البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن11%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313987 / ڈاؤنلوڈ: 9313
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

۴۔ احادیث جمع قرآن حکم عقل کے خلاف ہیں۔

جمع قرآن سے متعلق جو روایات بیان کی گئی ہیں وہ حکم عقل کیخلاف ہیں کیونکہ بذات خود قرآن کی عظمت ، حفظ قرآن اور قرات قرآن کو رسول اللہ (ص) کا اہمیت دینا ، رسول اللہ (ص) جس چیز کو اہمیت دیتے تھے مسلمانوں کا اس کو دل و جان سے قبول کرنا اور اہمیت دینا اور ان تمام اعمال کا بیان شدہ ثواب ، جمع قرآن کے اس طریقہ کار سے ساز گار نہیں جس کا روایت میں ذکر ہے۔

قرآن مجید میں کئی ایسے پہلو ہیں جن کی بنیادپر مسلمانوں کی نگاہ میں قرآن اہمیت کاحامل بن سکتا ہے اور مرد تو بجائے خود یہ عورتوں اوربچوں میں بھی مشہور ہو سکتا ہے اور وہ پہلو یہ ہیں:

۱۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت : عرب کلام بلیغ کے حفظ کرنے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے اسی وجہ سے وہ زمانہ جاہلیت کے اشعار اور خطبوں کو یاد کر لیتے تھے ایسے عرب ، کلام پاک کو اہمیت کیوں نہ دیتے جس کے چیلنج کا جواب کوئی فصیح و بلیغ شخص اور خطیب بھی نہیں دے سکا اس وقت تمام دنیائے عرب کی توجہ قرآن مجید پر مرکوز تھی مومنین اسے اس لئے حفظ کرتے تھے کہ ان کا اس پر ایمان تھا اور کفار اس کا مقابلہ کرنے اور اس کی حجیت کوباطل ثابت کرنے کیلئے اسے حفظ کرتے تھے۔

۲۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ) جن کی اس وقت کرہ ارض کے ایک عظیم خطے پر حکومت تھی اس خواہش کا اظہار کر چکے تھے کہ حتی المقدور قرآن کا تحفظ اور اسے حفظ کیا جائے اور انسانی عادت و طبیعت کا یہ تقاضا ہے کہ جب کوئی سربراہ مملکت کسی کتاب کے تحفظ اور پڑھنے کی خواہش ظاہر کرے تو یہ کتاب ان لوگوں میں فوراً رائج ہو جاتی ہے جو کسی دینی یا دنیوی مفاد کی خاطر اس سربراہ کی خوشنودی چاہتے ہوں۔

۳۔ حافظ قرآن کو لوگوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ہر تاریخ دان بخوبی جانتا ہے کہ اس دور میں حافظان اور قاریان قرآن کا کتنا احترام کیا جاتا تھا یہ خود ایک اہم سبب ہے کہ اس مقصد کیلئے لوگوں نے سارے کا سارا یا مقدور بھر قرآن ضرور حفظ کیا ہو گا۔

۳۲۱

۴۔ حفظ اور قرات قرآن کا اجرو ثواب ، جس کا قاری اور حافظ قرآن مستحق قرار پایا ہے ، ایک اہم عامل ہے جو لوگوں میں قرآن کو یاد کرنے اور اس کے تحفظ کا شوق پیدا کر سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمان عظمت قرآن کو بہت زیادہ اہیمت دیتے تھے قرآن کو اپنے جان و مال اور اولاد سے زیادہ عزیز رکھتے اورا س کی حفاظت کرتے تھے چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ کچھ عورتوں نے سارے کا سارا قرآن جمع کر لیا تھا۔

ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں:

''فضل بن وکین نے ہمیں خبر دی کہ ولید بن عبداللہ بن جمیع نے حدیث بیان کی: میری نانی ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث ، جس کی زیارت کیلئے رسول اللہ (ص) جایا کرتے اور اسے شہیدہ کا نام دیتے تھے اور اس نے سارا قرآن جمع کر لیا تھا ، نے حدیث بیان کی: جب رسول اللہ (ص) جنگ بدر کیلئے روانہ ہوئے تو میں نے آپ (ص) سے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص) ! اگر اجازت ہو تو میں بھی آپ (ص) کے ساتھ چلوں اور جنگی زخمیوں کا علاج اور تیمارداری کروں، شاید اللہ تعالیٰ مجھے شہادت نصیب فرمائے ؟ آپ (ص) نے فرمایا : خدا نے شہادت تمہاری قسمت میں لکھ دی ہے،،(۱)

قرآن جمع کرنے کے معاملے میں جب عورتوں کا یہ حال ہے تو مردوں کا کیا حال ہو گا یہی وجہ ہے کہ عہد رسول اللہ (ص) کے بہت سے حافظان قرآن کے نام تاریخ میں درج ہیں۔

قرطبی لکھتے ہیں:

_____________________

۱) الاتقان النوع ۲۰ ج ۱ ص ۱۲۵

۳۲۲

''جنگ یمامہ کے دن ستر قاری شہید کر دیئے گئے اور عہد نبی اکرم (ص) میں بر معونہ کے مقام پر بھی اتنے ہی قاری شہید کئے گئے ،،(۱)

جمع قرآن سے متعلق گزشتہ صفحات میں پیش کردہ دسویں روایت میں ہے کہ جنگ یمامہ کے دن چار سو قاری شہید کئے گئے۔

بہرحال نبی اکرم (ص) کے قرآن مجید کو انتہائی اہمیت دینے اور خصوصی طور پر متعدد کاتبوں کا اہتمام کرنے سے ، جبکہ قرآن تیس سال میں قسط وار نازل ہوا ہے ، ہمیں یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ آپ (ص) نے اپنے زمانے میں ہی جمع قرآن کا حکم دیدیا تھا۔

زید بن ثابت روایت کرتے ہیں:

''ہم رسول اللہ (ص) کے پاس بیٹھ کر ٹکڑوں سے قرآن جمع کیا کرتے تھے،،

حاکم اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں:

''یہ حدیث شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط کی بنیاد پر صحیح ہے لیکن انہوں نے اسے اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا،،

اس کے بعد فرماتے ہیں:

یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن مجید رسول اسلام (ص) کے زمانے میں ہی جمع کر لیا گیا تھا،،(۲)

جہاں تک قرآن کے بعد سوروں یا ایک سورہ کے کچھ حصوں کا تعلق ہے ان کو حفظ کرنا تو عام بات تھی اور شاید ہی کوئی مسلمان مرد یا عورت ہو جس نے چند سورتیں یا ایک سورۃ کے کچھ حصہ یاد نہ کئے ہوں۔

____________________

(۱) الاتقان النوع ۲۰ ، ص ۱۲۲ ۔ قرطبی اپنی تفسیر ، ج ۱ ، ص ۵۰ میں لکھتے ہیں: بعض کا کہنا ہے کہ جنگ یمامہ کے دن سات سو قاری شہید کئے گئے۔

(۲) المستدرک ، ج ۲ ، ص ۶۱۱

۳۲۳

عبادہ بن صامت روایت کرتے ہیں:

کان رسول الله ۔ص ۔بشغل ، فاذا قدم رجل مهاجر علی رسول الله ۔ص ۔دفعه الی رجل منا یعلمه القرآن ،، (۱)

''بعض اوقات رسول اللہ (ص) کسی کام میں مصروف ہوتے اور مہاجرین میں سے کوئی آپ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ (ص) اسے ہم میں سے کسی کے حوالے کر دیتے جو اسے قرآن کی تعلیم دیتا تھا،،

کلیب نے روایت کی ہے:

''کنت مع علی ، ع ۔فسمع فجهم فی المسجد یقراون القرآن ، فقال : طوبی لهولاء ۔۔۔۔۔۔(۲)

''میں علی (علیہ السلام) کے ہمراہ تھا جب آ پ(ع) نے لوگوں کی قرات قرآن کا شور سنا تو فرمایا: ان لوگوں کو بشارت

ہو جو قرات کلام پاک میں مصروف ہیں،،

نیز عبادہ بن صامت سے روایت ہے:

کان الرجل اذا هاجر دفعه النبی ۔ص ۔الی رجل منایعلمه القرآن ، وکانبسمع المسجد رسول الله ۔ص ۔فجة بتلاوة القرآن ، حی امرهم رسول الله ان یخفضوا اصواتهم لئلا یتغالطوا،، (۳)

''جب کوئی نیا مہاجر مدینہ آتا تو نبی اکرم (ص) اسے ہم میں سے کسی کے حوالے کر دیتے جو اسے قرآن کی تعلیم دیتا تھا اس وقت مسجد نبوی (ص) سے قرات قرآن کا ایک شور بلند ہوتا تھا حتیٰ کہ نبی اکرم (ص) کو کہنا پڑا کہ اپنی آوازوں کو آہستہ کریں کہیں شور میں قرآن غلط نہ پڑھا جائے،،

___________________

(۱) مسند احمد ، ج ۵ ، ص ۳۲۴

(۲) کنز العمال ، فضائل القرآن ، طبع ثانی ، ج ۲ ، ص ۱۸۵

(۳) مناہل العرفان ، ص ۳۲۴

۳۲۴

یہ حقیقت ہے کہ حفظ قرآن ، اگرچہ قرآن کے بعض حصے سہی ، کارواج مسلمان مرد اور عورتوں میں عام تھا بلکہ بعض اوقات تو کچھ مسلمان عورتیں قرآن کی ایک یا متعدد سورتوں کی تعلیم کو اپنا مہر قرار دیتیں(۱) قرآن کو اتنی زیادہ اہمیت دینے کے باوجود یہ کہنا کیسے ممکن ہے کہ قرآن کی جمع آوری میں خلافت ابوبکر تک تاخیر ہوئی اور جمع قرآن کے سلسلے میں حضرت ابوبکر کو دو گواہوں کی ضرورت محسوس ہوئی جو یہ شہادت دیں کہ ہم نے سورہ یا آیہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے سنا ہے۔

۵۔ احادیث جمع قرآن خلاف اجماع ہیں۔

یہ سب روایات تمام مسلمانوں کے اس اتفاقی اور اجماعی فیصلے کیخلاف ہیں کہ قرآن صرف تواتر کے ذریعے ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ان روایات کے مطابق قرآن دو شاہدوں یا ایک ایسے شاہد جس کی گواہی دو کے برابر ہو ، کی شہادت سے ثابت کیا جاتا تھا اس طریقے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ قرآن خبر واحد کے ذریعے بھی ثابت ہو انصاف سے بتائے ! کوئی مسلمان یہ بات ماننے کیلئے تیار ہے ؟ میں نہیں سمجھ سکا کہ دونوں قول کیسے جمع ہو سکتے ہیں کہ قرآن خبر متواتر کے بغیر ثابت نہ ہو سکے اور یہ روایات بھی صحیح ہوں جن کے مطابق قرآن دو شاہدوں کی شہادت سے بھی ثابت ہو جاتا ہے۔

کیا اس بات کے یقین سے کہ قرآن خبر متواتر کے بغیر ثابت نہیں ہوتا ، اس بات کا یقین حاصل نہیں ہوتا کہ یہ ساری کی ساری روایات جھوٹی اور من گھڑت ہیں؟

تعجب تو اس پر ہے کہ ابن حجرجیسے بعض دانشمندوں نے فرمایا ہے کہ ان روایات میں شہادت سے مراد کتابت اور حفظ کرنا ہے(۲) میرے خیال میں جس وجہ سے ابن ح جر نے یہ توجیہ کی ہے وہ ثبوت قرآن کیلئے تواتر کاضروری ہونا ہے بہرحال یہ توجیہہ کئی جہات سے صحیح نہیں ہے:

____________________

(۱) اس حدیث کو شیخان (بخاری و مسلم) ابوداؤد ، ترمذی اور نسائی نے بیان کیا ہے ۔ تاج ، ج ۲ ، ص ۳۳۲

