البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314082 / ڈاؤنلوڈ: 9317
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

دفاع کیلئے لوگوں کی ایک جماعت کو اس طرح تیز کیا جائے گا جیسے لوہا ر تلوار کی باڑ تیز کرتا ہے ، قرآن سے ان کے باطن کی آنکھوں میں جلا پیدا کی جائیگی اس کے معانی و تفاسیر ان کے گوش گزار جاتی رہیں گی اور علوم و حکمت کے چھلکتے ہوئے ساغر انھیں صبح و شام پلائے جائیں گے _(۱)

اس خطبہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب کے زمانہ میں بھی لوگ ان حوادث کے واقع ہونے کے منتظر تھے جن کی خبر انہوں نے رسول(ص) سے سنی تھی ، ممکن ہے وہ غیبت کے زمانہ میں نہایت خفیہ طور پر زندگی بسر کریں گے لیکن کامل بصیرت سے مسلمانوں کے ضروری مسائل کو حل اور اسلام کے مرکز سے دفاع میں کوشش کریں گے مسلمانوں کی مشکلکشائی کریں گے ، گرفتاری بندوں کو آزادی دلائیں گے _ اور جو لوگ اسلام کی مسخ کنی کے لئے جمع ہوگئے تھے ان کو متفرق کریں گے اور ہر نقصان وہ تشکیل کو درہم کریں گے ، ضروری اور مفید انجمنوں کی تشکیل کے مقدمات فراہم کریں گے _ امام زمانہ کی برکت سے لوگوں کا ایک گروہ دین سے دفاع کے لئے تیار ہوگا اور اپنے امور میں قرآن کے علوم و معارف سے مددلے گا _

فہیمی: میں چاہتا تھا کہ آپ یہ ثابت کریں کہ ہم اہل سنُت کی احادیث میں وجود مہدی کو _ خصوصا آپ کے دیگر اسما جیسے قائم و صاحب الامر _ اس طرح کیوں بیاں نہیں کیا گیا ہے _ لیکن وقت چونکہ ختم ہونے والا ہے ، اس لئے آئندہ جلسہ میں اس موضوع پر بحث کی جائے تو بہتر ہے _

سب نے اس بات کی تائید کی اور یہ طے پایا کے آئندہ جلسہ ڈاکٹر صاحب کے گھر منعقد ہوگا _

____________________

۱_ نہج البلاغہ ج ۲ خطبہ ۱۴۶_

۲۰۱

خصوصیات مہدی (ع) اہل سنّت کی کتابوں میں

معمولی ضیافت اور گفتگو کے بعد جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی اور فہیمی صاحب نے اس طرح سوال اٹھایا:

شیعوں کی احادیث میں مہدی موعود کا وجود مشخص اور واضح ہے جبکہ اہل سنت کی احادیث میں مجمل و مبہم انداز میں آپ کا تذکرہ ملتا ہے _ مثلاً غیبت مہدی کا واقعہ آپکی اکثر احادیث میں پایا جاتا ہے جبکہ آپکی مسلّم علامتیں اور خصوصیات کا ہماری احادیث میں کہیں نام ونشان بھی نہیں ہے _ اس سلسلہ میں وہ بالکل خاموش ہیں _ آپ حضرات کی احادیث میں مہدی موعود کے دوسرے نام قائم اور صاحب الامر و غیرہ بھی مذکور ہیں لیکن ہماری احادیث میں مہدی کے علاوہ اور کوئی نام بیان نہیں ہوا ہے ، خصوصاً قائم تو ہماری احادیث میں ہے ہی نہیں کیا یہ بات آپ کے نقطہ نظر سے معمولی ہے ، قابل اعتراض نہیں ہے ؟

ہوشیار : ظاہراً قضیہ کی علت یہ ہے کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے دور خلافت میں مہدویت کا موضوع مکمل طور پر سیاسی مسئلہ بن چکا تھا چنانچہ تمام مشخصات و علامتوں کے ساتھ مہدی موعود خصوصاً غیبت و قیام سے متعلق احادیث کے نقل کرنے کے لئے آزادی نہیں تھی ، خلفائے وقت احادیث کی تدوین خصوصاً مہدی کی غیبت اور قیام سے متعلق احادیث کے سلسلہ میں بہت حساس رہتے تھے بس اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ غیبت ، قیام اور خروج کے الفاظ بھی برداشت نہیں کرتے تھے _

۲۰۲

آپ بھی اگر تاریخ کا مطالعہ فرمائیں اور بنی امیہ و بنی عباس کی خلافت کے بحرانی حالات اور سیاسی کشمکش کا نقشہ کھینچے تو میرے خیال کی تائید فرمائیں گے _ ہم اس مختصروقت میں اس زمانہ کے اہم حوادث و واقعات کا تجزیہ نہیں کر سکتے لیکن اثبات مدعاکیلئے دو چیزوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے _

۱ _ داستان مہدویت میں چونکہ ایکہ دینی پہلو موجود تھا اور پیغمبر(ع) اکرم(ع) نے اسکی خبردی تھی کہ جس زمانہ میں کفرو بے دینی فروغ ہوگا اور ظلم و ستم چھا یا ہوگا اس وقت مہدی موعود انقلاب بر پا کریں گے اور دنیا کی آشفتہ حالی کی اصلاح کریں گے اسی لئے مسلمان اس موضوع کو ایک طاقتو رپناہ گاہ اور تسلّی بخش وقوعہ تصور کرتے تھے اور ہمیشہ اس کے وقوع پذیر ہونے کے منتظر رہتے تھے _ خصوصاً مذکور ہ عقیدہ اس وقت اور زیادہ مشہور اور زندہ ہوجاتا تھا جب لوگ ظلم و ستم کی طغیانیوں اور بحرانی حالات میں ہرجگہ سے مایوس ہوجاتے تھے چنانجہ کبھی اصلاح کے علمبردار اور ابن الوقت افراد بھی اس سے فائدہ اٹھا تے تھے _

عقیدہ محدویت سے سب سے پہلے جناب مختار نے فائدہ اٹھایا تھا _ کربلا کے المناک سانحہ کے بعد جناب مختار قاتلوں سے انتقام لینا اور ان کی حکومت کو بر باد کرنا چاہتے تھے لیکن جب انہوں نے یہ دیکھا کہ بنی ہاشم اور شیعہ حکومت پر قبضہ کرنے کے سلسلے میں مایوس ہوچکے ہیں تو انہوں نے عقیدہ مہدویت سے استفادہ کیا اور اس فکر کے احیاء سے قو م کی امید بندھائی _ چونکہ محمد بن حنفیہ رسول کے ہم نام و ہم کنیت تھے _ یعنی مہدی کی ایک علامت ان میں موجود تھی لہذا مختار نے وقت سے فائدہ اٹھا یا اور محمد بن حنفیہ کو مہدی موعود اور خود کو ان کے وزیر کے عنوان سے پیش کیا اور لوگوں سے کہا محمد بن حنفیہ اسلام کے

۲۰۳

مہدی موعود ہیں ، اس زمانہ میں ظلم و ستم اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے _ حسین بن علی اوران کے اصحاب و جوان تشنہ لب کربلا میں شہید کردیئےئے ہیں ،محمد بن حنفیہ انقلاب لانے کا قصد رکھتے ہیں تا کہ قاتلوں سے انتقام لے سکیں اور دنیا کی اصلاح کرسکیں _ میں ان کا وزیر ہوں _ اس طرح مختار نے قیام کیااور کچھ قاتلوں کو تہ تیغ کیا در حقیقت اس عنوان سے برپاہونے والا یہ پہلا انقلاب اور خلافت کے مقابلہ میں اولین قیام تھا _

دوسرا ابومسلم خراسانی عقیدہ مہدویت سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے_ ابومسلم نے خراسان میں ، امام حسین(ع) اور آپ کے اصحاب و انصار ، ہشام بن عبدالملک کے زمانہ خلافت میں ڈردناک و سنسی خیز انداز میں شہید ہونے والے زید بن علی بن حسین (ع) اور ولید کے زمانہ خلافت میں شہید ہونے والے یحیی بن زید کے انتقام کے عنوان سے بنی امیہ کی خلافت کے خلاف قیام کیا تھا _ ایک جماعت بھی ابومسلم کو مہدی موعود خیال کرتی تھی اور ایک گروہ اسے ظہور مہدی کا مقدمہ تصور کرتا تھا اور مہدی کی علامتوں میں شمار کرتا تھا کہ وہ خراسان کی طرف سے سیاہ پرچموں کے ساتھ آئے گا _ اس جنگ میں علوییں ، بنی عباس اور سارے مسلمان ایک طرف تھے ، چنانچہ انہوں نے بھر پور اتحاد کے ساتھ بنی امیہ اور ان کارندوں کو اسلامی حکومت سے برطرف کردیا _

یہ تحریک اگر چہ رسول کے اہل بیت کے مغصوب حق کے عنوان سے شروع ہوئی تھی اور شاید انقلاب کے بعض چیمپئین افراد بھی خلافت علویین ہی کی تحویل میں دینا چاہتے تھے لیکن بنی عباس اور ان کے کارندوں نے نہایت ہی چال بازی سے انقلاب کو اس کے حقیقی راستہ سے ہٹادیا _ حکومت علویوں کی دہلینر تک پہنچ چکی تھی لیکن بنی عباس نے اپنے کو پیغمبر کے اہل بیت کے عنوان سے پیش کیا اور اسلامی خلافت کی مسند پر متمکن ہوئے _

۲۰۴

اس عظیم تحریک میں ملت کامیاب ہوئی اور بنی امیہ کے ظالم خلفاء سے اسلامی خلافت چھین لی_ لوگوں کو بڑی خوشی تھی کہ انہوں نے ظالم خلفا کے شر سے نجات حاصل کرلی ہے اور اس کے علاوہ حق کو حق دار تک پہنچا دیا اور اسلامی خلافت کو خاندان پیغمبر(ص) میں پلٹادیا ہے _ علویین بھی کسی حد تک خوش تھے اگر چہ انھیں خلافت نہیں ملی تھی لیکن کم از کم بنی امیہ کے ظلم و ستم سے تو مطمئن ہوگئے تھے _ مسلمان اس کامیابی سے بہت خوش تھے اور ملک کے عام حالات کی اصلاح ، اسلام کی ترقی اور اپنی بہبودی کے سنہرے خواب دیکھ رہے تھے اور ایک دوسرے کو خوشخبری دے رہے تھے _ لیکن کچھ ہی روز کے بعد وہ خواب سے بیدار ہوئے تو دیکھا کہ حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور بنی عباس و بنی امیہ کی حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے _ سب ریاست طلب اور خوش باش ہیں _ مسلمانوں کا بیت المال تباہ ہورہاہے _ عدل و انصاف ، اصلاحات اور احکام الہی کے نفاذ کا کہیں نام و نشان نہیں ہے _ رفتہ رفتہ لوگوں کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے اپنے غلط فہمی اور بنی عباس کی نیرنگ کو سمجھ لیا _

