البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن0%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی رح
زمرہ جات:

صفحے: 689
مشاہدے: 302186
ڈاؤنلوڈ: 8558

تبصرے:

البیان فی تفسیر القرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 302186 / ڈاؤنلوڈ: 8558
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

شیخ صدوق محمد بن علی بن الحسین صحیح سند سے امام جعفر صادق(ع) سے راویت فرماتے ہیں:

''الوقوف عند الشبهة خیر من الاقتحام فی الهلکة، ان علی کل حق حقیقة، و علی کل صواب نوراً، فما وافق کتاب الله فخذوه، و ما خالف کتاب الله فدعوه ۔۔۔،، (۱)

''شک و شبہ کے وقت توقف کرنا ہلاکت میں پڑنے سے بہتر ہے۔ ہر حق کے پیچھے ایک حقیقت ہوا کرتی ہے اور ہر حقیقت کے کچھ آثار ہوتے ہیں۔ جوبات بھی کتاب خدا کے مطابق ہو اسے لے لو اور جو کتاب خدا کے مخالف ہو اسے ترک کردو۔،،

شیخ جلیل سعید بن ھبۃ اللہ قطب راوندی صحیح سند سے امام جعفر صادق(ع) سے روایت فرماتے ہیں:

''اذا ورد علیکم حدیثان مختلفان فاعرضوهما علی کتاب الله، فما وافق کتاب الله فخذوه، و ما خالف کتاب الله فردوه ۔۔۔،، (۲)

''جب تم تک دو مختلف احادیث پہنچیں تو انہیں کتاب خدا کے ذریعے جانچو بایں معنی کہ ان میں سے جو بھی کتاب خدا کے مطابق ہو اسے لے لو اور جو کتاب خدا کے مطابق نہ ہو اسے ٹھکرا دو۔،،

چوتھا شبہ

اس دلیل کے خلاصہ جمع قرآن کی کیفیت او راس کیفیت سے تحریف کا لازم آنا ہے۔ آئندہ آنے والی بحث ''جمع قرآن کے بارے میں نظریات،، میں اس شبہ و دلیل کو باطل ثابت کیا جائے گا۔

____________________

(۱) الوسائل، ج ۳ کتاب القضائ، باب وجوہ الجمع بین الاحادیث المختلفۃ و کیفیۃ العمل بہا، ص ۳۸۰۔

(۲) ایضاً

۳۰۱

جمع قرآن کے بارے میں نظریات

جمع قرآن کی روایات

جمع قرآن کی احادیث میں تضادات

قرآن کو مصحف کی صورت میں کب جمع کیا گیا۔

حضرت ابوبکر کے زمانے میں جمع قرآن کی ذمہ داری کس نے لی؟

کیا جمع قرآن کا کام زید کے سپرد کیا گیا تھا؟

کیا حضرت عثمان کے زمانے تک ایسی آیات باقی تھیں، جن کی تدوین نہیں کی گئی؟

جمع قرآن میں حضرت عثمان کا ماخذ و مدرک کیا تھا؟

قرآن جمع کرکے اس کے نسخے دوسرے شہروں میں کس نے بھیجے؟

دو آیتوں کوسورہ براءت کے آخر میں کب ملایا گیا؟

ان دو آیتوں کو کس نے پیش کیا؟

یہ کیسے ثابت ہوا کہ یہ دونوں آیتیں قرآن کا حصّہ ہیں؟

قرآن کی کتابت اور املاء کےلئے حضرت عثمان نے کس کا تقرر کیا؟

روایات جمع قرآن میں تضادات

احادیث جمع قرآن، کتاب الٰہی سے متعارض ہیں

احادیث جمع قرآن حکم عقل کے خلاف ہیں

احادیث جمع قرآن خلاف اجماع ہیں

احادیث جمع قرآن اور قرآن میں زیادتی

۳۰۲

جمع قرآن وہ موضوع ہے جسے تحریفی حضرات اپنی دلیل قرار دیتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ جمع قرآن کی کیفیت کا لازمہ (عام حالات میں) قرآن میں تحریف و تغییر ہے۔ اس بحث کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف اور تغییر سے پاک و منزّہ ہے۔

اس شبہ کا منشاان حضرات کا یہ گمان ہے کہ جب برئ معونہ میں ستر اور جنگ یمامہ میں چار سو قاری قتل ہو گئے تو اس طرح قرآن کے ضائع ہو جانے کا خطرہ پیدا ہوا۔ چنانچہ قرآن کی بقا اور اس کے تحفظ کی خاطر حضرت ابوبکر کے حکم پر حضرت عمر اور زید بن ثابت نے کھجور کی ٹہنیوں، کپڑے کے ٹکڑوں، باریک پتھروں اور دو عادل گواہوں کی گواہی کے بعد لوگوں کے سینوں سے قرآن جمع کرنا شروع کردیا۔

جمع قرآن کی اس کیفیت کی تصریح بہت سی روایات میں کی گئی ہے۔ اس طریقے سے جمع کرنے والا انسان جب غیر معصوم ہو تو عموماً کوئی نہ کوئی چیز، آیہ وغیرہ، رہ جاتی ہے جس تک جمع کرنے والے کی دسترس نہیں ہوتی۔ مثلاً اگر کوئی انسان کسی ایک یا کئی شعراء کا کلام جمع کرنا چاہے جو متفرق اور بکھرا پڑا ہو تو کسی نہ کسی شعر یا بیت کے رہ جانے کا خدشہ باقی رہتا ہے۔ انسانی عادت کے مطابق یہ ایک قطعی اور یقینی امر ہے اور اگر یقین نہ ہو تو اس طرح جمع کرنے سے تخریف کا احتمال ضرور رہتا ہے کیونکہ یہ احتمال باقی رہتا ہے کہ بعض ایسی آیات کی گواہی دو عادل نہ دے سکیں جو پیغمبر اکرم (ص) سے سنی گئی ہوں۔ بنا برایں یقین سے نہیںکہا جا سکتا کہ سارے کا سارا قرآن جمع کرلیا گیا ہے اور اس میں کوئی کمی باقی نہیں رہی۔

