البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن5%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313940 / ڈاؤنلوڈ: 9312
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

جواب:

پورے قرآن میں بعض عمومات کی تخصیص اور بعض مطلقات کی تقیید کے اجمالی علم سے ظواہر قرآن پر عمل کرنا تب جائز نہ ہوتا جب ہم مخصص و مقید کی تلاش کے بغیر ہی قرآن کے ظاہری معنی کاارادہ کرنا چاہیں لیکن اگر مکلف کو تحقیق و تلاش کے نتیجے میں وہ مخصصات اور مقیدات مل جائیں جن کا اسے اجمالی علم تھاتو لامحالہ اس کا اجمالی علم تفصیلی علم میں تبدیل ہو جائےگایعنی وہ غیر معین اور پورے قرآن میں گم گشتہ مخصصات اور مقیدات معین اور محدود ہو جائیں گے اجمالی علم بے اثرہو جائے گا اور باقی آیات میں ظاہر قرآن پر عمل کرنا جائز ہو گا۔

یہ قاعدہ ، سنت (روایات) میں بھی جاری ہو گا کیونکہ روایات کے بارے میں بھی ہم اجمالی طور پر یہ جانتے ہیں کہ بعض کی تخصیص وتقیید ہوئی ہے جب تحقیق کے بعد بعض مخصصات اور مقیدات دستیاب ہو جائیں تو یہ اجمالی علم تفصیلی علم میں تبدیل ہو جائےگا اور باقی روایات کے ظاہری معنی پر عمل کرنا جائز ہوگ ا اگر اجمالی علم کے تفصیلی علم میں تبدیل ہو جانے کے بعد بھی ظواہر قرآن پر عمل کرنا نہ ہوتا تو سنت (روایات) پر عمل کرنا بھی جائز نہ ہوتا بلکہ شبہات(۱) حکمیہ (وجوبیہ ہوں یا تحریمیہ) میں اصالتہ البراتہ کا جاری کرنا جائز نہ ہوتا کیونکہ ہر مکالف یقینی طور پر یہ جانتا ہے کہ شریعت مقدسہ میں الزامی احکام (واجب و حرام افعال) موجود ہیںاس علم اجمالی کا لازمہ یہ ہے کہ ہر شبہہ وجوبیہ اور تحریمیہ میں احتیاط برتی جائے ، حالانکہ ان مقامات میں احتیاط کوئی بھی واجب نہیں سمجھتا۔

____________________

(۱) اگر کسی علم کے بارے میں شروع میں یہ شک ہو کہ یہ واجب ہے یا نہیں یا یہ حرام ہے یا نہیں تو اسے شبہہ حکمیہ کہتے ہیں ایسے مسائل میں اصالۃ البراتہ جاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ احتیاطاً عمل کو انجام دینا اور دوسری صورت میں احتیاطاً عمل کو ترک کرنا ضروری نہیں بلکہ پہلے عمل کوترک اور دوسرے عمل کو انجام دے سکتے ہیں اور اس احتمال کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ شریعت اسلام میں کچھ واجبات تو یقیناً موجود ہیں ہو سکتا ہے یہ مشکوک عمل ان واجبات یا محرمات میں سے ہو۔ (مترجم)

۳۴۱

ہاں ! محدثین کی ایک جماعت نے شبہہ تحریمہ میں احتیاط کو واجب قرار دیا ہے لیکن اس قول کا مدرک و منبع یہ نہیں کہ شریعت مقدسہ میں کچھ تکالیف (فرائض) الزامی موجود ہیں جن کا اجمالی علم ہے اس لئے وہ شبہہ تحریمیہ میں احتیاط کو واجب سمجھتے ہوں بلکہ اس قول کا مدرک یہ ہے کہ یہ حضرت ان روایات سے وجوب کو سمجھتے ہیں جن میں اس قسم کے شبہات احتیاط یا توقف کا حکم دیا گیا ہے اگر اس شبہہ تحریمیہ میں احتیاط کرنے کی وجہ وہ اجمالی علم ہوتا جو احکام الزامی کے بارے میں موجود ہے تو ان حضرات کو شبہہ وجوبیہ میں بھی احتیاط کرنی چاہئے تھی حالانکہ جہاں تک ہم جانتے ہیں شبہہ و جوبیہ میں احتیاط کو کوئی بھی واجب نہیں سمجھتا ان تمام مسائل میں احتیاط واجب نہ ہونے کی ایک ہی وجہ ہے وہ یہ کہ وہ اجمالی علم جو بعض واجبات اور محرمات کے بارے میں رکھتے تھے ، بعض معین و مشخص و اجبات اور محرمات کی وجہ سے تفصیلی علم میںتبدیل ہو گیا اور اجمالی علم بے اثرہو کر رہ گیاہے۔

اس مسئلے کی مزید وضاحت کیلئے ہماری کتاب ''اجود التقریرات،، کی طرف رجوع فرمائیں۔

۵۔ متشابہ پر عمل کی ممانعت

قرآن کی متعدد آیات میں متشابہ آیات پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ) ۳:۷

'' اس میں کی بعض آیتیں تو محکم (بہت صریح) ہیں وہی (عمل کرنے کیلئے) اصل (وبنیاد) کتاب ہیں اور کچھ (آیتیں) متشابہ (گول مول جس کے معنی میں سے پہلو نکل سکتے ہیں) پس جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ انہی آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو متشابہ ہیں۔

متشابہ آیات میں ظواہر قرآن بھی شامل ہیں اگر ظواہر قرآن یقینی طورپر متشابہ نہ ہوں تو کم از کم یہ احتمال ضرور موجود ہے کہ یہ متشابہ کے ذیل میں آتے ہوں گے جس کے بعد وہ حجت اور قابل عمل نہیں رہتے کیونکہ آیہ کریمہ میں متشابہات پر عمل کرنے سے روکا گیا ہے۔

۳۴۲

جواب

متشابہ ایسا الفاظ ہے جس کا معنی سب کو معلوم ہے اورا س میں کسی قسم کا اجمال اور مشابہت نہیں اور وہ (متشابہ) یہ ہے کہ ایک ہی لفظ کے دو یا دو سے زیادہ معانی کا احتمال ہو بایں معنی کہ ان تمام معانی کی نسبت لفظ کی طرف یکساں ہو جتنے فیصد ایک معنی کا احتمال ہوا اتنے فیصد دوسرے معنی کااحمتال بھی ہو یعنی جب لفظ بولا جائے توہر معنی کے بارے میں یہ احتمال برابر کا دیا جائے کہ یہی مراد ہو گا اس لئے جب تک کوئی دوسرا قرینہ کسی ایک معنی کی تعیین پر دلالت نہ کرے لفظ سے کسی معنی کا ارادہ نہیں کیا جائے گا بلکہ توقف کیا جائے گا متشابہ کے اس معنی کی روشنی میں لفظ ''ظاہر،، متشابہ کے مصادیق میں سے نہ ہو گا جس پر عمل کرنے سے روکا گیا ہے۔

بفرض تسلیم ، اگر لفظ متشابہ ہو اور یہ احتمال باقی ہو کر معنی ''ظاہر،، بھی متشابہ ہے پھر بھی ظاہر پر عمل کرنے سے نہیں روکا جا سکتا اس لئے کہ عقلاء کی یہ سیرت و روش رہی ہے کہ کلام سے جو معنی ظاہر ہو اس پر عمل کرتے ہیں اور صرف یہ احتمال کہ شاید ظاہر بھی متشابہ کے مصادیق میں سے ہو اس سیرت عقلاء کو ترک کرنے کا باعث نیں بن سکتا بلکہ اس عمل کے جائز نہ ہونے پر ایک مستقل اور قطعی دلیل درکار ہو گی اور جب تک ایسی مستقل اور قطعی دلیل نہ ملے بلا شبہ ظاہری معنی پر عمل کرنا جائز ہو گا ۔

یہی وجہ ہے کہ اگر غلام مالک کے ظاہر کلام پر عمل نہ کرے اور اس کی مخالفت کرے تو مالک احتجاج کا حق رکھتا ہے اور اپنے غلام کا مواخذہ کر سکتا ہے اسی طرح اگر غلام مالک کے ظاہر کلام پر عمل کرے مگر بعد میں معلوم ہو کہ مالک کا مقصد ظاہر کلام کیخلاف تھا تو غلام ، مالک کیخلاف احتجاج کر سکتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ جب تک کوئی قطعی دلیل ممانعت نہ کرے ظاہر کلام پر عمل کرنے کی سیرت پر عمل ہوتا رہیگا۔

۳۴۳

۶۔قرآن میں تحریف

قرآن میں تحریف ہونا ظواہر قرآن پر عمل کرنے سے مانع اور اہم رکاوٹ ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ انہی ظواہر قرآن کے ساتھبعض قرائن ملے ہوئے ہوں جو معنی مراد پر دلالت کرتے تھے مگر اب تحریف کے نتیجے میں ساقط اور مفقود ہو گئے ہوں (جس کے نتیجے میں لفظ ایسے معنی میں ظہور رکھتا ہے جو معنی مراد کیخلاف ہے)

جواب:

اولاً : ہم اس بات کو نہیں مانتے کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے چنانچہ اس سلسلے میں سیر حاصل بحث اس سے قبل کر چکے ہیں وہ روایات جو قرآن کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتی ہیں ، خود اس بات کی دلیل ہیں کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی۔

ثانیاً : بفرض تسلیم اگر قرآن میں تحریف ہوئی ہے پھر بھی ان روایات کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن پر عمل کیا جائے گزشتہ مباحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ ظاہر قرآن پر عمل ضروری ہے اوریہ کہ ظاہر قرآن پر عمل کرنا ہی شریعت کی اساس اور بنیاد ہے اگر سنت (احادیث نبوی (ص) اور روایات (آئمہ(ع) ) مخالف قرآن ہو تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

۳۴۴

قرآن میں نسخ

٭نسخ کا لغوی معنی

٭نسخ کا اصطلاحی معنی

٭ نسخ کا امکان

٭ تورات میں نسخ

٭ شریعت اسلام میں نسخ

٭ تلاوت نسخ ہو ۔ حکم باقی رہے

٭تلاوت اور نسخ دونوں منسوخ ہوں

٭ حکم منسوخ ہو ۔ تلاوت باقی رہے

٭ان آیات کا تنقیدی جائزہ جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا

٭مسئلے کی وضاحت

٭ متعہ کی سزا ۔ سنگساری

٭متعہ کے بارے میں چند بے بنیاد شبہات

٭مسلمانوں سے برسر پیکار کفار کے احکام

٭آیت کے بارے میں بعض دیگر عقائد

٭آیت نجومی پر عمل کی احادیث

٭ مسئلے کی تحقیق

٭ اس صدقے کے نسخ ہونے کے اسباب

٭ حکم صدقہ کی حکمت

٭ کھلم کھلا تعصب

۳۴۵

کتب تفسیر وغیرہ میں عموماً کچھ ایسی آیات ذکر کی جاتی ہیں جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ منسوخ ہو گئی ہیں چنانچہ ابوبکر نحاس نے اپنی کتاب ''الناسخ و المنسوخ،، میں ان آیات کو جمع کیا ہے اور ان کی تعداد ۱۳۸ ہے ہم نے اپنی اس کتاب میں اس بحث کو بھی شامل کیا ہے تاکہ ان آیات جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے کے بارے میں تحقیقی بحث کریں اور یہ ثابت کریں کہ جن آیات میں نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے ان میںسے ایک آیت بھی منسوخ نہیں ہوئی چہ جائیکہ سب منسوخ ہوئی ہوں۔

