البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313930 / ڈاؤنلوڈ: 9312
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

شیخ صدوق محمد بن علی بن الحسین صحیح سند سے امام جعفر صادق(ع) سے راویت فرماتے ہیں:

''الوقوف عند الشبهة خیر من الاقتحام فی الهلکة، ان علی کل حق حقیقة، و علی کل صواب نوراً، فما وافق کتاب الله فخذوه، و ما خالف کتاب الله فدعوه ۔۔۔،، (۱)

''شک و شبہ کے وقت توقف کرنا ہلاکت میں پڑنے سے بہتر ہے۔ ہر حق کے پیچھے ایک حقیقت ہوا کرتی ہے اور ہر حقیقت کے کچھ آثار ہوتے ہیں۔ جوبات بھی کتاب خدا کے مطابق ہو اسے لے لو اور جو کتاب خدا کے مخالف ہو اسے ترک کردو۔،،

شیخ جلیل سعید بن ھبۃ اللہ قطب راوندی صحیح سند سے امام جعفر صادق(ع) سے روایت فرماتے ہیں:

''اذا ورد علیکم حدیثان مختلفان فاعرضوهما علی کتاب الله، فما وافق کتاب الله فخذوه، و ما خالف کتاب الله فردوه ۔۔۔،، (۲)

''جب تم تک دو مختلف احادیث پہنچیں تو انہیں کتاب خدا کے ذریعے جانچو بایں معنی کہ ان میں سے جو بھی کتاب خدا کے مطابق ہو اسے لے لو اور جو کتاب خدا کے مطابق نہ ہو اسے ٹھکرا دو۔،،

چوتھا شبہ

اس دلیل کے خلاصہ جمع قرآن کی کیفیت او راس کیفیت سے تحریف کا لازم آنا ہے۔ آئندہ آنے والی بحث ''جمع قرآن کے بارے میں نظریات،، میں اس شبہ و دلیل کو باطل ثابت کیا جائے گا۔

____________________

(۱) الوسائل، ج ۳ کتاب القضائ، باب وجوہ الجمع بین الاحادیث المختلفۃ و کیفیۃ العمل بہا، ص ۳۸۰۔

(۲) ایضاً

۳۰۱

جمع قرآن کے بارے میں نظریات

جمع قرآن کی روایات

جمع قرآن کی احادیث میں تضادات

قرآن کو مصحف کی صورت میں کب جمع کیا گیا۔

حضرت ابوبکر کے زمانے میں جمع قرآن کی ذمہ داری کس نے لی؟

کیا جمع قرآن کا کام زید کے سپرد کیا گیا تھا؟

کیا حضرت عثمان کے زمانے تک ایسی آیات باقی تھیں، جن کی تدوین نہیں کی گئی؟

جمع قرآن میں حضرت عثمان کا ماخذ و مدرک کیا تھا؟

قرآن جمع کرکے اس کے نسخے دوسرے شہروں میں کس نے بھیجے؟

دو آیتوں کوسورہ براءت کے آخر میں کب ملایا گیا؟

ان دو آیتوں کو کس نے پیش کیا؟

یہ کیسے ثابت ہوا کہ یہ دونوں آیتیں قرآن کا حصّہ ہیں؟

قرآن کی کتابت اور املاء کےلئے حضرت عثمان نے کس کا تقرر کیا؟

روایات جمع قرآن میں تضادات

احادیث جمع قرآن، کتاب الٰہی سے متعارض ہیں

احادیث جمع قرآن حکم عقل کے خلاف ہیں

احادیث جمع قرآن خلاف اجماع ہیں

احادیث جمع قرآن اور قرآن میں زیادتی

۳۰۲

جمع قرآن وہ موضوع ہے جسے تحریفی حضرات اپنی دلیل قرار دیتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ جمع قرآن کی کیفیت کا لازمہ (عام حالات میں) قرآن میں تحریف و تغییر ہے۔ اس بحث کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف اور تغییر سے پاک و منزّہ ہے۔

اس شبہ کا منشاان حضرات کا یہ گمان ہے کہ جب برئ معونہ میں ستر اور جنگ یمامہ میں چار سو قاری قتل ہو گئے تو اس طرح قرآن کے ضائع ہو جانے کا خطرہ پیدا ہوا۔ چنانچہ قرآن کی بقا اور اس کے تحفظ کی خاطر حضرت ابوبکر کے حکم پر حضرت عمر اور زید بن ثابت نے کھجور کی ٹہنیوں، کپڑے کے ٹکڑوں، باریک پتھروں اور دو عادل گواہوں کی گواہی کے بعد لوگوں کے سینوں سے قرآن جمع کرنا شروع کردیا۔

جمع قرآن کی اس کیفیت کی تصریح بہت سی روایات میں کی گئی ہے۔ اس طریقے سے جمع کرنے والا انسان جب غیر معصوم ہو تو عموماً کوئی نہ کوئی چیز، آیہ وغیرہ، رہ جاتی ہے جس تک جمع کرنے والے کی دسترس نہیں ہوتی۔ مثلاً اگر کوئی انسان کسی ایک یا کئی شعراء کا کلام جمع کرنا چاہے جو متفرق اور بکھرا پڑا ہو تو کسی نہ کسی شعر یا بیت کے رہ جانے کا خدشہ باقی رہتا ہے۔ انسانی عادت کے مطابق یہ ایک قطعی اور یقینی امر ہے اور اگر یقین نہ ہو تو اس طرح جمع کرنے سے تخریف کا احتمال ضرور رہتا ہے کیونکہ یہ احتمال باقی رہتا ہے کہ بعض ایسی آیات کی گواہی دو عادل نہ دے سکیں جو پیغمبر اکرم (ص) سے سنی گئی ہوں۔ بنا برایں یقین سے نہیںکہا جا سکتا کہ سارے کا سارا قرآن جمع کرلیا گیا ہے اور اس میں کوئی کمی باقی نہیں رہی۔

جواب

یہ شبہ اس بات پر مبنی ہے کہ جمع قرآن کی کیفیت سے متعلق تمام روایات صحیح ہوں۔ لہٰذا بہتر ہے کہ ہم پہلے ان روایات کو بیان کریں اور اس کے بعد ان پر کئے جانے والے اعتراضات پیش کریں۔

۳۰۳

جمع قرآن کی روایات

۱۔ زید بن ثابت سے روایت ہے:

''حضرت ابوبکر نے جنگ یمامہ کے موقع پر مجھے بلوایا، ان کے پاس جانے پر معلوم ہوا کہ حضرت عمر بھی ان کے پاس موجود تھے۔ حضرت ابوبکر نے مجھ سے کہا : عمر میرے پاس آئے ہیں اور انہوں نے کہا کہ یمامہ کے موقع پر قاریان قرآن کثرت سے قتل کردئےے گئے ہیں اور انہیںڈر ہے کہ اور مقامات پر بھی قاریان قرآن کثرت سے قتل کئے جائیں گے اور اس طرح قاریوں کے سینوں میں موجود قرآن ضائع ہو جائیگا اسلئے مصلحت اسی میں ہے کہ میں (حضرت ابوبکر) قرآن کو ایک مستقل کتاب کی صورت میں جمع کرنے کا حکم صادر کروں۔ میں نے (حضرت ابوبکر) جواب میں کہا ہے کہ میں وہ کام کیسے انجام دوں جو رسول اللہ (ص) نے انجام نہیں دیا۔ حضرت عمر نے کہا: قسم بخدا یہ تو ایک کار خیر ہے حضرت عمر بار بار یہی تجویز پیش کرتے رہے، حتیٰ کہ خدا نے میرا سینہ کشادہ فرمایا اور میں بھی حضرت عمر کا ہم رائے ہوگیا،زید کہتے ہیں کہ ابو بکر نے مجھ سے کہا: تم ایک عقلمند، قابل اعتماد اور سچے جوان ہو اور رسول اللہ(ص) کے زمانے میں وحی بھی لکھا کرتے تھے۔ آج بھی تم جمع قرآن کے اس عظیم عمل کو انجام دو زید کہتے ہیں: خدا کی قسم اگر حضرت ابو بکر ایک پہاڑ کو اپنی جگہ سے اٹھانے کا حکم دیتے تو میرے لئے آسان تھا مگر جمع قرآن کا کام مشکل۔ اس لئے میں نے بھی حضرت ابوبکر سے کہا: آپ یہ کام کیسے انجام دینا چاہتے ہیں جو خود رسول اللہ(ص) نے انجام نہیں دیا۔ حضرت ابوبکر نے جواب دیا: یہ ایک اچھا کام ہے۔ حضرت ابوبکر اپنی یہ رائے مکرر بیان کرتے رہے۔ حتیٰ کہ خدا نے مجھے وسعت صدر عطا فرمائی اورم جوبات حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے دل میں تھی وہ میرے دل میں بھی اتر گئی اور میں نے تختوں، کاغذ کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کو جمع کرنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ سورہ توبہ کا آخری حصہ صرف ابی خزیمہ انصاری سے ملا اور و یہ تھا:

( لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمومنينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ) ۹: ۱۲۸

( فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ) : ۱۲۹

۳۰۴

ان صحیفوں سے جمع شدہ قرآن ایک کتاب کی صورت میں حضرت ابوبکر کے پاس تھا اور انکی وفات کے بعد حضرت عمر کے پاس تھا اور انکی وفات کے بعد ان کی بیٹی حفصہ کے پاس تھا،،

۱۔ ابن شہاب انس بن مالک سے نقل کرتے ہیں:

'' جب حذیفہ بن یمان اہل شام اور اہل عراق کے ہمراہ آرمینیہ اور آذربائیجان کو فتح کرنے میں مصروف تھے تو قرآن کی قراءتوں میں لوگوں کے اختلافات دیکھ کر گھبرا گئے اور اختلاف کا ہو جائیں، کتاب خدا کی خبر لیجئے۔

چنانچہ حضرت عثمان نے حفصہ کہ یہ پیغام بھیجا کہ جمع شدہ قرآن نے ان کی طرف بھیج دے وہ اس کے مزید نسخے بنا کر واپس کردیں گے۔ حفصہ نے قرآن حضرت عثمان کی طرف بھیجا اور زید بن ثابت، میں کوئی اختلاف ہوتو اسے لغت قریش میں لکھو اس لئے کہ قرآن لغت قریش کے مطابق نازل ہوا ہے۔ قرآن کے متعدد نسخے بنا کر اسے واپس حفصہ کے پاس بھیج دیا گیا اور ہر جگہ ایک ایک نسخہ بھیجا گیااور یہ حکم دیا گیا کہ ان نسخوں کے علاوہ جہاں کہیں کوئی قرآن یا اس کا حصہ ملے جلا دیا جائے۔،،

ان شہاب کہتے ہیں:

مجھے خارجہ بن زید بن ثابت نے بتایا کہ اس نے زید بن ثابت کو یہ کہتے سنا ہے : قرآن کے نسخے لکھتے وقت مجھے سورہ احزاب کی ایک آیت نہیں ملی جسے میں رسول اللہ(ص) سے سنا کرتا تھا، چنانچہ تلاش بسیار کے بعد وہ آیہ خزیمہ بن ثابت انصاری کے پاس ملی۔ وہ آیت یہ تھی:

( مِّنَ الْمومنينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ) ۲۳:۳۳

ہم نے اس آیہ کو سورہ ئ احزاب میں شامل کرلیا۔،،

۳۔ ابن ابی شیبہ اپنی سند سے امیر المومنین (ع) سے نقل کرتے ہیں:

''قرآن کی جمع آوری میں سب سے زیادہ ثواب حضرت ابوبکر کو ملے گا کیونکہ حضرت ابوبکر وہ پہلے شخص ہیں۔ جنہوں نے قرآن کو کتاب کی صورت میں جمع کیا۔،،

۳۰۵

۴۔ ابن شہاب سالم بن عبداللہ اور خارجہ سے نقل کرتے ہیں:

صحیح بخاری، با جمع القرآن ، ج۶،ص۹۸

صحیح بخاری، ج۶، ص۹۹ ۔ یہ دونوں اور اس کے بعد اکیس تک کی روائتیں منتخب کنز العمال، جو حاشیہ مسند احمد میں ہے، میں مذکور ہیں۔ ج۲، ص۴۳۔۵۲۔

'' حضرت ابوبکر نے قرآن کو چند کاغذوں میں جمع کیا تھا اس کے بعد انہوں نے زید بن ثابت سے کہا کہ ان میں نظرثانی کردے مگر اس نے انکار کردیا۔ حضرت ابوبکر نے اس سلسلے میں حضرت عمر سے مدد طلب کی اور زید بن ثابت نے ان کاغذوں پر نظرثانی کی۔ یہ نسخہ حضرت ابوبکر کی زندگی میں ان کے پاس تھا۔ ان کی وفات کے بعد یہ حضرت عمر کے پاس رہا اور ان کی وفات کے بعد یہ پیغمبر اکرم(ص) کی زوجہ حفصہ کے پاس رہا۔ حضرت عثمان نے حفصہ سے یہ نسخہ طلب کیا مگر وہ نہ مانیں۔ لیکن جب حضرت عثمان نے ان سے یہ وعدہ کیا کہ وہ اس سے مزید نسخے بنا کر اسے واپس کردیں گے تو وہ راضی ہوگئیں اور حضرت عثمان کو یہ نسخہ بھیج دیا۔ حضرت عثمان نے اس کے متعدد نسخے بنا کر اصل واپس بھیج اور آخر تک یہ انہی (حفصہ) کے پاس رہا۔،،

۵۔ ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں:

'' جس وقت اہل یمامہ قتل کردئےے گئے۔ حضرت ابوبکر نے حضرت عمر بن خطاب اور زید بن ثابت سے کہا: تم دونوں مسجد کے دروازے پر بیٹھ جاؤ اور جو تمہارے پاس قرآن کا کوئی حصہ لے کر آئے اور تمہیں اس کے قرآن ہونے میں شک ہو اور دو عادل گواہ اس کے قرآن ہونے کی شہادت دیں تو اس کو تحریر کرلو۔ اس لئے مقام یمامہ پر ایسے اصحاب رسول (ص) قتل کردئےے گئے ہیں جنہوں نے قرآن جمع کیا تھا۔،،

۳۰۶

۶۔ محمد بن سیرین سے روایت کرتے ہیں:

'' جس وقت حضرت عمر قتل کئے گئے اس وقت قرآن جمع نہیں کیا گیا تھا۔،،

۷۔ حسن روایت کرتے ہیں:

'' ایک مرتبہ حضرت عمر نے قرآن کی کسی آیت کے بارے میں سوال کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ آیہ فلاں آدمی کے پاس تھی جو جنگ یمامہ میں قتل کردیا گیا ہے۔ حضرت عمر نے کہا: انا اللہ پھر انہوں نے قرآن جمع کرنے کا حکم دیا۔ با برایں حضرت عمر وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے قرآن کو ایک کتاب کی صورت میں جمع کیا۔،،

۸۔ یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب نے روایت کی ہے:

'' حضرت عمر نے قرآن جمع کرنا چاہا۔ وہ لوگوں کے مجمع میں کھڑے ہوگئے اور کہا: جس جس نے قرآن کا کوئی حصہ رسول اسلام (ص) سے سنا ہے وہ اسے میرے سامنے پیش کرے۔ اس وقت قرآن تختوں اورکاغذ کے ٹکڑوں وغیرہ پر لکھا ہوا لوگوں کے پاس موجود تھا اور جب تک دو عادل گواہ شہادت نہ دیتے اسوقت تک حضرت عمر اسے قرآن کے طور پر تسلیم نہ کرتے۔ اس جمع آوری کے دوران حضرت عمل قتل کردئےے گئے ان کے بعد یہ کام حضرت عثمان نے سنبھالا اور اعلان کیا: جس کے پاس قرآن کا کوئی حصہ ہو اسے میرے پاس لے آئے۔ حضرت عثمان بھی قرآن تب تسلیم کرتے تھے جب دو عادل گواہی دیں۔ اسی دوران خزیمہ بن ثابت آئے اور کہا: تم لوگوں نے دو آئتیں چھوڑ دی ہیں ، لوگوں نے کہا: وہ کون سی ہیں؟ میں نے رسول اللہ (ص) سے یہ آیت سنی ہے:

۳۰۷

( لَقَد جاءَكُم رَسولٌ مِن أَنفُسِكُم عَزيزٌ عَلَيهِ ما عَنِتُّم حَريصٌ عَلَيكُم بِالمومنينَ رَءوفٌ رَحيمٌ ..)

حضرت عثمان نے کہا: میں بھی شہادت دیتا ہوں کہ یہ دونوں آیتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔ مگر ان دونوں کو کس جگہ رکھنا چاہےے؟ خزیمہ نے کہا: اسے اس سورہ کے خاتمے میں شامل کردیں جو آخر میں نازل کیا گیا ہو۔ چنانچہ میں نے سورہ براءت کے آخر میں لکھ دیا۔

۹۔ عبید بن عمیر نے روایت کی ہے:

''حضرت عمر اس وقت تک کسی آیہ کو قرآن میں شامل نہیں کرتے تھے جب تک دو آدمی شہادت نہ دے دیں۔ چنانچہ انصار میں سے ایک آدمی یہ دو آیتیں لے کر آیا:

( لَقَد جاءَكُم رَسولٌ مِن أَنفُسِكُم ..) . الخ

حضرت عمر نے کہا: میں تم سے اس آیہ کریمہ کے بارے میں کوئی گواہی طلب نہیں کروں گا۔ اس لئے کہ رسول اللہ(ص) بھی اسی طرح پڑھا کرتے تھے۔،،

۱۰۔ سیلمان بن ارقم نے حسن، ابن سیرین اور ابن شہاب سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

'' جب جنگ یمامہ میں قاریان قرآن بڑی تیزی سے قتل کئے گئے حتیٰ کہ چارسو قاری قتل کردئےے گئے تو زید بن ثابت نے حضرت عمر سے کہا : ہمارے دین کا دارومدار قرآن ہے۔ اگر قرآن ضائع ہوگیا تو دین بھی ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا، اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ قرآن جمع کرنا شروع کردوں۔ حضرت عمر نے کہا: آپ کچھ انتظار کریں تاکہ میں حضرت ابوبکر سے پوچھ لوں، چنانچہ حضرت عمر ار زید بن ثابت دونوں حضرت ابوبکر کے پاس گئے اور انہیں اس صورت حال سے آگاہ کیا۔ حضرت ابوبکر نے کہا: ابھی جلدی نہ کریں مجھے مسلمانوں سے مشورہ کرلینے دیں، اس کے بعد خطبے میں انہوں نے لوگوں کو اس سے آگاہ کیا: لوگوں نے اس کی تائید کی اور کہا: آپ کا فیصلہ بالکل صحیح ہے۔ یہاں سے قرآن کی جمع آوری شروع ہوگئی اور حضرت ابوبکر نے منادی کرائی کہ جس جس کے پاس قرآن کا کوئی حصہ ہے وہ انہیں لادے۔،،

۳۰۸

۱۱۔ خزیمہ بن ثابت نے روایت بیان کی ہے:

میں آیہ ئ شریفہ: لقد جاء کم رسول من انفسکم... لے کر حضرت عمر بن خطاب اور زید بن ثابت کے پاس گیا۔ زید نے کہا: تمہارے ساتھ دوسرا گواہ کون ہے؟ میں نے کہا: مجھے کسی دوسرے گواہ کاعلم نہیں۔ حضرت عمر نے کہا: اس کے ساتھ دوسری گواہی میں دیتا ہوں کہ یہ قرآن کی آیہ ہے۔،،

اس روایت کے علاوہ جتنی روایات منتخب سے نقل کی ہیں وہ سب کنز العمال '' جمع القرآن،، ج ۲ ، ص ۳۶۱ میں موجود ہیں، یہ روایات یحییٰ بن جعدہ سے منقول ہیں۔

۱۲۔ ابو اسحاق نے اپنے بعض اصحاب سے روایت کی ہے:

'' جس وقت حضرت عمر بن خطاب نے قرآن کی جمع آوری کی تو انہوںنے لوگوں سے پوچھا: لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح کون ہے، جواب دیا گیا: سعید بن عاص، اس کے بعد پوچھا سب سے اچھی کتابت کس کی ہے؟ جواب میں کہا گیا: زید بن ثابت کی۔ اس پر حضرت عمرنے حکم دیا کہ سعید بن عاص املاء لکھائے اور زید بن ثابت لکھے۔ اس طرح چار قرآن لکھے گئے۔ ان میں سے ایک قرآن کوفہ، دوسرا بصرہ، تیسرا شام اور چوتھا حجاز کی طرف بھیجا گیا۔،،

۱۳۔ عبداللہ بن فضالہ نے روایت بیان کی ہے:

'' جب حضرت عمر قرآن لکھنے لگے تو اپنے اصحاب میں سے چند کو اپنے پاس بٹھا کر ان سے کہا: جب کبھی لغت قرآن میں اختلاف ہو تو اسے لغت مضر کے مطابق لکھا کیونکہ قرآن لغت مضر کے ایک آدمی پرنازل ہوا ہے۔،،

۳۰۹

۱۴۔ ابوقلابہ نے روایت کی ہے:

'' حضرت عثمان کے دورخلافت میں کوئی معلم کسی قراءت کے مطابق قرآن پڑھاتا تھا اور کوئی معلم کسی اور قراءت کے مطابق پڑھاتا تھا۔ اس کے نتیجے میں شاگردوں کی قراءتو ں میں اختلاف ہوگیا۔ حتیٰ کہ یہ اختلاف معلمین میں بھی سرایت کرگیا اور بعض نے بعض کو کافر کہنا شروع کردیا۔ اس کی اطلاع حضرت عثمان کو ملی اور انہوں نے اپنے خطاب میں کہا: تم لوگ میرے پاس ہو اور اس کے باوجود قراءت قرآن میں اختلاف رکھتے ہو اور صحیح قراءت نہیں کرتے، تو جو لوگ مجھ سے دور ہیں ان اختلاف اور غلطیاں تو اس سے بھی زیادہ ہوں گی۔ اے اصحاب محمد(ص) فوراً جمع ہو جاؤ اور لوگوں کے لئے رہنما (قرآن) مرتب کردو۔،،

ابوقلابہ، مالک بن انس (ابوبکر بن داؤد کہتے ہیں کہ یہ مالک بن انس، مشہور مالک بن انس کی جد ہے) سے نقل کرتے ہیں:

'' میں ان افراد میں سے تھا جو کاتبوں کو قرآن کی املاء لکھواتے تھے کبھی ایسا ہوتا کہ جب کسی آیہ کے بارے میں اختلاف واقع ہوتا اور کسی ایسے آدمی کا نام لیاجاتا جس نے اس آیہ کو رسول اللہ (ص) سے سنا ہو اور وہ موقع پر حاضر نہ ہوتا تو اس مختلف فیہ آیہ سے قبل اور بعد والی آیات لکھ دی جاتیں اوراختلافی آیت کے لئے جگہ چھوڑدی جاتی حتیٰ کہ وہ شخص، جس جس نے آیت رسول اللہ (ص) سے سنی ہوتی، آجاتا یا پھر کسی آدمی کو اشخص کے پیچھے بھیج دیا جاتا تھا تاکہ اسے بلا لائے اور اس کی رائے کے مطابق قرآن لکھا جائے۔ اس طرح قرآن کی کتاب اختتام تک پہنچی۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہمارے پاس تھا ضائع کردیا ہے لہٰذا اس مرتب شدہ قرآن کے علاوہ تمہارے پاس جو کچھ بھی ہو اسے ضائع کردو۔،،

۳۱۰

۱۵۔ مصعب بن سعد نقل کرتے ہیں:

''ایک مرتبہ حضرت عثمان نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ابھی رسول اللہ (ص) کی وفات کو تیرہ برس سے زیادہ نہیں گزرے اور تم نے قرآن کے بارے میں اختلاف کرنا شروع کر دیا ہے اور یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ابیی بن کعب کی قرات ایسی ہے اور عبداللہ کی قرات ایسی ہے۔ ایک کہتا ہے تمہاری قرات درست نہیں اور دوسرا کہتا ہے کہ تمہاری قرات درست نہیں۔ خدارا ! تم میں سے جس کے پاس بھی قرآن کی کوئی آیت ہے وہ میرے پاس لے آئے تاکہ قرآن کی صححی جمع آوری کی جا سکے۔ چنانچہ لوگوں نے کاغذ اور چمڑے کے ٹکڑوں ، جن پر قرآن لکھا ہوا تھا ، کو حضرت عثمان کے پاس لانا شروع کر دیا اوراس طرح کافی مقدار میں قرآن جمع ہو گیا اس کے بعد حضرت عثمان نے ان لوگوں ، جو کاغذوں اور چمڑوں پر لکھا ہوا قرآن لائے تھے ، میں سے ایک ایک کو اپنے پاس بلایا اور ہر ایک سے حلیفہ پوچھا کہ اس نے خود رسول اللہ (ص) سے اس آیت کوسنا ہے اور یہ آنحضرت (ص) نے ہی اسے لکھوائی ہے ؟ لوگ اس کا جواب اثبات میں دیتے اس کے بعد حضرت عثمان نے پوچھا تم میں سب سے اچھا کاتب کون ہے ؟ جواب ملا: زید بن ثابت جو کاتب وحی بھی ہیں ۔ پھر پوچھا: تم میں لغت عرب سے زیادہ آشنا کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : سعید بن عاص ہے ۔ حضرت عثمان نے حکم دیا کہ سعید قرآن لکھواتا جائے اور زید بن ثابت لکھتا جائے اس طرح کئی قرآن لکھے گئے اورلوگوں میں تقسیم کئے گئے،،۔

مصعب بن سعد کہتے ہیں:

''میں نے بعض اصحاب پیغمبر (ص) کو یہ کہتے سنا ہے کہ بہت اچھا عمل انجام پایا ہے،،۔

۳۱۱

۱۶۔ ابو الملیح نے روایت بیان کی ہے:

''جب حضرت عثمان نے قرآن لکھنا چاہا تو فرمایا: قبیلہ بنی ہذیل لکھوائے اور قبیلہ بنی ثقیف لکھے،،

۱۷۔ عبدالاعلیٰ بن عبداللہ بن عبداللہ بن عامر قرشی نے روایت بیان کی ہے:

''جب قرآن مکمل طور پر لکھا گیا تو حضرت عثمان نے کہا : یہ تم نے بہت اچھا کام انجام دیا ہے۔ تاہم ابھی قرآن میں کچھ غلطیاں دیکھ رہا ہوں جنہیں عرب اہل زبان خود ہی درست کر لیں گے،،

۱۸۔ مکرمہ کہتے ہیں:

''جب قرآن جمع کر کے حضرت عثمان کے پاس لایا گیا تو انہیں اس میں کچھ غلطیاں نظر آئیں اور انہوں نے کہا: اگر قرآن لکھوانے والا قبیلہ بنی ہذیل اورل کھنے والا قبیلہ بنی ثقیف سے ہوتا تو یہ غلطیاں نہ ہوتیں،،

۱۹۔ عطاء روایت بیان کرتے ہیں:

''جب حضرت عثمان قرآن کے نسخے مرتب کرنے لگے تو انہوں نے ابی بن کعب کو اپنے پاس بلایا ابیی بن کعب لکھواتا تھا اور زید بن ثابت لکھتا تھا ان کے ساتھ سعید بن عاص بھی تھا جو تصحیح کرتا تھا لہٰذا یہ قرآن ابیی اور زید کی قرات کے مطابق ہے،،۔

۲۰۔ مجاہد نے روایت بیان کی ہے :

''حضرت عثمان نے ابی بن کعب کو قرآن لکھوانے ، زید بن ثابت کو لکھنے اور سعید بن عاص اور عبدالرحمن بن حرث کو تصحیح کرنے کا حکم دیا،،

۳۱۲

۲۱۔ زید بن ثابت نے روایت کی ہے:

''ہم قرآن لکھ چکے تو مجھے ایک آیت نہیں ملی جسے میں رسول اللہ (ص) سے سنا کرتا تھا آخر کار یہ آیت مجھے خزیمہ بن ثابت کے پاس سے ملی اور وہ آیت یہ تھی :( مِّنَ الْمومنينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ) تک خزیمہ کو ذوالشہادتین کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمض نے اس کی شہادت دو مردوں کی شہادت کے برابر قرار دی تھی،،

۲۲۔ ابن اشتہ نے لیث بن سعد سے نقل کیا ہے:

''سب سے پہلے انسان جس نے قرآن جمع کیا ، حضرت ابوبکر ہیں اور قرآن کے کاتب زید بن ثابت ہیں زید کا طریقہ کار یہ تھا کہ لوگ زید بن ثابت کے پاس آتے مگر جب تک دو عادل کسی آیہ کے قرآن ہونے کے بارے میں شہادت نہ دیتے ، زید اسے نہ لکھتے اور سورہ برات کا آخری حصہ ابی خزیمہ بن ثابت کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں مل سکا اور ابی خزیمہ کے پاس دو عادل گواہ نہ تھے اس کے باوجود حضرت ابوبکر نے کہا : ابی خزیمہ جو کچھ کہتا ہے اسے لکھ لو کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے اس کی شہادت کو دو آدمیوں کی شہادت قرار دیا ہے چنانچہ حضرت ابوبکر کے اس حکم کے مطابق سورۃ برات کے آخری حصے کو لکھا گیا حضرت عمر آیہ رحم لے کر آئے مگر ہم (زید بن ثابت وغیرہ) نے نہیں لکھا کیونکہ وہ اکیلے تھے اور دوسرا کوئی شاید نہیں تھا،،(۱)

یہ وہ اور اہم روایات ہیں جو جمع قرآن کے بارے میں نقل کی گئی ہیں۔ مگر یہ سب روایات احد ہونے کے علاوہ جو مفید یقین نہیں ہیں کئی اعتبار سے قابل اعتراض بھی ہیں۔

____________________

(۱) الاتقان النوع ۱۸ ، ج ۱ ، ص ۱۰۱

۳۱۳

۱۔ جمع قرآن کی احادیث میں تضاد

ان احادیث کا آپس میں تضاد ہے اس لئے ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند سوالات و جوابات کے ضمن میں ان روایات میں موجود تضادات کو بیان کیا جائے:

٭ قرآن کو مصحف کی صورت میں کب جمع کیا گیا۔

دوسری روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کو حضرت عثمان کے زمانے میں جمع کیا گیا پہلی ، تیسری اور چوتھی روایت کی تصریح اوربعض دیگر روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن حضرت ابوبکر کے زمانے میں جمع کیا گیا اور ساتویں اور بارہویں روایت صراحتاً یہ کہتی ہے کہ قرآن حضرت عمر کے زمانے میں جمع کیا گیا۔

٭ حضرت ابوبکر کے زمانے میں جمع قرآن کی ذمہ داری کس نے لی ؟

پہلی اور بائیسویں روایت یہ کہتی ہے کہ جمع قرآن کی ذمہ داری زید بن ثابت نے لی اور چوتھی روایت یہ کہتی ہے کہ اس کی مسؤلیت حضرت ابوبکر نے ہی قبول کی تھی اور زید کے ذمے صرف اتنا تھا کہ جمع شدہ قرآن پر نظرثانی کرے پانچویں روایت یہ کہتی ہے اور بعض دیگر روایات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے ذمہ دار زید بن ثابت اور حضرت عمر دونوں تھے ۔

٭ کیا جمع قرآن کا کام زید کے سپرد کیا گیا تھا؟

پہلی روایات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر نے اس کام کو زید کے سپرد کر دیا تھا بلکہ پہلی روایت صراحتاً اس بات پر دلالت کرتی ہے کیونکہ حضرت ابوبکر کا یہ قول : ''تم ایک عقلمند ، قابل اعتماد اور سچے جوان ہو اور رسول اللہ کے زمانے میں وحی بھی لکھا کرتے تھے آج بھی تم جمع قرآن کے اس عظیم عمل کو انجام دو ،، واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت ابوبکر نے جمع قرآن کا کام زید کے ذمے لگایا تھا۔

پانچویں روایت کا مفہوم یہ ہے کہ دو شاہدوں کی شہادت سے قرآن کی کتابت ہو رہی تھی یہاں تک کہ حضرت عمر آیہ رحم لے کر آئے مگر یہ ان سے قبول نہیں کی گئی۔

۳۱۴

٭ کیا حضرت عثمان کے زمانے تک ایسی آیات باقی تھیں جن کی تدوین نہیں کی گئی؟

اکثر روایات سے یہی ظاہر ہوتا ہے بلکہ ان کی تصریح یہی ہے کہ حضرت عثمان نے پہلے سے مدون قرآن میں کوئی کمی نہیں کی اور چودہویں روایت صراحتاً یہ کہتی ہے کہ حضرت عثمان نے پہلے سے مدون قرآن میں سے کچھ گھٹا دیا گیا تھا اور مسلمانوں کو بھی اسے مٹانے کا حکم دیا تھا۔

٭ جمع قرآن میں حضرت عثمان کا ماخذ و مدرک کیا تھا؟

دوسری اور چوتھی روایت تصریح کرتی ہے کہ جمع قرآن کے سلسلے میں حضرت عثمان کا مدرک وہ قرآن تھے جنہیں حضرت ابوبکر نے جمع کیاتھا اور آٹھویں ، چودھویں اور پندرہویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ حضرت عثمان کا مدرک دو گواہوں کی شہادت اور ان کا یہ قول تھا کہ انہوں نے خود رسول اللہ (ص) سے قرآن سنا ہے۔