علوی سادات نے بھی یہ بات محسوس کی کہ اسلام ، مسلمانوں اور خود ان سے بنی عباس کو جو سلوک ہے وہ بنی امیہ کی روش سے مختلف نہیں ہے اور جہاد کی ابتداء اور بنی عباس سے جنگ کے آغاز کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا _ تحریک چلانے کے لئے بہتر افراد جو ممکن تھے وہ علی و فاطمہ(ع) کی اولاد تھے کیونکہ اول تو ان میں شائستہ پاکدامن ، فداکار اور دانش ور پیدا ہوتے تھے جو کہ خلافت کے لئے سب سے زیادہ موزوں تھے _ دوسرے پیغمبر کی حقیقی اولاد تھے اور آپ سے نسبت کی بناپر محبوب تھے _ تیسرے : مظلوم تھے ، ان کا شرعی حق پامال ہوچکا تھا _ لوگ بتدریج اہل بیت

۲۰۵

(ع) رسول کی طرف آئے _ خلفائے بنی عباس کے جیسے جیسے ظلم و ستم اور دکیٹڑ شپ بڑھتی جاتی تھی اسی کے مطابق لوگوں کے درمیان اہل بیت کی محبوبیت بڑھتی جاتی تھی اور ان میں ظلم کے خلاف شورش کا جذبہ پیدا ہوتا تھا _ قوم کی تحریک اور علویوں کا قیام شروع ہوا ، کبھی کبھی ان میں سے کسی کو پکڑتے اور شوروہنگامہ بپاکرتے تھے کبھی اس میں صلاح سمجھتے تھے کہ عقیدہ مہدویت پیغمبر (ص) کے زمانہ سے ابھی تک باقی ہے _ لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہے ، اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور قائد انقلاب کو مہدی موعود کے نام سے پہنچنوایا جائے _ یہاں بنی عباس کے خلفاء کا سخت ، دلیر، دانشور اور قوم میں محبوب رقیبوں سے مقابلہ تھا _ خلفائے بنی عباس علوی سادات کو بخوبی پہچانتے تھے، ان کی ذاتی لیاقت ، فداکاری ، قومی عزت اور خاندانی شرافت سے واقف تھے ، اس کے علاوہ مہدی موعود کے بارے میں پیغمبر(ص) کی دی ہوئی بشارتوں سے بھی باخبر تھے _ پیغمبر کی احادیث کے مطابق انھیں معلوم تھا کہ مہدی موعود اولاد فاطمہ (ص) سے ہونگے جو قیام کرکے ستمگروں سے مبارزہ کریں گے اور ان کی کامیابی کو یقینی سمجھتے تھے وہ داستان مہدی اور لوگوں میں اس عقیدہ کے معنوی اثر سے بھی کسی حد تک واقف تھے _ اس بناپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنی عباس کی خلافت کو سب سے بڑا خطرہ علوی سادات سے تھا _ انہوں نے ان کی اور ان کے کارندوں کی نیند حرام کردی تھی _ البتہ خلفانے بھی لوگوں کو علویوں کے پاس جمع نہ ہونے دیا اور ہر قسم کی تحریک و انقلاب کی پیش بندی میں بڑی تندی سے کام لیا _ خصوصاً علویوں کے سربرآوردہ افراد پر سخت نظر رکھتے تھے یعقوبی لکھتے ہیں _ موسی ہادی طالبین کو گرفتار کرنے کی بہت کوشش کرتا تھا _ انھیں خوف زدہ و ہراسان رکھتا تھا تمام شہروں میں یہ حکم نامہ

۲۰۶

بھیجدیا تھا کہ جہاں بھی طالبین کا کوئی آدمی ملے اسے گرفتار کرکے میرے پاس بھیجدو _(۱)

ابوالفرج لکھتے ہیں :

''جب منصور تخت خلافت پر متمکن ہوا تو اس نے ساری کوشش محمد بن عبداللہ بن حسن (ع) کو گرفتار کرنے اور ان کے مقصد سے آگہی حاصل کرنے میں صرف کی _''(۲)

غیبت علویین

اس زمانہ کا ایک بہت ہی نازک اور مرکز توجہ مسئلہ بعض علوی سادات کی غیبت تھا _ ان میں سے جس میں بھی ذاتی شرافت و شائستگی اور قیادت کی صلاحیت پائی جاتی تھی _ قوم اسی کی طرف جھکتی اور ان کے دل اس کی طرف مائل ہوتے تھے خصوصاً یہ رجحان اس وقت اور زیادہ ہوجاتا تھا جب اس میں مہدی موعود کی کوئی علامت بھی ہوتی تھی _ دوسری طرف خلافت کی مشنری جیسے ہی قوم کو کسی ایسے آدمی کی طرف بڑھتی دیکھتی تھی تو اس کے خوف و ہراس میں اضافہ ہوجاتا تھا اور اس کے خفیہ و ظاہری کارندے اس شخص کی نگرانی میں مشغول ہوجاتے تھے_ لہذا وہ اپنی جان بچانے کیلئے خلافت کی مشنری سے روپوش ہوجاتا تھا ، یعنی غیبت و پوشیدگی کی زندگی بسر کرتا تھا ، علوی سادات کا ایک گروہ ایک زمانہ تک غیبت کی زندگی گزارتا تھا _ مثال کے طور پر ہم چند نمونے ، ابوالفرج اصفہانی کی کتاب'' مقاتل الطالبین '' سے نقل کرتے ہیں :

____________________

۱_ تاریخ یعقوبی ج ۳ ص ۱۴۲ طبع نجف سنہ ۱۳۸۴ ھ

۲_ مقاتل الطالبین ص ۱۴۳

۲۰۷

منصور عباسی کے زمانہ خلافت میں محمد بن عبداللہ بن حسن اور ان کے بھائی ابراہیم غیبت کی زندگی بسر کرتے تھے، منصور بھی انھیں گرفتار کرنے کی بہت کوشش کرتا تھا _ چنانچہ اس مقصد میں کامیابی کے لئے اس نے بنی ہاشم کے بہت سے افراد کو گرفتار کیا اور ان سے کہا : محمد کو حاضر کرو ان ان بے گناہوں کو قید خانہ میں لرزہ بر اندام سزائیں دیں ''(۱) _

''منصور کے زمانہ خلافت میں عیسی بن زید و روپوش تھے منصور نے انھیں گرفتار کرنے کی لاکھ کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکا _ منصور اور اس کے لڑکے نے بھی کوشش کی لیکن ناکام رہے ''(۲)

''معتصم اور واثق کے زمانہ خلافت میں محمد بن قاسم علوی خلافت کی مشنری سے روپوش تھے _ متوکل کے زمانہ میں گرفتارہوئے اور قید خانہ میں وفات پائی ''(۳)

''ر شید کے زمانہ خلافت میں یحیی بن عبداللہ بن حسن غائب تھے ، لیکن رشید کے جاسوسوں نے انھیں تلاش کرلیا _ ابتداء میں امان دی لیکن بعد میں گرفتار کرکے قید خانہ میں ڈالدیا ، اسی قید خانہ میں بھوک اور اذیتوں کی تاب نہ لا کر دم توڑدیا''(۴)

'' ماموں کے زمانہ خلافت میں عبداللہ بن موسی غائب تھے اور اس سے

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۱۴۳ تا ص ۱۵۴_

۲_ مقاتل الطالبین ص ۲۷۸_

۳_ مقاتل الطالبین ص ۳۹۲_

۴_ مقاتل الطالبین ص ۳۰۸_

۲۰۸

مامون بہت خوف زدہ تھا _(۱)

موسی ہادی نے عمر بن خطاب کی اولاد سے عبد العزیز کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا ، عبدالعزیز طالبین سے بہت برے طریق اور سختی سے پیش آتا اور ان کے اعمال و حرکات پر سخت نظر رکھتا تھا _ ایک روز ان سے کہا : تم ہر روز میرے پاس حاضری دیا کرو تا کہ تمہارے روپوش و غائب نہ ہونے کا مجھے علم رہے _ ان سے عہد و پیمان لیا اور ایک کو دوسرے کا ضامن بنادیا _ مثلاً حسین بن علی اور یحی بن عبداللہ کو ، حسن بن محمد بن عبداللہ بن حسن کا ضامن بنایا_ ایک مرتبہ جمعہ کے دن علویین اس کے پاس گئے انھیں واپس لوٹنے کی اجازت نہ دی یہاں تک کہ جب نماز کا وقت آگیا ، تو انھیں وضو کرنے اور نماز میں حاضر کا حکم دیا _ نماز کے بعد اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ ان سب کو قد کرلو_ عصر کے وقت سب کی حاضری لی تو معلوم ہوا کہ حسن بن محمد بن عبداللہ بن حسن نہیں ہیں _ پس ان کے ضامن حسین بن علی اور یحیی سے کہا : اگر حسن بن محمد تین دن تک میری خدمت میں شرف یاب نہ ہوئے یا انھوں نے خروج کیا یا غائب ہوگئے تو میں تمہیں قید خانے میں ڈال دوں گا یحیی نے جواب دیا کہ : یقیناً انھیں کوئی ضروری کام پیش آگیا ہوگا ، اسی لئی نہیں آسکے ہم بھی انھیں حاضر کرنے سے قاصر ہیں _ انصاف سے کام لو _ تم جس طرح ہماری حاضری لیتے ہو اسی طرح عمر بن خطاب کے خاندان والوں کو بھی بلاؤ اس کے بعد ان کی حاضری لو اگر ان کے افراد ہم سے زیادہ غائب ہوئے تو ہمیں کوئی اعتراض

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۴۱۵ _ ۴۱۸_

۲۰۹

نہ ہوگا پھر ہمارے بارے میں جو چا ہے فیصلہ کرنا _ لیکن حاکم ان کے جواب سے مطمئن نہ ہوا اور قسم کھا کرکہا: اگر چو بیس ۲۴گنٹے کے اندر تم نے حسن کو حاضر نہ کیا تو تمہارے گھروں کو منہدم کرادو نگا ، آگ لگوادوں گااور حسین بن علی کو ایک ہزار تا زیانے لگاؤں گا_''

اس قسم کے حوادث سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ خلفا ئے بنی عباس کے زمانہ میں بعض علوی سادات غیبت وروپوشی کی زندگی گزارتے تھے اور یہ چیز اس زمانہ میں مرسوم تھی _ چنانچہ جب ان میں سے کو ئی غائب ہوتا تھا تو فریقین کی توجہ اسی کی طرف مبذول ہو جاتی تھی _ ایک طرف قوم کی نگاہیں اس پر مر کوز ہوتی تھیں خصوصاََاس وقت جب غائب ہونے والے میں کوئی مہدی کی علامت ہوتی ، اور وہ غیبت تھی_دوسری طرف خلافت کی مشنری اسے خوف زدہ ، مضطرب اور حساس ہوجاتی خصوصااس میں مہدی کی کوئی علامت دیکھتے اوریہ محسوس کرتے کہ لوگ اس کو احتمالی طور پر مہدی سمجھ رہے ہیں _ ممکن ہے اس کی وجہ سے ایسا انقلاب وشورش بر پاہوجائے کہ جس کے کچلنے میں خلافت کی مشنری کو بہت بڑ انقصان اٹھا نا پڑ ے _

