البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن11%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313947 / ڈاؤنلوڈ: 9312
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

۴۔ احادیث جمع قرآن حکم عقل کے خلاف ہیں۔

جمع قرآن سے متعلق جو روایات بیان کی گئی ہیں وہ حکم عقل کیخلاف ہیں کیونکہ بذات خود قرآن کی عظمت ، حفظ قرآن اور قرات قرآن کو رسول اللہ (ص) کا اہمیت دینا ، رسول اللہ (ص) جس چیز کو اہمیت دیتے تھے مسلمانوں کا اس کو دل و جان سے قبول کرنا اور اہمیت دینا اور ان تمام اعمال کا بیان شدہ ثواب ، جمع قرآن کے اس طریقہ کار سے ساز گار نہیں جس کا روایت میں ذکر ہے۔

قرآن مجید میں کئی ایسے پہلو ہیں جن کی بنیادپر مسلمانوں کی نگاہ میں قرآن اہمیت کاحامل بن سکتا ہے اور مرد تو بجائے خود یہ عورتوں اوربچوں میں بھی مشہور ہو سکتا ہے اور وہ پہلو یہ ہیں:

۱۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت : عرب کلام بلیغ کے حفظ کرنے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے اسی وجہ سے وہ زمانہ جاہلیت کے اشعار اور خطبوں کو یاد کر لیتے تھے ایسے عرب ، کلام پاک کو اہمیت کیوں نہ دیتے جس کے چیلنج کا جواب کوئی فصیح و بلیغ شخص اور خطیب بھی نہیں دے سکا اس وقت تمام دنیائے عرب کی توجہ قرآن مجید پر مرکوز تھی مومنین اسے اس لئے حفظ کرتے تھے کہ ان کا اس پر ایمان تھا اور کفار اس کا مقابلہ کرنے اور اس کی حجیت کوباطل ثابت کرنے کیلئے اسے حفظ کرتے تھے۔

۲۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ) جن کی اس وقت کرہ ارض کے ایک عظیم خطے پر حکومت تھی اس خواہش کا اظہار کر چکے تھے کہ حتی المقدور قرآن کا تحفظ اور اسے حفظ کیا جائے اور انسانی عادت و طبیعت کا یہ تقاضا ہے کہ جب کوئی سربراہ مملکت کسی کتاب کے تحفظ اور پڑھنے کی خواہش ظاہر کرے تو یہ کتاب ان لوگوں میں فوراً رائج ہو جاتی ہے جو کسی دینی یا دنیوی مفاد کی خاطر اس سربراہ کی خوشنودی چاہتے ہوں۔

۳۔ حافظ قرآن کو لوگوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ہر تاریخ دان بخوبی جانتا ہے کہ اس دور میں حافظان اور قاریان قرآن کا کتنا احترام کیا جاتا تھا یہ خود ایک اہم سبب ہے کہ اس مقصد کیلئے لوگوں نے سارے کا سارا یا مقدور بھر قرآن ضرور حفظ کیا ہو گا۔

۳۲۱

۴۔ حفظ اور قرات قرآن کا اجرو ثواب ، جس کا قاری اور حافظ قرآن مستحق قرار پایا ہے ، ایک اہم عامل ہے جو لوگوں میں قرآن کو یاد کرنے اور اس کے تحفظ کا شوق پیدا کر سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمان عظمت قرآن کو بہت زیادہ اہیمت دیتے تھے قرآن کو اپنے جان و مال اور اولاد سے زیادہ عزیز رکھتے اورا س کی حفاظت کرتے تھے چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ کچھ عورتوں نے سارے کا سارا قرآن جمع کر لیا تھا۔

ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں:

''فضل بن وکین نے ہمیں خبر دی کہ ولید بن عبداللہ بن جمیع نے حدیث بیان کی: میری نانی ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث ، جس کی زیارت کیلئے رسول اللہ (ص) جایا کرتے اور اسے شہیدہ کا نام دیتے تھے اور اس نے سارا قرآن جمع کر لیا تھا ، نے حدیث بیان کی: جب رسول اللہ (ص) جنگ بدر کیلئے روانہ ہوئے تو میں نے آپ (ص) سے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص) ! اگر اجازت ہو تو میں بھی آپ (ص) کے ساتھ چلوں اور جنگی زخمیوں کا علاج اور تیمارداری کروں، شاید اللہ تعالیٰ مجھے شہادت نصیب فرمائے ؟ آپ (ص) نے فرمایا : خدا نے شہادت تمہاری قسمت میں لکھ دی ہے،،(۱)

قرآن جمع کرنے کے معاملے میں جب عورتوں کا یہ حال ہے تو مردوں کا کیا حال ہو گا یہی وجہ ہے کہ عہد رسول اللہ (ص) کے بہت سے حافظان قرآن کے نام تاریخ میں درج ہیں۔

قرطبی لکھتے ہیں:

_____________________

۱) الاتقان النوع ۲۰ ج ۱ ص ۱۲۵

۳۲۲

''جنگ یمامہ کے دن ستر قاری شہید کر دیئے گئے اور عہد نبی اکرم (ص) میں بر معونہ کے مقام پر بھی اتنے ہی قاری شہید کئے گئے ،،(۱)

جمع قرآن سے متعلق گزشتہ صفحات میں پیش کردہ دسویں روایت میں ہے کہ جنگ یمامہ کے دن چار سو قاری شہید کئے گئے۔

بہرحال نبی اکرم (ص) کے قرآن مجید کو انتہائی اہمیت دینے اور خصوصی طور پر متعدد کاتبوں کا اہتمام کرنے سے ، جبکہ قرآن تیس سال میں قسط وار نازل ہوا ہے ، ہمیں یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ آپ (ص) نے اپنے زمانے میں ہی جمع قرآن کا حکم دیدیا تھا۔

زید بن ثابت روایت کرتے ہیں:

''ہم رسول اللہ (ص) کے پاس بیٹھ کر ٹکڑوں سے قرآن جمع کیا کرتے تھے،،

حاکم اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں:

''یہ حدیث شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط کی بنیاد پر صحیح ہے لیکن انہوں نے اسے اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا،،

اس کے بعد فرماتے ہیں:

یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن مجید رسول اسلام (ص) کے زمانے میں ہی جمع کر لیا گیا تھا،،(۲)

جہاں تک قرآن کے بعد سوروں یا ایک سورہ کے کچھ حصوں کا تعلق ہے ان کو حفظ کرنا تو عام بات تھی اور شاید ہی کوئی مسلمان مرد یا عورت ہو جس نے چند سورتیں یا ایک سورۃ کے کچھ حصہ یاد نہ کئے ہوں۔

____________________

(۱) الاتقان النوع ۲۰ ، ص ۱۲۲ ۔ قرطبی اپنی تفسیر ، ج ۱ ، ص ۵۰ میں لکھتے ہیں: بعض کا کہنا ہے کہ جنگ یمامہ کے دن سات سو قاری شہید کئے گئے۔

(۲) المستدرک ، ج ۲ ، ص ۶۱۱

۳۲۳

عبادہ بن صامت روایت کرتے ہیں:

کان رسول الله ۔ص ۔بشغل ، فاذا قدم رجل مهاجر علی رسول الله ۔ص ۔دفعه الی رجل منا یعلمه القرآن ،، (۱)

''بعض اوقات رسول اللہ (ص) کسی کام میں مصروف ہوتے اور مہاجرین میں سے کوئی آپ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ (ص) اسے ہم میں سے کسی کے حوالے کر دیتے جو اسے قرآن کی تعلیم دیتا تھا،،

کلیب نے روایت کی ہے:

''کنت مع علی ، ع ۔فسمع فجهم فی المسجد یقراون القرآن ، فقال : طوبی لهولاء ۔۔۔۔۔۔(۲)

''میں علی (علیہ السلام) کے ہمراہ تھا جب آ پ(ع) نے لوگوں کی قرات قرآن کا شور سنا تو فرمایا: ان لوگوں کو بشارت

ہو جو قرات کلام پاک میں مصروف ہیں،،

نیز عبادہ بن صامت سے روایت ہے:

کان الرجل اذا هاجر دفعه النبی ۔ص ۔الی رجل منایعلمه القرآن ، وکانبسمع المسجد رسول الله ۔ص ۔فجة بتلاوة القرآن ، حی امرهم رسول الله ان یخفضوا اصواتهم لئلا یتغالطوا،، (۳)

''جب کوئی نیا مہاجر مدینہ آتا تو نبی اکرم (ص) اسے ہم میں سے کسی کے حوالے کر دیتے جو اسے قرآن کی تعلیم دیتا تھا اس وقت مسجد نبوی (ص) سے قرات قرآن کا ایک شور بلند ہوتا تھا حتیٰ کہ نبی اکرم (ص) کو کہنا پڑا کہ اپنی آوازوں کو آہستہ کریں کہیں شور میں قرآن غلط نہ پڑھا جائے،،

___________________

(۱) مسند احمد ، ج ۵ ، ص ۳۲۴

(۲) کنز العمال ، فضائل القرآن ، طبع ثانی ، ج ۲ ، ص ۱۸۵

(۳) مناہل العرفان ، ص ۳۲۴

۳۲۴

یہ حقیقت ہے کہ حفظ قرآن ، اگرچہ قرآن کے بعض حصے سہی ، کارواج مسلمان مرد اور عورتوں میں عام تھا بلکہ بعض اوقات تو کچھ مسلمان عورتیں قرآن کی ایک یا متعدد سورتوں کی تعلیم کو اپنا مہر قرار دیتیں(۱) قرآن کو اتنی زیادہ اہمیت دینے کے باوجود یہ کہنا کیسے ممکن ہے کہ قرآن کی جمع آوری میں خلافت ابوبکر تک تاخیر ہوئی اور جمع قرآن کے سلسلے میں حضرت ابوبکر کو دو گواہوں کی ضرورت محسوس ہوئی جو یہ شہادت دیں کہ ہم نے سورہ یا آیہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے سنا ہے۔

۵۔ احادیث جمع قرآن خلاف اجماع ہیں۔

یہ سب روایات تمام مسلمانوں کے اس اتفاقی اور اجماعی فیصلے کیخلاف ہیں کہ قرآن صرف تواتر کے ذریعے ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ان روایات کے مطابق قرآن دو شاہدوں یا ایک ایسے شاہد جس کی گواہی دو کے برابر ہو ، کی شہادت سے ثابت کیا جاتا تھا اس طریقے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ قرآن خبر واحد کے ذریعے بھی ثابت ہو انصاف سے بتائے ! کوئی مسلمان یہ بات ماننے کیلئے تیار ہے ؟ میں نہیں سمجھ سکا کہ دونوں قول کیسے جمع ہو سکتے ہیں کہ قرآن خبر متواتر کے بغیر ثابت نہ ہو سکے اور یہ روایات بھی صحیح ہوں جن کے مطابق قرآن دو شاہدوں کی شہادت سے بھی ثابت ہو جاتا ہے۔

