البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن11%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313990 / ڈاؤنلوڈ: 9313
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

شیخ صدوق محمد بن علی بن الحسین صحیح سند سے امام جعفر صادق(ع) سے راویت فرماتے ہیں:

''الوقوف عند الشبهة خیر من الاقتحام فی الهلکة، ان علی کل حق حقیقة، و علی کل صواب نوراً، فما وافق کتاب الله فخذوه، و ما خالف کتاب الله فدعوه ۔۔۔،، (۱)

''شک و شبہ کے وقت توقف کرنا ہلاکت میں پڑنے سے بہتر ہے۔ ہر حق کے پیچھے ایک حقیقت ہوا کرتی ہے اور ہر حقیقت کے کچھ آثار ہوتے ہیں۔ جوبات بھی کتاب خدا کے مطابق ہو اسے لے لو اور جو کتاب خدا کے مخالف ہو اسے ترک کردو۔،،

شیخ جلیل سعید بن ھبۃ اللہ قطب راوندی صحیح سند سے امام جعفر صادق(ع) سے روایت فرماتے ہیں:

''اذا ورد علیکم حدیثان مختلفان فاعرضوهما علی کتاب الله، فما وافق کتاب الله فخذوه، و ما خالف کتاب الله فردوه ۔۔۔،، (۲)

''جب تم تک دو مختلف احادیث پہنچیں تو انہیں کتاب خدا کے ذریعے جانچو بایں معنی کہ ان میں سے جو بھی کتاب خدا کے مطابق ہو اسے لے لو اور جو کتاب خدا کے مطابق نہ ہو اسے ٹھکرا دو۔،،

چوتھا شبہ

اس دلیل کے خلاصہ جمع قرآن کی کیفیت او راس کیفیت سے تحریف کا لازم آنا ہے۔ آئندہ آنے والی بحث ''جمع قرآن کے بارے میں نظریات،، میں اس شبہ و دلیل کو باطل ثابت کیا جائے گا۔

____________________

(۱) الوسائل، ج ۳ کتاب القضائ، باب وجوہ الجمع بین الاحادیث المختلفۃ و کیفیۃ العمل بہا، ص ۳۸۰۔

(۲) ایضاً

۳۰۱

جمع قرآن کے بارے میں نظریات

جمع قرآن کی روایات

جمع قرآن کی احادیث میں تضادات

قرآن کو مصحف کی صورت میں کب جمع کیا گیا۔

حضرت ابوبکر کے زمانے میں جمع قرآن کی ذمہ داری کس نے لی؟

کیا جمع قرآن کا کام زید کے سپرد کیا گیا تھا؟

کیا حضرت عثمان کے زمانے تک ایسی آیات باقی تھیں، جن کی تدوین نہیں کی گئی؟

جمع قرآن میں حضرت عثمان کا ماخذ و مدرک کیا تھا؟

قرآن جمع کرکے اس کے نسخے دوسرے شہروں میں کس نے بھیجے؟

دو آیتوں کوسورہ براءت کے آخر میں کب ملایا گیا؟

ان دو آیتوں کو کس نے پیش کیا؟

یہ کیسے ثابت ہوا کہ یہ دونوں آیتیں قرآن کا حصّہ ہیں؟

قرآن کی کتابت اور املاء کےلئے حضرت عثمان نے کس کا تقرر کیا؟

روایات جمع قرآن میں تضادات

احادیث جمع قرآن، کتاب الٰہی سے متعارض ہیں

احادیث جمع قرآن حکم عقل کے خلاف ہیں

احادیث جمع قرآن خلاف اجماع ہیں

احادیث جمع قرآن اور قرآن میں زیادتی

۳۰۲

جمع قرآن وہ موضوع ہے جسے تحریفی حضرات اپنی دلیل قرار دیتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ جمع قرآن کی کیفیت کا لازمہ (عام حالات میں) قرآن میں تحریف و تغییر ہے۔ اس بحث کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف اور تغییر سے پاک و منزّہ ہے۔

اس شبہ کا منشاان حضرات کا یہ گمان ہے کہ جب برئ معونہ میں ستر اور جنگ یمامہ میں چار سو قاری قتل ہو گئے تو اس طرح قرآن کے ضائع ہو جانے کا خطرہ پیدا ہوا۔ چنانچہ قرآن کی بقا اور اس کے تحفظ کی خاطر حضرت ابوبکر کے حکم پر حضرت عمر اور زید بن ثابت نے کھجور کی ٹہنیوں، کپڑے کے ٹکڑوں، باریک پتھروں اور دو عادل گواہوں کی گواہی کے بعد لوگوں کے سینوں سے قرآن جمع کرنا شروع کردیا۔

جمع قرآن کی اس کیفیت کی تصریح بہت سی روایات میں کی گئی ہے۔ اس طریقے سے جمع کرنے والا انسان جب غیر معصوم ہو تو عموماً کوئی نہ کوئی چیز، آیہ وغیرہ، رہ جاتی ہے جس تک جمع کرنے والے کی دسترس نہیں ہوتی۔ مثلاً اگر کوئی انسان کسی ایک یا کئی شعراء کا کلام جمع کرنا چاہے جو متفرق اور بکھرا پڑا ہو تو کسی نہ کسی شعر یا بیت کے رہ جانے کا خدشہ باقی رہتا ہے۔ انسانی عادت کے مطابق یہ ایک قطعی اور یقینی امر ہے اور اگر یقین نہ ہو تو اس طرح جمع کرنے سے تخریف کا احتمال ضرور رہتا ہے کیونکہ یہ احتمال باقی رہتا ہے کہ بعض ایسی آیات کی گواہی دو عادل نہ دے سکیں جو پیغمبر اکرم (ص) سے سنی گئی ہوں۔ بنا برایں یقین سے نہیںکہا جا سکتا کہ سارے کا سارا قرآن جمع کرلیا گیا ہے اور اس میں کوئی کمی باقی نہیں رہی۔

جواب

یہ شبہ اس بات پر مبنی ہے کہ جمع قرآن کی کیفیت سے متعلق تمام روایات صحیح ہوں۔ لہٰذا بہتر ہے کہ ہم پہلے ان روایات کو بیان کریں اور اس کے بعد ان پر کئے جانے والے اعتراضات پیش کریں۔

۳۰۳

جمع قرآن کی روایات

۱۔ زید بن ثابت سے روایت ہے:

''حضرت ابوبکر نے جنگ یمامہ کے موقع پر مجھے بلوایا، ان کے پاس جانے پر معلوم ہوا کہ حضرت عمر بھی ان کے پاس موجود تھے۔ حضرت ابوبکر نے مجھ سے کہا : عمر میرے پاس آئے ہیں اور انہوں نے کہا کہ یمامہ کے موقع پر قاریان قرآن کثرت سے قتل کردئےے گئے ہیں اور انہیںڈر ہے کہ اور مقامات پر بھی قاریان قرآن کثرت سے قتل کئے جائیں گے اور اس طرح قاریوں کے سینوں میں موجود قرآن ضائع ہو جائیگا اسلئے مصلحت اسی میں ہے کہ میں (حضرت ابوبکر) قرآن کو ایک مستقل کتاب کی صورت میں جمع کرنے کا حکم صادر کروں۔ میں نے (حضرت ابوبکر) جواب میں کہا ہے کہ میں وہ کام کیسے انجام دوں جو رسول اللہ (ص) نے انجام نہیں دیا۔ حضرت عمر نے کہا: قسم بخدا یہ تو ایک کار خیر ہے حضرت عمر بار بار یہی تجویز پیش کرتے رہے، حتیٰ کہ خدا نے میرا سینہ کشادہ فرمایا اور میں بھی حضرت عمر کا ہم رائے ہوگیا،زید کہتے ہیں کہ ابو بکر نے مجھ سے کہا: تم ایک عقلمند، قابل اعتماد اور سچے جوان ہو اور رسول اللہ(ص) کے زمانے میں وحی بھی لکھا کرتے تھے۔ آج بھی تم جمع قرآن کے اس عظیم عمل کو انجام دو زید کہتے ہیں: خدا کی قسم اگر حضرت ابو بکر ایک پہاڑ کو اپنی جگہ سے اٹھانے کا حکم دیتے تو میرے لئے آسان تھا مگر جمع قرآن کا کام مشکل۔ اس لئے میں نے بھی حضرت ابوبکر سے کہا: آپ یہ کام کیسے انجام دینا چاہتے ہیں جو خود رسول اللہ(ص) نے انجام نہیں دیا۔ حضرت ابوبکر نے جواب دیا: یہ ایک اچھا کام ہے۔ حضرت ابوبکر اپنی یہ رائے مکرر بیان کرتے رہے۔ حتیٰ کہ خدا نے مجھے وسعت صدر عطا فرمائی اورم جوبات حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے دل میں تھی وہ میرے دل میں بھی اتر گئی اور میں نے تختوں، کاغذ کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کو جمع کرنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ سورہ توبہ کا آخری حصہ صرف ابی خزیمہ انصاری سے ملا اور و یہ تھا:

( لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمومنينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ) ۹: ۱۲۸

( فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ) : ۱۲۹

۳۰۴

ان صحیفوں سے جمع شدہ قرآن ایک کتاب کی صورت میں حضرت ابوبکر کے پاس تھا اور انکی وفات کے بعد حضرت عمر کے پاس تھا اور انکی وفات کے بعد ان کی بیٹی حفصہ کے پاس تھا،،

۱۔ ابن شہاب انس بن مالک سے نقل کرتے ہیں:

'' جب حذیفہ بن یمان اہل شام اور اہل عراق کے ہمراہ آرمینیہ اور آذربائیجان کو فتح کرنے میں مصروف تھے تو قرآن کی قراءتوں میں لوگوں کے اختلافات دیکھ کر گھبرا گئے اور اختلاف کا ہو جائیں، کتاب خدا کی خبر لیجئے۔

چنانچہ حضرت عثمان نے حفصہ کہ یہ پیغام بھیجا کہ جمع شدہ قرآن نے ان کی طرف بھیج دے وہ اس کے مزید نسخے بنا کر واپس کردیں گے۔ حفصہ نے قرآن حضرت عثمان کی طرف بھیجا اور زید بن ثابت، میں کوئی اختلاف ہوتو اسے لغت قریش میں لکھو اس لئے کہ قرآن لغت قریش کے مطابق نازل ہوا ہے۔ قرآن کے متعدد نسخے بنا کر اسے واپس حفصہ کے پاس بھیج دیا گیا اور ہر جگہ ایک ایک نسخہ بھیجا گیااور یہ حکم دیا گیا کہ ان نسخوں کے علاوہ جہاں کہیں کوئی قرآن یا اس کا حصہ ملے جلا دیا جائے۔،،

ان شہاب کہتے ہیں:

مجھے خارجہ بن زید بن ثابت نے بتایا کہ اس نے زید بن ثابت کو یہ کہتے سنا ہے : قرآن کے نسخے لکھتے وقت مجھے سورہ احزاب کی ایک آیت نہیں ملی جسے میں رسول اللہ(ص) سے سنا کرتا تھا، چنانچہ تلاش بسیار کے بعد وہ آیہ خزیمہ بن ثابت انصاری کے پاس ملی۔ وہ آیت یہ تھی:

( مِّنَ الْمومنينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ) ۲۳:۳۳

ہم نے اس آیہ کو سورہ ئ احزاب میں شامل کرلیا۔،،

۳۔ ابن ابی شیبہ اپنی سند سے امیر المومنین (ع) سے نقل کرتے ہیں:

''قرآن کی جمع آوری میں سب سے زیادہ ثواب حضرت ابوبکر کو ملے گا کیونکہ حضرت ابوبکر وہ پہلے شخص ہیں۔ جنہوں نے قرآن کو کتاب کی صورت میں جمع کیا۔،،

۳۰۵

۴۔ ابن شہاب سالم بن عبداللہ اور خارجہ سے نقل کرتے ہیں:

صحیح بخاری، با جمع القرآن ، ج۶،ص۹۸

صحیح بخاری، ج۶، ص۹۹ ۔ یہ دونوں اور اس کے بعد اکیس تک کی روائتیں منتخب کنز العمال، جو حاشیہ مسند احمد میں ہے، میں مذکور ہیں۔ ج۲، ص۴۳۔۵۲۔

'' حضرت ابوبکر نے قرآن کو چند کاغذوں میں جمع کیا تھا اس کے بعد انہوں نے زید بن ثابت سے کہا کہ ان میں نظرثانی کردے مگر اس نے انکار کردیا۔ حضرت ابوبکر نے اس سلسلے میں حضرت عمر سے مدد طلب کی اور زید بن ثابت نے ان کاغذوں پر نظرثانی کی۔ یہ نسخہ حضرت ابوبکر کی زندگی میں ان کے پاس تھا۔ ان کی وفات کے بعد یہ حضرت عمر کے پاس رہا اور ان کی وفات کے بعد یہ پیغمبر اکرم(ص) کی زوجہ حفصہ کے پاس رہا۔ حضرت عثمان نے حفصہ سے یہ نسخہ طلب کیا مگر وہ نہ مانیں۔ لیکن جب حضرت عثمان نے ان سے یہ وعدہ کیا کہ وہ اس سے مزید نسخے بنا کر اسے واپس کردیں گے تو وہ راضی ہوگئیں اور حضرت عثمان کو یہ نسخہ بھیج دیا۔ حضرت عثمان نے اس کے متعدد نسخے بنا کر اصل واپس بھیج اور آخر تک یہ انہی (حفصہ) کے پاس رہا۔،،