٭ حضرت ابوبکر سے جمع قرآن کا مطالبہ کس نے کیا؟

پہلی روایت یہ کہتی ہے کہ جمع قرآن کا مطالبہ حضرت عمر نے کیا اور حضرت ابوبکر نے پہلے انکار کیا لیکن حضرت عمر کے اصرار پر وہ اس پر آمادہ ہو گئے اور زید بن ثابت کو اپنے پاس بلوا کر اس سے جمع قرآن کا مطالبہ کیا زید نے بھی پہلے انکار کیا اور پھر حضرت ابوبکر کے اصرار پر آمادگی ظاہر کی دسویں روایت یہ کہتی ہے کہ زید اور حضرت عمر نے حضرت ابوبکر سے جمع قرآن کا مطالبہ کیا اور حضرت ابوبکر نے دوسرے مسلمانوں سے مشورہ کے بعد اپنی رضا مندی کا اظہار کیا۔

٭قرآن جمع کر کے اس کے نسخے دوسرے شہروں میں کس نے بھیجے؟

دوسری روایت کی تصریح یہ ہے کہ یہ عمل حضرت عثمان نے انجام دیا تھا اور بارہویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ یہ عمل حضرت عمر نے انجام دیا۔

۳۱۵

٭ دو آئتوں کو سورہ برائت کے آخر میں کب ملایا گیا؟

پہلی ، گیارہویں اور بائیسویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ ان دو آئتوں کو حضرت ابوبکر کے زمانے میں سورہ برائت سے ملایا گیا آٹھویں روایت یہ تصریح کرتی ہے اور بعض دوسری روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کام حضرت عمر کے دور میں انجام پایا تھا۔

٭ ان دو آئتوں کو کس نے پیش کیا؟

پہلی اور بائیسویں روایت کی تصریح یہ ہے کو ابو خزیمہ نے ان آئتوں کو پیش کیا آٹھویں اور گیارہویںروایت کی تصریح یہ ہے کہ خزیمہ بن ثابت نے ان آئتوں کو پیش کیا تھا اوران دونوں (ابوخزیمہ اور خزیمہ بن ثابت) میں کوئی نسبت نہیں ہے چنانچہ ابن عبدالبر نے یونہی نقل کیا ہے۔(۱)

٭ یہ کیسے ثابت ہوا کہ یہ دونوں آئتیں قرآن کا حصہ ہیں؟

پہلی روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے اور نویں اور بائیسویں روایت کی تصریح بھی یہی ہے کہ ایک آدمی کی شہادت سے ان کا قرآن ہونا ثابت ہوا آٹھویں روایت کے مطابق ایک آدمی کے علاوہ حضرت عثمان کی گواہی سے یہ ثابت کیا گیا اور گیارہویں روایت کی تصریح ہے کہ حضرت عمر اور دوسرے آدمی کی گواہی سے اس کا قرآن ہونا ثابت ہوا۔

٭قرآن کی کتابت اور املاء کے لئے حضرت عثمان نے کس کا تقرر کیا؟

دوسری روایت کی تصریح یہ ہے کہ حضرت عثمان نے زید ، ابن زبیر ، سعید اور عبدالرحمن کو کتابت کا حکم دیا اور پندرہویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ حضرت عثمان نے کتابت کیلئے زید بن ثابت کو اور املاء کیلئے سعید کو مقرر کیا سولہویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ حضرت عثمان نے کتابت کیلئے ثقیف کو اور املاء کیلئے ہذیل کو معین کیا اٹھارویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ کاتب قرآن کا تعلق بنی ثقیف سے نہیں تھا اور نہ املاء لکھوانے والے کا تعلق بنی ہذیل سےتھا۔ انیسویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ لکھوانے والا ابیی بن کعب تھا اور زید جو کچھ لکھتے تھے سعید اس کی تصحیح کرتے تھے اور بیسویں روایت کا مفہوم بھی یہی ہے البتہ اس میں تصحیح کرنے والے کا نام عبدالرحمن بن حرث ہے۔

____________________

(۱) تفسیر قرطبی ، ج ۱ ، ص ۵۶

۳۱۶

۲۔ روایات جمع قرآن میں تضادات

یہ روایات ان روایات سے متضاد ہیں جن کے مطابق قرآن کریم رسول اللہ (ص) کے زمانے میں ہی لکھا اور جمع کیا گیا تھا چنانچہ علماء کی ایک جماعت ، جن میں ابن شیبہ ، احمد بن حنبل ، ترمذی ، نسائی ، ابن حبان ، حاکم ، بیہقی اور ضیاء مقدسی شامل ہیں ، ابن عباس سے روایت کرتی ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان سے کہا:''آپ نے کس وجہ سے سورہ انفال کو ، جو مثانی(۱) میں سے ہے ، سورہ برائت کے ساتھ رکھ دیا ہے جو مین(۲) میں سے ہے اور ان دونوں سورتوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ذکر نہیں کیا اور ان دونوں سورتوں کو قرآن کی سات طویل سورتوں کے ساتھ ذکر کر دیا ہے حضرت عثمان نے جواب دیا : بعض اوقات جب رسول اللہ (ص) پر متعدد آیات پر مشتمل سورے نازل ہوتے توآپ (ص) کا تبین وحی کو اپنے پاس بلایا لیتے اور ان سے فرماتے: اس سورے کو فلاں سورے کے ساتھ رکھو ، اور کبھی کبھی جب آپ (ص) پر متعدد آئتیں نازل ہوتیں تو آپ (ص) فرماتے: ان آیات کو فلاں سورے میں شامل کر لو حضرت عثمان کہتے ہیں: سورہ انفال وہ پہلا سورہ ہے جو مدینہ میں نازل ہوا اور سورہ برائت قرآن کا وہ سورہ ہے جو سب سے آخر میں نازل ہوا اس کے علاوہ ان دونوں کے قصے اور واقعات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اس سے میں یہی سمجھا کہ برائت انفال کا حصہ ہے اور رسول اللہ (ص) نے بھی اپنی وفات سے پہلے یہ بیان نہیں فرمایا کہ برائت انفال کا حصہ ہے کہ نہیں۔ ان وجوہات کی بناء پر میں نے انفال اور برائت کو ملا دیا اور ان دونوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور انہیں قرآن کی سات طویل سورتوں میں شامل کر لیا،،(۳) طبرانی اور ابن عساکر ، شعبی سے روایت بیان کرتے ہیں: ''رسول اللہ (ص) کے زمانے میں قرآن کو انصار کے چھ آدمیوں نے جمع کیا ابی بن کعب ، زید بن ثابت ، معاذ بن جبل ، ابودرداء ، سعد بن عبید اور ابو زید ، مجمع بن جاریہ نے بھی دو یا تیس سورتوں کے علاوہ باقی قرآن کو جمع کیا تھا،،(۴)

____________________

(۱) وہ سورتیں جن کی آیات ایک سو سے کم ہوں (ترجم)

(۲) وہ سورتیں جن کا آیات ایک سو یا اس سے زیادہ ہوں (مترجم)

(۳) منتخب کنزالعمال ، ج ۲ ، ص ۲۸

(۴) ایضاً: ج ۲ ، ص ۵۲

۳۱۷

قتادہ کی روایت ہے ، وہ کہتے ہیں:

''میں نے انس بن مالک سے پوچھا: رسول اللہ (ص) کے زمانے میں قرآن کس نے جمع کیا ؟ اس نے جواب دیا : قرآن کو چار آدمیوں نے جمع کیا اور ان سب کا تعلق انصار سے تھا جو یہ ہیں : ابی بن کعب ، معاذ بن جبل ، زید بن ثابت اور ابوزید ،،(۱)

مسروق کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن عمر نے عبداللہ بن مسعود کا ذکر کیا اور کہا:

''میرے دل میں ہمیشہ اس کی محبت رہتی ہے ۔ اس لئے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: تم لوگ قرآن ، چار

آدمیوں ، عبداللہ بن مسعود ، سالم ، معاذ اور ابی بن کعب سے حاصل کرو،،(۲)

نسائی نے صحیح سند کے ذریعے عبداللہ ابن عمر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

''میں نے قرآن جمع کیا اور ہر رات پورا قرآن ختم کرتا تھا ، جب رسول اللہ (ص) کو یہ خبر ملی تو آپ (ص) نے فرمایا: قرآن مہینے میں ختم کیا کرو،،(۳)

ابن سعد کی وہ روایت بھی عنقریب بیان ہو گی جس کے مطابق ام ورقہ نے بھی قرآن جمع کیا تھا۔

ہو سکتا ہے کہ کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ ان روایات میں جمع قرآن سے مراد سینوں میں قرآن کا جمع کرنا ہو اور کتابی شکل میں مدون قرآن مراد نہ ہو لیکن یہ صرف ایک دعویٰ ہو گا جس کا کوئی ثبوت نہیں ہے اس کے علاوہ جیسا کہ آئندہ بحثوں میں ثابت ہو گا کہ رسول اللہ (ص) کے زمانے میں حافظان قرآن لاتعداد تھے بھلا ان کو چار یا چھ میں کیونکر محدود کیا جاسکتا ہے۔

جو شخص صحابہ کرام اور آپ (ص) کے حالات کا بنظر غائر مطالعہ کرے اسے یہ علم اور یقین حاصل ہو جائے گا کہ قرآن مجید عہد رسول اللہ (ص) میں ہی جمع کر لیا گیا تھا اور یہ کہ قرآن کو جمع کرنے والوں کی تعداد بھی کوئی کم نہیں تھی۔

____________________

(۱) صحیح بخاری ، باب القراء من اصحاب النبی (ص) ، ج۶ ، ص ۲۰۲

(۲) صحیح بخاری ، باب القراء من اصحاب النبی (ص) ، ج ۶ ، ص ۲۰۲

(۳) الاتقان النوع ۲۰ ، ج ۱ ، ص ۱۲۴

۳۱۸

باقی رہی بخاری یک وہ روایت جو انس سے نقل کی گئی ہے اور جس میں یہ کہا گیا ہے کہ رسول اللہ (ص) کی وفات تک چار آدمیوں ابودرداء ، معاذ بن جبل ، زید بن ثابت اور ابوزید کے علاوہ کسی اور نے قرآن کو جمع کرنے کی سعادت حاصل نہیں کی یہ روایت متروک اور ناقابل عمل ہے اس لئے کہ یہ ان تمام گزشتہ روایات ، بلکہ خود بخاری کی روایت سے بھی متعارض ہے اس کے علاوہ یہ روایت خودبھی قابل تصدیق نہیں ہے اس لئے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی راوی رسول اللہ (ص) کی وفات کے موقع پر کثیر تعداد میں اور مختلف شہروں میں منتشر مسلمانوں کا احاطہ اور ان کے حالات معلوم کر سکے تاکہ اس طرح قرآن کو جمع کرنے والے افراد چار میں منحصر ہو جائیں یہ دعویٰ توغیب گوئی اور بغیر علم و یقین کے نظریہ قائم کرنے کے مترادف ہے۔

اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ ان تمام روایات کی موجودگی میں اس قول کی تصدیق ممکن نہیں کہ حضرت ابوبکر وہ پہلے شخص ہیں جنہوںنے خلافت سنبھالنے کے بعد قرآن جمع کیا تھا اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر حضرت ابوبکر نے عمر اور زید کو یہ حکم کیوں دیا کہ وہ سفید پتھروں ، کھجور کی چھالوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن جمع کریں اور یہ کہ اس قرآن کو عبداللہ ، معاذ اور ابیی سے کیوں حاصل نہیں کیا ؟ ! جبکہ یہ حضرات جمع قرآن کے وقت زندہ تھے اور رسول اللہ (ص) نے ان سے اور سالم سے قرآن حاصل کرنے کا حکم بھی دیا تھا البتہ اس وقت سالم جنگ یمامہ میں قتل کر دیئے گئے تھے اور اس سے قرآن حاصل کرنا ممکن نہیں تھا،،