جواب

یہ شبہ اس بات پر مبنی ہے کہ جمع قرآن کی کیفیت سے متعلق تمام روایات صحیح ہوں۔ لہٰذا بہتر ہے کہ ہم پہلے ان روایات کو بیان کریں اور اس کے بعد ان پر کئے جانے والے اعتراضات پیش کریں۔

۳۰۳

جمع قرآن کی روایات

۱۔ زید بن ثابت سے روایت ہے:

''حضرت ابوبکر نے جنگ یمامہ کے موقع پر مجھے بلوایا، ان کے پاس جانے پر معلوم ہوا کہ حضرت عمر بھی ان کے پاس موجود تھے۔ حضرت ابوبکر نے مجھ سے کہا : عمر میرے پاس آئے ہیں اور انہوں نے کہا کہ یمامہ کے موقع پر قاریان قرآن کثرت سے قتل کردئےے گئے ہیں اور انہیںڈر ہے کہ اور مقامات پر بھی قاریان قرآن کثرت سے قتل کئے جائیں گے اور اس طرح قاریوں کے سینوں میں موجود قرآن ضائع ہو جائیگا اسلئے مصلحت اسی میں ہے کہ میں (حضرت ابوبکر) قرآن کو ایک مستقل کتاب کی صورت میں جمع کرنے کا حکم صادر کروں۔ میں نے (حضرت ابوبکر) جواب میں کہا ہے کہ میں وہ کام کیسے انجام دوں جو رسول اللہ (ص) نے انجام نہیں دیا۔ حضرت عمر نے کہا: قسم بخدا یہ تو ایک کار خیر ہے حضرت عمر بار بار یہی تجویز پیش کرتے رہے، حتیٰ کہ خدا نے میرا سینہ کشادہ فرمایا اور میں بھی حضرت عمر کا ہم رائے ہوگیا،زید کہتے ہیں کہ ابو بکر نے مجھ سے کہا: تم ایک عقلمند، قابل اعتماد اور سچے جوان ہو اور رسول اللہ(ص) کے زمانے میں وحی بھی لکھا کرتے تھے۔ آج بھی تم جمع قرآن کے اس عظیم عمل کو انجام دو زید کہتے ہیں: خدا کی قسم اگر حضرت ابو بکر ایک پہاڑ کو اپنی جگہ سے اٹھانے کا حکم دیتے تو میرے لئے آسان تھا مگر جمع قرآن کا کام مشکل۔ اس لئے میں نے بھی حضرت ابوبکر سے کہا: آپ یہ کام کیسے انجام دینا چاہتے ہیں جو خود رسول اللہ(ص) نے انجام نہیں دیا۔ حضرت ابوبکر نے جواب دیا: یہ ایک اچھا کام ہے۔ حضرت ابوبکر اپنی یہ رائے مکرر بیان کرتے رہے۔ حتیٰ کہ خدا نے مجھے وسعت صدر عطا فرمائی اورم جوبات حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے دل میں تھی وہ میرے دل میں بھی اتر گئی اور میں نے تختوں، کاغذ کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کو جمع کرنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ سورہ توبہ کا آخری حصہ صرف ابی خزیمہ انصاری سے ملا اور و یہ تھا:

( لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمومنينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ) ۹: ۱۲۸

( فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ) : ۱۲۹

۳۰۴

ان صحیفوں سے جمع شدہ قرآن ایک کتاب کی صورت میں حضرت ابوبکر کے پاس تھا اور انکی وفات کے بعد حضرت عمر کے پاس تھا اور انکی وفات کے بعد ان کی بیٹی حفصہ کے پاس تھا،،

۱۔ ابن شہاب انس بن مالک سے نقل کرتے ہیں:

'' جب حذیفہ بن یمان اہل شام اور اہل عراق کے ہمراہ آرمینیہ اور آذربائیجان کو فتح کرنے میں مصروف تھے تو قرآن کی قراءتوں میں لوگوں کے اختلافات دیکھ کر گھبرا گئے اور اختلاف کا ہو جائیں، کتاب خدا کی خبر لیجئے۔

چنانچہ حضرت عثمان نے حفصہ کہ یہ پیغام بھیجا کہ جمع شدہ قرآن نے ان کی طرف بھیج دے وہ اس کے مزید نسخے بنا کر واپس کردیں گے۔ حفصہ نے قرآن حضرت عثمان کی طرف بھیجا اور زید بن ثابت، میں کوئی اختلاف ہوتو اسے لغت قریش میں لکھو اس لئے کہ قرآن لغت قریش کے مطابق نازل ہوا ہے۔ قرآن کے متعدد نسخے بنا کر اسے واپس حفصہ کے پاس بھیج دیا گیا اور ہر جگہ ایک ایک نسخہ بھیجا گیااور یہ حکم دیا گیا کہ ان نسخوں کے علاوہ جہاں کہیں کوئی قرآن یا اس کا حصہ ملے جلا دیا جائے۔،،

ان شہاب کہتے ہیں:

مجھے خارجہ بن زید بن ثابت نے بتایا کہ اس نے زید بن ثابت کو یہ کہتے سنا ہے : قرآن کے نسخے لکھتے وقت مجھے سورہ احزاب کی ایک آیت نہیں ملی جسے میں رسول اللہ(ص) سے سنا کرتا تھا، چنانچہ تلاش بسیار کے بعد وہ آیہ خزیمہ بن ثابت انصاری کے پاس ملی۔ وہ آیت یہ تھی:

( مِّنَ الْمومنينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ) ۲۳:۳۳

ہم نے اس آیہ کو سورہ ئ احزاب میں شامل کرلیا۔،،

۳۔ ابن ابی شیبہ اپنی سند سے امیر المومنین (ع) سے نقل کرتے ہیں:

''قرآن کی جمع آوری میں سب سے زیادہ ثواب حضرت ابوبکر کو ملے گا کیونکہ حضرت ابوبکر وہ پہلے شخص ہیں۔ جنہوں نے قرآن کو کتاب کی صورت میں جمع کیا۔،،

۳۰۵

۴۔ ابن شہاب سالم بن عبداللہ اور خارجہ سے نقل کرتے ہیں:

صحیح بخاری، با جمع القرآن ، ج۶،ص۹۸

صحیح بخاری، ج۶، ص۹۹ ۔ یہ دونوں اور اس کے بعد اکیس تک کی روائتیں منتخب کنز العمال، جو حاشیہ مسند احمد میں ہے، میں مذکور ہیں۔ ج۲، ص۴۳۔۵۲۔

'' حضرت ابوبکر نے قرآن کو چند کاغذوں میں جمع کیا تھا اس کے بعد انہوں نے زید بن ثابت سے کہا کہ ان میں نظرثانی کردے مگر اس نے انکار کردیا۔ حضرت ابوبکر نے اس سلسلے میں حضرت عمر سے مدد طلب کی اور زید بن ثابت نے ان کاغذوں پر نظرثانی کی۔ یہ نسخہ حضرت ابوبکر کی زندگی میں ان کے پاس تھا۔ ان کی وفات کے بعد یہ حضرت عمر کے پاس رہا اور ان کی وفات کے بعد یہ پیغمبر اکرم(ص) کی زوجہ حفصہ کے پاس رہا۔ حضرت عثمان نے حفصہ سے یہ نسخہ طلب کیا مگر وہ نہ مانیں۔ لیکن جب حضرت عثمان نے ان سے یہ وعدہ کیا کہ وہ اس سے مزید نسخے بنا کر اسے واپس کردیں گے تو وہ راضی ہوگئیں اور حضرت عثمان کو یہ نسخہ بھیج دیا۔ حضرت عثمان نے اس کے متعدد نسخے بنا کر اصل واپس بھیج اور آخر تک یہ انہی (حفصہ) کے پاس رہا۔،،

۵۔ ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں:

'' جس وقت اہل یمامہ قتل کردئےے گئے۔ حضرت ابوبکر نے حضرت عمر بن خطاب اور زید بن ثابت سے کہا: تم دونوں مسجد کے دروازے پر بیٹھ جاؤ اور جو تمہارے پاس قرآن کا کوئی حصہ لے کر آئے اور تمہیں اس کے قرآن ہونے میں شک ہو اور دو عادل گواہ اس کے قرآن ہونے کی شہادت دیں تو اس کو تحریر کرلو۔ اس لئے مقام یمامہ پر ایسے اصحاب رسول (ص) قتل کردئےے گئے ہیں جنہوں نے قرآن جمع کیا تھا۔،،

۳۰۶

۶۔ محمد بن سیرین سے روایت کرتے ہیں:

'' جس وقت حضرت عمر قتل کئے گئے اس وقت قرآن جمع نہیں کیا گیا تھا۔،،

۷۔ حسن روایت کرتے ہیں:

'' ایک مرتبہ حضرت عمر نے قرآن کی کسی آیت کے بارے میں سوال کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ آیہ فلاں آدمی کے پاس تھی جو جنگ یمامہ میں قتل کردیا گیا ہے۔ حضرت عمر نے کہا: انا اللہ پھر انہوں نے قرآن جمع کرنے کا حکم دیا۔ با برایں حضرت عمر وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے قرآن کو ایک کتاب کی صورت میں جمع کیا۔،،

۸۔ یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب نے روایت کی ہے:

'' حضرت عمر نے قرآن جمع کرنا چاہا۔ وہ لوگوں کے مجمع میں کھڑے ہوگئے اور کہا: جس جس نے قرآن کا کوئی حصہ رسول اسلام (ص) سے سنا ہے وہ اسے میرے سامنے پیش کرے۔ اس وقت قرآن تختوں اورکاغذ کے ٹکڑوں وغیرہ پر لکھا ہوا لوگوں کے پاس موجود تھا اور جب تک دو عادل گواہ شہادت نہ دیتے اسوقت تک حضرت عمر اسے قرآن کے طور پر تسلیم نہ کرتے۔ اس جمع آوری کے دوران حضرت عمل قتل کردئےے گئے ان کے بعد یہ کام حضرت عثمان نے سنبھالا اور اعلان کیا: جس کے پاس قرآن کا کوئی حصہ ہو اسے میرے پاس لے آئے۔ حضرت عثمان بھی قرآن تب تسلیم کرتے تھے جب دو عادل گواہی دیں۔ اسی دوران خزیمہ بن ثابت آئے اور کہا: تم لوگوں نے دو آئتیں چھوڑ دی ہیں ، لوگوں نے کہا: وہ کون سی ہیں؟ میں نے رسول اللہ (ص) سے یہ آیت سنی ہے:

۳۰۷

( لَقَد جاءَكُم رَسولٌ مِن أَنفُسِكُم عَزيزٌ عَلَيهِ ما عَنِتُّم حَريصٌ عَلَيكُم بِالمومنينَ رَءوفٌ رَحيمٌ ..)

حضرت عثمان نے کہا: میں بھی شہادت دیتا ہوں کہ یہ دونوں آیتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔ مگر ان دونوں کو کس جگہ رکھنا چاہےے؟ خزیمہ نے کہا: اسے اس سورہ کے خاتمے میں شامل کردیں جو آخر میں نازل کیا گیا ہو۔ چنانچہ میں نے سورہ براءت کے آخر میں لکھ دیا۔

۹۔ عبید بن عمیر نے روایت کی ہے:

''حضرت عمر اس وقت تک کسی آیہ کو قرآن میں شامل نہیں کرتے تھے جب تک دو آدمی شہادت نہ دے دیں۔ چنانچہ انصار میں سے ایک آدمی یہ دو آیتیں لے کر آیا:

( لَقَد جاءَكُم رَسولٌ مِن أَنفُسِكُم ..) . الخ

حضرت عمر نے کہا: میں تم سے اس آیہ کریمہ کے بارے میں کوئی گواہی طلب نہیں کروں گا۔ اس لئے کہ رسول اللہ(ص) بھی اسی طرح پڑھا کرتے تھے۔،،

۱۰۔ سیلمان بن ارقم نے حسن، ابن سیرین اور ابن شہاب سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