اب آپ بنی عباس کے انقلابی اور بحرانی حالات یعنی نقل احادیث اور کتابوں کی تالیف کے زمانہ کا نقشہ کھینچ سکتے ہیں اور یہ انصاف کر سکتے ہیں کہ مولفین ، علماء اور احادیث کے روات آزاد نہیں تھے کہ مہدی موعود سے متعلق خوصا مہدی کے قیام و غیبت سے مربوط احادیث کو اپنی کتابوں میں تحریر کرتے _ کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۲۹۴ _۲۹۶

۲۱۰

مہدویت کے مقابلہ میں ، جو کہ اس زمانہ میں سیاسی مسئلہ بن چکا تھا ، نے کوئی مداخلت نہیں کی ہوگی اور احادیث کے روات کو آزاد چھوڑ یا ہوگا کہ وہ مہدی منتظر اور ان کے قیام و غیبت سے مربوط احادیث کو ، جو کہ سراسراکے ضرر میں تھیں ، کتابوں میں در ج کریں ؟

ممکن ہے آپ یہ خیال کریں کہ : خلفائے بنی عباس کم از کم اتناتو جانتے ہی تھے کہ دانشوروں کو محدود رکھتے اور ان کے امور میں مداخلت کرنے میں معاشرہ کی بھلائی نہیں ہے _ روایت احادیث اور علماء کو آزاد چھوڑ دینا چاہئے تا کہ وہ حقائق لکھیں اور بیان کریں اور لوگوں کو بیدار کریں _ اس لئے میں خلفائے بنی عباس بلکہ ان سے پہلے خلفاء کی بے جامد اخلت کے چند نمونے پیش کرنے کیلئے مجبور ہوں تا کہ حقیقت واضح ہوجائے:

خلفا کے زمانہ میں سلب آزادی

ابن عسا کرنے عبدالرحمان بن عوق سے روایت کی ہے کہ عمر بن خطاب نے اصحاب رسول (ع) ، جیسے عبد اللہ بن خدیفہ ، ابو دردا ، ابوذر غفاری اور عقبہ بن عامر کو اسلامی شہروں سے طلب کیا اور سرزنش کرتے ہوئے کہا :

"پیغمبر (ع) سے تم لوگ کیا کیا حدیثیں نقل کرتے اور لوگوں میں پھیلاتے ہو؟ اصحاب نے جواب دیا یقینا آپ ہمیں حدیثیں بیان کرنے سے منع کرنا چاہتے ہیں ؟

عمر نے کہا : تم لوگ مدینہ سے با ہر نہیں جاسکتے اور جب تک میں زندہ ہوں مجھ سے دور نہیں ہوسکتے میں بہتر جانتا ہوں کہ کس حدیث کو قبول کرنا اور کس کو رد کرناہے _ اصحاب رسول (ع) عمرکی حیات تک ان کے پاس رہنے پر

۲۱۱

مجبور ہو گئے _(۱)

معاویہ نے اپنے فرمانداروں کو حکم دیا کہ جو شخص بھی علی بن ابیطالب اور انکی اولاد کے فضائل کے بارے میں کوئی حدیث نقل کرتا ہے _ اس کے لئے امان نہیں ہے _(۲)

محمد بن سعد اور ابن عسا کرنے محمود بن عبید سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :

میں نے عثمان بن عفان سے سنا کہ انہوں نے منبر کے اور پر سے کہا : کسی شخص کو ایسی حدیث نقل کرنے کا حق نہیں ہے جو کہ ابوبکر و عمر کہ زمانہ میں نقل نہ ہوئی ہو(۳) _

معاویہ نے اپنے فرمانداروں کو لکھا : لوگوں کو صحابہ اور خلفا کے فضائل میں حدیثیں نقل کرنے کا حکم دو اور انھیں اس بات پرتیار کرو کہ جو احادیث حضرت علی بن ابیطالب کے فضائل کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں ایسی ہی احادیث کو صحابہ کے بارے میں بیان کریں _(۴)

مامون نے ۲۱۸ ہ میں عراق اور دوسرے شہروں کے علماو فقہا کو جمع کیا اور ان کے عقائد کے بارے میں بازپرس کی اور پوچھا کہ قرآن کے بارے میں تمہارا کیا عقیدہ ہے؟ اسے قدیم سمجھتے ہو یا حادث ؟ پس جو لوگ قرآن کو قدیم مانتے تھے انھیں کافر قرار دیا اور شہروں میں لکھ کر بھیجدیا کہ ان کی شہادت قبول نہ کی جائے _ اس لئے تمام علما قرآن کے بارے میں مامون کے عقیدہ کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے لیکن چند افراد نے

____________________

۱_ اضواء علی السنة الحمدیہ ص ۲۹

۲_ نصائح الکافیہ مولفہ سید محمد بن عقیل طبع سوم ص ۸۷_

۳_ اضواء علی السنة المحمدیہ ص ۳۰_

۴_ نصائح الکافیہ ص ۸۸_

۲۱۲

قبول نہیں کیا _(۱)

حجاز کے بڑے فقیہ مالک بن انس نے مدینہ کے گورنر جعفر بن سلیمان کے مزاج کے خلاف ایک فتوی دیدیا_ حاکم نے انھیں بہت ہی رسوائی کے ساتھ طلب کیا اور ستر تازیانے لگانے کا حکم دیاجس سے وہ ایک مدت تک بستر سے نہ اٹھ سکے _

بعد میں منصور نے مالک کو طلب کیا ابتدائے گفتگو میں جعفر بن سلیمان کے تازیانہ لگانے پر اظہار افسوس کیا اور معذرت چاہی اس کے بعد کہا : فقہ و حدیث کے موضوع پر آپ ایک کتاب تالیف کیجئے لیکن اس میں عبد اللہ بن عمر کی دشوار ، عبداللہ بن عباس کی سہل و آسان اور ابن مسعود کی شاذ حدیثیں جمع نہ کیجئے _ صرف ان مطالب کو جمع کیجئے جن پر صحابہ کا اتفاق ہے _ جلد لکھئے تا کہ ہم اسے تمام شہروں میں بھیجدیں اور لوگوں کے لئے اس پر عمل کرنے کو لازم قرار دیدیں _ مالک کہتے ہیں فقہ و علوم کے سلسلے میں عراقیوں کا دوسرا عقیدہ ہے وہ ہماری باتوں کو قبول نہیں کریں گے ، منصور نے کہا: آپ کتاب لکھئے ہم اس پر عراق کے لوگوں سے بھی عمل کرائیں گے اور گر وہ روگردانی کریں گے تو ہ ان کی گردن ماردیں گے اور تازیانوں سے بد ن کو سیاہ کردیں گے _ کتاب کی تالیف میں جلد کیجئے ، سال آئندہ میں اپنے بیٹے مہدی کو کتاب لینے کے لئے آپ کے پاس بھیجوں گا _(۲)

معتصم عباس نے احمد بن حنبل کو بلایا اور قرآن کے مخلوق ہونے کے سلسلے میں ان کا امتحان لیا اور ا--سی کوڑے لگانے کا حکم دیا _(۳)

____________________

۱_ تاریخ یعقوبی ج ۳ ص ۲۰۲_

۲_ الامامہ و السیاسة ج ۲ ص ۱۷۷ و ۱۸۰_

۳_ تاریخ یعقوبی ج۳ ص ۲۰۶_

۲۱۳

منصور نے ابوحنیفہ کو بغداد بلا کر زہر دیا _(۱)

ہاروں رشید نے عباد بن عوام کے گھر کو ویران کردیا اور احادیث نقل کرنے سے منع کردیا _(۲)

خالد بن احمد ''بخارا'' کے گورنر نے محمد بن اسماعیل بخاری ، ایسے عظیم محدث سے کہا : اپنی کتاب مجھ پر ھکر سناؤ_ بخاری نے اس سے انکار کیا اور کہا :اگر یہی بات ہے تو مجھے نقل احادیث سے منع کردو تا کہ خدا کے نزدیک معذور ہوجاؤں _ اس بناپر بخاری ایسے عالم کو جلا وطن کردیا _ وہ سمرقند کے دیہات خزننگ چلے گئے اور آخری عمر تک وہیں اقامت گزیں رہے _ راوی کہتا ہے کہ میں نے بخاری سے سنا کہ وہ نماز تہجد کے بعد خدا سے مناجات کرتے اور کہتے تھے: اے اللہ اگر زمین میرے لئے تنگ ہوگئی ہے تو مجھے موت دیدے چنانچہ اسی مہینے میں ان کا انتقال ہوگیا _(۲)

جب نسائی نے حضر ت علی بن ابیطالب کے فضائل جمع کرکے اپنی کتاب خصائص تالیف کی تو لوگوں نے انھیں دمشق بلایا اور کہا: ایسی ہی ایک کتاب معاویہ کے فضائل کے سلسلے میں تالیف کرو، نسائی نے کہا: مجھے معاویہ کی کسی فضیلت کا علم نہیں ہے ، صرف اتنا جانتا ہوں کے پیغمبر (ص) نے اس کے بارے میںفرمایا ہے کہ: خدا کبھی معاویہ کو شکم سیر نہ کرے _ یہ سنکر لوگوں نے اس عالم کو جوتوں سے مارا اور ان کے خصیوں کو

____________________

۱_ مقاتل ص ۲۴۴_

۲_ مقاتل ص ۲۴۱_

۳_ تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۳_

۲۱۴

اتنا دبایا کہ مرگئے _(۱)

فیصلہ

خلفا کے بحرانی اور انقلابی حالا ت ، مسئلہ مہدویت خصوصاً موضوع غیبت و قیام، جو کہ مکمل طور پر سیاسی بن گیا تھا اور عام لوگ اس کی طرف متوجہ تھے ، اس سے فائدہ اٹھایا جارہا تھا ، روات احادیث اور صاحبان قلم پر پابندیاں عائد تھیں _ ان تما م چیزوں کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کیجئے : کیا صاحبان قلم ، روات احادیث مہدی موعود ، آپ کے علائم و آثار اور غیبت و قیام سے متعلق احادیث نقل کر سکتے تھے؟ کیا خلفائے وقت نے لکھنے والوں کو اتنی آزادی دے رکھی تھی کہ انہوں نے جو کچھ سنا یا پڑھاہے اس کی روایت کریں اور اپنی کتابوں میں لکھیں؟ یہاں تک ان احادیث کو بھی قلم بند کریں جو خلافت کے لئے خطرہ کا باعث اور سیاسی رنگ میں رنگی ہوں