اس کے علاوہ اس روایت کےمطابق زید خود منجملہ جامعین قرآن میں سے تھا پھر اسے جمع قرآن کے سلسلے میں ادھر ادھر

تلاش کرنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ حضرت ابوبکر کے قول کے مطابق یہ ایک عقلمند اور پاکدامن نوجوان تھا۔

ان سب کے علاوہ حدیث ثقلین بھی اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن رسول اللہ (ص) کے زمانے میں ی جمع کر لیا گیا تھا چنانچہ ہم آگے چل کر اس کی طرف اشارہ کریں گے۔

۳۱۹

۳۔ احادیث جمع قرآن ، کتاب الٰہی سے متعارض ہیں۔

جمع قرآن سے متعلق بیان شدہ تمام روایات قرآن کریم سے متعارض ہیں کیونکہ بہت سی آیات کے مطابق قرآن کے سورے ایک دوسرے سے جدا سب لوگوں حتیٰ کہ مشرکین اور اہل کتاب کے پاس موجود تھے اس کی دلیل یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے کفار اور مشرکین کو قرآن کی مثل ، دس سورتوں حتیٰ کہ ایک سورہ کی نظیر لانے کا چیلنج کیا تھا اس سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ قرآن کے سورے لوگوں کے ہاتھ میں موجود تھے ورنہ ان کی نظیر لانے کا چیلنج بے معنی ہوتا۔

اس کے علاوہ قرآن مجید کی بہت سی آیات میں قرآن پر کتاب کا اطلاق کیا گیا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے فرمان: ''انی تارک فیکم ثقلین کتاب اللہ و عترتی،، میں بھی قرآن کریم کو کتاب سے تعبیر کیا گیا ہے۔

یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ قرآن مجید جناب نبی کریم (ص) کے زمانے میں ہی مکمل طور پر لکھا جا چکا تھا اس لئے کہ قرآن کے ان مضامین کو کتاب کہنا ہرگز صحیح نہیں ہے جو لوگوں کے سینوں میں ہوں اور نہ اس کو حقیقتہً کتاب کہا جا سکتا ہے جو باریک پتھروں ، کھجور کی ٹہنیوں اور ہڈیوں پر لکھاہوا ہو ہاں مجازی طور پر اسے کتاب کہا جا سکتا ہے لیکن یہ اس صورت میں صحیح ہو گا جب کلام میں معنیء مجازی پر کوئی قرینہ موجود ہو۔

یہی حیثیت لفظ ''کتاب،، کی ہے کیونکہ حقیقی طور پر کتاب ، مضامین کے مجموعہ کو کہا جاتا ہے اگر یہی مضامین مختلف حصوں میں لکھے اور بکھرے ہوئے ہوں تو انہیں کتاب نہیں کہا جائے گا چہ جائیکہ ان مضامین کو کتاب کہا جائے اور ابھی تحریر میں بھی نہیں لائے گا اور صرف لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

''اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شب قدر کو اس سال رونما ہونے والے حق و باطل اور اس سال جو کچھ بھی ہونے والا ہے، کو مقدر فرماتا ہے۔ اس کے باوجود ان مقدرات میں مشیّت الہٰی کے مطابق تعیّر و تبدل (بدائ) بھی واقع ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ اجل، رزق، بلائیں، بیماریاں اور دیگر عارضوں میں سے جسے چاہتا ہے مقدم اور جسے چاہتا ہے مؤخر فرماتا ہے۔ نیز ان مقدرات میں جو چاہے اضافہ اور جو چاہے کمی کردیتا ہے۔،،(۱)

iii ) کتب احتجاج طبرسی میں امیر المومنین(ع) سے مروی ہے:

''انه قال: لولا اٰیة فی کتاب الله ، لاخبر تکم بما کان و بما یکون و بما هوکائن الیٰ یو القیامة و هی هذه الایة: یمحوا الله ۔۔۔،(۲)

آپ نے فرمایا: اگر قرآن کی ایک آیہ: یمحوا اللہ۔۔۔ نہ ہوتی تو میں تمہیں خبر دیتا کہ ماضی میں کیا کیا واقعات پیش آئے، اب کیا ہو رہا ہے اور قیامت تک کیا ہوگا۔،،

iv ) تفسیر عیاشی میں زرارہ نے امام صادق(ع) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام زین العابدینؑ فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی ایک آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبر دیتا۔ میں (زرارہ) نے عرض کی: وہ کون سی آیت ہے۔ آپ نے فرمایا:( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔۔(۳)

) ''قرب الاسناد،، میں بزنطی نے امام رضا(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام جعفر صادق، امام محمد باقر، امام زین العابدین، امام حسن اور امیر المومنین (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی آیت( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔ نہ ہوتی تو ہم قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی تمہیں خبر دیتے۔،،(۴)

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۴

(۲) احتجاج طبرسی، ص ۱۳۷

(۳) منقول از بحار، ج ۲، ص ۱۳۹

(۴) ایضاً ص ۱۳۲

۵۰۱

ان کے علاوہ بھی کچھ روایات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان مقدرات الہٰی اور فیصلوں میں تغیر و تبدل واقع ہوتا ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہوتے ہیں۔

خلاصہئ بحث یہ ہے کہ حتمی قضائے الہٰی، جسے لوحِ محفوظ، ام الکتاب اور علم مخزون عند اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، میں کسی قسم کے تغیر و تبدل اور بداء کا واقع ہونا محال ہے اور اس میں کیونکر بداء واقع ہوسکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ روز ازل سے تمام اشیاء کا عالم ہے اور زمین و آسمان میں سے ذرہ بھر بھی اس کے علم سے خارج نہیں ہے۔

کتاب ''اکمال الدین،، میں صدوق، ابو بصیر اور سماعۃ کی سند سے امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو شخص یہ خیال کرے کہ خدا کے سامنے ایسی تازہ چیز ظاہر ہوتی ہے جسے وہ کل نہیں جانتا تھا، ایسے شخص سے برات کرو۔،،(۱)

عیاشی نے ابن سنان سے اور اس نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے مقدم اور جس کو چاہتا ہے مؤخر فرما دیتا ہے۔ نیز جسے چاہے محو اور جسے چاہے ثبت کردیتا ہے۔ کتاب کااصلی نسخہ اللہ ہی کے پاس ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو کچھ کرنا چاہے اسے انجام دینے سے پہلے ہی اس کا علم رکھتا ہے جس کام میں بھی بداء واقع ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ افعال الہٰی میں کوئی تغیر و تبدل جہالت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔،،(۲)

عمار بن موسیٰ امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ سے فرمان الہٰی: یمحوا اللہ۔۔۔ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۶

(۲) ایضاً ص ۱۳۹

۵۰۲

''یہ وہ کتاب ہے جس میں خدا جو چاہتا ہے ثبت کرتا ہے جو چاہتا ہے محو کردیتا ہے۔ دعا کے ذریعے اس قسم کے مقدرات بدل جاتے ہیں لیکن جب مقدرات اس کتاب (لوح محو و اثبات) سے منتقل ہو کر امّ الکتاب یا لوح محفوظ میں آجاتے ہیں تو اس پر دعا کوئی اثر نہیں کرتی اور وہ ہو کر رہتے ہیں۔،،(۱)

شیخ طوسی اپنی کتاب ''الغیبۃ،، میں بزنطی سے اور وہ امام رضا(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: امام زمین العابدینؑ اور آپ سے پہلے امیر المومنین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے:

''آیہ کریمہ : یمحوا اللہ۔۔۔ کی موجودگی میں ہم کیسے کسی واقعہ کے بارے میں حتمی پیشگوئی کرسکتے ہیں۔ البتہ خدا کے بارے میں جس شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ کو کسی بھی چیز کے واقع ہونے کے بعد اس کا علم ہوتا ہے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔،،(۲)

اہل بیت اطہار(ع) کی وہ روایات، جن کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی خلقت سے پہلے ہی اس کا عالم ہوتا ہے، حدو حصر سے زیادہ ہیں۔ کتاب الہیٰ و سنت پیغمبر(ص) کی پیروی کرتے ہوئے تمام شیعہ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے اور صحیح و فطری عقل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

عقیدہ ئ بداء کے ثمرات

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ بداء ان مقدرات الہی میں واقع ہوتاہے جو مشیت الہی ہر موقوف ہوتے ہیں اور جن کو لوح محو و اثبات سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس بداء کا قائل ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ہم نے اللہ کی طرف (العیاذ باللہ) جہالت کی نسبت دی ہو اور نہ ہی یہ کوئی عقیدہ عظمت الہی کے منافی ہے۔

____________________

(۱) منقول ازبحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۹

(۲) ایضاً، ص ۱۳۶۔ شیخ کلینی نے اپنی سند سے عبد اللہ ابن سنان سے اور اس نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: کسی بھی چیز میں بداء واقع ہونے سے پہلے ہی خدا اس کا عالم ہوتا ہے۔ الوافی، باب ج۱، ص ۱۱۳

۵۰۳

بداء کا قائل ہونا واضح اعتراف ہے کہ پورا عالم ہستی اپنے وجود و بقاء میں قدرت و سلطنت الہٰی کے تابع ہے اور یہ کہ ارادہئ الہٰی ازل تا ابد تمام چیزوں میں کار فرما ہے بلکہ عقیدہئ بداء ہی کی بدولت علم الہٰی اور علم مخلوق میں فرق واضح ہوتا ہے اس لیے کہ مخلوق کا علم، خواہ وہ انبیاء(ع) و اولیاء کا علم ہی کیوں نہ ہو، ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ، علم خدا کرتا ہے اور بعض اولیاء اللہ اگرچہ تعلیم الہی کی بنیاد پر، تمام ممکنات اور اعلمین کا علم رکھتے ہیں پھر بھی ان کا علم ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ اللہ کا مخزون اور اپنی ذات سے مختص علم کرتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی چیز کے بارے میں مشیت الہی اور عدم مشیت الہی کا عالم وہی ہوسکتا ہے جسے اللہ نے حتمی طور پر خبر دی ہو۔

بداء کا قائل ہونا اس امر کا باعث بنتا ہے کہ بندے ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور بندوں سے اپنی

امیدوں کے بندھن توڑ دیں اور استجابت دعا، حاجت روائی، اطاعت کی توفیق اور معصیت سے دوری کی درخواست اس کی ذات اقدس سے کریں۔

کیونکہ بداء کا انکار کرنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے وہ بلا استثناء ہو کر رہے گا، اپنے کو استجابت دعا سے مایوس کر دینا ہے، اس لیے کہ انسان جس چیز کی دعا کرتا ہے، اگر قلم تقدیر نے اس کے واقع ہونے کی پیشگوئی کی ہے تو وہ لامحالہ ہو کر رہے گی۔ انسان کی دعا اور توسّل کی ضرورت ہی نہیں اور اگر قلم تقدیر نے اس کی دعا کے خلاف لکھا ہو تو وہ کام کبھی بھی نہیں ہوسکتا اور دعا و تضرع کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور جب انسان استجابت دعا سے مایوس ہوگا تو وہ اپنے خالق کے دربار میں دعا و تضرع ترک کردے گا کیونکہ یہ بے فائدہ ثابت ہوگی اس طرح وہ عبادات اور صدقات بھی ترک ہو جائیں گے جو روایات معصومین(ع) کے مطابق عمر اور رزق میں اضافہ اور حاجت روائی کا باعث بنتے ہیں۔