(۲) الاتقان نوع ۱۸ ص ۱۰۰

۳۲۵

اولاً: یہ توجیہ جمع قرآن سے متعلق مذکورہ روایات کی تصریحات کیخلاف ہے۔

ثانیاً: اس توجیہ کا لازمہ یہ ہے کہ جب تک یہ کسی کے پاس لکھا ہوا نہ ملے وہ اسے قرآن میں شامل نہیں کرتے تھے جس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہوتا اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے اس کو ساقط (ترک ) کر دیا جس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہو۔

ثالثاً : جس بات کو لکھنا یا حفظ کرنا مقصود ہو اگر وہ متواترات میں سے ہو تو اسے ل کھنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور جب تک متواتر نہ ہو کتابت اور حفظ کرنے سے قرآن ثابت نہیں ہوتا بہرحال کتابت اور حفظ کو جمع قرآن کی شرط قرار دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ ان روایات کو مسترد کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ روایات تواتر کے بغیر بھی قرآن کے ثابت ہونے پر دلالت کرتی ہیں جس کے باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔

۶۔ احادیث جمع قرآن اور قرآن میں زیادتی

اگر یہ روایات صحیح ہوں اور ان کے ذریعے قرآن میں کمی کی صورت میں تحریف پر استدلال کیا جائے تو انہی روایات کے ذریعے قرآن میں زیادتی کی صورت میں تحریف پر بھی استدلال کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان روایات میں جمع قرآن کی جو کیفیت اور طریقہ بتایا گیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ قرآن میں کچھ نہ کچھ اضافہ کر دیا گیا ہو۔

اعتراض:قرآن میں زیادتی کو اس میں نقص اور کمی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ قرآن کی کسی آیہ یا سورہ کو قرآن سے نکال لینا آسان ہے لیکن قرآن میں کسی آیہ کا اضافہ کرنا مشکل ہے۔ ا س لئے کہ قرآن میں اعجاز کی حد تک فصاحت و بلاغت پائی جاتی ہے اوراس کے پایہ کا کلام بنا کر اسے قرآن میں شامل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔

۳۲۶

جواب: اگرچہ قرآن کے اعجاز اور اس کی بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ ایک سورہ کی مثل و نظیر نہ لائی جا سکے لیکن ایک دو کلموں کی مثل و نظیر تولائی جا سکتی ہے بلکہ اگر مختصر ہو تو ایک آیہ کی مثل بھی لائی جا سکتی ہے اور اگر یہ احتمال نہ ہوتا تو قرآن ثابت کرنے کیلئے دو شاہدوں کی گواہی کی ضرورت نہ پڑتی جس کا گزشتہ روایات میں ذکر ہوا ہے اس لئے کہ جو آیت بھی کسی کی طرف سے پیش کی جاتی وہ خود منہ بولتا ثبوت ہوتی کہ میں قرآن سے ہوں کہ نہیں۔

بنا برایں جو قرآن میں کمی کی صورت میں تحریف کا قائل ہے اسے لامحالہ ماننا پڑے گا کہ قرآن میں زیادتی بھی ہوئی ہے اور یہ اجماع مسلمین کیخلاف ہے۔

گزشتہ مباحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ جمع قرآن کو خلفاء کی طرف نسبت دینا محض خیال خام ہے جو کتاب و سنت ، عقل اور اجماع کیخلاف ہے۔

تحریف کو ثابت کرنے کیلئے جمع قرآن کے ذریعے استدلال نہیں کیا جا سکتا ، بفرض تسلیم اگر قرآن کو حضرت ابوبکر نے اپنے دور خلافت میں جمع کیا ہو پھر بھی اس میں شک نہیں کہ جمع قرآن کا جو طریقہ گزشتہ بیان کی گئی روایات میں ذکر کیا گیا ہے ، جھوٹ ہے اور حق یہ ہے کہ قرآن کو مسلمانوں میں تواتر کی بنیاد پر جمع کیا گیا ہے البتہ جو سورے اور آیات لوگوں کے سینوں میں بطور تواتر موجود تھیں جمع کرنے والے نے قرآن کی صورت میں ان کی تدوین کی ہے۔

ہاں ! یہ مسلم ہے کہ حضرت عثمان نے اپنے دور خلافت میں قرآن جمع کیا ہے لیکن حضرت عثمان اس معنی میں جامع قرآن نہیں ہیں کہ انہوں نے سوروں اور آیتوں کو بذات خود جمع کیا ہو بلکہ اس معنی میں جامع قرآن ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کو ایک ہی قرات پر متفق کیا اور باقی قرآنوں کوجو اس قرات سے مختلف تھے جلا دیا اور دوسرے شہروں میں یہ حکمنامہ بھیجا کہ اس نسخے کے علاو باقی نسخے جلا دیئے جائیں اور مسلمانوں کو قرات میں اختلاف کرنے سے روک دیا چنانچہ اس حقیقت کی تصریح بعض دانشمندان اہل سنت نے بھی کی ہے۔

۳۲۷

حارث محاسبی کہتے ہیں:

''عام لوگوں میں مشہور ہے کہ قرآن حضرت عثمان نے جمع کیا ہے حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے حضرت عثمان نے صرف لوگوں کو اس ایک قرات پر آمادہ اور متفق کیا تھا جسے حروف قرات میں اہل عراق و شام کے اختلاف کے وقت حضرت عثمان اور کچھ مہاجرین و انصار نے اختیار کیا تھا اور اس سے قبل قرآن ، حروف ہفتگانہ جن میں قرآن نازل ہوا تھا ، کے مطابق پڑھا جاتا تھا ،،(۱)

مولف : جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضرت عثمان نے مسلمانوں کو اس ایک قرات پر متفق کیا جو مسلمانوں میں مشہور تھی ، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے بطور تواتر انہوں نے سنی تھی اور ان قرات پر پابندی لگا دی جو حروف ہفتگانہ کی بنیادپر پڑھی جاتی تھیں ، جن کا بطلان گزشتہ مباحث میں بیان ہو چکا ہے ، حضرت عثمان کے اس کارنامے پر کسی مسلمان کو اعتراض نہیں کیونکہ قرات میں اختلاف مسلمانوں میں اختلاف کا باعث بن رہا تھا اور اس کا شیرازہ بکھر رہا تھا بلکہ اس اختلاف کی وجہ سے بعض مسلمان بعض کو کافر قرار دے رہے تھے گزشتہ مباحث میں ایسی روایات گزر چکی ہیں جن میں رسول اللہ (ص) نے قرات میں اختلاف سے منع فرمایاہے ہاں ! حضرت عثمان کے جس عمل پر مسلمان اعتراض کرتے ہیںوہ ان کا قرآن کے باقی نسخوں کو جلانا اور مختلف شہروں میں جلانے کا حکم دینا ہے اس عمل پر مسلمانوں کی ایک جماعت نے اعتراض کیا تھا اور حضرت عثمان کا نام حراق المصاحف قرآن سوز رکھ دیا تھا۔

نتیجہ:

ان گزشتہ مباحث سے قارئین محترم کے سامنے واضح ہو گیا کہ تحریف قرآن کی باتیں خرافات اور بیہودہ خیالات ہیں اس قسم کی باتیں ضعیف العقل کر سکتے ہیں یا وہ لوگ کر سکتےہیں جو اس مسئلہ میں کماحقہ ، غور نہیں کرتے یا تحریف کا قائل وہ ہو گا جو اس نظریئے پر فریفتہ ہو ظاہر ہے کسی بھی چیز کی محبت انسان کو اندھا اور بہرا کر دیتی ہے اور وہ نہ حق کی بات کر سکتا ہے اور نہ سن سکتا ہے اس کے برعکس جو شخص عقلمند، منصف مزاج اور متفکرہو گا وہ اس نظریہ کے باطل ہونے میں شک نہیں کر سکتا۔

____________________

(۱) الاتقان نوع ۱۸ ، ج ۱ ، ص ۱۰۳

۳۲۸

ظواھر قرآن کی حجیت

٭ ظواہر قرآن کے حجت نہ ہونے کے دلائل

٭ قرآن فہمی کا مختص ہونا

٭ تفسیر بالرائے کی ممانعت

٭ معانی قرآن کی پیچیدگی

٭ خلاف ظاہر کا یقین

٭ متشابہ پر عمل کی ممانعت

٭ قرآن میں تحریف

۳۲۹

اس میں کوئی شرک نہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے اظہار مافی الضمیر اور افہام و تفہیم کا کوئی خاص طریقہ نہیں اپنایا اور افہام و تفہیم کا وہی طریقہ اپنایا جو آپ (ص) کی قوم می رائج تھا آپ (ص) اپنی قوم کے لئے قرآن لے کرآئے تاکہ وہ اسے سمجھے اور اس کی آیتوں میں غور و فکر کرے قرآن جن کاموں کا حکم دے انہیں بجا لائے اور جن باتوں سے روکے اس سے باز آ جائے قرآن کی متعدد ا یتوں میں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ) (۴۷:۲۴)

''تو کیا یہ لوگ قرآن میں (ذرا بھی ) غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں،،

دوسری جگہ ارشادہوتا ہے:

( وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ) ۳۹:۲۷

''اور ہم نے تو اس قرآن میں لوگوں کے (سمجھانے کے) واسطے ہر طرح کی مثل بیان کر دی ہے تااکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں،،

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ) ۲۶:۱۹۲

''اور (اے رسول) بیشک یہ (قرآن) ساری خدائی کے پالنے والے (خدا) کا اتارا ہوا ہے،،

( نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ) : ۱۹۳

''جسے روح الامین (جبرئیل) لے کر نازل ہوئے ہیں،،

( عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ) : ۱۹۴

''تمہارے دل پر تاکہ تم بھی (اور پیغمبروں کی طرح لوگوں کو عذاب خدا سے) ڈراؤ،،

۳۳۰

( بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ ) : ۱۹۵

''(جسے جبرئیل) صاف عربی زبان میں (لے کر آئے)،،

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( هَـٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ ) ۳:۱۳۸

''یہ (جو ہم نے کہا) عام لوگوں کیلئے تو صرف بیان (واقعہ ) ہے (مگر) اور پرہیز گاروں کیلئے نصیحت ہے،،

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ) ۴۴:۵۸

''تو ہم نے اس قرآن کو تمہاری زبان میں (اس لئے) آسان کر دیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت پکڑیں،،

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ) ۵۴:۱۷

''اور ہم نے تو قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے واسطے آسان کر دیا ہے تو کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے،،

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ) ۴:۸۲

''تو کیا یہ لوگ قرآن میں بھی غور نہیں کرتے اور (یہ نہیں خیال کرتے کہ) اگر خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے (آیا ) ہوتا توضرور اس میں بڑا اختلاف پاتے،،

ان کے علاوہ بھی قرآن کی ایسی آیات موجود ہیں جن میں احکام قرآن پر عمل کرنا واجب قرار دیا گیا اور اس کے ظواہر پر عمل کرنے کی تاکید کی گئی ہے ذیل میں ظواہر قرآن کی حجیت اور عربوں کے قرآن کے معانی کو سمجھنے کے چند دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔

۳۳۱

۱۔ قرآن کو رسالت کی حجت و دلیل کے طورپر نازل کیا گیا اور نبی اکرم (ص) نے پوری انسانیت کو اس کی ایک سورہ تک کی مثل پیش کرنے کا چیلنج کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عرب قرآن کے ظاہری معانی سمجھتے تھے اگر قرآن ایک ناقابل حل معمہ ہوتا تو عربوں کو چیلنج کرنا صحیح نہ ہوتا اور ان کے سامنے قرآن معجزہ ہونا ثابت نہ ہوتا کیونکہ جس چیز کو وہ سمجھتے ہی نہ تھے اس کا جواب کیا دیتے اور یہ بات قرآن نازل کرنے کے مقصد اور لوگوں کو دعوت ایمان دینے سے سازگار نہیں بلکہ منافی ہوتی۔

۲۔ بہت سی روایات میں ثقلین ، جنہیں رسول اللہ (ص) اپنے بعد چھو ڑکر گئے ، سے متمسک رہنے کا حکم دیا گیا ہے ظاہر ہے تمسک کا مطلب یہ ہے کہ اس کتاب کو اپنایا جائے اور اس سے جو احکام سمجھےج ائیں ان پر عمل کیا جائے اور ظاہر قرآن کی حجیت اسی کا نام ہے۔