'' جب جنگ یمامہ میں قاریان قرآن بڑی تیزی سے قتل کئے گئے حتیٰ کہ چارسو قاری قتل کردئےے گئے تو زید بن ثابت نے حضرت عمر سے کہا : ہمارے دین کا دارومدار قرآن ہے۔ اگر قرآن ضائع ہوگیا تو دین بھی ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا، اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ قرآن جمع کرنا شروع کردوں۔ حضرت عمر نے کہا: آپ کچھ انتظار کریں تاکہ میں حضرت ابوبکر سے پوچھ لوں، چنانچہ حضرت عمر ار زید بن ثابت دونوں حضرت ابوبکر کے پاس گئے اور انہیں اس صورت حال سے آگاہ کیا۔ حضرت ابوبکر نے کہا: ابھی جلدی نہ کریں مجھے مسلمانوں سے مشورہ کرلینے دیں، اس کے بعد خطبے میں انہوں نے لوگوں کو اس سے آگاہ کیا: لوگوں نے اس کی تائید کی اور کہا: آپ کا فیصلہ بالکل صحیح ہے۔ یہاں سے قرآن کی جمع آوری شروع ہوگئی اور حضرت ابوبکر نے منادی کرائی کہ جس جس کے پاس قرآن کا کوئی حصہ ہے وہ انہیں لادے۔،،

۳۰۸

۱۱۔ خزیمہ بن ثابت نے روایت بیان کی ہے:

میں آیہ ئ شریفہ: لقد جاء کم رسول من انفسکم... لے کر حضرت عمر بن خطاب اور زید بن ثابت کے پاس گیا۔ زید نے کہا: تمہارے ساتھ دوسرا گواہ کون ہے؟ میں نے کہا: مجھے کسی دوسرے گواہ کاعلم نہیں۔ حضرت عمر نے کہا: اس کے ساتھ دوسری گواہی میں دیتا ہوں کہ یہ قرآن کی آیہ ہے۔،،

اس روایت کے علاوہ جتنی روایات منتخب سے نقل کی ہیں وہ سب کنز العمال '' جمع القرآن،، ج ۲ ، ص ۳۶۱ میں موجود ہیں، یہ روایات یحییٰ بن جعدہ سے منقول ہیں۔

۱۲۔ ابو اسحاق نے اپنے بعض اصحاب سے روایت کی ہے:

'' جس وقت حضرت عمر بن خطاب نے قرآن کی جمع آوری کی تو انہوںنے لوگوں سے پوچھا: لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح کون ہے، جواب دیا گیا: سعید بن عاص، اس کے بعد پوچھا سب سے اچھی کتابت کس کی ہے؟ جواب میں کہا گیا: زید بن ثابت کی۔ اس پر حضرت عمرنے حکم دیا کہ سعید بن عاص املاء لکھائے اور زید بن ثابت لکھے۔ اس طرح چار قرآن لکھے گئے۔ ان میں سے ایک قرآن کوفہ، دوسرا بصرہ، تیسرا شام اور چوتھا حجاز کی طرف بھیجا گیا۔،،

۱۳۔ عبداللہ بن فضالہ نے روایت بیان کی ہے:

'' جب حضرت عمر قرآن لکھنے لگے تو اپنے اصحاب میں سے چند کو اپنے پاس بٹھا کر ان سے کہا: جب کبھی لغت قرآن میں اختلاف ہو تو اسے لغت مضر کے مطابق لکھا کیونکہ قرآن لغت مضر کے ایک آدمی پرنازل ہوا ہے۔،،

۳۰۹

۱۴۔ ابوقلابہ نے روایت کی ہے:

'' حضرت عثمان کے دورخلافت میں کوئی معلم کسی قراءت کے مطابق قرآن پڑھاتا تھا اور کوئی معلم کسی اور قراءت کے مطابق پڑھاتا تھا۔ اس کے نتیجے میں شاگردوں کی قراءتو ں میں اختلاف ہوگیا۔ حتیٰ کہ یہ اختلاف معلمین میں بھی سرایت کرگیا اور بعض نے بعض کو کافر کہنا شروع کردیا۔ اس کی اطلاع حضرت عثمان کو ملی اور انہوں نے اپنے خطاب میں کہا: تم لوگ میرے پاس ہو اور اس کے باوجود قراءت قرآن میں اختلاف رکھتے ہو اور صحیح قراءت نہیں کرتے، تو جو لوگ مجھ سے دور ہیں ان اختلاف اور غلطیاں تو اس سے بھی زیادہ ہوں گی۔ اے اصحاب محمد(ص) فوراً جمع ہو جاؤ اور لوگوں کے لئے رہنما (قرآن) مرتب کردو۔،،

ابوقلابہ، مالک بن انس (ابوبکر بن داؤد کہتے ہیں کہ یہ مالک بن انس، مشہور مالک بن انس کی جد ہے) سے نقل کرتے ہیں:

'' میں ان افراد میں سے تھا جو کاتبوں کو قرآن کی املاء لکھواتے تھے کبھی ایسا ہوتا کہ جب کسی آیہ کے بارے میں اختلاف واقع ہوتا اور کسی ایسے آدمی کا نام لیاجاتا جس نے اس آیہ کو رسول اللہ (ص) سے سنا ہو اور وہ موقع پر حاضر نہ ہوتا تو اس مختلف فیہ آیہ سے قبل اور بعد والی آیات لکھ دی جاتیں اوراختلافی آیت کے لئے جگہ چھوڑدی جاتی حتیٰ کہ وہ شخص، جس جس نے آیت رسول اللہ (ص) سے سنی ہوتی، آجاتا یا پھر کسی آدمی کو اشخص کے پیچھے بھیج دیا جاتا تھا تاکہ اسے بلا لائے اور اس کی رائے کے مطابق قرآن لکھا جائے۔ اس طرح قرآن کی کتاب اختتام تک پہنچی۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہمارے پاس تھا ضائع کردیا ہے لہٰذا اس مرتب شدہ قرآن کے علاوہ تمہارے پاس جو کچھ بھی ہو اسے ضائع کردو۔،،

۳۱۰

۱۵۔ مصعب بن سعد نقل کرتے ہیں:

''ایک مرتبہ حضرت عثمان نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ابھی رسول اللہ (ص) کی وفات کو تیرہ برس سے زیادہ نہیں گزرے اور تم نے قرآن کے بارے میں اختلاف کرنا شروع کر دیا ہے اور یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ابیی بن کعب کی قرات ایسی ہے اور عبداللہ کی قرات ایسی ہے۔ ایک کہتا ہے تمہاری قرات درست نہیں اور دوسرا کہتا ہے کہ تمہاری قرات درست نہیں۔ خدارا ! تم میں سے جس کے پاس بھی قرآن کی کوئی آیت ہے وہ میرے پاس لے آئے تاکہ قرآن کی صححی جمع آوری کی جا سکے۔ چنانچہ لوگوں نے کاغذ اور چمڑے کے ٹکڑوں ، جن پر قرآن لکھا ہوا تھا ، کو حضرت عثمان کے پاس لانا شروع کر دیا اوراس طرح کافی مقدار میں قرآن جمع ہو گیا اس کے بعد حضرت عثمان نے ان لوگوں ، جو کاغذوں اور چمڑوں پر لکھا ہوا قرآن لائے تھے ، میں سے ایک ایک کو اپنے پاس بلایا اور ہر ایک سے حلیفہ پوچھا کہ اس نے خود رسول اللہ (ص) سے اس آیت کوسنا ہے اور یہ آنحضرت (ص) نے ہی اسے لکھوائی ہے ؟ لوگ اس کا جواب اثبات میں دیتے اس کے بعد حضرت عثمان نے پوچھا تم میں سب سے اچھا کاتب کون ہے ؟ جواب ملا: زید بن ثابت جو کاتب وحی بھی ہیں ۔ پھر پوچھا: تم میں لغت عرب سے زیادہ آشنا کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : سعید بن عاص ہے ۔ حضرت عثمان نے حکم دیا کہ سعید قرآن لکھواتا جائے اور زید بن ثابت لکھتا جائے اس طرح کئی قرآن لکھے گئے اورلوگوں میں تقسیم کئے گئے،،۔

مصعب بن سعد کہتے ہیں:

''میں نے بعض اصحاب پیغمبر (ص) کو یہ کہتے سنا ہے کہ بہت اچھا عمل انجام پایا ہے،،۔

۳۱۱

۱۶۔ ابو الملیح نے روایت بیان کی ہے:

''جب حضرت عثمان نے قرآن لکھنا چاہا تو فرمایا: قبیلہ بنی ہذیل لکھوائے اور قبیلہ بنی ثقیف لکھے،،

۱۷۔ عبدالاعلیٰ بن عبداللہ بن عبداللہ بن عامر قرشی نے روایت بیان کی ہے:

''جب قرآن مکمل طور پر لکھا گیا تو حضرت عثمان نے کہا : یہ تم نے بہت اچھا کام انجام دیا ہے۔ تاہم ابھی قرآن میں کچھ غلطیاں دیکھ رہا ہوں جنہیں عرب اہل زبان خود ہی درست کر لیں گے،،

۱۸۔ مکرمہ کہتے ہیں:

''جب قرآن جمع کر کے حضرت عثمان کے پاس لایا گیا تو انہیں اس میں کچھ غلطیاں نظر آئیں اور انہوں نے کہا: اگر قرآن لکھوانے والا قبیلہ بنی ہذیل اورل کھنے والا قبیلہ بنی ثقیف سے ہوتا تو یہ غلطیاں نہ ہوتیں،،

۱۹۔ عطاء روایت بیان کرتے ہیں:

''جب حضرت عثمان قرآن کے نسخے مرتب کرنے لگے تو انہوں نے ابی بن کعب کو اپنے پاس بلایا ابیی بن کعب لکھواتا تھا اور زید بن ثابت لکھتا تھا ان کے ساتھ سعید بن عاص بھی تھا جو تصحیح کرتا تھا لہٰذا یہ قرآن ابیی اور زید کی قرات کے مطابق ہے،،۔

۲۰۔ مجاہد نے روایت بیان کی ہے :

''حضرت عثمان نے ابی بن کعب کو قرآن لکھوانے ، زید بن ثابت کو لکھنے اور سعید بن عاص اور عبدالرحمن بن حرث کو تصحیح کرنے کا حکم دیا،،

۳۱۲

۲۱۔ زید بن ثابت نے روایت کی ہے:

''ہم قرآن لکھ چکے تو مجھے ایک آیت نہیں ملی جسے میں رسول اللہ (ص) سے سنا کرتا تھا آخر کار یہ آیت مجھے خزیمہ بن ثابت کے پاس سے ملی اور وہ آیت یہ تھی :( مِّنَ الْمومنينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ) تک خزیمہ کو ذوالشہادتین کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمض نے اس کی شہادت دو مردوں کی شہادت کے برابر قرار دی تھی،،

۲۲۔ ابن اشتہ نے لیث بن سعد سے نقل کیا ہے:

''سب سے پہلے انسان جس نے قرآن جمع کیا ، حضرت ابوبکر ہیں اور قرآن کے کاتب زید بن ثابت ہیں زید کا طریقہ کار یہ تھا کہ لوگ زید بن ثابت کے پاس آتے مگر جب تک دو عادل کسی آیہ کے قرآن ہونے کے بارے میں شہادت نہ دیتے ، زید اسے نہ لکھتے اور سورہ برات کا آخری حصہ ابی خزیمہ بن ثابت کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں مل سکا اور ابی خزیمہ کے پاس دو عادل گواہ نہ تھے اس کے باوجود حضرت ابوبکر نے کہا : ابی خزیمہ جو کچھ کہتا ہے اسے لکھ لو کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے اس کی شہادت کو دو آدمیوں کی شہادت قرار دیا ہے چنانچہ حضرت ابوبکر کے اس حکم کے مطابق سورۃ برات کے آخری حصے کو لکھا گیا حضرت عمر آیہ رحم لے کر آئے مگر ہم (زید بن ثابت وغیرہ) نے نہیں لکھا کیونکہ وہ اکیلے تھے اور دوسرا کوئی شاید نہیں تھا،،(۱)

یہ وہ اور اہم روایات ہیں جو جمع قرآن کے بارے میں نقل کی گئی ہیں۔ مگر یہ سب روایات احد ہونے کے علاوہ جو مفید یقین نہیں ہیں کئی اعتبار سے قابل اعتراض بھی ہیں۔

____________________

(۱) الاتقان النوع ۱۸ ، ج ۱ ، ص ۱۰۱

۳۱۳

۱۔ جمع قرآن کی احادیث میں تضاد

ان احادیث کا آپس میں تضاد ہے اس لئے ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند سوالات و جوابات کے ضمن میں ان روایات میں موجود تضادات کو بیان کیا جائے:

٭ قرآن کو مصحف کی صورت میں کب جمع کیا گیا۔

دوسری روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کو حضرت عثمان کے زمانے میں جمع کیا گیا پہلی ، تیسری اور چوتھی روایت کی تصریح اوربعض دیگر روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن حضرت ابوبکر کے زمانے میں جمع کیا گیا اور ساتویں اور بارہویں روایت صراحتاً یہ کہتی ہے کہ قرآن حضرت عمر کے زمانے میں جمع کیا گیا۔

٭ حضرت ابوبکر کے زمانے میں جمع قرآن کی ذمہ داری کس نے لی ؟

پہلی اور بائیسویں روایت یہ کہتی ہے کہ جمع قرآن کی ذمہ داری زید بن ثابت نے لی اور چوتھی روایت یہ کہتی ہے کہ اس کی مسؤلیت حضرت ابوبکر نے ہی قبول کی تھی اور زید کے ذمے صرف اتنا تھا کہ جمع شدہ قرآن پر نظرثانی کرے پانچویں روایت یہ کہتی ہے اور بعض دیگر روایات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے ذمہ دار زید بن ثابت اور حضرت عمر دونوں تھے ۔

٭ کیا جمع قرآن کا کام زید کے سپرد کیا گیا تھا؟

پہلی روایات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر نے اس کام کو زید کے سپرد کر دیا تھا بلکہ پہلی روایت صراحتاً اس بات پر دلالت کرتی ہے کیونکہ حضرت ابوبکر کا یہ قول : ''تم ایک عقلمند ، قابل اعتماد اور سچے جوان ہو اور رسول اللہ کے زمانے میں وحی بھی لکھا کرتے تھے آج بھی تم جمع قرآن کے اس عظیم عمل کو انجام دو ،، واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت ابوبکر نے جمع قرآن کا کام زید کے ذمے لگایا تھا۔

پانچویں روایت کا مفہوم یہ ہے کہ دو شاہدوں کی شہادت سے قرآن کی کتابت ہو رہی تھی یہاں تک کہ حضرت عمر آیہ رحم لے کر آئے مگر یہ ان سے قبول نہیں کی گئی۔

۳۱۴

٭ کیا حضرت عثمان کے زمانے تک ایسی آیات باقی تھیں جن کی تدوین نہیں کی گئی؟

اکثر روایات سے یہی ظاہر ہوتا ہے بلکہ ان کی تصریح یہی ہے کہ حضرت عثمان نے پہلے سے مدون قرآن میں کوئی کمی نہیں کی اور چودہویں روایت صراحتاً یہ کہتی ہے کہ حضرت عثمان نے پہلے سے مدون قرآن میں سے کچھ گھٹا دیا گیا تھا اور مسلمانوں کو بھی اسے مٹانے کا حکم دیا تھا۔

٭ جمع قرآن میں حضرت عثمان کا ماخذ و مدرک کیا تھا؟

دوسری اور چوتھی روایت تصریح کرتی ہے کہ جمع قرآن کے سلسلے میں حضرت عثمان کا مدرک وہ قرآن تھے جنہیں حضرت ابوبکر نے جمع کیاتھا اور آٹھویں ، چودھویں اور پندرہویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ حضرت عثمان کا مدرک دو گواہوں کی شہادت اور ان کا یہ قول تھا کہ انہوں نے خود رسول اللہ (ص) سے قرآن سنا ہے۔

٭ حضرت ابوبکر سے جمع قرآن کا مطالبہ کس نے کیا؟

پہلی روایت یہ کہتی ہے کہ جمع قرآن کا مطالبہ حضرت عمر نے کیا اور حضرت ابوبکر نے پہلے انکار کیا لیکن حضرت عمر کے اصرار پر وہ اس پر آمادہ ہو گئے اور زید بن ثابت کو اپنے پاس بلوا کر اس سے جمع قرآن کا مطالبہ کیا زید نے بھی پہلے انکار کیا اور پھر حضرت ابوبکر کے اصرار پر آمادگی ظاہر کی دسویں روایت یہ کہتی ہے کہ زید اور حضرت عمر نے حضرت ابوبکر سے جمع قرآن کا مطالبہ کیا اور حضرت ابوبکر نے دوسرے مسلمانوں سے مشورہ کے بعد اپنی رضا مندی کا اظہار کیا۔

٭قرآن جمع کر کے اس کے نسخے دوسرے شہروں میں کس نے بھیجے؟

دوسری روایت کی تصریح یہ ہے کہ یہ عمل حضرت عثمان نے انجام دیا تھا اور بارہویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ یہ عمل حضرت عمر نے انجام دیا۔

۳۱۵

٭ دو آئتوں کو سورہ برائت کے آخر میں کب ملایا گیا؟

پہلی ، گیارہویں اور بائیسویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ ان دو آئتوں کو حضرت ابوبکر کے زمانے میں سورہ برائت سے ملایا گیا آٹھویں روایت یہ تصریح کرتی ہے اور بعض دوسری روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کام حضرت عمر کے دور میں انجام پایا تھا۔

٭ ان دو آئتوں کو کس نے پیش کیا؟

پہلی اور بائیسویں روایت کی تصریح یہ ہے کو ابو خزیمہ نے ان آئتوں کو پیش کیا آٹھویں اور گیارہویںروایت کی تصریح یہ ہے کہ خزیمہ بن ثابت نے ان آئتوں کو پیش کیا تھا اوران دونوں (ابوخزیمہ اور خزیمہ بن ثابت) میں کوئی نسبت نہیں ہے چنانچہ ابن عبدالبر نے یونہی نقل کیا ہے۔(۱)

٭ یہ کیسے ثابت ہوا کہ یہ دونوں آئتیں قرآن کا حصہ ہیں؟

پہلی روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے اور نویں اور بائیسویں روایت کی تصریح بھی یہی ہے کہ ایک آدمی کی شہادت سے ان کا قرآن ہونا ثابت ہوا آٹھویں روایت کے مطابق ایک آدمی کے علاوہ حضرت عثمان کی گواہی سے یہ ثابت کیا گیا اور گیارہویں روایت کی تصریح ہے کہ حضرت عمر اور دوسرے آدمی کی گواہی سے اس کا قرآن ہونا ثابت ہوا۔