البتہ ہم نے ان آیات میں سے صرف ۳۶ آیات کا انتخاب کیا ہے اور یہی آیات بحث و تمحیص اور وضاحت کی محتاج ہیں اور انہی پر بحث سے حق آشکار ہو جائےگا باقی آیات کا نسخ نہ ہونا اتنا واضح ہے کہ محتاج بیان و قابل استدلال نہیں۔

نسخ کا لغوی معنی

لغت میں نسخ ایک جگہ لکھی ہوئی بات کو نقل کر کے دوسری جگہ لکھنے اور اتارنے کو کہا جاتا ہے چنانچہ ''استنساخ،، اور ''انتساخ،، بھی اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں اس کے علاوہ یہ نقل و انتقال اور تبدیلی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ''تناسخ المواریث و الدھور،، (یعنی) ''ثروت و دولت اور زمانہ تبدیل ہوئے،،۔

نسخ کاایک معنی ازالہ اور برطرف کرنابھی ہے ''نسخت الشمس اظل ،، ''(یعنی،، سورج نے سائے کو زائل کر دیا،، میں ''نسخت،، اسی معنی میں استعمال ہوا ہے صحابہ کرام اور تابعین نے نسخ کو اس معنی میں کثرت سے ا ستعمال کیا ہے چنانچہ صحابہ اور تابعین مخصص و مقید کوناسخ ہی کہتے تھے(۱)

____________________

(۱) ابن عباس کی طرف منسوب تفسیر میں تحصیص پر کثرت سے نسخ کا اطلاق ہوا ہے۔

۳۴۶

نسخ کا اصطلاحی معنی

اصطلاح میں نسخ کسی ثابت امرشرعی کو اس کی مدت ختم ہونے کی وجہ سے اٹھانے کو کہتے ہیںچاہے وہ برطرف حکم کوئی حکم تکلیفی ہو جیسے وجوب ، حرمت وغیرہ میں یا حکم وضعی ہو جیسے صحیح ہوناباطل ہونا وغیرہ ہے اور چاہے وہ برطرف شدہ امر ، الٰہی منصب اور عہدوں میںسے ہو یا کوئی اور چیز ہو ، جس کی بازگشت بہ حیثیت شارع اللہ تعالیٰ کی طرف ہو ، جس کی مثال نسخ فی التلاوۃ ہے۔

ہم نے نسخ کی تعریف میں امر کے ساتھ ثابت کی قید کا اضافہ اس لئے کیا ہے تاکہ نسخ کی یہ تعریف اس حکم کے برطرف ہونے کو شامل نہ ہو جو خارج میں اپنے موضوع کے ختم ہو جانے کے باعث زائل ہو جائے جیسے ماہ رمضان ختم ہونے کے ساتھ ہی روزے کاوجوب بھی ختم ہو جاتا ہے اسی طرح نماز کا وقت نکلنے کے بعد نماز کاوجوب بھی ختم ہو جاتاہے اور کسی مال کامالک مر جانے سے اس کی مالکیت (مال کا مالک ہونا) بھی ختم ہو جاتی ہے ان تمام مثالوں میں حکم زائل تو ہو جاتا ہے مگر نسخ نہیں کہلاتا کیونکہ ان تمام مثالوں میں حکم نہیں بلکہ موضوع حکم برطرف ہو گیاہے موضوع کے ختم ہو جانے کی وجہ سے حکم برطرف ہوناممکن ہے ایسا ع ملی طورپر بھی ہوا ہے اور اس میں کسی کو کوئی اعتراض و اشکال نہیں ہے۔

ہم ذیل میں نسخ واقعی کی وضاحت کرتے ہیں:

(۱) پہلا مرحلہ تشریع اور قانون سازی کا ہوتا ہے اس مرحلے میں حکم بطور قضیہ حقیقیہ ثابت ہوتا ہے یعنی اس مرحلہ میں حکم ثابت ہو جاتا ہے چاہے خارج میں فی الحال کوئی موضوع (جس کیلئے حکم ثابت ہو) موجودہو یا نہ ہو اس مرحلے میں حکم کا دار و مدار ایک فرضی موضوع ہوا کرتا ہے۔

۳۴۷

مثلاً جب شارع مقدس فرمائے : ''شرب الخمر حرام،، (یعنی) مے نوشی حرام ہے،، اس حکم کا مطلب یہ نہیں کہ ابھی اسی وقت خارج میں (ہمارے سامنے) کوئی شراب موجود ہے جس پر حرمت کا حکم لگایا گیا ہے بلکہ اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی خارج (دنیا) میں کوئی شراب ہو گی شریعت میں اس کیلئے حکم ، حرام ہونے کا ہے چاہے فی الحال خارج میں کوئی شراب موجود ہو یا نہ ہو اس مرحلے میں حکم کو صرف نسخ کے ذریعے برطرف کیا جا سکتا ہے۔

(۲) دوسرا مرحلہ اس حکم کا خارج میں موجود ہوتا ہے بایں معنی کہ موضوع حکم فی الحال خارج میں موجود ہے اور حکم بھی متحقق ہے۔

مثال کے طورپر خارج میں (سامن) شراب موجود ہے اور شریعت میں مقرر شدہ حکم حرمت اس شراب کیلئے ثابت ہے جب تک موضوع موجود رہں گا حکم بھی رہے گا اگر کسی وقت شراب سرکہ میں تبدیل ہو جائے تو بلا شک شراب ہونے کی حالت میں موجود حکم اب برطرف ہو جائے گا مگر یہ نسخ نہیں کہلائے گا اس کے جواز بلکہ خارج میں واقع ہونے میں بھی کسی کو کوئی اختلاف نہیں اختلاف صرف پہلے مرحلے کے بارے میں ہے کہ آیا عالم تشریع (قانون سازی کے مرحلے) میں کسی حکم کو برطرف کیا جا سکتا ہے کہ نہیں؟

نسخ کاامکان

عقلاء مسلمین میں مشہور یہی ہے کہ زیر بحث نسخ (عالم تشریع میں کسی حکم کو برطرف کرنا) جائز ہے یہود و نصاریٰ نے اس کی مخالفت کی ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ نسخ محال ہے ان کا مسند و مدرک ایک شبہ (غلط فہمی) ہے جو تارعنکبوت سے بھی زیادہ کمزور اور ضعیف ہے۔

۳۴۸

خلاصہ شبہ:

احکام کو نسخ کرنے سے یا یہ لازم آتا ہے کہ خدا کے کام حکمت و مصلحت پر مبنی نہ ہوں یا یہ لازم آتا ہے کہ خدا کسی بھی حکم کی حکمت اور مصلحت سے آگاہ نہ ہو یہ دونوں امور محال ہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ جو حکیم مطلق ہے ، جو حکم بھی مقرر فرمائے کسی نہ کسی مصلحت کی بناء پر مقرر ہوتا ہے جو اس حکم کی متقاضی ہوتی ہے کیونکہ بے مصلحت حکم اس کے بنانے والے کی حکمت سے سازگار نہیں۔

ایسے فرض میں حکم کو اٹھاتے وقت یا تو اس حکم کی مصلحت و حکمت باقی ہو گی اور نسخ کرنے والا اس کا علم رکھتا ہو گا تو یہ حکم بنانے والے ، جو حکیم مطلق ہے، کی حکمت کیخلاف ہے ، یا بعد میں انکشاف ہوا ہوگا کہ یہ حکم شروع سے مصلحت پر مبنی نہ تھا ، جیسے عام عرفی قوانین کے بارے میں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اس میں مصلحت نہیںتھی اس سے جہل خدالازم آتا ہے ، جو محال ہے معلوم ہوا نسخ محال ہے اس لئے کہ اس سے محال لازم آتا ہے (مستلزم المحال محال،، (یعنی) ''جس چیز سے محال لازم آئے وہ چیز محال ہوتی ہے،،۔

جواب:

بعض اوقات اللہ تعالیٰ کچھ کاموں کا حکم دیتا ہے اور بعض کاموں سے منع فرماتا ہے لیکن خالق کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ جس کا حکم دیا ہے وہ ضرور انجام پائے اور جس کام سے منع کیا ہے وہ ضرور ترک ہو جائے بلکہ اس امرونہی کا مقصد بندوں کا امتحان ہوتا ہے اس قسم کے اوامرو نواہی شریعت میں موجود ہیںایسے احکامات صادر کئے جانے کے بعد دوبارہ برطرف کئے جا سکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔

۳۴۹

اس قسم کے احکام صادر ہونے میں بھی مصلحت ہوتی ہے اور پھر انہیں واپس لینے میں بھی مصلحت ہوتی ہے اس قسم کے نسخ اور ازالہ حکم سے نہ کوئی خلاف حکمت بات لازم آتی ہے اور نہ اس کا منشاء بداء (پہلے معلوم نہ ہو اور بعد میں انکشاف ہو ) ہے جو خدا کے لئے محال ہے۔

اور کبھی شارع کی طرف سے مقرر کردہ حکم حقیقی ہوتا ہے (بایں معنی کہ جس کام کو حکم دیا جائے اس کا بجا لانا اور جس کام سے روکا جائے اس کا ترک کرنا ضروری ہوتا ہے) اس کے باوجود ایک مدت کے بعد اس حقیقی حکم کو برطرف کیا جاتا ہے لیکن اس معنی میں نہیں کہ ایک حکم ، واقع اور علم خدا میں دائمی طور پر ثابت ہو مگر کسی خاص مصلحت یا اس حکم میں کسی خامی کے انکشاف کی بناء پر اسے نسخ اور برطرف کیا گیا ہو جس سے حکیم اور واقعیات و حقائق کی عالم ذات کے حق میں محال لازم آئے۔

بلکہ نسخ کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ یہ مقرر کردہ حکم ، عنداللہ کسی خاص مدت اور زمانے تک محدود ہوتا ہے اور عام لوگوں کو اس محدود وقت کا علم نہیں ہوتا اور جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو حکم بھی خود بخود زائل ہو جاتا ہے۔

اس معنی میں نسخ یقیناً ممکن ہے اور اس پر کسی قسم کا اشکال لازم نہیں آتا کیونکہ زمانہ اور وقت کی خصوصیات ، جن پر حکم کا دار و مدار ہو ، احکام میں دخیل ہوا کرتی ہیں جس میں کسی عاقل کوشک نہیں۔

مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں ہفتہ کا دن خصوصیت رکھتا تھا جس کی وجہ سے روز ہفتہ اس شریعت کے ماننے والوں کیلئے عید قرار پایا اور باقی ایمام ہفتہ میں کسی یوم میں ایسی خصوصیت نہیں تھی یہی حیثیت اسلام میں جمعتہ المبارک کو حاصل ہے اسی طرح نماز ، روزے اور حج کے مخصوص اوقات کی بھی کچھ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے مقررہ اوقات میں یہ فرض قرار دیئے گئے ہیں۔

۳۵۰

جب شریعت کے کسی حکم (قانون) کے بنانے اور نہ بنانے میں زمانہ اور وقت کا دخل قابل تصور ہے تو کسی حکم کے دائمی رہنے اور نہ رہنے میں بھی وقت کا دخل قابل تصور ہونا چاہئے ! بنا برایں عین ممکن ہے کہ ایک حکم ، ایک معین مدت کیلئے مصلحت پر مشتمل ہو لیکن اس مدت کے گزر جانے کے بعد وہ مصلحت ختم ہو جائے اسی طرح اسی کے برعکس بھی ممکن ہے یعنی ممکن ہے کہ ایک محدود زمانے میں مصلحت نہ ہو اس محدود مدت کے گزرنے کے بعد مصلحت پیدا ہو جائے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب کوئی مخصوص گھڑی ، دن ہفتہ اور مہینہ کسی فعل کے بامصلحت اور نقصان دہ ہونے میں اثر انداز ہو سکتا ہے تو سال اور برس بھی اثر انداز اور دخیل ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک حکم چند محدود برس تک باصلحت رہے گا اور ان برسوں کے گزر جانے کے بعد اس فعل اور حکم میں وہ مصلحت نہ رہے گی جس طرح کسی حکم کے اطلاق کو زمانہ کے علاوہ کسی دوسری جداگانہ دلیل کے ذریعے مقید کیا جا سکتا ہے اسی طرح عین ممکن ہے کہ کسی جداگانہ دلیل کے ذریعے زمانے کے اعتبار سے بھی کسی مطلق حکم کو مقید کیا جائے کیونکہ بعض اوقات مصلحت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ حکم کو ظاہری طور پر عام اور مطلق چھوڑا جائے (ظاہراً کسی لفظ کے ذریعے عام کی تخصیص اور مطلق کی تقیید نہ کی جائے) جبکہ درحقیقت خاص اور مقید ہی مراد ہوتے ہیں اور مخصص و مقید کو کسی جداگانہ دلیل کی صورت میں بعد میں بیان کیا جاتا ہے۔

معلوم ہوا اور حقیقت نسخ ، کسی حکم کے اطلاق کو زمانہ کے اعتبار سے مقید کرنے کا نام ہے جس سے حکمت کی مخالفت لازم آتی ہے اور نہ بداء لازم آتا ہے جو خدا کیلئے محال ہیں۔

یہ تمام بحث اس مذہب کی بنیادپر ہوئی جس کے مطابق قانون سازی ، اعمال میں مصلحت و مفسدہ کے تابع ہوتی ہے لیکن اگر اس مذہب کی رو سے دیکھا جائے جس کے مطابق احکام ، اپنے اندر موجود مصلحت و مفسدہ کے تابع ہوتے ہیں تو پھر تمام احکام ان احکام کی مانند ہوں گے جو درحقیقت امر حقیقی (جن کا امتشال مطلوب ہو) نہیں ہوتے بلکہ صرف امتحان کیلئے صادر ہوتے ہیں ان کا صادر ہونا مصلحت سے خالی نہیں اور ان کا نسخ ہونابھی مصلحت سے خالی نہیں۔

۳۵۱

تورات میں نسخ

یہود و نصاریٰ شریعت میں نسخ کو محال قرار دے کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ شریعت موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام احکام آج تک باقی اور ثابت ہیں اور منسوخ نہیں ہوئے لیکن گزشتہ مباحث سے یہ ثابت ہو گیا کہ نسخ محال نہیں ہے نیز تورات اور انجیل میں بھی کئی مقامات پر نسخ واقع ہوا ہے ہم ذیل میں نمونہ کے طورپر عہد نامہ قدیم و جدیدسے نسخ کے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں جن سے اندازہ ہو جائے گا کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے مذہب کی حقانیت پر جو دلیل پیش کی ہے وہ کتنی کمزور ہے۔

۱۔ کتاب مقدس ، عہد نامہ قدیم و جدید ، سفر گنتی کے باب : ۴ شمارہ ۲۔۳ میں ہے:

''اور خداوند نے موسیٰ اور ہارون سے کہا : بنی لاوی میں سے قہانیوں کو ان کے گھرانوں اور آبائی خاندانوں کے مطابق تیس برس سے لے کرپچاس برس تک جتنے خیمہ اجتماع میں کام کرنے کیلئے مقدس کی خدمت میں شامل ہیں ان سب کو گنو،،

یہ حکم نسخ کر دیا گیا اور قبول خدمت کی عمر پچیس سال قرار دی گئی چنانچہ اسی سفر کے باب: ۸ ، شمارہ :۲۳ اور ۲۴ میں ہے:

''پھر خدا نے موسیٰ سے کہا : لاویوں کے متعلق جو بات ہے وہ یہ ہے کہ پچیس برس سے لے کر اس سے اوپر اوپر کی عمر میں وہ خیمہ اجتماع کی خدمت کے کام کیلئے اندر حاضر ہوا کریں،،۔

اس کے بعد یہ حکم بھی نسخ ہو گیا اور قبول خدمت کی عمر گھٹا کر بیس سال کر دی گئی چنانچہ تاب مقدس کے (عنوان) تواریخ ایک کے شمار ۲۳۔۲۴ میں ہے:

''لاوی کے بیٹے یہی تھے جو اپنے اپنے آبائی خاندان کے مطابق تھے ان کے آبائی خاندان کے سردار جیسا وہ نام بنام ایک ایک کر کے گنے گئے یہی ہیں وہ بیس برس اور اس سے اوپر کی عمر سے خداوند کے گھر کی خدمت کا کام کرتے تھے اور خدا کے گھر کی خدمت کو انجام دینے کیلئے خیمہ اجتماع کی حفاظت اور مقدس کی نگرانی اور اپنے بھائی نبی ہارون کی اطاعت کریں،،

۳۵۲

۲۔ سفر گنتی کے باب: ۲۸ شمارہ : ۳ اور ۷ میں ہے:

''تو ان سے کہہ دے جو آتشین قربانی تم کو خدا کے حضور پیش کرنا ہے کہ دو بے عیب یکسالہ برے (بھیڑیں) ہر روز دائمی سوختی قربانی کیلئے چڑھایا کرو۔ ایک برہ (بھیڑ) صبح اور دوسرا برہ (بھیڑ) شام کو چڑھانا اور ساتھ ہی ایک ایفہ کے دسویں حصہ کے برابر میدہ جس میں کوٹ کر نکالا ہوا تیل چوتھائی ھین کے برابر ملا ہو ، نذر کی قربانی کے طور پر گزراننا اور ھین کی چوتھائی کے برابر مے فی برہ تپاون کیلئے لانا،،

یہ حکم منسوخ ہو گیا اور ہر صبح کی آتشین قربانی روزانہ ایک سالہ بھیڑ قرار دی گئی اور ایفہ کے چھٹے حصہ کے برابر میدہ اور ایک تہائی ھین کے برابر تیل پیش کرنا ضروری قرار دیا گیا چنانچہ حزقیل کے باب ۴۶ شمارہ ۱۳۔۵ۃ میں ہے:

''تو ہر روز خداوند کے حضور پہلے سال کاا یک بے عیب برہ (بھیڑ)سوختنی قربانی کیلئے ہر صبح کو چڑھائے گا اور تو اس کے ساتھ ہر صبح نذر کی ربانی گزرانے گا یعنی ایفہ کا چھٹہ حصہ اور میدہ کے ساتھ ملانے کو تیل کے ھین کی ایک تہائی دائمی حکم کے مطابق ہمیشہ کیلئے خداوند کے حضور یہ نذر کی قربانی ہو گی اسی طرح وہ برے (بھیڑیں) اور نذر کی قربانی اور تیل ہر صبح ہمیشہ کی سوختنی قربانی کیلئے چڑھائیں گے،،۔

۳۔ سفر گنتی کے باب ۲۸: شمارہ :۹ اور ۱۰ میں ہے:

''اور شنبہ کے روز دو بے عیب نر بھیڑ اور نذر کی قربانی کے طورپر ایفہ کے پانچویں حصے کے برابر میدہ جس میں تیل ملا ہوا ہو تپاون کے ساتھ گزراننا دائمی سوختنی قربانی اور اس کے تپاون کے علاوہ یہ ہر شنبہ کی سوختنی قربانی ہے،،۔

یہ حکم نسوخ ہو گیا چنانچہ حزقیل باب : ۴۶ شمارہ : ۴۔۵ میں نسخ کے بعد کا حکم یوں مذکور ہے: ''اور سوختنی قربانی جو فرمانروا شنبہ کے دن گزراننے گا یہ ہے : چھ بے عیب بھیڑ اور ایک بے عیب مینڈھا اور نذر کی قربانی مینڈھے کیلئے ایک ایفہ اور بھیڑوں کیلئے نذر کی قربانی اس کی توفیق کے مطابق اور ایک ایفہ کیلئے ایک ھین تیل،،

۳۵۳

۴۔ کتاب مقدس سفر گنتی کے باب : ۳۰ شمارہ ۲ میں ہے:

''جب کوئی مرد خدا کی منت مانے یا قسم کھا کر اپنے اوپر کوئی خاص فرض ٹھہرا دے تو وہ اپنے عہد کو نہ توڑے بلکہ جو کچھ اس کے منہ سے نکلا ہے اسے پورا کرے،،۔

تورات میں ثابت یہی حکم (قسم کا جواز) منسوخ ہو گیا چنانچہ متیٰ کی انجیل باب : ۵ شمارہ : ۳۳۔۳۴ میں ہے: ''نیز تم نے یہ سنا ہے کہ گزشتوں سے کہا گیا تھا قسم کی مخالفت نہ کرو بلکہ اپنے رب کی قسم پورا کرو۔ لیکن میں یہ کہوں گا قسم ہرگز نہ کھاؤ،،۔

۵۔ کتاب مقدس کے سفر خروج باب : ۲۱ شمارہ : ۲۳۔۲۵ میں ہے:

''لیکن اگر نقصان ہو جائے تو جان کے بدلے جان لے او رآنکھ کے بدلے آنکھ دانت کے بدلے دانت اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ پاؤں کے بدلے پاؤں جلانے کے بدلے جلانا زخم کے بدلے زخم اور چوٹ کے بدلے چوٹ،،

یہ حکم قصاص شریعت حضرت عیسیٰ (ع) میں منسوخ ہو گیا چنانچہ انجیل متیٰ کے باب : ۵ شمارہ ۳۸ میں ہے:

''تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے میں آنکھ دانت کے بدلے میں دانت لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جوتیرے دائیں رخسارپر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے،،۔