۵۔ ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں:

'' جس وقت اہل یمامہ قتل کردئےے گئے۔ حضرت ابوبکر نے حضرت عمر بن خطاب اور زید بن ثابت سے کہا: تم دونوں مسجد کے دروازے پر بیٹھ جاؤ اور جو تمہارے پاس قرآن کا کوئی حصہ لے کر آئے اور تمہیں اس کے قرآن ہونے میں شک ہو اور دو عادل گواہ اس کے قرآن ہونے کی شہادت دیں تو اس کو تحریر کرلو۔ اس لئے مقام یمامہ پر ایسے اصحاب رسول (ص) قتل کردئےے گئے ہیں جنہوں نے قرآن جمع کیا تھا۔،،

۳۰۶

۶۔ محمد بن سیرین سے روایت کرتے ہیں:

'' جس وقت حضرت عمر قتل کئے گئے اس وقت قرآن جمع نہیں کیا گیا تھا۔،،

۷۔ حسن روایت کرتے ہیں:

'' ایک مرتبہ حضرت عمر نے قرآن کی کسی آیت کے بارے میں سوال کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ آیہ فلاں آدمی کے پاس تھی جو جنگ یمامہ میں قتل کردیا گیا ہے۔ حضرت عمر نے کہا: انا اللہ پھر انہوں نے قرآن جمع کرنے کا حکم دیا۔ با برایں حضرت عمر وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے قرآن کو ایک کتاب کی صورت میں جمع کیا۔،،

۸۔ یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب نے روایت کی ہے:

'' حضرت عمر نے قرآن جمع کرنا چاہا۔ وہ لوگوں کے مجمع میں کھڑے ہوگئے اور کہا: جس جس نے قرآن کا کوئی حصہ رسول اسلام (ص) سے سنا ہے وہ اسے میرے سامنے پیش کرے۔ اس وقت قرآن تختوں اورکاغذ کے ٹکڑوں وغیرہ پر لکھا ہوا لوگوں کے پاس موجود تھا اور جب تک دو عادل گواہ شہادت نہ دیتے اسوقت تک حضرت عمر اسے قرآن کے طور پر تسلیم نہ کرتے۔ اس جمع آوری کے دوران حضرت عمل قتل کردئےے گئے ان کے بعد یہ کام حضرت عثمان نے سنبھالا اور اعلان کیا: جس کے پاس قرآن کا کوئی حصہ ہو اسے میرے پاس لے آئے۔ حضرت عثمان بھی قرآن تب تسلیم کرتے تھے جب دو عادل گواہی دیں۔ اسی دوران خزیمہ بن ثابت آئے اور کہا: تم لوگوں نے دو آئتیں چھوڑ دی ہیں ، لوگوں نے کہا: وہ کون سی ہیں؟ میں نے رسول اللہ (ص) سے یہ آیت سنی ہے:

۳۰۷

( لَقَد جاءَكُم رَسولٌ مِن أَنفُسِكُم عَزيزٌ عَلَيهِ ما عَنِتُّم حَريصٌ عَلَيكُم بِالمومنينَ رَءوفٌ رَحيمٌ ..)

حضرت عثمان نے کہا: میں بھی شہادت دیتا ہوں کہ یہ دونوں آیتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔ مگر ان دونوں کو کس جگہ رکھنا چاہےے؟ خزیمہ نے کہا: اسے اس سورہ کے خاتمے میں شامل کردیں جو آخر میں نازل کیا گیا ہو۔ چنانچہ میں نے سورہ براءت کے آخر میں لکھ دیا۔

۹۔ عبید بن عمیر نے روایت کی ہے:

''حضرت عمر اس وقت تک کسی آیہ کو قرآن میں شامل نہیں کرتے تھے جب تک دو آدمی شہادت نہ دے دیں۔ چنانچہ انصار میں سے ایک آدمی یہ دو آیتیں لے کر آیا:

( لَقَد جاءَكُم رَسولٌ مِن أَنفُسِكُم ..) . الخ

حضرت عمر نے کہا: میں تم سے اس آیہ کریمہ کے بارے میں کوئی گواہی طلب نہیں کروں گا۔ اس لئے کہ رسول اللہ(ص) بھی اسی طرح پڑھا کرتے تھے۔،،

۱۰۔ سیلمان بن ارقم نے حسن، ابن سیرین اور ابن شہاب سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

'' جب جنگ یمامہ میں قاریان قرآن بڑی تیزی سے قتل کئے گئے حتیٰ کہ چارسو قاری قتل کردئےے گئے تو زید بن ثابت نے حضرت عمر سے کہا : ہمارے دین کا دارومدار قرآن ہے۔ اگر قرآن ضائع ہوگیا تو دین بھی ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا، اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ قرآن جمع کرنا شروع کردوں۔ حضرت عمر نے کہا: آپ کچھ انتظار کریں تاکہ میں حضرت ابوبکر سے پوچھ لوں، چنانچہ حضرت عمر ار زید بن ثابت دونوں حضرت ابوبکر کے پاس گئے اور انہیں اس صورت حال سے آگاہ کیا۔ حضرت ابوبکر نے کہا: ابھی جلدی نہ کریں مجھے مسلمانوں سے مشورہ کرلینے دیں، اس کے بعد خطبے میں انہوں نے لوگوں کو اس سے آگاہ کیا: لوگوں نے اس کی تائید کی اور کہا: آپ کا فیصلہ بالکل صحیح ہے۔ یہاں سے قرآن کی جمع آوری شروع ہوگئی اور حضرت ابوبکر نے منادی کرائی کہ جس جس کے پاس قرآن کا کوئی حصہ ہے وہ انہیں لادے۔،،

۳۰۸

۱۱۔ خزیمہ بن ثابت نے روایت بیان کی ہے:

میں آیہ ئ شریفہ: لقد جاء کم رسول من انفسکم... لے کر حضرت عمر بن خطاب اور زید بن ثابت کے پاس گیا۔ زید نے کہا: تمہارے ساتھ دوسرا گواہ کون ہے؟ میں نے کہا: مجھے کسی دوسرے گواہ کاعلم نہیں۔ حضرت عمر نے کہا: اس کے ساتھ دوسری گواہی میں دیتا ہوں کہ یہ قرآن کی آیہ ہے۔،،

اس روایت کے علاوہ جتنی روایات منتخب سے نقل کی ہیں وہ سب کنز العمال '' جمع القرآن،، ج ۲ ، ص ۳۶۱ میں موجود ہیں، یہ روایات یحییٰ بن جعدہ سے منقول ہیں۔

۱۲۔ ابو اسحاق نے اپنے بعض اصحاب سے روایت کی ہے:

'' جس وقت حضرت عمر بن خطاب نے قرآن کی جمع آوری کی تو انہوںنے لوگوں سے پوچھا: لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح کون ہے، جواب دیا گیا: سعید بن عاص، اس کے بعد پوچھا سب سے اچھی کتابت کس کی ہے؟ جواب میں کہا گیا: زید بن ثابت کی۔ اس پر حضرت عمرنے حکم دیا کہ سعید بن عاص املاء لکھائے اور زید بن ثابت لکھے۔ اس طرح چار قرآن لکھے گئے۔ ان میں سے ایک قرآن کوفہ، دوسرا بصرہ، تیسرا شام اور چوتھا حجاز کی طرف بھیجا گیا۔،،

۱۳۔ عبداللہ بن فضالہ نے روایت بیان کی ہے:

'' جب حضرت عمر قرآن لکھنے لگے تو اپنے اصحاب میں سے چند کو اپنے پاس بٹھا کر ان سے کہا: جب کبھی لغت قرآن میں اختلاف ہو تو اسے لغت مضر کے مطابق لکھا کیونکہ قرآن لغت مضر کے ایک آدمی پرنازل ہوا ہے۔،،

۳۰۹

۱۴۔ ابوقلابہ نے روایت کی ہے:

'' حضرت عثمان کے دورخلافت میں کوئی معلم کسی قراءت کے مطابق قرآن پڑھاتا تھا اور کوئی معلم کسی اور قراءت کے مطابق پڑھاتا تھا۔ اس کے نتیجے میں شاگردوں کی قراءتو ں میں اختلاف ہوگیا۔ حتیٰ کہ یہ اختلاف معلمین میں بھی سرایت کرگیا اور بعض نے بعض کو کافر کہنا شروع کردیا۔ اس کی اطلاع حضرت عثمان کو ملی اور انہوں نے اپنے خطاب میں کہا: تم لوگ میرے پاس ہو اور اس کے باوجود قراءت قرآن میں اختلاف رکھتے ہو اور صحیح قراءت نہیں کرتے، تو جو لوگ مجھ سے دور ہیں ان اختلاف اور غلطیاں تو اس سے بھی زیادہ ہوں گی۔ اے اصحاب محمد(ص) فوراً جمع ہو جاؤ اور لوگوں کے لئے رہنما (قرآن) مرتب کردو۔،،

ابوقلابہ، مالک بن انس (ابوبکر بن داؤد کہتے ہیں کہ یہ مالک بن انس، مشہور مالک بن انس کی جد ہے) سے نقل کرتے ہیں:

'' میں ان افراد میں سے تھا جو کاتبوں کو قرآن کی املاء لکھواتے تھے کبھی ایسا ہوتا کہ جب کسی آیہ کے بارے میں اختلاف واقع ہوتا اور کسی ایسے آدمی کا نام لیاجاتا جس نے اس آیہ کو رسول اللہ (ص) سے سنا ہو اور وہ موقع پر حاضر نہ ہوتا تو اس مختلف فیہ آیہ سے قبل اور بعد والی آیات لکھ دی جاتیں اوراختلافی آیت کے لئے جگہ چھوڑدی جاتی حتیٰ کہ وہ شخص، جس جس نے آیت رسول اللہ (ص) سے سنی ہوتی، آجاتا یا پھر کسی آدمی کو اشخص کے پیچھے بھیج دیا جاتا تھا تاکہ اسے بلا لائے اور اس کی رائے کے مطابق قرآن لکھا جائے۔ اس طرح قرآن کی کتاب اختتام تک پہنچی۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہمارے پاس تھا ضائع کردیا ہے لہٰذا اس مرتب شدہ قرآن کے علاوہ تمہارے پاس جو کچھ بھی ہو اسے ضائع کردو۔،،

۳۱۰

۱۵۔ مصعب بن سعد نقل کرتے ہیں:

''ایک مرتبہ حضرت عثمان نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ابھی رسول اللہ (ص) کی وفات کو تیرہ برس سے زیادہ نہیں گزرے اور تم نے قرآن کے بارے میں اختلاف کرنا شروع کر دیا ہے اور یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ابیی بن کعب کی قرات ایسی ہے اور عبداللہ کی قرات ایسی ہے۔ ایک کہتا ہے تمہاری قرات درست نہیں اور دوسرا کہتا ہے کہ تمہاری قرات درست نہیں۔ خدارا ! تم میں سے جس کے پاس بھی قرآن کی کوئی آیت ہے وہ میرے پاس لے آئے تاکہ قرآن کی صححی جمع آوری کی جا سکے۔ چنانچہ لوگوں نے کاغذ اور چمڑے کے ٹکڑوں ، جن پر قرآن لکھا ہوا تھا ، کو حضرت عثمان کے پاس لانا شروع کر دیا اوراس طرح کافی مقدار میں قرآن جمع ہو گیا اس کے بعد حضرت عثمان نے ان لوگوں ، جو کاغذوں اور چمڑوں پر لکھا ہوا قرآن لائے تھے ، میں سے ایک ایک کو اپنے پاس بلایا اور ہر ایک سے حلیفہ پوچھا کہ اس نے خود رسول اللہ (ص) سے اس آیت کوسنا ہے اور یہ آنحضرت (ص) نے ہی اسے لکھوائی ہے ؟ لوگ اس کا جواب اثبات میں دیتے اس کے بعد حضرت عثمان نے پوچھا تم میں سب سے اچھا کاتب کون ہے ؟ جواب ملا: زید بن ثابت جو کاتب وحی بھی ہیں ۔ پھر پوچھا: تم میں لغت عرب سے زیادہ آشنا کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : سعید بن عاص ہے ۔ حضرت عثمان نے حکم دیا کہ سعید قرآن لکھواتا جائے اور زید بن ثابت لکھتا جائے اس طرح کئی قرآن لکھے گئے اورلوگوں میں تقسیم کئے گئے،،۔