٭قرآن کی کتابت اور املاء کے لئے حضرت عثمان نے کس کا تقرر کیا؟

دوسری روایت کی تصریح یہ ہے کہ حضرت عثمان نے زید ، ابن زبیر ، سعید اور عبدالرحمن کو کتابت کا حکم دیا اور پندرہویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ حضرت عثمان نے کتابت کیلئے زید بن ثابت کو اور املاء کیلئے سعید کو مقرر کیا سولہویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ حضرت عثمان نے کتابت کیلئے ثقیف کو اور املاء کیلئے ہذیل کو معین کیا اٹھارویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ کاتب قرآن کا تعلق بنی ثقیف سے نہیں تھا اور نہ املاء لکھوانے والے کا تعلق بنی ہذیل سےتھا۔ انیسویں روایت کی تصریح یہ ہے کہ لکھوانے والا ابیی بن کعب تھا اور زید جو کچھ لکھتے تھے سعید اس کی تصحیح کرتے تھے اور بیسویں روایت کا مفہوم بھی یہی ہے البتہ اس میں تصحیح کرنے والے کا نام عبدالرحمن بن حرث ہے۔

____________________

(۱) تفسیر قرطبی ، ج ۱ ، ص ۵۶

۳۱۶

۲۔ روایات جمع قرآن میں تضادات

یہ روایات ان روایات سے متضاد ہیں جن کے مطابق قرآن کریم رسول اللہ (ص) کے زمانے میں ہی لکھا اور جمع کیا گیا تھا چنانچہ علماء کی ایک جماعت ، جن میں ابن شیبہ ، احمد بن حنبل ، ترمذی ، نسائی ، ابن حبان ، حاکم ، بیہقی اور ضیاء مقدسی شامل ہیں ، ابن عباس سے روایت کرتی ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان سے کہا:''آپ نے کس وجہ سے سورہ انفال کو ، جو مثانی(۱) میں سے ہے ، سورہ برائت کے ساتھ رکھ دیا ہے جو مین(۲) میں سے ہے اور ان دونوں سورتوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ذکر نہیں کیا اور ان دونوں سورتوں کو قرآن کی سات طویل سورتوں کے ساتھ ذکر کر دیا ہے حضرت عثمان نے جواب دیا : بعض اوقات جب رسول اللہ (ص) پر متعدد آیات پر مشتمل سورے نازل ہوتے توآپ (ص) کا تبین وحی کو اپنے پاس بلایا لیتے اور ان سے فرماتے: اس سورے کو فلاں سورے کے ساتھ رکھو ، اور کبھی کبھی جب آپ (ص) پر متعدد آئتیں نازل ہوتیں تو آپ (ص) فرماتے: ان آیات کو فلاں سورے میں شامل کر لو حضرت عثمان کہتے ہیں: سورہ انفال وہ پہلا سورہ ہے جو مدینہ میں نازل ہوا اور سورہ برائت قرآن کا وہ سورہ ہے جو سب سے آخر میں نازل ہوا اس کے علاوہ ان دونوں کے قصے اور واقعات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اس سے میں یہی سمجھا کہ برائت انفال کا حصہ ہے اور رسول اللہ (ص) نے بھی اپنی وفات سے پہلے یہ بیان نہیں فرمایا کہ برائت انفال کا حصہ ہے کہ نہیں۔ ان وجوہات کی بناء پر میں نے انفال اور برائت کو ملا دیا اور ان دونوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور انہیں قرآن کی سات طویل سورتوں میں شامل کر لیا،،(۳) طبرانی اور ابن عساکر ، شعبی سے روایت بیان کرتے ہیں: ''رسول اللہ (ص) کے زمانے میں قرآن کو انصار کے چھ آدمیوں نے جمع کیا ابی بن کعب ، زید بن ثابت ، معاذ بن جبل ، ابودرداء ، سعد بن عبید اور ابو زید ، مجمع بن جاریہ نے بھی دو یا تیس سورتوں کے علاوہ باقی قرآن کو جمع کیا تھا،،(۴)

____________________

(۱) وہ سورتیں جن کی آیات ایک سو سے کم ہوں (ترجم)

(۲) وہ سورتیں جن کا آیات ایک سو یا اس سے زیادہ ہوں (مترجم)

(۳) منتخب کنزالعمال ، ج ۲ ، ص ۲۸

(۴) ایضاً: ج ۲ ، ص ۵۲

۳۱۷

قتادہ کی روایت ہے ، وہ کہتے ہیں:

''میں نے انس بن مالک سے پوچھا: رسول اللہ (ص) کے زمانے میں قرآن کس نے جمع کیا ؟ اس نے جواب دیا : قرآن کو چار آدمیوں نے جمع کیا اور ان سب کا تعلق انصار سے تھا جو یہ ہیں : ابی بن کعب ، معاذ بن جبل ، زید بن ثابت اور ابوزید ،،(۱)

مسروق کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن عمر نے عبداللہ بن مسعود کا ذکر کیا اور کہا:

''میرے دل میں ہمیشہ اس کی محبت رہتی ہے ۔ اس لئے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: تم لوگ قرآن ، چار

آدمیوں ، عبداللہ بن مسعود ، سالم ، معاذ اور ابی بن کعب سے حاصل کرو،،(۲)

نسائی نے صحیح سند کے ذریعے عبداللہ ابن عمر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

''میں نے قرآن جمع کیا اور ہر رات پورا قرآن ختم کرتا تھا ، جب رسول اللہ (ص) کو یہ خبر ملی تو آپ (ص) نے فرمایا: قرآن مہینے میں ختم کیا کرو،،(۳)

ابن سعد کی وہ روایت بھی عنقریب بیان ہو گی جس کے مطابق ام ورقہ نے بھی قرآن جمع کیا تھا۔