۶۔ کتاب مقدس سفر پیدائش باب : ۱۷ شمارہ ۱۰ میں حضرت ابراہیم (ع) سے خدا کا خطاب ہے: '' اور میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزمذ نرینہ ختنہ کیا جائے،،

حضرت موسیٰ (ع) کی شریعت نے بھی اس حکم کی تائید کر دی۔ چنانچہ سفر خروج کے باب ۱۲ کے شمارہ : ۴۸۔۴۹ میں ہے:

۳۵۴

''اور اگر کوئی اجنبی تیرے ساتھ مقیم ہو اورخداوند کی فسح کو ماننا چاہتا ہو تو اس کے ہاں کے سب مرد اپنا ختنہ کرائیں تب وہ پاس آ کر فسح کرے یوں وہ ایسا سمجھا جائے گا گویا اسی ملک کی اس کی پیدائش ہے پر کوئی نامختون آدمی اسے کھانے نہ پائے وطنی اور اس اجنبی کیلئے جو تمہارے درمیان موجود ہو ایک ہی شریعت ہو گی،،۔

نیز کتاب مقدس کے سفر اخبار کے باب : ۱۲ شمارہ ۲ اور ۳ میں موجود ہے:

''خداوند نے موسیٰ سے کہا: بنی اسرائیل سے کہو اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور اس کے ہاں لڑکا پیدا ہو تو وہ سات دن ناپاک رہے گی جیسے حیض کے ایام میں رہتی ہے آٹھویں دن لڑکے کا ختنہ کیا جائے،،۔

یہ حکم بھی منسوخ ہو گیا اور حضرت موسیٰ (ع) اور حضرت عیسیٰ (ع) کی امت سے ختنہ کا فریضہ اٹھا لیا گیا چنانچہ کتاب مقدس ، عہد نامہ جدید کے عنوان ''رسولوں کے اعمال،، کے باب : ۱۵ شمارہ : ۲۴۔۳۰ اور پولس کے بعض خطوط میں نسخ کا یہ حکم موجود ہے۔

۷۔ کتاب مقدس کے سفر استثنا باب : ۲۴ شمارہ:۱۔۳ میں ہے:

''اگر کوئی مرد کسی عورت سے بیاہ کرے اور بعد میں اس میں کوئی ایسی بیہودہ بات پائے جس سے اس عورت کی طرف اس کی التفات نہ رہے تو وہ اس کا طلاق نامہ لکھ کراس کے حوالے کرے اور اسے اپنے گھر سے نکال دے اور جب اس کے گھر سے نکل جائے تو وہ دوسرے مرد کی ہو سکتی ہے لیکن اگر دوسراشوہر بھی اس سے ناخوش رہے اور اس کا طلاق نامہ لکھ کر اس کے حوالے کرے اور اسے اپنے گھر سے نکال دے یا وہ دوسرا شوہر جس نے اس سے بیاہ کیا ہو مر جائے تو اس کا پہلا شوہر جس نے اسے نکال دیا تھا اس عورت کے ناپاک ہونے کے بعد یہ مرد اس سے بیاہ نہ کرنے پائے،،۔

۳۵۵

انجیل نے اس حکم کو منسوخ کر دیا اور طلاق کو حرام قرار دیا ہے چنانچہ انجیل متیٰ کے باب: ۵۰ شمارہ : ۳۱۔۳۲ میں لکھا ہے:

''یہ بھی کہاگیا تھا کہ جو کوئی بیوی کو چھوڑے اسے طلاق نامہ لکھ دے لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرام کاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے وہ اس سے زنا کراتا ہے اور جو کوئی اس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے،،(۱)

مرقس کے باب : ۱۰ شمارہ : ۱۱۔۱۲ اور لوقا کے باب : ۱۶ شمارہ :۱۸ میں بھی اس قسم کا حکم موجود ہے۔ عہد نامہ قدیم و جدید سے نسخ کے جو موارد بیان کئے گئے وہ اہل انصاف اور حقیقت بین حضرات کیلئے کافی ہیں ۔ جو حضرات نسخ کے مزید مقامات سے آگاہ ہونا چاہیں وہ کتاب ''اظہار الحق،، (۲) اور ''الہدیٰ الیٰ دین المصطفےٰ (۳)،، کی طرف رجوع فرمائیں۔

____________________

(۱) کتاب مقدس کے اقتباسات کا اردوترجمہ ، پاکستان بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور کے شائع کردہ اردو ترجمہ سے لیا گیا ہے (مترجم)

(۲) مولف کتاب: شیخ رحمتہ اللہ ابن خلیل الرحمن الہندی ، یہ انتہائی مفید اور جلیل کتاب ہے۔

(۳) مولف : امام البلاغی ۔

۳۵۶

شریعت اسلام میں نسخ

نسخ کے واقع ہونے میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کیونکہ گزشتہ شریعتوں کے بہت سے احکام ، شریعت اسلام کے احکام کے ذریعے نسخ ہو گئے اور شریعت اسلام ہی کے کچھ احکام شریعت اسلام کے چند دوسرے احکام کے ذریعے نسخ ہو گئے ہیں چنانچہ قرآن مجید اس بات کی تصریح کر رہا ہے کہ نماز میں قبلہ اول (بیت المقدس) کی طرف رخ کرنے کا حکم منسوخ ہو گیا ہے اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔

اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا قربان کے کچھ احکام ، قرآن یا سنت قطعیہ (خبر متواترہ وغیرہ)یا اجماع یا عقل کی وجہ سے نسخ ہو سکتے ہیں؟

بہتر ہے اس پہلو سے نسخ کی بحث شروع کرنے سے پہلے ہم نسخ کی قسمیں بیان کر دیں۔ علماء کرام نے نسخ قرآن کی تین قسمیں بیان کی ہیں:

۱۔ تلاوت نسخ ہو حکم باقی رہے(۱)

علمائے کرام نے اس ضمن میں مثال کے لئے آیت رحم کو پیش کیا ہے اور فرمایا ہے کہ آیت رحم فی الحال قرآن میں موجود نہیں (نسخ ہو گئی ہے) لیکن اس آیت میں موجود حکم باقی ہے۔

ہم تحریف کی بحث میں ثابت کر چکے ہیں کہ نسخ تلاوت کا قائل ہونا بعینہ تحریف کا قائل ہونے کے مترادف ہے اور جو روایات نسخ تلاوت پر دلالت کرتی ہیں وہ سب کی سب احادہیں اس قسم کی مباحث میں خبر واحد کے ذریعے مدعا ثابت نہیں ہو سکتا۔

____________________

(۱) یعنی حکم باقی رہے اور صرف تلاوت منسوخ ہو۔

۳۵۷

تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ جس طرح خبر واحد سے قرآن ثابت نہیں ہو سکتا اسی طرح خبر واحد سے نسخ بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ اجتماع کے ساتھ ساتھ ایک عہدہ اور اہم دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی اہم واقعہ جو رونما ہونے کے بعد (اگر درحقیقت ثابت ہو) عام طور پر لوگوں میں شائع اور مشہور ہو جاتا ہے وہ خبر واحد کے ذریعے ثابت نہیں ہوتا اس قسم کے واقعہ کو بعض راویوں کا نقل کرنا اور بعض راویوں کا نقل نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ جس نے نقل کیا ہے اس نے یا تو جھوٹ بولا ہے یا اسے غلط فہمی ہوئی ہے بنا برایں خبر واحد کے ذریعے یہ کیسے ثابت ہو سکتا ہے کہ آیت رجم قرآن کا حصہ ہو اور پھر منسوخ ہو گئی ہو اور یہ کہ اس کی صرف تلاوت نسخ ہوئی ہو اور اس کا حکم باقی رہے۔

ہاں! گزشتہ مباحث میں یہ بات ضرور نقل کی گئی ہے کہ جمع قرآن کے موقع پر حضرت عمرآیت رجم لے کر آئے اور انہوںنے یہ دعویٰ کیا کہ یہ بھی قرآن کا حصہ ہے لیکن مسلمانوں نے ان کے اس دعویٰ کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ اس آیت کو نقل کرنے والے صرف حضرت عمر تھے چنانچہ مسلمانوں نے آیت رجم کو قرآن میں شامل نہیں کیا یہاں سے متاخرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آیہ رجم کی تلاوت منسوخ ہو گئی ہے لیکن اس کا حکم باقی ہے۔

۲۔ تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوں

تلاوت اور حکم دونوں میں نسخ کی مثال کیلئے تحریف کی بحث میں مذکور دسویں روایت کو پیش کیا گیا ہے جس کو حضرت عائشہ نے نقل کیا ہے:

اس دلیل کا جواب وہی ہے جو نسخ تلاوت کی دلیل کا تھا۔

۳۵۸

۳۔ حکم منسوخ ہو۔ تلاوت باقی رہے۔

نسخ کی یہی قسم علماء اور مفسرین میں مشہور ہے اس کے بارے میں ئی علمائے کرام نے مستقل کتب لکھی ہیں اور ان میں ناسخ اور منسوخ کو ذکر کیا ہے ان علماء میں ممتاز عالم ابو جعفر نحاس اورحافظ المظفر الفارسی قابل ذکر ہیں۔

بعض محققین اس رائے کے مخالف ہیں اور انہوں نے قرآن میں کسی منسوخ آیت کے موجود ہونے کا انکار کیا ہے البتہ اس نسخ کے امکان پر سب کا اتفاق ہے اس بات پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ قرآن میں کچھ آیات ایسی ہیں جو گزشتہ شریعتوں کے احکام کی ناسخ ہیں اور بعض آیات کے ذریعے صدر اسلام کے کچھ احکام منسوخ ہو گئے ہیں ہم ذیل میں اس مسئلے میں صحیح رائے کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔

قرآن میں موجود حکم تین طریقوں سے نسخ ہو سکتا ہے۔

۱۔ قرآن میں موجود حکم سنت متواترہ یا اس اجماع قطعی کے ذریعے نسخ کیا جائے جو اس بات کا انکشاف کرے کہ نسخ معصوم (ع) کی طرف سے ہوا ہے نسخ کی اس قسم پر عقلاً اور نقلاً کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ اگر کسی آیت کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ اجماع یا سنت متواترہ کے ذریعے یہ نسخ ہو گئی ہے تو اس پر عمل کیا جائے گا ورنہ نسخ کا التزام نہیں کیا جائے گاکیونکہ یہ مسلم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

۲۔ قرآن میں کوئی ثابت حکم قرآن ہی کی دوسری آیت کے ذریعے نسخ ہو جس کی نظر اس آیہ منسوخہ پر نہ ہو اور اس کے حکم کے برطرف ہونے کو بیان نہ کرتی ہو بلکہ صرف اس بنیدپر نسخ سمجھا جائے کہ ان دونوں آئتوں میں حکم کے اعتبار سے منافات پائی جاتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ اخذ کیا جائے کہ بعد والی آیت پہلی آیت کی ناسخ ہے۔