کیا اس بات کے یقین سے کہ قرآن خبر متواتر کے بغیر ثابت نہیں ہوتا ، اس بات کا یقین حاصل نہیں ہوتا کہ یہ ساری کی ساری روایات جھوٹی اور من گھڑت ہیں؟

تعجب تو اس پر ہے کہ ابن حجرجیسے بعض دانشمندوں نے فرمایا ہے کہ ان روایات میں شہادت سے مراد کتابت اور حفظ کرنا ہے(۲) میرے خیال میں جس وجہ سے ابن ح جر نے یہ توجیہ کی ہے وہ ثبوت قرآن کیلئے تواتر کاضروری ہونا ہے بہرحال یہ توجیہہ کئی جہات سے صحیح نہیں ہے:

____________________

(۱) اس حدیث کو شیخان (بخاری و مسلم) ابوداؤد ، ترمذی اور نسائی نے بیان کیا ہے ۔ تاج ، ج ۲ ، ص ۳۳۲

(۲) الاتقان نوع ۱۸ ص ۱۰۰

۳۲۵

اولاً: یہ توجیہ جمع قرآن سے متعلق مذکورہ روایات کی تصریحات کیخلاف ہے۔

ثانیاً: اس توجیہ کا لازمہ یہ ہے کہ جب تک یہ کسی کے پاس لکھا ہوا نہ ملے وہ اسے قرآن میں شامل نہیں کرتے تھے جس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہوتا اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے اس کو ساقط (ترک ) کر دیا جس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہو۔

ثالثاً : جس بات کو لکھنا یا حفظ کرنا مقصود ہو اگر وہ متواترات میں سے ہو تو اسے ل کھنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور جب تک متواتر نہ ہو کتابت اور حفظ کرنے سے قرآن ثابت نہیں ہوتا بہرحال کتابت اور حفظ کو جمع قرآن کی شرط قرار دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ ان روایات کو مسترد کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ روایات تواتر کے بغیر بھی قرآن کے ثابت ہونے پر دلالت کرتی ہیں جس کے باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔

۶۔ احادیث جمع قرآن اور قرآن میں زیادتی

اگر یہ روایات صحیح ہوں اور ان کے ذریعے قرآن میں کمی کی صورت میں تحریف پر استدلال کیا جائے تو انہی روایات کے ذریعے قرآن میں زیادتی کی صورت میں تحریف پر بھی استدلال کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان روایات میں جمع قرآن کی جو کیفیت اور طریقہ بتایا گیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ قرآن میں کچھ نہ کچھ اضافہ کر دیا گیا ہو۔

اعتراض:قرآن میں زیادتی کو اس میں نقص اور کمی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ قرآن کی کسی آیہ یا سورہ کو قرآن سے نکال لینا آسان ہے لیکن قرآن میں کسی آیہ کا اضافہ کرنا مشکل ہے۔ ا س لئے کہ قرآن میں اعجاز کی حد تک فصاحت و بلاغت پائی جاتی ہے اوراس کے پایہ کا کلام بنا کر اسے قرآن میں شامل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔

۳۲۶

جواب: اگرچہ قرآن کے اعجاز اور اس کی بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ ایک سورہ کی مثل و نظیر نہ لائی جا سکے لیکن ایک دو کلموں کی مثل و نظیر تولائی جا سکتی ہے بلکہ اگر مختصر ہو تو ایک آیہ کی مثل بھی لائی جا سکتی ہے اور اگر یہ احتمال نہ ہوتا تو قرآن ثابت کرنے کیلئے دو شاہدوں کی گواہی کی ضرورت نہ پڑتی جس کا گزشتہ روایات میں ذکر ہوا ہے اس لئے کہ جو آیت بھی کسی کی طرف سے پیش کی جاتی وہ خود منہ بولتا ثبوت ہوتی کہ میں قرآن سے ہوں کہ نہیں۔

بنا برایں جو قرآن میں کمی کی صورت میں تحریف کا قائل ہے اسے لامحالہ ماننا پڑے گا کہ قرآن میں زیادتی بھی ہوئی ہے اور یہ اجماع مسلمین کیخلاف ہے۔

گزشتہ مباحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ جمع قرآن کو خلفاء کی طرف نسبت دینا محض خیال خام ہے جو کتاب و سنت ، عقل اور اجماع کیخلاف ہے۔

تحریف کو ثابت کرنے کیلئے جمع قرآن کے ذریعے استدلال نہیں کیا جا سکتا ، بفرض تسلیم اگر قرآن کو حضرت ابوبکر نے اپنے دور خلافت میں جمع کیا ہو پھر بھی اس میں شک نہیں کہ جمع قرآن کا جو طریقہ گزشتہ بیان کی گئی روایات میں ذکر کیا گیا ہے ، جھوٹ ہے اور حق یہ ہے کہ قرآن کو مسلمانوں میں تواتر کی بنیاد پر جمع کیا گیا ہے البتہ جو سورے اور آیات لوگوں کے سینوں میں بطور تواتر موجود تھیں جمع کرنے والے نے قرآن کی صورت میں ان کی تدوین کی ہے۔

ہاں ! یہ مسلم ہے کہ حضرت عثمان نے اپنے دور خلافت میں قرآن جمع کیا ہے لیکن حضرت عثمان اس معنی میں جامع قرآن نہیں ہیں کہ انہوں نے سوروں اور آیتوں کو بذات خود جمع کیا ہو بلکہ اس معنی میں جامع قرآن ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کو ایک ہی قرات پر متفق کیا اور باقی قرآنوں کوجو اس قرات سے مختلف تھے جلا دیا اور دوسرے شہروں میں یہ حکمنامہ بھیجا کہ اس نسخے کے علاو باقی نسخے جلا دیئے جائیں اور مسلمانوں کو قرات میں اختلاف کرنے سے روک دیا چنانچہ اس حقیقت کی تصریح بعض دانشمندان اہل سنت نے بھی کی ہے۔

۳۲۷

حارث محاسبی کہتے ہیں:

''عام لوگوں میں مشہور ہے کہ قرآن حضرت عثمان نے جمع کیا ہے حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے حضرت عثمان نے صرف لوگوں کو اس ایک قرات پر آمادہ اور متفق کیا تھا جسے حروف قرات میں اہل عراق و شام کے اختلاف کے وقت حضرت عثمان اور کچھ مہاجرین و انصار نے اختیار کیا تھا اور اس سے قبل قرآن ، حروف ہفتگانہ جن میں قرآن نازل ہوا تھا ، کے مطابق پڑھا جاتا تھا ،،(۱)

مولف : جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضرت عثمان نے مسلمانوں کو اس ایک قرات پر متفق کیا جو مسلمانوں میں مشہور تھی ، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے بطور تواتر انہوں نے سنی تھی اور ان قرات پر پابندی لگا دی جو حروف ہفتگانہ کی بنیادپر پڑھی جاتی تھیں ، جن کا بطلان گزشتہ مباحث میں بیان ہو چکا ہے ، حضرت عثمان کے اس کارنامے پر کسی مسلمان کو اعتراض نہیں کیونکہ قرات میں اختلاف مسلمانوں میں اختلاف کا باعث بن رہا تھا اور اس کا شیرازہ بکھر رہا تھا بلکہ اس اختلاف کی وجہ سے بعض مسلمان بعض کو کافر قرار دے رہے تھے گزشتہ مباحث میں ایسی روایات گزر چکی ہیں جن میں رسول اللہ (ص) نے قرات میں اختلاف سے منع فرمایاہے ہاں ! حضرت عثمان کے جس عمل پر مسلمان اعتراض کرتے ہیںوہ ان کا قرآن کے باقی نسخوں کو جلانا اور مختلف شہروں میں جلانے کا حکم دینا ہے اس عمل پر مسلمانوں کی ایک جماعت نے اعتراض کیا تھا اور حضرت عثمان کا نام حراق المصاحف قرآن سوز رکھ دیا تھا۔

نتیجہ:

ان گزشتہ مباحث سے قارئین محترم کے سامنے واضح ہو گیا کہ تحریف قرآن کی باتیں خرافات اور بیہودہ خیالات ہیں اس قسم کی باتیں ضعیف العقل کر سکتے ہیں یا وہ لوگ کر سکتےہیں جو اس مسئلہ میں کماحقہ ، غور نہیں کرتے یا تحریف کا قائل وہ ہو گا جو اس نظریئے پر فریفتہ ہو ظاہر ہے کسی بھی چیز کی محبت انسان کو اندھا اور بہرا کر دیتی ہے اور وہ نہ حق کی بات کر سکتا ہے اور نہ سن سکتا ہے اس کے برعکس جو شخص عقلمند، منصف مزاج اور متفکرہو گا وہ اس نظریہ کے باطل ہونے میں شک نہیں کر سکتا۔

____________________

(۱) الاتقان نوع ۱۸ ، ج ۱ ، ص ۱۰۳

۳۲۸

ظواھر قرآن کی حجیت

٭ ظواہر قرآن کے حجت نہ ہونے کے دلائل

٭ قرآن فہمی کا مختص ہونا

٭ تفسیر بالرائے کی ممانعت

٭ معانی قرآن کی پیچیدگی

٭ خلاف ظاہر کا یقین

٭ متشابہ پر عمل کی ممانعت

٭ قرآن میں تحریف

۳۲۹

اس میں کوئی شرک نہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے اظہار مافی الضمیر اور افہام و تفہیم کا کوئی خاص طریقہ نہیں اپنایا اور افہام و تفہیم کا وہی طریقہ اپنایا جو آپ (ص) کی قوم می رائج تھا آپ (ص) اپنی قوم کے لئے قرآن لے کرآئے تاکہ وہ اسے سمجھے اور اس کی آیتوں میں غور و فکر کرے قرآن جن کاموں کا حکم دے انہیں بجا لائے اور جن باتوں سے روکے اس سے باز آ جائے قرآن کی متعدد ا یتوں میں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ) (۴۷:۲۴)

''تو کیا یہ لوگ قرآن میں (ذرا بھی ) غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں،،

دوسری جگہ ارشادہوتا ہے:

( وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ) ۳۹:۲۷

''اور ہم نے تو اس قرآن میں لوگوں کے (سمجھانے کے) واسطے ہر طرح کی مثل بیان کر دی ہے تااکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں،،

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ) ۲۶:۱۹۲

''اور (اے رسول) بیشک یہ (قرآن) ساری خدائی کے پالنے والے (خدا) کا اتارا ہوا ہے،،

( نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ) : ۱۹۳

''جسے روح الامین (جبرئیل) لے کر نازل ہوئے ہیں،،

( عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ) : ۱۹۴

''تمہارے دل پر تاکہ تم بھی (اور پیغمبروں کی طرح لوگوں کو عذاب خدا سے) ڈراؤ،،

۳۳۰

( بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ ) : ۱۹۵

''(جسے جبرئیل) صاف عربی زبان میں (لے کر آئے)،،

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( هَـٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ ) ۳:۱۳۸

''یہ (جو ہم نے کہا) عام لوگوں کیلئے تو صرف بیان (واقعہ ) ہے (مگر) اور پرہیز گاروں کیلئے نصیحت ہے،،

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ) ۴۴:۵۸

''تو ہم نے اس قرآن کو تمہاری زبان میں (اس لئے) آسان کر دیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت پکڑیں،،

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ) ۵۴:۱۷

''اور ہم نے تو قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے واسطے آسان کر دیا ہے تو کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے،،

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ) ۴:۸۲

''تو کیا یہ لوگ قرآن میں بھی غور نہیں کرتے اور (یہ نہیں خیال کرتے کہ) اگر خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے (آیا ) ہوتا توضرور اس میں بڑا اختلاف پاتے،،

ان کے علاوہ بھی قرآن کی ایسی آیات موجود ہیں جن میں احکام قرآن پر عمل کرنا واجب قرار دیا گیا اور اس کے ظواہر پر عمل کرنے کی تاکید کی گئی ہے ذیل میں ظواہر قرآن کی حجیت اور عربوں کے قرآن کے معانی کو سمجھنے کے چند دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔

۳۳۱

۱۔ قرآن کو رسالت کی حجت و دلیل کے طورپر نازل کیا گیا اور نبی اکرم (ص) نے پوری انسانیت کو اس کی ایک سورہ تک کی مثل پیش کرنے کا چیلنج کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عرب قرآن کے ظاہری معانی سمجھتے تھے اگر قرآن ایک ناقابل حل معمہ ہوتا تو عربوں کو چیلنج کرنا صحیح نہ ہوتا اور ان کے سامنے قرآن معجزہ ہونا ثابت نہ ہوتا کیونکہ جس چیز کو وہ سمجھتے ہی نہ تھے اس کا جواب کیا دیتے اور یہ بات قرآن نازل کرنے کے مقصد اور لوگوں کو دعوت ایمان دینے سے سازگار نہیں بلکہ منافی ہوتی۔

۲۔ بہت سی روایات میں ثقلین ، جنہیں رسول اللہ (ص) اپنے بعد چھو ڑکر گئے ، سے متمسک رہنے کا حکم دیا گیا ہے ظاہر ہے تمسک کا مطلب یہ ہے کہ اس کتاب کو اپنایا جائے اور اس سے جو احکام سمجھےج ائیں ان پر عمل کیا جائے اور ظاہر قرآن کی حجیت اسی کا نام ہے۔

۳۔ روایات متواترہ میں حکم دیا گیا ہے کہ روایات کو قرآن کے سامنے پیش کرو( اس سے مقایسہ کرو) اور پھر جو روایت کتاب خدا کیخلاف ہو اسے باطل سمجھو اور دیوار پر دے مارو وہ جھوٹ پر مبنی ہے اس کو قبول کرنے سے منع کیا گای ہے اور ائمہ (ع) کا فرمان نہیں ہے یہ روایات تصریح کرتی ہیں کہ ظواہر قرآن حجت ہیں اور قرآن کو عام اہل زبان جو فصیح عربی جانتے ہوں سمجھ سکتے ہیں۔

اس قسم کی دوسری روایات میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ صحیح شرائط کو باطل شرائط سے الگ کرنا ہو تو ان کا کتاب خدا سے مقایسہ کرو اور جو کتاب خدا کے خلاف ہو اسے مستردکر دو۔

۴۔ بعض احکام شرعیہ پرائمہ (ع) کا قرآنی آیات سے استدلال کرنا دلیل ہے کہ ظواہر قرآن حجت ہیں:

۱۔ زراہ نے امام صادق (ع) سے پوچھا کہ آپ (ع) نے کہاں سے سمجھا کہ پورے سر کا نہیں بلکہ سر کے ایک حصے کا مسح واجب ہے آپ (ع) نے فرمایا : ''لمکان الباء ،، (یعنی ''وامسحوا برؤوسکم،، میں ''ب،، بعض کا معنی دیتی ے اوریہ بتاتی ہے کہ سر کے کچھ حصے کا مسح واجب ہے)

۳۳۲

۲۔امام (علیہ السلام) نے منصور دو انیقی کو چغل خور کی بات پر عمل کرنے سے منع فرمایا اور کہا ''چل خور فاسق ہے،، اس کے بعد دلیل کے طور پر اس آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی:

( إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا ) ۴۹:۶

''اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبرلے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو،،

۳۔ ایک شخص نے گانا سننے کی خاطر ، جس کی آواز ہمسائے کے گھر سے آ رہی تھی بیت الخلاء میں دیر لگائی اور اپنی طرف سے یہ عذر پیش کیا کہ میں عمداً گانا سننے یہاں نہیں آیا آپ (ع) نے فرمایا:

''آپ تو نے خدا کا یہ فرمان نہیں سنا،،

( إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ) ۱۷:۳۶

''کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان سب کی (قیامت کے دن) یقیناً باز پرس ہونی ہے،،۔

۱۴۔ امام صادق (علیہ السلام) نے اپنے فرزند اسماعیل سے فرمایا:

جب مومنین کی ایک جماعت تیرے پاس آ کر گواہی دے تو اس کی تصدیق کر،،۔

پھر آپ (ع) نے بطور دلیل اس آیہ کریمہ کی تلاوت فرمائی:

( يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمومنينَ ) ۹:۶۱

''جب تک دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے،،

۳۳۳

۱۵۔ آپ (ع) نے فرمایا:

''تین مرتبہ طلاق شدہ عورت کے حلالہ کیلئے ایک غلام سے عقد کافی ہے ، کیونکہ اس پر بھی ''زوج،، صادق آتا ہے ارشاد خداوندی ہے:

( حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ) ۲:۲۳۰

''جب تک دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے،،

۱۶۔ آپ (ع) نے فرمایا۔

جب عورت کو تین طلاقیں دی گئی ہوں وہ عقد منقطع (متعہ) سے حلال نہیں ہو گی ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا ) ۲:۲۳۰

''ہاں اگر دوسراشوہر (نکاح کے بعد ) اس کو طلاق دے دے تب البتہ ان میاں بی بی پر باہم میل کر لینے میں کچھ گناہ نہیں ہے،،۔

اور متعہ میں طلاق نہیں ہوتی۔

۱۷۔ ایک شخص نے امام صادق (ع) کی خدمت میں آ کر عرض کی:

ٹھوکر لگنے سے میراناخن اتر گیا ہے جس پر پٹی باندھی ہوئی ہے مسح کیسے کروں؟ آپ (ع) نے فرمایا: اس مسئلے اور اس قسم کے دوسرے مسائل کا جواب قرآن سے تلاش کیا جا سکتا ہے ، خدا فرماتا ہے:

( وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ ) ۲۲:۷۸

''اور امور دین میں تم پر کسی طرح کی سختی نہیں کی،،

پھر آپ (ع) نے فرمایا : اس پٹی کے اوپر مسح کرو،،

۳۳۴

۱۸: امام صادق (ع) سے بعض عورتوں کے بارے میں سوال کیا گیا کہ حلال ہیں یا حرام ؟ آپ (ع) نے فرمایا:

''حلال ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ ) ۴:۲۴

''اور ان عورتوں کے سوا(اور عورتیں) تمہارے لئے جائز ہیں،،

۱۹۔ آپ (ع) نے فرمایا:

''مولا کی اجازت کے بغیر غلام نکاح نہیں کر سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

( عَبْدًا مَّمْلُوكًا لَّا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ ) ۱۶:۷۵

''ایک غلام ہے جو دوسرے کی ملک ہے (اور) کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا،،

۲۰۔ آپ (ع) نے بعض حیوانات کے حلال گوشت ہونے کی دلیل کے طور پر اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ ) ۶:۱۴۵

''(اے رسولؐ) تم کہو کہ میں تو جو (قرآن) میرے پاس وحی کے طور پر آیا ہے اس میں کوئی چیز کسی کھانے والے پر جو اس کو کھائے حرام نہیں پاتا،،

ان کے علاوہ بھی امام (ع) نے آیات قرآن سے استدلال فرمائے ہیں جو فقہ کے مختلف ابواب میں موجود ہیں۔

۳۳۵

ظواہر قرآن کے حجت نہ ہونے کے دلائل:

محدثین کی ایک جماعت ظواہر قرآن کی حجیت کی منکر ہے اور ان پر عمل کرنے سے منع کرتی ہے اور اپنے مدعا پر ذرج ذیل دلائل پیش کرتی ہے:

۱۔ قرآن فہمی کا مختص ہونا:

قرآن کو صرف وہی ہستیاں سمجھ سکتی ہیں جن سے قرآن مخاطب ہے ان علماء کرام نے اپنے اس دعویٰ کے اثبات میں چند روایات سے استدلال کیا ہے وہ روایات یہ ہیں:

i ۔ مرسلہ(۱) شعیب بن انس میں امام صادق (ع) نے حضرت ابو حنیفہ سے فرمایا:

''انت فقه اهل العراق ؟ قال : نعم قال ع : فبایی شیی تفتیهم ؟ قال : بکتاب الله و سنة نیسه قال ع یا ابا حنیفة تعرف کتاب الله حق معرفته ، و تعرف الناسخ من المنسوخ ؟ قال : نعم قال ع : یا ابا حنیفة لقد ادعیت علماً ویلک ماجعل الله ذلک الا عند اهل الکتاب الذین انزل علیهم ، وبلک ماهو الا عند الحاص من ذریة تبینا ص وما ورثک الله تعالیٰ من کتابه حرفاً ،،