۳۔ روایات متواترہ میں حکم دیا گیا ہے کہ روایات کو قرآن کے سامنے پیش کرو( اس سے مقایسہ کرو) اور پھر جو روایت کتاب خدا کیخلاف ہو اسے باطل سمجھو اور دیوار پر دے مارو وہ جھوٹ پر مبنی ہے اس کو قبول کرنے سے منع کیا گای ہے اور ائمہ (ع) کا فرمان نہیں ہے یہ روایات تصریح کرتی ہیں کہ ظواہر قرآن حجت ہیں اور قرآن کو عام اہل زبان جو فصیح عربی جانتے ہوں سمجھ سکتے ہیں۔

اس قسم کی دوسری روایات میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ صحیح شرائط کو باطل شرائط سے الگ کرنا ہو تو ان کا کتاب خدا سے مقایسہ کرو اور جو کتاب خدا کے خلاف ہو اسے مستردکر دو۔

۴۔ بعض احکام شرعیہ پرائمہ (ع) کا قرآنی آیات سے استدلال کرنا دلیل ہے کہ ظواہر قرآن حجت ہیں:

۱۔ زراہ نے امام صادق (ع) سے پوچھا کہ آپ (ع) نے کہاں سے سمجھا کہ پورے سر کا نہیں بلکہ سر کے ایک حصے کا مسح واجب ہے آپ (ع) نے فرمایا : ''لمکان الباء ،، (یعنی ''وامسحوا برؤوسکم،، میں ''ب،، بعض کا معنی دیتی ے اوریہ بتاتی ہے کہ سر کے کچھ حصے کا مسح واجب ہے)

۳۳۲

۲۔امام (علیہ السلام) نے منصور دو انیقی کو چغل خور کی بات پر عمل کرنے سے منع فرمایا اور کہا ''چل خور فاسق ہے،، اس کے بعد دلیل کے طور پر اس آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی:

( إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا ) ۴۹:۶

''اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبرلے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو،،

۳۔ ایک شخص نے گانا سننے کی خاطر ، جس کی آواز ہمسائے کے گھر سے آ رہی تھی بیت الخلاء میں دیر لگائی اور اپنی طرف سے یہ عذر پیش کیا کہ میں عمداً گانا سننے یہاں نہیں آیا آپ (ع) نے فرمایا:

''آپ تو نے خدا کا یہ فرمان نہیں سنا،،

( إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ) ۱۷:۳۶

''کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان سب کی (قیامت کے دن) یقیناً باز پرس ہونی ہے،،۔

۱۴۔ امام صادق (علیہ السلام) نے اپنے فرزند اسماعیل سے فرمایا:

جب مومنین کی ایک جماعت تیرے پاس آ کر گواہی دے تو اس کی تصدیق کر،،۔

پھر آپ (ع) نے بطور دلیل اس آیہ کریمہ کی تلاوت فرمائی:

( يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمومنينَ ) ۹:۶۱

''جب تک دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے،،

۳۳۳

۱۵۔ آپ (ع) نے فرمایا:

''تین مرتبہ طلاق شدہ عورت کے حلالہ کیلئے ایک غلام سے عقد کافی ہے ، کیونکہ اس پر بھی ''زوج،، صادق آتا ہے ارشاد خداوندی ہے:

( حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ) ۲:۲۳۰

''جب تک دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے،،

۱۶۔ آپ (ع) نے فرمایا۔

جب عورت کو تین طلاقیں دی گئی ہوں وہ عقد منقطع (متعہ) سے حلال نہیں ہو گی ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا ) ۲:۲۳۰

''ہاں اگر دوسراشوہر (نکاح کے بعد ) اس کو طلاق دے دے تب البتہ ان میاں بی بی پر باہم میل کر لینے میں کچھ گناہ نہیں ہے،،۔

اور متعہ میں طلاق نہیں ہوتی۔

۱۷۔ ایک شخص نے امام صادق (ع) کی خدمت میں آ کر عرض کی:

ٹھوکر لگنے سے میراناخن اتر گیا ہے جس پر پٹی باندھی ہوئی ہے مسح کیسے کروں؟ آپ (ع) نے فرمایا: اس مسئلے اور اس قسم کے دوسرے مسائل کا جواب قرآن سے تلاش کیا جا سکتا ہے ، خدا فرماتا ہے:

( وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ ) ۲۲:۷۸

''اور امور دین میں تم پر کسی طرح کی سختی نہیں کی،،

پھر آپ (ع) نے فرمایا : اس پٹی کے اوپر مسح کرو،،

۳۳۴

۱۸: امام صادق (ع) سے بعض عورتوں کے بارے میں سوال کیا گیا کہ حلال ہیں یا حرام ؟ آپ (ع) نے فرمایا:

''حلال ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ ) ۴:۲۴

''اور ان عورتوں کے سوا(اور عورتیں) تمہارے لئے جائز ہیں،،

۱۹۔ آپ (ع) نے فرمایا:

''مولا کی اجازت کے بغیر غلام نکاح نہیں کر سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

( عَبْدًا مَّمْلُوكًا لَّا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ ) ۱۶:۷۵

''ایک غلام ہے جو دوسرے کی ملک ہے (اور) کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا،،

۲۰۔ آپ (ع) نے بعض حیوانات کے حلال گوشت ہونے کی دلیل کے طور پر اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ ) ۶:۱۴۵

''(اے رسولؐ) تم کہو کہ میں تو جو (قرآن) میرے پاس وحی کے طور پر آیا ہے اس میں کوئی چیز کسی کھانے والے پر جو اس کو کھائے حرام نہیں پاتا،،

ان کے علاوہ بھی امام (ع) نے آیات قرآن سے استدلال فرمائے ہیں جو فقہ کے مختلف ابواب میں موجود ہیں۔

۳۳۵

ظواہر قرآن کے حجت نہ ہونے کے دلائل:

محدثین کی ایک جماعت ظواہر قرآن کی حجیت کی منکر ہے اور ان پر عمل کرنے سے منع کرتی ہے اور اپنے مدعا پر ذرج ذیل دلائل پیش کرتی ہے:

۱۔ قرآن فہمی کا مختص ہونا:

قرآن کو صرف وہی ہستیاں سمجھ سکتی ہیں جن سے قرآن مخاطب ہے ان علماء کرام نے اپنے اس دعویٰ کے اثبات میں چند روایات سے استدلال کیا ہے وہ روایات یہ ہیں:

i ۔ مرسلہ(۱) شعیب بن انس میں امام صادق (ع) نے حضرت ابو حنیفہ سے فرمایا:

''انت فقه اهل العراق ؟ قال : نعم قال ع : فبایی شیی تفتیهم ؟ قال : بکتاب الله و سنة نیسه قال ع یا ابا حنیفة تعرف کتاب الله حق معرفته ، و تعرف الناسخ من المنسوخ ؟ قال : نعم قال ع : یا ابا حنیفة لقد ادعیت علماً ویلک ماجعل الله ذلک الا عند اهل الکتاب الذین انزل علیهم ، وبلک ماهو الا عند الحاص من ذریة تبینا ص وما ورثک الله تعالیٰ من کتابه حرفاً ،،

''کیا تو اہل عراق کا فقیہ ہے ؟ حضرت ابو حنیفہ نے جواب دیا : جی ہاں ۔ آپ (ع) نےف رمایا : تو کس دلیل کی بنیادپر لوگوں میں فتویٰ دیتا ہے ؟ حضرت ابو حنیفہ نے کہا : کتاب خدااور سنت نبوی (ص) کی بنیاد پر فتویٰ دیتا ہوں ۔ آپ (ع) نے فرمایا : کیا تو کتاب خدا کو کماحقہ ، سمجھ سکتا ہے اورناسخ کو منسوح سے تمیز دے سکتا ہے ؟ حضرت ابو حنیفہ نے کہا : جی ہاں۔ آپ (ع) نے فرمایا : ابو حنیفہ : تو نے ایک بہت بڑے علم کا دعویٰ کیا ہے اتنا وسیع علم اللہ تعالیٰ نے صرف ان ہستیوں کو دیا ہے جن پر قرآن اتارا اور یہ علم صرف ہمارے نبی (ص) کی ذریت کے پاس ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے تجھے اپنی کتاب کے پاس حرف تک کا وارث نہیں بنایا،،

۳۳۶

ii ۔ زید شحام کی روایت میں ہے قتادہ امام باقر (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ (ع) نے فرمایا:

''دخل قتادة علی ابیی جعفر ع فقال له : انت فقیه اهل البصرة ؟ فقال : هکذا یزعمون فقال ع بلغیی انک تفسر القرآن قال : نعم الی ان قال یا قتادة ان کنت فد فسرت القرآن من تلقساء نفسک فقد هلکت وهلکت ، وان کنت قد فسرته من الرجال فقد هلکت و اهلکت ، یا قتادة ویحک انما یعرف القرآن من خوطب به ،،

''فرمایا: میں نے سنا ہے تو قرآن کی تفسیر بیان کرتا ہے قتادہ نے کہا : جی ہاں ۔ سوال جواب ہوتے رہے حتی ٰ کہ آپ (ع) نے فرمایا: اے قتادہ اگر تو اپنی طرف سے قرآن کی تفسیر کرے گا تو خود بھی ہلاک ہو گا اور دوسروں کی ہلاکت کاباعث بھی بنے گا اور اگر لوگوں سے سنی سنائی تفسیر بیان کرے گا پھر بھی خود کو اور دوسروں کو ہلاک کرے گا اے قتادہ قرآن کو وہی ہستیاں سمجھ سکتی ہیں جن سے قرآن کے ذریعے خطاب کیا گیا ہے،،۔

جواب:

اس قسم کی روایات کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو کماحقہ سمجھنا ، اس کے ظاہر و باطن کو درک کرنا اورناسخ و منسوخ کو تشخیص دینا ان ہستیوں سے مختص ہے جن سے قرآن کے ذریعے خطاب کیا گیا ہے چنانچہ پہلی روایات میں امام (ع) نے حضرت ابو حنیفہ سے کتاب خدا کی کماحقہ معرفت اور ناسخ کو منسوخ سے تمیز دینے کے بارے میں سوال کیا تھا اور آپ (ع) نے حضرت ابو حنیفہ کی سرزنش بھی اسی بات پر کی تھی کہ انہوں نے کتاب خدا کے کماحقہ ، علم کا دعویٰ کیا تھا۔

دوسری روایت بھی لفظ ''تفسیر،، پر مشتمل ہے جس کا معنیٰ کسی حقیقت پر سے پردہ اٹھاتا ہے بنا برایں یہ روایت ظواہر قرآن پر عمل کرنے کو شامل نہیں ہے۔ اس لئے کہ ظاہر پر تو کوئی پردہ نہیں ہوتا جسے اٹھانا پڑے اور تفسیر صادق آئے۔

۳۳۷

اس حقیقت پر وہ گزشتہ روایات بھی دلالت کرتی ہیں جن کے مطابق قرآن کا سمجھنا صرف معصومین (ع) سے مختص نہیں روایت مرسلہ کا جملہ''وما ورثک الله من کتابه حرفاً (یعنی) خدا نے تجھے اپنی کتاب کے ایک حرف تک کا وارث نہیں بنایا،، بھی اسی نکتے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (ص) کے جانشینوں کو کتاب کا وارث بنایا ہے اور انہیں اس کے ظاہر و باطن اور تاویل ، غرض پوری کتاب کا علم دیا ہے جو کسی اور کو نہیں ملا ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ ) ۳۵:۳۲

''پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے خاص ان کو قرآن کاوارث بنایا جنہیں (اہل سمجھ کر) منتخب کیا،،۔

معلوم ہوا قرآن کے حقائق اور واقعات کے صحیح عالم معصومین (ع) ہیں۔ روایت مرسلہ میں بھی حضرت ابو حنیفہ وغیرہ سےا یسے علم کی نفی کی گئی ہے ورنہ یہ بات نامعقول ہے کہ حضرت ابو حنیفہ کتاب خداسے کچھ بھی نہ جانتے ہوں۔ اس مضمون کی آیات اور روایات اور بھی ہیں جن میں کتاب خدا کے مکمل علم کو معصومین (ع) سے مختص کیا گیا ہے۔