۳۵۹

تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن میں یہ نسخ و اقع نہیں ہوا اور کیسے اس قسم کے نسخ کو مانا جا سکتا ہے جبکہ قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ہے:

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ) ۴:۸۲

''تو کیا یہ لوگ قرآن میں بھی غور نہیں کرتے اور (یہ نہیں خیال کرتے کہ) اگر خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے (آیا) ہوتا تو ضرور اس میں بڑا اختلاف پاتے،،۔

مگر بہت سے مفسرین نے آیات قرآنی کے مفاہیم میں کما حقہ ، غور و خوض نہیں کیا اور یہ خیال کیا کہ قرآن کی بہت سی آیات میں منافات پائی جاتی ہے اور اسی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان دونوں (باہم منافی) آیات میں سے پہلی منسوخ اور دوسری ناسخ ہے بلکہ بعض حضرات نے ان دونوں آئتوں کو بھی ایک دوسرے کے منافی قرار دیا ہے جہاں دوسری آیت پہلی آیت کیلئے قرینہ عرفیہ بن رہی ہو(۱) جس طرح خاص عام کا اور مقید مطلق کا مقصد و مراد بیان کرتا ہے اس قسم کے شبہات یا نظریات کا منشا و سرچشمہ ، فکر و تدبر کا فقدان ہے یا نسخ کے لغوی معنی کی مناسبت سے اس قسم کے موارد مقامات کو نسخ کہنے میں تسامح اور چشم پوشی سے کام لیا جانا ہے اگرچہ نسخ کے اصطلاحی معنی کی مناسبت سے اس قسم کے موارد و مقامات کو نسخ کہنے میں تسامح اور چشم پوشی سے کام لیا جانا ہے اگرچہ نسخ کے اصطلاحی معنی کے متحقق ہونے سے پہلے ایسے معانی کو عام طور پر نسخ کہا جاتا ہے لیکن اصطلاحی معنی کے متحقق ہونے کے بعداس کو نسخ کہنا یقیناً مجاز ہو گا جو چشم پوشی پر مبنی ہے۔

____________________

(۱) دوسری آیت پہلی آیت کا صحیح مقصد بیان کر رہی ہو(مترجم)

۳۶۰

ان آیات کا تنقیدی جائزہ جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے

اس وقت ہمارا موضوع سخن وہ آیات ہیں جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے فی الحال ہم وہ آیات پیش کرتے ہیں جن کے بارے میں آسانی سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان میں نسخ واقع ہوا ہے یا نہیں اور جن آیات کا نسخ نہ ہونا (ہمارے گزشتہ بیانات کی روشنی میں) واضح ہے ان کو فی الحال پیش نہیں کرتے انشاء اللہ تعالیٰ ان کی تفسیر کے موقع پر اس پہلو (نسخ) پر نظر ڈالیں گے۔

ان آیات پر بحث ہم اسی ترتیب سے کریں گے جس ترتیب سے یہ قرآن میں موجود ہیں:

۱۔( وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۲:۱۰۹

''(مسلمانو)اہل کتاب میں سے اکثر لوگ اپنے دلی حسد کی وجہ سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ تم کو ایمان لانے کے بعد پھر کافربنا دیں (اور لطف تو یہ ہے) ان پر حق ظاہر ہو چکا ہے اس کے بعد بھی (یہ تمنا باقی ہے) پس تم معاف کرو اور درگزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا کوئی اور حکم بھیجے ، بیشک خداہر چیز پر قادر ہے،،

ابن عباس نے قتادہ اور سدی سے روایت کی ہے کہ یہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے ابو جعفر نحاس نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے(۱) آیہ سیف یہ ہے:

( قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ ) ۹:۲۹

''اہل کتاب میں سے جو لوگ نہ تو (دل سے) خدا ہی پر ایمان رکھتے ہیں نہ روز آخرت پر اور نہ خدا اوراس کے رسول کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ سچے دین ہی کو اختیار کرتے ہیں ان لوگوںسے لڑے جاؤ یہاں تک کہ وہلوگ ذلیل ہو کر (اپنے) ہاتھ سے جزیہ دیں،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ ، ص ۲۶ ، طبع مکتبتہ العلامیہ ۔ مصر

۳۶۱

مذکورہ آیت کے نسخ کو اس وقت مانا جا سکتا ہے جب دو باتیں مان لی جائیں جو کہ صحیح نہیں ہیں:

(۱) اس حکم کے برطرف ہونے کو بھی نسخ کہا جائے جس کی مدت معین ہو اور اس مدت کے ختم ہو جانے کی وجہ سے حکم برطرف ہوگیا ہو۔

اس بات کا باطل ہونا واضح ہے اس لئے کہ نسخ وہاں بولا جاتا ہے جہاں حکم کے عارضی اور دائمی ہونے کا کوئی ذکر نہ کیا گیا ہو اور اگر کوئی حکم عارضی ہو ، اگرچہ وقت کی تعیین تفصیل سے نہ کی گئی ہو اور اجمالی طور پر معلوم ہو کہ یہ حکم عارضی ہے تو وہی دلیل ، جو وقت کی وضاحت اور حکم کی آخری مدت بیان کرے ، قرینہ بنے گی جومراد متکلم کی وضاحت کرے اس پر نسخ صادق نہیں آتا نسخ اصطلاحی یہ ہے کہ ایسے حکم کو برطرف کیا جائے جسے کلام کے اطلاق کی رو سے ظاہری طورپر دائمی سمجھا جائے اور وہ حکم کسی معین مدت سے مختص نہ ہو۔

فخر الدین رازی کا خیال ہے کہ کسی جداگانہ دلیل کے ذریعے عارضی حکم کا وقت (آخری مدت) بیان کرنابھی نسخ کہلاتا ہے ۔ رازی کا یہ خیال سراسر باطل ہے کیونکہ اصطلاح میں اسے کوئی بھی نسخ نہیں کہتا اور جس حکم کے ابدی اور دائمی ہونے کی تصریح کی گئی ہو اس میں نسخ کا واقع نہ ہونا تو اظہر من الشمس ہے۔

(۲) پیغمبر اکرم (ص) کو اہل کتاب سے جنگ لڑنے کا حکم دیا گیا ہو اور یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم (ص) کو اہل کتاب سے جنگ لڑنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ آیت کریمہ میں مشرکین کو خدا اور اخرت پر ایمان لانے کی دعوت دینے اور ان سے جنگ لڑنے کا حکم دیا گیا ہے اہل کتاب سے ابتدائی طورپر جنگ لڑنا جائز نہیں یہ اور بات ہے کہ کسی اور وجہ سے اہل کتاب سے لڑنا جائز ہو مثلاً اگر اہل کتاب جنگ میں پہل کریں

۳۶۲

اور مسلمانوں پر حملہ آور ہوں تو اس صورت میں ان سے لڑنا جائز ہو گا چنانچہ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

(وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) ۲:۱۹۰

''اور جو لوگ تم سے لڑیں تم (بھی) خدا کی راہ میں ان سے لڑو اور زیادتی نہ کرو (کیونکہ) خدا زیادتی کرنے والوں کو ہگز دوست نہیں رکھتا،،

یا اس صورت میں اہل کتاب سے جنگ کی جا سکتی ہے جب وہ مسلمانوں میں فتنہ و فساد پھیلائیں اس لئے کہ فتنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

(وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ): ۱۹۱

''اور فتنہ پردازی (شرک) خونریزی سے بھی بڑھ کے ہے،،

یا اس صورت میں اہل کتاب سے لڑا جا سکتا ہے جب وہ طے شدہ جزیہ دینے سے انکار کر دیں جس کی طرف زیر بحث آیہ کریمہ میں اشارہ کیا جا رہا ہے:

لیکن اگر اس قسم کا کوئی سبب اور مجوز نہ ہو تو اہل کتاب سے صرف ان کے کفر کی بنیاد پر لڑنا جائز نہیں ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ پہلی آیت میں مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر اہل کتاب تمہیں دوبارہ کافر بنانا چاہیں جو ان کے کفر کا لازمی نتیجہ ہے تو اسے درگزر کرو اور ان سے جنگ نہ کرو۔

یہ حکم اس سے منافات نہیں رکھتا کہ دوسری آیت میں کسی اور سبب اور مجوز کی بنیاد پر ان سے لڑنے کا حکم دیا جائے بنا برایں دوسری آیت پہلی آیت کی ناسخ نہیں ، بلکہ پہلی آیت میں اہل کتاب سے قتال (جنگ) کا کوئی مجوز نہیں تھا اس لئے درگزر کرنے کا حکم دیا گیا اور دوسری آیت میں ان سے قتال کا مجوز موجود تھا اس لئے لڑنے کا حکم دیا گیا۔

اس کے علاوہ جس کو اس آیت کے نسخ پر شبہ ہوا ہے اس نے آیہ کریمہ:

(حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ) ۲:۱۰۹

''یہاں تک کہ خدا اپنا کوئی اور حکم بھیجے،،۔

۳۶۳

میں امر کا معنی طلب اور حکم سمجھا ہے اور اس سے اس شبہ کا شکار ہوا ہے کہ کفار سے درگزر اور چشم پوشی سے کام لیا جائے حتیٰ کہ خدا ان سے جنگ لڑنے کا حکم دے اس طرح اس نے بعد والے حکم کو ناسخ قرار دیا ہے۔

محترم قارئین کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ بالفرض اگرا سے درست بھی سمجھا جائے پھر بھی نسخ لازم نہیں آتا لیکن یہ احتمال سرے سے باطل ہے اس لئے کہ پہلی آیت میں امر سے مراد طلب اور حکم نہیں ہے بلکہ اس سے مراد امر تکوینی اور مخلوق میں قضا و قدر الٰہی ہے اس کی دلیل امر سے پہلے لفظ ''اتیان،، کا لانا ہے (کیونکہ ار بمعنی مطلب اتیان کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا) اور دوسری دلیل آخری آیت ہے۔

( إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۲:۱۰۹

''بیشک خدا ہر چیز پر قادر ہے،،

اس آیہ شریفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے: اگر اہل کتاب تمہیں دوبارہ کافر بنانا چاہیں تو انہیں معاف کر دو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰاپنی مشیّت سے اسلام کو عزت عطا فرمائے اور کفار کی اکثریت دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے کچھ کو اللہ تع الیٰ ہلاک کر دے اور انہیں آخرت میں شدید عذاب دے اور اس قسم کے دوسرے فیصلے فرمائے جن کی قضا و قدر الٰہی متقاضی ہو۔

۲۔( وَلِلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ) ۲:۱۱۵

''(ساری زمین) خدا ہی کی ہے (کیا) پورب (کیا) پچھم پس جہاں کہیں (قبلہ کی طرف) رخ کر لو وہیں خدا کا سامنا ہے بیشک خدا بڑی گجائش والا اور خوب واقف ہے،،۔

۳۶۴

علماء کی ایک جماعت ، جس میں ابن عباس ، ابو العالیہ ، حسن عطا ، مکرمہ قتادہ ، سدی اور زید بن اسلم شامل ہیں ، سے منسوب ہے کہ یہ آیت نسخ ہو گئی ہے(۱) البتہ اس کے ناسخ کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے ابن عباس فرماتے ہیں:

یہ آیت قول اللہ تعالیٰ:

( وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ) ۲:۱۵۰

''اور (اے مسلمانو) تم (بھی) جہاں کہیں ہوا کرو نماز میں اپنا منہ (اسی کعبہ) کی طرف کر لیا کرو،،

کے ذریعے نسخ ہوئی ہے،،

قتادہ فرماتے ہیں:

یہ آیت ، آیہ :

( فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ ) ۲:۱۵۰

''تم (نماز میں) اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرلیا کرو،،

کے ذریعے نسخ ہوئی ہے،،

قرطبی کا بھی یہ کہنا ہے(۲)

علماء نے اس آیت کے نسخ ہونے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ رسول اللہ (ص) اور دوسرے تمام مسلمانوں کو پہلے یہ اختیار دیا گیا تھا کہ نماز میں جس طرف چاہیں رخ کریں اگرچہ رسول اللہ (ص) نے ان اطراف میں سے بیت المقدس کی سمت اختیار فرمائی تھی اس کے بعد یہ آیت نسخ ہو گئی اور صرف بیت الحرام کی طرف رخ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔

____________________

(۱) تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۱۵۷۔۱۵۸۔

(۲) تفسیر قرطبی ، ج ۲ ، ص ۷۴

۳۶۵

اس احتمال کا بے بنیاد ہونا محتاج نہیں کیونکہ فرمان الٰہی ہے:

( وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ) ۲۔۱۴۳

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) جس قبلہ کی طرف تم پہلے (سجدہ کرتے) تھے ہم نے اس کو صرف اس وجہ سے (قبلہ( قرار دیا تھا کہ جب (قبلہ بدلا جائے تو) ہم ان لوگوں کو جو رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی پیروی کرتے ہیں ان لوگوں سے الگ دیکھ لیں جو الٹے پاؤں پھرتے ہیں،،۔

اس آیت میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ اس وقت مصلحت کے تقاضوں کے مطابق اللہ کے حکم پر بیت المقدس کی طرف رخ کیا کرتے تھے اور اس میں رسول اللہ (ص) کے ذاتی اختیار کا کوئی دخل نہیں تھا حقیقت امر یہ ہے کہ کوئی جہت اور طرف خدا کی ذات سے مختص نہیں کیونکہ کوئی مکان اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر سکتا انسان اپنی نماز ، دعا اور دیگر عبادات میں جس طرف بھی رخ کرے ، خدا ہی کی طرف رخ ہو گا۔

اسی آیت کریمہ کو اہل بیت عصمت (ع) نے اس حکم کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ مسافر جس طرف چاہے رخ کر کے نفلی نماز پڑھ سکتا ہے اور اسی آیت کو اس واجب نماز کے صحیح ہونے کی دلیل قرار دیا ہے جو غلطی سے مشرق اور مغربی کے درمیانی رخ پڑھی گئی ہو۔

جو آدمی سرگرداں ہو اور اسے معلوم نہ ہو کہ قبلہ کس طرف ہے وہ جس طرف رخ کر کے نماز پڑھے صحیح ہے اور یہ کہ غیر قبلہ کی طرف رخ کر کے قرآن کے واجب سجدے کئے جا سکتے ہیں جب حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر (رح) کو زمین کی طرف رخ کر کے ذبح کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے اسی آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی۔(۱)

_____________________

(۱) تفسیر قرطبی ، ج ۲ ، ص ۷۵

۳۶۶

معلوم ہوا یہ آیت مطلق ہے جس کی مختلف اوقات میں مختلف قیدوں سے تقیید کی گئی کبھی (واجب نماز میں) بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا اور اس طرح اس آیت کی تقیید کی گئی اور کبھی خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا اور اس طرح اس آیت کی تقیید کی گئی اور بعض علماء کے مطابق نوافل بھی ، اگرچہ چلنے کی حالت میں نہ ہوں بنا برقول بعضے ، کسی بھی طرف رخ کر کے پڑھے جا سکتے ہیں باقی رہیں وہ روایات جن کے مطابق یہ آیت نوافل کے بارے میں نازل ہوئی ہے ان روایات کا مطلب یہ نہیں کہ یہ آیہ کریمہ صرف نوافل سے مختص ہے کیونکہ اس سے پہلے بتا چکے ہیں کہ آیات صرف شان نزول سے مختص نہیں ہوا کرتیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیہ شریفہ کا نسخ اس وقت قابل قبول ہو گا جب دو باتیں ثابت ہوں۔

( i ) یہ ثابت ہو کہ یہ آیہ کریمہ صرف واجب نمازوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہ بات یقیناً باطل ہے اور اہل سنت کی کتب احادیث میں ایسی روایات موجود ہیں جن کی رو سے یہ آیت ، دعا ، مسافر کے نوافل ، متحیر و سرگرداں

آدمی کی نماز اور اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے غلطی سے غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہو(۱) اس سے قبل وہ مقامات بھی بیان کئے گئے جہاں اہل بیت اطہار (ع) نے اس آیہ شریفہ سے استدلال فرمایا ہے۔

( ii ) یہ ثابت ہو کہ یہ آیہ شریفہ ، اس آیہ شریفہ سے پہلے نازل ہوئی ہو جس میں خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یہ بات بھی ثابت اور مسلم نہیں ہے۔

بنا برایں یہ دعویٰ یقیناً باطل ہے کہ یہ آیت نسخ ہو گئی ہے اہل بیت (ع) سے ایسی روایات منقول ہیں جن میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ یہ آیت نسخ نہیں ہوئی۔

____________________

(۱) تفسیر طبری ، ج ۱ ، ص ۴۰۰۔۴۰۲

۳۶۷

ہاں! بعض اوقات نسخ بولا جاتا ہے اور اس سے ایک عام معنی مقصود ہوتا ہے جو تقیید کو بھی شامل ہوتا ہے چنانچہ اس معنی کی طرف اس سےقبل اشارہ کیا جا چکا ہے اگر زیر بحث آیہ شریفہ میں بھی اس معنی کا ارادہ کیا جائے تو پھر کوئی اعتراض لازم نہیں آتا اور عین ممکن ہے کہ اس آیت میں نسخ سے ابن عباس کی مراد یہی ہو اور اس سے قبل بھی ہم اس خقیقت کی طرف اشارہ کر چکے ہیں۔

۳۔( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ ) ۲:۱۷۸

''اے مومنو! جو لوگ (ناحق) مار ڈالے جائیں ان کے بدلے میں تم کو جان کے بدلے جان لینے کا حکم دیا جاتا ہے آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت،،

بعض علمائے کرام کا یہ دعویٰ ہے کہآیہ شریفہ اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے۔

( وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ ) ۵:۴۵

''اور ہم نے توریت میں یہودیوں پر یہ (حکم) فرض کر دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت،،

(پہلی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قصاص کے معاملے میں مرد ،عورت اور غلام آزاد میں مماثلت

۳۶۸

ضروری ہے یعنی مرد کے بدلے میں مرد اور عورت کے بدلے میں عورت ، آزاد کے بدلے میں آزاد اور غلام کے بدلے میں غلام کو قتل کیا جائے لیکن دوسری آیت کریمہ میں اس مطابقت کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی آیت دوسری آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے اس بنا پر عورت کے بدلے میں مرد اور غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل کیا جا سکتا ہے)

یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے اور مرد کے وارثوں کو دیت سے کچھ حصہ دینا بھی ضرروی نہیں(۱) البتہ حسن اور عطاء نے اس حکم کی مخالفت کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ مرد کو عورت کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا۔

لیث کہتے ہیں:

''اگر مرد اپنی بیوی کو قتل کر دے تو اسے صرف اپنی بیوی کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا،،(۲)

امامہ اثنا عشریہ کے مطابق مقتولہ کے ولی و وارث کو اختیار حاصل ہے کہ عورت کی دیت اور خونبہا کا مطالبہ کرے اور چاہے تو قاتل کو قصاص میں قتل کر دے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ مرد کی دیت اور خونبہا کا نصف حصہ اس کے وارثوں کو ادا کرنا ہو گا۔

اہل سنت میں مشہور یہی ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا اور امامیہ کا اس پر اجماع قائم ہے لیکن ابو حنیفہ ، ثوری ، ابن ابی لیلی ٰ اور داؤد نے اس حکم کی مخالفت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ آزاد کسی دوسرے کے غلام کے بدلے میں قتل کیا جا سکتا ہے(۳) البتہ ان کے ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل کیا جائے گا خواہ وہ اس کا اپنا غلام ہی کیوں نہ ہو(۴)

_____________________

(۱) تفسیر قرطبی ، ج ۲ ، ص ۲۲۹

(۲) تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۲۱۰

(۳) یضاً ، ج ۱ ، ص ۲۰۹۔

(۴) احکام القرآن للجصاص ، ج ۱ ، ص ۱۳۷

۳۶۹

لیکن قول حق یہی ہے کہ پہلی آیت محکم ہے اورا س کے معنی ظاہر ہیں اس کے بعد کوئی ناسخ آیت نازل نہیں ہوئی اس لئے کہ دوسری آیت میں آزاد و غلام اور مرد و عورت کے اعتبار سے اطلاق پایا جاتا ہے یعنی آیت کریمہ اس پہلو کو بیان نہیں کر رہی کہ عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے کہ نہیں؟ یا اگر آزاد ، غلام کو قتل کرے تو اسے غلام کے مقابلے میں قتل کیا جا سکتا ہے کہ نہیں ؟ بلکہ دوسری آیت میں صرف اس نکتے کو بیان کیا جا رہا ہے کہ قصاص کے موقع پر جرم کی مقدار اور نوعیت کا خیال رکھا جائے یعنی جس نوعیت کا جرم کیا گیا ہے اسی کے حساب سے انتقام لیا جائے۔

چنانچہ آیہ کریمہ:

( فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ ) ۲:۱۹۴

''پس جو شخص تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہے ویسی ہی زیادتی تو بھی اس پر کرو،،

کا مفہوم بھی یہی ہے۔

بہرحال اگر دوسری آیت میں مرد و عورت اور آزادو غلام کے اعتبار سے قاتل و مقتول کی خصوصیات بیان نہ کی گئی ہوں اور صرف ابتدائی جرم اور قصاص کی نوعیت میں مساوات کو بیان کیا گیا ہو جس کو اس آیہ شریفہ میں بیان کیا گیا ہے تو دوسری آیت مہمل رہیگی اور اس کا عموم میں ظہور نہیں ہو گا تاکہ پہلی آیت کیلئے ناسخ بن سکے اور اگر دوسری آیت مرد و زن اور غلام و آزاد کے اعتبار سے اطلاق میں ظہور رکھتی ہو اور اس آیت میں صرف اس بات کی خبر نہ دی گئی ہو کہ یہ حکم تورات میں موجود ہے بلکہ اس امت کیلئے بھی یہی حکم ثابت ہو تو پہلی آیت دوسری کیلئے مقید ثابت ہو گی اور اس کا قرینہ ہو گی کہ دوسری آیت میں مراد الٰہی کیا ہے اس لئے کہ مطلق ، اگرچہ مؤخر ہو ، مقید کیلئے ناسخ نہیں بن سکتا بلکہ مقید ظہور مطلق میں تصرف (ردوبدل) پر قرینہ ثابت ہو گا چنانچہ ہر مقید ، جو موخر ہو ، کا یہی حکم ہوا کرتا ہے۔ بنا برایں غلام کے بدلے میں آزادکے قتل کئے جانے کاقائل ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