''کیا تو اہل عراق کا فقیہ ہے ؟ حضرت ابو حنیفہ نے جواب دیا : جی ہاں ۔ آپ (ع) نےف رمایا : تو کس دلیل کی بنیادپر لوگوں میں فتویٰ دیتا ہے ؟ حضرت ابو حنیفہ نے کہا : کتاب خدااور سنت نبوی (ص) کی بنیاد پر فتویٰ دیتا ہوں ۔ آپ (ع) نے فرمایا : کیا تو کتاب خدا کو کماحقہ ، سمجھ سکتا ہے اورناسخ کو منسوح سے تمیز دے سکتا ہے ؟ حضرت ابو حنیفہ نے کہا : جی ہاں۔ آپ (ع) نے فرمایا : ابو حنیفہ : تو نے ایک بہت بڑے علم کا دعویٰ کیا ہے اتنا وسیع علم اللہ تعالیٰ نے صرف ان ہستیوں کو دیا ہے جن پر قرآن اتارا اور یہ علم صرف ہمارے نبی (ص) کی ذریت کے پاس ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے تجھے اپنی کتاب کے پاس حرف تک کا وارث نہیں بنایا،،

۳۳۶

ii ۔ زید شحام کی روایت میں ہے قتادہ امام باقر (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ (ع) نے فرمایا:

''دخل قتادة علی ابیی جعفر ع فقال له : انت فقیه اهل البصرة ؟ فقال : هکذا یزعمون فقال ع بلغیی انک تفسر القرآن قال : نعم الی ان قال یا قتادة ان کنت فد فسرت القرآن من تلقساء نفسک فقد هلکت وهلکت ، وان کنت قد فسرته من الرجال فقد هلکت و اهلکت ، یا قتادة ویحک انما یعرف القرآن من خوطب به ،،

''فرمایا: میں نے سنا ہے تو قرآن کی تفسیر بیان کرتا ہے قتادہ نے کہا : جی ہاں ۔ سوال جواب ہوتے رہے حتی ٰ کہ آپ (ع) نے فرمایا: اے قتادہ اگر تو اپنی طرف سے قرآن کی تفسیر کرے گا تو خود بھی ہلاک ہو گا اور دوسروں کی ہلاکت کاباعث بھی بنے گا اور اگر لوگوں سے سنی سنائی تفسیر بیان کرے گا پھر بھی خود کو اور دوسروں کو ہلاک کرے گا اے قتادہ قرآن کو وہی ہستیاں سمجھ سکتی ہیں جن سے قرآن کے ذریعے خطاب کیا گیا ہے،،۔

جواب:

اس قسم کی روایات کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو کماحقہ سمجھنا ، اس کے ظاہر و باطن کو درک کرنا اورناسخ و منسوخ کو تشخیص دینا ان ہستیوں سے مختص ہے جن سے قرآن کے ذریعے خطاب کیا گیا ہے چنانچہ پہلی روایات میں امام (ع) نے حضرت ابو حنیفہ سے کتاب خدا کی کماحقہ معرفت اور ناسخ کو منسوخ سے تمیز دینے کے بارے میں سوال کیا تھا اور آپ (ع) نے حضرت ابو حنیفہ کی سرزنش بھی اسی بات پر کی تھی کہ انہوں نے کتاب خدا کے کماحقہ ، علم کا دعویٰ کیا تھا۔

دوسری روایت بھی لفظ ''تفسیر،، پر مشتمل ہے جس کا معنیٰ کسی حقیقت پر سے پردہ اٹھاتا ہے بنا برایں یہ روایت ظواہر قرآن پر عمل کرنے کو شامل نہیں ہے۔ اس لئے کہ ظاہر پر تو کوئی پردہ نہیں ہوتا جسے اٹھانا پڑے اور تفسیر صادق آئے۔

۳۳۷

اس حقیقت پر وہ گزشتہ روایات بھی دلالت کرتی ہیں جن کے مطابق قرآن کا سمجھنا صرف معصومین (ع) سے مختص نہیں روایت مرسلہ کا جملہ''وما ورثک الله من کتابه حرفاً (یعنی) خدا نے تجھے اپنی کتاب کے ایک حرف تک کا وارث نہیں بنایا،، بھی اسی نکتے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (ص) کے جانشینوں کو کتاب کا وارث بنایا ہے اور انہیں اس کے ظاہر و باطن اور تاویل ، غرض پوری کتاب کا علم دیا ہے جو کسی اور کو نہیں ملا ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ ) ۳۵:۳۲

''پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے خاص ان کو قرآن کاوارث بنایا جنہیں (اہل سمجھ کر) منتخب کیا،،۔

معلوم ہوا قرآن کے حقائق اور واقعات کے صحیح عالم معصومین (ع) ہیں۔ روایت مرسلہ میں بھی حضرت ابو حنیفہ وغیرہ سےا یسے علم کی نفی کی گئی ہے ورنہ یہ بات نامعقول ہے کہ حضرت ابو حنیفہ کتاب خداسے کچھ بھی نہ جانتے ہوں۔ اس مضمون کی آیات اور روایات اور بھی ہیں جن میں کتاب خدا کے مکمل علم کو معصومین (ع) سے مختص کیا گیا ہے۔

۲۔ تفسیر بالرائے کی ممانعت

قرآنی الفاظ کے ظاہری معنی کو اپنانا اوراس پر عمل کرنا ایک قسم کی تفسیر بالرائے ہے جس کی فریقین کی متواتر روایات میں نہی کی گئی ہے۔

جواب:

اس سے قبل بیان ہو چکاہے کہ تفسیر کا معنی کسی پوشیدہ حقیقت سے پردہ اٹھانا ہے کسی قرآنی لفظ سے اس کے ظاہری معنی کو لے لینا تفسیر نہیں کہلائے گا کیونکہ یہ ظاہری معنی پوشیدہ اور مستور نہیں ہے کہ اس سے پردہ اٹھانا پڑے۔

۳۳۸

بفرض تسلیم اگر یہ تفسیر بھی کہلائے تو یہ تفسیر بالرائے نہیں ہو گی جس سے وہ روایات متواتر اس کو شامل ہو جائیں جن میں تفسیر بالرائے کی ممانعت کی گئی ہے ، بلکہ یہ تفسیر ایسی ہو گی جس کو عام لوگ کسی لفظ سے سمجھتے ہیں مثلاً اگر کوئی شخص عام فہم اور قرائن متصلہ و منفصلہ کے مطابق نہج البلاغۃ کے خطبات میں سے کسی خطبے کا ترجمہ کرے تو اس کوتفسیر بالرائے نہیں کہا جائے گا اس حقیقت کی طرف امام صادق (ع) نے بھی اشارہ فرمایا ہے۔

انما هلک الناس فیی المتشابه الانهم لم یقفوا علی معناه ، ولم یعرفوا حقیقته ، فوضعوا له تاویلا من عند انفسهم بآرائهم ، واستغنوا بذلک من مسالة الاوصیاء فیعرفونهم

''لوگ قرآن کی متشابہ آیات (جن کا معنی ظاہر نہ ہو) کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں کیونکہ وہ اس کے حقیقی معانی نہیں سمجھ سکتے اور اپنی رائے سے اس کی کوئی نہ کوئی تاویل و توجیہ کر لیتے ہیں جس کے بعد وہ اپنے کو اوصیاء سے بے نیاز سمجھتے ہیں اور متشابہ آیات کامطلب ان سے نہیں پوچھتے تاکہ وہ انہیں ان آیات کے صحیح معانی بتائیں،،

ممکن ہے ان روایات میں تفسیر بالرائے سے مراد یہ ہو کہ ائمہ (ع) کی طرف رجوع کئے بغیر ، جو قرآن کے ہم پلہ اور واجب الاطاعت ہیں ، مستقل طور پر اور اپنی رائے سے کوئی فتویٰ دیا جائے مثلاً اگر کوئی شخص قرآن میں موجود کسی عام یا مطلق پر فوراً عمل کرے اور روایات ائمہ سے مخصص اور مقید کو تلاش نہ کرے تو یہ تفسیر بالرائے ہو گی۔

خلاصہ کلام یہ کہ قرآن کے کسی لفظ کے قرائن متصلہ اور منفصلہ کو کتاب و سنت میں تلاش کرنے اور دلیل عقلی ڈھڈنڈے کے بعد اس کے ظاہری معنی کو لے لینا تفسیر بالرائے تو کجا تفسیر بھی نہیں ہے اس کے علاوہ جہاں بعض روایات میں تفسیر بالرائے سے نہی کی گئی ہے وہاں کچھ ایسی روایات بھی ہیں جن میں قرآن کی طرف رجوع کرنے اور اس کے ظاہری معنی پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان دونوں قسم کی روایات پر عمل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ تفسیر بالرائے سے مراد قرآن کے ظاہری معنی پر عمل نہ ہو بلکہ متشابہ اور غیر واضح آیات کی اپنی طرف سے تاویل کرنا مقصود ہو اس طرح دونوں قسم کی روایات پر عمل ہو جائے گا۔

۳۳۹

۳۔ معانی قرآن کی پیچیدگی

قرآن مجید انتہائی بلند معانی اور پیچیدہ مطالب پر مشتمل ہے جو انسان کی طاقت فہم سے بالاتر ہے اور قرآنی مقاصد کا احاطہ انسانی قدرت سے باہر ہے گزشتہ علمائے کرام کی کچھ کتابیں بھی ایسی ہیں جنہیں ہر خاص و عام نہیں سمجھ سکتا بلکہ صرف ارباب دانش اور نکتہ دان ہی سمجھ سکتے ہیں تو کتاب الٰہی کو ہر شخص کیسے سمجھ سکتا ہے (جس میں اولین و آخرین کے علوم جمع ہیں)۔

جواب

یہ مسلم ہے کہ قرآن میں ''مالکان،، اور ''مایکون،، کا علم موجود ہے اور اس وسیع علم کے مالک صرف اور صرف اہل بیت (علیہم السلام) ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ قرآن کے کچھ ظاہری معانی بھی ہیں جن کو لغت عرب اور اس کے اسلوب کا جاننے والا ہر شخص سمجھ سکتا ہے اور قرائن و مویدات کو تلاش کرنے کے بعد ان معانی پر عمل کر سکتا ہے۔