کیا مالک بن انس اور ابو حنیفہ اپنی ان کتابوں میں جو کو منصور عباسی کے حکم سے تالیف ہوئی تھیں مہدویت اور علویین کی غیبت سے متعلق احادیث نقل کر سکتے تھے؟ جبکہ اسی زمانہ میں محمد بن عبداللہ بن حسن اور ان کے بھائی ابراہیم غائب تھے اور بہت سے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ محمد ہی مہدی موعود ہیں جو کہ قیام کریں گے ، ظلم و طتم کا قلع و قمع کریں گے او ردنیا کی اصلاح کریں گے : با وجودیکہ غیبت اور محمد کے قیام سے منصور بھی خوف زدہ تھا اور انھیں گرفتار کرنے کے لئے علویوں کے ایک بے گناہ گروہ کو قیدی بنا

____________________

۱_ نصائح الکافیہ ص ۱۰۹_

۲۱۵

رکھا تھا _ کیا اسی منصور نے ابوحنیفہ کو زہر نہیں دیا تھا؟ کیا اس کے گور نر جعفر بن سلیمان نے مالک بن انس کو کوڑے نہیں لگوائے تھے؟

کیا اسی منصور نے جب مالک بن انس کو کتاب تالیف کرنے کا حکم دیا تھا تو ان کے کام میں مداخلت نہیں کی تھی اور صریح طور پر یہ نہیں کہا تھا کہ اس کتاب میں عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس اور ابن مسعود کی حدیثیں نقل نہ کرنا؟ اور جب مالک نے یہ کہا: عراق والوں کے پاس بھی علوم و احادیث ہیں ممکن ہے وہ ہماری احادیث کو قبول نہ کریں ، منصور نے کہا: ہم آپ کی کتاب پر نیزوں کی انی اور تازیانوں کے زور سے عمل کرائیں گے ؟ کیا منصور سے کوئی یہ کہہ سکتا تھا کہ لوگوں کے دینی امور می تمہیں مداخلت کا کیا ۳حق ہے ؟ تمہیں کیسے معلوم کہ عراق والوں کے علوم و احادیث باطل ہیں ؟ عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن عمر اور ابن مسعود کا کیا جرم ہے جو تم ان کی احادیث قبول نہیں کرتے؟

تدوین احادیث کے سلسلہ میں منصور جیسے لوگوں نے جو بے جا مداخلت کی ہے میں اس کا صحیح محل تلاش نہیں کر سکتا _ بس یہ کہا جا سکتا ہے کہ عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن عمر اور ابن مسعود کی احادیث خلاف کی مشنری کے موافق نہیں تھیں اس لئے ان کے نقل کرنے میں قدغن تھی_ مالک کے بارے میں لکھتے ہیں ایک لاکھ احادیث سنی تھیں لیکن'' موطا'' میں پانچ سوسے زیادہ نہیں ہیں _(۱)

کیامعتصم سے کوڑے کھانے والے احمد بن حنبل ، جلا وطن ہونے والے بخاری اور زدکوب میں جان دینے والے نسائی اپنی کتابوں میں ایسی احادیث لکھ سکے ہیں جو علویوں

____________________

۱_ اضواء ص ۲۷۱

۲۱۶

کے موافق اور دربار خلافت کے مخالف تھیں ؟

نتیجہ

گزشتہ بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے ، چونکہ احادیث مہدویت خصوصاً غیبت و قیام سے متعلق احادیث سیاسی صورت حال اختیار کر چکی تھیں اور خلافت کی مشنری کے ضرر اور اس کے مخالف یعنی علویوں کے حق میں تھیں _ اس لئے علمائے اہل سنّت پابندی کی وجہ سے انھیں اپنی کتابوں میں ڈرج نہیں کر سکے اور اگر لکھی ہوں گی تو انھیں ظالم سیاستمداروں نے محو کردیا ہے _ شاید ابہام و اجمال کی صورت میں وجود مہدی اس لئے حوادث کی دست برد سے محفوظ رہ گیا کہ حکومت کو اس سے کوئی ضرر نہیں تھا _ لیکن مہدی موعود کے مکمل آثار و علائم اور احادیث کو اہل بیت رسول (ص) اور ائمہ اطہار نے ، جو کہ علوم پیغمبر(ص) کے محافظ تھے ، محفوظ رکھا اور وہ آج تک شیعوں کے درمیاں باقی ہیں _

اس کے باوجود اہل سنّت کی کتابیں غیبت کے موضو ع سے خالی نہیں ہیں _ مثلاً ایک روز حذیفہ کے سامنے کہا گیا : مہدی نے خروج کیا ہے _ حذیفہ نے کہا : اگر مہدی نے ظہور کیا ہے تو یہ تمہارے لئے بڑی خوش قسمتی کی بات ہے جبکہ ابھی اصحاب پیغمبر(ص) زندہ ہیں لیکن ایسا نہیںمہدی اس وقت تک خروج نہیں کریں گے جب تک لوگوں کے نزدیک مہدی سے زیادہ کوئی غائب محبوب نہ ہو _(۱)

یہاں حذیف نے موضوع غیبت کی طرف اشارہ کیا ہے _ حذیفہ حوادث زمانہ اور

____________________

۱_ الحادی للفتاوی ج ۲ ص ۱۵۹_

۲۱۷

اسرار پیغمبر(ص) سے واقف و آگاہ ہیں _ و ہ خود کہتے ہیں : میں مستقبل کے حوادث اور فتنوں کو تمام لوگوں سے بہتر جانتا ہوں _ اگر چہ ان چیزوں کو رسول (ص) نے ایک مجلس میں بیان کیا تھا _

لیکن حاضرین میں سے اب میرے سوا کوئی باقی نہیں ہے _(۱)

جلالی : امام غائب کتنے سال زندہ رہیں گے؟

ہوشیار : آپ (ع) کی زندگی اور عمر کی مقدار معین نہیں ہوئی ہے _ لیکن اہل بیت کی احادیث طویل العمر قرار دیتی ہیں مثلاً امام حسن عسکری (ع) نے فرمایا:

''میرے بعد میرا بیٹا قائم ہے اس میں پیغمبروں کی دو خصوصیتیں یہ بھی ہوں گی کہ وہ عمر دراز ہوں گے اور غیبت اختیار کریں گے _ ان کی طولانی غیبت سے دل تاریک اور سخت ہوجائیں گے ، آپ(ع) کے عقیدہ وہی لوگ باقی و قائم رہیں گے کہ خدا جن کے دلوں میں ایمان استوار رکھے گا اور غیبی روح کے ذریعہ ان کے مدد کرے گا _(۲) اس سلسلہ میں ۴۶ حدیثیں اور ہیں _

ڈاکٹر: امام زمانہ سے متعلق ابھی تک آپ نے جو باتین بیان فرمائی ہیں وہ سب مستدل اور قابل توجہ ہیں _ لیکن ایک اہم اعتراض ، کہ جس نے میرے اور تمام احباب کے ذہن کو ماؤف کررکھا ہے اور ابھی تک اما م غائب کے وجود کے سلسلے میں متردد ہیں وہ طول عمر ہے _ علما اور تعلیم یافتہ طبقہ ایسی غیر طبیعی عمر کو قبول نہیں کر سکتا کیونکہ بدن کے خلیوں کی عمر محدود ہے _ بدن کے اعضاء رئیسہ ''قلب'' ''مغز'' پھیپھڑ ے اور ''جگر''

____________________

۱_ تاریخ ابن عساکر ج ۴ ص ۹_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۲۲۴_

۲۱۸

کام کرنے کیلئے معین استعداد کے حامل ہیں _ میں اس بات کو قبول نہیں کرسکتا کہ ایک طبیعی انسان کا قلب ہزار سال سے زیادہ کام کرسکتا ہے _ صریح طور پر عرض کروں : ایسے موضوعات اس علمی زمانہ میں کہ جس مین فضا کو مسخر کرلیا گیا ہے ،دنیا والوں کے سامنے پیش نہیں کی جا سکتا _

ہوشیار : ڈاکٹر صاحب مجھے بھی اس بات کا اعتراف ہے کہ حضرت ولیعصر کی طولعمر کا مسئلہ مشکل مسائل می ایک ہے _ میں بھی علم طل و علم الحیات سے نا واقف ہوں لیکن حق با ت قبول کرنے کے لئے تیار ہوں ، حضور ہی طول عمر سے متعلق اپنی قیمتی معلومات سے نوازیں _

ڈاکٹر: مجھے بھی اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ میری علمی اطلاعات بھی اتنی نہیں ہیں جو کہ ہماری بنیادی مشکل کو حل کر سکیں _ اس بناپر ہمیں کسی سائنسد اں کی معلومات استفادہ کرنا چاہئے _ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام اصفہان کی میڈیکل کالج کے پروفیسر ڈاکٹر نفیسی کے ذمہ کیا جائے اور ان کے علم سے استفادہ کیا جائے ، کیونکہ موصوف کلاسیکی تعلیم کے علاوہ محقق بھی ہیں اور ایسے مطالب سے دل چسپی بھی رکھتے ہیں _

ہوشیار : کوئی حرج نہیں ہے _ میں اس سلسلے میں کچھ سوالات لکھتا ہوں اور بذریعہ خط ڈاکٹر نفیسی صاحب کی خدمت میں ارسال کرتا ہوں اور جواب کا تقاضا کرتا ہوں _ بہتر ہے کہ جلسہ کو ملتوی کردیا جائے ہو سکتا ہے اس مدت میں طول عمر کے موضوع پر ہم تحقیق کرلیں اور کامل بصیرت کے ساتھ بحث میں وارد ہوں ڈاکٹر نفیسی کا جواب موصول ہونے کے بعد جلالی صاحب آپ کا فون کے ذریعہ اطلاع دیں گے _

۲۱۹

طول عمر کے سلسلہ میں تحقیق

ایک ماہ تک تقریباً جلسہ ملتوی رہا یہاں تک جلالی صاحب نے احباب کو فون پر اطلاع دی چنانچہ ہفتہ کی شب میں سب ان کے گھر میں جمع ہوئے _ معمولی ضیافت کے بعد جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی _

ہوشیار : خوش قسمتی سے ڈاکٹر نفیسی صاحب کا جواب آگیا ہے انکی ذرہ نوازی کے شکریہ کے ساتھ ڈاکٹر صاحب سے اس خط کے متن کی پڑھنے کی خواہش کرتا ہوں _