مصعب بن سعد کہتے ہیں:

''میں نے بعض اصحاب پیغمبر (ص) کو یہ کہتے سنا ہے کہ بہت اچھا عمل انجام پایا ہے،،۔

۳۱۱

۱۶۔ ابو الملیح نے روایت بیان کی ہے:

''جب حضرت عثمان نے قرآن لکھنا چاہا تو فرمایا: قبیلہ بنی ہذیل لکھوائے اور قبیلہ بنی ثقیف لکھے،،

۱۷۔ عبدالاعلیٰ بن عبداللہ بن عبداللہ بن عامر قرشی نے روایت بیان کی ہے:

''جب قرآن مکمل طور پر لکھا گیا تو حضرت عثمان نے کہا : یہ تم نے بہت اچھا کام انجام دیا ہے۔ تاہم ابھی قرآن میں کچھ غلطیاں دیکھ رہا ہوں جنہیں عرب اہل زبان خود ہی درست کر لیں گے،،

۱۸۔ مکرمہ کہتے ہیں:

''جب قرآن جمع کر کے حضرت عثمان کے پاس لایا گیا تو انہیں اس میں کچھ غلطیاں نظر آئیں اور انہوں نے کہا: اگر قرآن لکھوانے والا قبیلہ بنی ہذیل اورل کھنے والا قبیلہ بنی ثقیف سے ہوتا تو یہ غلطیاں نہ ہوتیں،،

۱۹۔ عطاء روایت بیان کرتے ہیں:

''جب حضرت عثمان قرآن کے نسخے مرتب کرنے لگے تو انہوں نے ابی بن کعب کو اپنے پاس بلایا ابیی بن کعب لکھواتا تھا اور زید بن ثابت لکھتا تھا ان کے ساتھ سعید بن عاص بھی تھا جو تصحیح کرتا تھا لہٰذا یہ قرآن ابیی اور زید کی قرات کے مطابق ہے،،۔

۲۰۔ مجاہد نے روایت بیان کی ہے :

''حضرت عثمان نے ابی بن کعب کو قرآن لکھوانے ، زید بن ثابت کو لکھنے اور سعید بن عاص اور عبدالرحمن بن حرث کو تصحیح کرنے کا حکم دیا،،

۳۱۲

۲۱۔ زید بن ثابت نے روایت کی ہے:

''ہم قرآن لکھ چکے تو مجھے ایک آیت نہیں ملی جسے میں رسول اللہ (ص) سے سنا کرتا تھا آخر کار یہ آیت مجھے خزیمہ بن ثابت کے پاس سے ملی اور وہ آیت یہ تھی :( مِّنَ الْمومنينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ) تک خزیمہ کو ذوالشہادتین کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمض نے اس کی شہادت دو مردوں کی شہادت کے برابر قرار دی تھی،،

۲۲۔ ابن اشتہ نے لیث بن سعد سے نقل کیا ہے:

''سب سے پہلے انسان جس نے قرآن جمع کیا ، حضرت ابوبکر ہیں اور قرآن کے کاتب زید بن ثابت ہیں زید کا طریقہ کار یہ تھا کہ لوگ زید بن ثابت کے پاس آتے مگر جب تک دو عادل کسی آیہ کے قرآن ہونے کے بارے میں شہادت نہ دیتے ، زید اسے نہ لکھتے اور سورہ برات کا آخری حصہ ابی خزیمہ بن ثابت کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں مل سکا اور ابی خزیمہ کے پاس دو عادل گواہ نہ تھے اس کے باوجود حضرت ابوبکر نے کہا : ابی خزیمہ جو کچھ کہتا ہے اسے لکھ لو کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے اس کی شہادت کو دو آدمیوں کی شہادت قرار دیا ہے چنانچہ حضرت ابوبکر کے اس حکم کے مطابق سورۃ برات کے آخری حصے کو لکھا گیا حضرت عمر آیہ رحم لے کر آئے مگر ہم (زید بن ثابت وغیرہ) نے نہیں لکھا کیونکہ وہ اکیلے تھے اور دوسرا کوئی شاید نہیں تھا،،(۱)

یہ وہ اور اہم روایات ہیں جو جمع قرآن کے بارے میں نقل کی گئی ہیں۔ مگر یہ سب روایات احد ہونے کے علاوہ جو مفید یقین نہیں ہیں کئی اعتبار سے قابل اعتراض بھی ہیں۔

____________________

(۱) الاتقان النوع ۱۸ ، ج ۱ ، ص ۱۰۱

۳۱۳

۱۔ جمع قرآن کی احادیث میں تضاد

ان احادیث کا آپس میں تضاد ہے اس لئے ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند سوالات و جوابات کے ضمن میں ان روایات میں موجود تضادات کو بیان کیا جائے:

٭ قرآن کو مصحف کی صورت میں کب جمع کیا گیا۔

دوسری روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کو حضرت عثمان کے زمانے میں جمع کیا گیا پہلی ، تیسری اور چوتھی روایت کی تصریح اوربعض دیگر روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن حضرت ابوبکر کے زمانے میں جمع کیا گیا اور ساتویں اور بارہویں روایت صراحتاً یہ کہتی ہے کہ قرآن حضرت عمر کے زمانے میں جمع کیا گیا۔

٭ حضرت ابوبکر کے زمانے میں جمع قرآن کی ذمہ داری کس نے لی ؟

پہلی اور بائیسویں روایت یہ کہتی ہے کہ جمع قرآن کی ذمہ داری زید بن ثابت نے لی اور چوتھی روایت یہ کہتی ہے کہ اس کی مسؤلیت حضرت ابوبکر نے ہی قبول کی تھی اور زید کے ذمے صرف اتنا تھا کہ جمع شدہ قرآن پر نظرثانی کرے پانچویں روایت یہ کہتی ہے اور بعض دیگر روایات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے ذمہ دار زید بن ثابت اور حضرت عمر دونوں تھے ۔

٭ کیا جمع قرآن کا کام زید کے سپرد کیا گیا تھا؟

پہلی روایات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر نے اس کام کو زید کے سپرد کر دیا تھا بلکہ پہلی روایت صراحتاً اس بات پر دلالت کرتی ہے کیونکہ حضرت ابوبکر کا یہ قول : ''تم ایک عقلمند ، قابل اعتماد اور سچے جوان ہو اور رسول اللہ کے زمانے میں وحی بھی لکھا کرتے تھے آج بھی تم جمع قرآن کے اس عظیم عمل کو انجام دو ،، واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت ابوبکر نے جمع قرآن کا کام زید کے ذمے لگایا تھا۔

پانچویں روایت کا مفہوم یہ ہے کہ دو شاہدوں کی شہادت سے قرآن کی کتابت ہو رہی تھی یہاں تک کہ حضرت عمر آیہ رحم لے کر آئے مگر یہ ان سے قبول نہیں کی گئی۔

۳۱۴

٭ کیا حضرت عثمان کے زمانے تک ایسی آیات باقی تھیں جن کی تدوین نہیں کی گئی؟

اکثر روایات سے یہی ظاہر ہوتا ہے بلکہ ان کی تصریح یہی ہے کہ حضرت عثمان نے پہلے سے مدون قرآن میں کوئی کمی نہیں کی اور چودہویں روایت صراحتاً یہ کہتی ہے کہ حضرت عثمان نے پہلے سے مدون قرآن میں سے کچھ گھٹا دیا گیا تھا اور مسلمانوں کو بھی اسے مٹانے کا حکم دیا تھا۔

٭ جمع قرآن میں حضرت عثمان کا ماخذ و مدرک کیا تھا؟

دوسری اور چوتھی روایت تصریح کرتی ہے کہ جمع قرآن کے سلسلے میں حضرت عثمان کا مدرک وہ قرآن تھے جنہیں حضرت ابوبکر نے جمع کیاتھا اور آٹھویں ، چودھویں اور پندرہویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ حضرت عثمان کا مدرک دو گواہوں کی شہادت اور ان کا یہ قول تھا کہ انہوں نے خود رسول اللہ (ص) سے قرآن سنا ہے۔

٭ حضرت ابوبکر سے جمع قرآن کا مطالبہ کس نے کیا؟

پہلی روایت یہ کہتی ہے کہ جمع قرآن کا مطالبہ حضرت عمر نے کیا اور حضرت ابوبکر نے پہلے انکار کیا لیکن حضرت عمر کے اصرار پر وہ اس پر آمادہ ہو گئے اور زید بن ثابت کو اپنے پاس بلوا کر اس سے جمع قرآن کا مطالبہ کیا زید نے بھی پہلے انکار کیا اور پھر حضرت ابوبکر کے اصرار پر آمادگی ظاہر کی دسویں روایت یہ کہتی ہے کہ زید اور حضرت عمر نے حضرت ابوبکر سے جمع قرآن کا مطالبہ کیا اور حضرت ابوبکر نے دوسرے مسلمانوں سے مشورہ کے بعد اپنی رضا مندی کا اظہار کیا۔

٭قرآن جمع کر کے اس کے نسخے دوسرے شہروں میں کس نے بھیجے؟

دوسری روایت کی تصریح یہ ہے کہ یہ عمل حضرت عثمان نے انجام دیا تھا اور بارہویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ یہ عمل حضرت عمر نے انجام دیا۔

۳۱۵

٭ دو آئتوں کو سورہ برائت کے آخر میں کب ملایا گیا؟

پہلی ، گیارہویں اور بائیسویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ ان دو آئتوں کو حضرت ابوبکر کے زمانے میں سورہ برائت سے ملایا گیا آٹھویں روایت یہ تصریح کرتی ہے اور بعض دوسری روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کام حضرت عمر کے دور میں انجام پایا تھا۔

٭ ان دو آئتوں کو کس نے پیش کیا؟

پہلی اور بائیسویں روایت کی تصریح یہ ہے کو ابو خزیمہ نے ان آئتوں کو پیش کیا آٹھویں اور گیارہویںروایت کی تصریح یہ ہے کہ خزیمہ بن ثابت نے ان آئتوں کو پیش کیا تھا اوران دونوں (ابوخزیمہ اور خزیمہ بن ثابت) میں کوئی نسبت نہیں ہے چنانچہ ابن عبدالبر نے یونہی نقل کیا ہے۔(۱)

٭ یہ کیسے ثابت ہوا کہ یہ دونوں آئتیں قرآن کا حصہ ہیں؟

پہلی روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے اور نویں اور بائیسویں روایت کی تصریح بھی یہی ہے کہ ایک آدمی کی شہادت سے ان کا قرآن ہونا ثابت ہوا آٹھویں روایت کے مطابق ایک آدمی کے علاوہ حضرت عثمان کی گواہی سے یہ ثابت کیا گیا اور گیارہویں روایت کی تصریح ہے کہ حضرت عمر اور دوسرے آدمی کی گواہی سے اس کا قرآن ہونا ثابت ہوا۔

٭قرآن کی کتابت اور املاء کے لئے حضرت عثمان نے کس کا تقرر کیا؟

دوسری روایت کی تصریح یہ ہے کہ حضرت عثمان نے زید ، ابن زبیر ، سعید اور عبدالرحمن کو کتابت کا حکم دیا اور پندرہویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ حضرت عثمان نے کتابت کیلئے زید بن ثابت کو اور املاء کیلئے سعید کو مقرر کیا سولہویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ حضرت عثمان نے کتابت کیلئے ثقیف کو اور املاء کیلئے ہذیل کو معین کیا اٹھارویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ کاتب قرآن کا تعلق بنی ثقیف سے نہیں تھا اور نہ املاء لکھوانے والے کا تعلق بنی ہذیل سےتھا۔ انیسویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ لکھوانے والا ابیی بن کعب تھا اور زید جو کچھ لکھتے تھے سعید اس کی تصحیح کرتے تھے اور بیسویں روایت کا مفہوم بھی یہی ہے البتہ اس میں تصحیح کرنے والے کا نام عبدالرحمن بن حرث ہے۔