۳۷۰

اس کے مقابلے میں دوسرا قول یہ ہے کہ غلام کے مقابلے میں آزاد کو قتل کیا جا سکتا ہے دلیل کے طور پر امیر المومنین (ع) کی روایت کو پیش کیا جاتا ہے جسے آپ (ع) نے رسول اللہ (ص) سے نقل فرمایاہے اس روایت میں رسول اللہ (ص) فرماتے ہیں:

المسلمون تتکافا دماؤهم ،،

''مسلمانوں کا خون (آزادہو یا غلام) یکساں ہے،،

جواب: فقرض تسلیم اگر یہ روایت درست بھی ہوتو آیہ کریمہ :( الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے اس کی تخصیص کی جائے گی اس لئے کہ یہ روایت غلام کے مقابلے میں آزاد کے قتل کو تب جائز قرار دے گی جب اس کے عموم پر عمل کیا جائے ظاہر ہے عام اس وقت حجت اور قابل عمل ہو گا جب اس سے پہلے یا اس کے بعد کوئی مخصص وارد نہ ہو۔

باقی رہی وہ روایت جو حسن نے سمرہ سے اور اس نے رسول اللہ (ص) سے نقل کی ہے اس کی سند ضعیف ہے اور یہ قابل اعتماد نہیں چنانچہ ابوبکر بن عربی کہتے ہیں:

''بعض لوگوں کی جہالت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ وہ آزاد کے قتل کو اس کے اپنے غلام کے قتل کے بارے میں جائز سمجھتے ہیں اور اس کی دلیل کے طور پر رسول اللہ (ص) کے فرمان کو پیش کرتے ہیں جس کو حسن نے سمرہ سے نقل کیا ہے اور اس میں آپ (ص) فرماتے ہیں : من قتل عبدہ قتلناہ (یعنی )''جو اپنے غلام کو قتل کرے ہم اسے قتل کریں گے،، اوریہ حدیث ضعیف ہے،،(۱)

____________________

(۱) احکام القرآن لابی بکربن العربی ، ج ۱ ، ص ۲۷

۳۷۱

مولف: اس روایت کی سند ضعیف ہونے کے علاوہ تین روایات سے متعارض بھی ہے۔

i ) عمر بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے جد سے روایت بیان کرتے ہیں:

''ایک شخص نے عملاً اپنے غلام کو قتل کر دیا اس قاتل کو رسول اللہ (ص) نے سزا میں کوڑے لگائے ، ایک سال کیلئے جلا وطن کر دیا اور بیت المال سے اس کا حصہ منقطع کر دیا لیکن اسے قتل نہیں کیا گیا،،(۱) اسی مضمون کی ایک روایت ابن عباس نے رسول اللہ (ص) سے بھی نقل کیا ہے۔

( ii ) جابر نے عامر سے اور اس نے امیر المومنین (ع) سے روایت بیان کی ہے:

''آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا ،،(۲)

( iii ) عمرو بن شعیب نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے جد سے روایت بیان کی ہے:

''حضرت ابوبکر اور حضرت عمر غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل نہیں کرتے تھے ،،(۳)

قارئین کرام نے روایات اہل بیت (ع) ملا خطہ فرمائیں جن کا اتفاق ہے کہ آزاد آدمی کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا اور رسول اللہ (ص) کے بعد مرجع دین اہل بیت اطہار (ع) ہی ہیں ان تمام شواہد کے ہوتے ہوئے اس دعویٰ کی گنجائش نہیں رہتی کہ آیہ : ''الحر بالحر والعبد بالعبد،، نسخ ہو گئی اور غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل کیا جا سکتا ہے۔

امامیہ ، حسن اور عطاء کے نقطہ نگاہ سے آیہ کریمہ اس اعتبار سے بھی نسخ نہیں ہوئی کہ عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جا سکے البتہ مذہب اہل سنت کے مطابق یہ اس اعتبار سے نسخ ہو گئی ہے یعنی عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے جبکہ پہلی آیہ (الانثی ٰ بالانثیٰ ) کی رو سے عورت کے بدلے میں مرد کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔

____________________

(۱) سنن بیہقی ، ج ۸ ، ص ۳۶

(۲) ایضاً ص ۳۴۔۳۵

(۳) ایضاً ص ۳۴

۳۷۲

اس مسئلے کی وضاحت:

فرمان اللہ تعالیٰ:

( كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ ) ۲:۱۷۸

''تم کو جان کے بدلے جان لینے کا حکم دیا جاتا ہے،،

کی رو سے قصاص لینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرض ہے اور دوسری ادلہ کے مطابق یہ فرض اس صورت میں ثابت ہوتا ہے جب مقتول کے ورثا قصاص کا مطالبہ کریں چنانچہ آیہ کریمہ:

( فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ ) : ۱۷۸

''پس جس (قاتل) کو اس کے (ایمانی) بھائی (طالب قصاص) کی طرف سے کچھ معاف کر دیا جاوے،،۔

اس بات پر دلالت کرتی ہے (کیونکہ اس آیت میں قصاص سے درگزر کرنے کی تشویق اور ترغیب دلائی گئی ہے (بنا برایں آیت شریفہ کا مفہوم یہ ہے کہ حکم قصاص کے سامنے سر تسلیم خم کرنا قاتل پر اس وقت واجب ہے جب مقتول کے وارث خون کا بدلہ لینا چاہیں اور یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ حکم اس وقت مسلم ہے ، جب کوئی مرد ، مرد کو قتل کرے یا عورت ، مرد کو قتل کے یا عورت ، عورت کو قتل کرے۔

لیکن اگر مرد ، عورت کو قتل کرے تو عورت کے ورثا کی طرف سے قصاص کے مطالبے کے ساتھ ہی قصاص کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا مرد پر واجب نہیں ہے اور جب تک اپنی دیت کا نصف حصہ وصول نہ کرے مرد کو انکار کرنے کا حق پہنچتا ہے اور حاکم شرع بھی قاتل کے وارثوں کو دیت کا نصف حصہ دیئے بغیر قصاص کی حد جاری نہیں کر سکتا بالالفاظ دیگر آیت شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کے بدلے میں عورت کو ہی قتل کیا جا سکتا ہے ، مرد کو قتل نہیں کیا جا سکتا اور آیہ کریمہ کایہ مفہوم ہرگز نسخ نہیں ہوا۔

۳۷۳

ہاں ! یہ اور بات ہے کہ آیہ شریفہ سے قطع نظر خارجی دلائل سے یہ ثابت ہے کہ جب مقتولہ کے ولی و وارث مرد کی دیت کا نصف حصہ ادا کر دیں تو مرد کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو قصاص کیلئے پیش کر دے اس طرح مرد ، عورت اور نصف دیت کے مجموعہ کابدلہ قرار پائے گا یہ ایک جداگان اور مستقل حکم ہے جس کا اس حکم سے کوئی تعلق نہیں جو آیہ کریمہ سے ابتداً سمجھا جاتا ہے اوریہ وہ نسخ نہیں جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ آیہ( الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ ) کا نسخ اس بات پر موقوف ہے کہ مقتولہ کے ولی و ورثا جب بھی قصاص کا مطالبہ کریں توقصاص کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا قاتل پر واجب ہو چنانچہ اہل سنت یہی کہتے ہیں لیکن یہ بات دلیل سے ثابت نہیں (اس کا اثبات جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ مترجم)

اہل سنت حضرات اس بات کے ثبوت میں کبھی تو دوسری آیت :( أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ ) کے اطلاق کا سہارالیتے ہیں ، کبھی حدیث شریف :المسلمون تتکافا دماؤهم کے عموم کا اس دلیل کا جواب دیا جا چکا ہے اور کبھی اس بات کے اثبات میں قتادہ کی روایت پیش کرتے ہیں جو اس نے سعید بن مسیب سے نقل کی ہے اس روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے صنعاء کے کچھ لوگوں کو ایک عورت کے قتل کے جرم میں قتل کیا۔

لیث نے حکم سے روایت بیان کی ہے کہ امیر المومنین (ع) اور عبداللہ نے فرمایا:

''جب کوئی مرد کسی عورت کو قتل کرے تو اسے اس عورت کے بدلے میں قصاص کے طور پر قتل کیا جائیگا،،

زہری نےابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے اور اس نے اپنے والد سے ، اس نے اپنے جد سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''ان الرجل یقتل بالمراة ،، (۱)

''مرد ، عورت کے بدلے میں قتل کیا جائے گا،،

____________________

(۱) احکام القرآن للجصاص ، ج ۱ ، ص ۱۳۹

۳۷۴

لیکن یہ سب دلیلیں کئی اعتبار سے باطل ہیں۔

( i ) یہ سب روایات صحیح بھی ہوں لیکن کتاب خدا کی مخالف ہیں اور جو روایات کتاب الٰہی کی مخالف ہو وہ حجت نہیں ہوا کرتی یہ روایات خبر واحد ہیں اور علما کا اس پر اجتماع ہے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

( ii ) ان میں سے پہلی روایت مرسلہ ہے کیونکہ سعید بن مسیّب ، خلافت حضرت عمر کے دو سال بعد پیدا ہوا(۱) اور یہ بات بہت بعید ہے کہ اس نے حضرت عمر سے بلا واسطہ روایت کی ہو اس کے علاوہ اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی اس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے اس کام کو انجام دیا اور حضرت عمر کا فعل بذات خود حجت نہیں۔

دوسری روایت ضعیف بھی ہے اورمرسلہ بھی ۔ تیسری روایت کو اگر صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی یہ مطلقہ ہے اور اس روایت سے اس کی تقیید کی جائے گی جس کے مطابق قاتل کو اس کی نصف دیت ادا کرنے کے بعد قتل کیا جا سکتا ہے۔

گزشتہ مباحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ آیہ کریمہ کا نسخ ثابت نہیں اور صرف فقہاء کی ایک جماعت کے فتویٰ کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ آیہ کریمہ نسخ ہو گئی ہے زیدیا عمرو کے قول اور فتویٰ کی بنیاد پر قول خداوند سے کیوں اور کس طرح دستبردار ہوا جا سکتا ہے ؟ اور مقام حیرت وتعجب ہے کہ علماء کی ایک جماعت جس کا اس بات پر اجماع ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہوتا ، اس کے باوجود ، قرآن کیخلاف اپنا فتویٰ صادر کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی ہمارے گزشتہ بیانات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ آیہ کریمہ:

( وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا ) ۱۷:۳۳

''اور جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا) قابو دیا ہے،،۔

__________________

(۱) تہذیب التہذیب ، ج ۴ ، ص ۸۶

۳۷۵

اور آیہ کریمہ:

( وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) ۲:۱۷۹

''اور اے عقلمندو ! قصاص میں تمہاری زندگی ہے اور اسی لئے جاری کیا گیا ہے،،

میں آیہ شریفہ (الانثی بالانثیٰ) جس میں مرد و زن اور آزاد و غلام میں فرق کو بیان کیا گیا ہے ، کی ناسخ بننے کی صلاحیت نہیں ہے انشاء اللہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کے موقع پر اس موضوع پر مفصل بحث کی جائے گی۔

۴۔( كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ) ۲:۱۸۰

''(مسلمانو!) تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آ کھڑی ہو بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابتداروں کیلئے اچھی وصیت کرے جوخداسے ڈرتے ہیں ان پر یہ ایک حق ہے،،

بعض حضرات کا دعویٰ ہے کہ یہ آیت ، آیہ ارث کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے کیونکہ صدر اسلام میں میراث کی تقسیم کی وہ کیفیت نہیںتھی جو اب ہے بلکہ سارے کا سارا ترکہ بیٹے کو مل جاتا تھا والدین اور دیگر رشتہ داروں کو جو کچھ ملتا تھا وہ وصیت کے ذریعے ملتا تھا اورآیہ میراث کے ذریعے یہ حکم منسوخ ہو گیا چنانچہ آیہ کریمہ میں اسی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ مالدار آدمی کو چاہئے کہ وہ مرتے وقت والدین اور دیگر رشتہ داروں کیلئے ضرور وصیت کرے۔

کچھ حضرات کا دعوی ہے کہ یہ آیت فرمان رسول اللہ:''ولاوصیة لوارث (۱) ،، (یعنی) وارث کیلئے کسی وصیت کی ضرورت نہیں،، کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۲۰

۳۷۶

مگر حق یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی اس لئے کہ آیہ ارث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ میراث کی نوبت تب آتی ہے جب مرنے والے نے کوئی وصیت نہ کی ہو اور وہ مقروض بھی نہ ہو اس کے باوجود یہ کیسے معقول ہے کہ آیہ ارث ، آیہ وصیت کی ناسخ قرار پائے۔

اس کے علاوہ نسخ کی جو دلیل پیش کی جاتی ہے وہ بھی درست نہیں ، اس لئے کہ:

اولاً : اگرچہ صحیح بخاری میں یہ روایت موجود ہے لیکن اس سے نسخ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ علماء کا اس پر اجتماع ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

ثانیاً: آیہ ارث کے ذریعے ، اس آیہ کا نسخ اس صورت میں ثابت ہو گا جب آیہ ارث ، اس آیہ( كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ) کے بعد نازل ہوئی ہو اور قائلین نسخ کیلئے یہ بات ثابت کرنا مشکل ہے بعض حنفی حضرات کی طرف سے نسخ کے قطعی ہونے کا دعویٰ محتاج دلیل ہے۔

ثالثاً : مرنے والے کے رشتہ داروں کے بارے میں اس حکم کا نسخ ہونا قابل تصور نہیں کیونکہ مرنے والے کے بیٹے کی موجودگی میں دوسرے رشتہ دار ارث کے حقدار ہی نہیں بنتے تاکہ آیہ ارث کے ذریعے آیہ وصیت کو نسخ کر کے رشتہ داروں کیلئے ارث کو ثابت کیا جا سکتے لہٰذا مرنے والے کے رشتہ دار وصیت ہی سے استفادہ کر سکتےہیں بہرکیف چونکہ وصیت کے نہ ہونے کی صورت میں ارث کی نوبت پہنچتی ہے ، اس لئے آیہ ارث نہ صرف آیہ وصیت کیلئے ناسخ نہیں بن سکتی بلکہ اس سے آیہ وصیت کی تائید و تاکید بھی ہوتی ہے اس لئے کہ آیہ شریفہ (من بعد وصیۃ یوصی بہا اودین) کی رو سے وصیت ارث پر مقدم ہے۔

۳۷۷

بعض علماء کرام کا دعویٰ ہے کہ آیہ شریفہ( كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ) رسول اللہ (ص) کی حدیث(لاوصیة لوارث ) کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے یہ دعویٰ کئی جہات سے باطل ہے:

( i ) اس روایت کی صحت ثابت نہیں ہے چنانچہ بخاری و مسلم نے بھی اس کی تصدیق نہیں کی اور تفسیر المنار میں اس روایت کی سند کو مورد اشکال و مناقشہ قرار دیاگیا ہے(۱)

( ii ) ایسی روایت اہل بیت اطہار (ع) کی ان مستفیض روایات سے متعارض ہیں جن کے مطابق وارث کے حق میں وصیت جائز ہے چنانچہ محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ میں ہے کہ راوی نے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے سوال کیا: کیا وارث کے حق میں وصیت کی جا سکتی ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا: جائز ہے پھر آپ (ع) نے اس ایت کی تلاوت فرمائی،

( إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ) ۲:۱۸۰

''بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابتداروں کیلئے اچھی وصیت کرے،،

اس مضمون کی روایت اور بھی ہیں(۲)

( iii ) اگر اس روایت کے خبر واحد ہونے سے چشم پوشی کی جائے اور اسے اہل بیت (ع) کی روایات سے معارض بھی نہ مانیں تب بھی اس روایت اورآیہ شریفہ کے مفاہیم میں کوئی منافات نہیں پائی جاتی زیادہ سے زیادہ اس حدیث شریف سے آیہ کریمہ کے اطلاق کیلئے تقیید سمجھی جائے گی بایں معنی کہ والدین کیلئے اس وقت وصیت کی جائے جب کسی مانع کی وجہ سے وہ ارث کے مستحق نہ ہوں یا ان رشتہ داروں کیلئے وصیت کی جائے جنہیں ارث نہیں مل سکتا اور اگر حدیث اورآیہ کریمہ میں منافات فرض بھی کر لی جائے تب بھی یہ حدیث آیہ کریمہ کیلئے ناسخ نہیں بن سکتی کیونکہ خبر واحد قرآن کیلئے ناسخ نہیں بن سکتی جس پر مسلمانوں کا اجماع قائم ہے ، بنا برایں آیہ کریمہ محکم ہے منسوح نہیں۔

____________________

(۱) تفسیر المنار ، ج ۲ ، ص ۱۳۸

(۲) الوافی ، ج ۱۳ ، ص ۱۷

۳۷۸

اس مقام پر یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ ''کتابۃ،، کا معنی کس چیز کا حتمی فیصلہ ہے چنانچہ آیت:

( كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۚ ) (۶:۱۲)

''اس نے اپنی ذات پر مہربانی لازم کر لی ہے،،

میں ''کتب،، اس معنی میں استعمال ہوا ہے اور عقل کا تقاضا یہ ہے کہ مولا کے حکم اور اس کے حتمی فیصلوں میں اس کا امتثال امر کیا جائے اگر یہ کہ اس کی طرف سے ترک کی اجازت ہو۔

بنا برایں آیہ کریمہ کی رو سے والدین اور دیگر رشتہ داروں کے حق میں وصیت کرنا لازم و واجب ہے لیکن مسلمانوں کی سیرت جو قطعی طور پر ثابت ہے، اہل بیت اطہار (ع) سے منقول روایات اورہر دور میں فقہاء کے اجتماع سے ترک وصیت کی اجازت ثابت ہے بنا برایں اس اجازت کے ثابت ہونے کے بعد آیت سے وصیت کا مستحب ہونا ثابت ہو گا بلکہ وصیت کی تاکید ثابت ہو گی اورا س آیت میں ''کتب،، سے مراد وصیت کی تشریع ہو گی اور اس کا حتمی اور لازمی قرار دینا نہیں:

۵۔( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) ۲:۱۸۳

''اے ایماندارو! روزہ رکھنا جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کیا گیا تاکہ تم (اس کی وجہ سے) بہت سے گناہوں سے بچو،،

اس آیہ کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ آیہ دوسری آیہ:

( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ) : ۱۸۷

''مسلمانو!) تمہارے واسطے روزوں کی راتوں میں اپنی بی بیوں کے پاس جانا حالا کر دیا گیا،،

کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے ۔ اس کے نسخ ہونے کی کیفیت یہ بتائی گئی ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں پر روزہ اسی کیفیت سے واجب تھا جس کیفیت سے گزشتہ اقوام پر واجب تھا گزشتہ اقوام پر واجب روزہ کے احکام میں سے ایک حکم یہ تھا کہ اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں رات کا کھانا کھانے سے قبل سو جائے تو پھر رات کو کسی بھی وقت بیدار ہو کر کچھ کھانا اس کیلئے جائز نہیں تھا

۳۷۹

اور اگر کوئی عصر کے بعد سو جائے تو اس کیلئے کھانا پینا اور ہم بستری کرنا جائز نہیں تھا لیکن یہ آیہ جس میں مسلمانوں کے روزہ کو گزشتہ اقوام کے روزہ سے تشبیہ دی گئی ہے آیہ کریمہ:

( وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ ) : ۱۸۷

''اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کی سفیدی دھاری تمہیں صاف نظر آنے لگے،،

کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس میں طلوع فجر تک کھانے پینے کی اجازت دی گئی ہے اس کے علاوہ اس آیت کو بھی ناسخ قراردیا جاتا ہے:

( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ) : ۱۸۷

''(مسلمانو!) تمہارے واسطے روزوں کی راتوں میں اپنی بی بیوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا،،

علماء اہل سنت کا اتفاق ہے کہ آیہ تحلیل( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ ) ناسخ ہے(۱) البتہ اس کی منسوخی کے بارے میں اختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ منسوخ وہی آیت ہے جو ہمارے محل بحث ہے کیونکہ ان حضرات نے آیت( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔الخ سے یہی سمجھا ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں پر واجب روزہ اور گزشتہ اقوام پر واجب روزہ یکساں تھے بعد میں وہ آیہ کریمہ اس آیہ کریمہ :( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے نسخ ہو گئی چنانچہ ابوالعالیہ اور علماء کا یہی خیال ہے اور ابو جعفر نحاس نے سدی کی طرف بھی اس بات کو منسوخ کیا ہے(۲)

بعض کا خیال ہے کہ آیہ تحلیل کے ذریعے گزشتہ اقوام کے عمل اور ان کی روش کو نسخ کیا گیا ہے اور آیہ کریمہ( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کو نسخ نہیں کیا گیا۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ پہلی آیت کا نسخ ہونا دو چیزوں پر موقوف ہے:

_________________

(۱) الناسخ و المنسوخ نحاس ، ص ۲۴

(۲) ایضاً ص ۲۱

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689