۲۔ تفسیر بالرائے کی ممانعت

قرآنی الفاظ کے ظاہری معنی کو اپنانا اوراس پر عمل کرنا ایک قسم کی تفسیر بالرائے ہے جس کی فریقین کی متواتر روایات میں نہی کی گئی ہے۔

جواب:

اس سے قبل بیان ہو چکاہے کہ تفسیر کا معنی کسی پوشیدہ حقیقت سے پردہ اٹھانا ہے کسی قرآنی لفظ سے اس کے ظاہری معنی کو لے لینا تفسیر نہیں کہلائے گا کیونکہ یہ ظاہری معنی پوشیدہ اور مستور نہیں ہے کہ اس سے پردہ اٹھانا پڑے۔

۳۳۸

بفرض تسلیم اگر یہ تفسیر بھی کہلائے تو یہ تفسیر بالرائے نہیں ہو گی جس سے وہ روایات متواتر اس کو شامل ہو جائیں جن میں تفسیر بالرائے کی ممانعت کی گئی ہے ، بلکہ یہ تفسیر ایسی ہو گی جس کو عام لوگ کسی لفظ سے سمجھتے ہیں مثلاً اگر کوئی شخص عام فہم اور قرائن متصلہ و منفصلہ کے مطابق نہج البلاغۃ کے خطبات میں سے کسی خطبے کا ترجمہ کرے تو اس کوتفسیر بالرائے نہیں کہا جائے گا اس حقیقت کی طرف امام صادق (ع) نے بھی اشارہ فرمایا ہے۔

انما هلک الناس فیی المتشابه الانهم لم یقفوا علی معناه ، ولم یعرفوا حقیقته ، فوضعوا له تاویلا من عند انفسهم بآرائهم ، واستغنوا بذلک من مسالة الاوصیاء فیعرفونهم

''لوگ قرآن کی متشابہ آیات (جن کا معنی ظاہر نہ ہو) کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں کیونکہ وہ اس کے حقیقی معانی نہیں سمجھ سکتے اور اپنی رائے سے اس کی کوئی نہ کوئی تاویل و توجیہ کر لیتے ہیں جس کے بعد وہ اپنے کو اوصیاء سے بے نیاز سمجھتے ہیں اور متشابہ آیات کامطلب ان سے نہیں پوچھتے تاکہ وہ انہیں ان آیات کے صحیح معانی بتائیں،،

ممکن ہے ان روایات میں تفسیر بالرائے سے مراد یہ ہو کہ ائمہ (ع) کی طرف رجوع کئے بغیر ، جو قرآن کے ہم پلہ اور واجب الاطاعت ہیں ، مستقل طور پر اور اپنی رائے سے کوئی فتویٰ دیا جائے مثلاً اگر کوئی شخص قرآن میں موجود کسی عام یا مطلق پر فوراً عمل کرے اور روایات ائمہ سے مخصص اور مقید کو تلاش نہ کرے تو یہ تفسیر بالرائے ہو گی۔

خلاصہ کلام یہ کہ قرآن کے کسی لفظ کے قرائن متصلہ اور منفصلہ کو کتاب و سنت میں تلاش کرنے اور دلیل عقلی ڈھڈنڈے کے بعد اس کے ظاہری معنی کو لے لینا تفسیر بالرائے تو کجا تفسیر بھی نہیں ہے اس کے علاوہ جہاں بعض روایات میں تفسیر بالرائے سے نہی کی گئی ہے وہاں کچھ ایسی روایات بھی ہیں جن میں قرآن کی طرف رجوع کرنے اور اس کے ظاہری معنی پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان دونوں قسم کی روایات پر عمل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ تفسیر بالرائے سے مراد قرآن کے ظاہری معنی پر عمل نہ ہو بلکہ متشابہ اور غیر واضح آیات کی اپنی طرف سے تاویل کرنا مقصود ہو اس طرح دونوں قسم کی روایات پر عمل ہو جائے گا۔

۳۳۹

۳۔ معانی قرآن کی پیچیدگی

قرآن مجید انتہائی بلند معانی اور پیچیدہ مطالب پر مشتمل ہے جو انسان کی طاقت فہم سے بالاتر ہے اور قرآنی مقاصد کا احاطہ انسانی قدرت سے باہر ہے گزشتہ علمائے کرام کی کچھ کتابیں بھی ایسی ہیں جنہیں ہر خاص و عام نہیں سمجھ سکتا بلکہ صرف ارباب دانش اور نکتہ دان ہی سمجھ سکتے ہیں تو کتاب الٰہی کو ہر شخص کیسے سمجھ سکتا ہے (جس میں اولین و آخرین کے علوم جمع ہیں)۔

جواب

یہ مسلم ہے کہ قرآن میں ''مالکان،، اور ''مایکون،، کا علم موجود ہے اور اس وسیع علم کے مالک صرف اور صرف اہل بیت (علیہم السلام) ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ قرآن کے کچھ ظاہری معانی بھی ہیں جن کو لغت عرب اور اس کے اسلوب کا جاننے والا ہر شخص سمجھ سکتا ہے اور قرائن و مویدات کو تلاش کرنے کے بعد ان معانی پر عمل کر سکتا ہے۔

۴۔ خلاف ظاہر کا یقین

ہمیں اجمالاً علم ہے کہ بعض عمومات قرآن کی تخصیص اور مطلقات کی تقیید ہوئی ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ بعض ظواہر قرآن یقیناً مراد الٰہی نہیں ہیں اور یہ عمومات جن کی تخصیص ہوئی ہے وہ مطلقات جن کی تقیید ہوئی ہے اور ظواہر قرآن جو یقیناً مراد الٰہی نہیں ہیں ، مشخص و معین نہیں ہیں تاکہ صرف انہی عمومات اور مطلقات میں ظاہر پر عمل کرنے سے احتراز کیا جائے نتیجہ یہ نکلا کہ تمام عمومات ، مطلقات اور ظواہر قرآن اگرچہ بذات خود مجمل نہیں لیکن بعض عمومات کی تخصیص اور بعض مطلقات کی تقیید کی وجہ سے باقی عمومات ، مطلقات اور ظواہر قرآن بھی مجمل ہو جائیں گے اس لئے ان عمومات ، مطلقات اور ظواہر قرآن پر عمل کرنا جائز نہیں مبادا خلاف واقع معنی کاارادہ ہو جائے۔

۳۴۰

عمل: ناپسنديدہ عمل ۱۶

كتب سماوي: كتب سماوى سے منہ پھرنا ۱۴; كتب سماوى كا ضرورى وابستگى ہونا۱۳; كتب سماوى كو قبول كرنے ميں تجزى بعض تعليمات كے قبول اور بعض كے رد; كا قائل ہونا ۱۴; كتب سماوى كى تعليمات ۱۳

وَاتَّبَعُواْ مَا تَتْلُواْ الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيْاطِينَ كَفَرُواْ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُم بِضَآرِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُواْ لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ ( ۱۰۲ )

اوران باتوں كااتباع شروع كرديا جو شياطين سليمان كيسلطنت ميں جپا كرتے تھے حالانكہ سليمانكافر نہيں تھے _ كافر يہ شياطين تھے جولوگوں كوجادو كى تعليم ديتے تھے اور پھرجو كچھ دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر بابلميں نازل ہوا ہے _وہ اس كى بھى تعليم اسوقت تك نہيں ديتے تھے جب تك يہ كہہ نہيں ديتے تھے كہ ہم ذريعہ امتحان ميں خبردارتم كافر نہ ہو جاناليكن وہ لوگان سے وہباتيں سيكھتے جس سے مياں بيوى كے درميانجھگڑا كراديں حالانكہ اذن خدا كے بغير وہكسى كو نقصان نہيں پہنچا سكتے _ يہ ان سےوہ سب كچھ سيكھتے جو ان كے لئے مضر تھااور اس كا كوئي فائدہ نہيں تھا يہ خوبجانتے تھے كہ جو بھى ان چيزوں كو خريدےگا اس كا آخرت ميں كوئي حصہ نہ ہوگا _انھوں نے اپنے نفس كا بہت برا سودا كياہے اگر يہ كچھ جانتے اور سمجھتے ہوں (۱۰۲)

۱_ حضرت سليمانعليه‌السلام ايك ايسے پيامبر ہيں جن كے پاس حكومت و سلطنت تھي_على ملك سليمان

۲ _ شياطين نے حضرت سليمانعليه‌السلام پر جادوگرى كى تہمت لگائي _و ما كفر سليمان و لكن الشياطين كفروا

'' ما كفر سليمان _ سليمان نے كفر اختيار نہ كيا '' اس سے مراد حضرت سليمانعليه‌السلام سے جادوگرى كى نفى كرنا ہے _ ان جملوں ''و لكن الشياطين ...'' اور ''ما تتلوا الشياطين '' سے يہ معلوم ہوتاہے كہ حضرت سليمانعليه‌السلام پر جادوگرى كى تہمت شياطين كى طرف سے تھى جو مشہور ہوگئي_

۳۴۱

۳ _ شياطين نے حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانے كے لوگوں كو جادوگرى كے علوم سكھائے اور لوگوں كے لئے جادو كو پڑھ كر بيان كرتے_ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان يعلمون الناس السحر

'' تتلوا'' كا مصدر تلاوت ہے جس كا معنى پڑھنا اور قرا ت كرناہے آيت كے ما بعد كے مضمون كى روشنى ميں '' ما'' موصولہ سے مراد جادو اور اس طرح كى چيز ہے _'' تتلوا'' كا متعلق ''على الناس'' ہے اور اس كى دليل ''يعلمون الناس'' يعنى يہودى اس جادو كے پيروكار تھے جو شياطين لوگوں كے لئے بيان كرتے تھے_

۴ _ شياطين حضرت سليمانعليه‌السلام اور انكى الہى حكومت كے مخالف تھے _ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان

''على ملك سليمان _ سليمان كى حكومت كے مخالف '' يہ ''تتلوا'' كے مفعول محذوف كے لئے حال ہے يعنى جو جادو لوگوں كے لئے بيان كرتے تھے وہ حضرت سليمانعليه‌السلام كى سلطنت كے خلاف تھا_

۵ _ حضرت سليمانعليه‌السلام كو سلطنت ملنا شياطين كى نظر ميں يہ سحر اور جادو كا كمال تھا_على ملك سليمان و ما كفر سليمان

شياطين جو جادو كے علم كى تحريريں لوگوں كے لئے حضرت سليمانعليه‌السلام كى حكومت كے برخلاف پڑھتے تھے اس چيز كے بيان كے بعد حضرت سليمانعليه‌السلام سے جادوگرى كى نفى كرنااس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ شياطين يہ ظاہر كرتے تھے كہ جو كچھ بيان كرتے يا تلاوت كرتے ہيں يہ وہى كچھ ہے جس نے سليمان (عليہ السلام) كو سلطنت تك پہنچايا ہے اس طرح وہ حضرت سليمانعليه‌السلام كى نبوت كى نفى كے درپے تھے_

۶ _ حضرت سليمانعليه‌السلام جادوگرى اور كفر كى طرف رجحانات سے منزہ و مبرا تھے_و ما كفر سليمان

۷ _ جادو كا استعمال گناہ كبيرہ اور كفر كے برابر ہے_و ما كفر سليمان

يہ بات گزرچكى ہے كہ اس جملہ سے مراد حضرت سليمانعليه‌السلام سے جادوگرى كى نفى كرناہے ليكن يہ جو جادوگرى كو كفر اختيار كرنے سے تعبير كيا گيا ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ جادوگرى بھى ايك طرح كا كفر ہے يا پھر ايسا گناہ ہے جو كفر كے برابر ہے_

۳۴۲

۸_ الہى حكومت كى مخالفت اور اس كے خلاف سرگرم عمل ہونا حرام ہے _واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان

۹ _ جادو كى تعليم دينے كے ذريعے شياطين كا كفر اختيار كرنا_و لكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر

۱۰_ حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانے ميں جادو رائج تھا_ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان يعلمون الناس السحر