____________________

(۱) تفسیر قرطبی ، ج ۱ ، ص ۵۶

۳۱۶

۲۔ روایات جمع قرآن میں تضادات

یہ روایات ان روایات سے متضاد ہیں جن کے مطابق قرآن کریم رسول اللہ (ص) کے زمانے میں ہی لکھا اور جمع کیا گیا تھا چنانچہ علماء کی ایک جماعت ، جن میں ابن شیبہ ، احمد بن حنبل ، ترمذی ، نسائی ، ابن حبان ، حاکم ، بیہقی اور ضیاء مقدسی شامل ہیں ، ابن عباس سے روایت کرتی ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان سے کہا:''آپ نے کس وجہ سے سورہ انفال کو ، جو مثانی(۱) میں سے ہے ، سورہ برائت کے ساتھ رکھ دیا ہے جو مین(۲) میں سے ہے اور ان دونوں سورتوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ذکر نہیں کیا اور ان دونوں سورتوں کو قرآن کی سات طویل سورتوں کے ساتھ ذکر کر دیا ہے حضرت عثمان نے جواب دیا : بعض اوقات جب رسول اللہ (ص) پر متعدد آیات پر مشتمل سورے نازل ہوتے توآپ (ص) کا تبین وحی کو اپنے پاس بلایا لیتے اور ان سے فرماتے: اس سورے کو فلاں سورے کے ساتھ رکھو ، اور کبھی کبھی جب آپ (ص) پر متعدد آئتیں نازل ہوتیں تو آپ (ص) فرماتے: ان آیات کو فلاں سورے میں شامل کر لو حضرت عثمان کہتے ہیں: سورہ انفال وہ پہلا سورہ ہے جو مدینہ میں نازل ہوا اور سورہ برائت قرآن کا وہ سورہ ہے جو سب سے آخر میں نازل ہوا اس کے علاوہ ان دونوں کے قصے اور واقعات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اس سے میں یہی سمجھا کہ برائت انفال کا حصہ ہے اور رسول اللہ (ص) نے بھی اپنی وفات سے پہلے یہ بیان نہیں فرمایا کہ برائت انفال کا حصہ ہے کہ نہیں۔ ان وجوہات کی بناء پر میں نے انفال اور برائت کو ملا دیا اور ان دونوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور انہیں قرآن کی سات طویل سورتوں میں شامل کر لیا،،(۳) طبرانی اور ابن عساکر ، شعبی سے روایت بیان کرتے ہیں: ''رسول اللہ (ص) کے زمانے میں قرآن کو انصار کے چھ آدمیوں نے جمع کیا ابی بن کعب ، زید بن ثابت ، معاذ بن جبل ، ابودرداء ، سعد بن عبید اور ابو زید ، مجمع بن جاریہ نے بھی دو یا تیس سورتوں کے علاوہ باقی قرآن کو جمع کیا تھا،،(۴)

____________________

(۱) وہ سورتیں جن کی آیات ایک سو سے کم ہوں (ترجم)

(۲) وہ سورتیں جن کا آیات ایک سو یا اس سے زیادہ ہوں (مترجم)

(۳) منتخب کنزالعمال ، ج ۲ ، ص ۲۸

(۴) ایضاً: ج ۲ ، ص ۵۲

۳۱۷

قتادہ کی روایت ہے ، وہ کہتے ہیں:

''میں نے انس بن مالک سے پوچھا: رسول اللہ (ص) کے زمانے میں قرآن کس نے جمع کیا ؟ اس نے جواب دیا : قرآن کو چار آدمیوں نے جمع کیا اور ان سب کا تعلق انصار سے تھا جو یہ ہیں : ابی بن کعب ، معاذ بن جبل ، زید بن ثابت اور ابوزید ،،(۱)

مسروق کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن عمر نے عبداللہ بن مسعود کا ذکر کیا اور کہا:

''میرے دل میں ہمیشہ اس کی محبت رہتی ہے ۔ اس لئے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: تم لوگ قرآن ، چار

آدمیوں ، عبداللہ بن مسعود ، سالم ، معاذ اور ابی بن کعب سے حاصل کرو،،(۲)

نسائی نے صحیح سند کے ذریعے عبداللہ ابن عمر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

''میں نے قرآن جمع کیا اور ہر رات پورا قرآن ختم کرتا تھا ، جب رسول اللہ (ص) کو یہ خبر ملی تو آپ (ص) نے فرمایا: قرآن مہینے میں ختم کیا کرو،،(۳)

ابن سعد کی وہ روایت بھی عنقریب بیان ہو گی جس کے مطابق ام ورقہ نے بھی قرآن جمع کیا تھا۔

ہو سکتا ہے کہ کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ ان روایات میں جمع قرآن سے مراد سینوں میں قرآن کا جمع کرنا ہو اور کتابی شکل میں مدون قرآن مراد نہ ہو لیکن یہ صرف ایک دعویٰ ہو گا جس کا کوئی ثبوت نہیں ہے اس کے علاوہ جیسا کہ آئندہ بحثوں میں ثابت ہو گا کہ رسول اللہ (ص) کے زمانے میں حافظان قرآن لاتعداد تھے بھلا ان کو چار یا چھ میں کیونکر محدود کیا جاسکتا ہے۔

جو شخص صحابہ کرام اور آپ (ص) کے حالات کا بنظر غائر مطالعہ کرے اسے یہ علم اور یقین حاصل ہو جائے گا کہ قرآن مجید عہد رسول اللہ (ص) میں ہی جمع کر لیا گیا تھا اور یہ کہ قرآن کو جمع کرنے والوں کی تعداد بھی کوئی کم نہیں تھی۔

____________________

(۱) صحیح بخاری ، باب القراء من اصحاب النبی (ص) ، ج۶ ، ص ۲۰۲

(۲) صحیح بخاری ، باب القراء من اصحاب النبی (ص) ، ج ۶ ، ص ۲۰۲

(۳) الاتقان النوع ۲۰ ، ج ۱ ، ص ۱۲۴

۳۱۸

باقی رہی بخاری یک وہ روایت جو انس سے نقل کی گئی ہے اور جس میں یہ کہا گیا ہے کہ رسول اللہ (ص) کی وفات تک چار آدمیوں ابودرداء ، معاذ بن جبل ، زید بن ثابت اور ابوزید کے علاوہ کسی اور نے قرآن کو جمع کرنے کی سعادت حاصل نہیں کی یہ روایت متروک اور ناقابل عمل ہے اس لئے کہ یہ ان تمام گزشتہ روایات ، بلکہ خود بخاری کی روایت سے بھی متعارض ہے اس کے علاوہ یہ روایت خودبھی قابل تصدیق نہیں ہے اس لئے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی راوی رسول اللہ (ص) کی وفات کے موقع پر کثیر تعداد میں اور مختلف شہروں میں منتشر مسلمانوں کا احاطہ اور ان کے حالات معلوم کر سکے تاکہ اس طرح قرآن کو جمع کرنے والے افراد چار میں منحصر ہو جائیں یہ دعویٰ توغیب گوئی اور بغیر علم و یقین کے نظریہ قائم کرنے کے مترادف ہے۔

اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ ان تمام روایات کی موجودگی میں اس قول کی تصدیق ممکن نہیں کہ حضرت ابوبکر وہ پہلے شخص ہیں جنہوںنے خلافت سنبھالنے کے بعد قرآن جمع کیا تھا اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر حضرت ابوبکر نے عمر اور زید کو یہ حکم کیوں دیا کہ وہ سفید پتھروں ، کھجور کی چھالوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن جمع کریں اور یہ کہ اس قرآن کو عبداللہ ، معاذ اور ابیی سے کیوں حاصل نہیں کیا ؟ ! جبکہ یہ حضرات جمع قرآن کے وقت زندہ تھے اور رسول اللہ (ص) نے ان سے اور سالم سے قرآن حاصل کرنے کا حکم بھی دیا تھا البتہ اس وقت سالم جنگ یمامہ میں قتل کر دیئے گئے تھے اور اس سے قرآن حاصل کرنا ممکن نہیں تھا،،

اس کے علاوہ اس روایت کےمطابق زید خود منجملہ جامعین قرآن میں سے تھا پھر اسے جمع قرآن کے سلسلے میں ادھر ادھر

تلاش کرنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ حضرت ابوبکر کے قول کے مطابق یہ ایک عقلمند اور پاکدامن نوجوان تھا۔

ان سب کے علاوہ حدیث ثقلین بھی اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن رسول اللہ (ص) کے زمانے میں ی جمع کر لیا گیا تھا چنانچہ ہم آگے چل کر اس کی طرف اشارہ کریں گے۔

۳۱۹

۳۔ احادیث جمع قرآن ، کتاب الٰہی سے متعارض ہیں۔

جمع قرآن سے متعلق بیان شدہ تمام روایات قرآن کریم سے متعارض ہیں کیونکہ بہت سی آیات کے مطابق قرآن کے سورے ایک دوسرے سے جدا سب لوگوں حتیٰ کہ مشرکین اور اہل کتاب کے پاس موجود تھے اس کی دلیل یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے کفار اور مشرکین کو قرآن کی مثل ، دس سورتوں حتیٰ کہ ایک سورہ کی نظیر لانے کا چیلنج کیا تھا اس سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ قرآن کے سورے لوگوں کے ہاتھ میں موجود تھے ورنہ ان کی نظیر لانے کا چیلنج بے معنی ہوتا۔

اس کے علاوہ قرآن مجید کی بہت سی آیات میں قرآن پر کتاب کا اطلاق کیا گیا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے فرمان: ''انی تارک فیکم ثقلین کتاب اللہ و عترتی،، میں بھی قرآن کریم کو کتاب سے تعبیر کیا گیا ہے۔

یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ قرآن مجید جناب نبی کریم (ص) کے زمانے میں ہی مکمل طور پر لکھا جا چکا تھا اس لئے کہ قرآن کے ان مضامین کو کتاب کہنا ہرگز صحیح نہیں ہے جو لوگوں کے سینوں میں ہوں اور نہ اس کو حقیقتہً کتاب کہا جا سکتا ہے جو باریک پتھروں ، کھجور کی ٹہنیوں اور ہڈیوں پر لکھاہوا ہو ہاں مجازی طور پر اسے کتاب کہا جا سکتا ہے لیکن یہ اس صورت میں صحیح ہو گا جب کلام میں معنیء مجازی پر کوئی قرینہ موجود ہو۔

یہی حیثیت لفظ ''کتاب،، کی ہے کیونکہ حقیقی طور پر کتاب ، مضامین کے مجموعہ کو کہا جاتا ہے اگر یہی مضامین مختلف حصوں میں لکھے اور بکھرے ہوئے ہوں تو انہیں کتاب نہیں کہا جائے گا چہ جائیکہ ان مضامین کو کتاب کہا جائے اور ابھی تحریر میں بھی نہیں لائے گا اور صرف لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

عمل: ناپسنديدہ عمل ۱۶

كتب سماوي: كتب سماوى سے منہ پھرنا ۱۴; كتب سماوى كا ضرورى وابستگى ہونا۱۳; كتب سماوى كو قبول كرنے ميں تجزى بعض تعليمات كے قبول اور بعض كے رد; كا قائل ہونا ۱۴; كتب سماوى كى تعليمات ۱۳

وَاتَّبَعُواْ مَا تَتْلُواْ الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيْاطِينَ كَفَرُواْ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُم بِضَآرِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُواْ لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ ( ۱۰۲ )

اوران باتوں كااتباع شروع كرديا جو شياطين سليمان كيسلطنت ميں جپا كرتے تھے حالانكہ سليمانكافر نہيں تھے _ كافر يہ شياطين تھے جولوگوں كوجادو كى تعليم ديتے تھے اور پھرجو كچھ دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر بابلميں نازل ہوا ہے _وہ اس كى بھى تعليم اسوقت تك نہيں ديتے تھے جب تك يہ كہہ نہيں ديتے تھے كہ ہم ذريعہ امتحان ميں خبردارتم كافر نہ ہو جاناليكن وہ لوگان سے وہباتيں سيكھتے جس سے مياں بيوى كے درميانجھگڑا كراديں حالانكہ اذن خدا كے بغير وہكسى كو نقصان نہيں پہنچا سكتے _ يہ ان سےوہ سب كچھ سيكھتے جو ان كے لئے مضر تھااور اس كا كوئي فائدہ نہيں تھا يہ خوبجانتے تھے كہ جو بھى ان چيزوں كو خريدےگا اس كا آخرت ميں كوئي حصہ نہ ہوگا _انھوں نے اپنے نفس كا بہت برا سودا كياہے اگر يہ كچھ جانتے اور سمجھتے ہوں (۱۰۲)

۱_ حضرت سليمانعليه‌السلام ايك ايسے پيامبر ہيں جن كے پاس حكومت و سلطنت تھي_على ملك سليمان

۲ _ شياطين نے حضرت سليمانعليه‌السلام پر جادوگرى كى تہمت لگائي _و ما كفر سليمان و لكن الشياطين كفروا

'' ما كفر سليمان _ سليمان نے كفر اختيار نہ كيا '' اس سے مراد حضرت سليمانعليه‌السلام سے جادوگرى كى نفى كرنا ہے _ ان جملوں ''و لكن الشياطين ...'' اور ''ما تتلوا الشياطين '' سے يہ معلوم ہوتاہے كہ حضرت سليمانعليه‌السلام پر جادوگرى كى تہمت شياطين كى طرف سے تھى جو مشہور ہوگئي_

۳۴۱

۳ _ شياطين نے حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانے كے لوگوں كو جادوگرى كے علوم سكھائے اور لوگوں كے لئے جادو كو پڑھ كر بيان كرتے_ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان يعلمون الناس السحر