۴۔ خلاف ظاہر کا یقین

ہمیں اجمالاً علم ہے کہ بعض عمومات قرآن کی تخصیص اور مطلقات کی تقیید ہوئی ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ بعض ظواہر قرآن یقیناً مراد الٰہی نہیں ہیں اور یہ عمومات جن کی تخصیص ہوئی ہے وہ مطلقات جن کی تقیید ہوئی ہے اور ظواہر قرآن جو یقیناً مراد الٰہی نہیں ہیں ، مشخص و معین نہیں ہیں تاکہ صرف انہی عمومات اور مطلقات میں ظاہر پر عمل کرنے سے احتراز کیا جائے نتیجہ یہ نکلا کہ تمام عمومات ، مطلقات اور ظواہر قرآن اگرچہ بذات خود مجمل نہیں لیکن بعض عمومات کی تخصیص اور بعض مطلقات کی تقیید کی وجہ سے باقی عمومات ، مطلقات اور ظواہر قرآن بھی مجمل ہو جائیں گے اس لئے ان عمومات ، مطلقات اور ظواہر قرآن پر عمل کرنا جائز نہیں مبادا خلاف واقع معنی کاارادہ ہو جائے۔

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ تینوں آیتیں نسخ نہیں ہوئیں کیونکہ ان آیات کی تصریح کے مطابق رسول اللہ (ص) کو اس صورت میں اجازت دینے سے روکا جا رہا ہے اور سرزنش کی جا رہی ہے جب سچے اور جھوٹے میں تمیز نہ کی جا سکے اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہ فرما دیا ہے کہ جو لوگ قرآن نہیں لائے ، وہ جنگ سے فرار ہونے کے بہانے تلاش کرتے ہیں اور آپ (ص) سے جنگ میں نہ جانے کی اجازت مانگتے ہیں نیز رسول اللہ (ص) کو حکم دیا ہے کہ اس وقت تک نہ جانے کی اجازت نہ دیں جب تک ان کی صحیح صورتحال معلوم نہ ہو جائے لیکناگر مسلمانوں کی صحیح صورتحال معلوم ہو جائے تو خدا نے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کیلئے رسول اللہ (ص) سے اجازت لیں اور رسول اللہ (ص) کو بھی انہیں رخصت دینے کا مجاز قرار دیا ہے۔

معلوم ہوا ان دونوں آیتوں میں کسی قسم کی منافات نہیں پائی جاتی تاکہ ایک دوسری کیلئے ناسخ بن سکے۔

۲۶۔( مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّـهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ ) ۹:۱۲۰

''مدینہ کے رہنے والوں اور ان کے گردونواح کے دیہاتیوں کو یہ جائز نہ تھا کہ رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا کا ساتھ چھوڑ دیں اور نہ یہ جائز تھا کہ رسول کی جان سے بے پرواہ ہو کر اپنی جانوں کے بچانے کی فکر کریں،،۔

ابن زید سے منقول ہے کہ یہ آیت اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱)

( وَمَا كَانَ الْمومنونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ ) ۹:۱۲۲

''اور یہ (بھی) مناسب نہیں کہ مومنین کل کے کل (اپنے گھروں سے) نکل کھڑے ہوں،،۔

لیکن حق یہی ہے کہ یہ آیت نسخ نہیں ہوئی کیونکہ دوسری آیت تک ایک قرینہ ہے جو آیہ اول سے متصل ہے اور یہ آیہ اول کا مطلب بیان کر رہی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۸۷ قرطبی نے اس قول کی نسبت مجاہد کی طرف بھی دی ہے ، ج ۸ ، ص ۳۹۲

۴۶۱

دونوں آیات کا مفہوم یہ ہے کہ بطور واجب کفائی صرف بعض مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ جنگ میں جائیں اس طرح دوسری آیت ، پہلی آیت کیلئے ناسخ نہیں بنے گی۔

ہاں ! اگر کسی خاص موقع پر کسی ضرورت کا یہ تقاضا ہو کہ تمام مسلمان جہاد کیلئے روانہ ہوں یا حاکم شرع سب کو جہاد پر جانے کا حکم دے یا کسی او وجہ سے سب کا جہاد پر جانا ضروری ہو جائے تو اس ضرورت کو پورا کریں یہ عمومی جہاد ، وہ جہاد نہیں جو اسلام میں بطور واجب کفائی مسلمانوں پر واجب ہے بلکہ یہ ایک جداگانہ حکم ہے جوب عض مخصوص حالات میں ثابت ہے یہ دونوں حکم اپنے طور پر مستقل ثابت ہیں اور ایک دوسرے کا ناسخ نہیں ہے:

۲۷۔( وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّـهُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ ) ۱۰۔۱۰۹

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تمہارے پاس جو وحی بھیجی جاتی ہے تم بس اسی کی پیروی کرو اور صبر کرو یہاں تک کہ خدا (تمہارے اور کافروں کے درمیان) فیصلہ فرمائے اور وہ تمام فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے،،۔

ابن زید کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ جہاد (جس میں کفار پر سختی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ) کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱) گزشتہ آیات کے بارے میں ہمارے بیان سے اس آیت کے نسخ کا دعویٰ بھی باطل ثابت ہو جاتا ہے ان بیانات کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آیت میں صبر سے مراد کفار کے مقابلے میں صبر ہو (یعنی ان سے جنگ نہ کی جائے) البتہ اس آیت میں مطلق صبر کا حکم دیا جا رہا ہے جو کفار کے مقابلے میں صبر کو بھی شامل ہے ۔

بنا برایں زیر بحث آیہ شریفہ میں نسخ کے دعویٰ کی کوئی وجہ نہیں۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۱۷۸

۴۶۲

۲۸۔( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ) ۱۵:۹۴

''اور قیامت یقیناً ضرور آنے والی ہے تو تم (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) ان کافروں سے شائستہ عنوان کے ساتھ درگزر کرو،،۔

ابن عباس ، سعید اور قتادہ کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے۔

لیکن یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ ''صفح،، (چشم پوشی) سے مراد یہ ہے کہ آپ (ص) ان اذیتوں اور تکلیفوں سے درگزر کریں جو تبلیغ شریعت کی راہ میں مشرکین کی طرف سے دی جاتی تھیں اس آیت کا راہ خدا میں قتال وجہاد سے کوئی ربط و تعلق نہیں اس امر کی تائید بعد والی آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( فاصدع بما تومر و اعرض عن المشرکین) ۱۵:۹۴

پس جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسے واضح کر کے سنا دو اور مشرکین کی طر ف سے منہ پھیر لو،،۔

( إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ) : ۹۵

''جو لوگ تمہاری ہنسی اڑاتے ہیں ہم تمہاری طرف سے ان کیلئے کافی ہیں،،۔

آیہ کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں رسول اللہ (ص) کو اوامرالٰہی کی تبلیغ اور اسلام کے نشرو اشاعت کی تشویق و ترغیب دلائی ہے اور آپ (ص) کو تسلی دی ہے کہ اس سلسلے میں آپ (ص) مشرکین کی اذیت اور ان کے تمسخر کی پروا تک نہ کریں۔

یہ ایک جداگانہ حکم ہے اور اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ جب اسلام کی حجت مکمل ہو اور مسلمانوں کی کثرت سے تقویت حاصل ہو تو کفارسے جہاد کریں۔

۴۶۳

ہاں ! یہ بات مسلم ہے کہ رسول اللہ (ص) کو اسلام کے آغاز ہی میں قتال و جہاد کا حکم نہیں دیا گیا کیونکہ اس وقت معجزہ اور دوسرے غیر معمولی اقدامات کے علاوہ عام مادی وسائل و اسباب کے بل پر کفار سے جنگ کرنے کی قدرت حاصل نہ تھی لیکن جب قدرت حاصل ہوئی اور مسلمانوں میں اتنی طاقت اور کثرت آ گئی جس سے کفار کا مقابلہ کیا جا سکے تو آپ (ص) کو جہاد کا حکم دیا گیا۔ اس سے قبل بھی یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ احکام اسلام تدریجاً نافذ کئے گئے ہ یں جو نسخ نہیں کہلاتا۔

۲۹۔( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ ) ۱۶:۶۷

''اور اسی خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو ) شراب بنا لیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ)

قتادہ ، سعید بن جبیر ، شعبی ، مجاہد ، ابراہیم اور ابورزین کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت ، اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس میں شراب نوشی کو حرام قرار دیا گیا ہے(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ باقی آیات کی طرح یہ آیت بھی محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا دو چیزوں پر موقوف ہے:

( i ) ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہو لیکن نسخ کے قائلین یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ آیت میں ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہے کیونکہ ''سکر،، کے معانی میں سے ایک معنی ''سرکہ،، بھی ہے چنانچہ مشہور مفسر علی بن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں ''سکر،، کے اسی معنی (سرکہ) کا ذکر کیا ہے(۲) بنا برایں ''رزق حسن،، سے مراد سرکہ اور اس قسم کے دیگر لذیذ کھانے ہوں گے نشہ آور شراب نہیں تاکہ آیہ تحریم خمر کے ذریعے یہ آیت نسخ ہو جائے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۱۸۱

(۲) تفسیر برہان، ج ۱، ص ۵۷۷

۴۶۴

( ii ) آیہ کریمہ مسکر (نشہ آور چیز) کے مباح ہونے پر دلالت کرے تاکہ دوسری آیت ''مسکر،، کو حرام قرار دے اور پہلی آیت کیلئے ناسخ قرار پائے۔

لیکن نسخ کا قائل اس مطلب کو بھی ثابت نہیں کر سکتا کیونکہ اس آیہ کریمہ میں ایسے کام اور واقعہ کی خبر دی جارہی ہے جسکو عام لوگ انجام دیتے تھے۔ اس آیت سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس کام کی اجامت بھی دی ہو۔

یہ آیت، اس آیت کے بعد نازل ہوئی ہے جس میں کائنات کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی نشانیوں کے ذریعے خدائے واجب الوجود کو ثابت کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَاللَّـهُ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ ) ۱۶:۶۵

''اور خد ہی نے آسمان سے پانی برسایا تو اس کے ذریعہ سے زمین کو مردہ (پڑتی) ہونے کے بعد زندہ (شاداب) کیا کچھ شک نہیں کہ اس میں جو لوگ بستے، ان کے واسطے (قدرت خدا) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

( وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِينَ ) : ۶۶

اور اس میں شک نہیں کہ چوپایوں میں بھی تمہارے لیے عبرت (کی بات) ہے کہ ان کے پیٹ میں (خاک ملا)گوبر اور خون (جو کچھ بھرا ہوا ہے) ا س میں سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔،،

( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ) :۶۷

''اور اسی طرح خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو) شراب بنالیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ) اس میں شک نہیں کہ اس میں بھی سمجھ دار لوگوں کے لیے (قدرت خدا کی) بڑی نشانی ہے۔،،