۱۱ _ بعض يہوديوں نے شياطين كى طرف سے سكھائے گئے جادو كى طرف رغبت پيدا كى اور انہوں نے جادو سيكھنا شروع كيا _واتبعوا ما تتلوا الشياطين

'' اتبعوا'' كى ضمير '' فريق من الذين اوتوا الكتاب'' كى طرف لوٹتى ہے _

۱۲ _ حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانہ كے يہودى شياطين كے جادو كى پيروى كرتے ہوئے آپعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف سرگرم عمل رہے _ *واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ'' اتبعوا'' كا فاعل حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانہ كے يہودى ہوں _

۱۳ _ پيامبر اسلام (ص) كے خلاف نبرد آزمائي كے لئے يہودى تورات كى بشارتوں كا انكار كرنے كے علاوہ سحر اور جادو سے بھى مدد ليتے تھے_

نبذ فريق كتاب الله وراء ظهورهم و اتبعوا ما تتلوا الشياطين

آيہ ما قبل ميں جملہ '' نبذ فريق'' ، '' لما جاء ہم'' كے بعد اس مطلب كو پہنچاتاہے كہ يہوديوں نے آنحضرت (ص) كے بارے ميں تورات كى بشارتوں كو نظر انداز كيا تا كہ حضور (ص) كى رسالت كا انكار كريں _ جملہ''اتبعوا ...'' كا ''نبذ فريق'' پر عطف بھى اسى معنى پر دلالت كرتاہے كہ جادو كے پيچھے جانا بھى اسى مقصد كے لئے تھا_

۱۴ _ ہاروت و ماروت وہ فرشتے ہيں جو سرزمين بابل پر ساكن ہيں _و ما انزل على الملكين ببابل هاروت و ماروت

'' ببابل '' محذوف سے متعلق اور ''الملكين'' كے لئے حال ہے يعنى '' الملكين كا ئنين ببابل'' بہت سے مفسرين نے كہا ہے كہ بابل عراق كا ايك شہر ہے جو دريائے فرات كے كنارے اور حلہ كے قريب واقع ہے _

۱۵_ ہاروت و ماروت نے بابل كے لوگوں كو جادو سكھايا_و ما انزل على الملكين و ما يعلمان من احد

۱۶ _ ہاروت و ماروت نے جادو كا علم اللہ تعالى سے حاصل كيا *و ما انزل على الملكين ببابل هاروت و ماروت

۳۴۳

۱۷ _ يہوديوں نے ہاروت اور ماروت كى تعليمات كو ليتے ہوئے پيامبرعليه‌السلام كےخلاف صف آرائي كى _

اتبعوا ما تتلوا و ما انزل على الملكين ببابل هاروت و ماروت

'' ما انزل '' ، '' ما تتلوا ...'' پر عطف ہے يعنى :اتبعوا ما تتلوا الشياطين و اتبعوا ما انزل على الملكين _

۱۸ _ ہاروت اور ماروت اپنى تعليمات ( جادو كا سكھانا ) كو لوگوں كے لئے آزمائش سمجھتے تھے اور لوگوں كو متنبہ كرتے تھے_و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنه

۱۹_ ہاروت اور ماروت نے لوگوں كو جادو كى تعليم دينے سے پہلے اسكے غير صحيح استعمال اور سوء استفادہ سے منع كيا _

و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة فلا تكفر

۲۰_ جادو كا استعمال اور اس سے سوء استفادہ انسان كو دائرہ كفر كى طرف لے جاتاہے_انما نحن فتنة فلا تكفر

۲۱ _ غير آشنا علوم كى تعليم دينے والوں كو چاہيئے كہ ان علوم كے سيكھنے والوں كو ان كے نقصانات سے آگاہ اور اسكے سوء استفادہ سے روكيں _و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة فلا تكفر

۲۲ _ شاگردوں كو علوم كى تعليم ديتے وقت ان ميں احساس ذمہ دارى پيدا كرنے كى كوشش كرنا ضرورى ہے _

و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة فلا تكفر

۲۳ _ اعمال كے نيك اور ناپسنديدہ ہونے ميں ہدف اور نيت كى اہميت _و لكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة

دو فرشتوں (ہاروت ، ماروت) كے برخلاف شياطينكو جادو سكھانے كى وجہ سے كافر كہا گيا كيونكہ شياطين كے جادو سكھانے كا مقصد فساد و تباہى پھيلانا تھا جبكہ دو فرشتوں كا ہدف اور محرك فساد كو روكنا تھا_

۲۴ _ سرزمين بابل كے لوگوں نے ہاروت اور ماروت سے جادو سيكھاتا كہ اسكے ذريعے مياں بيوى ميں جدائي ڈاليں _

فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء و زوجه

۲۵ _ جادو كے علم كو رائج كرنے ميں بابل كے عوام كا كردار اور اہميت_

فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء و زوجه

۲۶ _ جادو كى تاثير اور اسكا نقصان پہنچانا اذن خدا سے ممكن ہے _

۳۴۴

و ما هم بضارين به من احد الا باذن الله

۲۷ _ عالم ہستى ميں كوئي بھى كام يا تحرك اللہ تعالى كے اختيار اور ارادہ كے بغير ممكن نہيں ہے _

ما هم بضارين به من احد الا باذن الله

۲۸_ مياں بيوى ميں جادو كے ذريعے جدائي ڈالنا يہ گناہ كفر كے برابر ہے _

انما نحن فتنة فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء و زوجه

۲۹_ مسحور شدہ انسانوں كى روح اور افكار پر جادو كا اثر _يفرقون به بين المرء و زوجه

۳۰_ مياں بيوى ميں جدائي ڈالنے كا نقصان خود انہى لوگوں كے ليئے ہے _ما يفرقون به بين المرء و زوجه و ما هم بضارين ...الا باذن الله

۳۱ _ مياں بيوى ميں جدائي ڈالنا ناپسنديدہ اور حرام فعل ہے_ما يفرقون به بين المرء و زوجه و ما هم بضارين ...الا باذن الله

۳۲ _ سرزمين بابل كے عوام نے ہاروت اور ماروت سے ايسے جادو، ٹونے سيكھے جنكا نتيجہ ان كے لئے نقصان كے علاوہ كچھ نہ تھا_يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۳ _ بعض جادو نقصان دہ اور بعض فائدہ مند ہيں _يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۴_ لوگوں كو نقصان پہنچانے كے لئے جادو كے اعمال بجالانا يا فساد و بربادى پھيلانے كے لئے جادو سيكھنا حرام ہے اور اسكا گناہ كفر كے برابر ہے _فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء و زو جه و يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۵ _ نقصان دہ اور بے فائدہ علوم سيكھنا حرام ہے _و يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۶ _ لوگوں كو فائدہ پہنچانے كے لئے جادو كا علم سيكھنا جائز ہے _و يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۷_ فرشتوں كا جسمانى حالت ميں آنا اس طرح كہ لوگ ان كا مشاہدہ كرسكيں ممكن ہے _و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة

۳۸_ فرشتے لوگوں ميں حاضر ہو كر ان كو تعليم دے سكتے ہيں _و ما يعلمان من احدحتى يقولا فيتعلمون منهما و يتعلمون ما يضرهم

۳۹_ شياطين ( جنّ) جسم بننے اور ديكھے جانے كى صلاحيت ركھتے ہيں *يعلمون الناس السحر

۳۴۵

۴۰_ جو لوگ جادو كو ناچيز فائدہ اٹھانے اور نقصان پہنچانے كے لئے سيكھتے ہيں آخرت كى نعمتوں سے محروم ہوجائيں گے _و لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق

'' اشتراہ'' كى مفعولى ضمير '' ما يضرہم و لا ينفعہم'' كى طرف لوٹتى ہے جس كا مطلب نقصان دہ جادو ہيں _

۴۱ _ يہوديوں نے اس بات كے جاننے كے باوجود كہ جادو سيكھنے سے وہ آخرت كى تمام نعمتوں سے محروم ہوجائيں گے ، جادو سيكھا _و لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق

''خلاق'' كا معنى بہت زيادہ منافع اور اچھا حصہہے ''خلاق'' كو نكرہ استعمال كرنا اور اس كے ساتھ '' من'' زائدہ كا استعمال قلت پر دلالت كرتاہے _ ظاہراً ''علموا'' كى ضمير يہوديوں كى طرف لوٹتى ہے_

۴۲ _ عالم آخرت نيكيوں اور نعمتوں سے پرُ ہے _و ما له فى الاخرة من خلاق

۴۳ _ يہوديوں نے نقصان دہ جادو سيكھ كر خود كو تباہ كيا اور بہت بُرى قيمت وصول كى _

ما له فى الاخرة من خلاق و لبئس ما شروا به أنفسهم

۴۴ _ انسان كى جان كے مقابل بہت ہى قابل قدر قيمت صرف آخرت كى نعمتوں كا حصول ہے_

ما له فى الاخرة من خلاق و لبئس ما شروا به أنفسهم

جملہ '' لقد علموا ...'' كو جملہ ''لبئس ...'' كے ساتھ ملانے سے يہ معنى نكلتاہے كہ انسان اگر آخرت كو كھودينے كى قيمت دنياوى منافع كا حصول قرار دے تو اس نے خود كو بہت ہى برُى قيمت پر بيچا ہے اور خود كو تباہ كرلياہے پس فقط جو چيز انسان كو زياں كار ہونے سے بچا سكتى ہے وہ آخرت كا حصول ہے_

۴۵ _ آخرت كى نعمتوں سے محروميت كے باعث انسان تباہ ہوجاتاہے _

ما له فى الاخرة من خلاق و لبئس ما شروا به أنفسهم

۴۶ _ يہودى اپنے نقصان دہ سودے (آخرت كو كھوكر جادو كے فوائد كا حصول ) سے ناآگاہ ہيں _

لبئس ما شروا به أنفسهم لو كانوا يعلمون

'' دنياوى مفادات كے مقابل آخرت كى نعمتوں كو بيچنا'' يہ '' يعلمون'' كے لئے ماقبل والے جملہ كى روشنى ميں مفعول ہے _ يعنى اے كاش جانتے ہوتے كہ يہ لين دين ان كے لئے نقصان دہ ہے اور بے سود_

۴۷_ آخرت كو كھودينے كے مقابل دنياوى مفادات كا حصول نقصان دہ سودا ہے _لبئس ما شروا به أنفسهم

۴۸ _ جادوگر يہوديوں كى نظر ميں اخروى منافع پر دنياوى مفادات ترجيح ركھتے ہيں _

۳۴۶

لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق و لبئس ما شروا به أنفسهم لو كانوا يعلمون

اگر كوئي جانتاہو كہ ناجائز منافع اور مفادات كا حصول آخرت كو كھودينے سے ہوتاہے ( لقد علموا ...) ليكن اس كے باوجود اس لين دين كے نقصان دہ ہونے پر عقيدہ نہ ركھتاہو (لوكانوا يعلمون) تو معلوم ہوتاہے كہ يہ شخص دنياوى مفادات كو آخرت پر ترجيح ديتاہے_

۴۹_ جادوگر يہودى باوجود اس كے كہ انہيں عالم آخرت سے محروم ہونے كا اطمينان تھا اپنى اسى محروميت كا انكار كرتے تھے_لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق

جملے كو لام قسم '' لقد'' اور لام تاكيد '' لمن'' سے تاكيد كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ جادوگر يہودى جس حقيقت كا علم ركھتے تھے اسى كا انكار كرتے تھے كيونكہ جملے كى تاكيد غالباً ايسے موارد ميں ہوتى ہے كہ جہاں اس كا مضمون مورد انكار ہو_

۵۰_ عالم آخرت پہ علم اورا يمان ہونا اوراس كے مطابق عمل نہ كرنا جہالت و بے ايمانى كے مترادف ہے _

لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الآخرة من خلاق لو كانوا يعلمون

يہ مطلب اس بناپر ہے اگر''لوكانوا يعلمون ''كا ارتباط ''لقد علموا ...'' سے ہو_ بنابرين ''يعلمون'' كا مفعول '' جادوگر كى عالم آخرت سے محروميت'' ہوگا _يہ جو خداوند عالم ايك طرف ان كو عالم ''لقد علموا'' اور دوسرى طرف جاہل '' لوكانوا يعلمون'' قرار ديتا ہے گويا اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ علم و ايمان كا ہونا اور ان كے مطابق عمل كا نہ ہونا جہالت اور بے ايمانى كے برابر ہے _

۵۱ _ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا ''فلما هلك سليمان وضع ابليس السحر و كتبه فى كتاب ثم طواه و كتب على ظهره هذا ما وضع آصف بن برخيا لملك سليمان بن داود من ذخاير كنوز العلم من اراد كذا و كذا فليفعل كذا و كذا'' ثم دفنه تحت السرير ثم استشاره لهم فقرأه فقال الكافرون ما كان سليمان عليه‌السلام يغلبنا الا بهذا و قال المومنون بل هو عبدالله و نبيّه فقال الله جل ذكره ''واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان و ما كفر سليمان ولكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر ...''