۵۰۴

یہی وہ راز ہے جس کی وجہ سے معصومین(ع) سے بداء کی شان اور اہمیت کے بارے میں کثرت سے روایات وارد ہوئی ہےں۔

مرحوم صدوق نے کتاب ''توحید،، میں زرارہ سے اور انہوں نے امام محمد باقرؑ اور امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' ما عبد الله عزوجل بشیئ مثل البدائ،، (۱)

''بداء کی مانند ایسا کوئی عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔،،

یعنی عقیدہ بداء کے مانند کوئی عبادت نہیں۔ نیز ہشام بن سالم، امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''خدا کی جو تعظیم بداء کے ذریعے ہوسکتی ہے کسی اور عمل کے ذریعے نہیں ہوسکتی۔،،(۲)

صدق نے محمد بن مسلم سے اور انہوں امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا (پہلے) اس سے تین باتوں کا اقرار لیا: اللہ کی عبودیت کا اقرار، شریک خدا کی نفی اور یہ کہ اللہ جسے چاہتا ہے مقدم کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے مؤخر کرتا ہے۔،،(۳)

اس اہمیت کا راز یہ ہے کہ بداء کا انکار کرنا اور اس بات کا قائل ہونا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے اللہ اس میں تبدیلی پر قادر نہیں ہے، دونوں کا نتیجہ ایک ہے۔ کیونکہ یہ دونوں عقیدے انسان کو استجابت دعا سے مایوس

____________________

(۱) روایت کے دوسرے نسخے کے مطابق: بداء سے بہتر کوئی ایسا عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔

(۲) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

(۳) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

۵۰۵

کر دیتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی مشکلات اور مقاصد میں اپنے ربّ کی طرف توجہ نہ کرے۔

حقیقت بداء شیعوں کی نظر میں

جس بداء کے شیعہ امامیہ قائل ہیں، حقیقت میں اس کا معنی ''اظہار،، ہے (یعنی ایک چیز جو بندوں کے لیے پوشیدہ ہو اور اللہ اسے ظاہر کردے) اسکی جگہ ''بدائ،، (جس کا معنی خلقت اور آفرینش ہے) کا استعمال اس لیے ہوتا ہے کہ ان دونوں کے معنی میں شباہت پائی جاتی ہے کیونکہ ''اظہار،، کی طرح ''خلقت،، کے ذریعے مخلوق کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اہل سنت کی کچھ روایات میں بھی ''بدائ،، اسی معنی (اظہار) میں استعمال ہوا ہے۔

بخاری نے ابو عمرہ سے راویت کی ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا:

''بنی اسرائیل میں تین ایسے آدمی تھے جن میں سے ایک برص کا مریض، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا تھا۔ اللہ کے لیے بداء واقع ہوا کہ ان کا امتحان لیا جائے، چنانچہ برص کے مریض کے پاس ایک فرشتہ بھیجا ۔۔۔،،(۱)

قرآن میں بھی اس کی متعدد مثالین ملتی ہیں:

( الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ ) ۸:۶۶

''اب خدا نے سے (اپنے حکم کی سختی ہیں) تخفیف کردی ہے اور دیکھ لیا کہ تم میں یقیناً کمزوری ہے۔،،

( لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا ) ۱۸:۱۲

''تاکہ ہم دیکھیں کہ گروہوں میں سے کس کو (غار میں) ٹھہرنے کی مدّت خوب یاد ہے۔،،

( لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ) ۱۸:۷

''تاکہ ہم لوگ کا امتحان لیں کہ ان میں سے کون سب سے اچھے چلن کا ہے۔،،

____________________

(۱) صحیح بخاری، ج ۴ باب ماذکر عن بنی اسرائیل، ص ۱۴۲

۵۰۶

اہل سنّت کی روایات کثیرہ میں ہے کہ دعا اور صدقہ قضائے الہی کو تبدیل کردیتے ہیں۔(۱)

جہاں تک اہل بیت اطہار(ع) کی ان روایات کا تعلّق ہے، جن میں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی پیش گوئی کی گئی ہے، ان میں تحقیق یہی ہے کہ اگر معصوم(ع) حتمی طور پر اور بغیر کسی شرط و قید کے مستقبل میں کسی واقعہ کے رونما ہونے کی خبر دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو حتمی ہے اور اس میں کسی قسم کا بداء واقع نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ نہ اپنی ذات کو جھٹلاتا ہے اور نہ اپنے نبی کو اور اگر معصوم(ع) کسی امر کی پیشگوئی اس شرط پر کرے کہ مشیّت الہی اس کے خلاف نہ ہو اس پر کوئی قرینہ متصل و منفصل قائم کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہے اور اس میں بداء واقع ہوسکتا ہے اور معصوم(ع) کی یہ خبر اور پیشگوئی سو فیصد صادق ہوگی اگرچہ اس میں بداء واقع ہو اور مشیّت الہٰی اس پیشگوئی کے خلاف ہو، کیونکہ معصوم(ع) کی پیشگوئی میں اس شرط پر واقع کے رونما ہونے کی خبر دی گئی ہے کہ مشیّت الہٰی اس کے خلاف نہ ہو۔

عیاشی نے عمرو بن حمق سے روایت کی ہے:

''جس وقت امیر المومنین(ع) کے سرمبارک پر ضربت لگی، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: اے عمرو! عنقریب میں تم سے جدا ہو جاؤں گا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہےے کہ ۷۰ھ میں ایک بلا نازل ہوگی۔ میں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا ۷۰ھ کے بعد یہ بلاٹل جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ بلا کے بعد آسائش ہوگی۔ پھر آپ نے آیہ کریمہ: یمحوا اللہ۔۔۔ کی تلاوت فرمائی۔،،

____________________

(۱) دعا سے قضاء کے تبدیل ہونے کے بارے میں روایات اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۱ میں ملاحظہ فرمائیں۔

۵۰۷

اصول تفسیر

مدارک تفسیر

خبر واحدسے قرآن کی تخصیص

چند توہمات اور ان کا ازالہ

۵۰۸

تفسیر، کتاب الٰہی کی کسی آیت میں مقصود الہی کی وضاحت کا نام ہے بنا برایں اس سلسلے میں ظن اور عقلی استحسانات پر اعتماد اور ان پر عمل کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ایسی چیز پر اعتماد کیا جا سکتا ہے جس کی تجیت عقلی اور شرعی طورپر ثابت نہ ہو کیونکہ قرآن میںظن کی پیروی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور اللہ کی اجازت کے بغیر اس کی طرف کسی چیز کی نسبت دینا حرام ہے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔

( قُلْ آللَّـهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّـهِ تَفْتَرُونَ ) ۱۰:۵۹

(''اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ کیا خدا نے تمہیں اجازت دی ہے یاتم خدا پر بہتان باندھتے ہو،،۔

( وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ ) ۱۷:۳۶

''اور جس چیز کا تمہیں یقین نہ ہو(خواہ مخواہ) اس کے پیچھے نہ پڑا کرو،،۔

انکے علاوہ بھی قرآنی آیات اور روایات موجود ہیں جن میں غیر علم پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے شیعہ اورسنی کتب احادیث میں کثرت سے روایات موجود ہیں جن میں تفسیر بالائے سے نہی کی گئی ہے۔

ان آیات اور روایات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تفسیر قرآن کے سلسلے میں مفسرین کی ذاتی رائے پر عمل کرناجائز نہیں ہے چاہے یہ مفسر کوئی صحیح المسلک آدمی ہو یا نہ ہو کیونکہ ذاتی رائے پر عمل کرنا اتباع ظن ہے جو حق سے بے نیاز نہیں کرسکتا۔

مدارک تفسیر

مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ فہم قرآن اور تفسیر قرآن میں ان ظواہر پر عمل کرے جو ایک صحیح عرب سمجھتاہے (ہم اس سے پہلے ظواہر کی حجیت کو ثابت کر چکے ہیں) یا ان فیصلوں پر عمل کرے جو ایک صحیح اور فطری عقل صادر کرے کیونکہ جس طرح نبی حجت ظاہری ہے اسی طرح عقل حجت باطنی ہے یااس معنی اور مفہوم پر عمل کرے جو معصومین (ع) سے ثابت ہو کیونکہ یہی ہسپتال مرجع دین ہیں اور رسول اللہ (ص) نے انہی سے تمسک کی وصیت فرمائی ہے آپ (ص) نے فرمایا۔

۵۰۹

انی تارک فکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بینی ، ما ان تمسکم بهما لن تضلوا بعدی ابدا (۱)

''میں (ص) تم میں دو گرانقدار چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت (ع) جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے کبھی بھی میرے بعدگمراہ نہیں ہو گے،،۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قطعی اور یقینی ذریعے سےاہل بیت اطہار (ع) کا قول ثابت ہو جاتا ہے اور خبر ضعیف (جس میں حجیت کی شرائط موجود نہ ہوں) کے ذریعے قول معصوم (ع) ثابت نہیں ہوتا۔

لیکن اس میں اختلاف ہے کہ آیا اس ظنی طریقے (خبر واحد اور دیگر دلائل) سے قول معصوم (ع) ثابت ہو جاتاہے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو؟

بعض علمائے کرام اس خبر واحد کی حجیت کو مورد اشکال قرار دیتے ہیں جو تفسیر کے بارے میں وارد ہوئی ہو اعتراض یہ ہے کہ خبر واحد اور دوسرے ظنی ادلہ کی حجیت کا مطلب یہ ہے کہ جب حقیقت اور واقع ہونا معلوم نہ ہو تو اس خبر واحد کے مفہوم پر واقع کے آثار مرتب کئے جائیں جس طرح واقع اور یقین حاصل ہونے کی صورت میں آثار مرتب کئے جاتے ہیںاس معنی میں حجیت وہاں متحقق ہو سکتی ہے جہاں خبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہویاکوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا اور ممکن ہے جہاںخبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہو یا کوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا ہو اور ممکن ہے کہ یہ شرط اس خبر واحد میں نہ پائی جائے جوتفسیر کے بارے میں ورد ہوئی ہے (کیونکہ کچھ روایات ایسی ہیں جو گزشتہ اقوام کے قصوں اور داستانوں کے متعلق قرآنی آیات کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں جن کا حکم اور موضوع حکم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا)

____________________

نمبر۱اس حدیث کے حوالے اسی کتاب کے آخر پر ضمیمہ نمبر ۱ میں ذکر کئے جائیں گے نیز کنز العمال باب الاعتصام بالکتاب و السنتہ ج ۱ ، ص ۱۵۳ اور ۳۳۲

نمبر۲ جب کہا جائے شراب حرام ہے یانماز واجب ہے تو''شراب ،، اور ''نماز،، موضوع اور ''وجوب،، اور ''حرمت،، حکم کہلاتے ہیں (مترجم)۔

۵۱۰

لیکن یہ اشکال تحقیق کیخلاف ہے کیونکہ ہم نے علم ا صول میں اس کی وضاحت کر دی ہے کہ اجتہادی دلیل جس کی نظر واقع پر ہوتی ہے یعنی جو واقع کی نشاندہی کرتی ہے کہ حجیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حکم شرع میں علم کامقام دیا گیا ہے گویا اس طرح واجب العمل ظنی دلیل کو علم شمار کیا گیا ہے یہ ایسا علم ہے جس کو شارع نے علم کارتبہ دیا ہے یہ علم وجدانی نہیں ہے لہٰذا اس پر بھی وہی آثار مرتب ہوں گے جو قطع و یقین پر مرتب ہوتے