'' تتلوا'' كا مصدر تلاوت ہے جس كا معنى پڑھنا اور قرا ت كرناہے آيت كے ما بعد كے مضمون كى روشنى ميں '' ما'' موصولہ سے مراد جادو اور اس طرح كى چيز ہے _'' تتلوا'' كا متعلق ''على الناس'' ہے اور اس كى دليل ''يعلمون الناس'' يعنى يہودى اس جادو كے پيروكار تھے جو شياطين لوگوں كے لئے بيان كرتے تھے_

۴ _ شياطين حضرت سليمانعليه‌السلام اور انكى الہى حكومت كے مخالف تھے _ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان

''على ملك سليمان _ سليمان كى حكومت كے مخالف '' يہ ''تتلوا'' كے مفعول محذوف كے لئے حال ہے يعنى جو جادو لوگوں كے لئے بيان كرتے تھے وہ حضرت سليمانعليه‌السلام كى سلطنت كے خلاف تھا_

۵ _ حضرت سليمانعليه‌السلام كو سلطنت ملنا شياطين كى نظر ميں يہ سحر اور جادو كا كمال تھا_على ملك سليمان و ما كفر سليمان

شياطين جو جادو كے علم كى تحريريں لوگوں كے لئے حضرت سليمانعليه‌السلام كى حكومت كے برخلاف پڑھتے تھے اس چيز كے بيان كے بعد حضرت سليمانعليه‌السلام سے جادوگرى كى نفى كرنااس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ شياطين يہ ظاہر كرتے تھے كہ جو كچھ بيان كرتے يا تلاوت كرتے ہيں يہ وہى كچھ ہے جس نے سليمان (عليہ السلام) كو سلطنت تك پہنچايا ہے اس طرح وہ حضرت سليمانعليه‌السلام كى نبوت كى نفى كے درپے تھے_

۶ _ حضرت سليمانعليه‌السلام جادوگرى اور كفر كى طرف رجحانات سے منزہ و مبرا تھے_و ما كفر سليمان

۷ _ جادو كا استعمال گناہ كبيرہ اور كفر كے برابر ہے_و ما كفر سليمان

يہ بات گزرچكى ہے كہ اس جملہ سے مراد حضرت سليمانعليه‌السلام سے جادوگرى كى نفى كرناہے ليكن يہ جو جادوگرى كو كفر اختيار كرنے سے تعبير كيا گيا ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ جادوگرى بھى ايك طرح كا كفر ہے يا پھر ايسا گناہ ہے جو كفر كے برابر ہے_

۳۴۲

۸_ الہى حكومت كى مخالفت اور اس كے خلاف سرگرم عمل ہونا حرام ہے _واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان

۹ _ جادو كى تعليم دينے كے ذريعے شياطين كا كفر اختيار كرنا_و لكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر

۱۰_ حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانے ميں جادو رائج تھا_ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان يعلمون الناس السحر

۱۱ _ بعض يہوديوں نے شياطين كى طرف سے سكھائے گئے جادو كى طرف رغبت پيدا كى اور انہوں نے جادو سيكھنا شروع كيا _واتبعوا ما تتلوا الشياطين

'' اتبعوا'' كى ضمير '' فريق من الذين اوتوا الكتاب'' كى طرف لوٹتى ہے _

۱۲ _ حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانہ كے يہودى شياطين كے جادو كى پيروى كرتے ہوئے آپعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف سرگرم عمل رہے _ *واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ'' اتبعوا'' كا فاعل حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانہ كے يہودى ہوں _

۱۳ _ پيامبر اسلام (ص) كے خلاف نبرد آزمائي كے لئے يہودى تورات كى بشارتوں كا انكار كرنے كے علاوہ سحر اور جادو سے بھى مدد ليتے تھے_

نبذ فريق كتاب الله وراء ظهورهم و اتبعوا ما تتلوا الشياطين

آيہ ما قبل ميں جملہ '' نبذ فريق'' ، '' لما جاء ہم'' كے بعد اس مطلب كو پہنچاتاہے كہ يہوديوں نے آنحضرت (ص) كے بارے ميں تورات كى بشارتوں كو نظر انداز كيا تا كہ حضور (ص) كى رسالت كا انكار كريں _ جملہ''اتبعوا ...'' كا ''نبذ فريق'' پر عطف بھى اسى معنى پر دلالت كرتاہے كہ جادو كے پيچھے جانا بھى اسى مقصد كے لئے تھا_

۱۴ _ ہاروت و ماروت وہ فرشتے ہيں جو سرزمين بابل پر ساكن ہيں _و ما انزل على الملكين ببابل هاروت و ماروت

'' ببابل '' محذوف سے متعلق اور ''الملكين'' كے لئے حال ہے يعنى '' الملكين كا ئنين ببابل'' بہت سے مفسرين نے كہا ہے كہ بابل عراق كا ايك شہر ہے جو دريائے فرات كے كنارے اور حلہ كے قريب واقع ہے _

۱۵_ ہاروت و ماروت نے بابل كے لوگوں كو جادو سكھايا_و ما انزل على الملكين و ما يعلمان من احد

۱۶ _ ہاروت و ماروت نے جادو كا علم اللہ تعالى سے حاصل كيا *و ما انزل على الملكين ببابل هاروت و ماروت

۳۴۳

۱۷ _ يہوديوں نے ہاروت اور ماروت كى تعليمات كو ليتے ہوئے پيامبرعليه‌السلام كےخلاف صف آرائي كى _

اتبعوا ما تتلوا و ما انزل على الملكين ببابل هاروت و ماروت

'' ما انزل '' ، '' ما تتلوا ...'' پر عطف ہے يعنى :اتبعوا ما تتلوا الشياطين و اتبعوا ما انزل على الملكين _

۱۸ _ ہاروت اور ماروت اپنى تعليمات ( جادو كا سكھانا ) كو لوگوں كے لئے آزمائش سمجھتے تھے اور لوگوں كو متنبہ كرتے تھے_و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنه

۱۹_ ہاروت اور ماروت نے لوگوں كو جادو كى تعليم دينے سے پہلے اسكے غير صحيح استعمال اور سوء استفادہ سے منع كيا _

و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة فلا تكفر

۲۰_ جادو كا استعمال اور اس سے سوء استفادہ انسان كو دائرہ كفر كى طرف لے جاتاہے_انما نحن فتنة فلا تكفر

۲۱ _ غير آشنا علوم كى تعليم دينے والوں كو چاہيئے كہ ان علوم كے سيكھنے والوں كو ان كے نقصانات سے آگاہ اور اسكے سوء استفادہ سے روكيں _و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة فلا تكفر

۲۲ _ شاگردوں كو علوم كى تعليم ديتے وقت ان ميں احساس ذمہ دارى پيدا كرنے كى كوشش كرنا ضرورى ہے _

و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة فلا تكفر

۲۳ _ اعمال كے نيك اور ناپسنديدہ ہونے ميں ہدف اور نيت كى اہميت _و لكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة

دو فرشتوں (ہاروت ، ماروت) كے برخلاف شياطينكو جادو سكھانے كى وجہ سے كافر كہا گيا كيونكہ شياطين كے جادو سكھانے كا مقصد فساد و تباہى پھيلانا تھا جبكہ دو فرشتوں كا ہدف اور محرك فساد كو روكنا تھا_

۲۴ _ سرزمين بابل كے لوگوں نے ہاروت اور ماروت سے جادو سيكھاتا كہ اسكے ذريعے مياں بيوى ميں جدائي ڈاليں _

فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء و زوجه

۲۵ _ جادو كے علم كو رائج كرنے ميں بابل كے عوام كا كردار اور اہميت_

فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء و زوجه

۲۶ _ جادو كى تاثير اور اسكا نقصان پہنچانا اذن خدا سے ممكن ہے _

۳۴۴

و ما هم بضارين به من احد الا باذن الله

۲۷ _ عالم ہستى ميں كوئي بھى كام يا تحرك اللہ تعالى كے اختيار اور ارادہ كے بغير ممكن نہيں ہے _

ما هم بضارين به من احد الا باذن الله

۲۸_ مياں بيوى ميں جادو كے ذريعے جدائي ڈالنا يہ گناہ كفر كے برابر ہے _

انما نحن فتنة فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء و زوجه

۲۹_ مسحور شدہ انسانوں كى روح اور افكار پر جادو كا اثر _يفرقون به بين المرء و زوجه

۳۰_ مياں بيوى ميں جدائي ڈالنے كا نقصان خود انہى لوگوں كے ليئے ہے _ما يفرقون به بين المرء و زوجه و ما هم بضارين ...الا باذن الله

۳۱ _ مياں بيوى ميں جدائي ڈالنا ناپسنديدہ اور حرام فعل ہے_ما يفرقون به بين المرء و زوجه و ما هم بضارين ...الا باذن الله

۳۲ _ سرزمين بابل كے عوام نے ہاروت اور ماروت سے ايسے جادو، ٹونے سيكھے جنكا نتيجہ ان كے لئے نقصان كے علاوہ كچھ نہ تھا_يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۳ _ بعض جادو نقصان دہ اور بعض فائدہ مند ہيں _يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۴_ لوگوں كو نقصان پہنچانے كے لئے جادو كے اعمال بجالانا يا فساد و بربادى پھيلانے كے لئے جادو سيكھنا حرام ہے اور اسكا گناہ كفر كے برابر ہے _فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء و زو جه و يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۵ _ نقصان دہ اور بے فائدہ علوم سيكھنا حرام ہے _و يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۶ _ لوگوں كو فائدہ پہنچانے كے لئے جادو كا علم سيكھنا جائز ہے _و يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۷_ فرشتوں كا جسمانى حالت ميں آنا اس طرح كہ لوگ ان كا مشاہدہ كرسكيں ممكن ہے _و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة

۳۸_ فرشتے لوگوں ميں حاضر ہو كر ان كو تعليم دے سكتے ہيں _و ما يعلمان من احدحتى يقولا فيتعلمون منهما و يتعلمون ما يضرهم

۳۹_ شياطين ( جنّ) جسم بننے اور ديكھے جانے كى صلاحيت ركھتے ہيں *يعلمون الناس السحر

۳۴۵

۴۰_ جو لوگ جادو كو ناچيز فائدہ اٹھانے اور نقصان پہنچانے كے لئے سيكھتے ہيں آخرت كى نعمتوں سے محروم ہوجائيں گے _و لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق

'' اشتراہ'' كى مفعولى ضمير '' ما يضرہم و لا ينفعہم'' كى طرف لوٹتى ہے جس كا مطلب نقصان دہ جادو ہيں _

۴۱ _ يہوديوں نے اس بات كے جاننے كے باوجود كہ جادو سيكھنے سے وہ آخرت كى تمام نعمتوں سے محروم ہوجائيں گے ، جادو سيكھا _و لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق

''خلاق'' كا معنى بہت زيادہ منافع اور اچھا حصہہے ''خلاق'' كو نكرہ استعمال كرنا اور اس كے ساتھ '' من'' زائدہ كا استعمال قلت پر دلالت كرتاہے _ ظاہراً ''علموا'' كى ضمير يہوديوں كى طرف لوٹتى ہے_

۴۲ _ عالم آخرت نيكيوں اور نعمتوں سے پرُ ہے _و ما له فى الاخرة من خلاق

۴۳ _ يہوديوں نے نقصان دہ جادو سيكھ كر خود كو تباہ كيا اور بہت بُرى قيمت وصول كى _

ما له فى الاخرة من خلاق و لبئس ما شروا به أنفسهم

۴۴ _ انسان كى جان كے مقابل بہت ہى قابل قدر قيمت صرف آخرت كى نعمتوں كا حصول ہے_

ما له فى الاخرة من خلاق و لبئس ما شروا به أنفسهم

جملہ '' لقد علموا ...'' كو جملہ ''لبئس ...'' كے ساتھ ملانے سے يہ معنى نكلتاہے كہ انسان اگر آخرت كو كھودينے كى قيمت دنياوى منافع كا حصول قرار دے تو اس نے خود كو بہت ہى برُى قيمت پر بيچا ہے اور خود كو تباہ كرلياہے پس فقط جو چيز انسان كو زياں كار ہونے سے بچا سكتى ہے وہ آخرت كا حصول ہے_

۴۵ _ آخرت كى نعمتوں سے محروميت كے باعث انسان تباہ ہوجاتاہے _

ما له فى الاخرة من خلاق و لبئس ما شروا به أنفسهم

۴۶ _ يہودى اپنے نقصان دہ سودے (آخرت كو كھوكر جادو كے فوائد كا حصول ) سے ناآگاہ ہيں _

لبئس ما شروا به أنفسهم لو كانوا يعلمون

'' دنياوى مفادات كے مقابل آخرت كى نعمتوں كو بيچنا'' يہ '' يعلمون'' كے لئے ماقبل والے جملہ كى روشنى ميں مفعول ہے _ يعنى اے كاش جانتے ہوتے كہ يہ لين دين ان كے لئے نقصان دہ ہے اور بے سود_