۳۴۷

(۱) جب حضرت سليمانعليه‌السلام كى وفات ہوئي تو ابليس نے جادو كى بنياد ركھى اس نے ايك تحرير لكھى پھر اسے طے كيا اور اس پر لكھا '' اسے آصف بن برخيا نے حضرت سليمان بن داؤد كى حكومت برپا كرنے

كے لئے وضع كيا اس ميں علم كے ذخائر موجود ہيں تو جو ايسے ايسے كرنا چاہے تو وہ ايسا ايسا كرے پھر ابليس نے اس تحرير كو حضرت سليمانعليه‌السلام كے تخت كے نيچے چھپا ديا پھر اسكو نكالا اور سب كے سامنے پڑھا پس اس اجتماع ميں كافروں نے كہا سليمانعليه‌السلام تو فقط اسى جادو كے ذريعے ہم پر غالب آئے اور حكومت كى جبكہ مومنين نے كہا ہرگز ايسا نہيں بلكہ وہ اللہ كے بندے اور پيامبرعليه‌السلام تھے _ پس اللہ تعالى فرماتاہے''واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان و ما كفر سليمان و لكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر ...''

۵۲ _ اللہ تعالى كے اس كلام (و ما انزل على الملكين ببابل هاروت وماروت )كے بارے ميں امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا ''و كان بعد نوح عليه‌السلام قد كثر السحرة ''(۱)

حضرت نوحعليه‌السلام كے بعد دھوكا باز جادوگر بہت زيادہ ہوگئے تو اللہ تعالى نے اس زمانہ كے نبىعليه‌السلام كى طرف دو فرشتوں كو بھيجا تا كہ اس نبىعليه‌السلام كو جادوگروں كے جادو كے طريقے اور اس جادو كو باطل و ناكارہ كرنے كے طريقے سكھائيں _ پس اس پيامبرعليه‌السلام نے جادو كے طريقے سيكھے اور اللہ تعالى كے حكم سے بندگان خدا كو بھى يہ طريقے سكھائے اور ان سے كہا كہ جادوگروں كے جادو كو روكو اور اسكو ناكارہ كردو( ساتھ ہى ساتھ) اس نبىعليه‌السلام نے لوگوں پر جادو كرنے سے ان كو منع كيا

____________________

۱) تفسير قمى ج/ ۱ ص ۵۵ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۱ ح ۳۰۳_

۳۴۸

اور (كلام خدا وندى ميں ارشاد ہے ) '' وہ دو فرشتے كسى كو بھى جادو كى تعليم نہ ديتے مگر يہ كہ اس سے قبل كہتے ہم آزمائش كا ذريعہ ہيں '' يعنى يہ كہ اس نبىعليه‌السلام نے ان دوفرشتوں كو حكم ديا كہ تم بشرى صورت ميں ظاہر ہوجاؤ اور جو كچھ اللہ تعالى نے تم كو جادو اور اسكو ناكارہ كرنے كے بارے ميں سكھاياہے وہ تم لوگوں كو سكھاؤ پس اللہ عزوجلّ نے ان كو فرمايا جادو كے ذريعے ، دوسروں كو نقصان پہنچاكر ، لوگوں كو يہ كہہ كر كہ ہم بھى زندہ كرنے اور مارنے كى طاقت ركھتے ہيں اور يہ كہ ہم وہ كام كرسكتے ہيں جو فقط اللہ تعالى انجام دے سكتاہے ( ايسے اظہارات سے ) كہيں كافر نہ ہوجانا اور اللہ تبارك و تعالى كا ارشاد ہے ''و ما هم بضارين به من احد الا باذن الله'' يعنى وہ جنہوں نے جادو سيكھا تھا وہ بھى اللہ تعالى كے علم اور اذن كے بغير كسى كو نقصان نہيں پہنچاسكتے تھے كيونكہ اگر اللہ تعالى چاہتا تو ان كو زبردستى روك سكتا تھا مزيد ارشاد بارى تعالى ہے '' وہ جادو كے علوم سے ايسى چيزيں سيكھتے تھے جو ان كے نقصان ميں تھيں نہ كہ فائدہ ميں ''يعنى يہ كہ ايسى چيزيں سيكھتے تھے جو ان كے دين كے لئے ضرر رساں ہو اور اس ميں كوئي فائدہ نہ ہو نيز ارشاد رب العزت ہے '' و لقد علموا لمن اشتراہ ما لہ فى الاخرة من خلاق'' كيونكہ ان كا عقيدہ تھا كہ آخرت نام كى كوئي چيز وجود نہيں ركھتى پس جب ان كا عقيدہ يہ تھا كہ جب آخرت ہى نہيں ہے تو پھر اس دنيا كے بعد كوئي چيز نہ ملے گي_ ليكن فرضاً اس دنيا كے بعد اگر آخرت ہو تو يہ لوگ اپنے كفر كى بناپر آخرت كى نعمتوں سے محروم ہوں گے ...''

۵۳ _ عمرو بن عبيد كہتے ہيں ميں حضرت امام صادقعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا تو عرض كيا كہ ميں گناہان كبيرہ كو قرآن حكيم سے پہچاننا چاہتاہوں تو امامعليه‌السلام نے فرمايا''والسحر لان الله عزوجل يقول و لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق ''(۱)

____________________

۱) عيون اخبار الرضاعليه‌السلام ج/ ۱ ص ۲۶۷ ح۱باب ۲۷، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۰۷ ح ۲۹۴_

۲) اصول كافى ج/ ۲ ص۲۸۵ ح ۲۴ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۰ ح ۲۹۷_

۳۴۹

گناہان كبيرہ ميں سے ايك جادو ہے كيونكہ اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے'' يقينا وہ لوگ جانتے تھے كہ جو كوئي اس متاع (جادو) كو خريدے گا اسے آخرت ميں كچھ نہ ملے گا_

آخرت: آخرت كى خصوصيات۴۲

آخرت فروشي: آخرت فروشى كا نقصان ۴۷

احكام : ۸،۳۱،۳۴،۳۵،۳۶

اختلاف ڈالنا: جادو سے اختلاف ڈالنا ۲۸; اختلاف ڈالنے كى سرزنش ۳۱; اختلاف ڈالنے كا گناہ ۲۸

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا اذن ۲۶، ۲۷

امتحان : امتحان كا ذريعہ۱۸

انسان: انسان كى قدر و منزلت ۴۴; انسان كى تباہى كے معيارات ۴۵

ايمان: آخرت پر ايمان ۵۰; بغير عمل كے ايمان ۵۰; ايمان كا متعلق ۵۰

بابل: اہل بابل اورجادو ۱۵، ۲۴، ۲۵،۳۲; بابل ميں جادو كى تعليم ۱۳

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كے دشمن ۱۳،۱۷

تعليم: تعليم دينے كے آداب ۲۱، ۲۲

تغييرات: تغييرات كا سرچشمہ ۲۷

توحيد : توحيد افعالى ۲۷

تورات: تورات كى بشارتوں كو جھٹلانا ۱۳

جادو : جادو سے استفادہ كے نتائج ۲۰; جادو سيكھنے كے نتائج ۴۱; نقصان دہ جادوكى تعليم حاصل كرنے كے نتائج ۴۳; مياں بيوى كى جدائي ميں جادو كے اثرات ۲۴، ۲۸; جادو سے سوء استفادہ كے نتائج ۴۰; جادو كے احكام ۳۴، ۳۶; جادو سے استفادہ ۳۶; جادو سے نقصان پہنچانا ۳۴،۴۰; جادو كى اقسام ۳۳; جادو كى ايجاد ۵۱; جادو كى تاثير ۲۹; جادو كى تاريخ ۱۵، ۲۵،۵۲; جادو سيكھنا ۳۶، ۴۰ ;

۳۵۰

جادو سكھانا ۳،۹،۱۱،۱۵ ، ۵۲; حضرت نوحعليه‌السلام كے بعد جادو ۵۲; جادو حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانے ميں ۳،۱۰; جادو اور كفر ۷،۲۸،۳۴; نقصان دہ جادو ۳۲،۳۳; فائدہ مند جادو ۳۳; مباح جادو ۳۶; جادو كا نقصان ۲۶; جادو سے ناجائز فائدہ اٹھانا۱۹،۲۰; جادو پھيلنے كے عوامل ۲۵; جادو كى سزا ۵۳; جادو كى تعليم دينے كا گناہ ۳۴; جادو كا گناہ ۷،۵۳; جادو كى تاثير كا سرچشمہ ۲۶

جنات: جنات كا مجسم ہونا ۳۹; جنات كا مشاہدہ ۳۹

جہالت: جہالت كے موارد ۵۰

حضرت سليمانعليه‌السلام : حضرت سليمانعليه‌السلام كا منزہ ہونا ۶; حضرت سليمانعليه‌السلام پر جادوگرى كا الزام ۲; حضرت سليمانعليه‌السلام كى حكومت ۱،۴،۵۱; حضرت سليمانعليه‌السلام كے دشمن ۴; حضرت سليمانعليه‌السلام اور جادو ۶; حضرت سليمانعليه‌السلام اور كفر ۶; حضرت سليمانعليه‌السلام كا واقعہ ۲،۵; حضرت سليمانعليه‌السلام كى نبوت ۱

حكومت : دينى حكومت سے دشمنى كا حرام ہونا ۸

خاندان: خاندانى اختلاف ۳۱; خاندانى اختلاف كے عوامل ۲۴; خاندانوں ميں اختلاف ڈالنے كا گناہ ۲۸

دنياطلبي: دنياطلبى كا نقصان ۴۷

روايت:۵۱،۵۲،۵۳

روش و كردار: پسنديدہ كردار كے معيارات۲۳; ناپسنديدہ كردار كے معيارات۲۳

زوجہ و شوہر: زوجہ و شوہر ميں اختلاف ڈالنے كى حرمت ۳۱; زوجہ و شوہر كى جدائي كا نقصان ۳۰

سيكھنا : حرام سيكھنا ۳۴،۳۵

شاگردان: شاگردوں ميں ذمہ دارى پيدا كرنا ۲۲

شياطين : شياطين كا مجسم ہونا ۳۹; شياطين كى تعليمات ۳،۹،۱۱; شياطين كا جادو۱۲; شياطين كى دشمنى ۴; شياطين كا مشاہدہ ۳۹; شياطين اور جادو۵; شياطين اور حضرت سليمانعليه‌السلام ۲،۴،۵; شياطين كا كفر ۹

علم: نقصان دہ علم سيكھنا ۳۵

فساد و تباہى پھيلانا :

۳۵۱

جادو سے فساد پھيلانا ۳۴

كفر: كفر كى بنياد۲۰; كفر كے موارد ۵۰

گناہان كبيرہ: ۷،۵۳

لين دين : نقصان دہ لين دين ۴۷

ماروت: ماروت بابل ميں ۱۴; ماروت اور جادو كا سيكھنا ۱۶; ماروت اور جادو كى تعليم دينا ۱۵،۱۸،۱۹ ، ۲۴; ماروت كا معلم ۱۶; ماروت كى تنبيہا ت ۱۸،۱۹

محرمات : ۸،۳۱،۳۴

معلم (استاد): معلم كى ذمہ دارى ۲۱،۲۲

ملائكہ: ملائكہ كا مجسم ہونا ۳۷; ملائكہ سے سيكھنا ۳۸; ملائكہ كا تعليم دينا ۳۸;ملائكہ كو ديكھنا ۳۷; بابل كے ملائكہ ۱۴