ڈاکٹر : کوئی حرج نہیں ہے _

محترم جنا ب خط ملا اظہار محبت اور ذرہ نوازی کا شکریہ جو مطالب آپ نے تحریر کئے ہیں ، اگر میری مشغولیتیں بہت زیادہ ہیں ، لیکن مطالعہ ، خصوصاً طبیعی ، آفاقی و انفسی مسائل میں تحقیق سے مجھے دلچسپی ہے اس لئے فراغت کے اوقات میں جنابعالی کے سوالات کے جواب د ینا ضروری سمجھتا ہوں خواہ مختصر ہی کیوں نہ ہوں _ امید ہے وہ عقیدت مندوں کو پسند آئیں گے _

کیاانسان کی عمر کی حد معین ہے ؟

ہوشیار: کیا علم طب و علم الحیات میں انسان کی حیات کی کوئی حد معین

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

۴۔ احادیث جمع قرآن حکم عقل کے خلاف ہیں۔

جمع قرآن سے متعلق جو روایات بیان کی گئی ہیں وہ حکم عقل کیخلاف ہیں کیونکہ بذات خود قرآن کی عظمت ، حفظ قرآن اور قرات قرآن کو رسول اللہ (ص) کا اہمیت دینا ، رسول اللہ (ص) جس چیز کو اہمیت دیتے تھے مسلمانوں کا اس کو دل و جان سے قبول کرنا اور اہمیت دینا اور ان تمام اعمال کا بیان شدہ ثواب ، جمع قرآن کے اس طریقہ کار سے ساز گار نہیں جس کا روایت میں ذکر ہے۔

قرآن مجید میں کئی ایسے پہلو ہیں جن کی بنیادپر مسلمانوں کی نگاہ میں قرآن اہمیت کاحامل بن سکتا ہے اور مرد تو بجائے خود یہ عورتوں اوربچوں میں بھی مشہور ہو سکتا ہے اور وہ پہلو یہ ہیں:

۱۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت : عرب کلام بلیغ کے حفظ کرنے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے اسی وجہ سے وہ زمانہ جاہلیت کے اشعار اور خطبوں کو یاد کر لیتے تھے ایسے عرب ، کلام پاک کو اہمیت کیوں نہ دیتے جس کے چیلنج کا جواب کوئی فصیح و بلیغ شخص اور خطیب بھی نہیں دے سکا اس وقت تمام دنیائے عرب کی توجہ قرآن مجید پر مرکوز تھی مومنین اسے اس لئے حفظ کرتے تھے کہ ان کا اس پر ایمان تھا اور کفار اس کا مقابلہ کرنے اور اس کی حجیت کوباطل ثابت کرنے کیلئے اسے حفظ کرتے تھے۔

۲۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ) جن کی اس وقت کرہ ارض کے ایک عظیم خطے پر حکومت تھی اس خواہش کا اظہار کر چکے تھے کہ حتی المقدور قرآن کا تحفظ اور اسے حفظ کیا جائے اور انسانی عادت و طبیعت کا یہ تقاضا ہے کہ جب کوئی سربراہ مملکت کسی کتاب کے تحفظ اور پڑھنے کی خواہش ظاہر کرے تو یہ کتاب ان لوگوں میں فوراً رائج ہو جاتی ہے جو کسی دینی یا دنیوی مفاد کی خاطر اس سربراہ کی خوشنودی چاہتے ہوں۔

۳۔ حافظ قرآن کو لوگوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ہر تاریخ دان بخوبی جانتا ہے کہ اس دور میں حافظان اور قاریان قرآن کا کتنا احترام کیا جاتا تھا یہ خود ایک اہم سبب ہے کہ اس مقصد کیلئے لوگوں نے سارے کا سارا یا مقدور بھر قرآن ضرور حفظ کیا ہو گا۔

۳۲۱

۴۔ حفظ اور قرات قرآن کا اجرو ثواب ، جس کا قاری اور حافظ قرآن مستحق قرار پایا ہے ، ایک اہم عامل ہے جو لوگوں میں قرآن کو یاد کرنے اور اس کے تحفظ کا شوق پیدا کر سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمان عظمت قرآن کو بہت زیادہ اہیمت دیتے تھے قرآن کو اپنے جان و مال اور اولاد سے زیادہ عزیز رکھتے اورا س کی حفاظت کرتے تھے چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ کچھ عورتوں نے سارے کا سارا قرآن جمع کر لیا تھا۔

ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں:

''فضل بن وکین نے ہمیں خبر دی کہ ولید بن عبداللہ بن جمیع نے حدیث بیان کی: میری نانی ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث ، جس کی زیارت کیلئے رسول اللہ (ص) جایا کرتے اور اسے شہیدہ کا نام دیتے تھے اور اس نے سارا قرآن جمع کر لیا تھا ، نے حدیث بیان کی: جب رسول اللہ (ص) جنگ بدر کیلئے روانہ ہوئے تو میں نے آپ (ص) سے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص) ! اگر اجازت ہو تو میں بھی آپ (ص) کے ساتھ چلوں اور جنگی زخمیوں کا علاج اور تیمارداری کروں، شاید اللہ تعالیٰ مجھے شہادت نصیب فرمائے ؟ آپ (ص) نے فرمایا : خدا نے شہادت تمہاری قسمت میں لکھ دی ہے،،(۱)

قرآن جمع کرنے کے معاملے میں جب عورتوں کا یہ حال ہے تو مردوں کا کیا حال ہو گا یہی وجہ ہے کہ عہد رسول اللہ (ص) کے بہت سے حافظان قرآن کے نام تاریخ میں درج ہیں۔

قرطبی لکھتے ہیں:

_____________________

۱) الاتقان النوع ۲۰ ج ۱ ص ۱۲۵

۳۲۲

''جنگ یمامہ کے دن ستر قاری شہید کر دیئے گئے اور عہد نبی اکرم (ص) میں بر معونہ کے مقام پر بھی اتنے ہی قاری شہید کئے گئے ،،(۱)

جمع قرآن سے متعلق گزشتہ صفحات میں پیش کردہ دسویں روایت میں ہے کہ جنگ یمامہ کے دن چار سو قاری شہید کئے گئے۔

بہرحال نبی اکرم (ص) کے قرآن مجید کو انتہائی اہمیت دینے اور خصوصی طور پر متعدد کاتبوں کا اہتمام کرنے سے ، جبکہ قرآن تیس سال میں قسط وار نازل ہوا ہے ، ہمیں یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ آپ (ص) نے اپنے زمانے میں ہی جمع قرآن کا حکم دیدیا تھا۔

زید بن ثابت روایت کرتے ہیں:

''ہم رسول اللہ (ص) کے پاس بیٹھ کر ٹکڑوں سے قرآن جمع کیا کرتے تھے،،

حاکم اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں:

''یہ حدیث شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط کی بنیاد پر صحیح ہے لیکن انہوں نے اسے اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا،،

اس کے بعد فرماتے ہیں:

یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن مجید رسول اسلام (ص) کے زمانے میں ہی جمع کر لیا گیا تھا،،(۲)

جہاں تک قرآن کے بعد سوروں یا ایک سورہ کے کچھ حصوں کا تعلق ہے ان کو حفظ کرنا تو عام بات تھی اور شاید ہی کوئی مسلمان مرد یا عورت ہو جس نے چند سورتیں یا ایک سورۃ کے کچھ حصہ یاد نہ کئے ہوں۔

____________________

(۱) الاتقان النوع ۲۰ ، ص ۱۲۲ ۔ قرطبی اپنی تفسیر ، ج ۱ ، ص ۵۰ میں لکھتے ہیں: بعض کا کہنا ہے کہ جنگ یمامہ کے دن سات سو قاری شہید کئے گئے۔

(۲) المستدرک ، ج ۲ ، ص ۶۱۱

۳۲۳

عبادہ بن صامت روایت کرتے ہیں:

کان رسول الله ۔ص ۔بشغل ، فاذا قدم رجل مهاجر علی رسول الله ۔ص ۔دفعه الی رجل منا یعلمه القرآن ،، (۱)

''بعض اوقات رسول اللہ (ص) کسی کام میں مصروف ہوتے اور مہاجرین میں سے کوئی آپ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ (ص) اسے ہم میں سے کسی کے حوالے کر دیتے جو اسے قرآن کی تعلیم دیتا تھا،،

کلیب نے روایت کی ہے:

''کنت مع علی ، ع ۔فسمع فجهم فی المسجد یقراون القرآن ، فقال : طوبی لهولاء ۔۔۔۔۔۔(۲)

''میں علی (علیہ السلام) کے ہمراہ تھا جب آ پ(ع) نے لوگوں کی قرات قرآن کا شور سنا تو فرمایا: ان لوگوں کو بشارت

ہو جو قرات کلام پاک میں مصروف ہیں،،

نیز عبادہ بن صامت سے روایت ہے:

کان الرجل اذا هاجر دفعه النبی ۔ص ۔الی رجل منایعلمه القرآن ، وکانبسمع المسجد رسول الله ۔ص ۔فجة بتلاوة القرآن ، حی امرهم رسول الله ان یخفضوا اصواتهم لئلا یتغالطوا،، (۳)

''جب کوئی نیا مہاجر مدینہ آتا تو نبی اکرم (ص) اسے ہم میں سے کسی کے حوالے کر دیتے جو اسے قرآن کی تعلیم دیتا تھا اس وقت مسجد نبوی (ص) سے قرات قرآن کا ایک شور بلند ہوتا تھا حتیٰ کہ نبی اکرم (ص) کو کہنا پڑا کہ اپنی آوازوں کو آہستہ کریں کہیں شور میں قرآن غلط نہ پڑھا جائے،،

___________________

(۱) مسند احمد ، ج ۵ ، ص ۳۲۴

(۲) کنز العمال ، فضائل القرآن ، طبع ثانی ، ج ۲ ، ص ۱۸۵

(۳) مناہل العرفان ، ص ۳۲۴

۳۲۴

یہ حقیقت ہے کہ حفظ قرآن ، اگرچہ قرآن کے بعض حصے سہی ، کارواج مسلمان مرد اور عورتوں میں عام تھا بلکہ بعض اوقات تو کچھ مسلمان عورتیں قرآن کی ایک یا متعدد سورتوں کی تعلیم کو اپنا مہر قرار دیتیں(۱) قرآن کو اتنی زیادہ اہمیت دینے کے باوجود یہ کہنا کیسے ممکن ہے کہ قرآن کی جمع آوری میں خلافت ابوبکر تک تاخیر ہوئی اور جمع قرآن کے سلسلے میں حضرت ابوبکر کو دو گواہوں کی ضرورت محسوس ہوئی جو یہ شہادت دیں کہ ہم نے سورہ یا آیہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے سنا ہے۔