۴۷_ آخرت كو كھودينے كے مقابل دنياوى مفادات كا حصول نقصان دہ سودا ہے _لبئس ما شروا به أنفسهم

۴۸ _ جادوگر يہوديوں كى نظر ميں اخروى منافع پر دنياوى مفادات ترجيح ركھتے ہيں _

۳۴۶

لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق و لبئس ما شروا به أنفسهم لو كانوا يعلمون

اگر كوئي جانتاہو كہ ناجائز منافع اور مفادات كا حصول آخرت كو كھودينے سے ہوتاہے ( لقد علموا ...) ليكن اس كے باوجود اس لين دين كے نقصان دہ ہونے پر عقيدہ نہ ركھتاہو (لوكانوا يعلمون) تو معلوم ہوتاہے كہ يہ شخص دنياوى مفادات كو آخرت پر ترجيح ديتاہے_

۴۹_ جادوگر يہودى باوجود اس كے كہ انہيں عالم آخرت سے محروم ہونے كا اطمينان تھا اپنى اسى محروميت كا انكار كرتے تھے_لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق

جملے كو لام قسم '' لقد'' اور لام تاكيد '' لمن'' سے تاكيد كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ جادوگر يہودى جس حقيقت كا علم ركھتے تھے اسى كا انكار كرتے تھے كيونكہ جملے كى تاكيد غالباً ايسے موارد ميں ہوتى ہے كہ جہاں اس كا مضمون مورد انكار ہو_

۵۰_ عالم آخرت پہ علم اورا يمان ہونا اوراس كے مطابق عمل نہ كرنا جہالت و بے ايمانى كے مترادف ہے _

لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الآخرة من خلاق لو كانوا يعلمون

يہ مطلب اس بناپر ہے اگر''لوكانوا يعلمون ''كا ارتباط ''لقد علموا ...'' سے ہو_ بنابرين ''يعلمون'' كا مفعول '' جادوگر كى عالم آخرت سے محروميت'' ہوگا _يہ جو خداوند عالم ايك طرف ان كو عالم ''لقد علموا'' اور دوسرى طرف جاہل '' لوكانوا يعلمون'' قرار ديتا ہے گويا اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ علم و ايمان كا ہونا اور ان كے مطابق عمل كا نہ ہونا جہالت اور بے ايمانى كے برابر ہے _

۵۱ _ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا ''فلما هلك سليمان وضع ابليس السحر و كتبه فى كتاب ثم طواه و كتب على ظهره هذا ما وضع آصف بن برخيا لملك سليمان بن داود من ذخاير كنوز العلم من اراد كذا و كذا فليفعل كذا و كذا'' ثم دفنه تحت السرير ثم استشاره لهم فقرأه فقال الكافرون ما كان سليمان عليه‌السلام يغلبنا الا بهذا و قال المومنون بل هو عبدالله و نبيّه فقال الله جل ذكره ''واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان و ما كفر سليمان ولكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر ...''

۳۴۷

(۱) جب حضرت سليمانعليه‌السلام كى وفات ہوئي تو ابليس نے جادو كى بنياد ركھى اس نے ايك تحرير لكھى پھر اسے طے كيا اور اس پر لكھا '' اسے آصف بن برخيا نے حضرت سليمان بن داؤد كى حكومت برپا كرنے

كے لئے وضع كيا اس ميں علم كے ذخائر موجود ہيں تو جو ايسے ايسے كرنا چاہے تو وہ ايسا ايسا كرے پھر ابليس نے اس تحرير كو حضرت سليمانعليه‌السلام كے تخت كے نيچے چھپا ديا پھر اسكو نكالا اور سب كے سامنے پڑھا پس اس اجتماع ميں كافروں نے كہا سليمانعليه‌السلام تو فقط اسى جادو كے ذريعے ہم پر غالب آئے اور حكومت كى جبكہ مومنين نے كہا ہرگز ايسا نہيں بلكہ وہ اللہ كے بندے اور پيامبرعليه‌السلام تھے _ پس اللہ تعالى فرماتاہے''واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان و ما كفر سليمان و لكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر ...''

۵۲ _ اللہ تعالى كے اس كلام (و ما انزل على الملكين ببابل هاروت وماروت )كے بارے ميں امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا ''و كان بعد نوح عليه‌السلام قد كثر السحرة ''(۱)

حضرت نوحعليه‌السلام كے بعد دھوكا باز جادوگر بہت زيادہ ہوگئے تو اللہ تعالى نے اس زمانہ كے نبىعليه‌السلام كى طرف دو فرشتوں كو بھيجا تا كہ اس نبىعليه‌السلام كو جادوگروں كے جادو كے طريقے اور اس جادو كو باطل و ناكارہ كرنے كے طريقے سكھائيں _ پس اس پيامبرعليه‌السلام نے جادو كے طريقے سيكھے اور اللہ تعالى كے حكم سے بندگان خدا كو بھى يہ طريقے سكھائے اور ان سے كہا كہ جادوگروں كے جادو كو روكو اور اسكو ناكارہ كردو( ساتھ ہى ساتھ) اس نبىعليه‌السلام نے لوگوں پر جادو كرنے سے ان كو منع كيا

____________________

۱) تفسير قمى ج/ ۱ ص ۵۵ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۱ ح ۳۰۳_

۳۴۸

اور (كلام خدا وندى ميں ارشاد ہے ) '' وہ دو فرشتے كسى كو بھى جادو كى تعليم نہ ديتے مگر يہ كہ اس سے قبل كہتے ہم آزمائش كا ذريعہ ہيں '' يعنى يہ كہ اس نبىعليه‌السلام نے ان دوفرشتوں كو حكم ديا كہ تم بشرى صورت ميں ظاہر ہوجاؤ اور جو كچھ اللہ تعالى نے تم كو جادو اور اسكو ناكارہ كرنے كے بارے ميں سكھاياہے وہ تم لوگوں كو سكھاؤ پس اللہ عزوجلّ نے ان كو فرمايا جادو كے ذريعے ، دوسروں كو نقصان پہنچاكر ، لوگوں كو يہ كہہ كر كہ ہم بھى زندہ كرنے اور مارنے كى طاقت ركھتے ہيں اور يہ كہ ہم وہ كام كرسكتے ہيں جو فقط اللہ تعالى انجام دے سكتاہے ( ايسے اظہارات سے ) كہيں كافر نہ ہوجانا اور اللہ تبارك و تعالى كا ارشاد ہے ''و ما هم بضارين به من احد الا باذن الله'' يعنى وہ جنہوں نے جادو سيكھا تھا وہ بھى اللہ تعالى كے علم اور اذن كے بغير كسى كو نقصان نہيں پہنچاسكتے تھے كيونكہ اگر اللہ تعالى چاہتا تو ان كو زبردستى روك سكتا تھا مزيد ارشاد بارى تعالى ہے '' وہ جادو كے علوم سے ايسى چيزيں سيكھتے تھے جو ان كے نقصان ميں تھيں نہ كہ فائدہ ميں ''يعنى يہ كہ ايسى چيزيں سيكھتے تھے جو ان كے دين كے لئے ضرر رساں ہو اور اس ميں كوئي فائدہ نہ ہو نيز ارشاد رب العزت ہے '' و لقد علموا لمن اشتراہ ما لہ فى الاخرة من خلاق'' كيونكہ ان كا عقيدہ تھا كہ آخرت نام كى كوئي چيز وجود نہيں ركھتى پس جب ان كا عقيدہ يہ تھا كہ جب آخرت ہى نہيں ہے تو پھر اس دنيا كے بعد كوئي چيز نہ ملے گي_ ليكن فرضاً اس دنيا كے بعد اگر آخرت ہو تو يہ لوگ اپنے كفر كى بناپر آخرت كى نعمتوں سے محروم ہوں گے ...''

۵۳ _ عمرو بن عبيد كہتے ہيں ميں حضرت امام صادقعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا تو عرض كيا كہ ميں گناہان كبيرہ كو قرآن حكيم سے پہچاننا چاہتاہوں تو امامعليه‌السلام نے فرمايا''والسحر لان الله عزوجل يقول و لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق ''(۱)

____________________

۱) عيون اخبار الرضاعليه‌السلام ج/ ۱ ص ۲۶۷ ح۱باب ۲۷، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۰۷ ح ۲۹۴_

۲) اصول كافى ج/ ۲ ص۲۸۵ ح ۲۴ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۰ ح ۲۹۷_

۳۴۹

گناہان كبيرہ ميں سے ايك جادو ہے كيونكہ اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے'' يقينا وہ لوگ جانتے تھے كہ جو كوئي اس متاع (جادو) كو خريدے گا اسے آخرت ميں كچھ نہ ملے گا_

آخرت: آخرت كى خصوصيات۴۲

آخرت فروشي: آخرت فروشى كا نقصان ۴۷

احكام : ۸،۳۱،۳۴،۳۵،۳۶

اختلاف ڈالنا: جادو سے اختلاف ڈالنا ۲۸; اختلاف ڈالنے كى سرزنش ۳۱; اختلاف ڈالنے كا گناہ ۲۸

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا اذن ۲۶، ۲۷

امتحان : امتحان كا ذريعہ۱۸

انسان: انسان كى قدر و منزلت ۴۴; انسان كى تباہى كے معيارات ۴۵

ايمان: آخرت پر ايمان ۵۰; بغير عمل كے ايمان ۵۰; ايمان كا متعلق ۵۰

بابل: اہل بابل اورجادو ۱۵، ۲۴، ۲۵،۳۲; بابل ميں جادو كى تعليم ۱۳

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كے دشمن ۱۳،۱۷

تعليم: تعليم دينے كے آداب ۲۱، ۲۲

تغييرات: تغييرات كا سرچشمہ ۲۷

توحيد : توحيد افعالى ۲۷

تورات: تورات كى بشارتوں كو جھٹلانا ۱۳

جادو : جادو سے استفادہ كے نتائج ۲۰; جادو سيكھنے كے نتائج ۴۱; نقصان دہ جادوكى تعليم حاصل كرنے كے نتائج ۴۳; مياں بيوى كى جدائي ميں جادو كے اثرات ۲۴، ۲۸; جادو سے سوء استفادہ كے نتائج ۴۰; جادو كے احكام ۳۴، ۳۶; جادو سے استفادہ ۳۶; جادو سے نقصان پہنچانا ۳۴،۴۰; جادو كى اقسام ۳۳; جادو كى ايجاد ۵۱; جادو كى تاثير ۲۹; جادو كى تاريخ ۱۵، ۲۵،۵۲; جادو سيكھنا ۳۶، ۴۰ ;

۳۵۰

جادو سكھانا ۳،۹،۱۱،۱۵ ، ۵۲; حضرت نوحعليه‌السلام كے بعد جادو ۵۲; جادو حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانے ميں ۳،۱۰; جادو اور كفر ۷،۲۸،۳۴; نقصان دہ جادو ۳۲،۳۳; فائدہ مند جادو ۳۳; مباح جادو ۳۶; جادو كا نقصان ۲۶; جادو سے ناجائز فائدہ اٹھانا۱۹،۲۰; جادو پھيلنے كے عوامل ۲۵; جادو كى سزا ۵۳; جادو كى تعليم دينے كا گناہ ۳۴; جادو كا گناہ ۷،۵۳; جادو كى تاثير كا سرچشمہ ۲۶

جنات: جنات كا مجسم ہونا ۳۹; جنات كا مشاہدہ ۳۹

جہالت: جہالت كے موارد ۵۰

حضرت سليمانعليه‌السلام : حضرت سليمانعليه‌السلام كا منزہ ہونا ۶; حضرت سليمانعليه‌السلام پر جادوگرى كا الزام ۲; حضرت سليمانعليه‌السلام كى حكومت ۱،۴،۵۱; حضرت سليمانعليه‌السلام كے دشمن ۴; حضرت سليمانعليه‌السلام اور جادو ۶; حضرت سليمانعليه‌السلام اور كفر ۶; حضرت سليمانعليه‌السلام كا واقعہ ۲،۵; حضرت سليمانعليه‌السلام كى نبوت ۱

حكومت : دينى حكومت سے دشمنى كا حرام ہونا ۸

خاندان: خاندانى اختلاف ۳۱; خاندانى اختلاف كے عوامل ۲۴; خاندانوں ميں اختلاف ڈالنے كا گناہ ۲۸

دنياطلبي: دنياطلبى كا نقصان ۴۷

روايت:۵۱،۵۲،۵۳

روش و كردار: پسنديدہ كردار كے معيارات۲۳; ناپسنديدہ كردار كے معيارات۲۳

زوجہ و شوہر: زوجہ و شوہر ميں اختلاف ڈالنے كى حرمت ۳۱; زوجہ و شوہر كى جدائي كا نقصان ۳۰