۴۶۵

( وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ) :۶۸

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو اونچی اونچی ٹیٹاں (اور مکانات پاٹ کر) بناتے ہیں ان میں چھتّے بنا۔،،

( ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ) : ۶۹

''پھر ہر طرح کے پھلوں (کے بورے سے) ان کا چوس پھر اپنے پروردگار کی راہوں میں تابعداری کے ساتھ چلی جا مکھیوں کے پیٹ سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد) جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اس میں لوگوں (کی بیماریوں) کی شفا (بھی) ہے اس میں شک نہیں کہ اس میں غور و فکر کرنے والوں کے واسطے (قدرت خدا کی) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

اس آیت میں منجملہ آثار قدثرت میں سے ایک یہ ہے کہ خدا نے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کردیا۔ اس کے بعد حیوانات کی خلقت میں تدبیر خداوندی کا بیان ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ پیدا کرتا ہے۔ پھر یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھجور اور انگور میں وہ صلاحیت پیدا کی جس کے ذریعے لذیذ چیزوں سے نشہ آور اشیاء بنائی جاسکتی ہےں اور باقی پھلوں میں یہ امتیاز صرف کھجور اور انگور کو حاصل ہے۔

اس کے بعد شہد کی مکھی کے ان حیرت انگیز کارناموں کا ذکر فرمایاجنہیں سن اور دیکھ کر وہ صاحبان عقل دنگ رہ جاتے ہیں جو شہد بنانے کے طریقوں اور اس کی خصوصیات سے آگاہ ہوتے ہیں اور یہ کہ شہد کی مکھی یہ سب کچھ خدا کی وحی اور الہام کے ذریعے انجام دیتی ہے۔

۴۶۶

پس معلوم ہوا ہے کہ اس آیت میں مسکر کو مباح و حلال قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں۔ اس کے علاوہ اسی آیت میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ (بفرض تسلیم سکر سے مراد نشہ آور چیز بھی ہو تو) نشہ آور چیز کو پینا جائز نہیں اس لیے کہ نشہ آور چیز کو رزق حسن کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات ہوتا ہے کہ نشہ آور چیز کا شمار رزق حسن میں نہیں ہوتا اس لیے یہ مباح بھی نہیں ہوگا۔

اہل بیت اطہار (ع) کی روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں کہ شراب نوشی کسی وقت اور زمانے میں حلال نہیں تھی۔ چنانچہ شیخ صدوق اپنی سند کے ذریعے محمد بن مسلم سے روایت کرتے ہیں:

''قال: سئل ابو عبد الله علیه السلام عن الخمر فقال: قال رسول الله ان اول ما نهانی عنه ربی عزوجل عبادة الاوثان و شرب الخمرٍ،،

''حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے شراب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا: رسول اللہ نے فرمایا: پہلی چیز جس سے اللہ نے مجِھے منع فرمایا وہ بت پرستی اور شراب نوشی ہے۔۔۔،،

نیز ریان، امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ(ع) نے فرمایا:

قال : ما بعث الله نبیّا الا بتحریم الخمر،، (۱)

''اللہ تعالٰ نے جس نبی کو بھی بھیجا اسے حرمت شراب کا حکم دے کر بھیجا۔،،

____________________

(۱)البحار، ج ۱۶، ص ۱۸۔۲۰، باب حرمۃ شرب الخمر۔ وافی، ج ۱۱، ص ۷۹ میں اس کے لیے ایک مستقل باب مخصوص کیا گیا ہے۔

۴۶۷

اعجاز کی بحث میں بھی گزر چکا ہے کہ شراب کو تورات میں بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔(۱) لیکن ایک حقیقت، جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، یہ ہے کہ اسلام نے ایک عرصہ تک حرمت شراب کا اعلان نہیں کیا اور یہ بات صرف شراب سے مختص نہیں ہے، تمام احکامات پر اسی طریقے سے عمل کیا گیا ہے، ظاہر ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ شراب پہلے حلال تھی اور بعد میں حرام قرار دی گئی۔

( الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمومنينَ ) ۲۴:۳

''زنا کرنے والا مرد تو زنا کرنے والی ہی عورت یا مشرکہ سے نکایح کرے گا اور زنیا کرنے والی عورت بھی بس زنیا کرنے والے ہی مرد یا مشرک سے نکاح کرے گی اور سچے ایمانداروں پر تو اس قسم کے تعلقات حرام ہیں۔،،

سعید بن مسیّب اور بہت سے دیگر علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ ) ۲۴:۳۲

''اوراپنی (قوم کی) بے شوہر عورتوں اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کردیا کرو۔،،

آیہ اوّل کے مطابق زانی عورت سے وہی نکاح کرسکتا ہے جو خود زانی یا مشرک ہو۔ جب کہ دوسری آیت کیمطابق مطلق بے ہمسر مسلمان سے نکاح جائز ہے چاہے وہ زانی ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ ''ایامیٰ،، (بے ہمسر) دونوں کو شامل ہے۔ اس طرح دوسری آیت پہلی آیت کے لیے ناسخ قرار پائے گی۔

لیکن حق یہی ہے کہ گذشتہ آیات کی طرح یہ آیت بھی نسخ نہیں ہوئی۔ کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو، اور کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں کہ اس آیت میں نکاح سے مراد شادی یا ازدواج ہے۔

____________________

) ۱) اسی کتاب کے صفحہ ۵۶ کی طرف رجوع فرمائیں۔

۴۶۸

اس کے علاوہ اگر اس آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ زانی مسلمان کے لیے مشرک عورت سےشادی کرنا جائز ہے۔ اسی طرح یہ بھی لازم آتا ہے کہ مسلمان زانی عورت کے لیے مشرک مرد سے شادی کرنا جائز ہے اور یہ بات ظاہر کتابِ الہی اور سیرتِ مسلمین کے خلاف ہے

بنابرایں آیت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح سے مراد مطلق ہمبستری ہے۔ چاہے جائز طریقے سے ہو یا زنا ہو۔ اس آیت میں جواز یا عدم جواز کا حکم بیان نہیں کیا جارہا بلکہ یہ ایک جملہ خبر یہ ہے۔ اس کے ذریعے حرمتِ زنا کی شدّت بیان کی جارہی ہے اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زانی مرد صرف زانی عورت یا اس سے بھی پست، مشرک عورت سے زنا کرتاہے اسی طرح زانی عورت بھی صرف کسی زانی مرد یا اس سے بھی پست مشرک مرد سے زنا کرتی ہے۔ مومن انسان کبھی بھی اس قسم کے گناہوں کا مرتکب نہیں ہوتا کیونکہ زنا ایک حرام فعل ہے اور وہ حرام فعل انجام نہیں دیتا۔

( قُل لِّلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللَّـهِ ) ۴۵:۱۴

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) مومنوں سے کہدو کہ جو لوگ خدا کے دنوں کی (جو جزا کے لیے مقرر ہیں) توقع نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں۔،،

بعض مفسرین کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اس آیت کا شان نزول یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت مکی ہے اور یہ اس وقت نازل ہوئی جب ہجرت سے قبل مکّہ میں حضرت عمر بن خطاب کو کسی مشرک نے گالی دی اور اور ان کی توہین کی اور حضرت عمر اسے سزا دینا چاہتے تھے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ ایت نازل فرمائی۔ لیکن بعد میں آیت، اس آیہ سیف کے ذریعے منسوخ ہوگئی:

( فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامّل) قتل کردو۔،،

۴۶۹

یہ حضرات اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پر اس روایت کو پیش کرتے ہیں جس کی روایت علیل بن احمد نے محمد بن ہاشم سے، اس نے عاصم بن سلیمان سے، اس نے جویبر سے اس نے ضحاک سے او ضحاک نے ابن عباس سے کی ہے۔(۱)

لیکن یہ روایت ہے بہت ضعیف ہے، اس کا سب سے معمولی اور کمزور پہلو یہ ہے کہ اس کے سلسلہئ سند میں عاصم بن سلیمان شامل ہے جو بہت بڑا جھوٹا اور جعل ساز راوی ہے۔(۲) اس کے علاوہ یہ روایت متن کے اعتبار سے

بھی کمزور اور ناقابل عمل ہے۔ کیونکہ ہجرت سے پہلے مسلمان کمزور تھے اورایسے حالات میں حضرت عمر کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس مشرک سے انتقال لیتے۔ نیز اس روایت میں لفظ ''غفران،، استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ ایسے مقام ہر استعمال کیاجاتا ہے جہاں کوئی انتقال لینے پر قادر ہو لیکن چشم پوشی اور درگزر کرے اور یہ مسلّم ہے کہ ہجرت سے قبل حضرت عمر کے لیے یہ ممکن نہ تھا۔ اس لیے کہ اگر حضرت عمر انتقام لیتے تو مشرک بھی جوابی کارروائی کرتا۔

پس حق یہی ہے کہ یہ آیت محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) آیہ شریفہ کے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کی امید نہیں رکھتے ان کی طرف سے اگر تمہیں ذاتی طور پر کوئی اذیت پہنچے اور تمہاری توہین کی جائے تو تمہیں اسے درگزرکردینا چاہیے، اس حقیقت پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے:

( لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ) ۴۵:۱۴

''تاکہ وہ لوگوں کے اعمال کا بدلہ دے۔،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۱۸

(۲) اس کے بارے میں ابن عدی کا کہنا ہے کہ یہ شخص من گھڑت احادیث وضع کرنے والوں میں سے ایک ہے، اور یہ کہ اس کی اکثر احادیث متن اور سند کے اعتبار سے متزلزل ہیں۔

۴۷۰

( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۖ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ) : ۱۵

''جو شخص نیک کام کرتا ہے تو خاص اپنے لیے اور برا کام کرے گا تو اس کا وبال اسی پر ہوگا پھر (آخر) تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹا ئے جاؤگے۔،،

پس اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو آدمی روز آخرت کا امیدوار نہیں، چاہے وہ مشرک، اہل کتاب یا مسلمان ہو، جو اپنے دین کا صحیح پابند نہی، اس کے بُرے اعمال اور زیادتیوں کی سزا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی ظالم، ظلم کرکے خدا سے بچ نہیں سکتا لہذا مسلمان اور مومن کو چاہےے کہ وہ ظالموں سے انتقام لینے میں جلد بازی نہ کرے، اس لیے کہ خدا کا انتقام، مظلوم کے انتقام سے زیادہ سخت ہے، یہ ایک اخلاقی اور تادیبی حکم ہے اور یہ دعوتِ اسلام یا کسی اور ضرورت کی خاطر کفار سے قتال و جہاد کے منافی نہیں ہے۔ اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا اس کے بعد نازل ہوئی ہو۔

( فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً ) ۴۷:۴

'' تو جب تم کافروں سے بھڑو تو (ان کی) گردنیں مارو یہاں تک کہ جب انہیں زحموں سے چور کر ڈالو تو ان کی مشکیں کس لو پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا یا معاوضہ لے کر رہا کرنا۔

علماء کی ایک جماعت کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اور بعض کا خیال ہے کہ آیہ سیف، اس آیت کے ذریعے نسخ ہوئی ہے۔(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ آیت ناسخ ہے اور نہ منسوخ۔ البتہ اس مسئلے کی تحقیق مزید تفیصل کی متقاضی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۲۰۔

۴۷۱

مسلمانوں سے برسر پیکار کفار کے احکام

شیعہ امامیہ میں یہ حکم مشہور ہے کہ مسلمانوں سے برسرپیکار کفار جب تک اسلام نہ لے آئیں، مکمل شکست سے دوچار نہ ہوجائیں اور زیادہ تعداد میں مارے جانے کی وجہ سے عاجز نہ آجائیں، وہ واجب القتل ہیں۔ صرف اسیری کی وجہ سے کافر کا قتل ساقط نہیں ہوتا۔ اگر کافر مسلمان ہوجائے تو قتل کا موضوع ہی برطرف ہوجاتا ہے کیونکہ موضوع قتل، کفر ہے۔

اسی طرح کفار کی مکمل شکست کے بعد ان کا قتل ساقط ہوجاتا ہے۔ کیونکہ آیت میں اس موقت تک کفار کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک انہیں شکست نہ ہوجائے البتہ قتل کے ساقط ہو نے کے بعد حاکم شرع کو اختیار ہے کہ چاہے تو پکڑے جانے والے کافروں کو اسیر بنائے یا ان سے فدیہ و تاوان وصول کرے یا ان پر احسان کرتے ہوئے انہیں بلاعوض آزاد کردے اس حکم میں بت پرست ،مشرک اور اہل کتاب شریک ہیں۔

ان احکام پر علماء کے اجماع و اتفاق کا دعویٰ کیا گیا ہے اور بہت شاذ و نادر افراد نے ان احکام کی مخالفت کی ہے ار ان کی رائے بھی قابل توجہ نہیں۔ چناچنہ آئندہ بحثوں میں اس کی مزید وضاحت آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

اگر ''شد الوثاق،، سے مراد غلام بنانا ہو تو آیہ کریمہ کے ظہور سے بھی یہی احکام سمجھے جاتے ہیں، جن کا ذکر کیا گیا ہے '' شد الوثاق،، سے غلام بنانے کا معنی اس لیے سمجھا گیا ہے کہ ''شدّ الوثاق،، کا معنی ہے: کسی کی آزادی کا سلب کرنا، جب تک اسے بلاعوض یا عوض لے کر آزاد نہ کیا جائے اور یہ معنی غلام بنانے سے زیادہ سازگار ہے۔

اگر ''شدّ الوثاق،، کا معنی غلام بنانا نہ ہو پھر بھی کافر سے فدیہ لینے اور اس پر احسان کرتے ہوئے اسے ازاد کرنے کے ساتھ، اسے غلام بنانے کا بھی حکم موجود ہے، کیونکہ دلیل سے ثابت ہے کہ کافر کو غلام بناناجائز ہے۔ اس دلیل کے ذریعے آیت کے اطلاق کی تقیید ہوگی۔

۴۷۲

مذکورہ احکام اس روایت میں موجود ہیں جسے کلینی اور شیخ طوسی نے طلحہ بن زید سے اور اس نے حضرت ابو عبد اللہ الصادق (علیہ السلام) سے روایت کی ہے: امام (ع) فرماتے ہیں:

''میرے والد گرامی فرماتے تھے: جنگ کے دو حکم ہیں: ایک یہ کہ اگر کفار کے ساتھ جنگ جاری ہو اور ابھی کفار کو شکست نہ ہوئی تو کافر قیدیوں کے بارے میں امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو انہیں قتل کردے اور چاہے تو ان کا بایاں پاؤں کاٹے اور اسے بدن سے جدا نہ کرے تاکہ ان کا خون نکلتا رہے اور اس طرح وہ مرجائیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۵:۳۳

'' جو لوگ خدا اور اس کے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے لڑتے بھڑتے اور (احکام کو نہیں مانتے) اور فساد پھیلانے کی غرض سے ملکوں (ملکوں) دوڑتے پھرتے ہیں ان کی سزا بس یہی ہے کہ (چن چن کر) یا تو مار ڈالے جائیں یا انہیں سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں ہیر پھیر کے (ایک طرف کا ہاتھ، دوسری طرف کا پاؤں) کاٹ ڈالے جائیں، یا انہیں اپنے وطن کی سرزمین سے شہر بدر کردیا جائے، یہ رسوائی تو ان کی دنیا میں ہوئی اور پر آخرت میں تو ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہی ہے۔،،

اس کے بعد امام (ع) نے فرمایا:

''کیا تم دیکھتے نہیں اللہ تعالیٰ نے صرف کفر کی صورت میں امام (ع) کو یہ اختیار دیا ہے، ہر مقام پر نہیں طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے امام (ع) سے عرض کیا: آیہ کریمہ :''او ینفوا من الارض،، کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کفار کو منتشر کردیں اور انہیں بھگا دیں اور اگر مسلمان کفار کا تعاقب کریں اور انہیں گرفتار کرلیں تو ان پر وہ احکام لاگو ہوں گے۔

۴۷۳

دوسرا یہ کہ جب کفار سے جنگ بند ہوجائے اور انہیں شکست دے دی جائے، اس وقت جو بھی قیدی بنایا جائے اور وہ مسلمانوں کے قبضے میں ہو، اس کے لیے امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو اس پر احسان کرے اور اسے آزاد کر دے، چاہے تو اس سے فدیہ و تاوان وصول کرے اور اگر چاہے تو اسے غلام بنالے۔،،(۱)

کفار کی شکست کے بعد ان سے قتل کے ساقط ہونے پر ضحاک اور عطاء بھی ہم سے متفق ہےں اور حسن نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے کہ اس صورت میں امام (ع) کو آزاد کرنے، فدیہ لینے اور غلام بنانے میں اختیارحاصل ہے۔(۲)

گذشتہ بیانات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ زیر بحث آیہ کریمہ نسخ نہیں ہوئی یہ اور بات ہے کہ بعض مقامات سے قتل مختص ہے اور بعض مقامات پر عدم قتل۔ اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیہ سیف زیر بحث آیت سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔

مقام تعجب ہے کہ شیخ طوسی نے اس مسئلے میں علمائے امامیہ کی طرف اس قول کی نسبت دی ہے کہ جنگ بندی کے بعد اسیر کے بارے میں امام کو اسیر کے قتل، آزاد کرنے، اس سے تاوان وصول کرنے اور اسے غلام بنانے میں اختیار حاصل ہے۔ چنانچ شیخ طوسی فرماتے ہیں:

''ہمارے اصحاب نے یہ روایت کی ہے کہ اگر جنگ بندی سے پہلے کسی قیدی کو گرفتار کیا جائے تو امام کو اختیار ہے کہ چاہے اس قتل کردے، چاہے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے اور اس طرح چھوڑ دے کہ وہ مرجائے۔ وہ اسے بلاعوض آزاد نہیں کرسکتا اور نہ اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرسکتا ہے اور اگر جنگ بندی کے بعد کسی کافر کو قیدی بنایا جائے تو امام کو اسے بلاعوض آزاد کرنے، تاوان مالی یا جانی لے کر آزاد کرنے، غلام بنانے اور قت کرنے میں اختیار ہے۔،،

____________________

(۱) الوافی، ج ۹، ص۲۳

(۲) قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷، الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱۔

۴۷۴

طبرسی نے اپنی تفسیر میں بھی شیخ طوسی کی متابعت کی ہے۔(۱) جبکہ اس مضمون کی کوئی روایت وارد نہیں ہوئی، بلکہ خود شیخ طوسی اپنی کتاب ''مبسوط،،(۲) میں اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ جو قیدی جنگ بندی کے بعد گرفتار کیا جائے اس کے بارے میں امام کو اختیار ہے کہ اس پر احسان کرکے اسے بلا عوض آزاد کردے یا اسے غلام بنائے اور یا اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرے۔ اسے قتل نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ ہمارے علماء کی روایات بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہیں۔

بلکہ چیخ طوسی نے اپنی کتاب ''خلاف،، کے باب ''فئی، اور ''غنائم،، میں اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے جن حضرات نے اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے ان میں علاّمہ مرحوم بھی ہیں انہوں نے اپنی دونوں کتابوں ''المنتہیٰ،، اور ''التذکرہ،، کے باب جہاد میں، اسیروں کے احکام میں اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

میرے خیال میں شیخ طوسی کی کتاب ''التبیان،، میں لفظ ''ضرب الرقاب،، (اسیروں کو قتل کرنا) لغزشِ قلم کا نتیجہ ہوگا اور مرحوم طبرسی نے بغیر کسی تحقیق کے اس بات کو لے لیا ہے۔

یہاں تک اس مسئلے میں علمائے شیعہ امامیہ، ضحاک، عطاء اورحسن کے نظریات بیان کیے گئے۔

آیت کے بارے میں بعض دیگر عقائد

اس مسئلے میں باقی علمائے اہل سنت کے مختلف اقوال نظر آتے ہیں:

۱۔ یہ آیت مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ پھر یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی۔ یہ قول قتادہ، ضحاک، سدی، ابن جریح، ابن عباس اور بہت سے کوفی علماء کی طرف منسوب ہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ مشرک قیدی کو قتل کرنا واجب ہے اسے بلا عوض یا تاوان وصول کرکے آزاد کرنا جائز نہیں۔(۳)

____________________

(۱) التبیان، ج ۹، ص ۲۹۱، طبع نجف۔

(۲) المبسوط، کتاب الجہاد، فصل فی اضاف الکفار و کیفیۃ قتالہم۔

(۳) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۵

جواب: اس قول کے رو سے آیت کے نسخ کی کو ئی وجہ او جواز نہیں بنتا۔ کیونکہ یہ آیت مقید ہے اور آیہ سیف مطلق ہے، چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔ اس سے پہلے ہم اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ عامِ مؤخر خاصِ مقدم کا ناسخ نہیں بن سکتا تو مطلق متاخر مقید مقدم کے لیے بطریقِ اولیٰ ناسخ نہیں بن سکتا۔(۱)

