچہ مستدرک الحاکم جزء ۳ ، ص ۱۲۴ اور سیوطی کی جامع الصغیر جزء ۴ ، ص ۳۵۶ پر یہ روایت موجود ہے۔

ان الذین یکسبون الاثم سیجزون ماکانوا یقترفون

''جو لوگ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں عنقریب ان کو اپنے اعمال کی سزا ملے گی،،

۶۳۶

ضمیمہ (۳) ص ۲۰

حدیث شریف ''لترکبن سنن من قبلکم ،، کے حوالے

یہ حدیث مسند احمد کی جزء ۵ ص ۲۱۸ پر ابی واقدلیثی کی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔

بخاری میں کتاب الاعتصام بالکتاب و السنتہ باب قول النبی لتتبعن سنن من قبلکم جزء ۸ ، ص ۱۵۱ ، مسلم کی کتاب العلم باب اتباع سنن الیہود و انصاریٰ جزء ۸ ، ص ۵۷ ، اور مسند احمد جزء ۳ ، ص ۷۴ پر ابی سعید خدری سے یہ حدیث وارد ہے نیز ھیثمی کی کتاب مجمع الزوائد ، جزء ۷ ، ص ۲۶۱ پر ابن عباس سے یہ روایت مروی ہے۔

ضمیمہ (۴) ص ۴۳

مولف اور یہودی عالم میں بحث

ایک مرتبہ ایک یہودی عالم سے اس موضوع پر میری بحث ہوئی کہ شریعت یہود بھی اپنی حجت و دلیل کے ختم ہونے پر ختم ہو جاتی ہے۔

میں نے یہودی عالم سے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر عمل کرنا صرف یہودیوں پر واجب تھا یا یہ کہ یہودیوں کے علاوہ دوسری امتوں پر بھی شریعت موسیٰ ؑ پر عمل کرنا واجب ہے ؟ اگر شریعت موسیٰ ؑ صرف یہودیوں سے مختص ہو تو دوسری امتوں کیلئے کسی اور نبی کا ہونا ضروری ہے بتایئے وہ نبی کون ہے ؟ اور اگر شریعت موسیٰ ؑ تمام اقوام اور امتوں کیلئے ہو تو پھر ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت کی صداقت اور اس کے تمام امتوں کو شامل ہونے پر کوئی حجت و دلیل پیش کی جائے اور تم کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کر سکتے اس لئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات آئندہ آنے والی نسلوں نے دیکھے تک نہیں

۶۳۷

تاکہ ان معجزات پر یقین کر سکیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات آئندہ آنے والی نسلوں نے دیکھے تک نہیں تاکہ ان معجزات پر یقین کر سکیں حضرت موسیٰ (علیہ اسلام) کے معجزات کی خبر صرف اسی صورت میں تواتر کی حد تک پہنچ سکتی ہے کہ جب ہر دور میں خبر دینے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ عقلی طور پر ان سب کا جھوٹی بات پر اتفاق ناممکن ہو اور یہ وہ امر ہے جس کو ثابت کرنا تمہارے دائرہ قدرت سے باہر ہے۔

تم (یہود) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزوں کی خبر دیتے ہو ، نصاریٰ حضرت عیسی ٰ (علیہ السلام) کے معجزات کی خبر دیتے ہیں اور دوسری امتیں اپنے اپنے نبیوں کے معجزات کی خبر دیتی ہیں بھلا ان خبروں میں کوئی فرق ہے اور ایک خبر کو دوسری خبر پر کوئی فوقیت حاصل ہے ؟ اگر لوگوں پر تمہاری خبروں کی تصدیق واجب ہے تو باقی لوگوں کی خبروں کی تصدیق کیوں ضرورت نہیں جو اپنے انبیاء کے معجزات نقل کرتے ہیں جب مسئلے کی صورت یہ ہو تو پھر تم (یہود) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ دوسرے انبیاء کی تصدیق کیوں نہیں کرتے۔

یہودی عالم نے جواب میں کہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات یہود ، نصاریٰ اور مسلمان سب کے نزدیک ثابت ہیں اور سب ہی ان کا اعتراف کرتے ہیں جبکہ باقی انبیاء کے معجزات کا سب لوگ اعتراف نہیں کرتے اسی لئے باقی انبیاء کی نبوت محتاج دلیل ہے۔

میں نے کہا : مسلمانوں اور نصاریٰ کے نزدیک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اس لئے ثابت ہیں کہ ان کے نبی (حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت خاتم الانبیا (ص) نے ان معجزات کی خبر دی ہے اس وجہ سے ثابت نہیں کہ خبر متواتر ان معجزات پر دلالت کرتی ہو اگر حضرت موسیٰ ؑ کے معجزات کے بارے میں حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد مصطفی (ص) کی خبر کی تصدیق ضروری ہے تو ان کی نبوت کی تصدیق بھی ضروری ہونی چاہئے جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں اگر اس سلسلے میں ان کی تصدیق ضروری ہو تو ان کی خبر سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات بھی ثابت نہیں ہو سکیں گے یہ تو گزشتہ شریعتوں کا حال تھا۔