سيكھنا : حرام سيكھنا ۳۴،۳۵

شاگردان: شاگردوں ميں ذمہ دارى پيدا كرنا ۲۲

شياطين : شياطين كا مجسم ہونا ۳۹; شياطين كى تعليمات ۳،۹،۱۱; شياطين كا جادو۱۲; شياطين كى دشمنى ۴; شياطين كا مشاہدہ ۳۹; شياطين اور جادو۵; شياطين اور حضرت سليمانعليه‌السلام ۲،۴،۵; شياطين كا كفر ۹

علم: نقصان دہ علم سيكھنا ۳۵

فساد و تباہى پھيلانا :

۳۵۱

جادو سے فساد پھيلانا ۳۴

كفر: كفر كى بنياد۲۰; كفر كے موارد ۵۰

گناہان كبيرہ: ۷،۵۳

لين دين : نقصان دہ لين دين ۴۷

ماروت: ماروت بابل ميں ۱۴; ماروت اور جادو كا سيكھنا ۱۶; ماروت اور جادو كى تعليم دينا ۱۵،۱۸،۱۹ ، ۲۴; ماروت كا معلم ۱۶; ماروت كى تنبيہا ت ۱۸،۱۹

محرمات : ۸،۳۱،۳۴

معلم (استاد): معلم كى ذمہ دارى ۲۱،۲۲

ملائكہ: ملائكہ كا مجسم ہونا ۳۷; ملائكہ سے سيكھنا ۳۸; ملائكہ كا تعليم دينا ۳۸;ملائكہ كو ديكھنا ۳۷; بابل كے ملائكہ ۱۴

ناآشنا علوم: ناآشنا علوم كا نقصان ۲۱; ناآشنا علوم سے ناجائز فائدہ اٹھانا۲۱; ناآشنا علوم كے شاگردوں كو تنبيہ ۲۱

نعمت : اخروى نعمتوں كو حاصل كرنا ۴۴; اخروى نعمتوں سے محروم افراد ۴۰،۴۱،۴۹; اخروى نعمتوں سے محروميت ۴۵،۴۶،۴۹ ; اخروى نعمتوں كى بہتات اور فراواني۴۲

نيت: نيت كى اہميت ۲۳

واقعات: واقعات كا سرچشمہ ۲۷

ہاروت : ہاروت كا استاد۱۴; ہاروت بابل ميں ۱۴; ہاروت اور جادو سيكھنا ۱۶; ہاروت اور جادو كى تعليم دينا ۱۵،۱۸،۱۹، ۲۴; ہاروت كى تنبيہات ۱۸،۱۹

يہود: يہوديوں كى آخرت فروشى ۴۸; يہوديوں كى آگاہى ۴۱،۴۹; يہوديوں كى بصيرت ۴۸; يہوديوں كا شياطين كى پيروى كرنا ۱۲; يہوديوں كا ماروت كى پيروى كرنا ۱۷; يہوديوں كا ہاروت كى پيروى كرنا ۱۷; يہوديوں كى جادوگرى ۱۱،۱۳; يہوديوں كى جہالت ۴۶; يہوديوں كى خودفروشى ۴۳; يہوديوں كى حضرت سليمانعليه‌السلام سے دشمنى ۱۲; يہوديوں كى دنياطلبى ۴۸; يہوديوں كى روش پيكار ۱۳،۱۷; يہوديوں كا زياں كار ہونا ۴۶; يہوديوں كى محروميت ۴۹; جادوگر يہود۴۸،۴۹; حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانہ كے يہود ۱۲; يہودى اور جادو سيكھنا ۴۱،۴۳; يہود اور حضرت سليمانعليه‌السلام ۱۲

۳۵۲

وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُواْ واتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِّنْ عِندِ اللَّه خَيْرٌ لَّوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ ( ۱۰۳ )

اگر يہ لوگ ايمان لے آتے اور متقيبن جانے تو خدائي ثواب بہت بہتر تھا _اگر ان كى سمجھ ميں آجاتا (۱۰۳)

۱ _ اللہ تعالى كى جانب سے بہت ہى تھوڑى جزا بھى دوسرى كسى بھى منفعت يا سود سے كہيں زيادہ افضل اور قدر وقيمت والى ہے _لمثوبة من عند الله خير

''مثوبة'' كا معنى جزا كا ہے _ '' بہت ہى كم '' كى صفت كا مفہوم ''مثوبة'' كو نكرہ استعمال كرنے سے معلوم ہوتا ہے '' خير'' كا مفضل عليہ بھى ذكر نہيں ہوا تا كہ ہر چيز كو شامل ہوجائے _ پس ''خير'' يعنى ہر تصور كى جانے والى منفعت يا نفع سے بہتر _

۲ _ اللہ تعالى كى جزائيں ايمان اور تقوى ( گناہوں سے پرہيز) كى نگہداشت كرنے سے حاصل ہوتى ہيں _

و لو انهم آمنوا واتقوا لمثوبة من عند الله خير

۳_ ايمان گناہوں سے پرہيز كے بغير اور گناہوں سے اجتناب ايمان كے بغير ہو تو الہى جزاؤں سے بہرہ مند ہونا ممكن نہيں _و لو انهم آمنوا و اتقوا لمثوبة

۴ _ يہود اگر پيامبر اسلام (ص) اور قرآن حكيم پر ايمان لائيں اور گناہوں ( جادو، آسمانى كتابوں سے بے اعتنائي و غيرہ ) سے پرہيز كريں تو الہى جزاؤں (نعمتوں ) سے بہرہ مند ہوں گے _و لو انهم آمنوا و اتقوا لمثوبة من عند الله خير

آيات ۹۹، ۱۰۱ كے قرينہ سے '' انھم'' كى ضمير سے مراد پيامبر اكرم (ص) اور قرآن كو جھٹلانے والے يہود ہيں _ قابل توجہ ہے كہ جملہ ''لمثوبة ...'' جواب شرط كا قائم مقام ہے اور جواب اسى طرح كا جملہ ہے '' لا ثيبوا _ يقينا انہيں اجر ديا جائے گا ''_

۵ _ زمانہ بعثت كے يہود دنيا سے دلبستگى اور پہلے سے موجود فسق و فجور كى وجہ سے ايمان و تقوى كى بنياديں كھوچكے تھے__

لبئس ما شروا به أنفسهم و لو انهم آمنوا واتقوا لمثوبة من عند الله خير

جملہ'' و لو انھم ...'' ميں '' لو'' امتناعيہ كا استعمال اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ يہوديوں كا ايمان لانا اور جادو جيسے گناہوں سے

۳۵۳

اجتناب كرنا ايك مشكل يا ممتنع امر ہے_ ماقبل آيات جن ميں يہوديوں كى دنيا سے شديد دلبستگى اور ان كے فاسق ہونے كا ذكر ہے ممكن ہے كہ ان كى اس نفسيات كے پيدا ہونے كى دليل كا بيان ہو_

۶_ اللہ تعالى چاہتاہے كہ لوگ دنياوى منافع يا مفادات كے مقابل الہى جزاؤں كى قدرو منزلت سے آگاہ ہوں _

لمثوبة من عند الله خير لو كانوا يعلمون

'' لو كانوا يعلمون'' ميں '' لو'' تمنا كا معنى ديتاہے اور اللہ تعالى كے بارے ميں تمنا يعنى اس كا تشريعى ارادہ ہے _ '' يعلمون'' كا مفعول وہ تمام حقائق ہيں جن كا ماقبل كے جملوں ميں ذكر ہوا ہے ان ميں سے ايك چيز الہى جزا كا ديگر دنياوى منافع سے افضل ہونا ہے يعني:ليت هم يعلمون ان مثوبة الله خير

۷ _ الله تعالى چاہتا ہے كہ لوگ الہى جزاؤں كے ايمان او رتقوى كے ساتھ مربوط اور وابستہ ہونے سے آگاہ ہوجائيں _

و لو انهم آمنوا و اتقوا لمثوبة لو كانوا يعلمون

اس مطلب ميں ''يعلمون'' كا مفعول وہ حقيقت ہے جو جملہ شرطيہ '' لو انھم ...'' بيان كررہاہے يعني:ليت هم يعلمون ان مثوبة الله مشروط بالايمان والتقوى

۸ _ فقط علماء اور دانش مند افراد ہيں جو الہى جزاؤں كے ايمان اور تقوى سے مربوط ہونے اور ان جزاؤں كى ہر ديگر منفعت پر فضيلت و برترى كو درك كرتے ہيں _لمثوبة من عند الله خير لو كانوا يعلمون

ممكن ہے ''يعلمون'' فعل لازم ہو اور اس كو مفعول كى ضرورت نہ ہو _ اس بناپر اس كا معنى يہ ہوگا اے كاش اہل علم اور دانش مند ہوتے جو ان حقائق كا ادراك كرتے _

۹ _ الہى جزاؤں كى برترى اور قدر و منزلت سے انسانوں كى جہالت انہيں دنياوى مفادات كا گرويدہ كرديتى ہے اور ايمان وتقوى سے روك ديتى ہے_و لو انهم آمنوا و اتقوا لو كانوا يعلمون

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' لو'' شرطيہ ہو_ اس اعتبار سے مختلف احتمالات متصور ہيں ان ميں سے ايك يہ كہ''يعلمون'' كا مفعول الہى جزا كى برترى و فضيلت ہو اور جملہ ''و لو انھم آمنوا'' سے جواب شرط ليا جائے يعني: مطلب يوں ہو ''لوكانوا يعلمون ان ثواب اللہ خير لآمنوا و اتقوا_ اگر جانتے ہوتے كہ الہى جزا دنياوى منافع سے برتر ہے تو يقيناً ايمان لے آتے اور تقوى اختيار كرتے''_

اجر: اجر كے موجبات ۲،۳،۴،۷

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى جزاؤں كى قدر و منزلت۶،۸،۹; الہى جزائيں ۱; الہى جزاؤں كى شرائط ۲،۳ ، ۴ ، ۷ ، ۸

۳۵۴

ايمان: ايمان كے نتائج ۲،۳; ايمان كى اہميت ۷،۸; قرآن كريم پر ايمان ۴; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان ۴; بغير تقوى كے ايمان۳; ايمان كا متعلق ۴; ايمان كى ركاوٹيں ۵،۹

تقوى : تقوى كے نتائج ۲،۳; تقوى كى اہميت ۷،۸; تقوى بغير ايمان كے ۳; تقوى كى ركاوٹيں ۵،۹

جہالت: جہالت كے نتائج ۹

دنياطلبي: دنياطلبى كے نتائج ۵; دنياطلبى كے اسباب ۹

دنياوى وسائل: دنياوى وسائل كى قدر و قيمت ۶

علماء : علماء كى خصوصيات۸

فسق: فسق كے نتائج ۵

قدريں : ۶،۸ قدروں سے جہالت ۹

گناہ : گناہ سے اجتناب ۴

يہود: يہوديوں كے اسلام لانے كے نتائج ۴; يہوديوں كے تقوى كے نتائج۴; صدر اسلام كے يہوديوں كى دنياطلبى ۵; صدر اسلام كے يہوديوں كا فسق ۵

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( ۱۰۴ )

ايمانوالو راعنا ( ہمارى رعايت كرو )نہ كہاكرو ''انظرنا '' كہا كرو اور غور سے سناكرو اور ياد ركھو كافرين كے لئے بڑادردناك عذاب ہے ( ۱۰۴)

۱ _ '' راعنا'' كا لفظ اس بات كى سند ہے كہ يہودى پيامبر (ص) كى اہانت كرتے اور آنحضرت (ص) كا تمسخر اڑاتے تھے_لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا آنحضرت (ص) كے گفتگو كرتے ہوئے مسلمان بعض اوقات آپ (ص) سے تقاضا كرتے كہ ذرا مہلت ديں تا كہ آپ (ص) كى پہلى گفتگو كو سمجھ ليں اور اس مہلت كى درخواست كے لئے ''راعنا _ ہميں فرصت ديجئے '' كا لفظ استعمال كرتے تھے يہودى اس كلمے ميں كچھ تحريف كركے اس سے ايك نامناسب اور برا معنى مراد ليتے اور اسى سے پيامبر اسلام (ص) كو خطاب كرتے تھے_

۲ _ اللہ تعالى نے اہل ايمان كو '' راعنا'' كے لفظ سے پيامبر اسلام(ص) كو مخاطب كرنے سے منع فرمايا_

يا ايها الذين آمنوا لا تقولوا راعنا

۳۵۵

۳ _ اللہ تعالى نے اہل ايمان كو حكم ديا كہ پيامبر اسلام (ص) (سے مہلت مانگتے ہوئے ) '' راعنا'' كى بجائے ''انظرنا'' كہيں _لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا ''انظرنا'' كا معنى ہے ہميں مہلت ديجئے (مجمع البيان )