ہیں نیز ان روایات کے مضمون کے مطابق خبر دینا صحیح ہو گا جس طرح وجدانی علم کے مطابق خبر دی جاتی ہے اس طرح یہ (خبر واحد وغیرہ پر عمل کرنا) بغیر علم کے خبر دینے کے مترادف نہیں ہوگا۔

چنانچہ اس طرز عمل کی تائیدسیرت عقلاء سے بھی ہوتی ہے کیونکہ عقلاء اس قسم کی دلیلوں پر اسی طرح عمل کرتے ہیں جس طرح وجدانی علم پر کرتے ہیں اور دونوں کے آثار میں کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں ہوتے مثلاً جس کسی کے ہاتھ میں کوئی چیز ہو ، عقلاء کے نزدیک قبضہ اس شخص کی ملکیت کی دلیل سمجھا جاتا ہے جس کے ہاتھ میں مال ہو اس بنیاد پر کہا جاتاہے کہ فلاں آدمی فلاں چیز کامالک ہے اس روش کا کوئی منکر نہیں اور شارع مقدس نے بھی عقلاء کی اس دائمی سیرت اور روش پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔

ہاں ! البتہ خبر موثق اور دیگر شرعی دلیلوں کے قابل عمل ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ حجیت کی تمام شرائط پر مشتمل ہوں۔ ان میں سے ایک اہم شرط یہ ہے کہ اس خبر کے جھوٹے ہونے کا یقین نہ ہو کیونکہ جس خبر کاکذب یقینی ہو اسے حجیت کی دلیل شامل ہی نہیں ہو سکتی بنا برایں وہ روایات جو اجماع ، سنت قطعیہ ، کتاب الٰہی اور صحیح حکم عمقل کے خلاف ہوں کبھی بھی حجیت نہیں ہو سکتیں اگرچہ حجیت کی باقی شرائط اس خبر واحد اور روایت میں موجود ہوں اس حکم میں وہ اخبار جو کسی حکم شرعی پر مشتمل ہوں اور دوسرے اخبار یکساں ہیں۔

۵۱۱

اس شرط کاراز یہ ہے کہ راوی ، چاہے کتنا ہی موثق ہو اس کی خبر واقع کیخلاف بھی ہو سکتی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ راوی کیلئے حقیقت حال مشتبہ ہو گئی ہو خصوصاً جب واسطے (سلسلہ رواۃ) زیادہ ہوں تو اس احتمال کو اور زیادہ تقویت ملتی ہے اس لئے اس احتمال کے ازالے اور اس کالعدم فرض کرنے کیلئے حجیت کی دلیل کاسہارالیناضروری ہو جاتا ہے۔

لیکن جہاں خبر کیخلاف واقع ہونے کا یقین ہو وہاں پرتعبداً اسے معدوم فرض کرنا غیر معقول ہے کیونکہ یقین کی کاشفیت ذاتی ہے یعنی اس کی یہ ذاتی خصوصیت ہے کہ وہ واقع کاانکشاف کرتا ہے اور اس کی حجیت بحکم عقل بدیہی طورپر ثابت ہے۔

بنا بریں حجیت خبر واحد کے دلائل صرف انہی روایات کو شامل ہوں گے جن کے کاذب اور مخالف واقع ہونے کا علم اور یقین نہ ہو۔ یہی حکم خبر واحد کے علاوہ دوسرے شرعی دلائل کا بھی ہو گا جو واقع کاانکشاف کرتے ہیں یہ حقائق ایک ایسا دروازہ ہے جس سے کئی اور دروازے کھلتے ہیں اور اس سے بہت سے اعتراضات اور اشکالات کا جواب دیا جا سکتا ہے اس لئے قارئین کرام کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے۔

خبر واحد سے قرآن کی تخصیص

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی قطعی دلیل کے ذریعے خبر واحد کی حجیت ثابت ہو جائے تو کیا اس خبر واحد کے ذریعے ان عمومات کی تخصیص ہو سکتی ہے جو قرآن میں موجود ہیں؟

مشہور کا مسلک یہی ہے کہ خبر واحد کے ذریعے عمومات قرآن کی تخصیص جائز ہے اور بعض علمائے اہل سنت نے اس (جواز) کی مخالفت سنی ہے البتہ ان میں سے بعض نے تو معطلقاً اسے ناجائز قرار دیا ہے عیسیٰ بن ابان کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر عام قرآن کی پہلے کسی قطعی دلیل کے ذریعے تخصیص ہو چکی ہو تو خبر واحد کے ذریعے اس کی مزید تخصیص جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔

کرخی کا نظریہ ہے کہ اگر کسی دلیل منفصل کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہوئی ہو تو خبر واحد کے ذریعے مزید تخصیص جائز ہے ورنہ نہیں اور قاضی ابوبکر نے توقف اختیار کیا ہے (وہ نہ جواز کاقائل ہوا ہے اور نہ عدم جواز کا)۔

۵۱۲

ہمارا عقیدہ وہی ہے جو مشہور علماء کا ہے یعنی خبر واحد کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خبر واحد کی حجیت (اس کا لازم العمل ہونا) قطعی اور یقینی ہے اور اس کا تقاضا یہی ہے کہ جب تک کوئی مانع پیش نہ آئے اس خبر کے مدلول و مضمون پر عمل کرنا واجب ہے اس کالازمی نتیجہ یہی ہے کہ اس کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو جاتی ہے۔

چندتوہمات اور ان کاازالہ

چند چیزوں کو مانع کے طورپر ذکر کیا گیا ہے لیکن درحقیقت وہ مانع بننے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ۔

۱۔ مانعین کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کریم کلام الٰہی ہے جس کو اللہ نے اپنے نبی (ص) پر نازل فرمایا ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں لیکن خبر واحدکے مطابق واقع ہونے کا یقین نہیں اور نہ اس بات کا یقین ہے کہ یہ خبر معصوم (ع) سے صادر ہوئی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال باقی ہے کہ راوی کو اشتباہ ہوا ہو اور عقل کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک ایسی دلیل کی وجہ سے جس میں خطاء کا احتمال موجود ہو ایک قطعی دلیل سے دستبردار ہوا جائے۔

جواب: یہ درست ہے کہ قرآن قطعی ا لصدور ہے (اس کے کلام خدا ہونے میں کوئی شک نہیں) لیکن ہمیں اس بات کا یقین نہیں کہ حکم واقعی ، عمومات قرآن کے مطابق ہو عمومات قرآن اس لئے واجب العمل ہیں کہ یہ ظاہر کلام ہیں اور عقلاء کی سیرت اس بات پر قائم ہے کہ وہ ظواہر کو حجت جانتے ہیں اور شارع مقدس نے بھی اس سیرت اور روش سے منع نہیں فرمایا۔

لیکن یہ بھی واضح ہے کہ سیرت عقلاء کی رو سے ظواہراس صورت میں حجت ہیں جب ان کے ظاہری معنی کیخلاف کوئی قریہ متصل و مقصل قائم نہ ہو اور اگر کسی مقام پر ظاہری معنی کیخلاف کوئی قرینہ قائم ہو تو اس طاہری معنی سے دستبردار ہونا اور قرینہ کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔

۵۱۳

بنا برایں یہ بات تسلیم کرناناگزیر ہے کہ عمومات قرآن کی اس خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہے جس کی حجیت پر کوئی قطعی دلیل قائم ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس خبر کا مضمون ، معصوم (ع) سے صادر ہونے کو شرعی طور سے تسلیم کر لیں دوسرے الفاظ میں اگرچہ قرآن کی سند قطعی ہے لیکن اس کی دلالت ظنی ہے اور عقل کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ایک ظنی دلالت سے کسی ایسی ظنی دلیل کی بنیاد پر دستبردار ہوا جائے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو۔

۲۔ دوسرا تو ہم یہ ہے کہ معصومین (ع) کی صحیح روایات کہتی ہیں کہ روایات کو کتاب خدا کے سامنے پیش کیا جائے ان میں سے جو روایات کتاب خدا کے خلاف ہو اس کو ترک کر دیا جائے اور اسے دیوار پر مار دیا جائے اور یہ کہ وہ روایت معصوم (ع) سے صادر ہی نہیں ہوئی جو مخالف کتاب خداہو یہ روایت صحیحہ اس خبر واحد کو بھی شامل ہوں گی جو عموم قرآن کیخلاف ہو یعنی اس کو مخالف قرآن ہونے کی وجہ سے ترک کر دیا جائے گا۔

جواب: وہ قرائن عرفیہ جو مراد خداوندی کو بیان کریں ، عرف کے نزدیک مخالف قرآن نہیں سمجھتے جاتے اور دلیل خاص ہمیشہ دلیل عام کی وضاحت ہوا کرتی ہے کوئی دو دلیلیں اس وقت ایک دوسری کی مخالف سمجھی جاتی ہیں جب ان کا آپس میں تعارض ہو۔ بایں معنی کہ جب کسی متکلم سے یہ دونوں دلیلیں صادر ہوں تو اہل عرف اس سے مقصود و متکلم کو نہ سمجھیں اور حیران رہ جائیں بنا برایں خبر واحد جو خاص ہو عام قرآن کی مخالف نہیں بلکہ وہ مراد اور مقصود قرآن کو بیان کرتی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں قطعی طورپر علم ہے کہ معصومین (ع) سے ایسی روایات صادر ہوئی ہیں جو عمومات قرآن کیلئے مخصص اور مطلقات قرآن کیلئے مقید ہیں اگر تخصیص و تقیید ، قرآن کی مخالفت کہلاتی تو ان کایہ فرمان درست نہ ہوتا ''جو کلام خدا کا مخالف ہے وہ ہمارا قول نہیں ہے بلکہ جھوٹ یاباطل ہے،، لہٰذا ان روایات کا ائمہ (ع) سے صادر ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ تخصیص و تقیید قرآن کی مخالف نہیں ہے۔

۵۱۴

اس کے علاوہ معصومین(ع) نے دو روایتوں میں سے ایک کے موافق قرآن ہونے کو ، دوسری روایت پر مقدم ہونے کامرجح قرار دیا ہے اس کامطلب یہ ہوا کہ مخالف روایت بھی (جو موافق قرآن نہیں) اگر معارض نہ ہوتی تو بذات خود حجیت تھی اور یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں کہ اگر اس متروک روایت کی مخالفت اس نوعیت کی ہوتی جو قرآن کے ساتھ ہرگز سازگار نہ ہوتی توبذات خود بھی حجیت نہ ہوتی اور تعارض اور ترجیح کی نوبت نہ آتی۔

معلوم ہوا روایت کا موافق کتاب نہ ہونے کامطلب یہ ہے کہ عرفاً یہ دونوں تخصیص یا تقیید کے ذریعے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔

اس بحث کانتیجہ یہ نکلا کہ خبر واحد جو کسی عام کیلئے مخصص یا مطلق کیلئے مقید قرار پائے بذات خود حجیت اور لازم العمل ہے مگر یہ کہ کسی دوسری دلیل سے اس کاتعارض ہو۔