۶۳۸

جہاں تک شریعت اسلام کاتعلق ہے اس کی حجت اور دلیل ہمیشہ کیلئے باقی ہے اور قیامت تک آنے والی نسلوں کیلئے ایک چیلنج کے طورپر باقی رہے گی جب شریعت اسلام ثابت ہو گی تو اس کی بنیاد پر گزشتہ تمام انبیاء کی تصدیق بھی ہم پر واجب ہو گی اس لئے کہ قرآن مجید نے بھی اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا نے بھی ان انبیاء کی نبوت کی شہادت دی ہے پس معلوم یہ ہوا کہ قرآن کریم ہی وہ یگانہ اور ابدی معجزہ ہے جو تمام آسمانی کتابوں کی صداقت ، اور انبیاء علیہم السلام کی عصمت اور پاکیزگی کی شہادت دیتا ہے۔

ضمیمہ (۵) ص ۴۳

ترجمہ قرآن اور اس کی شرائط

خداوند عالم نے لوگوں کی ہدایت کیلئے اپنے نبی کو بھیجا اور قرآن کریم کے ذریعے آپ (ص) کی عظمت بیان کی اور لوگوں کو سعادت و ارتقائی مراحل تک پہنچانے والا ہر امر قرآن میں موجود ہے اور یہ خدا کا وہ لطف و کرم ہے جو کسی ایک قوم سے مختص نہیں بلکہ تمام انسانیت کو شامل ہے مشیّت الٰہی یہی ہے کہ اپنے نبی کی قوم کی زبان میں ہی اپنا پیغام آپ (ص) پر نازل کیا جائے جبکہ قرآن کی تعلیمات اور ہدایات ہر دور کے انسانوں کو شامل ہیں اسی نکتہ کے پیش نظر ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ قرآن مجید کو سمجھے تاکہ اس سے ہدایت حاصل کر سکے۔

۶۳۹

اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کا ترجمہ قرآن کو سمجھنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے لیکن ترجمہ کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ترجمہ کرنے والا شخص لغت عربی پر مکمل عبور رکھتا ہو جس سے کسی دوسرے لغت میں قرآن کا ترجمہ کرنا چاہتا ہے۔

اس لئے کہ ترجمہ چاہے کتناہی مستحکم اور مضبوط ہو اس میں فصاحت و بلاغت اور وہ خصوصیات حاصل نہیں ہو سکتیں جن کی بدولت قرآن کو امتیازی مقام حاصل ہے یہی بات قرآن کے علاوہ دوسرے کلاموں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے کیونکہ یہ عین ممکن (یہ خطرہ باقی رہتا ) ہے ترجمہ سے اس نتیجہ تک پہنچا جائے جو اس کے اصل مضمون کے بالکل برعکس ہو۔

پس ترجمہ قرآن کیلئے سب سے پہلے قرآن کا سمجھنا ضروری ہے اور قرآن فہمی کا دارو مدار تین چیزوں پر ہے ۔

۱۔ ظہور لفظی جس کو فصیح عرب سمجھیں۔

۲۔ عقل فطری کا حکم ، جو ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہو۔

۳۔ تفسیر قرآن کے سلسلے میں معصومین (ع) کی روایات۔

بنا براین مترجم کیلئے ضروری ہے کہ وہ مندرجہ بالا تین چیزوں کا مکمل احاطہ رکھتا ہو تاکہ قرآن کے معانی اور مفاہیم کو کسی دوسری لغت میں نقل کر سکے۔

باقی رہی ذاتی رائے جس کو بعض مفسرین اپنی تفسیروں میں پیش کرتے ہیں اور وہ ان گزشتہ رہنما اصولوں کی روشنی میں حاصل نہ ہو تو وہ تفسیر بالرائے ہے اور اس کی کوئی حیثیت اور مقام نہیں مترجم کو چاہئے کہ ترجمہ کے سلسلے میں اس قسم کی تفسیروں کا سہارا نہ لے۔

ترجمہ کے سلسلے میں ان نکات کومدنظر رکھتے ہوئے حقائق قرآن اور اس کے مفاہیم ہر قوم کیلئے اسی کی لغت میں پیش کئے جائیں کیونکہ قرآن تمامل وگوں کی ہدایت کیلئے نازل کیاگیا ہے ، اور جب تک قرآن کی تعلیمات اور اس کے حقائق تمام انسانوں کیلئے لغت قرآن کو ، عام انسانوں اور قرآنی تعلیمات کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہئے۔

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689