۲۔ یہ عام کفار کے بارے میں نازل ہوئی لیکن صرف مشرکین کے سلسلے میں نسخ ہوگئی ہے۔ یہ قول قتادہ، مجاہد اور حکم کی طرف منسوبگ ہے۔ مذہب ابو حنیفہ میں بھی قول مشہور ہے۔(۲)

جواب: پہلے کی طرح یہ قول بھی باطل ہے۔ کیونکہ یہ قول اس صورت میں صحیح ہوسکتا ہے جب آیہ سیف، زیرِ بحث آیت کے بعد نازل ہوئی ہو اور نسخ کے قائل حضرات یہ بات ثابت نہیں کرسکتے یہ حضرات اپنے مدعیٰ کے اثبات کے لیے صرف خبر واحد سے تمسک کرسکتے ہیں او علماء کا اجماع ہے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوسکتا۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت ہو جاتا ہے پھر بھی آیہ سیف کے ناسخ ہونے کی دلیل نہیں بنتی تاکہ یہ قول ثابت ہو۔ بلکہ ثابت یہ ہوگا کہ زیر بحث آیت، آیہ سیف کے لیے مقید ہو۔ اس لیے کہ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت مشرکین کو بھی شامل ہے یا اس سے صرف مشرکین ہی مراد ہیں۔ بنابرایں یہ آیت، آیہ سیف کے لیے ایک قرینہ ہوگی کیونکہ مطلق مقید کے لیے ناسخ نہیں بن سکتا۔

اگر ان تمام باتوں سے چشم پوشی بھی کی جائے تو یہ مسلّم ہے کہ زیربحث آیت اور آیہ سیف میں عموم اور حصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے۔ یعنی کہیں تو مشرک ہے لیکن جنگ بندی کے بعد قیدی نہیں۔ یہاں مشرک کے لیے حکم قتل ہی ثابت ہوگا اور کہیں جنگ بندی کے بعد قیدی ہوگا مشرک نہیں۔ یہاں اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔

____________________

(۱) ہم نے اپنی کتاب ''اجود التقریرات،، کی عموم و خصوص کی بحث میں اس مسئلے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۶

ایک مقام وہ ہوسکتا ہے جہاں کافر، مشرک ہو اور جنگ بندی کے بعد اسے اسیر بنالیا جائے۔ یہاں دو مختلف احکام میں ٹکراؤ ہوگا۔ ظاہرہے اس صورت میں دونوں آیتیں ایک دوسرے کے لیے ناسخ نہیں ہونگی بلکہ اس آیت کے مضمون پر عمل ہوگا جس کی تائید کوئی دوسری دلیل کرے۔

۳۔ زیر بحث آیت، آیہ سیف کی ناسخ ہے یہ قول ضحاک وغیرہ کی طرف منسوب ہے۔(۱)

جواب: یہ قول اس صورت میں صحیح ہوگا جب اس آیت کا آیہ سیف کے بعد نازل ہونا ثابت ہو۔ اس کو ضحاک وغیرہ ثابت نہیں کرسکتے۔اس کے علاوہ اس سے قبل اس امر کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے مقدم ہو یا مؤخر، اس کے نسخ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

۴۔ ہر حالت میں قتل کرنے، غلام بنانے، فدیہ لے کر آزاد کرنے اور بلا عوض آزاد کرنے کا اختیار امام کو حاصل ہے۔ اس قول کو ابو طلحہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے جسے بہت سے علمائے کرام نے اپنایا ہے۔ ان میں ابن عمر، حسن اور عطاء شامل ہیں۔ مالک، شافعی، ثوری، اوزاعی اور ابی عبید وغیرہ کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ اس قول کے مطابق آیہ کریمہ میں کسی قسم کا نسخ نہیں ہوا۔(۲) نحاس اس قول کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:

''یہ قول اس بنیاد پر قائم ہے کہ دونوں آیتیں، آیہ سیف اور آیہ عفو، محکم ہیں (نسخ نہیں ہوئیں) اور دونوں کے ظاہر پر عمل کیا گیا ہے۔ یہ قول بالکل صحیح ہے کیونکہ نسخ کے لیے کسی قطعی اور مسلّم دلیل کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں پر دونوں آیتوں پر عمل کرنا ممکن ہے وہاں نسخ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ قول اہل مدینہ، شافعی اور ابو عبید سے منقول ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۸

(۳) الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱

۴۷۷

جواب: اگرچہ اس قول سے آیہ شریفہ کا نسخ ہونا لاز م نہیں آتا لیکن پھر بھی یہ باطل ہے کیونکہ آیت میں اس امر کی تصریح ہے کہ کفار کی شکست اور جنگ بندی کے بعد ہی ان قیدیوں کو بلا عوض یا عوض لیکر آزاد کیا جاسکتا ہے۔ بنابریں کفار کی شکست سے پہلے بلاعوض یا عوض لے کر اسیروں کی آزادی کا قائل ہونا سراسر قرآن کی خلاف ورزی ہے۔

اسی طرح آیہ کی رو سے قتل کی اس وقت تک اجازت ہے جب تک کفار کو شکست نہیں ہوتی۔ لیکن کفار کی شکست کے بعد بھی ان کے قتل کا قائل ہونا، خلاف قرآن ہے۔

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ اس آیت کے ذریعے آیہ سیف کی تقیید کی گئی ہے۔

اس قول کی دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے بعض قیدیوں کو قتل کیا، بعض کو ان پر احسان کرتے ہوئے آزاد کردیا اوربعض سے فدیہ و تاوان لے کر ان کو آزاد کردیا تھا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ بفرض تسلیم اگر یہ روایت صحیح ہو پھر بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قتل کرنے، فدیہ لینے اور بلاعوض آزاد کرنے میں امام کو اختیار حاصل ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اسیر کو جنگ بندی اور کفار کی شکست سے پہلے قتل کیا ہو۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے کفار کی شکست کے بعد اسیروں کو ان سے فدیہ لے کر اور بغیر فدیہ کے آزادکیا ہو۔

ممکن ہے یہ حضرات (جو ہر حالت میں قتل اور آزاد کرنے میں اختیار کے قائل ہیں) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے عمل سے استدلال کریں جس کے مطابق انہوں نے اسیروںکو قتل کیا تھا۔

۴۷۸

اس کا جواب یہ ہے کہ اوّلاً یہ واقعہ تاریخی اعتبار سے ثابت نہیں ہے بفرض تسلیم اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہو پھر بھی مدعیٰ ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا عمل حجیّت نہیں رکھتا تاکہ اس کی بنیاد پر ظاہر قرآن سے دست بردار ہوا جائے۔

۳۳۔( وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۵۱:۱۹

''اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حصّہ تھا۔،،

۳۴۔( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ۷۰:۲۴

( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) : ۲۵

''اور جن کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کے لیے ایک مقرر حصّہ ہے۔،،

ان دونوں آیات کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ نسخ ہوئی ہےں؟ کیونکہ ان آیات میں جس معلوم اور آشکار حق کا ذکر کیا گیا ہے ممکن ہے اس سے مراد واجب زکوٰۃ ہو جو ایک واجب حق ہے۔ ممکن ہے اس سے مراد کوئی اور م الی حق ہو جو واجب ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد ایک مالی حق ہو جو مستحب ہو۔

اگر اس حق سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا واجب حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں نسخ ہوں گی اس لیے کہ واجب زکوٰۃ کی وجہ سے قرآن میں موجود تمام دوسرے واجب صدقات نسخ ہوگئے ہیں۔ چنانچہ اس احتمال کو علماء کی ایک جماعت نے اختیار کیا ہے۔ اگر اس حق سے مردا واجب زکوٰۃ یا کوئی دوسرا مالی حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں محکم ہوں گی۔

تحقیق اس امر کی متقاضی ہے کہ ان دونوں آیتوں میں حق سے مراد واجب زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا حق ہے جس کی ادائیگی کی شارع نے ترغیب دی ہے۔ شیعہ اور اہل سنت کی بہت سی روایات اس بات کی دلیل ہیں کہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور صدقہ واجب نہیں ہے اور اہل بیت اطہار (ع) کی روایات میںیہ بیان موجود ہے کہ اس حق سے کیا مراد ہے۔

۴۷۹

شیخ کلینی نے ابو بصیر سے روایت کی ہے ابو بصیر کہتے ہیں:

''ہم امام صادقؑ کی خدمت میں بیٹھے تھے، ہمارے ساتھ کچھ دولت مند افراد بھی تھے انہوں زکوٰۃ کا ذکر کیا تو امام(ع) نے فرمایا: زکوٰۃ کوئی ایسی چیز نہیں کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے تعریف کی جائے۔

یہ تو ایک ظاہر ہے اور مسلّم چیز ہے اسی کی وجہ سے تو مسلمانوں کے خون کو تحفظ ملا ہے اور اسی کی بدولت انسان مسلمان کہلانے کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اگر مسلمان زکوٰۃ ادا نہ کرے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ یہ دیکھو کہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی تمہارے اموال میں لوگوں کے کچھ حقوق ہیں۔ میں (ابو بصیر) نے عرض کیا: مولا! زکوٰۃ کے علاوہ ہمارے اموال میں اور کون سے حقوق موجود ہیں؟ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا: :( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۔ میں نے عرض کی: آحر وہ کون سا حق ہے۔ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! یہ وہی حق ہے جس کی طرف ہر شخص متوجہ ہے۔ اسے چاہیے کہ ہر روز یا جمعہ میںیا مہینے میں ایک مرتبہ کچھ نہ کچھ دیتا رہے۔،،

نیز کلینی نے اپنی سندسے اسماعیل بن جابر سے اور انہوں نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے:

''آپ سے آیہ کریمہ:( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا یہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی حق ہے؟ آپ نے فرمایا: اس حق کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو خدا مال و دولت دے اسے چاہیے کہ اس میں سے ایک ہزار، دو ہزار یا تین ہزار الگ کرلے اور اس کے ذریعے صلہ رحمی کرے اور قریبی رشتہ داروں کی مشکلات کو حل کرے۔،،

ان کے علاوہ بھی امام باقر اور امام صادق (علیھما السلام) سے اس مضمون کی روایات منقول ہیں۔(۱)

____________________

(۱) الوافی باب الحق المعلوم، ج ۶، ص ۵۲

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689