۵۔ احادیث جمع قرآن خلاف اجماع ہیں۔

یہ سب روایات تمام مسلمانوں کے اس اتفاقی اور اجماعی فیصلے کیخلاف ہیں کہ قرآن صرف تواتر کے ذریعے ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ان روایات کے مطابق قرآن دو شاہدوں یا ایک ایسے شاہد جس کی گواہی دو کے برابر ہو ، کی شہادت سے ثابت کیا جاتا تھا اس طریقے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ قرآن خبر واحد کے ذریعے بھی ثابت ہو انصاف سے بتائے ! کوئی مسلمان یہ بات ماننے کیلئے تیار ہے ؟ میں نہیں سمجھ سکا کہ دونوں قول کیسے جمع ہو سکتے ہیں کہ قرآن خبر متواتر کے بغیر ثابت نہ ہو سکے اور یہ روایات بھی صحیح ہوں جن کے مطابق قرآن دو شاہدوں کی شہادت سے بھی ثابت ہو جاتا ہے۔

کیا اس بات کے یقین سے کہ قرآن خبر متواتر کے بغیر ثابت نہیں ہوتا ، اس بات کا یقین حاصل نہیں ہوتا کہ یہ ساری کی ساری روایات جھوٹی اور من گھڑت ہیں؟

تعجب تو اس پر ہے کہ ابن حجرجیسے بعض دانشمندوں نے فرمایا ہے کہ ان روایات میں شہادت سے مراد کتابت اور حفظ کرنا ہے(۲) میرے خیال میں جس وجہ سے ابن ح جر نے یہ توجیہ کی ہے وہ ثبوت قرآن کیلئے تواتر کاضروری ہونا ہے بہرحال یہ توجیہہ کئی جہات سے صحیح نہیں ہے:

____________________

(۱) اس حدیث کو شیخان (بخاری و مسلم) ابوداؤد ، ترمذی اور نسائی نے بیان کیا ہے ۔ تاج ، ج ۲ ، ص ۳۳۲

(۲) الاتقان نوع ۱۸ ص ۱۰۰

۳۲۵

اولاً: یہ توجیہ جمع قرآن سے متعلق مذکورہ روایات کی تصریحات کیخلاف ہے۔

ثانیاً: اس توجیہ کا لازمہ یہ ہے کہ جب تک یہ کسی کے پاس لکھا ہوا نہ ملے وہ اسے قرآن میں شامل نہیں کرتے تھے جس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہوتا اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے اس کو ساقط (ترک ) کر دیا جس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہو۔

ثالثاً : جس بات کو لکھنا یا حفظ کرنا مقصود ہو اگر وہ متواترات میں سے ہو تو اسے ل کھنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور جب تک متواتر نہ ہو کتابت اور حفظ کرنے سے قرآن ثابت نہیں ہوتا بہرحال کتابت اور حفظ کو جمع قرآن کی شرط قرار دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ ان روایات کو مسترد کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ روایات تواتر کے بغیر بھی قرآن کے ثابت ہونے پر دلالت کرتی ہیں جس کے باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔

۶۔ احادیث جمع قرآن اور قرآن میں زیادتی

اگر یہ روایات صحیح ہوں اور ان کے ذریعے قرآن میں کمی کی صورت میں تحریف پر استدلال کیا جائے تو انہی روایات کے ذریعے قرآن میں زیادتی کی صورت میں تحریف پر بھی استدلال کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان روایات میں جمع قرآن کی جو کیفیت اور طریقہ بتایا گیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ قرآن میں کچھ نہ کچھ اضافہ کر دیا گیا ہو۔

اعتراض:قرآن میں زیادتی کو اس میں نقص اور کمی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ قرآن کی کسی آیہ یا سورہ کو قرآن سے نکال لینا آسان ہے لیکن قرآن میں کسی آیہ کا اضافہ کرنا مشکل ہے۔ ا س لئے کہ قرآن میں اعجاز کی حد تک فصاحت و بلاغت پائی جاتی ہے اوراس کے پایہ کا کلام بنا کر اسے قرآن میں شامل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔

۳۲۶

جواب: اگرچہ قرآن کے اعجاز اور اس کی بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ ایک سورہ کی مثل و نظیر نہ لائی جا سکے لیکن ایک دو کلموں کی مثل و نظیر تولائی جا سکتی ہے بلکہ اگر مختصر ہو تو ایک آیہ کی مثل بھی لائی جا سکتی ہے اور اگر یہ احتمال نہ ہوتا تو قرآن ثابت کرنے کیلئے دو شاہدوں کی گواہی کی ضرورت نہ پڑتی جس کا گزشتہ روایات میں ذکر ہوا ہے اس لئے کہ جو آیت بھی کسی کی طرف سے پیش کی جاتی وہ خود منہ بولتا ثبوت ہوتی کہ میں قرآن سے ہوں کہ نہیں۔

بنا برایں جو قرآن میں کمی کی صورت میں تحریف کا قائل ہے اسے لامحالہ ماننا پڑے گا کہ قرآن میں زیادتی بھی ہوئی ہے اور یہ اجماع مسلمین کیخلاف ہے۔

گزشتہ مباحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ جمع قرآن کو خلفاء کی طرف نسبت دینا محض خیال خام ہے جو کتاب و سنت ، عقل اور اجماع کیخلاف ہے۔

تحریف کو ثابت کرنے کیلئے جمع قرآن کے ذریعے استدلال نہیں کیا جا سکتا ، بفرض تسلیم اگر قرآن کو حضرت ابوبکر نے اپنے دور خلافت میں جمع کیا ہو پھر بھی اس میں شک نہیں کہ جمع قرآن کا جو طریقہ گزشتہ بیان کی گئی روایات میں ذکر کیا گیا ہے ، جھوٹ ہے اور حق یہ ہے کہ قرآن کو مسلمانوں میں تواتر کی بنیاد پر جمع کیا گیا ہے البتہ جو سورے اور آیات لوگوں کے سینوں میں بطور تواتر موجود تھیں جمع کرنے والے نے قرآن کی صورت میں ان کی تدوین کی ہے۔

ہاں ! یہ مسلم ہے کہ حضرت عثمان نے اپنے دور خلافت میں قرآن جمع کیا ہے لیکن حضرت عثمان اس معنی میں جامع قرآن نہیں ہیں کہ انہوں نے سوروں اور آیتوں کو بذات خود جمع کیا ہو بلکہ اس معنی میں جامع قرآن ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کو ایک ہی قرات پر متفق کیا اور باقی قرآنوں کوجو اس قرات سے مختلف تھے جلا دیا اور دوسرے شہروں میں یہ حکمنامہ بھیجا کہ اس نسخے کے علاو باقی نسخے جلا دیئے جائیں اور مسلمانوں کو قرات میں اختلاف کرنے سے روک دیا چنانچہ اس حقیقت کی تصریح بعض دانشمندان اہل سنت نے بھی کی ہے۔

۳۲۷

حارث محاسبی کہتے ہیں:

''عام لوگوں میں مشہور ہے کہ قرآن حضرت عثمان نے جمع کیا ہے حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے حضرت عثمان نے صرف لوگوں کو اس ایک قرات پر آمادہ اور متفق کیا تھا جسے حروف قرات میں اہل عراق و شام کے اختلاف کے وقت حضرت عثمان اور کچھ مہاجرین و انصار نے اختیار کیا تھا اور اس سے قبل قرآن ، حروف ہفتگانہ جن میں قرآن نازل ہوا تھا ، کے مطابق پڑھا جاتا تھا ،،(۱)

مولف : جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضرت عثمان نے مسلمانوں کو اس ایک قرات پر متفق کیا جو مسلمانوں میں مشہور تھی ، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے بطور تواتر انہوں نے سنی تھی اور ان قرات پر پابندی لگا دی جو حروف ہفتگانہ کی بنیادپر پڑھی جاتی تھیں ، جن کا بطلان گزشتہ مباحث میں بیان ہو چکا ہے ، حضرت عثمان کے اس کارنامے پر کسی مسلمان کو اعتراض نہیں کیونکہ قرات میں اختلاف مسلمانوں میں اختلاف کا باعث بن رہا تھا اور اس کا شیرازہ بکھر رہا تھا بلکہ اس اختلاف کی وجہ سے بعض مسلمان بعض کو کافر قرار دے رہے تھے گزشتہ مباحث میں ایسی روایات گزر چکی ہیں جن میں رسول اللہ (ص) نے قرات میں اختلاف سے منع فرمایاہے ہاں ! حضرت عثمان کے جس عمل پر مسلمان اعتراض کرتے ہیںوہ ان کا قرآن کے باقی نسخوں کو جلانا اور مختلف شہروں میں جلانے کا حکم دینا ہے اس عمل پر مسلمانوں کی ایک جماعت نے اعتراض کیا تھا اور حضرت عثمان کا نام حراق المصاحف قرآن سوز رکھ دیا تھا۔

نتیجہ:

ان گزشتہ مباحث سے قارئین محترم کے سامنے واضح ہو گیا کہ تحریف قرآن کی باتیں خرافات اور بیہودہ خیالات ہیں اس قسم کی باتیں ضعیف العقل کر سکتے ہیں یا وہ لوگ کر سکتےہیں جو اس مسئلہ میں کماحقہ ، غور نہیں کرتے یا تحریف کا قائل وہ ہو گا جو اس نظریئے پر فریفتہ ہو ظاہر ہے کسی بھی چیز کی محبت انسان کو اندھا اور بہرا کر دیتی ہے اور وہ نہ حق کی بات کر سکتا ہے اور نہ سن سکتا ہے اس کے برعکس جو شخص عقلمند، منصف مزاج اور متفکرہو گا وہ اس نظریہ کے باطل ہونے میں شک نہیں کر سکتا۔

____________________

(۱) الاتقان نوع ۱۸ ، ج ۱ ، ص ۱۰۳

۳۲۸

ظواھر قرآن کی حجیت

٭ ظواہر قرآن کے حجت نہ ہونے کے دلائل

٭ قرآن فہمی کا مختص ہونا

٭ تفسیر بالرائے کی ممانعت

٭ معانی قرآن کی پیچیدگی

٭ خلاف ظاہر کا یقین

٭ متشابہ پر عمل کی ممانعت

٭ قرآن میں تحریف

۳۲۹

اس میں کوئی شرک نہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے اظہار مافی الضمیر اور افہام و تفہیم کا کوئی خاص طریقہ نہیں اپنایا اور افہام و تفہیم کا وہی طریقہ اپنایا جو آپ (ص) کی قوم می رائج تھا آپ (ص) اپنی قوم کے لئے قرآن لے کرآئے تاکہ وہ اسے سمجھے اور اس کی آیتوں میں غور و فکر کرے قرآن جن کاموں کا حکم دے انہیں بجا لائے اور جن باتوں سے روکے اس سے باز آ جائے قرآن کی متعدد ا یتوں میں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ) (۴۷:۲۴)

''تو کیا یہ لوگ قرآن میں (ذرا بھی ) غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں،،

دوسری جگہ ارشادہوتا ہے:

( وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ) ۳۹:۲۷

''اور ہم نے تو اس قرآن میں لوگوں کے (سمجھانے کے) واسطے ہر طرح کی مثل بیان کر دی ہے تااکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں،،