۴ _ ايسى گفتار و كردار سے اجتناب كرنا ضرورى ہے جس كے نتيجے ميں دشمن ناجائز فائدہ اٹھائے_

۵ _ نيك عمل كے لئے نيك نيت ہى كافى نہيں ہے _لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا

يہ واضح ہے كہ ''راعنا'' كہنے سے مسلمانوں كى كوئي برى نيت نہ تھى ليكن اللہ تعالى نے مسلمانوں كواس لفظ كے استعمال كرنے سے روكاتا كہ دشمن اس سے سوء استفادہ نہ كرسكيں _

۶ _ ايسے الفاظ اور كلمات جن سے دينى مقدسات كى توہين ہوتى ہو ان سے پرہيزكرنا اور دوسرے لوگوں كو روكنا ضرورى ہے _لا تقولوا راعنا

۷ _ ايسے كلام يا گفتگو سے اجتناب ضرورى ہے جس ميں پيامبر اسلام (ص) كى اہانت يا تمسخر كا پہلو نكلتاہو_

لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا

۸ _ دينى قائدين كے احترام كا تحفظ ضرورى ہے _لا تقولوا راعنا

۹ _ آنحضرت (ص) كے كلام كو غور سے سننا اور جب آپ (ص) كلام فرمارہے ہوں تو خاموش رہنا ضرورى ہے _

و قولوا انظرنا و اسمعوا''سمع''كا معنى ممكن ہے غور سے سننا ہو يا فرمانبردارى يا اطاعت بھى ہوسكتاہے _ مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بناپر ہے _

۱۰_ پيامبر اكرم (ص) كے فرامين كو قبول كرنا اہل ايمان كى ذمہ دارى ہے _يا ايها الذين آمنوا اسمعوا

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''سمع'' كا معنى اطاعت كرنا ہو_

۱۱ _ كفر اختيار كرنے والے دردناك عذاب ميں مبتلا ہوں گے _و للكافرين عذاب اليم

۱۲ _ نبى اسلام (ص) كى اہانت كرنا يا تمسخر اڑانا كفر كا موجب ہے _لا تقولوا راعنا و للكافرين عذاب اليم

۱۳ _ زمانہ بعثت كے يہود كفر اختيار كرنے والے لوگ تھے_و للكافرين عذاب اليم

ما قبل آيات كى روشنى ميں كافرين كا ايك مصداق يہود ہيں _

۱۴ _ نبى اسلام كو نہ ماننے والے اور آنحضرت (ص) كا تمسخر اڑانے والے دردناك عذاب كے مستحق ہيں _

و للكافرين عذاب اليم

۳۵۶

۱۵ _عن جميل قال كان الطيار يقول لى فدخلت انا و هوعلى ابى عبدالله عليه‌السلام فقال الطيار جعلت فداك ارايت ما ندب الله عزوجل اليه المومنين من قوله '' يا ايها الذين آمنوا'' ادخل فى ذلك المنافقون معهم؟ قال نعم و الضلال و كل من اقربالدعوة الظاهرة ...'' (۱) جميل كہتے ہيں ميں اور طيار امام صادقعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے تو طيار نے حضرتعليه‌السلام كى خدمت ميں عرض كيا ميں آپعليه‌السلام كے قربان جاؤں كيا منافقين بھى اس آيت''يا ايها الذين آمنوا'' ميں شامل ہيں تو امامعليه‌السلام نے فرمايا ہاں بلكہ گمراہ اور ہر وہ شخص جس نے ظاہرى طور پر اسلام كو قبول كرلياہو اس آيت ميں شامل ہے ...''

۱۶ _ امام باقرعليه‌السلام نے فرمايا''هذه الكلمة سب بالعبرانية اليه كانوا يذهبون '' (۱)

يہ لفظ ''راعنا'' عبرانى زبان ميں گالى ہے اور يہود اسكو گالى كے طور پر استعمال كرتے تھے_

اسلام : صدر اسلام كى تاريخ ۱

اطاعت: نبى اسلام (ص) كى اطاعت۱۰

اقرار: اسلام كے اقرار كے آثار۱۵

اللہ تعالى : اوامر الہى ۳; اللہ تعالى كے نواہى ۲

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كے تمسخر كے نتائج ۱۲; پيامبر اسلام (ص) كى اہانت كے آثار۱۲; پيامبر اسلام (ص) كے ساتھ گفتگو كے آداب ۲،۳،۹; پيامبر اسلام (ص) ; كے تمسخر سے اجتناب ۷ ;پيامبر اسلام (ص) كى اہانت سے اجتناب ۷; پيامبر اسلام (ص) كى گفتگو غور سے سننا ۹; پيامبر اسلام (ص) كا تمسخر ۱; پيامبر اسلام (ص) كى اہانت ۱، ۱۲; پيامبر اسلام (ص) كى تاريخ ۱; پيامبر اسلام (ص) كے تمسخر كى سزا ۱۴

تكلم: تكلم كے آداب ۶،۷

دشمنان: دشمنوں كا سوء استفادہ كرنا۴

دينى قائدين : دينى قائدين كا احترام ۸

____________________

۱) كافى ج/ ۲ ص ۴۱۲ ح ۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۴ح ۳۰۷ ، ۳۰۸_

۲) مجمع البيان ج/ ۱ ص ۳۴۳، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۵ ح ۳۰۹_

۳۵۷

روايت: ۱۵،۱۶

سياست خارجہ : ۴

عذاب: اہل عذاب ۱۱،۱۴; دردناك عذاب ۱۱،۱۴; عذاب كے درجات ۱۱،۱۴; عذاب كے موجبات ۱۴

عمل صالح : عمل صالح كے معيارات ۵

كفار : ۱۳ كفار كو عذاب ۱۱

كفر: كفر كے نتائج ۱۴; نبى اسلام (ص) كے بارے ميں كفر كى سزا ۱۴; كفر كے موجبات ۱۲

گالي: راعنا كے لفظ سے گالى دينا ۱۶

مقدسات: مقدسات كى اہانت سے اجتناب ۶

منافقين : منافقين كا اسلام ۱۵

مؤمنين : مؤمنين كون لوگ؟ ۱۵; مؤمنين كى ذمہ دارى ۳،۱۰; مؤمنين كو تنبيہ ۲

نيت : نيت كے نتائج ۵

يہودي: يہوديوں كے تمسخر ۱; يہوديوں كى اہانتيں ۱; يہوديوں ميں گالى ۱۶; كافر يہوديوں كا عذاب ۱۴; صدر اسلام كے يہودى ۱،۱۳;

مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلاَ الْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَاللّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن يَشَاء وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( ۱۰۵ )

كافر اہل كتابيہود و نصا رى اور عام مشركين يہ نہيں چاہتے كہ تمھارے اوپر پروردگار كى طرف سےكوئي خير نازل ہو حالانكہ الله جسے چاہتاہے اپنى رحمت كے لئے مخصوص كرليتا ہے اورالله بڑے فضل و كرم كا مالك ہے (۱۰۵)

۱ _ اہل كتاب (يہود و نصارى ) اور مشركين و ہ لوگ ہيں جنہوں نے كفر اختيار كيا _

ما يود الذين كفروا من اهل الكتاب و لا المشركين

چونكہ''المشركين'' ، '' اہل الكتاب'' پر عطف ہے پس '' من اہل'' ميں '' من'' بيانيہ ہے _ بنابريں '' ما يود الذين كفروا '' يعنى وہ لوگ جو كافر ہوگئے ( مراد اہل كتاب اور مشرك ) نہيں چاہتے _

۳۵۸

۲ _ كفار ( يہود و نصارى اور مشركين) مسلمانوں پر انتہائي كم خير و بركت كے نزول سے بھى ناراضى ہيں _

ما يود الذين كفروا ان ينزل عليكم من خير ''خير'' كو نكرہ استعمال كرنا اور '' من'' زائدہ كا استعمال اس امر كى حكايت كرتاہے كہ مشركين مسلمانوں پر انتہائي كم خير و بركت كے نزول سے بھى خوش نہيں ہيں _

۳ _ انسانوں كے لئے خير و بركات كا سرچشمہ اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے _ان ينزل عليكم من خير من ربكم

۴ _ ذات اقدس بارى تعالى كى جانب سے خير و بركات كا نزول انسانوں پر اس كى ربوبيت كا ايك پرتو ہے_

ان ينزل عليكم من خير من ربكميہ مطلب لفظ '' رب'' سے استفادہ ہوتاہے_

۵ _ اسلام اور مسلمانوں كے ساتھ دشمنى ميں اہل كتاب كا مشركين كے ساتھ برابر ہونا ايك عجيب امر ہے اور ايك ايسا مسئلہ ہےجس كى توقع نہ تھي_

ما يودّ الذين كفروا من اهل الكتاب و لا المشركين ان ينزل عليكم من خير

يہوديوں كے لئے اہل كتاب كا عنوان استعمال كرنا ان كے توحيد و رسالت اور پرعقيدے كى حكايت كرتاہے اور ان كى مشركين جو اديان الہى كے كسى اصول پر عقيدہ نہيں ركھتے ان كے ساتھ شركت و برا برى يہ امور اشارہ ہيں كہ يہوديوں اور مشركين كا ارتباط غير معقول اور تعجب آور ہے _

۶ _ اللہ تعالى اپنى مشيت كى بناپر اپنى رحمت كو بعض انسانوں كے ساتھ مختص فرماديتاہے _

والله يختص برحمته من يشاء

۷ _ اللہ تعالى كے ہاں خاص رحمت ہے _والله يختص برحمته من يشاء

۸_ مومنين كے خير و بركت حاصل كرنے پر كفار كى ناراضگى اہل ايمان پر رحمت الہى كے خاتمے كا سبب نہيں بنے گى _ما يودّ الذين كفروا ان ينزل عليكم من خير من ربكم والله يختص برحمته من يشاء

۹_ اللہ تعالى كے ہاں بہت عظيم فضل و بخشش ہے _والله ذو الفضل العظيم

۱۰_ بندگان خدا پر خاص رحمت الہى كا نزول ان ميں پہلے سے موجود لياقت ، صلاحيت اور آمادہ زمين ہے _

والله يختص برحمته من يشاء و الله ذو الفضل العظيمواللہ يختص برحمتہ من يشاء كے بعد اللہ تعالى كى اس طرح تعريف كرنا كہ وہ انتہائي عظيم اور لا محدود فضل و بخشش كا مالك ہے يہ اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ يہ جو پرودرگار اپنى خاص رحمت سب كو عطا نہيں فرماتا اور اس كو اپنے خاص بندوں كے ساتھ مختص فرماتاہے اس كى وجہ رحمت كى كمى نہيں ہے بلكہ انسانوں ميں اس كى زمين فراہم نہيں ہے جو مخصوص رحمت كى كشش كا باعث بنے_

۳۵۹

۱۱ _ الہى مشيتوں ميں قانون و حكمت موجود ہے جو لاقانونيت اور بے ہودگى سے منزہ و مبرّا ہيں _

والله يختص برحمته من يشاء و الله ذو الفضل العظيم

۱۲ _روى عن اميرالمومنين عليه‌السلام وعن ابى جعفر الباقر عليه‌السلام ان المراد برحمته هنا النبّوة (۱)

امير المومنينعليه‌السلام اور امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ اس آيت ميں رحمت سے مراد نبوت ہے _

اسلام : دشمنان اسلام ۵

اسماء اور صفات: ذوالفضل العظيم ۹

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات۳; خاص رحمت الہى ۶،۷،۱۰; رحمت الہى ۸; نزول رحمت الہى كى شرائط ۱۰; فضل الہى كى عظمت ۹; مشيت الہى كا قانونى ہونا ۱۱; فضل الہى كے درجات ۹; مشيت الہى ۶; ربوبيت الہى كے مظاہر ۴

امور : تعجب آور امور ۵

اہل كتاب: اہل كتاب كى دشمنى ۵; اہل كتا ب كا كفر ۱

خير: خير كا سرچشمہ ۳،۴

رحمت : رحمت جن كے شامل حال ہوتى ہے ۶،۸،۱۰

روايت: ۱۲ عيسائي :

عيسائيوں كا كفر ۱; عيسائي اور مسلمانان۲; عيسائيوں كى ناراضگى ۲

كفار:۱ كفار اور مسلمان ۲; كفار كى ناراضگى ۲،۸

مسلمان : مسلمانوں كے دشمن ۵; مسلمانوں پر خير كا نزول ۲،۸

مشركين : مشركين كا اہل كتاب سے اتحاد ۵; مشركين كى دشمنى ۵;مشركين كا كفر ۱; مشركين كى ناراضگى ۲

نبوت: نبوت كى رحمت ۱۲

يہود: يہوديوں كا كفر ۱; يہوديوں كى ناراضگى ۲; يہود اور مسلمان ۲

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ ص ۳۴۴ ، نورالثقلين ج/۱ص ۱۱۵ ح ۳۱۰_

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689