ہو سکتا ہے کہ کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ ان روایات میں جمع قرآن سے مراد سینوں میں قرآن کا جمع کرنا ہو اور کتابی شکل میں مدون قرآن مراد نہ ہو لیکن یہ صرف ایک دعویٰ ہو گا جس کا کوئی ثبوت نہیں ہے اس کے علاوہ جیسا کہ آئندہ بحثوں میں ثابت ہو گا کہ رسول اللہ (ص) کے زمانے میں حافظان قرآن لاتعداد تھے بھلا ان کو چار یا چھ میں کیونکر محدود کیا جاسکتا ہے۔

جو شخص صحابہ کرام اور آپ (ص) کے حالات کا بنظر غائر مطالعہ کرے اسے یہ علم اور یقین حاصل ہو جائے گا کہ قرآن مجید عہد رسول اللہ (ص) میں ہی جمع کر لیا گیا تھا اور یہ کہ قرآن کو جمع کرنے والوں کی تعداد بھی کوئی کم نہیں تھی۔

____________________

(۱) صحیح بخاری ، باب القراء من اصحاب النبی (ص) ، ج۶ ، ص ۲۰۲

(۲) صحیح بخاری ، باب القراء من اصحاب النبی (ص) ، ج ۶ ، ص ۲۰۲

(۳) الاتقان النوع ۲۰ ، ج ۱ ، ص ۱۲۴

۳۱۸

باقی رہی بخاری یک وہ روایت جو انس سے نقل کی گئی ہے اور جس میں یہ کہا گیا ہے کہ رسول اللہ (ص) کی وفات تک چار آدمیوں ابودرداء ، معاذ بن جبل ، زید بن ثابت اور ابوزید کے علاوہ کسی اور نے قرآن کو جمع کرنے کی سعادت حاصل نہیں کی یہ روایت متروک اور ناقابل عمل ہے اس لئے کہ یہ ان تمام گزشتہ روایات ، بلکہ خود بخاری کی روایت سے بھی متعارض ہے اس کے علاوہ یہ روایت خودبھی قابل تصدیق نہیں ہے اس لئے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی راوی رسول اللہ (ص) کی وفات کے موقع پر کثیر تعداد میں اور مختلف شہروں میں منتشر مسلمانوں کا احاطہ اور ان کے حالات معلوم کر سکے تاکہ اس طرح قرآن کو جمع کرنے والے افراد چار میں منحصر ہو جائیں یہ دعویٰ توغیب گوئی اور بغیر علم و یقین کے نظریہ قائم کرنے کے مترادف ہے۔

اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ ان تمام روایات کی موجودگی میں اس قول کی تصدیق ممکن نہیں کہ حضرت ابوبکر وہ پہلے شخص ہیں جنہوںنے خلافت سنبھالنے کے بعد قرآن جمع کیا تھا اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر حضرت ابوبکر نے عمر اور زید کو یہ حکم کیوں دیا کہ وہ سفید پتھروں ، کھجور کی چھالوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن جمع کریں اور یہ کہ اس قرآن کو عبداللہ ، معاذ اور ابیی سے کیوں حاصل نہیں کیا ؟ ! جبکہ یہ حضرات جمع قرآن کے وقت زندہ تھے اور رسول اللہ (ص) نے ان سے اور سالم سے قرآن حاصل کرنے کا حکم بھی دیا تھا البتہ اس وقت سالم جنگ یمامہ میں قتل کر دیئے گئے تھے اور اس سے قرآن حاصل کرنا ممکن نہیں تھا،،

اس کے علاوہ اس روایت کےمطابق زید خود منجملہ جامعین قرآن میں سے تھا پھر اسے جمع قرآن کے سلسلے میں ادھر ادھر

تلاش کرنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ حضرت ابوبکر کے قول کے مطابق یہ ایک عقلمند اور پاکدامن نوجوان تھا۔

ان سب کے علاوہ حدیث ثقلین بھی اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن رسول اللہ (ص) کے زمانے میں ی جمع کر لیا گیا تھا چنانچہ ہم آگے چل کر اس کی طرف اشارہ کریں گے۔

۳۱۹

۳۔ احادیث جمع قرآن ، کتاب الٰہی سے متعارض ہیں۔

جمع قرآن سے متعلق بیان شدہ تمام روایات قرآن کریم سے متعارض ہیں کیونکہ بہت سی آیات کے مطابق قرآن کے سورے ایک دوسرے سے جدا سب لوگوں حتیٰ کہ مشرکین اور اہل کتاب کے پاس موجود تھے اس کی دلیل یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے کفار اور مشرکین کو قرآن کی مثل ، دس سورتوں حتیٰ کہ ایک سورہ کی نظیر لانے کا چیلنج کیا تھا اس سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ قرآن کے سورے لوگوں کے ہاتھ میں موجود تھے ورنہ ان کی نظیر لانے کا چیلنج بے معنی ہوتا۔

اس کے علاوہ قرآن مجید کی بہت سی آیات میں قرآن پر کتاب کا اطلاق کیا گیا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے فرمان: ''انی تارک فیکم ثقلین کتاب اللہ و عترتی،، میں بھی قرآن کریم کو کتاب سے تعبیر کیا گیا ہے۔

یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ قرآن مجید جناب نبی کریم (ص) کے زمانے میں ہی مکمل طور پر لکھا جا چکا تھا اس لئے کہ قرآن کے ان مضامین کو کتاب کہنا ہرگز صحیح نہیں ہے جو لوگوں کے سینوں میں ہوں اور نہ اس کو حقیقتہً کتاب کہا جا سکتا ہے جو باریک پتھروں ، کھجور کی ٹہنیوں اور ہڈیوں پر لکھاہوا ہو ہاں مجازی طور پر اسے کتاب کہا جا سکتا ہے لیکن یہ اس صورت میں صحیح ہو گا جب کلام میں معنیء مجازی پر کوئی قرینہ موجود ہو۔

یہی حیثیت لفظ ''کتاب،، کی ہے کیونکہ حقیقی طور پر کتاب ، مضامین کے مجموعہ کو کہا جاتا ہے اگر یہی مضامین مختلف حصوں میں لکھے اور بکھرے ہوئے ہوں تو انہیں کتاب نہیں کہا جائے گا چہ جائیکہ ان مضامین کو کتاب کہا جائے اور ابھی تحریر میں بھی نہیں لائے گا اور صرف لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں۔

۳۲۰