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ) ۲۶:۱۹۲

''اور (اے رسول) بیشک یہ (قرآن) ساری خدائی کے پالنے والے (خدا) کا اتارا ہوا ہے،،

( نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ) : ۱۹۳

''جسے روح الامین (جبرئیل) لے کر نازل ہوئے ہیں،،

( عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ) : ۱۹۴

''تمہارے دل پر تاکہ تم بھی (اور پیغمبروں کی طرح لوگوں کو عذاب خدا سے) ڈراؤ،،

۳۳۰

( بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ ) : ۱۹۵

''(جسے جبرئیل) صاف عربی زبان میں (لے کر آئے)،،

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( هَـٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ ) ۳:۱۳۸

''یہ (جو ہم نے کہا) عام لوگوں کیلئے تو صرف بیان (واقعہ ) ہے (مگر) اور پرہیز گاروں کیلئے نصیحت ہے،،

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ) ۴۴:۵۸

''تو ہم نے اس قرآن کو تمہاری زبان میں (اس لئے) آسان کر دیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت پکڑیں،،

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ) ۵۴:۱۷

''اور ہم نے تو قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے واسطے آسان کر دیا ہے تو کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے،،

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ) ۴:۸۲

''تو کیا یہ لوگ قرآن میں بھی غور نہیں کرتے اور (یہ نہیں خیال کرتے کہ) اگر خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے (آیا ) ہوتا توضرور اس میں بڑا اختلاف پاتے،،

ان کے علاوہ بھی قرآن کی ایسی آیات موجود ہیں جن میں احکام قرآن پر عمل کرنا واجب قرار دیا گیا اور اس کے ظواہر پر عمل کرنے کی تاکید کی گئی ہے ذیل میں ظواہر قرآن کی حجیت اور عربوں کے قرآن کے معانی کو سمجھنے کے چند دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔

۳۳۱

۱۔ قرآن کو رسالت کی حجت و دلیل کے طورپر نازل کیا گیا اور نبی اکرم (ص) نے پوری انسانیت کو اس کی ایک سورہ تک کی مثل پیش کرنے کا چیلنج کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عرب قرآن کے ظاہری معانی سمجھتے تھے اگر قرآن ایک ناقابل حل معمہ ہوتا تو عربوں کو چیلنج کرنا صحیح نہ ہوتا اور ان کے سامنے قرآن معجزہ ہونا ثابت نہ ہوتا کیونکہ جس چیز کو وہ سمجھتے ہی نہ تھے اس کا جواب کیا دیتے اور یہ بات قرآن نازل کرنے کے مقصد اور لوگوں کو دعوت ایمان دینے سے سازگار نہیں بلکہ منافی ہوتی۔

۲۔ بہت سی روایات میں ثقلین ، جنہیں رسول اللہ (ص) اپنے بعد چھو ڑکر گئے ، سے متمسک رہنے کا حکم دیا گیا ہے ظاہر ہے تمسک کا مطلب یہ ہے کہ اس کتاب کو اپنایا جائے اور اس سے جو احکام سمجھےج ائیں ان پر عمل کیا جائے اور ظاہر قرآن کی حجیت اسی کا نام ہے۔

۳۔ روایات متواترہ میں حکم دیا گیا ہے کہ روایات کو قرآن کے سامنے پیش کرو( اس سے مقایسہ کرو) اور پھر جو روایت کتاب خدا کیخلاف ہو اسے باطل سمجھو اور دیوار پر دے مارو وہ جھوٹ پر مبنی ہے اس کو قبول کرنے سے منع کیا گای ہے اور ائمہ (ع) کا فرمان نہیں ہے یہ روایات تصریح کرتی ہیں کہ ظواہر قرآن حجت ہیں اور قرآن کو عام اہل زبان جو فصیح عربی جانتے ہوں سمجھ سکتے ہیں۔

اس قسم کی دوسری روایات میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ صحیح شرائط کو باطل شرائط سے الگ کرنا ہو تو ان کا کتاب خدا سے مقایسہ کرو اور جو کتاب خدا کے خلاف ہو اسے مستردکر دو۔

۴۔ بعض احکام شرعیہ پرائمہ (ع) کا قرآنی آیات سے استدلال کرنا دلیل ہے کہ ظواہر قرآن حجت ہیں:

۱۔ زراہ نے امام صادق (ع) سے پوچھا کہ آپ (ع) نے کہاں سے سمجھا کہ پورے سر کا نہیں بلکہ سر کے ایک حصے کا مسح واجب ہے آپ (ع) نے فرمایا : ''لمکان الباء ،، (یعنی ''وامسحوا برؤوسکم،، میں ''ب،، بعض کا معنی دیتی ے اوریہ بتاتی ہے کہ سر کے کچھ حصے کا مسح واجب ہے)

۳۳۲

۲۔امام (علیہ السلام) نے منصور دو انیقی کو چغل خور کی بات پر عمل کرنے سے منع فرمایا اور کہا ''چل خور فاسق ہے،، اس کے بعد دلیل کے طور پر اس آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی:

( إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا ) ۴۹:۶

''اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبرلے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو،،

۳۔ ایک شخص نے گانا سننے کی خاطر ، جس کی آواز ہمسائے کے گھر سے آ رہی تھی بیت الخلاء میں دیر لگائی اور اپنی طرف سے یہ عذر پیش کیا کہ میں عمداً گانا سننے یہاں نہیں آیا آپ (ع) نے فرمایا:

''آپ تو نے خدا کا یہ فرمان نہیں سنا،،

( إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ) ۱۷:۳۶

''کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان سب کی (قیامت کے دن) یقیناً باز پرس ہونی ہے،،۔

۱۴۔ امام صادق (علیہ السلام) نے اپنے فرزند اسماعیل سے فرمایا:

جب مومنین کی ایک جماعت تیرے پاس آ کر گواہی دے تو اس کی تصدیق کر،،۔

پھر آپ (ع) نے بطور دلیل اس آیہ کریمہ کی تلاوت فرمائی:

( يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمومنينَ ) ۹:۶۱

''جب تک دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے،،

۳۳۳

۱۵۔ آپ (ع) نے فرمایا:

''تین مرتبہ طلاق شدہ عورت کے حلالہ کیلئے ایک غلام سے عقد کافی ہے ، کیونکہ اس پر بھی ''زوج،، صادق آتا ہے ارشاد خداوندی ہے:

( حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ) ۲:۲۳۰

''جب تک دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے،،

۱۶۔ آپ (ع) نے فرمایا۔

جب عورت کو تین طلاقیں دی گئی ہوں وہ عقد منقطع (متعہ) سے حلال نہیں ہو گی ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا ) ۲:۲۳۰

''ہاں اگر دوسراشوہر (نکاح کے بعد ) اس کو طلاق دے دے تب البتہ ان میاں بی بی پر باہم میل کر لینے میں کچھ گناہ نہیں ہے،،۔

اور متعہ میں طلاق نہیں ہوتی۔

۱۷۔ ایک شخص نے امام صادق (ع) کی خدمت میں آ کر عرض کی:

ٹھوکر لگنے سے میراناخن اتر گیا ہے جس پر پٹی باندھی ہوئی ہے مسح کیسے کروں؟ آپ (ع) نے فرمایا: اس مسئلے اور اس قسم کے دوسرے مسائل کا جواب قرآن سے تلاش کیا جا سکتا ہے ، خدا فرماتا ہے:

( وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ ) ۲۲:۷۸

''اور امور دین میں تم پر کسی طرح کی سختی نہیں کی،،

پھر آپ (ع) نے فرمایا : اس پٹی کے اوپر مسح کرو،،

۳۳۴

۱۸: امام صادق (ع) سے بعض عورتوں کے بارے میں سوال کیا گیا کہ حلال ہیں یا حرام ؟ آپ (ع) نے فرمایا:

''حلال ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ ) ۴:۲۴

''اور ان عورتوں کے سوا(اور عورتیں) تمہارے لئے جائز ہیں،،

۱۹۔ آپ (ع) نے فرمایا:

''مولا کی اجازت کے بغیر غلام نکاح نہیں کر سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

( عَبْدًا مَّمْلُوكًا لَّا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ ) ۱۶:۷۵

''ایک غلام ہے جو دوسرے کی ملک ہے (اور) کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا،،

۲۰۔ آپ (ع) نے بعض حیوانات کے حلال گوشت ہونے کی دلیل کے طور پر اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ ) ۶:۱۴۵

''(اے رسولؐ) تم کہو کہ میں تو جو (قرآن) میرے پاس وحی کے طور پر آیا ہے اس میں کوئی چیز کسی کھانے والے پر جو اس کو کھائے حرام نہیں پاتا،،

ان کے علاوہ بھی امام (ع) نے آیات قرآن سے استدلال فرمائے ہیں جو فقہ کے مختلف ابواب میں موجود ہیں۔

۳۳۵

ظواہر قرآن کے حجت نہ ہونے کے دلائل:

محدثین کی ایک جماعت ظواہر قرآن کی حجیت کی منکر ہے اور ان پر عمل کرنے سے منع کرتی ہے اور اپنے مدعا پر ذرج ذیل دلائل پیش کرتی ہے:

۱۔ قرآن فہمی کا مختص ہونا:

قرآن کو صرف وہی ہستیاں سمجھ سکتی ہیں جن سے قرآن مخاطب ہے ان علماء کرام نے اپنے اس دعویٰ کے اثبات میں چند روایات سے استدلال کیا ہے وہ روایات یہ ہیں:

i ۔ مرسلہ(۱) شعیب بن انس میں امام صادق (ع) نے حضرت ابو حنیفہ سے فرمایا:

''انت فقه اهل العراق ؟ قال : نعم قال ع : فبایی شیی تفتیهم ؟ قال : بکتاب الله و سنة نیسه قال ع یا ابا حنیفة تعرف کتاب الله حق معرفته ، و تعرف الناسخ من المنسوخ ؟ قال : نعم قال ع : یا ابا حنیفة لقد ادعیت علماً ویلک ماجعل الله ذلک الا عند اهل الکتاب الذین انزل علیهم ، وبلک ماهو الا عند الحاص من ذریة تبینا ص وما ورثک الله تعالیٰ من کتابه حرفاً ،،