ناآشنا علوم: ناآشنا علوم كا نقصان ۲۱; ناآشنا علوم سے ناجائز فائدہ اٹھانا۲۱; ناآشنا علوم كے شاگردوں كو تنبيہ ۲۱

نعمت : اخروى نعمتوں كو حاصل كرنا ۴۴; اخروى نعمتوں سے محروم افراد ۴۰،۴۱،۴۹; اخروى نعمتوں سے محروميت ۴۵،۴۶،۴۹ ; اخروى نعمتوں كى بہتات اور فراواني۴۲

نيت: نيت كى اہميت ۲۳

واقعات: واقعات كا سرچشمہ ۲۷

ہاروت : ہاروت كا استاد۱۴; ہاروت بابل ميں ۱۴; ہاروت اور جادو سيكھنا ۱۶; ہاروت اور جادو كى تعليم دينا ۱۵،۱۸،۱۹، ۲۴; ہاروت كى تنبيہات ۱۸،۱۹

يہود: يہوديوں كى آخرت فروشى ۴۸; يہوديوں كى آگاہى ۴۱،۴۹; يہوديوں كى بصيرت ۴۸; يہوديوں كا شياطين كى پيروى كرنا ۱۲; يہوديوں كا ماروت كى پيروى كرنا ۱۷; يہوديوں كا ہاروت كى پيروى كرنا ۱۷; يہوديوں كى جادوگرى ۱۱،۱۳; يہوديوں كى جہالت ۴۶; يہوديوں كى خودفروشى ۴۳; يہوديوں كى حضرت سليمانعليه‌السلام سے دشمنى ۱۲; يہوديوں كى دنياطلبى ۴۸; يہوديوں كى روش پيكار ۱۳،۱۷; يہوديوں كا زياں كار ہونا ۴۶; يہوديوں كى محروميت ۴۹; جادوگر يہود۴۸،۴۹; حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانہ كے يہود ۱۲; يہودى اور جادو سيكھنا ۴۱،۴۳; يہود اور حضرت سليمانعليه‌السلام ۱۲

۳۵۲

وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُواْ واتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِّنْ عِندِ اللَّه خَيْرٌ لَّوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ ( ۱۰۳ )

اگر يہ لوگ ايمان لے آتے اور متقيبن جانے تو خدائي ثواب بہت بہتر تھا _اگر ان كى سمجھ ميں آجاتا (۱۰۳)

۱ _ اللہ تعالى كى جانب سے بہت ہى تھوڑى جزا بھى دوسرى كسى بھى منفعت يا سود سے كہيں زيادہ افضل اور قدر وقيمت والى ہے _لمثوبة من عند الله خير

''مثوبة'' كا معنى جزا كا ہے _ '' بہت ہى كم '' كى صفت كا مفہوم ''مثوبة'' كو نكرہ استعمال كرنے سے معلوم ہوتا ہے '' خير'' كا مفضل عليہ بھى ذكر نہيں ہوا تا كہ ہر چيز كو شامل ہوجائے _ پس ''خير'' يعنى ہر تصور كى جانے والى منفعت يا نفع سے بہتر _

۲ _ اللہ تعالى كى جزائيں ايمان اور تقوى ( گناہوں سے پرہيز) كى نگہداشت كرنے سے حاصل ہوتى ہيں _

و لو انهم آمنوا واتقوا لمثوبة من عند الله خير

۳_ ايمان گناہوں سے پرہيز كے بغير اور گناہوں سے اجتناب ايمان كے بغير ہو تو الہى جزاؤں سے بہرہ مند ہونا ممكن نہيں _و لو انهم آمنوا و اتقوا لمثوبة

۴ _ يہود اگر پيامبر اسلام (ص) اور قرآن حكيم پر ايمان لائيں اور گناہوں ( جادو، آسمانى كتابوں سے بے اعتنائي و غيرہ ) سے پرہيز كريں تو الہى جزاؤں (نعمتوں ) سے بہرہ مند ہوں گے _و لو انهم آمنوا و اتقوا لمثوبة من عند الله خير

آيات ۹۹، ۱۰۱ كے قرينہ سے '' انھم'' كى ضمير سے مراد پيامبر اكرم (ص) اور قرآن كو جھٹلانے والے يہود ہيں _ قابل توجہ ہے كہ جملہ ''لمثوبة ...'' جواب شرط كا قائم مقام ہے اور جواب اسى طرح كا جملہ ہے '' لا ثيبوا _ يقينا انہيں اجر ديا جائے گا ''_

۵ _ زمانہ بعثت كے يہود دنيا سے دلبستگى اور پہلے سے موجود فسق و فجور كى وجہ سے ايمان و تقوى كى بنياديں كھوچكے تھے__

لبئس ما شروا به أنفسهم و لو انهم آمنوا واتقوا لمثوبة من عند الله خير

جملہ'' و لو انھم ...'' ميں '' لو'' امتناعيہ كا استعمال اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ يہوديوں كا ايمان لانا اور جادو جيسے گناہوں سے

۳۵۳

اجتناب كرنا ايك مشكل يا ممتنع امر ہے_ ماقبل آيات جن ميں يہوديوں كى دنيا سے شديد دلبستگى اور ان كے فاسق ہونے كا ذكر ہے ممكن ہے كہ ان كى اس نفسيات كے پيدا ہونے كى دليل كا بيان ہو_

۶_ اللہ تعالى چاہتاہے كہ لوگ دنياوى منافع يا مفادات كے مقابل الہى جزاؤں كى قدرو منزلت سے آگاہ ہوں _

لمثوبة من عند الله خير لو كانوا يعلمون

'' لو كانوا يعلمون'' ميں '' لو'' تمنا كا معنى ديتاہے اور اللہ تعالى كے بارے ميں تمنا يعنى اس كا تشريعى ارادہ ہے _ '' يعلمون'' كا مفعول وہ تمام حقائق ہيں جن كا ماقبل كے جملوں ميں ذكر ہوا ہے ان ميں سے ايك چيز الہى جزا كا ديگر دنياوى منافع سے افضل ہونا ہے يعني:ليت هم يعلمون ان مثوبة الله خير

۷ _ الله تعالى چاہتا ہے كہ لوگ الہى جزاؤں كے ايمان او رتقوى كے ساتھ مربوط اور وابستہ ہونے سے آگاہ ہوجائيں _

و لو انهم آمنوا و اتقوا لمثوبة لو كانوا يعلمون

اس مطلب ميں ''يعلمون'' كا مفعول وہ حقيقت ہے جو جملہ شرطيہ '' لو انھم ...'' بيان كررہاہے يعني:ليت هم يعلمون ان مثوبة الله مشروط بالايمان والتقوى

۸ _ فقط علماء اور دانش مند افراد ہيں جو الہى جزاؤں كے ايمان اور تقوى سے مربوط ہونے اور ان جزاؤں كى ہر ديگر منفعت پر فضيلت و برترى كو درك كرتے ہيں _لمثوبة من عند الله خير لو كانوا يعلمون

ممكن ہے ''يعلمون'' فعل لازم ہو اور اس كو مفعول كى ضرورت نہ ہو _ اس بناپر اس كا معنى يہ ہوگا اے كاش اہل علم اور دانش مند ہوتے جو ان حقائق كا ادراك كرتے _

۹ _ الہى جزاؤں كى برترى اور قدر و منزلت سے انسانوں كى جہالت انہيں دنياوى مفادات كا گرويدہ كرديتى ہے اور ايمان وتقوى سے روك ديتى ہے_و لو انهم آمنوا و اتقوا لو كانوا يعلمون

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' لو'' شرطيہ ہو_ اس اعتبار سے مختلف احتمالات متصور ہيں ان ميں سے ايك يہ كہ''يعلمون'' كا مفعول الہى جزا كى برترى و فضيلت ہو اور جملہ ''و لو انھم آمنوا'' سے جواب شرط ليا جائے يعني: مطلب يوں ہو ''لوكانوا يعلمون ان ثواب اللہ خير لآمنوا و اتقوا_ اگر جانتے ہوتے كہ الہى جزا دنياوى منافع سے برتر ہے تو يقيناً ايمان لے آتے اور تقوى اختيار كرتے''_

اجر: اجر كے موجبات ۲،۳،۴،۷

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى جزاؤں كى قدر و منزلت۶،۸،۹; الہى جزائيں ۱; الہى جزاؤں كى شرائط ۲،۳ ، ۴ ، ۷ ، ۸

۳۵۴

ايمان: ايمان كے نتائج ۲،۳; ايمان كى اہميت ۷،۸; قرآن كريم پر ايمان ۴; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان ۴; بغير تقوى كے ايمان۳; ايمان كا متعلق ۴; ايمان كى ركاوٹيں ۵،۹

تقوى : تقوى كے نتائج ۲،۳; تقوى كى اہميت ۷،۸; تقوى بغير ايمان كے ۳; تقوى كى ركاوٹيں ۵،۹

جہالت: جہالت كے نتائج ۹

دنياطلبي: دنياطلبى كے نتائج ۵; دنياطلبى كے اسباب ۹

دنياوى وسائل: دنياوى وسائل كى قدر و قيمت ۶

علماء : علماء كى خصوصيات۸

فسق: فسق كے نتائج ۵

قدريں : ۶،۸ قدروں سے جہالت ۹

گناہ : گناہ سے اجتناب ۴

يہود: يہوديوں كے اسلام لانے كے نتائج ۴; يہوديوں كے تقوى كے نتائج۴; صدر اسلام كے يہوديوں كى دنياطلبى ۵; صدر اسلام كے يہوديوں كا فسق ۵

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( ۱۰۴ )

ايمانوالو راعنا ( ہمارى رعايت كرو )نہ كہاكرو ''انظرنا '' كہا كرو اور غور سے سناكرو اور ياد ركھو كافرين كے لئے بڑادردناك عذاب ہے ( ۱۰۴)

۱ _ '' راعنا'' كا لفظ اس بات كى سند ہے كہ يہودى پيامبر (ص) كى اہانت كرتے اور آنحضرت (ص) كا تمسخر اڑاتے تھے_لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا آنحضرت (ص) كے گفتگو كرتے ہوئے مسلمان بعض اوقات آپ (ص) سے تقاضا كرتے كہ ذرا مہلت ديں تا كہ آپ (ص) كى پہلى گفتگو كو سمجھ ليں اور اس مہلت كى درخواست كے لئے ''راعنا _ ہميں فرصت ديجئے '' كا لفظ استعمال كرتے تھے يہودى اس كلمے ميں كچھ تحريف كركے اس سے ايك نامناسب اور برا معنى مراد ليتے اور اسى سے پيامبر اسلام (ص) كو خطاب كرتے تھے_

۲ _ اللہ تعالى نے اہل ايمان كو '' راعنا'' كے لفظ سے پيامبر اسلام(ص) كو مخاطب كرنے سے منع فرمايا_

يا ايها الذين آمنوا لا تقولوا راعنا

۳۵۵

۳ _ اللہ تعالى نے اہل ايمان كو حكم ديا كہ پيامبر اسلام (ص) (سے مہلت مانگتے ہوئے ) '' راعنا'' كى بجائے ''انظرنا'' كہيں _لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا ''انظرنا'' كا معنى ہے ہميں مہلت ديجئے (مجمع البيان )

۴ _ ايسى گفتار و كردار سے اجتناب كرنا ضرورى ہے جس كے نتيجے ميں دشمن ناجائز فائدہ اٹھائے_

۵ _ نيك عمل كے لئے نيك نيت ہى كافى نہيں ہے _لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا

يہ واضح ہے كہ ''راعنا'' كہنے سے مسلمانوں كى كوئي برى نيت نہ تھى ليكن اللہ تعالى نے مسلمانوں كواس لفظ كے استعمال كرنے سے روكاتا كہ دشمن اس سے سوء استفادہ نہ كرسكيں _

۶ _ ايسے الفاظ اور كلمات جن سے دينى مقدسات كى توہين ہوتى ہو ان سے پرہيزكرنا اور دوسرے لوگوں كو روكنا ضرورى ہے _لا تقولوا راعنا