۳۔ تیرا شبہ یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اگر خبر واحد کے ذریعے قرآن کی تخصیص جائز ہو تو اس کے ذریعے قرآن کا نسخ بھی جائز ہونا چاہئے جبکہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کا نسخ ہونا یقیناً جائز نہیں ہے اس لئے تخصیص بھی جائز نہیں ہونی چاہئے۔

اس ملازمہ کی دلیل یہ ہے کہ نسخ (جس کی وضاحت ہم نسخ کی بحث میں کر چکے ہیں) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کانام ہے اور دلیل ناسخ اس کا انکشاف کرتی ہے کہ حکم سابق (منسوخ) ایک خاص زمانے اور مدت سے مختص تھا جو دلیل ناسخ کے آنے پر ختم ہو گیا بنا برایں کسی حکم کا نسخ ہو جانا حقیقی معنوں میں اس حکم کا اٹھا دینا نہیں بلکہ ظاہری شکل میں حکم کا ازالہ ہوتا ہے افراد کی تخصیص (حکم عام سے اس کے بعض افرادکو خارج کرنا) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کے مانند ہے اس طرح یہ دونوں تخصیص ہیں۔ اگر پہلی تخصیص جائز ہو تو دوسری کوبھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۵

جواب: یہ درست ہے کہ یہ دونوں تخصیص ہیں لیکن ان دونوں تخصیصوں میں فرق ہے یہ کہ اجتماع قطعی اس بات پر قائم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ جائز نہیں ہے اگر عدم جواز پر اجتماع قائم نہ ہوتاتو خبر واحد کے ذریعے تخصیص کی طرح اس کے ذریعے نسخ بھی جائز ہوتا اس سے قبل یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ قرآن اگرچہ قطعی الصدور ہے مگر اس کی دلالت ظنی ہے قطعی نہیں اور خبر واحد ، جس کی حجیت دلیل قطعی سے ثابت ہے کہ ذریعے اس ظنی دلالت سے دستبردار ہوا جا سکتا ہے۔

ہاں ! یہ بات ضرور ہے کہ عدم جواز نسخ پر قائم ہونے والا اجماع تعبدی نہیں بلکہ بعض مسائل اور واقعات اس اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہوتے ہیں کہ اگر خارج میں رونما ہوں تو خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہوتے ہیں ایسے مسائل اور واقعات کوصرف چند آدمی نقل کریں تواس راوی کے کذب اور اس کی خطا کی دلیل ہو گی اور حجیت خبر واحد کی دلیلیں ایسی خبروں اور روایات کو شامل نہیں ہوں گی جنہیں ا ہمیت کی حامل ہونے کے باوجود ایک یا چندآدمی نقل کریں اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ خبر واحد کے ذریعے قرآن ثابت نہیں ہوسکتا۔

یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ نسخ قرآن کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو مسلمانوں کی صرف ایک قوم سے مختص ہو اس کے علاوہ نسخ واقع ہونے کی صورت میں اس کی خبر نقل ہونے کے اسباب و عوامل بھی زیادہ ہوتے ہیںبنا برایں اگر نسخ واقع ہو تو یہ ایک ایسی غیر معمولی خبر ہے جسے خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہونا چاہئے اگر اسے صرف ایک یا دو آدمی نقل کریں تو یہ اس راوی کے جھوٹ یا اشتباہ کا ثبوت ہو گا یہیں سے نسخ اور تخصیص کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے اور وہ ملازمہ بھی باطل ہو جاتا ہے جس کی رو سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہو تو نسخ بھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۶

قرآن حادث ہے قدیم

یونانی فلسفہ کا مسلمانوںکی زندگی پر اثر

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

کلام نفسی

کیا ''طلب،، کلام نفسی ہے ؟

کلام نفسی کا کوئی وجود نہیں

کلام نفسی پر اشاعرہ کے دلائل

۵۱۷

کسی مسلمان کو اس بات میں شک نہیں کہ کلام اللہ وہی ہے جسے اللہ نے نبوت کی دلیل کے طور پر رسول اللہ (ص) پر نازل فرمایانیز اس بات میں بھی کسی مسلمان کو شک نہیں کہ ''تکلم،، خدا کی صفات ثبوتیہ میں سے ایک صفت ہے ، جن کو صفات جمال کہتے ہیںچنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس صفت کو اپنی ذات کیلئے استعمال کیا ہے۔

( وَكَلَّمَ اللَّـهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ) ۴:۱۶۴

''اور خدا نے تو موسیٰ سے (بہت سی) باتیںبھی کیں،،

یونانی فلسفہ کا مسلمانوں کی زندگی پر اثر

تمام مسلمانوں کا مذکورہ دو باتوں پر اتفاق تھا اور ان میں کسی قسم کا اختلاف نہیںپایا جاتاتھا یہاں تک کہ یونانی فلسفہ مسلمانوں میں داخل ہو گیا اور مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں بانٹ کر رکھ دیا حتیٰ کہ ایک فرقہ دوسرے کو کافر گرداننے لگا اور زبانی اختلاف ہاتھا پائی اور قتل و قتال میں تبدیل ہو گیا کئی مسلمانوں کی ناموس کی توہین کی گئی اور کئی بے گناہ افرادکا خون بہایا گیا جبکہ قاتل اور مقتول دونوں توحید کے قائل تھے اور رسالت و معاد کا اقرار کرتے تھے۔

کیا یہ مقام تعجب نہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی عصمت دری اور قتل کے درپے ہو جب کہ دونوں مسلمان گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد (ص) اللہ کے بن دہ اور رسول ہیں جو اللہ کی طرف سے پیام حق لے کر آئے ہیں اوریہ کہ اللہ روز محشر تمام لوگوںکو (حساب کتاب کیلئے) قبروں سے دوبارہ اٹھائے گا۔

کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ(ص) کے بعد ولی امر (ع) کی سیرت یہ نہیں رہی کہ جو شخص بھی ان باتوں کی گواہی دے اس پر مسلمان کے احکام و آثار مرتب کئے جائیں ؟ کیا کوئی روایت یہ کہتی ہے کہ رسول اللہ (ص) یا آپ (ص) کے جانشینوں (ع) میں سے کسی نے کسی بھی شخص سے قرآن کے قدیم یا حادث ہونے یا اس کے علاوہ دوسرے اختلافی مسائل کے بارے میں سوال فرمایا ہو اور ان کے اختلافی مسائل میں سے کسی ایک کا اقرار لینے کے بعد اسے مسلمان قرار دیا ہو؟

۵۱۸

میں نہیں سمجھتا کہ (اور کاش سمجھتا) کہ جو لوگ اس طرح مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کا بیج بوتے ہیں خدا کو کیا جواب دیں گے اور کیاعذر پیش کریں گے ۔انا لله و انا الیه راجعون ۔

حدوث قرآن اور قدم قرآن کے مسئلے نے اس وقت جنم لیا جب مسلمان دو گروہوں (اشعری اور غیر اشعری) میں تقسیم ہو گئے اشاعرہ اس بات کے قائل ہوئے کہ قرآن کریم ہے (یعنی ابد سے ہے اور اس کی کوئی ابتداء نہیں) اوریہ کہ کلام کی دو قسمیں ہیں ۔ ۱۔کلام لفظی ۲۔ کلام نفسی۔ کلام نفسی اللہ کی ذات کے ساتھ قائم اور موجود ہے اور اللہ کے قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا کلام نفسی بھی قدیم ہے اور یہ کہ کلام نفسی خدا کی صفات ذاتیہ میں سے ایک صفت ہے معزلہ اور عدلیہ (امامیہ) کا یہ عقیدہ ہے کہ ''قرآن،، حادث (مخلوق) ہےاور یہ کہ کلام صرف لفظی ہی ہوا کرتی ہے کلام نفسی نامی کوئی چیز موجودن ہیں ہے اور ''تکلم،، اللہ کی صفات فعلیہ میں سے ہے۔

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

اللہ کی صفات ذاتی اور فعلی میں فرق یہ ہے کہ اس کی ذات میں صفات ذاتی کا نقیض و عکس کبھی نہیں پایا جا سکتا دوسرے الفاظ میں اللہ کی ذاتی صفات وہ صفات ہیں جو کبھی بھی اللہ سے سلب نہیں ہو سکتیں جس طرح علم ، قدرت اور حیات ہیں اللہ کی ذات ہمیشہ سے عالم ، قادر اور زندہ ہے اور عالم ، قادر اور زندہ رہے گی یہ امر محال ہے کہ ایک لمحہ کیلئے بھی اللہ عالم ، قادر اور حّی نہ ہو۔

اللہ کی صفات فعلیہ وہ ہیں کہ اللہ کی ذات کبھی ان سے متصف ہوتی اور کبھی ان کے نقیض و عکس سے متصف ہوتی ہے جس طرح خلق کرنا اور رزق دینا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ نے فلاں چیز کو خلق فرمایا اور فلاں چیز کو خلق نہیں فرمایا فلاں کو اللہ نے فرزند عطا فرمایا اور مال عطا نہیں فرمایا۔

اس بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ''تکلم،، صفات فعلیہ میں سے ہے صفات ذاتیہ میں سے نہیں کیونکہ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اللہ ت عالیٰ حضرت موسی ٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا اور فرعون سے ہمکلام نہیں ہوا یااللہ کوہ طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا ، اور بحرنیل میں ہمکلام نہیں ہوا۔

۵۱۹

کلام نفسی

تمام اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ عام اور مشہور کلام لفظی کے علاوہ بھی ایک کلام موجود ہے جس کانام انہوںنے کلام نفسی رکھا ہے البتہ کلام نفسی کی حقیقت کے بارے میں ان سے اختلاف ہے بعض اشاعرہ کا کہنا ہے کہ کلام نفسی ، کلام لفظی کے مدلول اور اس کے معنی کا نام ہے اور بعض اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ کلام نفسی مدلول لفظ سے مختلف ہے اور لفظ اس کلام نفسی پر دلالت و وضعیہ نہیں کرتا بلکہ لفظ کی دلالت اس کلام پر ایسی ہے جیسے انسان کے اختیاری افعال ہیں جو فاعل کے ارادہ علم اور اس کی حیات پر دلالت کرتے ہیں بہرحال اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں موجود کلام ہی قدیم ہے لیکن فاضل قوشجی نے بعض اشاعرہ کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ کلام قرآن کی طرح اس کی جلد اور غلام بھی قدیم ہے جیسا کہ اس سے پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ اشاعرہ کے علاوہ سب کا اتفاق ہے کہ قرآن حادث ہے اور یہ کہ اللہ کا کلام لفظی کائنات کی دیگر مخلوقات کی طرحایک مخلوق ہے اور اس کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

البتہ اس مسئلہ میں بحث و تمحیص اور تحقیق سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اس لئے کہ یہ مسئلہ اصول دین میں سے ہے اور نہ فروغ دین میں سے بلکہ اس کا دنی مسائل اور الٰہی معارف سے دُور کابھی واسطہ نہیں ۔ تاہم میں نے چاہا کہ اس مسئلے کے بارے میں بھی کچھ بحث کی جائے تاکہ ہمارے اشاعرہ بھائیوں (جن کی مسلمانوں میںا کثریت ہے) کیلئے یہ بات واضح ہو جائے کہ جس مسلک کو انہوں نے اختیار کیا ہے اور جس عقیدے کو واجب سمجھتے ہیں وہ محض ایک خیالی چیز ہے عقلی اور شرعی اعتبار سے اس کی کوئی بنیاداور اساس نہیں۔

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689