''کیا تو اہل عراق کا فقیہ ہے ؟ حضرت ابو حنیفہ نے جواب دیا : جی ہاں ۔ آپ (ع) نےف رمایا : تو کس دلیل کی بنیادپر لوگوں میں فتویٰ دیتا ہے ؟ حضرت ابو حنیفہ نے کہا : کتاب خدااور سنت نبوی (ص) کی بنیاد پر فتویٰ دیتا ہوں ۔ آپ (ع) نے فرمایا : کیا تو کتاب خدا کو کماحقہ ، سمجھ سکتا ہے اورناسخ کو منسوح سے تمیز دے سکتا ہے ؟ حضرت ابو حنیفہ نے کہا : جی ہاں۔ آپ (ع) نے فرمایا : ابو حنیفہ : تو نے ایک بہت بڑے علم کا دعویٰ کیا ہے اتنا وسیع علم اللہ تعالیٰ نے صرف ان ہستیوں کو دیا ہے جن پر قرآن اتارا اور یہ علم صرف ہمارے نبی (ص) کی ذریت کے پاس ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے تجھے اپنی کتاب کے پاس حرف تک کا وارث نہیں بنایا،،

۳۳۶

ii ۔ زید شحام کی روایت میں ہے قتادہ امام باقر (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ (ع) نے فرمایا:

''دخل قتادة علی ابیی جعفر ع فقال له : انت فقیه اهل البصرة ؟ فقال : هکذا یزعمون فقال ع بلغیی انک تفسر القرآن قال : نعم الی ان قال یا قتادة ان کنت فد فسرت القرآن من تلقساء نفسک فقد هلکت وهلکت ، وان کنت قد فسرته من الرجال فقد هلکت و اهلکت ، یا قتادة ویحک انما یعرف القرآن من خوطب به ،،

''فرمایا: میں نے سنا ہے تو قرآن کی تفسیر بیان کرتا ہے قتادہ نے کہا : جی ہاں ۔ سوال جواب ہوتے رہے حتی ٰ کہ آپ (ع) نے فرمایا: اے قتادہ اگر تو اپنی طرف سے قرآن کی تفسیر کرے گا تو خود بھی ہلاک ہو گا اور دوسروں کی ہلاکت کاباعث بھی بنے گا اور اگر لوگوں سے سنی سنائی تفسیر بیان کرے گا پھر بھی خود کو اور دوسروں کو ہلاک کرے گا اے قتادہ قرآن کو وہی ہستیاں سمجھ سکتی ہیں جن سے قرآن کے ذریعے خطاب کیا گیا ہے،،۔

جواب:

اس قسم کی روایات کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو کماحقہ سمجھنا ، اس کے ظاہر و باطن کو درک کرنا اورناسخ و منسوخ کو تشخیص دینا ان ہستیوں سے مختص ہے جن سے قرآن کے ذریعے خطاب کیا گیا ہے چنانچہ پہلی روایات میں امام (ع) نے حضرت ابو حنیفہ سے کتاب خدا کی کماحقہ معرفت اور ناسخ کو منسوخ سے تمیز دینے کے بارے میں سوال کیا تھا اور آپ (ع) نے حضرت ابو حنیفہ کی سرزنش بھی اسی بات پر کی تھی کہ انہوں نے کتاب خدا کے کماحقہ ، علم کا دعویٰ کیا تھا۔

دوسری روایت بھی لفظ ''تفسیر،، پر مشتمل ہے جس کا معنیٰ کسی حقیقت پر سے پردہ اٹھاتا ہے بنا برایں یہ روایت ظواہر قرآن پر عمل کرنے کو شامل نہیں ہے۔ اس لئے کہ ظاہر پر تو کوئی پردہ نہیں ہوتا جسے اٹھانا پڑے اور تفسیر صادق آئے۔

۳۳۷

اس حقیقت پر وہ گزشتہ روایات بھی دلالت کرتی ہیں جن کے مطابق قرآن کا سمجھنا صرف معصومین (ع) سے مختص نہیں روایت مرسلہ کا جملہ''وما ورثک الله من کتابه حرفاً (یعنی) خدا نے تجھے اپنی کتاب کے ایک حرف تک کا وارث نہیں بنایا،، بھی اسی نکتے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (ص) کے جانشینوں کو کتاب کا وارث بنایا ہے اور انہیں اس کے ظاہر و باطن اور تاویل ، غرض پوری کتاب کا علم دیا ہے جو کسی اور کو نہیں ملا ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ ) ۳۵:۳۲

''پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے خاص ان کو قرآن کاوارث بنایا جنہیں (اہل سمجھ کر) منتخب کیا،،۔

معلوم ہوا قرآن کے حقائق اور واقعات کے صحیح عالم معصومین (ع) ہیں۔ روایت مرسلہ میں بھی حضرت ابو حنیفہ وغیرہ سےا یسے علم کی نفی کی گئی ہے ورنہ یہ بات نامعقول ہے کہ حضرت ابو حنیفہ کتاب خداسے کچھ بھی نہ جانتے ہوں۔ اس مضمون کی آیات اور روایات اور بھی ہیں جن میں کتاب خدا کے مکمل علم کو معصومین (ع) سے مختص کیا گیا ہے۔

۲۔ تفسیر بالرائے کی ممانعت

قرآنی الفاظ کے ظاہری معنی کو اپنانا اوراس پر عمل کرنا ایک قسم کی تفسیر بالرائے ہے جس کی فریقین کی متواتر روایات میں نہی کی گئی ہے۔

جواب:

اس سے قبل بیان ہو چکاہے کہ تفسیر کا معنی کسی پوشیدہ حقیقت سے پردہ اٹھانا ہے کسی قرآنی لفظ سے اس کے ظاہری معنی کو لے لینا تفسیر نہیں کہلائے گا کیونکہ یہ ظاہری معنی پوشیدہ اور مستور نہیں ہے کہ اس سے پردہ اٹھانا پڑے۔

۳۳۸

بفرض تسلیم اگر یہ تفسیر بھی کہلائے تو یہ تفسیر بالرائے نہیں ہو گی جس سے وہ روایات متواتر اس کو شامل ہو جائیں جن میں تفسیر بالرائے کی ممانعت کی گئی ہے ، بلکہ یہ تفسیر ایسی ہو گی جس کو عام لوگ کسی لفظ سے سمجھتے ہیں مثلاً اگر کوئی شخص عام فہم اور قرائن متصلہ و منفصلہ کے مطابق نہج البلاغۃ کے خطبات میں سے کسی خطبے کا ترجمہ کرے تو اس کوتفسیر بالرائے نہیں کہا جائے گا اس حقیقت کی طرف امام صادق (ع) نے بھی اشارہ فرمایا ہے۔

انما هلک الناس فیی المتشابه الانهم لم یقفوا علی معناه ، ولم یعرفوا حقیقته ، فوضعوا له تاویلا من عند انفسهم بآرائهم ، واستغنوا بذلک من مسالة الاوصیاء فیعرفونهم

''لوگ قرآن کی متشابہ آیات (جن کا معنی ظاہر نہ ہو) کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں کیونکہ وہ اس کے حقیقی معانی نہیں سمجھ سکتے اور اپنی رائے سے اس کی کوئی نہ کوئی تاویل و توجیہ کر لیتے ہیں جس کے بعد وہ اپنے کو اوصیاء سے بے نیاز سمجھتے ہیں اور متشابہ آیات کامطلب ان سے نہیں پوچھتے تاکہ وہ انہیں ان آیات کے صحیح معانی بتائیں،،

ممکن ہے ان روایات میں تفسیر بالرائے سے مراد یہ ہو کہ ائمہ (ع) کی طرف رجوع کئے بغیر ، جو قرآن کے ہم پلہ اور واجب الاطاعت ہیں ، مستقل طور پر اور اپنی رائے سے کوئی فتویٰ دیا جائے مثلاً اگر کوئی شخص قرآن میں موجود کسی عام یا مطلق پر فوراً عمل کرے اور روایات ائمہ سے مخصص اور مقید کو تلاش نہ کرے تو یہ تفسیر بالرائے ہو گی۔

خلاصہ کلام یہ کہ قرآن کے کسی لفظ کے قرائن متصلہ اور منفصلہ کو کتاب و سنت میں تلاش کرنے اور دلیل عقلی ڈھڈنڈے کے بعد اس کے ظاہری معنی کو لے لینا تفسیر بالرائے تو کجا تفسیر بھی نہیں ہے اس کے علاوہ جہاں بعض روایات میں تفسیر بالرائے سے نہی کی گئی ہے وہاں کچھ ایسی روایات بھی ہیں جن میں قرآن کی طرف رجوع کرنے اور اس کے ظاہری معنی پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان دونوں قسم کی روایات پر عمل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ تفسیر بالرائے سے مراد قرآن کے ظاہری معنی پر عمل نہ ہو بلکہ متشابہ اور غیر واضح آیات کی اپنی طرف سے تاویل کرنا مقصود ہو اس طرح دونوں قسم کی روایات پر عمل ہو جائے گا۔

۳۳۹

۳۔ معانی قرآن کی پیچیدگی

قرآن مجید انتہائی بلند معانی اور پیچیدہ مطالب پر مشتمل ہے جو انسان کی طاقت فہم سے بالاتر ہے اور قرآنی مقاصد کا احاطہ انسانی قدرت سے باہر ہے گزشتہ علمائے کرام کی کچھ کتابیں بھی ایسی ہیں جنہیں ہر خاص و عام نہیں سمجھ سکتا بلکہ صرف ارباب دانش اور نکتہ دان ہی سمجھ سکتے ہیں تو کتاب الٰہی کو ہر شخص کیسے سمجھ سکتا ہے (جس میں اولین و آخرین کے علوم جمع ہیں)۔

جواب

یہ مسلم ہے کہ قرآن میں ''مالکان،، اور ''مایکون،، کا علم موجود ہے اور اس وسیع علم کے مالک صرف اور صرف اہل بیت (علیہم السلام) ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ قرآن کے کچھ ظاہری معانی بھی ہیں جن کو لغت عرب اور اس کے اسلوب کا جاننے والا ہر شخص سمجھ سکتا ہے اور قرائن و مویدات کو تلاش کرنے کے بعد ان معانی پر عمل کر سکتا ہے۔

۴۔ خلاف ظاہر کا یقین

ہمیں اجمالاً علم ہے کہ بعض عمومات قرآن کی تخصیص اور مطلقات کی تقیید ہوئی ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ بعض ظواہر قرآن یقیناً مراد الٰہی نہیں ہیں اور یہ عمومات جن کی تخصیص ہوئی ہے وہ مطلقات جن کی تقیید ہوئی ہے اور ظواہر قرآن جو یقیناً مراد الٰہی نہیں ہیں ، مشخص و معین نہیں ہیں تاکہ صرف انہی عمومات اور مطلقات میں ظاہر پر عمل کرنے سے احتراز کیا جائے نتیجہ یہ نکلا کہ تمام عمومات ، مطلقات اور ظواہر قرآن اگرچہ بذات خود مجمل نہیں لیکن بعض عمومات کی تخصیص اور بعض مطلقات کی تقیید کی وجہ سے باقی عمومات ، مطلقات اور ظواہر قرآن بھی مجمل ہو جائیں گے اس لئے ان عمومات ، مطلقات اور ظواہر قرآن پر عمل کرنا جائز نہیں مبادا خلاف واقع معنی کاارادہ ہو جائے۔

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689