۷ _ ايسے كلام يا گفتگو سے اجتناب ضرورى ہے جس ميں پيامبر اسلام (ص) كى اہانت يا تمسخر كا پہلو نكلتاہو_

لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا

۸ _ دينى قائدين كے احترام كا تحفظ ضرورى ہے _لا تقولوا راعنا

۹ _ آنحضرت (ص) كے كلام كو غور سے سننا اور جب آپ (ص) كلام فرمارہے ہوں تو خاموش رہنا ضرورى ہے _

و قولوا انظرنا و اسمعوا''سمع''كا معنى ممكن ہے غور سے سننا ہو يا فرمانبردارى يا اطاعت بھى ہوسكتاہے _ مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بناپر ہے _

۱۰_ پيامبر اكرم (ص) كے فرامين كو قبول كرنا اہل ايمان كى ذمہ دارى ہے _يا ايها الذين آمنوا اسمعوا

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''سمع'' كا معنى اطاعت كرنا ہو_

۱۱ _ كفر اختيار كرنے والے دردناك عذاب ميں مبتلا ہوں گے _و للكافرين عذاب اليم

۱۲ _ نبى اسلام (ص) كى اہانت كرنا يا تمسخر اڑانا كفر كا موجب ہے _لا تقولوا راعنا و للكافرين عذاب اليم

۱۳ _ زمانہ بعثت كے يہود كفر اختيار كرنے والے لوگ تھے_و للكافرين عذاب اليم

ما قبل آيات كى روشنى ميں كافرين كا ايك مصداق يہود ہيں _

۱۴ _ نبى اسلام كو نہ ماننے والے اور آنحضرت (ص) كا تمسخر اڑانے والے دردناك عذاب كے مستحق ہيں _

و للكافرين عذاب اليم

۳۵۶

۱۵ _عن جميل قال كان الطيار يقول لى فدخلت انا و هوعلى ابى عبدالله عليه‌السلام فقال الطيار جعلت فداك ارايت ما ندب الله عزوجل اليه المومنين من قوله '' يا ايها الذين آمنوا'' ادخل فى ذلك المنافقون معهم؟ قال نعم و الضلال و كل من اقربالدعوة الظاهرة ...'' (۱) جميل كہتے ہيں ميں اور طيار امام صادقعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے تو طيار نے حضرتعليه‌السلام كى خدمت ميں عرض كيا ميں آپعليه‌السلام كے قربان جاؤں كيا منافقين بھى اس آيت''يا ايها الذين آمنوا'' ميں شامل ہيں تو امامعليه‌السلام نے فرمايا ہاں بلكہ گمراہ اور ہر وہ شخص جس نے ظاہرى طور پر اسلام كو قبول كرلياہو اس آيت ميں شامل ہے ...''

۱۶ _ امام باقرعليه‌السلام نے فرمايا''هذه الكلمة سب بالعبرانية اليه كانوا يذهبون '' (۱)

يہ لفظ ''راعنا'' عبرانى زبان ميں گالى ہے اور يہود اسكو گالى كے طور پر استعمال كرتے تھے_

اسلام : صدر اسلام كى تاريخ ۱

اطاعت: نبى اسلام (ص) كى اطاعت۱۰

اقرار: اسلام كے اقرار كے آثار۱۵

اللہ تعالى : اوامر الہى ۳; اللہ تعالى كے نواہى ۲

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كے تمسخر كے نتائج ۱۲; پيامبر اسلام (ص) كى اہانت كے آثار۱۲; پيامبر اسلام (ص) كے ساتھ گفتگو كے آداب ۲،۳،۹; پيامبر اسلام (ص) ; كے تمسخر سے اجتناب ۷ ;پيامبر اسلام (ص) كى اہانت سے اجتناب ۷; پيامبر اسلام (ص) كى گفتگو غور سے سننا ۹; پيامبر اسلام (ص) كا تمسخر ۱; پيامبر اسلام (ص) كى اہانت ۱، ۱۲; پيامبر اسلام (ص) كى تاريخ ۱; پيامبر اسلام (ص) كے تمسخر كى سزا ۱۴

تكلم: تكلم كے آداب ۶،۷

دشمنان: دشمنوں كا سوء استفادہ كرنا۴

دينى قائدين : دينى قائدين كا احترام ۸

____________________

۱) كافى ج/ ۲ ص ۴۱۲ ح ۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۴ح ۳۰۷ ، ۳۰۸_

۲) مجمع البيان ج/ ۱ ص ۳۴۳، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۵ ح ۳۰۹_

۳۵۷

روايت: ۱۵،۱۶

سياست خارجہ : ۴

عذاب: اہل عذاب ۱۱،۱۴; دردناك عذاب ۱۱،۱۴; عذاب كے درجات ۱۱،۱۴; عذاب كے موجبات ۱۴

عمل صالح : عمل صالح كے معيارات ۵

كفار : ۱۳ كفار كو عذاب ۱۱

كفر: كفر كے نتائج ۱۴; نبى اسلام (ص) كے بارے ميں كفر كى سزا ۱۴; كفر كے موجبات ۱۲

گالي: راعنا كے لفظ سے گالى دينا ۱۶

مقدسات: مقدسات كى اہانت سے اجتناب ۶

منافقين : منافقين كا اسلام ۱۵

مؤمنين : مؤمنين كون لوگ؟ ۱۵; مؤمنين كى ذمہ دارى ۳،۱۰; مؤمنين كو تنبيہ ۲

نيت : نيت كے نتائج ۵

يہودي: يہوديوں كے تمسخر ۱; يہوديوں كى اہانتيں ۱; يہوديوں ميں گالى ۱۶; كافر يہوديوں كا عذاب ۱۴; صدر اسلام كے يہودى ۱،۱۳;

مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلاَ الْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَاللّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن يَشَاء وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( ۱۰۵ )

كافر اہل كتابيہود و نصا رى اور عام مشركين يہ نہيں چاہتے كہ تمھارے اوپر پروردگار كى طرف سےكوئي خير نازل ہو حالانكہ الله جسے چاہتاہے اپنى رحمت كے لئے مخصوص كرليتا ہے اورالله بڑے فضل و كرم كا مالك ہے (۱۰۵)

۱ _ اہل كتاب (يہود و نصارى ) اور مشركين و ہ لوگ ہيں جنہوں نے كفر اختيار كيا _

ما يود الذين كفروا من اهل الكتاب و لا المشركين

چونكہ''المشركين'' ، '' اہل الكتاب'' پر عطف ہے پس '' من اہل'' ميں '' من'' بيانيہ ہے _ بنابريں '' ما يود الذين كفروا '' يعنى وہ لوگ جو كافر ہوگئے ( مراد اہل كتاب اور مشرك ) نہيں چاہتے _

۳۵۸

۲ _ كفار ( يہود و نصارى اور مشركين) مسلمانوں پر انتہائي كم خير و بركت كے نزول سے بھى ناراضى ہيں _

ما يود الذين كفروا ان ينزل عليكم من خير ''خير'' كو نكرہ استعمال كرنا اور '' من'' زائدہ كا استعمال اس امر كى حكايت كرتاہے كہ مشركين مسلمانوں پر انتہائي كم خير و بركت كے نزول سے بھى خوش نہيں ہيں _

۳ _ انسانوں كے لئے خير و بركات كا سرچشمہ اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے _ان ينزل عليكم من خير من ربكم

۴ _ ذات اقدس بارى تعالى كى جانب سے خير و بركات كا نزول انسانوں پر اس كى ربوبيت كا ايك پرتو ہے_

ان ينزل عليكم من خير من ربكميہ مطلب لفظ '' رب'' سے استفادہ ہوتاہے_

۵ _ اسلام اور مسلمانوں كے ساتھ دشمنى ميں اہل كتاب كا مشركين كے ساتھ برابر ہونا ايك عجيب امر ہے اور ايك ايسا مسئلہ ہےجس كى توقع نہ تھي_

ما يودّ الذين كفروا من اهل الكتاب و لا المشركين ان ينزل عليكم من خير

يہوديوں كے لئے اہل كتاب كا عنوان استعمال كرنا ان كے توحيد و رسالت اور پرعقيدے كى حكايت كرتاہے اور ان كى مشركين جو اديان الہى كے كسى اصول پر عقيدہ نہيں ركھتے ان كے ساتھ شركت و برا برى يہ امور اشارہ ہيں كہ يہوديوں اور مشركين كا ارتباط غير معقول اور تعجب آور ہے _

۶ _ اللہ تعالى اپنى مشيت كى بناپر اپنى رحمت كو بعض انسانوں كے ساتھ مختص فرماديتاہے _

والله يختص برحمته من يشاء

۷ _ اللہ تعالى كے ہاں خاص رحمت ہے _والله يختص برحمته من يشاء

۸_ مومنين كے خير و بركت حاصل كرنے پر كفار كى ناراضگى اہل ايمان پر رحمت الہى كے خاتمے كا سبب نہيں بنے گى _ما يودّ الذين كفروا ان ينزل عليكم من خير من ربكم والله يختص برحمته من يشاء

۹_ اللہ تعالى كے ہاں بہت عظيم فضل و بخشش ہے _والله ذو الفضل العظيم

۱۰_ بندگان خدا پر خاص رحمت الہى كا نزول ان ميں پہلے سے موجود لياقت ، صلاحيت اور آمادہ زمين ہے _

والله يختص برحمته من يشاء و الله ذو الفضل العظيمواللہ يختص برحمتہ من يشاء كے بعد اللہ تعالى كى اس طرح تعريف كرنا كہ وہ انتہائي عظيم اور لا محدود فضل و بخشش كا مالك ہے يہ اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ يہ جو پرودرگار اپنى خاص رحمت سب كو عطا نہيں فرماتا اور اس كو اپنے خاص بندوں كے ساتھ مختص فرماتاہے اس كى وجہ رحمت كى كمى نہيں ہے بلكہ انسانوں ميں اس كى زمين فراہم نہيں ہے جو مخصوص رحمت كى كشش كا باعث بنے_

۳۵۹

۱۱ _ الہى مشيتوں ميں قانون و حكمت موجود ہے جو لاقانونيت اور بے ہودگى سے منزہ و مبرّا ہيں _

والله يختص برحمته من يشاء و الله ذو الفضل العظيم

۱۲ _روى عن اميرالمومنين عليه‌السلام وعن ابى جعفر الباقر عليه‌السلام ان المراد برحمته هنا النبّوة (۱)

امير المومنينعليه‌السلام اور امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ اس آيت ميں رحمت سے مراد نبوت ہے _

اسلام : دشمنان اسلام ۵

اسماء اور صفات: ذوالفضل العظيم ۹

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات۳; خاص رحمت الہى ۶،۷،۱۰; رحمت الہى ۸; نزول رحمت الہى كى شرائط ۱۰; فضل الہى كى عظمت ۹; مشيت الہى كا قانونى ہونا ۱۱; فضل الہى كے درجات ۹; مشيت الہى ۶; ربوبيت الہى كے مظاہر ۴

امور : تعجب آور امور ۵

اہل كتاب: اہل كتاب كى دشمنى ۵; اہل كتا ب كا كفر ۱

خير: خير كا سرچشمہ ۳،۴

رحمت : رحمت جن كے شامل حال ہوتى ہے ۶،۸،۱۰

روايت: ۱۲ عيسائي :

عيسائيوں كا كفر ۱; عيسائي اور مسلمانان۲; عيسائيوں كى ناراضگى ۲

كفار:۱ كفار اور مسلمان ۲; كفار كى ناراضگى ۲،۸

مسلمان : مسلمانوں كے دشمن ۵; مسلمانوں پر خير كا نزول ۲،۸

مشركين : مشركين كا اہل كتاب سے اتحاد ۵; مشركين كى دشمنى ۵;مشركين كا كفر ۱; مشركين كى ناراضگى ۲

نبوت: نبوت كى رحمت ۱۲

يہود: يہوديوں كا كفر ۱; يہوديوں كى ناراضگى ۲; يہود اور مسلمان ۲

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ ص ۳۴۴ ، نورالثقلين ج/۱ص ۱۱۵ ح ۳۱۰_

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689